سلیمانی

سلیمانی

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جب پوری دنیا میں نئے سال کے آمد کی صدائیں گونج رہی تھیں اس وقت ایران، عراق‌ اور شام میں لاکھوں ایسے تھےجو خاموشی سے ایک ایسے شخص کی موت پر ماتم کر رہے تھے جس نے انہیں داعش کے خوف کے بغیر ایک نئی زندگی دی تھی۔
جنرل کا شکریہ ادا کرنے والی وہ 39 ہندوستانی نرسیں بھی ہوں گی جنہیں سفاک اور خوفناک داعش کے ہاتھوں یرغمال بنایا گیا تھا۔
دنیا کو نہ صرف الحاج قاسم سلیمانی کی موت پر سوگ منانے کی ضرورت ہے، بلکہ ان کی زندگی کا جشن بھی منانا چاہئے۔
جنرل سلیمانی کی غیر متزلزل کوششوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ داعش کا روئے زمین سے صفایا ہو جائے۔ جعلی 'اسلامک اسٹیٹ' کو قائم کرنے کے شیطانی منصوبوں کو جنرل سلیمانی کی مزاحمت اور حکمت عملی نے کبھی پایہ تکمیل تک پہنچنے نہ دیا اور خطے کو ان کے ناپاک وجود سے نجات دلانے میں مدد کی۔
مغربی ایشیائی خطے پر ماہر ایک ہندوستانی کے مطابق، جس نے ایک سرکردہ ہندوستانی اخبار کو بتایا، "ہو سکتا ہے ہندوستانی حکام نے ان (جنرل سلیمانی) کے ساتھ وقتاً فوقتاً رابطے کیے ہوں تاکہ وسیع تر مغربی ایشیاء کے علاقوں میں سرحد پار دہشت گرد گروہوں کے مسئلے پر بات چیت کی جا سکے۔ سلیمانی، عراق اور شام میں آئی ایس آئی ایس کے خلاف مسلح مزاحمت کا نمایاں چہرہ تھے اور آئی ایس آئی ایس کو شکست دینے میں انہوں نے بڑا کردار ادا کیا۔
جنرل سلیمانی نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں پر قابو پانے میں پاکستان کی ناکامی پر انہیں بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
جنرل سلیمانی کی بہادری بے مثال اور بے مقابلہ ہے۔ اب بھی کچھ سوالات ہیں جن کا جواب دنیا کو درکار ہے۔
ان کے قتل سے کس کو فائدہ ہوا؟
اور کون چاہتا تھا کہ وہ چلا جائے؟
یہ صرف داعش ہی ہے جو انہیں جاتا ہوا دیکھنا چاہتی تھی۔ تاہم، داعش کو اس قدر بے دردی سے نقصان پہنچایا گیا تھا کہ وہ ابھی تک خود کو دوبارہ منظم نہیں کر پائے ہیں۔
جنرل سلیمانی نے عراق کے فوجی سربراہ ابو مہدی مُہندِّس کے ساتھ مل کر خطے میں امن کی بحالی کو یقینی بنایا۔
30 دسمبر سے یکم جنوری 2023 کے درمیان حسینی ہاؤس، تربھے، مسجد ایرانیان (مغل مسجد)،ممبئی، شیعہ قبرستان، میرا روڈ اور زیب پیلس، یاری روڈ میں تعزیتی پروگرام منعقد کئے گئے، اس موقع پر مولانا سید قاضی عسکری صاحب نے جنرل قاسم سلیمانی، ابومہدی مُہندس اور دیگر شہداء کی شہادت کی یاد میں تقاریر کی جنہوں نے نہ صرف انسانی جانوں کی حفاظت کی بلکہ دمشق میں پیغمبر اسلام (ص) کی نواسی بی بی زینب (س) کے مزار پر داعش کے حملوں کو روکنے کے لئے اپنی جانیں بھی قربان کیں۔

رہبر انقلاب اسلامی سے علمی و سماجی میدانوں کی کچھ ممتاز خواتین اور نمونہ ماؤوں کی ملاقات

رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام، مردوں کے غلبے والا نظام ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں، سرمایہ، انسانیت سے اوپر ہوتا ہے۔ انسانوں کی انسانیت کو، سرمائے کی خدمت میں صرف کیا جاتا ہے۔ جو انسان زیادہ سرمایہ حاصل کرے، زیادہ سرمایہ جمع کرے، اس کی قدروقیمت زیادہ ہوتی ہے۔

انھوں نے اسی طرح کہا کہ مغربی سرمایہ داری میں معاشی، تجارتی اور اسی طرح کے امور کے بڑے عہدے مردوں کے پاس ہوتے تھے بنابریں سرمایہ دارانہ نظام میں مرد کو عورت پر ترجیح حاصل ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ بہت سے مغربی ملکوں میں اس وقت بھی ایک ہی کام کے لیے خواتین کی تنخواہ، مردوں کی نسبت کم ہے، یہ استحصال ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں عورت کی آزادی کا مسئلہ اٹھانے کے بہانے، عورتوں کو گھر سے باہر کھینچ لیا گيا اور انھیں کارخانے میں لا کر انتہائي کم اجرت پر کام کرایا گيا۔

انھوں نے کہا کہ مغرب والوں کی حد درجے کی بے غیرتی یہ ہے کہ وہ جنسی مقاصد کے لیے عورتوں کی جنسی بردہ فروشی اور ان کی جنسی تجارت کرنے کے باوجود، خواتین کے حقوق کی علمبرداری کا دعوی کرتے ہیں۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ مغرب میں عورت اور مرد کے درمیان تعلقات کی آزادی سے مردوں کا دل اور آنکھیں سیر ہو جائيں گي اور پھر جنسی جرائم انجام نہیں پائيں گے۔ اب نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ عورتوں کے سلسلے میں بری نظر سیکڑوں گنا زیادہ بڑھ چکی ہے اور یہ چیز طرح طرح کی جنسی برائيوں اور تمام اخلاقی اور انسانی حدود کی پامالی کا سبب بھی بنی ہے۔

انھوں نے کہا کہ مغرب نے تمام اخلاقی اور انسانی حدود کو توڑ دیا ہے اور وہ ان گناہوں کو رائج کرنے اور قانونی جواز عطا کرنے کے درپے ہے جو تمام مذاہب میں حرام ہیں۔ ہم جنس پرستی وغیرہ صرف اسلام میں ہی حرام نہیں ہیں بلکہ تمام ادیان میں گناہان کبیرہ میں شامل ہیں۔ وہ انھیں قانونی درجہ دے رہے ہیں اور ذرہ برابر بھی شرمندہ نہیں ہیں۔


2 جنوری 2016ء کے دن آل سعود رژیم نے کئی سال تک آیت اللہ شیخ باقر النمر کو قید اور ٹارچر کرنے کے بعد آخرکار شہید کر دیا۔ یوں سعودی عرب کی تاریخ میں یہ بدنما داغ ہمیشہ کیلئے باقی رہ گیا۔ شیخ باقر النمر پہلی بار 2006ء میں گرفتار ہوئے۔ انہیں بحرین میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت سے واپسی پر گرفتار کیا گیا تھا اور گرفتاری کی وجہ ان کی سعودی حکومت سے قبرستان بقیع کی تعمیر نو کرنے اور شیعہ مذہب کو سرکاری طور پر قبول کرنے کی درخواست ظاہر کی گئی تھی۔ اس کے بعد 2008ء اور 2009ء میں بھی انہیں آل سعود رژیم کو تنقید کا نشانہ بنانے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ 2012ء میں جب شیخ باقر النمر نے ایک اعلی سطحی سعودی حکومتی عہدیدار کو تنقید کا نشانہ بنایا تو سکیورٹی فورسز نے ان کے گھر پر حملہ کر کے انہیں زخمی کر دیا اور گرفتار بھی کر لیا۔
 
اس کے بعد وہ 2 جنوری 2016ء تک آل سعود کی قید میں رہے اور آخرکار ان کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ شیخ باقر النمر کی زندگی سیاسی جدوجہد سے بھرپور تھی۔ انہوں نے آل سعود رژیم کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف تحریک چلائی اور خاص طور پر دو علاقوں الاحساء اور القطیف میں سرگرم عمل رہے۔ وہ واضح طور پر سلطنتی نظام حکومت اور آل سعود رژیم کی برطانیہ اور امریکہ کی غیر مشروط اطاعت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے تھے۔ وہ آل سعود، آل خلیفہ اور دیگر خلیجی رژیموں کو امریکہ کی کٹھ پتلیاں قرار دیتے اور کہتے تھے: "تمام خلیجی ریاستیں امریکہ کی چھتری تلے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ امریکی نیوی کی ففتھ ڈویژن بحرین اور دیگر عرب ممالک کے تیل کے ذخائر کی لوٹ مار کرنے کیلئے خطے میں موجود ہے۔" شیخ باقر النمر کھلم کھلا آل سعود رژیم کی کرپشن، آمریت اور ڈکٹیٹرشپ پر بھی اعتراض کرتے رہتے تھے۔
 
آیت اللہ باقر النمر سعودی حکومت کی جانب سے شہریوں خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کی تحقیر پر شدید احتجاج کرتے تھے۔ ان کی نظر میں آل سعود رژیم شیعہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی تھی اور انہیں تمام شہری حقوق سے محروم کر رکھا تھا۔ شیخ باقر النمر نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ وہ سعودی عرب کے شیعہ مسلمانوں کے احترام اور حقوق کی حمایت کرتے رہیں گے۔ شیخ باقر النمر ہمیشہ اپنی تقریروں میں سیاسی تبدیلیاں انجام پانے، شہریوں کی سماجی آزادی بحال ہونے، مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا احترام اور حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک ختم کرنے پر زور دیا کرتے تھے۔ جب سعودی حکومت نے انہیں شہید کیا تو سعودی عرب کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک جیسے ایران، عراق، پاکستان، بحرین، یمن، لبنان وغیرہ میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج سامنے آیا۔
 
دنیا کی متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا آل سعود رژیم کی جانب سے شیخ باقر النمر کو سزائے موت سنائے جانے کی مذمت کی تھی اور سعودی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس پر عملدرآمد نہ کرے۔ جب سعودی حکومت نے انہیں شہید کر دیا تو 12 عرب ممالک سے 114 تنظیموں نے اس کی شدید مذمت کی۔ آل سعود رژیم کے اس اقدام نے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کو بھی شدید کشیدہ کر دیا تھا۔ سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں کی زیادہ آبادی جنوبی علاقوں جیسے القطیف اور الاحساء میں مقیم ہے۔ آل سعود ہمیشہ سے انہیں اپنی حکومت کیلئے خطرہ تصور کرتی آئی ہے۔ سعودی تاریخ میں آل سعود رژیم کے خلاف احتجاجی تحریکوں کی اکثریت بھی انہی علاقوں میں جنم لیتی رہی ہے۔ سعودی حکومت شدید مذہبی تعصب کا شکار ہے اور شیعہ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھتی ہے۔
 
گذشتہ چند سالوں کے دوران آل سعود رژیم نے اپنے شہریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی اختیار کر رکھی ہے۔ یوں سعودی حکومت اپنے ہی شہریوں میں سے روشن خیال، قانون دان اور سیاسی طور پر سرگرم شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اس کی ایک اور واضح مثال جمال خاشگی کا ہولناک قتل ہے۔ وہ سعودی شہری تھے اور موجودہ حکومت کے شدید مخالف ہونے کے ناطے جلاوطنی کی حالت میں ترکی میں رہتے تھے۔ "ریاستی دہشت گردی" کا مطلب ایک حکومت کی جانب سے خاص سیاسی اہداف کے حصول کیلئے اپنے ہی شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے کو کہتے ہیں۔ معاشرے میں دہشت پھیلانے کا ایک معروف طریقہ اجتماعی سزائے موت دینا ہے۔ سعودی عرب میں ہر سال اس اقدام کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ 2016ء میں بھی شیخ باقر النمر کے ہمراہ 46 دیگر افراد کے سر قلم کئے گئے تھے۔
 
اپریل 2019ء میں بھی آل سعود رژیم نے 37 شیعہ شہریوں کو ایک ساتھ قتل کر دیا تھا۔ ان پر 2011ء کے پرامن مظاہروں میں شرکت کا الزام تھا۔ ان میں سے اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ ماضی میں بھی سعودی حکومت نے 1980ء میں ایک ہی دن 63 شہریوں کو قتل کر دیا تھا۔ ان افراد پر مسجد الحرام پر زبردستی قبضے کا الزام لگایا گیا تھا۔ حال ہی میں "سند" نامی انسانی حقوق کے ادارے نے اعلان کیا ہے کہ آل سعود رژیم کی فوجی عدالتوں نے 60 شہریوں کو سزائے موت کا حکم سنا رکھا ہے۔ ان افراد کو سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر گرفتار کیا گیا ہے۔ ان افراد کو دو ماہ قبل ریاض کے قریب واقع "الحائر" جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ ڈیلی ٹیلی گراف سمیت بعض میڈیا ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ آل سعود رژیم نئے سال کی چھٹیوں میں ان افراد کے سر قلم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

تحریر: علی احمدی

لبنان کی حزب اللہ کے اس باخبر ذریعے نے اتوار کی شب بیروت میں ارنا نیوز ایجنسی کے دفتر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصر اللہ انفلوئنزا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد مکمل صحت مند ہیں اور ان کا علاج جاری ہے۔

اس ذریعے نے اس بات پر زور دیا کہ فلو اور ان کی آواز میں بعض مسائل کی وجہ سے ان کے لیے تقریر کرنا مشکل تھا، اس لیے جمعہ کی شام حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کی تقریر کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس باخبر ذریعے کے مطابق، لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منگل کو پاسداران  اسلامی انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے اتحادیوں کی شہادت کی تیسری برسی کے موقع پر خطاب کریں گے۔

یہ تقریب منگل کو مقامی وقت کے مطابق 18:00 بجے (تہران کے وقت کے مطابق 19:30) بیروت میں سید الشہداء اسمبلی میں منعقد ہوگی۔

انقلاب اسلامی ایران کے دوران وہ مشہد کے رضا کامیاب نامی عالم دین سے آشنا ہوئے جنہوں نے ان کو انقلابی سرگرمیوں میں شامل کیا۔ ان کے بھائی سہراب سلیمانی کے بقول، جنرل قاسم سلیمانی، ایران میں اسلامی انقلاب کے دوران کرمان میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاجات کے اہم منتظمین میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔

 

جنرل قاسم سلیمانی نے 1980ءمیں سپاہ پاسدارن انقلاب اسلامی میںشمولیت اختیار کی۔ ایران عراق جنگ کے آغاز پرآپ کرمان کے دو فوجی بٹالینز کے کمانڈر تھے۔مختصر عرصے کے لئے آپ نے سپاہ قدس کے آذربایجان غربی برگیڈ کی کمان سنبھالی۔

شہید قاسم سلیمانی سنہ 1981ء کو سپاہ پاسداران کے اس وقت کے سپہ سالار، محسن رضایی کے حکم سے سپاہ قدس کے 41ویں برگیڈ ثاراللہ کے سربراہ منصوب ہوئے۔

آپ ایران عراق جنگ کے دوران مختلف آپریشنز من جملہ والفجر 8، کربلا 4 اور کربلا 5 نامی آپریشن کے کمانڈر تھے۔

شہیدقاسم سلیمانی سنہ 1998ء میں رہبر مسلمین جہاں آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے سپاہ پاسداران انقلاب کے قدس برگیڈ کے سربراہ منصوب ہوئے۔

شہید قاسم سلیمانی کو سنہ2011ءمیں رہبر مسلمین جہاں آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔

مدافع حرم اہل بیتؑ جنرل قاسم سلیمانی عراق اور شام میں داعش کے خلاف برسر پیکار کمانڈروں میں سے تھے۔آپ نے روضہ ہائے مقدس کا کامیابی سے دفاع کیا اور دشمنوں کی ناک رگڑدی۔21 ستمبر 2017 کو ایک مدافع حرم شہید کے چہلم سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ تین ماہ کے عرصے میں روئے زمین سے داعش کی حکومت کا خاتمہ کردیا جائے گا اور دنیا نے اس بات کو سچ ہوتے دیکھا۔

 

10 مارچ سنہ 2019ء کو رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے جنرل قاسم سلیمانی کو ایران کے سب سے اعلی فوجی اعزاز نشان ذوالفقار سے نوازا گیا۔ اسلامی جمہوری ایران کے فوجی اعزاز دینے سے مربوط قانون کے مطابق یہ نشان ان کمانڈروں کو اور فوجی آفیسروں کو دیا جاتا ہے جن کی حکمت عملی مختلف فوجی آپریشنز میں نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد جنرل سلیمانی پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ نشان حاصل کیا ہ 

  •  
    جنوری 2019 کوبزدلوں اور دہشتگردوں کے سالار امریکہ نے بزدلانہ کاروائی کرتے ہوئے بغداد ایئر پورٹ پر ڈرون حملے میں آپ کو شہید کردیا۔ آپ کے ساتھ حشد الشعبی کے مرکزی رہنما ابو مہدی مہندس اور دیگر رفقاء 
  •  بھی شہادت پائی۔
  • شیعہ نیوز

پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے نے پیر کے روز اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ مجرم امریکی حکومت کی ریاستی دہشت گردی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف منافقانہ رویے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جنرل سلیمانی کا قتل ایک اسٹریٹجک غلطی اور عالمی امن اور سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

اس بیان میں آیا ہے کہ اقوام متحدہ کےایک رکن ملک کے اعلیٰ فوجی کمانڈر کے خلاف دہشت گردانہ اقدام  بین الاقوامی قوانین اور جنیوا کنونشنز کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ کارروائی ایک مجرمانہ اور جارحانہ اقدام تصور کیا جاتا ہے، اور  دنیا اور خطے کے امن و سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ امریکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑے اور تجربہ کار کمانڈر کے قتل کے ساتھ تکفیریوں اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ کے راستے کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔

تہران، ارنا – قائد اسلامی انقلاب نے مزاحمتی محاذ کی بحالی کو شہید جنرل سلیمانی کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ جنرل سلیمانی نے مزاحمت کو مادی اور روحانی کے لحاظ سے مضبوط کرتے ہوئے ناجائز صہیونی ریاست، امریکہ اور دوسرے استکباری ممالک کے خلاف اس کو محفوظ، لیس اور بحال کردیا۔

ان خیالات کا اظہار حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اتوار کے روز شہید جنرل سلیمانی کی شہادت کی تیسری برسی کے موقع پر ان کے اہل خانہ اور یادگاری ہیڈکوارٹر کے اراکین کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

قائد اسلامی انقلاب نے لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ جو ایک مثالی انسان ہیں، کی شہید جنرل سلیمانی کی جد و جہد کے بارے میں شہادت کو اس شہید کے مزاحمتی محاذ کی بحالی کے عظیم کارنامہ کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے ایک بڑا باب قرار دے دیا۔
ایرانی سپریم لیڈر نے صہیونیوں کے خلاف فلسطینیوں کی ترقی اور عراق، شام اور یمن میں مزاحمت کی کامیابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ شہید جنرل سلیمانی نے دفاع مقدس کے دوران کے تجربات سے استعمال اور اپنے اتحادیوں کے مشوروں کے ساتھ ان ممالک کے اندرونی صلاحیتوں پر انحصار کے ذریعہ مزاحمت کو مضبوط کردیا۔
رہبر معظم انقلاب نے داعش دہشت گرد گروپ کا خاتمہ اور اس کی جڑوں کی تباہی کو شہید جنرل سلیمانی کے عظیم کاموں میں سے ایک قرار دے دیا اور فرمایا کہ یہ شہید اس مسئلے کے حل میں کامیاب ہوگئے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے جنرل اسماعیل قاآنی کی اعلی کارکردگیوں کو سراہتے ہو‎ئے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ بہت ہی مسائل میں شہید جنرل سلیمانی کی خالی جگہ پر ہو چکی ہے۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ مزاحمتی محاذ اپنے خود کو اسلامی جمہوریہ کی اسٹریٹجک گہرائی اور اسلام کے بازوؤں کو سمجھتے ہیں اور یہ تحریک اسی سمت جاری رہے گی۔
قائد اسلامی انقلاب نے جنرل سلیمانی کی یادگاری تقریب میں عوام کی پرجوش شرکت کو اس جنرل کے خلوص کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ رواں سال بھی گزشتہ سالوں کی طرح عوام کی موجودگی بہت ہی پرجوش ہے اور اللہ تعالی کی مدد سے شہید جنرل سلیمانی کی تعریف کی تقریبات کے سلسلے میں کوئی مسئلہ اور کمی موجود نہیں ہے۔

جمعہ اشنویہ کے امام استاد سید مصطفی خاتمی نے تقریب خبررسان ایجنسی کے نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے امام صادق علیہ السلام کی موجودگی میں تعلیم حاصل کرنے والے عظیم سنیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: امام ابو حنیفہ نے تعلیم حاصل کی۔  ان کے پیروکاروں ان سے پوچھا کہ "لو لا السنتان لهلک النعمان" کا جملہ صحیح ہے یا نہیں، تو انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ نے فرمایا: اگر میں دو سال تک امام صادق ع  کی شاگردہ میں نہیں ہوتا تو نعمان ہلاک ہوجاتا۔

انہوں نے مزید کہا: میں اس بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ زیادہ تر علوم جو شیعہ اور سنی تک پہنچے ہیں وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس سے حاصل کیا ہے۔

انہوں نے بیان کیا: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے امت اسلامیہ کے اتحاد و اتفاق کی مسلسل سفارش کی۔

انہوں نے واضح کیا: جب وہ مدینہ منورہ میں موجود ہوتے تو دنیا بھر سے لوگ طالب علم کی حیثیت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ ان کی شہادت کے بعد مالکی مذہب کے پیشوا امام مالک مدینہ میں لوگوں کے امور کے انچارج تھے۔

آخر میں انہوں نے امام مالکی کے ایک قول کا حوالہ دیتے ہوئے تاکید کی: امام مالک کے پیروکاروں نے ان سے پوچھا کہ آپ امام جعفر صادق علیہ السلام کو کیسے جانتے ہیں؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"ما رأت عین ولا سمعت اذن ولا خطر على قلب بشر افضل من جعفر بن محمّد الصادق علماً وعبادة وورعاً زهداو عملا"علم و عرفان اور تقویٰ میں جعفر صادق سے بڑھ کر نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل کو نے پہچانا۔

انسانی حقوق کی منظم اور سنگین خلاف ورزیوں کی واضح مثالوں کے باوجود یمن میں جرائم کی جہتیں وسیع پیمانے پر شائع نہیں کی جاتیں۔ بحران کے تسلسل کے امریکی اور یورپی اتحادیوں کے تجارتی استعمال، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی پیٹرو ڈالر ڈپلومیسی کے ساتھ، آٹھ سالہ تباہی کے کٹاؤ کے مرحلے میں داخل ہونے کی بنیاد رکھ دی ہے۔

6 اپریل 2014 سے جو کہ عرب امریکی اتحاد کی تشکیل اور یمن پر آپریشن "فیصلہ سازی کے طوفان" کے نتیجے میں شروع ہوا، کے بعد سے خطے کا یہ غریب ملک آج تک دنیا میں انسانی حقوق کا بحران کا بدترین حالات میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) نے اعلان کیا ہے کہ فوجی جارحیت کے آغاز سے اب تک گیارہ ہزار سے زیادہ یمنی بچے ہلاک یا معذور ہو چکے ہیں۔ یونیسیف کے مطابق یمن میں آٹھ سالہ جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے بچوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا: ہزاروں بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، لاکھوں دوسرے بچے قابل علاج بیماریوں یا بھوک سے مرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ تقریباً 2.2 ملین یمنی بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں سے 25 فیصد کی عمریں پانچ سال سے کم ہیں۔ یونیسیف کے اس اہلکار کے مطابق ان میں سے زیادہ تر بچوں کو ہیضہ، خسرہ اور دیگر ایسی بیماریوں کا خطرہ ہے جن سے حفاظتی ٹیکے لگائے جا سکتے ہیں۔

یمن میں انسانیت کے خلاف جرائم کے 8 سال

جیسا کہ یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے اعلان کیا کہ "یمن میں آٹھ سالہ جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے بچوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے"، یہ ایک حقیقت ہے اور منظم اور سنگین خلاف ورزیوں کی مختلف مثالوں کے باوجود۔ بین الاقوامی قانون، یمن میں انسانی ہمدردی، اس تباہی کے طول و عرض کو وسیع پیمانے پر شائع نہیں کیا گیا ہے۔

یمن میں 2015 سے جاری جنگ دنیا میں انسانی حقوق کے سب سے بڑے بحرانوں میں سے ایک ہے۔ اس وقت یمن کو انسانی حقوق کے بنیادی چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں سعودی عرب کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی اور قحط، سعودی اتحاد کے جنگجوؤں کے ہاتھوں صحت کے مراکز کی تباہی اور متعدی بیماریوں کا پھیلاؤ، سکولوں اور تعلیمی سہولیات کی تباہی اور محرومی شامل ہیں۔ طلباء کی تعلیم سے محروم، میڈیا کارکنوں کی حراست اور ان پر تشدد، متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ فورسز کی طرف سے ان پر تشدد، سیاسی کارکنوں کی من مانی گرفتاری اور سعودی اور اماراتی افواج کی زیر زمین جیلوں میں قید، سلفی گروہوں کی طرف سے بے گھر خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ناروا سلوک، گرفتاری افریقی تارکین وطن اور انسانی اسمگلروں اور متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ قوتوں کے ذریعہ عصمت دری اور اسے سامنا ہے۔

نیچے دیے گئے خاکے میں یمن میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی جہتیں اور مثالیں بیان کی جائیں گی۔ جن جرائم پر انسانی حقوق کی دعویدار تنظیمیں اور ممالک مختلف وجوہات کی بنا پر ان سانحات پر آنکھیں بند کر چکے ہیں۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ یمن میں بے گناہ لوگوں کے قتل اور بنیادی ڈھانچے اور عوامی مقامات کی تباہی کے علاوہ اس ملک کو سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جس نے قحط کا ایک پلیٹ فارم بنا دیا ہے۔

چند روز قبل یمن کی نیشنل سالویشن گورنمنٹ کے نائب وزیر خارجہ حسین العزی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اس ملک کا محاصرہ ایک جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے۔انھوں نے یمن کی ناکہ بندی کو بند کر دیا، گویا یہ جنگی جرم ہے۔

واضح رہے کہ یمن کی نیشنل سالویشن گورنمنٹ کی وزارت صنعت اور کانوں کے غیر ملکی تجارت کے محکمے نے ایک رپورٹ شائع کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ 2015 سے 2021 کے آخر تک ملک کی بیرونی تجارت کو ہونے والے مجموعی نقصانات تقریباً 64.7 بلین ڈالر ہے۔

کون سے ممالک امن کے قیام میں رکاوٹ ہیں؟

کئی سالوں سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکہ سے جو میزائل خریدتے ہیں وہ آئے روز یمنی عوام پر گر رہے ہیں اور یہ تباہی تباہی کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔

یہاں تک کہ رمضان المبارک کے موقع پر طے پانے والے دو ماہ کے جنگ بندی معاہدے کی بھی سعودی اتحاد کی جانب سے ہفتے میں ایک ہزار سے زائد مرتبہ خلاف ورزی کی گئی ہے، تاکہ اسی دوران یمنی فوج کا میڈیا یونٹ اعلان کیا: "سعودی اتحاد کی افواج نے جنگ بندی کے نفاذ کے پہلے ہفتے میں 1,647" یمن میں قائم انسانی اور فوجی جنگ بندی کی خلاف ورزی کی۔

یمنی "المسیرہ" نیٹ ورک کی چند روز قبل کی ایک رپورٹ کے مطابق، جارح سعودی اتحاد کی افواج نے یمن کے شہر الحدیدہ میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 128 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی، جن میں سے 6 بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی۔ مغربی ساحل پر ہیز کے علاقے پر جاسوس طیاروں کی پروازیں یمن اور اس کے علاوہ توپ خانے کے حملوں کے ذریعے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے 33 اور مختلف گولیوں سے خلاف ورزی کے 80 واقعات سامنے آئے ہیں۔

عربوں کو ہتھیاروں کی فروخت سے امریکہ کا بھرپور منافع یمن میں جرائم کے خاتمے کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ ہے۔ یمن کی تحریک انصاراللہ امریکہ، برطانیہ اور سعودی اتحاد کو یمن میں امن کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔

حال ہی میں یمن کی تحریک انصار اللہ کے سیاسی بیورو کے رکن "علی الخوم" نے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا: "یہ امن کے لیے کھلا ہے، اور اس کے سامنے رکاوٹ پیدا کرنے والا امریکہ، انگلینڈ اور ان کے سعودی اور اماراتی نمائندے، جو جارحیت کو روک کر اور ناکہ بندی ہٹا کر ہوائی اڈے اور بندرگاہیں کھولنے اور عملے کی تنخواہیں تیل اور گیس کی آمدنی سے ادا کرنے جیسے انسانی مسائل کے خلاف ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: یمن میں امریکہ کا دوہرا معیار واضح ہے۔ اس طرح کہ یوکرین میں وہ امن اور مذاکرات کو بنیادی بنیاد کے طور پر سمجھنے کے لیے انخلاء کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن یمن میں امریکہ کا موقف مختلف ہے اور وہ جارحیت کو روکے بغیر جبر اور جارحانہ اقدامات جاری رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔

یمن میں امن کے حصول کی راہ میں مغرب کی رکاوٹیں ایسی حالت میں جاری ہیں کہ اگر یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ اگر جنگ 2030 تک جاری رہی تو یمن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 300 ہزار تک پہنچ جائے گی؛ ایک حقیقت جس پر یونیسیف اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل جیسے اداروں کو توجہ دینی چاہیے اور ان کا ردعمل صرف بیان اور شماریاتی رپورٹ شائع کرنے کی سطح پر نہیں ہونا چاہیے۔

.taghribnews

سردار قاسم سلیمانی شہید صرف 19 سال کی عمر میں دوسرے بہت سے نوجوانوں کی طرح، انقلابیوں اور سپاہ کی طرف راغب ہوئے اور فوج میں ان کا داخلہ ان کی شہرت اور ترقی کی پہلی سیڑھی تھی۔ ان کی زندگی کا پہلا مشن کرمان میں مقیم طیاروں کی حفاظت کرنا تھا۔ بعد میں وہ تربیتی بیرکوں کے کمانڈر بنے اور اسی سال ایران عراق جنگ میں شرکت کی۔ ایران عراق جنگ کے پہلے مشن میں انہیں ثاراللہ فوج کی کمانڈ سونپی گئی۔ جو ایک اہم فوج بن گئی اور جنگ کے خاتمے پر اس کے کمانڈر قاسم سلیمانی تھے۔ سابق کمانڈر محمد علی جعفری کے مطابق شروع میں وہ زیادہ معروف نہیں تھے۔ تاہم، جنگ کے اختتام تک، وہ ایک اعلیٰ درجے کے کمانڈر بن چکے تھے۔ جنگ کے بعد، 8 سال تک انھوں نے انسداد منشیات مشن کی سربراہی کی۔ مگر سب سے اہم مشن جو ان کی زندگی کے آخر تک جاری رہا۔ رہبر معظم کے فرمان کے مطابق انھیں قدس فورس کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ قدس فورس سپاہ کی بیرون ملک شاخ تھی، جو قاسم سلیمانی کے دور میں ایک بہت بڑی سکیورٹی، ثقافتی اور اقتصادی فوجی تنظیم بن گئی، جس کے تحت شام، عراق، لبنان، یمن، افغانستان اور فلسطین میں درجنوں ملیشیا گروپس بنے۔ پچھلی دہائی میں قدس فورس کی سرگرمیوں کا سب سے اہم پہلو سیاسی سرگرمیاں تھیں، قاسم سلیمانی کی ترقی اور شہرت ان کے کردار اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا نتیجہ تھی۔

مشرق وسطیٰ میں سیاسی کشیدگی اور شام میں بڑی علاقائی جنگ کے دوران قاسم سلیمانی کو خطے میں آیت اللہ خامنہ ای کے وزیر خارجہ کے طور پر جانا جانے لگا۔ قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی نے خود کو دنیا میں اسرائیل کے نمبر ایک دشمن کے طور پر متعارف کرایا، ایرانی سپاہ کی قدس فورس کے کمانڈر کی حیثیت سے امریکی حکومت کیخلاف اپنے طنز کا دائرہ بڑھا دیا۔ وہ شام اور عراق کی جنگوں میں ایران کے پہلے کمانڈر تھے، انہوں نے داعش کے کیس کو ہینڈل کیا اور ان کا خاتمہ کیا۔ عراق میں اماموں کے مزارات کی تعمیر نو کی صورت میں عراق اور ایران کے درمیان اربوں ڈالر کے بڑے اقتصادی اور تعمیراتی منصوبوں پر کام کیا، عراق کے بحران کو حل کرنیوالے نظام میں اہم ذمہ داری ادا کی۔ کردستان کی آزادی ہو، عراقی وزرائے اعظم کی تقرری اور خطے کے دوسرے بہت سے اہم واقعات اور فیصلے، یہ سب ان کے نام سے جڑے ہوئے تھے اور ان سب چیزوں کی وجہ سے وہ پچھلے چالیس سالوں میں ایرانی فورس کے سب سے اہم کمانڈر بن چکے تھے۔ انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز "ذوالفقار" سے نوازا گیا۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد جنرل سلیمانی پہلے شخص ہیں، جنہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔

قاسم سلیمانی کو بین الاقوامی شہرت دینے والے کردار نے انہیں ایک کرشماتی شخصیت بنا دیا تھا۔ قاسم سلیمانی کی تصویر ٹی شرٹس سے لے کر کمپیوٹر گیمز تک سب سے اوپر تھی اور ایرانی فورس کے سب سے مقبول چہرے کے طور پر ان کا نام سرفہرست تھا۔ سپاہ قدس کے کمانڈر افغانستان میں بھی فعال تھے۔ بعض مجاہدین کے بقول، وہ بارہا طالبان اور القاعدہ سے جنگ کے سلسلہ میں افغانستان کا سفر کرتے تھے۔ اسی طرح سے انہوں نے داخلی جنگ کے بعد افغانستان کی باز سازی کے سلسلہ میں بہت سے اقدام انجام دیئے ہیں۔ افغان فوجیوں کے مطابق ان کی شخصیت میں ایک اپنا پن تھا۔ وہ افغان اتحادیوں کیساتھ احترام سے پیش آتے تھے اور بلا تکلف ان کے دسترخوان پر بیٹھ جاتے تھے۔ انہیں کردستان کی داخلی جنگ، ایران عراق جنگ اور ایران و افغان سرحدوں پر منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں سے مقابلے کا بڑا تجربہ تھا۔ اسرائیل کے لبنان پر حملے اور 33 روزہ جنگ  کے دوران قاسم سلیمانی بیروت میں حزب اللہ کے مرکزی کمانڈ کے طور پر کنٹرول روم میں موجود رہے۔

قاسم سلیمانی عراق اور شام میں داعش کیخلاف برسر پیکار رہے۔ ایران نے مشرق وسطیٰ میں امن و امان کی بحالی کیلئے اس گروہ کے ساتھ مقابلہ شروع کیا اور داعش کو عراق سے نکال باہر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 21 نومبر سنہ 2017ء کو جنرل قاسم سلیمانی نے خط میں آیت اللہ خامنہ ای کی خدمت میں داعش کی نابودی کا اعلان کیا۔ جو ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ سنہ 2019ء میں امریکی اخبار فارن پالیسی نے اپنے ایک خصوصی شمارہ میں، جس میں وہ ہر سال دنیا بھر کے 100 بہترین دانشمندوں کے نام تعارف کے طور پر شائع کرتا ہے، جنرل قاسم سلیمانی کا نام دنیا کے 10 منتخب دفاعی امنیتی مفکروں میں شامل کیا۔ قاسم سلیمانی کے اوپر کئی بار جان لیوا حملے کئے گئے۔ پہلی بار سنہ 1982ء میں ایک ڈاکٹر نے مشہد شہر میں ان پر جان لیوا حملہ کیا۔ اسی طرح کرمان شہر میں قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے والے افراد کو گرفتار کیا گیا اور بالآخر جنرل قاسم سلیمانی نے 3 جنوری 2020ء کو ایک دہشت گردانہ امریکی ڈرون حملے میں شہادت پائی۔ یہ حملہ ان کی گاڑی پر اس وقت کیا گیا، جب وہ بغداد ایئرپورٹ سے نکل رہے تھے۔ اس حملہ میں ان کیساتھ عراق کی رضاکار فورس کے نائب ابو مہدی المہندس سمیت بعض دیگر افراد بھی شہید ہوئے۔ اس حملے کے کچھ دیر بعد امریکی وزارت دفاع نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ قاسم سلیمانی کی گاڑی پر حملہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حکم سے کیا گیا ہے۔

آپ کی شہادت پر دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج بن گئے۔ مختلف ممالک میں مظاہرے و احتجاج ہوئے اور ان کی یاد اور تعزیت میں ایران کے علاوہ پوری دنیا میں پروگرامز اور تعزیتی جلسے منعقد ہوئے۔ مختلف ممالک کی سیاسی اور مذہبی شخصیات نے ان کی شہادت پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تعزیتی پیغامات دیئے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے تعزیتی پیغام میں آپ کو مقاومتی بلاک کی بین الاقوامی شخصیت قرار دیا اور آپ کی شہادت کی مناسبت سے ایران میں تین دن سوگ کا اعلان کیا۔ اسی طرح مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ نے بھی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کے اس اقدام کی شدید مذمت کی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر، اگنیس کالامرڈ۔(Agnès Callamard) نے قاسم سلیمانی اور ابو مہدی کے قتل کو غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ امریکہ کے مورخ ایروند ابراہمیان (Ervand Abrahamian) نے کہا کہ کہ اس سانحے سے پہلے ایرانی، امریکہ کو ایک سازش کار حکومت سمجھتے تھے، اس حادثے کے بعد سے ایک دہشت گرد حکومت بھی سمجھیں گے۔

قاسم سلیمانی کی شہادت کے نتیجے میں بعض اثرات و نتائج سامنے آئے:
قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت کے بعد، عراق کی سیاسی پارٹیوں اور عوام نے امریکہ کی فوج کو عراق سے نکالنے کا مطالبہ کر دیا اور عراقی پارلیمنٹ نے 5 جنوری 2020ء میں ایک فوری جلسہ بلایا اور اس میں عراق سے امریکہ کی فوج کے انخلاء کا بل پاس کیا۔ 8 جنوری 2020ء کو ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے قاسم سلیمانی کے قتل کے بدلے میں امریکی فوج کے عراق میں عین الاسد ائیربیس پر میزائلوں سے حملہ کیا اور امریکہ کے سپر پاور کے دعوے کو ایران نے چکنا چور کر دیا، جب اس کے جدید ترین آلات ایرانی میزائل سے بے خبر اور ان کی نشاندہی کرنے میں بھی ناکام رہ گئے تھے۔ جس سے پوری دنیا میں امریکہ کی خوب جگ ہنشائی ہوئی۔ جمہوری اسلامی ایران کے کیلینڈر میں اس دن کو روز جہانی مقاومت کے عنوان سے ثبت کیا گیا ہے۔

قاسم سلیمانی شہید ساری زندگی حضرت زہراء سلام اللہ علیھا سے توسل کرتے رہے اور ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔ اسی لئے ان کی شہادت کے ایام اور تدفین بھی ایام فاطمیہ سے جُڑ گئی۔ یہ ان کی عظیم شہادت کیلئے سعادت اور قبولیت کی بات ہے۔ قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کی تاریخی تشیع جنازہ عراق کی سیاسی و مذہبی شخصیات اور عوام کی کثیر تعداد کی موجودگی میں عراق کے شہر بغداد، کربلا اور نجف میں ہوئی۔ اس کے بعد شہداء کے جنازے ایران منتقل ہوئے اور اہواز، مشہد، تہران اور قم میں تشییع جنازہ ہوئی۔ تہران میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور دیگر شہداء کے جنازے پر نماز جنازہ پڑھائی اور قاسم سلیمانی شہید کے تشییع جنازہ کو امام خمینی کے بعد تاریخ کا سب سے بڑا تشییع جنازہ قرار دیا۔ سپاہ پاسدار انقلاب اسلامی کے ترجمان کے مطابق 25 ملین لوگوں نے تشییع جنازہ میں شرکت کی۔

یوں شہید سردار قاسم سلیمانی کیساتھ ایک مسلسل جدوجہد کا عہد تمام ہوا، لیکن ان کا کردار ہمیشہ کیلئے زندہ رہ گیا ہے۔ میرے خیال میں وہ اگر زندہ رہتے تو جو ایک کام باقی رہ گیا تھا، وہ بھی پورا ہو جانا تھا اور وہ تھا قدس کی آزادی۔ خدا کو یہی منظور تھا۔ لیکن بحیثیت مسلمان میرا یہ عقیدہ ہے کہ قدس کی آزادی کیلئے ان شاء اللہ وہ کسی اور سلیمانی کو جلد ہی بھیج دے گا۔ قاسم سلیمانی ایک ایسا مسلمان مجاہد لیڈر تھا، جس کے نام سے دشمن اسلام لرز اٹھتا تھا۔ عالم اسلام کے دشمنوں نے اسے دہشت گرد قرار دیا، لیکن وہ عالم اسلام کا حقیقی شہید او ہیرو تھا۔ آج دشمن ان کے نام والی پوسٹ کو سوشل میڈیا سے تو ہٹا سکتا ہے، بلاک کرسکتا ہے، لیکن قاسم سلیمانی کے کردار اور شخصیت نے عالم اسلام کے دلوں میں جو گھر بنایا ہے، اسے کبھی بھی نہیں مٹا سکتا۔ کبھی بھی نہیں۔

تحریر: شبیر احمد شگری