سلیمانی

سلیمانی

فلسطین الیوم کی رپورٹ کے مطابق دو سالہ فلسطینی بچے محمد ہیثم التمیمی کو صیہونیوں نے گولی مار کر شہید کردیا۔

اس فلسطینی بچے کا تعلق رام اللہ کے گاؤں "نبی صالح" سے ہے۔

دو روز قبل صہیونی حملے کے دوران صیہونی عناصر کے ہاتھوں شدید زخمی ہوئے اور آج شہید ہو گئے۔

صیہونی آبادکاروں نے اتوار کی رات نابلس کے شمال مغرب میں واقع "برقہ" علاقے پر بھی حملہ کیا اور کاروں کو تباہ کر کے فلسطینیوں کے گھروں پر حملہ کیا۔

فلسطینی ہلال احمر نے اعلان کیا ہے کہ برقہ میں ان حملوں میں 59 فلسطینی زخمی ہوئے۔

اس رپورٹ کے مطابق صیہونی فوجیوں نے آبادکاروں کی حمایت کرتے ہوئے برقہ میں فلسطینیوں پر فائرنگ کر کے متعدد افراد کو گرفتار کرلیا۔

فلسطینیوں نے گزشتہ دنوں کے دوران نابلس کے مختلف علاقوں میں صیہونی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے۔


انقلابِ اسلامی ایران اور امام خمینیؒ کی شخصیت نے بہت سے در واء کئے ہیں۔ یہ انقلاب دنیا میں مستضعفین کیلئے ایک عظیم مثال ثابت ہوا ہے اور ساتھ ہی امام خمینیؒ کی عظیم شخصیت نے یہ بھی ثابت کیا کہ قرب الہیٰ حاصل کرکے آپ دنیا میں کوئی بھی ہدف حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ اللہ کی ذاتِ با برکات پر یقینِ کامل کی ایک شاندار روایت ہے، جس نے جہاں مظلوموں کیلئے آس کے چراغ روشن کئے، وہیں اللہ کی ذات سے وابستگی کو بھی کاملیت بخشی، کہ رب کی ذات اُن کی مدد کرتی ہے، جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ امام خمینیؒ کے اس انقلاب نے جہاں اسلام نابِ محمدی کا پرچم بلند کیا، وہیں امام کی پالیسیوں اور حکمتِ عملی سے استعمار کے منحوس و بھیانک چہرے سے نقاب بھی اُترے۔

اس انقلاب نے ثابت کیا کہ استعمار ہمیشہ حکمرانوں اور صاحبانِ اقتدار کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتا ہے اور جب کسی ’’ایجنٹ حکمران‘‘ پر بُرا وقت آتا ہے، تو اسے بے یارو مدد گار چھوڑ دیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ شاہِ ایران کیساتھ بھی ہوا۔ انقلاب اسلامی کی روشنی میں جہاں شاہ کی تاریک رات کا خاتمہ ہوا، تو شاہ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ شاہ، ایران سے تو فرار ہوگیا، مگر اسے پناہ لینے کیلئے بہت پاپڑ بیلنے پڑے۔ انہیں جن پر تکیہ تھا، وہاں سے مایوسی ملی۔ مصر کے معروف صحافی محمد ہیکل نے اپنی کتاب ’’دی ریٹرن آف آیت اللہ‘‘ میں لکھا ہے کہ شاہ ایران نے ایران سے اپنے فرار کو بھی ایک رنگ دینے کی کوشش کی۔ شاہ ایران نے میڈیا کو یہ بتایا کہ وہ مصر کے سرکاری دورے پر جا رہے ہیں۔ وہ پہلے اردن جانا چاہتے تھے، مگر اردن نے ان کی درخواست پر مثبت جواب نہیں دیا، بلکہ اردن کے شاہ نے بہت ہی اچھے انداز میں ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

اردن بھی صورتحال کو دیکھ رہا تھا، انہیں بھی حقائق کا علم تھا۔ اردن سے صاف جواب ملنے کے بعد شاہ اپنے وفد کو لے کر دریائے نیل کے کنارے اسوان ریزورٹ پہنچ گیا۔ وہاں بھی شاہ ایران نے خود کو ایران کے سربراہِ مملکت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہاں شاہ ایران نے مصر کے صدر انور سادات کیساتھ تین دن ملاقاتیں کیں، مختلف اجلاس منعقد ہوئے اور پانچ روز وہ وہاں مقیم رہے۔ اس موقع پر مصر میں شاہ ایران کی ملاقات سابق امریکی صدر جیرالڈ فورڈ سے بھی ہوئی۔ وہاں بھی دال نہ گلی تو شاہ ایران نے آگے کا رختِ سفر باندھ لیا اور 22 جنوری کو مراکش چلے گئے۔ شاہ ایران نے پلان یہ تشکیل دے رکھا تھا کہ وہ مراکش میں 5 دن رہیں گے اور یہاں سے وہ صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد یا تو ایران واپسی کا ماحول دیکھیں گے یا پھر امریکہ چلے جائیں گے۔ لیکن صورتحال چونکہ شاہ کیخلاف تبدیل ہوچکی تھی۔ اس لئے امریکہ سے بھی انہیں ’’صاف جواب‘‘ دیدیا گیا۔

امریکہ سے شاہ کے داماد اور امریکہ میں ایران کے سفیر نے انہیں مراکش میں پیغام بھجوایا کہ ’’امریکہ نے اپنی آنکھیں پھیر لی ہیں، وہ آپ کی میزبانی کیلئے بالکل تیار نہیں۔‘‘ شاہ کیلئے یقیناً یہ لمحات حیران کن اور غیر یقینی ہوں گے۔ وہ امریکہ جس کیلئے شاہ ایران نے اپنی ساری زندگی "وقف" کر رکھی تھی، اب مشکل وقت آن پڑا ہے تو امریکہ نے گرکٹ کی طرح رنگ بدل لیا ہے۔ 21 دن بعد مراکش کے شاہ نے اپنے ایک چپڑاسی کو شاہ کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ’’ہمارا دل تو کرتا ہے کہ ہم آپ کو یہاں سیاسی پناہ دے دیں، لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور ہم چاہتے ہوئے بھی آپ کو یہاں اپنے ملک میں نہیں رکھ سکتے۔‘‘ یوں شاہ ایران کو یہاں بھی جگہ نہ ملی، لیکن شاہ ایران نے مراکش کے شاہ سے ایک وعدہ لے لیا کہ وہ دفن ہونے کیلئے مراکش میں دو گز زمین لینا چاہتے ہیں، اس سے انکار نہ کیا جائے۔ جس پر مراکش کے شاہ نے وعدہ کر لیا اور زندگی کے آخری دنوں میں شاہ نے مراکش میں ہی قیام کیا اور وہیں 27 جولائی 1980ء میں اسے کینسر نے آ لیا اور وہیں مراکش میں ہی جان دیدی۔ شاہ ایران کو وہیں مراکش میں ہی دفن کر دیا گیا۔

ایران میں جو شاہ کے دست و بازو بنے ہوئے تھے اور شاہ کی ایماء پر ایرانی عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ ایران کی عدالت نے انہیں بھی عبرت کا نشان بنا دیا۔ شاہ کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ’’سواک‘‘ کے سربراہ جنرل نصیری کا نمبر آنا لازمی تھا۔ جنرل نصیری نے تو مظالم کی اتنہاء کر رکھی تھی۔ جنرل نصیری کو اپنے قریبی ساتھیوں جنرل ربی اور خولرو دادکر کیساتھ عدالتی ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد یہ سب سے پہلا اسلامی نظام کے مطابق فیصلہ تھا، جو عدالت نے دیا، امام خمینیؒ نے صادق خلیلی کو اس کیس کی سماعت کی ہدایت کی۔ عدالت نے تینوں ملزمان کیخلاف چارج شیٹ پیش کی، انہیں صفائی کا پورا پورا موقع دیا گیا، تینوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا۔ ملزمان کے اعتراف کے بعد عدالت نے شرعی قوانین کے عین مطابق فیصلہ سنایا اور تینوں کو گولی مار کر انجام پر پہنچا دیا گیا۔

امام خمینیؒ نے صادق خلیلی کو خصوصی ہدایت کی تھی کہ ملزمان کا موقف بھی سنا جائے اور انہیں اپنی صفائی کا پورا پورا موقع دیا جائے۔ ملزمان نے اپنی چارج شیٹ کو تسلیم کیا اور اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ دوسری جانب وہ شاہِ ایران، جو کبھی ایران کے سیاہ و سفید کا مالک تھا، امریکی غلامی میں اس حد تک چلا گیا تھا کہ اسے اپنے عوام سے زیادہ امریکی مفاد عزیز ہوگیا تھا۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ اسے ایران میں دفن ہونے کیلئے دو گز زمین تک نہ ملی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ انجام ہوتا ہے، اپنے عوام پر غیروں کے مفادات کو ترجیح دینے والوں کا، یقیناً یہ عبرت ہے، ان حکمرانوں کیلئے بھی جو اب بھی اپنے ملک اور اپنے عوام کی بجائے امریکہ کے مفادات کے محافظ بنے پھرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مشکل وقت آن پہنچا تو امریکہ انہیں پناہ دے دے گا، مگر امریکہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ مشکل وقت میں کام نہیں آیا کرتا اور یہی امریکہ کی روایت ہے۔

شاہِ ایران کیساتھ بھی یہی کچھ ہوا، امام خمینیؒ کی بصیرت اور حکمت عملی نے جہاں امریکہ کی اس پالیسی کو بے نقاب کیا، وہیں امریکہ کے نمک خواروں کو بھی درسِ عبرت دیا کہ وہ اپنے ملک اور اپنے ملک کے عوام کیلئے جینا سیکھیں، جو اپنی قوم کیلئے جیتا ہے، اسے عزت ملتی ہے، ان کے مزارات بنائے جاتے ہیں اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کی خدمات کے اعتراف میں قومیں انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتی رہتی ہیں اور جو اپنوں کیساتھ غداری کرتے ہیں، انہیں اپنے ملک میں دفن کیلئے دو گز زمین ملتی ہے، نہ ان کی قبروں پر کوئی فاتحہ پڑھنے والا ہوتا ہے۔
تحریر: تصور حسین شہزاد
 
 
 

گذشتہ دنوں مصر اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر تعینات صیہونی فوجیوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں تین صیہونی فوجیوں کو واصل جہنم کرنے والا مصری نوجوان فوجی بھی شہادت کی منزل کو پہنچ گیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ العوجہ آپریشن کے اثرات مستقبل میں صیہونی اور مصری تعلقات میں کیا مرتب ہوں گے، فی الحال پوری دنیا میں مصری نوجوان فوجی کی بہادری اور شجاعت کے چرچوں نے نہ صرف عرب اقوام کو جان بخشی ہے بلکہ دنیا بھر کے حریت پسند اس بات سے توانائی حاصل کر رہے ہیں۔ دوسری جانب غاصب صیہونیوں کی صفوں میں ماتم ہی ماتم ہے۔ ماہرین سیاسیات یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ اس آپریشن کے منفی اور مثبت اثرات خطے پر ہوسکتے ہیں۔ لیکن مصر میں شہید محمد صلاح کی ماں نے فخریہ انداز سے خوشی مناتے ہوئے کہا ہے کہ میں ہیرو کی ماں ہوں۔ تمام مصری مائیں یہی گن گنا رہی ہیں۔ دوسری طرف فلسطین کے مظلوم عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مصر اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے مابین نام نہاد امن معاہدے کے چالیس سال بعد ایک ایسا آپریشن سامنے آیا ہے کہ جو صہیونی وجود کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ اسرائیل جو پہلے ہی غزہ اور مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں مزاحمت فلسطین کا مقابلہ کرنے سے عاجز آچکا ہے، اب مصری سرحد پر ایسے غیر متوقع آپریشن کے بعد صیہونیوں کو باور ہوا ہے کہ ان کے لئے کسی طرف سے بھی امان نہیں ہے۔ یہ امان صرف ایک صورت ممکن ہوسکتی ہے کہ جب تک صیہونی فلسطین سے نکل نہ جائیں۔ دوسری طرف غاصب صیہونی ریاست کے اندرون خانہ سیاسی مبصرین نے نیتن یاہو پر شدید تنقید اور دباؤ بنانا شروع کر دیا ہے اور یہ سوال ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ نیتن یاہو جو مسلسل خطے میں ایران اور لبنان سمیت شام کے خلاف جنگ کے عزائم بھڑکا رہے ہیں، وہ کس طرح صیہونیوں کی حفاظت کریں گے، جبکہ اسرائیلی فوج کی ناکامی اور پسپائی کا معائنہ مصری سرحد پر گذشتہ روز کیا جا چکا ہے۔

اسرائیلی مبصرین کے مطابق غاصب صیہونی حکومت شدید لاغر ہوچکی ہے اور ناکام پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف صیہونی فوجیوں کی جان خطرے میں ڈالی جا رہی ہے بلکہ صیہونی آباد کار بھی اس خطرے کی زد پر ہیں۔ کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مصر اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر اسرائیلی فوجیوں کے خلاف ہونے والا آپریشن مصر اور اسرائیل کے مابین حالات کو کشیدہ کرسکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اسرائیل کے لئے مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ مصری عوام جو ہمیشہ سے فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی رہی ہیں اور مصر ایک ایسا عرب افریقی ملک ہے کہ جس نے فلسطین کی آزادی کی دو جنگوں میں حصہ بھی لیا ہے۔ ایسے کشیدہ حالات میں مصر کی افواج کو عوام کی بے پناہ حمایت حاصل ہوگی جبکہ دوسری طرف صیہونی آباد کار خوف میں مبتلا ہو کر اپنے صیہونی فوجیوں کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں اسرائیل کے لئے ان حالات پر قابو پانا مشکل ہوچکا ہے۔

ایک اور نقطہ نظر کے مطابق ممکن ہے کہ غاصب صیہونی فوج اپنی کمزوریوں کی پردہ پوشی کرنے کے لئے اندرونی سطح پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کرے، لیکن حقیقت میں یہ اسرائیل کی شکست ہی ہوگی۔ بہر حال ایک بات واضح ہے کہ مصری عوام اور جماعتوں کی جانب سے غاصب صیہونیوں کے خلاف اس آپریشن کی بھرپور حمایت کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر محمد صلاح کے نام سے ہیش ٹیگ گردش کر رہا ہے اور پوری دنیا اس نوجوان کو ہیرو قرار دے کر اس کارنامہ پر فخر کر رہی ہے۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے لئے تمام تر فوجی اور تکنیکی معاملات کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر جو بات سخت ناگوار گزر رہی ہے، وہ مصری عوام کی جانب سے اس آپریشن کی تعریف کرنا ہے۔ ان ثرات کو روکنا صیہونی غاصب حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ مصر کی سڑکوں پر خواتین نے نکل کر ایک مشہور گانا گاتے ہوئے نعرے لگائے کہ ”میں ہیرو کی ماں ہوں“، جس نے بہت سے اسرائیلی حکام کو چیخنے پر مجبور کیا کہ ''مصری ہم سے نفرت کرتے ہیں"، ”وہ ہم سے محبت نہیں کرتے۔“ٓ

خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت مصر اور عرب دنیا میں ہونے والے تبصروں کے مطابق اس طرح کے صیہونی مخالف آپریشن کو نہ تو پہلا آپریشن قرار دیا جا رہا ہے اور نہ ہی آخری آپریشن۔ بہت سے صیہونیوں نے اس طرح کے آپریشن کے دہرائے جانے کے امکان کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نیتن یاہو کی شدید مذمت کی ہے۔ دوسری طرف مصری نوجوان ہے، جو اس وقت دنیا کے لئے آئیکون بن چکا ہے۔ واضح رہے کہ مصری فوج کے سنہ1956ء اور 1967ء کی جنگوں میں صیہونیوں کی جانب سے قتل کئے جانے والے مصری فوجیوں کے زخم بھی تازہ ہیں کہ جن کو صیہونیوں نے بے دردی سے قتل کیا تھا اور صحرائے سینا میں دفن کر دیا تھا۔

مصری پولیس اہلکار محمد صلاح کا آپریشن کوئی پہلا نہیں ہے اور یہ یقینی طور پر آخری بھی نہیں ہوگا اور کوئی طاقت اس رجحان کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ یہ مصری عوام کی غیرت کو جگانے کا کام کر گیا ہے اور عربیت کے شعلے از سر نو بھڑکا دیئے گئے ہیں، کیونکہ غاصب اسرائیلی دشمن کا ظلم اور فلسطینی عوام پر اس کی مسلسل جارحیت، مسجد اقصیٰ کی حرمت جہاں فلسطینی عوام کے لئے اہم ہے، وہاں مصر سمیت تمام عربی ممالک کے عوام کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔ یہ غاصب صیہونیوں کے خلاف انتقامی اور دفاعی کاروائیاں ہیں، کیونکہ صیہونی جو مزید جرائم کرنے سے باز نہیں آتے، شہید محمد صلاح ہمیشہ تاریخ کے زندہ اوراق میں باقی رہے گا اور ہمیشہ ملت فلسطین کا سر اونچا اور وقار سے بلند رہے گا۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

رہبر انقلابِ اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی 34ویں برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی (رح) کی قیادت میں وجود میں آنے والے انقلاب جو کہ اسلامی اور عوامی انقلاب ہے، فلسطین کے مسئلے کو عالمی مسئلہ بنا دیا۔

رہبر انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہالعظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی 34ویں برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی (رح) کی قیادت میں وجود میں آنے والے انقلاب جو کہ اسلامی اور عوامی انقلاب ہے، فلسطین کے مسئلے کو عالمی مسئلہ بنا دیا۔

امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی 34ویں برسی کی تقریب، عوام، قومی و عسکری حکام اور غیر ملکی سفیروں کی موجودگی میں مرقد امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ تہران میں جاری ہے۔رہبرِ انقلابِ اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کی نئی نسلوں کو امام رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں مزید جاننے کی ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام بزرگوار ابن سینا اور شیخ طوسی سے زیادہ متنوع شخصیت کے حامل ہیں۔ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا روشن چہرہ اپنی دلکش اور دلفریب آواز سے سب کے سامنے اپنا تعارف کرواتا ہے۔ امام نے شہنشاہیت کا تختہ الٹ کر اس کی جگہ عوامی جمہوریت کو بحال کر دیا۔

انہوں نے مزید فرمایا کہ انقلابِ اسلامی نے ظلم و استبداد کو آزادی میں بدل دیا۔ انقلابِ اسلامی نے "ہم کر سکتے ہیں" کے جذبے کو پروان چڑھایا۔ امام رحمۃ اللّٰہ علیہ کے انقلابی اقدام سے مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا اولین مسئلہ بن گیا۔ امام رحمۃ اللّٰہ علیہ کو تاریخ کے اوراق سے حذف نہیں کیا جا سکتا۔

امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ تاریخی رہبروں میں سے ایک ہیں

رہبر انقلابِ اسلامی نے حضرت امام خمینی (رح) کو تاریخی رہبروں میں سے ایک قرار دیا اور تاکید فرمائی کہ تاریخی اشخاص کو تاریخ سے حذف نہیں جا سکتا اور نہ ہی ان کو مسخ کیا جا سکتا ہے۔

امام رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مدد کرنے والے عوامل آپ کے ایمان اور امید تھے۔

انہوں نے مزید فرمایا کہ شہید مطہری رحمۃ اللّٰہ علیہ پیرس میں امام (رح) سے ملاقات کے بعد، آپ کے ایمان پر حیرت کا اظہار کیا کرتے تھے۔

رہبرِ انقلابِ اسلامی نے دشمنوں کی لوگوں کے ایمان اور امید کو تباہ کرنے کی کوششوں کے بارے میں کہا کہ مغربی سیکورٹی اداروں کی طرف سے مختلف فسادات میں مالی، ہتھیار اور میڈیا کی مدد فراہم کی جاتی رہی۔ فسادات میں دشمنوں کی منصوبہ بندی ایسی تھی کہ لوگ سمجھنے لگے تھے کہ اسلامی جمہوریہ کا کام ختم ہو گیا ہے، لیکن ان احمقوں نے اپنی غلطی دہرائی تھی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کے پرعزم جوانوں نے علمی میدانوں میں بڑے اور مؤثر کام کئے۔

آپ دیکھیں! ایرانی نوجوان کس عظمت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہماری مساجد میں ہزاروں جوانوں کی تربیت ہوتی ہے۔

رہبر انقلابِ اسلامی نے آنے والے انتخابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ انتخابات بہت اہم ہیں۔ دشمن آج سے ہی ہمارے آنے والے انتخابات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
https://taghribnews.

 ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ امام خمینی رح کی وفات کو 34 سال گزرنے کے باوجود وہ آج بھی زندہ ہیں، کیونکہ امام کی میراث، راہ و روش اور کلام زندہ ہے۔ آج امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا راستہ، طرزِ زندگی اور ایرانی قوم اور دنیا کی دیگر آزادی پسند قوموں کیلئے ان کے راہ نما فرامین پہلے سے زیادہ مقبول و پر رونق ہیں۔ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی 34 ویں برسی کی تقریب سے خطاب میں ایرانی صدر نے کہا کہ آج ہمیں امام راحل رح کی شخصیت، سیرت، کلام اور ان کی سربراہی میں کامیاب ہونے والے عظیم انقلاب کو جاننا چاہیئے۔انقلابِ اسلامی کی بنیاد امام خمینی نے رکھی اور آج بھی آپ کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔ ہمیں معاشرے میں امام راحل رح کی یاد اور نام کو زندہ رکھنا چاہیئے، کیونکہ کچھ لوگ انقلاب کی یادوں کو مٹانے اور اس کی غلط تبلیغ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا اس سعادت مندی کے باعث اور روشن راستے کو جاری و ساری رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ آیت اللہ رئیسی نے مزید کہا کہ امام راحلؒ دین کو ذاتی اور انفرادی اعمال اور احکامات کے سلسلہ کے طور پر نہیں، بلکہ معاشرے کے نظم و نسق کیلئے ایک مکمل، جدید اور ترقی یافتہ نظریہ کے طور پر پیش کرتے تھے اور امام کی اس روش سے، نئے نظام، نئی تہذیب اور دین کے نام پر ایک اسلامی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔

امام خمینی رح کی 34 ویں برسی کے موقع پر بڑے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ بانی انقلاب اسلامی نے اسلام کی کئی تعلیمات کو اس کے حقیقی فلسفہ کے ساتھ پیش کرکے ان کا دوبارہ احیا کیا ہے۔ آپ جہاں ایک فقیہ تھے، وہاں ایک عارف بھی تھے۔ آپ جہاں ایک فلسفی تھے، وہاں دوسری طرف اخلاق کے ایک بااثر معلم بھی تھے۔ آپ ایک جانب علم کلام کے استاد اور دوسری طرف قرآن پاک کے بے بدل مفسر بھی تھے۔ آپ کی شخصیت کے حوالے سے صفات کو اگر دریا کو کوزے میں بند کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے اسلام کو اپنے حقیقی اور جوہری معانی کے ساتھ درک کیا۔ امام حمینی کے راستے پر چلنے والوں کے لئے آپ کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے، آپ نے انقلاب کے مختلف مراحل میں جہاد و فداکاری کا راستہ اختیار کیا۔

آج اگر ہم امام خمینی کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں استقامت و مقاومت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ سمجھوتوں اور کمپرومائیز کا امام خمینی کی سیرت سے دور کا بھی کوئی راسطہ نہیں تھا۔ سلمان رشدی کا مسئلہ ہو یا اسلام کے خلاف کسی قسم کا اقدام ہو، آپ نے کبھی مصلحتوں سے کام نہیں لیا۔ آپ استقامت و مزاحمت میں اقوام کی بقا قرار دیتے تھے۔ آپ نے مقاومت اور استقامت کے جس مکتب کی بنیاد رکھی، اس نے ماضی میں شہید چمران، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور حال ہی میں شہید قاسم سلیمانی جیسی شخصیات کو پیدا کیا۔ امام خمینی کے حوالے سے ان کی شخصیت کے کئی پہلؤوں پر لکھا جاسکتا ہے، لیکن آج ہم امام خمینی اور مکتب استقامت و مقاومت پر چند جملے تحریر کرنے کی کوشش کریں گے۔

بلاشبہ امام خمینی مزاحمت و استقامت کے مکتب کے بانی ہیں۔ امام کی نظر میں مزاحمت کی مختلف جہتیں ہیں۔ ان میں سے ایک جہت القدس کی قابض حکومت کے حوالے سے ہے۔ صیہونی حکومت کے بارے میں امام خمینی کا نظریہ اور اس حکومت کے خلاف قیام کی ضرورت کو امام خمینی اسلامی انقلاب کی فتح سے پہلے تسلسل سے بیان کرتے تھے۔ اسلامی انقلاب کی فتح سے قبل صیہونی حکومت کے خلاف امام کا مبارزہ کسی سے پوشیدہ نہیں تھا۔ آپ اسرائیل کی صحیح شناخت جانتے ہوئے، اس حکومت کو ایک غیر قانونی اور غاصب حکومت قرار دیتے تھے۔ آپ اس غاصب حکومت کو مختلف ناموں اور القاب سے پکارا کرتے جیسے، بدعنوانی کا جراثیم، بدعنوانی کا مرکب، کینسر کی رسولی، کرپشن کا نمونہ، وغیرہ وغیرہ۔۔۔

امام خمینی اسرائیل کے غاصبانہ خطرے کے بارے میں بارہا خبردار کرتے۔ مثال کے طور پر انقلاب اسلامی سے پندرہ سال پہلے 1342 شمسی کے عاشورا کو آپ نے محمد رضا شاہ پہلوی اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا اور اس غاصب حکومت کو اسلام اور ایران کے دشمن کے طور پر متعارف کرایا۔ اس احتجاج کے ایک سال بعد آپ نے ایرانی قوم کی تمام پریشانیوں کی وجہ اسرائیل کو قرار دیا اور اس سرطانی رسولی کو تمام مسلمانوں کے لیے ایک سنگین خطرہ کہا۔ حضرت امام خمینی استعمار کا ہدف صرف فلسطین پر قبضہ نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان کی رائے میں سامراج کا ہدف تمام اسلامی ممالک پر حکومت کرنا اور انہیں القدس جیسی سرنوشت سے دوچار کرنا ہے۔

ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد امام خمینی نے فلسطینی مزاحمت کی نظریاتی اور عملی حمایت جاری رکھی۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے ایک ہفتہ سے بھی کم عرصہ بعد امام خمینی نے اعلیٰ سطحی فلسطینی حکام کے ساتھ ملاقات میں “آج ایران، کل فلسطین” کے نعرے کو اپنی خارجہ پالیسیوں کی ترجیح قرار دیا۔ تاہم امام راحل کی مزاحمت کی حمایت کا عروج ان کے تاریخی اقدام میں تھا، جس میں آپ نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کے طور پر متعارف کرایا۔ عالمی یوم قدس کا اعلان انقلاب کی فتح کے چھ ماہ بعد کیا گیا۔ آپ نے ایک پیغام میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔

اس پیغام کا متن کچھ یوں ہے: “کئی سالوں سے میں نے مسلمانوں کو اسرائیل پر قبضے کے خطرے سے خبردار کیا ہے، جس نے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں پر اپنے وحشیانہ حملوں کو تیز کر دیا ہے اور فلسطینی جنگجوؤں کو تباہ کرنے کے مقصد سے، خاص طور پر جنوبی لبنان میں ان کے گھروں اور گھروں پر بمباری کی ہے۔” میں دنیا کے تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لیے متحد ہو جائیں اور میں دنیا کے تمام مسلمانوں کو رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس منانے کی دعوت دیتا ہوں۔ میں اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کی اہل کفر پر فتح کی دعا کرتا ہوں۔” عالمی یوم قدس مظلوموں کے حقوق کے دفاع اور حمایت اور عالمی استکبار کا مقابلہ کرنے کی سمت میں بانی انقلاب اسلامی کے اقدام کی میراث ہے۔

امام راحل کی نظر میں مزاحمت کا ایک اور اہم پہلو اسلام کے دفاع کے مقصد سے استکبار کے خلاف مزاحمت ہے۔ یہ جہت انقلاب اسلامی سے پہلے امام کے خطابات اور طرز عمل میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جس کا ایک مظہر ایران میں کیپچولیشن بل کی مخالفت تھی۔ اس بل کے مطابق پہلوی حکومت نے ایران میں امریکی فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کو عدالتی استثنیٰ دے دیا تھا۔ امام کو اس بل کی مخالفت کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔ ترکیہ کی طرف جلاوطنی اور پھر عراق اور فرانس میں جلاوطنی کا سلسلہ 14 سال تک جاری رہا۔

امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد استکبار کے خلاف جنگ جاری رہی۔ انقلاب سے پہلے، ایران خطے کا ایک ایسا ملک تھا، جس کے فیصلے امریکہ کرتا تھا اور مغربی ایشیاء کے علاقے میں نکسن کی حکمت عملی کے دو ستونوں میں سے ایک تھا۔ انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد، ایران امریکہ کے خلاف جنگ کا علمبردار بن گیا۔ ایران ایک ایسا کھلاڑی بن گیا، جو مغربی ایشیائی خطے میں کسی بھی امریکی مداخلت کی مخالفت اور مقابلہ کرتا تھا۔ مشہور امریکی تھیوریسٹ Zbigniew Brzezinski کہتے ہیں: “شاہ کے زوال کے ساتھ پورے خطے میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور ایران کی وجہ سے پیدا ہونے والی افراتفری نے ایک ایسے خطے میں ہمارے مفادات کے لیے مستقل خطرہ پیدا کر دیا ہے، جس پر مغربی دنیا کی زندگیوں کا مکمل طور پر انحصار ہے۔”

اس کے علاوہ امام خمینی (رہ) کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی فتح کے ساتھ ہی مغربی ایشیائی خطے میں آزادی کی تحریکیں ابھریں اور پھیلیں، جن تحریکوں کی اہم خصوصیت صیہونی حکومت اور امریکہ کے خلاف جدوجہد ہے۔ امام راحل نے مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کی اصل شناخت پر زور دیتے ہوئے استکبار اور غاصب حکومت کے خلاف اسلامی بیداری کا احیاء کیا۔ درحقیقت امام خمینی (رہ) نے اپنی قیادت کے ذریعے استعمار مخالف نظریات اور مزاحمت کے محور کے قیام کا سنگ بنیاد رکھا، جو آج علاقہ کا سب سے بڑا بلاک ہے۔ آج اسلامی انقلاب اور مزاحمت کا بلاک صہیونی امریکی بلاک اور مغربی ایشیاء میں اس کے اتحادیوں کے لئے ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی نے خطے میں غیروں اور استعمار کے خلاف جنگ میں جہاد اور عوامی مزاحمت کے علاوہ کسی بھی طریقہ کو کارآمد نہیں سمجھا اور اس بات کا یقین دلایا کہ جارحین کے خلاف سیاسی یا سفارتی طریقوں سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔

آج امام خمینی کی رحلت کے 34 سال بعد یہ نظریہ ثابت ہوا کہ مذاکرات اور سمجھوتہ سے نہ صرف اسلامی ممالک اور بالخصوص فلسطین کے مفادات کا تحفظ نہیں ہوا ہے، بلکہ قابض حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے سمجھوتے اور تعلقات نے اس غاصب حکومت کو مزید جری کیا ہے۔ پائیداری اور مزاحمت کی خصوصیت، یہ وہ چیز ہے، جس نے امام کو ایک مکتب فکر کی شکل میں، ایک نظریئے کی حیثیت سے، ایک فکر کے طور پر، ایک راستے کے طور پر متعارف کرایا۔ امام خمینی کے نظریہ استقامت کے بار ے میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں کہ میں جب امام کی اس خصوصیت کے بارے میں سوچتا ہوں اور قرآنی آیات پر نظر ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ امام نے حقیقت میں اپنی اسی استقامت و مزاحمت کے ذریعے قرآن کی بہت سی آیتوں کی عملی تصویر پیش کی۔

مثال کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت کہتی ہے؛ “فَلِذالِکَ فَادعُ وَاستَقِم کَما اُمِرتَ وَ لا تَتَّبِع اَهواءَهُم” دھمکی، لالچ اور فریب کی کوششوں کا امام پر کبھی کوئی اثر نہ ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ امام کو دھمکی نہیں دی گئی، لالچ نہیں دیا گيا یا فریب دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کیوں نہیں، یہ سب ہوا، لیکن امام خمینی پر ان کوششوں کا رتی برابر بھی اثر نہیں ہوا، ان کی استقامت و مزاحمت پر ذرہ برابر بھی اس کا اثر نہیں پڑا۔ مزاحمت سے مراد کیا ہے؟ مزاحمت سے مراد یہ ہے کہ انسان نے کسی راستے کو چنا ہے، جسے وہ حق کا راستہ سمجھتا ہے، صحیح راستہ مانتا ہے۔ اس راستے پر وہ اپنا سفر شروع کر دے اور راستے کی رکاوٹیں اسے پیش قدمی جاری رکھنے اور سفر سے روک نہ پائیں۔ یہ مزاحمت و استقامت کا مفہوم ہے۔ مثال کے طور پر کبھی کسی راستے میں انسان کے سامنے سیلابی طوفان آجاتا ہے، کوئی گڑھا آجاتا ہے، یا کوہستانی علاقے میں کسی چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اور راستے میں کوئی بڑی چٹان آجاتی ہے۔

کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جب چٹان سامنے آجائے یا کوئی اور بڑی رکاوٹ آجائے، کوئی چور موجود ہو، کوئی بھیڑیا موجود ہو تو وہیں سے قدم واپس کھینچ لیتے ہیں، سفر جاری رکھنے کا ارادہ ترک کر دیتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ہیں، جو ایسا نہیں کرتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ کہیں سے گھوم کر اس چٹان سے آگے بڑھنے کا راستہ ہے یا نہیں۔ اس رکاوٹ سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہے۔؟ وہ اس راستے کو تلاش کر لیتے ہیں، اس رکاوٹ کو دور کرتے ہیں یا پھر دانشمندی سے کام لیتے ہوئے گھماؤ دار راستے پر چل کر اس رکاوٹ کو عبور کر لیتے ہیں۔ مزاحمت و استقامت کا یہی مطلب ہے۔ امام خمینی ایسے ہی تھے۔ آپ نے ایک راستہ چن لیا تھا اور اس راہ پر گامزن تھے۔ یہ راستہ کیا تھا؟ امام کی بات کیا تھی، جس پر آپ استقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔؟ امام کا موقف تھا کہ دین خدا کی حکمرانی، دین خدا کی حاکمیت، مسلمانوں پر اور عوام کی عمومی زندگی پر مکتب الہیہ کی حکمرانی۔ یہ امام کا موقف تھا۔

یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا کی جابر قوتیں اس موقف اور اس روش کی مخالف ہیں۔ دنیا کا استکباری نظام ظلم پر استوار ہے۔ جس وقت امام خمینی نے اس تحریک کا آغاز کیا، اس وقت دو سال سے مغربی حکومتیں دنیا کے گوشہ و کنار میں، ایشیاء میں، افریقہ میں، مختلف ممالک میں قوموں کو اپنے بے تحاشا مظالم کے نشانے پر رکھے ہوئے تھیں۔ انگریزوں نے ہندوستان اور اس علاقے کے دیگر ممالک میں، فرانسیسیوں نے افریقا میں، الجزائر اور دیگر ممالک میں، بعض دیگر یورپی ممالک نے دوسرے گوناگوں ملکوں میں آشکارا طور پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ظاہر ہے اس نعرے سے ان طاقتوں کا برافروختہ ہونا لازمی تھا۔

یہ مزاحمت رفتہ رفتہ اسلامی جمہوریہ کی حدود سے باہر نکلی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم اس مزاحمت کو ایک فکر اور نظریئے کے طور پر باہر پھیلا رہے تھے، جیسا کہ بعض سیاسی رہنماء اور دیگر افراد گوشہ و کنار میں اعتراض کرتے ہیں کہ آپ انقلاب کو برآمد کرنے کی فکر میں کیوں ہیں؟! ہم انقلاب کو ایکسپورٹ نہیں کر رہے ہیں۔ انقلاب ایک فکر ہے، ایک نظریہ ہے، ایک راستہ ہے، اگر کوئی قوم اسے پسند کرنے لگے تو وہ قوم خود بخود اسے اپنا لے گی۔ امام نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ امام نے ہیجان زدہ ہو کر یہ راستہ نہیں چنا، جذبات و احساسات کے بہاؤ میں اس راستے کا انتخاب نہیں کیا۔ اس منطقی فکر کا ایک پہلو یہ ہے کہ مزاحت جبر و زیادتی پر ہر باوقار اور آزاد منش قوم کا فطری ردعمل ہوتا ہے۔ اس کے لئے کسی اور وجہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جو قوم بھی اپنے وقار کو، اپنے تشخص کو، اپنی انسانیت کو خاص ارزش و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اگر وہ محسوس کرے کہ اس پر کوئی چیز مسلط کی جا رہی ہے تو ضرور مزاحمت کرتی ہے۔

دوم: مزاحمت کی صورت میں دشمن پسپائی پر مجبور ہوتا ہے، ہتھیار ڈال دینے کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔ جب دشمن آپ سے زبردستی کا برتاؤ کرے اور آپ ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں تو وہ آگے آجائے گا، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس کو آگے بڑھنے سے روکنے کا راستہ یہ ہے کہ آپ اپنی جگہ ڈٹ جائیے! دشمن کے بے جا مطالبات، غنڈہ ٹیکس وصولی اور باج خواہی کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت دشمن کی پیش قدمی روکنے کا موثر طریقہ ہے۔ لہذا کفایتی روش مزاحمت کی روش ہے۔ مزاحمت کی منطق کا تیسرا پہلو وہ چیز ہے، جسے میں نے ایک دو سال قبل اسی جلسے میں ذکر کیا اور وہ یہ ہے کہ مزاحمت و استقامت کی ایک قیمت ادا کرنا ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کی کوئی قیمت نہ چکانی پڑے، لیکن دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کی جو قیمت ہے، وہ استقامت و مزاحمت کی صورت میں چکائی جانے والی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔ جب آپ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو آپ کو ایک قیمت چکانی پڑتی ہے۔

آج سعودی حکومت پیسہ بھی دیتی ہے، ڈالر بھی ادا کرتی ہے، امریکہ کے اشارے پر اپنا موقف طے کرتی ہے، لیکن پھر بھی اسے توہین برداشت کرنا پڑتی ہے، اسے دودھ دینے والی گائے کہتے ہیں! مصالحت کر لینے، ہتھیار ڈال دینے، مزاحمت نہ کرنے کی قیمت مزاحمت و استقامت کرنے کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مادی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے اور معنوی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں جس مزاحمتی مکتب فکر کی بنیاد ہمارے بزرگوار امام نے رکھی، اس کا چوتھا پہلو اور چوتھا عنصر یہ قرآنی حصہ اور اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں مکرر یہ وعدہ کیا ہے کہ اہل حق اور حق کے طرفداروں کو حتمی فتح ملے گی۔ اس مفہوم پر قرآن کی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں۔ ممکن ہے کہ انھیں قربانی دینی پڑے، لیکن اس مقابلے میں آخر میں انھیں شکست نہیں ہوتی بلکہ وہ فتحیاب ہوتے ہیں۔ قربانی برداشت کرنی پڑتی ہے، لیکن ناکامی برداشت نہیں کرنی پڑتی۔

پانچواں نکتہ جو مزاحمتی منطق کے تعلق سے مدنظر رکھنا چاہیئے، چنانچہ امام خمینی رحمۃ اللہ بھی اسے مدنظر رکھتے تھے اور ہم بھی اسے جانتے ہیں، سمجھتے ہیں اور تخمینہ لگاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مزاحمت ایک ممکن عمل ہے۔ ان لوگوں کی غلط سوچ کے بالکل بر خلاف جو کہتے ہیں اور پرچار کرتے ہیں کہ “جناب! کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ کیسے مزاحمت کریں گے؟ فریق مقابل تو بہت بڑا غنڈہ ہے، بہت طاقتور ہے۔” یہی سب سے بڑی بھول ہے، سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ کوئی یہ تصور کر لے کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مدمقابل مزاحمت نہیں کی جا سکتی، ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اندازے کی غلطی ہے۔ کسی بھی مسئلے میں تخمینے کی غلطی وہاں پیدا ہوتی ہے، جہاں ہم اس قضیئے کے گوناگوں عوامل اور پہلوؤں کو دیکھ نہیں پاتے۔

جب ایک مقابلے کی بات ہو رہی ہے، دو محاذوں کے تصادم کی بات ہو رہی ہے تو اندازے کی غلطی اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ ہم اپنے محاذ سے بھی بخوبی واقف نہیں ہیں اور دشمن محاذ کو بھی اچھی طرح نہیں پہچانتے۔ اگر ہمیں شناخت نہیں ہے تو اندازہ لگانے میں بھی ہم سے ضرور غلطی ہوگی۔ اگر ہمارے پاس صحیح شناخت ہو تو ہمارے تخمینے الگ ہوں گے۔ میں یہی عرض کر رہا ہوں کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مقابلے میں مزاحمت کے مسئلے میں اندازہ اور تخمینہ لگائیں تو ضروری ہے کہ ان قوتوں کے حقائق کا ہمیں صحیح علم ہو اور ہمیں اپنے حقائق سے بھی پوری آگاہی ہو۔ ان حقائق میں سے ایک مزاحمتی محاذ کی طاقت ہے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

خدیجہ رضائی نے مہر نیوز سے گفتگو میں کہا کہ میرے لئے میڈل سے محروم ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، فلسطینیوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ ہمیں ان کا خیال ہے، اپنے حق اور چند سال کی محنت کے ثمر سے دستبردار ہورہی ہوں تاکہ آپ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرسکوں۔

مہر خبررساں ایجنسی، گروہ مجلہ؛ ایک مدت تک زخمی ہونے کے بعد گذشتہ ہفتے ذاتی خرچے پر خصوصی اکیڈمی کے ہمراہ عالمی میڈل حاصل کرنے کے لئے جارجیا کا سفر کیا لیکن منفرد سرنوشت اس کی منتظر تھی۔ ایسی تقدیر جس نے دنیا کے سامنے مقابلے کا نیا رخ پیش کیا۔ بین الاقوامی اعزازات کی مالک ایرانی جوجیتسو ٹیم کی رکن خدیجہ رضائی کھیل کے میدان میں واپسی کے بعد ایک اور کامیابی سے چند ہی قدم  کے فاصلے پر ایسا فیصلہ کیا جو کسی فائٹ سے کم نہ تھا۔ اس جوان خاتون کے اس فیصلے کے بارے میں ان کی رائے اور ان کہی باتیں جاننے کے لئے مہر نیوز کے ساتھ ان کا انٹرویو پیش کیا جاتا ہے۔

صہیونی کھلاڑی کا مقابلہ کرنے سے انکار، فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے ایرانی لڑکی میڈل سے دستبردار


جوجیتسو کے کھیل کے بارے میں کچھ بتائیں شاید بعض جوانوں کے لئے یہ کھیل نامانوس ہے۔

جوجیتسو سالوں سے دنیا میں کھیلا جارہا ہے اور تقریبا پوری دنیا اس کے بارے میں جانتی ہے۔ یہ ذاتی دفاع کے لئے بھی استعمال کیا جانے والا کھیل ہے۔ یہ کھیل کراٹے اور جوڈو سے زیادہ شباہت رکھتا ہے۔ کراٹے کی طرح اس کی بھی کئی شکلیں ہیں۔ مختلف پوزیشنز پر مقابلے کا اہتمام بھی اسی کے مطابق ہوتا ہے۔ میں نے چونکہ باکسنگ اور ووشو بھی کھیلا ہے اس لئے جوجیتسو میرے لئے دلچسپ تھا۔ 

مہر نیوز: اس سخت کھیل کو کیوں انتخاب کیا؟ نیا ہونے کی وجہ سے سپانسر کے حوالے سے مشکل نہیں ہوئی؟

خدیجہ رضائی: اس کھیل کی مدد کم کی جاتی ہے مخصوصا خواتین کے لئے مدد نہ ہونے کے برابر ہے۔ مقابلوں میں شرکت کے وقت سخت پروجیکٹ کرنا ہوتا ہے۔ سخت حالات سے پنجہ آزمائی کرنا پرتا ہے جن میں زخمی ہونے کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔ لیکن پھر جوش و جذبے  کے ساتھ مشق کرتی ہوں۔ زخمی ہونے کی وجہ سے علاج کا مرحلہ طے کرتی ہوں تاکہ دوبارہ خود کو دنیا کے سامنے پیش کرسکوں۔
اس کھیل کے اخراجات زیادہ ہیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے مالی مشکلات کئی گنا بڑھ گئی ہیں لیکن تمام تر سختیوں کے باوجود جوش و جذبے کی وجہ سے اس کھیل کو جاری رکھوں گی اور مشکلات کا مقابلہ کروں گی۔ میں چاہتی ہوں کہ اس کھیل میں آنے والی لڑکیوں اور خواتین کی مدد ہوجائے۔ ہماری لڑکیاں محنتی اور باصلاحیت ہونے کے باوجود منظر عام پر نہیں آتی ہیں۔ ان کی مدد نہیں کی جارہی ہے۔ اگر حالات بہتر ہوجائیں تو اس کھیل میں ایران کا مستقبل روشن ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میری ذات کے بجائے اس کھیل کی مدد کی جائے۔ جن کھیلوں میں کھلاڑیوں کی بڑی تعداد محنت اور پریکٹس کرتی ہے، ان کی قومی سطح پر حوصلہ افزائی ہونا چاہئے۔ جوجیتسو کی بھی قومی سطح پر حمایت کی جائے تو ایک مستقل کھیل کے طور پر ابھر سکتا ہے۔

صہیونی کھلاڑی کا مقابلہ کرنے سے انکار، فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے ایرانی لڑکی میڈل سے دستبردار

مہر نیوز: اب تک کن سختیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے؟

خدیجہ رضائی: زخمی ہونے کی وجہ سے بغیر کسی وقفے کے فیزیوتھراپی کے لئے جانا پڑا، پریکٹس کے دوران سیکھنے کی کوشش کرتی تھی ہر دفعہ قم سے تہران جانا پڑتا تھا۔ اس سفر کو سختی کے ساتھ طے کرتی تھی۔ ان تمام سختیوں کو برداشت کرنے کے بعد جب ٹورنامنٹ میں مقابلے کا شیڈول دیکھا تو صہیونی کھلاڑی سے میرا مقابلہ تھا جوکہ نہایت حیرت اور دردناک لمحہ تھا۔ پورا وقت اور توانائی خرچ کرنے کے بعد جب میڈل حاصل کرنے کا موقع آیا تو ناگہانی صورتحال کا سامنا ہونا کسی بھی لحاظ سے خوشگوار نہیں تھا۔

مہر نیوز: آپ نے شدید زخمی ہونے کے بعد خود عالمی مقابلے کے لئے تیار کیا اور صہیونی کھلاڑی سے مقابلہ رکھنے پر احتجاج کرتے ہوئے مقابلے سے دستبردار ہوگئیں، ایسا فیصلہ کیوں کیا؟

خدیجہ رضائی: جی ہاں! جب ٹورنامنٹ کا شیڈول دیکھا تو حیرت میں پڑ گئی لیکن کھلاڑیوں کے بھی جذبات ہوتے ہیں جن کے بل بوتے پر وہ لڑتے ہیں۔ میں خود کو چمپئن نہیں سجھتی لیکن ہر کوئی اپنے مربی اور کوچ وغیرہ سے جذبات اور آئیڈیا لیتا ہے۔ ہر جگہ کمی بیشی ہوتی ہے جن کے بارے میں گفتگو ہونا چاہئے لیکن بہرحال مجھے یہ فیصلہ کرنا لازم تھا۔

دراصل میں جس صورتحال سے دوچار تھی وہ ظالم اور ظلم کے خلاف احتجاج کا مرحلہ تھا، فلسطین کے مظلوم عوام اور غاصب صہیونیوں کا معاملہ تھا اس کو قبول کرنا میرے لئے ناممکن تھا۔ میں کسی پر ظلم برداشت نہیں کرسکتی تھی اسی لئے ٹورنامنٹ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔

میں اس موقع پر خود سے کہا کہ خدیجہ! تم سے سختیاں برداشت کیں لیکن۔۔۔ اب بھی میں یہی کہتی ہوں کہ مجھے ان پر غصہ آرہا ہے۔ یہ ایک موقع تھا جو سال میں ایک مرتبہ ہاتھ آتا ہے میں دو سالوں سے سخت محنت کی تھی۔ اسی دن کے لئے اپنی زندگی کے چار سال گزار دیے تھے تاکہ مقابلے میں شرکت کرکے میڈل حاصل کروں لیکن جب یہ موقع آیا تو خود سے کہا کہ میڈل سے محروم ہونا بڑی بات نہیں ہے لیکن اس فیصلے کے ذریعے فلسطینی عوام کو بتاسکتی ہوں کہ ان حالات میں بھی میں ان کی حمایت کرتی ہوں۔ اپنی حصے کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اپنے حق اور حقوق سے دستبردار ہورہی ہوں تاکہ معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے آپ کا دفاع کرسکوں۔ کئی سال کی زحمت اور محنت کے پھل کو فلسطینیوں کی حمایت پر قربان کررہی ہوں۔

مہر نیوز: صہیونی لابی انتہائی طاقتور ہے اور آپ کے اس فیصلے کی وجہ سے مستقبل میں آپ کے لئے مشکلات ایجاد کرسکتی ہے چنانچہ دوسرے کھلاڑیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے، آپ نے ان کے ساتھ نئی جنگ چھیڑی ہے، اس حوالے سے کیا سوچتی ہیں؟

خدیجہ رضائی: یہ امکان ہے کیونکہ وہ ایران کے حوالے سے زیادہ حساس ہیں۔ بعض اوقات دباو سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہماری دستبرداری کی وجہ جان سکیں اور اس کی توجیہ پیش کرسکیں۔ یہ ہمارے لئے پریشان کن ہے لیکن ہم اسرائیل کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتے ہیں میں بھی ایک کھلاڑی کی حیثیت سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتی ہوں اسی لئے میدان میں اترنے سے پہلے ہی دستبرداری کا اعلان کردیا۔ مجھے اپنے اوپر یقین تھا کہ جتنی محنت کی ہے اس کے بل بوتے پر حریف کو شکست دے کر میدان سے سربلند ہوکر باہر آوں گی لیکن فلسطینیوں کی خاطر اور بے گناہ قتل ہونے والوں کی خاطر اور ان جوانوں کی خاطر جو ورزش کی کم ترین سہولیات سے بھی محروم ہیں، مقابلے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا۔ آج دنیا آگاہی کی دنیا ہے۔ ہم تصاویر دیکھتے ہیں اور حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے جرائم کے بارے میں اچھی طرح آگاہی رکھتے ہیں۔ پوری دنیا کو ان چیزوں کے بارے میں آگاہ ہونا چاہئے۔

 

ں

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ دنیا میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے، مستقبل میں عالمی اداروں کے بجائے علاقائی تنظیمیں زیادہ فعال کردار ادا کریں گی، سیکا کو رکن ممالک کے درمیان تعاون اور سیکریٹریٹ کو مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے۔

کانفرنس برائے باہمی تعاون و اعتمادسازی ایشیا کے سیکریٹری جنرل غیرت ساری نے تہران میں ٰایران کے صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر صدر رئیسی نے تنظیم کے رکن ممالک میں موجود استعداد اور مواقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رکن ممالک کے تعاون اور سیکریٹریٹ کو مزید فعال کرکے تنظیم کے کردار کو بڑھایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایران تعلیم، ٹیکنالوجی، معیشت، دہشت گردی اور جرائم پیشہ تنظیموں کے خلاف آپریشن کے تجربات کی روشنی سیکا کے رکن ممالک کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہے۔ دنیا میں ایک طاقت کا تصور ختم ہورہا ہے۔ اس وقت کئی طاقتیں جنم لے رہی ہیں۔ ایک طاقت کی طرف جھکاو کا نظریہ ختم ہونے کے بعد خطے کی سطح پر فعال تنظیمیں زیادہ کردار ادا کریں گی۔

اس موقع پر تنظیم کے سیکریٹری جنرل غیرت ساری بای نے کہا کہ ایران نے دہشت گردی کے خلاف ہمیشہ تنظیم کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ ایران نے تعلیم، اقتصاد اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قابل قدر ترقی کی ہے۔ ہم ایران سے امید کرتے ہیں کہ ان شعبوں میں تنظیم کے ساتھ تعاون کرے۔

انہوں نے رکن ممالک کے فلاح و بہبود کے لئے مشترکہ فنڈ کی تاسیس کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے ایران کے کردار کی قدر دانی کی۔

گزشتہ روز مقبوضہ فلسطین کے طولکرم شہر کے قریب حرمیش صیہونی بستی میں فلسطینی جوانوں نے فائرنگ کر کے ایک صیہونی کو ہلاک کر دیا۔ اس مزاحمتی آپریشن کی ذمہ داری شہداء الاقصیٰ بریگیڈ سے وابستہ ایک گروہ نے قبول کی ہے۔

فلسطینی جوانوں کی کامیاب مزاحمتی کارروائی کے بعد حماس نے ایک بیان جاری کر کے فلسطین کے مغربی کنارے اور غرب اردن کے علاقوں منجملہ طولکرم میں فلسطینی جوانوں کے ہاتھوں فائرنگ کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا ناجائز صیہونی حکومت اس علاقے میں مزاحمتی گروہوں اور انکے انتقامی جذبے کی سرکوبی میں ناکام رہی ہے۔

حماس کے ترجمان عبد اللطیف قانوع نے کہا کہ طولکرم آپریش اپنی مادر وطن اور مقدسات کے دفاع کو لے کر فلسطینی عوام کے پُرعزم ہونے کا ثبوت ہے۔

فلسطین عوامی محاذ کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمد الغول نے بھی طولکرم آپریشن کو مزاحمتی محاذ کے سامنے صیہونی حکومت کی انٹیلیجنس کی شکست قرار دیا۔

فلسطین کی مجاہدین تنظیم نے بھی ایک بیان میں کہا کہ اس آپریشن نے ایک بار پھر جرائم پیشہ صیہونی حکومت کی کمزوری کو عیاں کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ثابت کر دیا کہ فلسطینی مزاحمت دشمن پر کاری ضرب لگانے کے لئے آمادہ ہے۔

منگل کے روز ترکمنستان کی پیپلز کاؤنسل "مصلحت" کے سربراہ قربان قلی بردی محمداف نے ایک اعلیٰ سطحی سیاسی و اقتصادی وفد کے ہمراہ تہران کا دورہ کیا۔ ملاقات اور گفتگو کے بعد دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام نے ایک مشترکہ نشست میں بھی حصہ لیا۔

اس موقع پر صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ہم مغربی ممالک کے برخلاف کہ جو انسانی حقوق کا صرف دعویٰ کرتے ہیں، ہم حقیقتاً انسانی حقوق کے درپے ہیں اور علاقے میں ایران کی پالیسی صلح و آشتی، استحکام اور سکیورٹی کی تقویت پر مبنی ہے۔

صدر ایران نے ترکمنستان کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو گہرے تمدنی اور ثقافتی اشتراکات کا حامل اور صرف ہمایسگی پر استوار تعلقات سے بالاتر قرار دیا۔ سید ابراہیم رئیسی نے مزید کہا کہ تہران اور عشق آباد کے باہمی تعلقات میں گزشتہ دو برسوں کے دوران خوب فروغ پائے ہیں اور یہ پڑوسی ممالک کے ساتھ ہماری پالیسی کا نتیجہ ہے۔

صدر ایران نے واضح کیا کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کے فروغ میں کسی قسم کی رکاوٹ موجود نہیں ہے اور دونوں ممالک سائنس و ٹکنالوجی، انرجی، ٹرانزٹ، نقل و حمل، کسٹم اور زراعت کے شعبوں میں باہمی تعاون کے لئے بہت سی گنجائشوں کے حامل ہیں۔

انہوں نے دونوں ممالک کی مشترکہ اقتصادی و تجارتی نمائشوں کے انعقاد پر مبنی ترکمنستان کی پیپلز کاؤنسل "مصلحت" کے سربراہ کی تجویز کا خیرمقدم بھی کیا۔

اس نشست میں قربان قلی بردی محمداف نے بھی کہا کہ ایران اور ترکمنستان دو دوست اور ہمسایہ ممالک کی حیثیت سے ہمیشہ تعلقات کی تقویت اور ان میں گہرائی کے درپے رہے ہیں اور اُن کا ملک علاقائی سطح پر صلح و آشتی، استحکام اور سکیورٹی کی تقویت پر مبنی اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایران اور ترکمانستان نے دو باہمی تعاون کے معاہدوں اور تین مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی کئے ہیں۔