سلیمانی

سلیمانی

اب بھی قاسم سلیمانی کا نام دشمنوں کے دل میں رعب اور وحشت ڈال دیتا ہے۔ وہ تزویراتی منصوبہ بندی، بصیرت اور سوچ و ایمان کے ذریعے دشمنوں کا مقابلہ کرنے جیسے اصولوں کی بنیاد پر "مکتب سلیمانی" ایجاد کرنے میں کامیاب رہے۔ دشمنوں کو نابود کرنے والا شہر کے دور ترین حصے سے آیا۔ وہ مکتب امام خمینی رح کے نور کا ایک حصہ تھا جو ظالموں پر کسی قسم کا رحم یا نرمی نہیں دکھاتا تھا۔ اس کا دل حیدری شجاعت سے لبریز تھا۔ وہ دہشت گردوں کے مقابل ڈٹ گیا اور انہیں نیست و نابود کر ڈالا۔ اس نے حسینی جذبے سے غاصب صیہونی رژیم کے مقابلے میں مزاحمت کی اور ناقابل شکست ہونے کی دعویدار فوج کے مقابلے میں فتح یاب ہوا۔ آج جنوبی لبنان اور اس کے جنوب میں واقع مقبوضہ فلسطین، شام اور عراق اس کی کامیابیوں سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔
 
شہید قاسم سلیمانی دنیا بھر سے ہزاروں جوانوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان جوانوں نے ان کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ان کی تعلیمات کو عملی شکل عطا کی۔ وہ ان تمام جوانوں کے رہبر اور رول ماڈل تھے۔ شہید قاسم سلیمانی ایک شجاع ہیرو اور عظیم لیڈر تھے جنہوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں حق کا پرچم لہرایا۔ جولائی 2006ء میں غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت کے دوران لبنان کے جنوبی گاوں اور محلے ان کی جدوجہد کے گواہ ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی خطرے میں ڈال دی۔ وہ فتح کے معمار اور جنوبی لبنان کی واضح کامیابی کے بانی تھے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ ان کے بارے میں کہتے ہیں: "وہ مصیبت کے وقت حاضر ہونے والا شخص تھا۔ مشکل دنوں میں، جیسے 2006ء میں 33 روزہ جنگ تموز کے دوران وہ تہران سے دمشق آئے۔"
 
سید حسن نصراللہ مزید کہتے ہیں: "انہوں نے ہم سے رابطہ کیا اور کہنے لگےکہ میں جنوبی حصے میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ ایسا ممکن نہیں ہے۔ تمام پل تباہ ہو چکے ہیں، سڑکیں صیہونی بمباری کے نتیجے میں بند ہو چکی ہیں، صورتحال مکمل طور پر جنگی ہے اور ضاحیہ یا بیروت پہنچنا ناممکن ہے۔ لیکن انہوں نے بہت اصرار کیا اور کہا کہ اگر آپ میرے لئے گاڑی نہیں بھیجتے تب بھی میں آپ کے پاس آ جاوں گا۔ انہوں نے اصرار کیا اور آخرکار ضاحیہ پہنچ گئے اور کافی عرصہ ہمارے پاس رہے۔" شام میں، اس ملک کے خلاف عالمی جنگ کے دوران، شہید قاسم سلیمانی نے جنگ کیلئے رابطہ مہم چلانے، جنگ کی مدیریت کرنے اور پشت پناہی کرنے کیلئے اعلی درجہ کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ وہ ہمیشہ فرنٹ لائن پر تھے اور انہوں نے دفاعی جنگ کی حتمی فتح تک قیادت کی۔ ہم حتی روس میں انہیں دیکھتے ہیں۔
 
وہ اڑھائی گھنٹے تک روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کرتے ہیں اور انہیں اسلامی مزاحمتی بلاک کی اسٹریٹجی سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہ وہ بات ہے جو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سابق چیف کمانڈر اور آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر اعلی رحیم صفوی نے بتائی ہے۔ اسی طرح عراق کے علاقے کردستان میں شہید قاسم سلیمانی کے عظیم کارناموں کا ذکر ضروری ہے۔ انہوں نے وہاں داعش کو شکست دی اور کردستان انتظامیہ نے اس بارے میں کہا کہ اگر قاسم سلیمانی نہ ہوتے تو کردستان داعش کے قبضے میں چلا جاتا۔ جب ہم یہ تمام واقعات بیان کرتے ہیں تو ہمیں ماضی کو حال سے جوڑنا چاہئے اور یہ بھی بیان کرنا چاہئے کہ شہید قاسم سلیمانی نے کس طرح دسمبر 2017ء میں رہبر معظم انقلاب کو پیغام دیا کہ ہم نے شام اور عراق میں داعش کو شکست دے دی ہے۔
 
اور کس طرح اسی وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں نے ایران میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آخرکار شہید قاسم کی دعا، نیک شہداء کے درجات میں بلندی اور رہبر معظم انقلاب کی آگاہی کی بدولت ایران دشمنوں کی تمام سازشوں پر غالب آ گیا۔ جب ہم شہید قاسم سلیمانی کے شجاعانہ اقدامات کا ذکر کرتے ہیں تو کیسے فلسطین سے ان کے عشق اور فلسطین کی آزادی کیلئے ان کی قربانیوں کو نظرانداز کر سکتے ہیں؟ تمام مجاہدین اور دنیا کے تمام حریت پسند انسانوں نے ان قربانیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ فلسطین میں مزاحمتی کمیٹیوں کے کمانڈر محمد البریم ابومجاہد کہتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی "امریکی صیہونی استکبار" کے خلاف جدوجہد اور مقابلے کی علامت تھے۔ وہ دنیا کے تمام آزادی پسند انسانوں کیلئے شجاعت اور فتح کی علامت ہیں۔ ابومجاہد مزید کہتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی نے صیہونی رژیم کی بقا کیلئے عظیم چیلنج ایجاد کیا۔
 
اور وہ خطے پر قبضے اور قدرتی ذخائر کی لوٹ مار پر مبنی امریکی عزائم کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ شہید قاسم سلیمانی نے مقبوضہ فلسطین میں مجاہدین تک اسلحہ پہنچانے اور اسلامی مزاحمت کی کامیابی کیلئے حکمت عملی تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ نومبر 2019ء میں دہشت گردی کو شکست دینے میں ان کی عظیم خدمات کی خاطر انہیں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا اعلی ترین میڈل یعنی ذوالفقار میڈل عطا کیا گیا۔ کیا وہ ایسا فرشتہ نہیں تھے جو ہمارے پاس آتا جاتا تھا؟ جیسا کہ امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے ان کی قبر میں رکھنے کیلئے اپنی عبا، جس میں انہوں نے چودہ سال تک نماز شب ادا کی تھی، اپنی ذاتی انگوٹھی، امام حسین علیہ السلام کا پرچم اور شہداء کی جانب سے خط عطا کیا اور ان کے بارے میں فرمایا: شہید قاسم سلیمانی انسان کے روپ میں ملت تھا اور وہ عالمی مزاحمتی بلاک کے شہداء کا سردار ہے۔

تحریر: نسرین نجم (عرب تجزیہ نگار)

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) شام میں امریکی دہشت گرد فوج کے غیر قانونی فوجی اڈے پر راکٹوں سے ایک بار پھر حملہ ہوا ہے ۔

روسی خبررساں ایجنسی اسپوتنک کی رپورٹ کے مطابق امریکی دہشت گردوں کے اڈے پر راکٹوں سے حملہ ہوا ہے ۔ امریکہ کا یہ فوجی اڈہ شام کے صوبے دیرالزور میں واقع ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اس فوجی اڈے پر کئی راکٹ فائر کئے گئے۔ راکٹ حملوں کے بعد دھماکوں کی شدید آوازیں سنائی دیں۔

امریکہ کے فوجی اڈے میں راکٹ حملے سے ابھی تک مالی اور ممکنہ جانی نقصان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔

23 نومبر کو بھی العمر آئل فیلڈ پر حملہ ہوا تھا۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران شمالی شام میں العمر آئل فیلڈ کے علاقے میں قائم امریکی غیر قانونی فوجی اڈہ بارہا راکٹ حملوں کی زد پر رہا ہے۔

شامی حکومت بارہا یہ واضح کر چکی ہے کہ مشرق اور شمال مشرقی شام کے علاقوں میں غیر قانونی طور پر موجود امریکی فوجیوں اور انکے حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورس (ایس دی ایف) نام سے موسوم دہشتگرد گروہ کا مقصد تیل کے ذخائر لوٹنے کےعلاوہ کچھ بھی نہیں اور ان کا یہ غیر قانونی سلسلہ بند ہونا چاہئے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز دیرالزور ہی کے علاقے میں محنت کشوں اور مزدوروں کی حامل تین بسوں پر دہشت گردانہ حملے میں بارہ افراد جاں بحق و زخمی ہوگئے تھے۔ شامی حکومت نے اس دہشتگردانہ حملے کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا تھا۔

تہران، ارنا - بغداد میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر نے کہا ہے کہ دہشت گردی اور اس کی سازشوں کو شکست دینے میں دو شہیدوں جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی سرگرمیاں اور کردار ناقابل فراموش ہے۔

یہ بات محمد کاظم آل صادق نے جمعہ کے روز عراقی صوبے نینوا میں جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت کی تیسری سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ ان شہید کمانڈروں نے دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کیلیے بہت کوششیں کی ہیں۔ شہید سلیمانی داعش کے حملے کے ابتدائی لمحات میں عراق گئے۔

ایرانی سفیر نے بتایا کہ عراق میں ایران کے سفیر نے مزید کہا کہ جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھی ابو مہدی المہندس کی جدوجہد ناقابل فراموش ہے کیونکہ انہوں نے دہشت گردی کے منصوبوں کو ناکام بنایا۔

آل صادق نے کہا کہ جنرل سلیمانی نے دہشت گردی کے خلاف مزاحمت اور جنگ کے لیے ایک تحریک کو بنایا جس سے خطے کے بہت سے بچے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔

تین سال پہلے 3 جنوری کی صبح سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سابق چیف کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی، عراق میں داعش کے خلاف نبرد آزما حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابومہدی المہندس اور ان کے چند دیگر ساتھیوں کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب امریکی ڈرون طیارے کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔ یہ حملہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم پر دہشت گرد امریکی فوج نے انجام دیا تھا۔ اس دہشت گردانہ کاروائی میں امریکی فوج کو علاقائی ایجنٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس ایران اور عراق کے باقاعدہ سرکاری عہدیداران تھے لہذا امریکہ کی یہ دہشت گردانہ کاروائی تمام بین الاقوامی قوانین اور اور مقررات کی کھلی خلاف ورزی تھی۔

اکثر تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ نے اسلامی مزاحمتی بلاک کو کنٹرول کرنے میں امریکیوں کی کمزوری اور بے چارگی مزید عیاں کرنے کے علاوہ خطے میں عالمی استکبار کی منصوبہ بندی کو بھی شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔ امریکی حکمران گمان کر رہے تھے کہ شہید قاسم سلیمانی کو راستے سے ہٹانے کا نتیجہ خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی کامیابیوں کا سلسلہ رک جانے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ لیکن عوامی محبوبیت کے حامل اس فوجی کمانڈر کی شہادت سے نہ تو اسلامی وحدت کو نقصان پہنچا، نہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی کامیابیوں کا سلسلہ تھما اور نہ ہی مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کی توجہ کے مرکز سے باہر نکلا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شہید قاسم سلیمانی مختلف فوجی اور سفارتی محاذوں پر فعالیت انجام دینے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ میں وحدت اور مسئلہ فلسطین کی بھی بھرپور حمایت کرتے رہتے تھے۔

شہید قاسم سلیمانی اس بات پر پختہ عقیدہ رکھتے تھے کہ مسئلہ فلسطین اصل میں امت مسلمہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور جہاں تک ممکن ہو بھرپور توانائی سے اس کی حمایت کرنی چاہئے۔ لہذا انہوں نے قدس شریف اور مقبوضہ فلسطین کو آزاد کروانے نیز غاصب صیہونی رژیم کے مکمل خاتمے اور خطے سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کیلئے مختلف اسلامی فرقوں اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان وحدت اور اتحاد ایجاد کرنے کو اپنا بنیادی ترین اصول بنا رکھا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی کا عقیدہ تھا کہ مختلف اسلامی فرقوں اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان وحدت کا فروغ، خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی تقویت کا باعث بنتا ہے اور اگر اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان یہ وحدت قائم ہو جاتی ہے تو خطے میں امریکی مداخلت بند ہونے کے ساتھ ساتھ مجرم صیہونی رژیم کی کانپتی بنیادیں مزید کمزور ہو کر آخرکار نابود ہو جائیں گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شہید قاسم سلیمانی نے مختلف اسلامی فرقوں اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان اتحاد اور وحدت کی فضا قائم کر کے اسلامی دنیا کو ایک ایسے راستے پر لگا دیا ہے جو متحدہ محاذ کی جانب گامزن ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ خطے اور دنیا کے اہلسنت اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان بے مثال ہم آہنگی اور وحدت پیدا ہو چکی ہے۔ اب یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ خداوند متعال کی خاص عنایت کے نتیجے میں امت مسلمہ عنقریب نئی اسلامی تہذیب و تمدن تشکیل پا سکے گی اور عظیم کامیابیوں سے بھی ہمکنار ہو جائے گی۔ اگرچہ امت مسلمہ کی دشمن قوتیں اس میں تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں لیکن علماء اسلامی کی بیداری اور ہوشیاری کے نتیجے میں یہ سازشیں بے اثر ہو جائیں گی۔

غاصب صیہونی رژیم کے خلاف لبنان کی 33 روزہ جنگ اور فلسطینی مجاہد گروہوں کی جنگوں میں کامیابی نیز عراق اور شام میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی نام نہاد خلافت کا خاتمہ، خطے سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی باتوں کا آغاز اور اسلامی فرقوں اور اسلامی مزاحمتی گروہوں میں اتحاد اور وحدت کی فضا کا قیام شہید قاسم سلیمانی کی ہی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور یہ تمام کامیابیاں عنقریب اسلامی تہذیب و تمدن کے قیام کی نوید دے رہی ہیں۔ یہ تمام کامیابیاں، شہید قاسم سلیمانی کی مخصوص ہدایات کے زیر سایہ اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ لیکن امریکی حکمران اس بات سے غافل تھے کہ اسلام جیسے عظیم مکتب میں شہادت وحدت اور نجات کا باعث بنتی ہے اور شہداء کا خون اسلامی دنیا کا مستقبل روشن کر دیتا ہے۔

دین مبین اسلام کے آغاز سے ہی یہ حقیقت قابل مشاہدہ ہے کہ کس طرح شہدائے اسلام کا خون مسلمانوں اور دنیا بھر کے حریت فکر رکھنے والے انسانوں کی ہدایت اور ان میں وحدت کی فضا قائم ہونے کا باعث بنا ہے۔ اگر امریکی دہشت گرد اور خطے میں ان کے ایجنٹ اس حقیقت سے باخبر ہوتے کہ شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ یوں قومی اور علاقائی وحدت کا باعث بن جائے گی اور شہید قاسم سلیمانی ایرانیوں اور امت مسلمہ کیلئے ایک ہیرو میں تبدیل ہو جائیں گے تو وہ ہر گز یہ مجرمانہ اقدام انجام نہ دیتے۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد خطے کے تمام اسلامی مزاحمتی گروہ آہنی عزم اور ارادے کے ساتھ امریکہ کے مقابل آن کھڑے ہوئے ہیں اور پوری طاقت سے امریکہ سے انتقام کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح وہ خطے سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کیلئے بھی پرعزم ہیں۔ لہذا شہید قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے خون کا سب سے بڑا اثر مسئلہ فلسطین کی مرکزیت میں امت مسلمہ کا متحد ہو جانا ہے۔تحریر: سیروس فتح اللہ

 
کس قلم یا بیان میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کا وصف بیان کرنے کی صلاحیت ہے؟ وہ فاطمہ س جو آیت "تطہیر" میں ہر قسم کی نجاست سے پاکیزہ واحد خاتون قرار پائی ہیں۔ وہ فاطمہ س جو واقعہ "مباہلہ" میں پیغمبر اکرم ص، امام علی ع، امام حسن ع اور امام حسین ع کے ہمراہ واحد خاتون تھیں۔ وہ فاطمہ س جو سورہ کوثر میں خیر کثیر ہیں اور خداوند متعال کی جانب سے پیغمبر عظیم الشان ص کو خاص عطیہ ہیں۔ وہ فاطمہ س جو قرآن کریم کے بقول "یطعمون الطعام علی حبه" اور اپنی اور اپنے اہلخانہ کی افطاری مسلسل تین دن تک مسکین، یتیم اور اسیر کو بخشنے والی ہیں۔ وہ فاطمہ س جو رسول اکرم ص کے بقول "ام ابیہا" ہیں۔ وہ فاطمہ س جو ہر حال میں نبوت کی حامی تھیں اور پیغمبر اکرم ص کی مطیع اور ہمراہ تھیں۔
 
وہ فاطمہ س جن کی کائنات کی برترین ہستی اور حبیب خدا حضرت محمد مصطفی ص کی نظر میں ایسی قدر و منزلت تھی کہ جب بھی آتیں آنحضور ص اٹھا کر ان کا احترام کرتے، ان کی جانب بڑھتے اور ان کی پیشانی اور ہاتھوں پر بوسہ دیتے تھے۔ وہ فاطمہ س جو امیرالمومنین علی علیہ السلام کی واحد "کفو" تھیں اور انے کے قرآنی طرز زندگی نے جنت کے جوانوں کے سردار حسنین شریفین علیہما السلام جیسے بچوں کی تربیت کی اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا جیسی بے مثال بیٹی کو پالا۔ وہ فاطمہ س جو اپنی انفرادی، گھریلو اور اجتماعی زندگی میں قرآن کریم کا مجسم نمونہ تھیں۔ فاطمہ س وہی بے مثال گرانقدر خاتون ہیں جن کے والد عالم ہستی کے برترین باپ، حبیب خدا، خاتم النبیین اور رحمت للعالمین ہیں۔ وہ فاطمہ س جن کے شوہر قرآن ناطق، پیغمبر ص کی جان، ساقی کوثر، دوزخ اور بہشت تقسیم کرنے والے اور امیرالمومنین ہیں۔
 
وہ فاطمہ س جن کے بچے حسن و حسین اہل بہشت جوانوں کے سردار اور ام کلثوم اور زینب زہد و تقوی اور پاکدامنی و حیا کا مظہر ہیں۔ لہذا علی ع و فاطمہ س کی الہی تربیت کے نتیجے میں حضرت زینب س "پیغمبر کربلا" کے درجے پر فائز ہوتی ہیں۔ فاطمہ س خدا پر پختہ عقیدہ رکھنے والی قرآن کے علوم سے آگاہ وہ جلیل القدر خاتون ہیں جنہوں نے رسول اکرم ص کی وفات کے بعد بھی نبوت اور نبوی میراث کی حمایت کا پرچم زمین پر نہیں گرنے دیا اور حقیقی محمدی ص اسلام یعنی امامت و ولایت کی حمایت جاری رکھی۔ جناب صدیقہ طاہرہ س نہ صرف مسلمان خواتین کیلئے مکمل اسوہ ہیں بلکہ ہر اہل معرفت، بصیر، حق مدار اور حق طلب انسان کیلئے مکمل رول ماڈل ہیں۔ وہ فاطمہ س جس نے خاتم الانبیاء ص کی رحلت کے بعد فتنوں کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈوبے دور میں حق کی آواز بلند کی۔
 
وہ فاطمہ س جس نے رحلت رسول اکرم ص کے بعد خدا پر پختہ ایمان کے ساتھ حق کا ساتھ دیتے ہوئے انتہائی شجاعانہ انداز میں شرعی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے سنت نبوی ص اور امامت و ولایت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی حمایت کا پرچم بلند کیا۔ وہ پرچم جسے بلند رکھنے پر خود رسول خدا ص بارہا تاکید کر چکے تھے اور خداوند حکیم کا وہ اہم حکم جو رسول خدا ص کی جانب سے علی علیہ السلام کی وصایت، امامت اور ولایت کے اعلان، ابلاغ اور وصیت پر مبنی تھا اور خداوند متعال نے اس اعلان کو رسول خدا ص کی پوری رسالت کے ہم پلہ قرار دیا تھا۔ اور اس حکم کے اعلان اور ابلاغ کے بعد خداوند منان نے آیہ کریمہ "الیوم اکملت لکم دینکم۔۔" نازل فرمائی تاکہ امامت، ولایت اور پیغمبر ص کے بعد ان کی جانشینی کی اہمیت پر تاریخ بھر کیلئے ہمیشگی گواہ بن جائے۔
 
حضرت زہرا س جنہوں نے اس پرچم کو اونچا رکھنے کیلئے کس قدر مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں۔ وہ پرچم جو صراط مستقیم کا پرچم ہے۔ وہ پرچم جو آئین محمدی ص اور سنت نبوی ص کی بقا کا پرچم ہے۔ وہ پرچم جو ہر قسم کے انحراف سے دوری اور امامت و ولایت کے راستے کی جانب ہدایت کا پرچم ہے۔ حضرت صدیقہ طاہرہ س عالم ہستی کا عظیم راز اور شب قدر کی حقیقت ہیں اور پروردگار عالم کی بارگاہ میں ان کے مقام کی عظمت بے مثال ہے۔ انہوں نے نبوت و امامت و ولایت کی حامی کے روپ میں ایک لمحے کیلئے بھی اپنی جدوجہد ترک نہیں کی۔ حتی اس وقت جب ان کے گھر کا دروازہ جلایا گیا۔ وہ دروازہ جس پر کبھی رسول خدا ص دستک دیا کرتے تھے اور اس گھر والوں پر سلام بھیجتے تھے۔
 
ظلم و ستم سے اس عظیم خاتون کا پہلو توڑ دیا گیا اور رسول خدا ص کی بیٹی کی بے حرمتی کی گئی اور حتی اس کا گریہ بھی برداشت نہیں کیا گیا جو البتہ مزاحمت، احتجاج اور حق طلبی کا گریہ تھا۔ لیکن فاطمہ س ہمیشہ تک "راہ" بھی ہے، "نشانی" بھی ہے، "رہنما" بھی ہے، "رہبر" بھی ہے اور مزاحمت کا رول ماڈل بھی ہے۔ جب تک ان کی سانسوں میں سانس تھا وہ حق طلبی، انصاف طلبی، دین محمدی ص، سنت نبوی ص اور امامت و ولایت امیرالمومنین علی ع سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ حتی انہوں نے امام علی ع کو وصیت کی کہ رات کو غسل دیا جائے، رات کو جنازہ اٹھایا جائے اور ان پر ظلم و ستم کرنے والوں کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے۔ ان کی چھپی ہوئی قبر امام مہدی عج کے قیام تک حق محوری اور نبوت و امامت کی حمایت کا پرچم بنی رہے گی۔
اللهم صل علی فاطمة و ابیها و بعلها و بنیها و سرالمستودع فیها بعدد ما احاط به علمک
 
 
 

 امریکا کی 60 فیصد آبادی کو موسم سرما کے بدترین اور سرد ترین طوفان کی وارننگ جاری کر دی گئی ہے۔

امریکا میں موسم سرما کا بڑا طوفان، لاکھوں افراد بجلی سے محروم، سیکڑوں پروازیں معطل

 

ریاست مونٹانا، جنوبی ڈکوٹا اور  وائیومنگ میں درجہ حرارت منفی 45 تک گر گیا، نیویارک، جارجیا،کینٹکی، اوکلاہوما سمیت کئی امریکی ریاستوں میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ہے، مختلف حادثات میں ہلاکتوں کی تعداد 19ہوگئی ہے۔

بد ترین برفانی طوفان سے ملک بھر میں 8 ہزار سے زائد پروازیں منسوخ اور 25 ہزار سے زیادہ تاخیر کا شکار ہوئیں، سڑکوں پر پھسلن سے درجنوں گاڑیاں حادثات کا شکار ہوئیں، 15 لاکھ سے زیادہ افراد کو بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی۔

طوفان کے باعث نیوانگلینڈ، نیویارک، نیوجرسی کے ساحلی علاقوں میں سیلابی کیفیت پید اہوگئی ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی
 

نیویارک سٹی میں ساحلی علاقوں کی سڑکیں زیر آب آنے سے پارکنگ میں کھڑی گاڑیاں کئی انچ پانی میں ڈوب گئیں، متاثرہ ساحلی علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر جانے کی ہدایت کردی گئی ہے۔

محکمہ موسمیات نے مشرقی ریاستوں میں اتوار تک خطرناک سردی کی شدت برقرار رہنے کی پیشین گوئی کی ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی
 

امریکی میڈیا کے مطابق کئی مشرقی ریاستوں میں دہائیوں بعد سرد ترین کرسمس منایا جائےگا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے موسم کی سنگینی سے خبردار کرتے ہوئے عوام سے کہا ہے کہ وہ مقامی حکام کی وارننگ پر عمل کریں۔

امریکا کے علاوہ کینیڈا کے مشرقی حصے کو بھی شدید سردی اور برف باری کا سامنا ہے، ٹورنٹو میں بھی متعدد پروازیں منسوخی یا تاخیر کا شکار ہیں۔

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) یمن کی نیشنل سالویشن حکومت کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ جارح سعودی اتحاد کی جانب سے یمن کے خلاف وحشیانہ جارحیت اور اس ملک کا ظالمانہ محاصرہ جاری رکھے جانے سے یمن میں مختلف قسم کی شدید ترین بیماریان پھیل رہی ہیں۔

المسیرہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق یمن کی نیشنل سالویشن حکومت کی وزارت خارجہ کے ترجمان نجیب القباطی نے اعلان کیا ہے کہ سعودی اتحاد، یمن مین طبی مراکز تک کو جارحیت کا نشانہ بناتا رہا ہے اور وہ دوائیں تک ملک میں منتقل کئے جانے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یمن کے محاصرے سے ملک میں مختلف قسم کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
القباطی نے کہا کہ یمن کے تیل و گیس پر سعودی اتحاد کے قبضے سے مختلف منصوبوں پر عمل درآمد نہیں ہو پا رہا ہے اور ملک کو شدید ترین بجٹ خسارے اور اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔
اس ترجمان نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے انسانی فرائص پر عمل کرے اور یمن پر سعودی اتحاد کی جارحیت بند کرائے۔
اس ترجمان نے کہا کہ یمن میں کورونا سمیت مختلف بیماریوں اور امراض کا مقابلہ کرنے کے لئے دواؤں اور طبی وسائل کی اشد ضرورت ہے۔

سحرنیوز/ایران: ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ بعض عرب و اسلامی ملکوں کی جانب سے تعلقات بنائے جانے کے بارے میں کئے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ غاصب صیہونی حکومت اور اس کے ناجائز اور غیر قانونی ہونے کے بارے میں ایران کا موقف مکل صاف و شفاف ہے۔
انھوں ںے کہا کہ  عرب و اسلامی ملکوں کی جانب سے غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات برقرار کئے جانے سے علاقے میں امن و استحکام اور فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔
ناصر کنعانی نے کہا کہ فلسطینی، مسلمانان عالم سے اپنے حقوق کی حمایت کی توقع رکھتے ہیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ علاقے کی قومیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار کئے جانے کے خلاف ہیں اور انھوں نے اس غاصب حکومت کے ساتھ عرب و اسلامی ملکوں کے تعلقات کا کبھی خیرمقدم نہیں کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ امید ہے کہ علاقے میں غاصب صیہونی حکومت کے ناجائز وجود کے خطرے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ واضح رہے کہ علاقے کے بعض ملکوں منجملہ متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات برقرار کئے ہیں جس پر دیگر عرب و اسلامی ملکوں اور مختلف اقوام نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

آیت اللہ فاضل لنکرانی نے آج قم المقدسہ میں مرکز فقہی ائمہ اطہار (ع) میں افغانستان کی شیعہ علماء کونسل کے اراکین کے منعقدہ اجلاس میں افغانستان میں اس کونسل کی اہمیت اور اسے مزید تقویت دینے پر روشنی ڈالی، اور افغانستان میں مکتب اہل بیت (ع) کو مزید وسعت دینے پر کی تاکید کی۔

انہوں نے اپنی تقریر کے شروع میں ایام فاطمیہ پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا: حضرت زہرا (س) کا شیعوں پر حق حاصل ہے، جیسا کہ مرحوم آیت اللہ فضل لنکرانی نے ہمیشہ اس بات پر تاکید کی کہ شیعوں پر حضرت زہرا (س) دو بڑے احسان ہیں: پہلا یہ کہ ائمہ معصومین علیہم السلام حضرت زہرا (س) کی اولاد ہیں جن کی بدولت آج حقیقی اسلام ہم تک پہنچا ہے، اور دوسرا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد آپ نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی حمایت کی۔

مرکز فقہی ائمہ اطہار علیہم السلام کے سربراہ نے کہا: آج شیعہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں، خواہ ایران، افغانستان یا دنیا کے دیگر حصوں میں ہوں، سب حضرت صدیقہ طاہرہ (س) کی بدولت ہیں اور ہمیں امید ہے کہ افغانستان میں شیعہ حضرت زہرا (س) کی برکت سے روز بروز کامیاب ہوتے جائیں گے۔

آیت اللہ فاضل لنکرانی نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے افغان شیعہ علماء کونسل کی اہمیت و حیثیت پر گفتگو کی اور کہا: واضح ہے کہ یہ کونسل پاک اور خالص نیت اور مکمل تدبیر کے ساتھ تشکیل دی گئی تھی اور آج اس کونسل کے ثمرات پہلے سے کہیں زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

انہوں نے اپنی تقریر کے آخر میں افغانستان میں شعائر شیعہ پر خصوصی توجہ دینے کی تاکید کی اور کہا: خیال رہے کہ اس ملک میں شعائر شیعہ ختم نہ ہو جائیں، ایام فاطمیہ میں مجالس عزا اور عزاداری کا اہتمام کریں، اور دوسری مناسبتوں جیسے محرم، صفر وغیرہ میں بھی مذہبی تقریبات کو زیادہ سے زیادہ منعقد کریں۔

آیۃ اللہ العظمیٰ الحاج حافظ بشیر حسین نجفی نے سالانہ جلوس عزاء فاطمیہ میں- کہ جسکا اہتمام مرکزی دفتر نجف اشرف سے حرم حضرت امیر المومنین علیہ السلام تک کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں امام زمانہ عج کی خدمت میں انکی جدہ ماجدہ کی مظلومانہ شہادت کا پُرسہ پیش کرنے کے لئے حوزہ علمیہ نجف اشرف کے افاضل، علماء ،اساتذہ ،طلاب اور مختلف عراقی صوبوں سے آئے ہوئے مومنین کے ساتھ شریک ہوئے۔

اس موقع پر آیت اللہ حافظ بشیر نجفی نے فرمایا کہ جناب فاطمہ زہراء علیھا السلام کی مصیبت اور ان کے غم کی بقا حقیقی اسلام محمدی کی بقا ہے اور اہل بیت علیھم السلام سے تجدید ولایت بھی ہے ۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ جناب فاطمہ زہراء علیھا السلام نے مشیئت الٰہی کے مطابق اپنے بابا رسول اللہ ؐ کے دین کی حفاظت اور اسکے دفاع میں مصیبتوں پر صبر کیا ۔

مرجع عالیقدر نے مزید فرمایا کہ جناب فاطمہ زہراء علیھا السلام انسان اور انسانیت کے لئے عظیم نمونہ عمل ہیں اور وہ انسان کے حقیقی کمال کی نمائندگی کرتی ہیں جسے اللہ سبحانہ چاہتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے، اس لیے وہ خداکی رضا اور غضب کا ذریعہ تھیں۔

جلوس غم کا آغاز مرکزی دفتر نجف اشرف سے ہوا اور غمگین فضا میں عزائی نعروں کے ساتھ شارع رسول ؐ ہوتا ہوا زیارت امیر المومنین علیہ السلام پر ان کے مقدس حرم میں اختتام پذیر ہوا ۔

اس موقع پر مرجع عالیقدر دام ظلہ الوارف کے فرزند اور مرکزی دفتر کے مدیر حجۃ الاسلام شیخ علی نجفی دام اپنے نے بیان میں کہا کہ اس سالانہ جلوس غم کے ذریعہ مومنین حضرت امام زمانہ عج اور حضرت امام علی علیہ السلام کی خدمت میں جناب زہراء علیھا السلام کی مظلومانہ شہادت کا پُرسہ پیش کرتے ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ سالانہ جلوس عزاء فاطمیہ ہر طرح کے ظلم و ستم دہشت گردی چاہے وہ کسی بھی بھیس میں ہو کسی بھی زمانے میں ہو کسی بھی جگہ ہو سب سے اعلان برات ہے ۔ حجۃ الاسلام شیخ علی نجفی نے کہا کہ جو جرم جناب زہراء ؑ کے حق میں کیا گیا در حقیقت وہ انسان اور انسانیت کے حق میں جرم ہے ۔