
سلیمانی
قرآن کریم کی بے حرمتی میں صیہونی لابیز کا کردار
ان دنوں مغرب میں آزادی اظہار، قرآن کریم کو نذر آتش کرنے، پیغمبر اکرم ص کی شان میں گستاخی کرنے اور اسلام کے خلاف منافرت پھیلانے کا بہانہ بن چکا ہے۔ یہ آزادی "مغربی جمہوریت" کے تاج کا نگینہ سمجھی جاتی تھی اور یہ جمہوریت اکثر یورپی ممالک میں دائیں بازو کی فاشسٹ اور نسل پرست جماعتوں کے برسراقتدار آنے سے نابودی کی جانب گامزن ہے۔ سویڈن نے جو توہین آمیز اقدامات انجام دیے ہیں وہ برفیلے پہاڑ کی نوک ہے۔ مغرب کا "آزادی اظہار" صرف ان کے اپنے لئے ہے اور ہمارے لئے نہیں ہے اور وہ اس آزادی کو اپنی نسل پرستانہ پالیسیوں اور موقف سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم عرب یا مسلمان ہونے کے ناطے اس آزادی اظہار سے برخوردار نہیں ہو سکتے اور اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم مہاجر ہوں یا کسی عرب یا اسلامی ملک میں زندگی بسر کر رہے ہوں۔ خاص طور پر اس وقت جب ہمارے منصفانہ اہداف خصوصا فلسطینیوں کی بات آتی ہے۔
مذکورہ بالا مسئلے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور اس کی لابیز کا بہت بڑا کردار ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات برقرار کرنے کے بعد اسلامی مقدسات کی توہین پر عرب یا اسلامی ممالک کوئی موثر ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔ ہم امریکہ، چین، فرانس اور برطانیہ اور ان کی پالیسیوں اور تاریخ پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن مغربی دنیا میں رہتے ہوئے فلسطینی بچوں کے خلاف اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات، فلسطینیوں کے گھر مسمار کئے جانے اور روزانہ کی بنیاد پر مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی بچوں کے قتل عام پر تنقید نہیں کر سکتے۔ اگر ہم غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدمات پر تنقید کریں تو مغربی ممالک کے قانون کی روشنی میں یہ اقدام یہود دشمنی کے زمرے میں آتا ہے جس کیلئے 15 سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ کیونکہ اسرائیل پر تنقید منافرت پیدا کرنا اور دہشت گردی کی حمایت قرار پاتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جرمنی نے جنین، نابلس اور غزہ کی پٹی میں شہید ہونے والے فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کرنے اور غاصبانہ قبضے کے خلاف فلسطینیوں کے مزاحمت کے جائز حق کی حمایت کرنے کیلئے مظاہرون پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ جرمنی کی عدالتیں عرب صحافیوں کو اپنا کام چھوڑ دینے پر مجبور کرتی ہیں۔ برطانیہ میں بھی جو شخص حماس کا پرچم لہراتا ہے یا اس جیسا نظریہ رکھتا ہے اسے قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ حماس سے وابستگی تو بہت دور کی بات ہے۔ برطانیہ میں صرف حماس کی حمایت بذات خود جرم قرار پاتا ہے جس کی سزا شہریت منسوخ کر کے ملک سے نکال باہر کرنا ہے۔ فرانس میں "ہولوکاسٹ" کا انکار یا اس کے بارے میں کسی قسم کے شک کا اظہار جرم تصور ہوتا ہے۔ مغرب میں یہ سلسلہ جاری ہے اور نہیں معلوم کہاں جا کر رکے گا۔
میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں گذشتہ برس شیطانی آیات کے مصنف سلمان رشدی پر ہونے والے حملے کے بارے میں گفتگو کیلئے شریک تھا۔ میں نے کہا کہ مسلمان اس کتاب کو اسلام کی توہین اور اسلاموفوبیا کی ترغیب کے زمرے میں قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح میں نے کہا کہ یہ کتاب آزادی اظہار کے بہانے مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلائے جانے کے مترادف ہے۔ اس کے بعد صہیونی لابی نے میرے اور اس پروگرام کے خلاف شدید پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ صیہونی لابی نے برطانوی اراکین پارلیمنٹ، صحافیوں اور اعلی سطح کے ادیبوں سمیت 10 ہزار افراد سے دستخط کروائے تاکہ میرے اور بی بی سی کے اس پروگرام کے خلاف پارلیمنٹ میں تحقیق کا آغاز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بی بی سی نے ایک یہودی دشمن شخص کو دعوت دی تھی جو اسرائیل اور صیہونزم سے متعلق اعتدال پسندی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔
سویڈن کا قانون ہم جنس پرستوں کے پرچم کو نذر آتش کرنے کو جرم قرار دیتا ہے کیونکہ یہ اقدام اس ملک کے بعض شہریوں کے خلاف منافرت پھیلانے والا اور اشتعال انگیز اقدام تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن یہی ملک ایک دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے نسل پرست شہری کی جانب سے اربوں مسلمانوں کی نظر میں مقدس کتاب کو نذر آتش کئے جانے کو جرم نہیں سمجھتا اور سویڈن میں اس جیسے دسیوں ہزار افراد موجود ہیں۔ عرب حکومتوں سمیت اکثر اسلامی ممالک نے قرآن کریم کے خلاف اس توہین آمیز اقدام کی مذمت کی ہے۔ لیکن صرف مذمتی بیانیے جاری کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس سے ایسے توہین آمیز اقدامات نہیں رکیں گے۔ کیا فرانسیسی مجلے چارلی ہیبڈو کے خلاف بیانیے اس کی جانب سے اسلامی مقدسات کی توہین رک جانے کا باعث بنے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ممالک قرآن کریم کو نذر آتش کرنے اور مسجد اقصی پر حملہ ور ہونے والے یہودی آبادکاروں کے خلاف کوئی اقدام انجام نہیں دیتے۔
یورپی ممالک میں دائیں بازو کی جماعتوں کے برسراقتدار آنے، عقل مند حکمرانوں کا فقدان، یورپ پر امریکی اثرورسوخ اور یوکرین جنگ کا طول پکڑ لینے جیسے عوامل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں اسلامی مقدسات کی توہین جاری رہے گی بلکہ اس کی شدت میں بھی اضافہ آئے گا۔ لہذا عرب اور مسلمان شہریوں کو مزید برے حالات کیلئے تیار ہو جانا چاہئے۔ ممکن ہے ان کے خلاف سخت اقدامات انجام پائیں اور حتی لاکھوں مسلمانوں کو یورپی ممالک سے نکال دیا جائے۔ مغرب میں صیہونی لابیز عدالت پر مبنی اقدار جیسے آزادی اظہار اور دوسروں کے عقائد کا احترام، کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ اسلاموفوبیا کو فروغ دے رہی ہیں اور وہ خود ان اقدامات کی بھینٹ چڑھ جائیں گی۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہولوکاسٹ کسی اسلامی مغربی ملک یا مشرق وسطی میں رونما نہیں ہوئی بلکہ یورپ کے مرکز میں رونما ہوئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ تمام حقائق واضح ہو جائیں گے۔
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر رای الیوم)
رہبر معظم کا قرآن پاک کی توہین پر یورپی ممالک کی مذمت
رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے حالیہ دنوں میں چند یورپی ممالک میں قرآن کریم اور مقدسات کی توہین کی مذمت کرتے ہوئے اسے سامراجیت کی اسلام سے دشمنی کی علامت قرار دے دیا اور دنیا کے تمام حریت پسندوں کو توہین اور نفرت پھیلانے کی پالیسی کیخلاف مقابلہ کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس حوالے سے رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے کا ٹوئٹر پیغام درج ذیل ہے:
"آزادی اظہار کے نعرے کے ساتھ قرآن پاک کی توہین یہ ظاہر کرتی ہے کہ سامراجی حملوں کا ہدف اسلام اور قرآن پاک ہے۔ سامراجیت کی سازش کے باوجود قرآن روز بروز مقبول ہو رہا ہے اور مستقبل اسلام کا ہے؛ دنیا کے تمام آزادی پسندوں کو مقدسات کی توہین اور نفرت پھیلانے کی گھناؤنی پالیسی کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا"۔
/taghribnews.
مسلم ممالک ایسے اقدامات کریں تاکہ کوئی بھی قرآن کریم کی توہین کرنے کی جرات نہ کرے
سحر نیوز/ ایران: عالمی اہلبیت اسمبلی کی اعلی کونسل کے سربراہ آیت اللہ محمد حسن اختری نے بھی مسلم ممالک کی حکومتوں اور سیاستدانوں سے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے جیسے گھناؤنے عمل کی مذمت کے علاوہ ایسے واضح عملی اقدامات کی اپیل کی ہے جس کے نتیجے میں آئندہ کسی کو بھی ایسےقابل مذمت اقدامات کی جرات تک پیدا نہ ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ یورپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، دیگر انبیائے الہی اور آسمانی کتابوں اور دینی رہنماؤں کی توہین کو معمول بنا لیا ہے اور سوئیڈن کے اعلی عہدے داروں سمیت یورپی حکام بھی آزادی اظہار رائے کی آڑ میں اس نفرت انگیز اقدام کو صحیح ٹھہراتے ہیں اور اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور منافرت کے خلاف خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے ڈینمارک کے ایک نسل پرست اسلام دشمن رکن پارلیمنٹ نے اسٹاکہوم میں واقع ترکی کے سفارتخانے کے سامنے قرآن کریم کے ایک نسخے کو نذر آتش کیا تھا۔
سوئیڈن کی پولیس نے ان انتہاپسندوں کی مکمل حفاظت کے انتظامات کر رکھے تھے۔
پالوڈان کے اس اقدام اور سوئیڈن کے حکومت کی بے عملی پر تمام اسلامی ممالک اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ زور پکڑ رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران، پاکستان، ترکی، مصر، کویت، متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب، انڈونیشیا، اردن، مراکش سمیت متعدد اسلامی ممالک اور او آئی سی، خلیج فارس تعاون کونسل، انصاراللہ یمن، حزب اللہ لبنان، حماس، جہاد اسلامی فلسطین اور سیکڑوں دیگر اسلامی تنظیموں نے اس گھناؤنے حرکت کی مذمت کی اور اس جرم میں ملوث افراد اور ممالک کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
مسلم امہ نے ادیان اور مذاہب کی بے حرمتی کی جانب سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان گھناؤنی حرکتوں کو روکا نہ گیا تو عالمی سطح پر بدامنی، تشدد اور منافرت میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
مسجد« حیدر» باکو
آذربایجان کی قدیم مسجد «حیدر» قفقاز کی قدیم ترین اور عظیم مساجد میں سے ایک ہے. اس مسجد کا طرز تعمیر «شیروان» کے طرز سے لیا گیا ہے جو اسلامی اور ساسانیاں دور کی مشترکہ طرز کا نچوڑ ہے۔
اس مسجد کا اندورونی حصہ ۴۲۰۰ مربع میٹر پر مشتمل ہے جہاں ۴ هزار یکجا عبادت کرسکتے ہیں. ۴ بلند مینار موجود ہیں جنکی لمبائی ۹۵ میڑ اور دو گنبد 55 جبہکہ دو گنبد 35 میڑ بلندی کے ساتھ اسلامی طرز تعمیر کی شاہکاری کا نمونہ ہے۔
شہید ابو مہدی المہندس ؒکا زندگی نامہ
مہندس فارسی میں انجینئر کو کہتے ہیں۔ انہوں نے بغداد کے پولی ٹیکنیک کالج سے سول انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور اسی سبب وہ مہندس یعنی انجینئر کے نام سے معروف تھے۔ ابو مہدی ان کا لقب تھا۔ ان کا اصل نام جمال جعفر محمد اور ان کا خاندانی نام آل ابراہیم تھا۔ یوں ان کا مکمل نام جمال جعفر محمد آل ابراہیم المعروف ابو مہدی مہندس ہے۔ وہ عراقی شہری تھے اور ایران میں انہیں جمال ابراہیمی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
شہید ابو مہدی 1953ء میں عراق کے شہر بصرہ میں پیدا ہوئے۔ شہریت کے لحاظ سے ان کی والدہ ایرانی جبکہ ان کے والد عراقی تھے۔ 1977ء میں انہوں نے بغداد کے پولی ٹیکنیک کالج سے سول انجینرنگ میں ڈگری مکمل کی۔ 60 کی دہائی میں عراق میں دینی مرجعیت خصوصاً آیت اللہ محمد باقر الصدر کی قیادت میں حزب الدعوۃ الاسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ حزب الدعوۃ الاسلامیہ عرب دنیا میں عرب قوم پرستی کے مقابلے میں اخوان المسلمین کے بعد دوسری اسلامی تحریک تھی، جو عرب دنیا کے مسائل کو اسلامی تناظر میں دیکھتی تھیں۔
شہید محمد باقر الصدر کے نزدیک اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کا سیاسی، معاشی، اخلاقی اور سماجی نظام عرب دنیا سمیت عالم اسلام کے مسائل کا واحد حل ہے۔ شہید ابو مہدی نے اپنی سماجی فعالیت کا آغاز شہید محمد باقر الصدر کی قیادت میں تشکیل پانے والی اس اسلامی تحریک میں شمولیت کے ساتھ کیا اور یہ اس وقت کی بات ہے، جب آپ بغداد میں زیر تعلیم تھے۔ 80 کی دہائی میں عراق پر حاکم بعث پارٹی نے جب حزب الدعوۃ الاسلامیہ کے عوام میں اثر و رسوخ سے خائف ہو کر عرب دنیا کی اس اہم اسلامی تحریک کو سرکوب کرنے کی ٹھانی اور حزب الدعوہ کی قیادت کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا تو پہلے مرحلے میں حزب الدعوہ کی قیادت کو گرفتار کرکے پھانسی دے دی گئی۔ 1975ء میں حزب الدعوۃ الاسلامیه کے درجنوں قائدین کو سزائے موت دے دی گئی۔ دوسرے مرحلے میں حزب الدعوہ کے کارکنوں کو پکڑ کر عقوبت خانوں میں بند کیا اور تختہ دار پر لٹکایا جانے لگا۔ شہید ابو مہدی اس زمانے کے بارے میں کہتے ہیں 1980ء تک حزب الدعوۃ الاسلامیہ سے وابستہ میرے 95 فیصد دوستوں کو سزائے موت ہوچکی تھی۔
1980ء میں جب بعثی رجیم نے محمد باقر الصدر کو ان کے گھر سے گرفتار کرکے شہید کر دیا تو شہید ابو مہدی مہندس عراق سے کویت چلے گئے، جہاں انہوں نے اسلامی مزاحمت کے عظیم کردار شہید مصطفیٰ بدرالدین کے ساتھ ملکر ظلم و استبداد کے خلاف جدوجہد کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ کویت میں قائم امریکی اور فرانسوی سفارت خانوں پر بمب حملے ہوئے تو کویت میں مقیم مصطفیٰ بدرالدین سمیت متعدد عراقی مہاجرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ شہید ابو مہدی کویت سے ایران منتقل ہوگئے۔ بعدازاں ایک کویتی عدالت نے شہید ابو مہدی کی غیر موجودگی میں انہیں ان سفارت خانوں پر حملے کے الزام میں سزائے موت بھی سنائی تھی، جس کے بارے خود شہید ابو مہدی کا کہنا ہے کہ وہ کویتی سرزمین پر امریکہ مخالف کسی مسلح کارروائی میں ہرگز شریک نہیں تھے۔ ایران میں قیام کے دوران شہید ابو مہدی نے اعلیٰ تعلیم مکمل کر لی۔ انہوں نے بین الاقوامی تعلقات میں پہلے ایم فل تو بعدازاں پی ایچ ڈی مکمل کی۔
پی ایچ ڈی ڈاکٹر بن جانے کے باوجود شہید ابو مہدی کو تا دمِ شہادت انجینئر (مہندس) کے لقب سے ہی جانا جاتا رہا۔ ایران میں قیام کے دوران شہید ابو مہدی ایران میں مقیم عراقی حریت پسندوں کی اہم سیاسی جماعت مجلس اعلاء کے رکن بھی رہے۔ مجلس اعلاء نے بعد میں عراقی سیاست میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ نوے کی دہائی میں عراق میں بعثی رجیم کے مظالم کے خلاف مزاحمت کی غرض سے مسلح جدوجہد وجود میں آئی تو شہید ابو مہدی البدر کے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ شہید ابو مہدی بھی عراق کے متعدد دیگر مزاحمتی اور سیاسی رہنماؤں کی طرح عراق میں صدام کے سقوط کے بعد عراق واپس پلٹے تو شہید ابو مہدی نے نئی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ 2003ء میں عراق واپس جاتے ہی شہید ابو مہدی نے خود کو البدر سے علیحدہ کرکے کتائب حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ شہید ابو مہدی 2005ء میں عراقی صوبے بابل سے پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے، لیکن بعدازاں امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے سبب انہیں پارلیمانی نشست سے استعفیٰ دے کر عراق ترک کرکے ایک دفعہ دوبارہ ایران آنا پڑا۔
2011ء میں شہید ابو مہدی دوبارہ عراق گئے اور سیاسی فعالیت کو ازسرنو شروع کیا۔ ان کی قیادت میں بننے والا سیاسی اتحاد الوطنی آج بھی عراقی پارلیمان کا ایک اہم اتحاد ہے۔ 2014ء میں داعش نے عراق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تو عراق کی دینی مرجعیت آیت اللہ سیستانی کے حکم پر عوامی رضاکار فورس وجود میں آئی۔ اس فورس کی تشکیل میں شہید ابو مہدی اور ان کی مزاحمتی تحریک کتائب حزب اللہ کا کردار انتہائی اہم تھا۔ کتائب حزب اللہ نے حشد الشعبی کی 45ویں اور 46ویں بریگیڈ کی تشکیل کو مکمل کیا جبکہ 47ویں بریگیڈ میں بھی ایک بڑا حصہ کتائب کی افرادی قوت کا ہے۔ داعش کے خلاف جہاد شہید ابو مہدی کی چار عشروں پر محیط جہادی زندگی کا ایک نیا دور تھا۔ وہ حشد الشعبی کے نائب سربراہ بنائے گئے، لیکن ان کا کنٹرول روم بغداد کے کسی محفوظ اور پوش علاقے کا کوئی عسکری اڈہ نہیں بلکہ اگلے مورچوں پر کھڑے ٹینک اور مورچے تھا۔ شہید ابو مہدی بطور ایک فوجی جنرل میڈلز اور ستارے سینے پر سجانے کی بجائے اگلے مورچوں پر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شانہ بشانے لڑنے کو اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ سامراء، کاظمین، کربلا اور نجف کے مزاراتِ آل رسول کی حفاظت کے علاؤہ آمرلی، جرف الصخر، اربیل اور موصل کی آزادی کے کامیاب آپریشنز میں بھی شہید ابو مہدی کا بنیادی کردار ہے۔
مئی 2019ء میں اسرائیل نے عراق میں قائم حشد الشعبی کے فوجی اڈے کو نشانہ بنایا تو شہید ابو مہدی نے اسرائیل کو جہاں جواب دینے کی بات کی، وہیں امریکی و اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کے لیے حشد الشعبی کے فضائی ونگ کی ضرورت پر بھی زور دیا اور یہ قوی احتمال تھا کہ اگر شہید ابو مہدی کچھ عرصہ مزید زندہ رہتے تو حشد الشعبی کے فضائی ونگ کی تشکیل ان کا ترجیح ایجنڈا ہوتا۔ عراق سمیت پورے خطے سے مکمل امریکی انخلاء، امریکی سامراج اور صہیونی منصوبوں کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کی تقویت شہید ابو مہدی المہندس کی آرزو تھی۔ اس آرزو کی تکمیل کے لیے انہوں نے اسلامی انقلاب اور نظامِ ولایت کے زیر سایہ تشکیل پانے والی اسلامی مزاحمت کے قافلے میں شمولیت اختیار کی۔ خود کو ہمشیہ اسلامی مزاحمت کا ادنیٰ سپاہی قرار دیا اور اس پر فخر محسوس کیا۔ شہید ابو مہدی اپنی آرزو جو خطے کے تمام بے نواؤں کی آرزو ہے؛ کی تکمیل کی خاطر امریکی سامراج اور صہیون ازم کے ساتھ نبرد آزما تھے،
جب امریکہ نے انہیں شہید قاسم سلیمانی کے ہمراہ گاڑی میں نشانہ بنایا اور اسلامی مزاحمت کے یہ دو عظیم مجاہد اپنے چند دیگر ساتھیوں کے ساتھ جامِ شہادت نوش کرگئے
shianews.
حزب الله کے میزائل ہمیں پناہ گاہ میں چھپنے کا موقع بھی نہیں دینگے، صیہونی تجزیہ کار
اسلام ٹائمز۔ صیہونی تجزیہ کاروں اور جرنیلوں نے لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب اللہ" کی میزائل طاقت کو اسرائیل کے لیے ایک اسٹریٹجک اور بنیادی خطرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ میزائل فلسطین کے مقبوضہ شمال میں ہمارے اتنے قریب ہیں کہ ہمیں پناہ گاہ میں چھپنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس بارے میں آج اتوار کے روز یروشلم پوسٹ نے صہیونی تجزیہ نگار "نیول ٹیلر" کا ایک کالم شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تل ابیب کو ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ لبنان میں حزب اللہ کے میزائلوں کو اپنے لیے ایک بڑا اسٹریٹجک خطرہ سمجھنا چاہیئے۔ اس تجزیہ کار نے مزید کہا کہ حزب اللہ کی افواج نے حال ہی میں لبنان اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔ اس کے علاوہ حزب اللہ نے درجنوں مانیٹرنگ سیل بنائے، اپنے گشت میں اضافہ کیا اور عوامی سطح پر صہیونی افواج کی نقل و حرکت کی نگرانی اور رپورٹس تیار کیں۔ اس تجزیہ کار نے لکھا کہ حزب اللہ سرحد پر موجود ہے، اس لیے ہمیں ہر چیز کے لیے تیار رہنا چاہیئے، کیونکہ خطرہ بہت سنگین ہے اور شام کے ساتھ تنازعات کے دوران کوئی بھی غیر متوقع حملہ لبنان کے ساتھ ایک بڑے تنازع کا باعث بنے گا۔
اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے صیہونی حکومت کو درپیش حزب اللہ کے خطرے کا تذکرہ کیا۔ اس حوالے سے مذکورہ اخبار نے ایک صیہونی جنرل کے بیان کا حوالے دیتے ہوئے لکھا کہ ہم جانتے ہیں کہ حزب اللہ کی رضوان بریگیڈ یہاں بارڈر پر موجود ہیں اور اگر ان کے پاس میزائل ہیں تو ہمارے پاس پناہ گاہ تک پہنچنے کیلئے بھی مناسب فرصت نہیں ہوگی۔ کیونکہ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں صیہونی کالونی "المطلہ" لبنانی سرحد کے بہت قریب ہے۔ اس صیہونی جنرل نے مزید کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ (حزب اللہ) بہت قریب ہیں۔ حزب اللہ المطلہ قصبے کو مختلف سمتوں سے اپنے میزائلوں کا نشانہ بنا سکتی ہے۔ آخر میں یروشلم پوسٹ نے لکھا کہ حزب اللہ کی افواج نے شام میں وسیع جنگی تجربہ حاصل کیا ہے، وہ بہت زیادہ مستحکم ہیں، ان کے پاس بہت زیادہ فائر پاور ہے اور وہ مشاہداتی مراکز اور جنگی فارمیشنز سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
"چارلی ہیبڈو" اور ایرانو فوبیا کا منصوبہ
طنزیہ میگزین "چارلی ہیبڈو" جس نے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس مقام کی توہین کرکے اسلامو فوبیا کے منصوبے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی، اب اس نے آزادی اظہار کے نام پر رہبر معظم انقلاب، آیت اللہ خامنہ ای کی توہین کرکے ایرانو فوبیا کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے ایک کارروائی کی ہے۔ رہبر معظم انقلاب کی توہین کو ایجنڈے میں شامل کرنے کا مقصد سیاسی لابنگ اور سامراج مخالف نظریات کو نشانہ بنانا ہے۔ فرانسیسی مزاحیہ میگزین "چارلی ہیبڈو" کا نام ذہن میں آتے ہی "تذلیل"، "توہین" اور "ہتک عزت" جیسے تصورات ذہن میں آتے ہیں، جو آزادی اظہار کے نام پر لوگوں اور ان کے عقائد کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔
حال ہی میں، Charlie Hebdo نے انقلاب کے سپریم لیڈر کے لیے توہین آمیز کارٹون شائع کرنے کے مقصد سے ایک مقابلے کا انعقاد کیا۔ اس اشاعت پر بہت زیادہ تنقید کی گئی۔ مسلم کیمیونٹی کی طرف سے مغرب بالخصوص فرانس کی پالیسی کو اس حد تک تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے اس توہین آمیز اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فرانس کے سفیر نکولس روشے کو وزارت خارجہ طلب کیا ہے۔ دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمان ابھی تک چارلی ہیبڈو کی جانب سے 2015ء میں پیغمبر اسلام (ص)، قرآن پاک اور دین اسلام کی توہین کے واقعہ کو نہیں بھولے ہیں۔
جب چارلی ہیبڈو نے اسلام کے عظیم پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے مقدسات کے خلاف توہین آمیز کارٹون شائع کرنا شروع کیے تو آزادی اظہار کی دعویدار حکومتوں نے نہ صرف اس فرانسیسی میگزین کی مذمت نہ کی بلکہ اس کی حمایت بھی کی۔ ایک ایسا عمل جس نے ظاہر کر دیا کہ آزادی اظہار اور انسانی حقوق جیسے قیمتی تصورات یورپی اور مغربی حکومتوں کی غلط پالیسوں کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہیں اور عملی طور پر جب تک ان کی اپنی اقدار پر حملہ نہیں ہوتا، وہ یہ حربہ دوسرے مذاہب، قوموں اور ممالک کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ آزادی اظہار کے ہتھیار کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والی مغرب کی سوچ اور اس کے دوہرے معیار کا مقصد مسلمانوں اور عالم اسلام سے نفرت اور بیزاری پیدا کرنا نیز مغربی معاشرے مین اسلامو فوبیا کو بڑھا وا دینا ہے۔
یاد رہے کہ چارلی ہیبڈو کے اس گستاخانہ عمل کے نتیجے میں دو مسلح افراد کے ہاتھوں اس ادارے کے 12 ارکان ہلاک اور 10 زخمی ہوئے تھے۔ یقیناً اس کے بعد سے چارلی ہیبڈو نے عالمی شہرت حاصل کی اور اس کے کارٹونوں نے دنیا کے میڈیا اور رائے عامہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ بے شک شہرت حاصل کرنا بھی ہتک عزت اور الزامات کے ارتکاب کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ قانون کی کتاب میں ایک سنہری اصول ہے کہ "ایک شخص اس وقت تک آزاد ہے، جب تک کہ وہ دوسروں کی آزادی کو نقصان نہ پہنچائے"؛ جب حکومتوں اور تنظیموں میں چارلی ہیبڈو کے نمائندے کہتے ہیں کہ ان کی آزادی کی کوئی سرحد نہیں ہے، تو وہ مکمل طور پر صحیح دائرہ چھوڑ کر جرائم کے دائرے میں داخل ہوگئے ہیں اور یہ وہ وقت ہے، جب وہ خود کو دوسروں کے حقوق اور مقدسات کی خلاف ورزی کی اجازت دیتے ہیں۔
اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آزادی اظہار میں ہولوکاسٹ کیوں شامل نہیں ہے اور توہین و تذلیل کا تعلق صرف مسلمانوں اور مذہب اسلام سے ہی کیوں ہے اور یہودیت اس اصول سے مستثنیٰ کیوں ہے۔؟ 2009ء میں فرانسیسی میگزین Charlie Hebdo کے کارٹونسٹ Maurice Siné کو اس وقت اپنا استعفیٰ پیش کرنا پڑا، جب کارٹونسٹ نے فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی کے بیٹے جان سرکوزی کی ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والی یہودی لڑکی جیسیکا ڈارٹی کے ساتھ شادی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جس نے پیسے کی ترغیب کی وجہ سے یہودیت اختیار کی تھی۔
موریس سائین کی تنقید یہودیت کے خلاف نہیں تھی اور اس نے کسی بھی طرح سے یہودی مذہب کی توہین نہیں کی تھی، لیکن صرف یہودیت کا حوالہ دینا ہی اس کے لیے کافی تھا، لیکن اس پر مذہب سے دشمنی کا الزام لگا کر اسے عدالتی حکام کے حوالے کرکے نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ اس وقت چارلی ہیبڈو میگزین نے اپنے ملازم کا دفاع نہیں کیا اور "آزادی اظہار" کے جھوٹ سے اپنے کام کو درست ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی۔
اس کے بعد اسی میگزین نے پیغمبر اسلام (ص) کے خلاف ایک توہین آمیز کارٹون شائع کیا، جس نے پوری دنیا کے مسلمانوں میں غصے کو بھڑکا دیا۔ اس میگزین نے "آزادی اظہار" کے بہانے توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت کو جائز قرار دیا۔ اس سلسلے میں خلاف ورزی کی سب سے واضح مثال معروف مصنف گاروژی کی ہے۔ 1998ء میں ایک فرانسیسی عدالت نے گاروژی کو ہولوکاسٹ سے انکار اور نسلی تہمت کا مجرم قرار دیا، اور 1995ء میں لکھی گئی ان کی کتاب "Myths of the Founders of Israeli Politics" کی وجہ سے انہیں چالیس ہزار ڈالر جرمانہ کیا۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
وفا دار بیٹوں کی وفا دار ماں (ام البنینؑ)
جنت البقیع میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب الگ ایک تنہا قبر نظر آتی ہے، جس کے اردگرد چھوٹی سی چار دیواری بنی ہوئی ہے، اس قبر کے قریب آپ کو ایک عدد مولوی اور ایک شرطہ(پولیس والا) کھڑا ہوا نظر آئے گا اور ساتھ ہی ایک فلیکس لگا ہوا ملے گا، جس پر اردو، عربی، فارسی اور انگلش میں جنت البقیع میں موجود قبروں کی کوئی اہمیت نہ ہونے جیسے بیانات لکھے ملیں گے۔ جب اس قبر کے متعلق پوچھا جائے تو وہاں موجود مولوی صاحب آپ کو شرک و بدعت کے متعلق احادیث سنائیں گے، مزید اگر آپ قبر کے متعلق جاننے کی کوشش کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ پاس کھڑا ہوا شرطہ آپ کو پکڑ کر قبرستان سے باہر چھوڑ آئے۔
اہل تشیع حضرات کو تو اس قبر کے متعلق علم ہے، لیکن اہل سنت برادران کو قطعی طور پر معلوم نہیں کہ یہ قبر کس ہستی کی ہے۔ یہ قبر مبارک جنابِ فاطمہ بنت حزام کی ہے، جن کو ام البنین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ہستی ہیں، جو سیدہ کائنات فاطمہ سلام اللہ علیھا کے بعد زوجہ امام علیؑ بنیں اور کائنات میں وفاداری میں مشہور ہستی ابوالفضل العباسؑ کی والدہ محترمہ ہیں۔ یہ اتنی عظیم خاتون ہیں کہ جنت کے سرداروںؑ کے بھائی کی جنت ان کے قدموں میں ہے۔ جس خاتون کو خود علی المرتضیٰ ؑ نے اپنی زوجیت کے لیے چنا ہو، وہ کس شان کی مالکہ ہوں گی۔
جناب اُم البنینؑ کا تعلق سعودی عرب کے مشرقی شہر الاحساء سے تھا، جہاں آج بھی ان کے میکے خاندان کے افراد آباد ہیں اور اگر آپ وہاں جائیں تو نہایت آسانی سے ان کو پہچان سکتے ہیں، کیونکہ اس قبیلہ کے افراد کی نشانی ان کی بڑی بڑی آنکھیں، لمبے قد اور خوبصورتی ہے۔ ام البنینؑ کے چار بیٹے کربلا میں شہید ہوئے، جن میں عباسؑ، عثمان، عبداللہ و جعفر ہیں، لیکن سب سے زیادہ مشہور جناب عباسؑ علمدار ہوئے۔ ام البنینؑ کربلا میں موجود نہ تھیں۔ جب اسیران کربلا کا قافلہ مدینہ پہنچا تو کسی نے آپ کو آپ کے بیٹوں کی شہادت کی خبر سنائی تو آپ نے فرمایا مجھے صرف حسین بن علیؑ کے بارے میں بتاو، جب آپ کو بتایا گیا کہ حسین بن علی آپ کے چار بیٹوں سمیت کربلا میں شہید کر دیئے گئے تو اس وقت آپ نے کہا اے کاش میرے بیٹے اور جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے، میرے حسینؑ پر فدا ہوتے اور وہ زندہ رہتے۔ سبحان اللہ جس ماں نے آلِ نبیؑ سے اتنی وفاداری نبھائی، اس ماں کا بیٹا وفا کا پیکر کیونکر نہ ہوتا۔
جنت البقیع کے سامنے جو مین روڈ ہے، وہاں ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک پُل بنا دی گئی ہے، جب یہاں پُل نہیں ہوا کرتی تھی، تب پرانی سڑک کے کنارے میں ایک چھوٹا سا باغیچہ ہوا کرتا تھا، قدیمی سعودی شیعوں کے مطابق اسے باغیچہ علی اکبؑر کہا جاتا تھا اور ان کے مطابق اہل بیتؑ کی کربلا روانگی کے وقت بنی ہاشم میں پیچھے رہ جانے والے افراد اور کربلا کے مسافروں کی آخری ملاقات یہاں ہوئی تھی اور جناب ام البنینؑ یہاں اکثر آکر بیٹھا کرتی تھیں۔ پنجاب کے مشہور ذاکر بابا نبی بخش جوئیہ مرحوم جناب ام البنینؑ کا واقعہ بہت پڑھا کرتے تھے، ان کی درد بھری آواز میں مصائب ابھی تک کانوں میں گونجتے ہیں اور دل گریہ کرتا ہے۔
وہ پڑھتے تھے کہ جب منادی والے نے مدینہ منورہ میں منادی کی کہ اے مدینہ والوں کربلا والوں کا قافلہ لوٹ آیا ہے اور حسینؑ بن علؑی اپنے بیٹوں اور بھائیوں سمیت مارے گئے تو جناب ام البنینؑ جناب عباسؑ کے بیٹے عبیداللہ سے پوچھتی ہیں یہ کس حسین کی شہادت کی خبر سنائی جا رہی ہے تو عبیداللہ نے کہا دادی یہ میرے چچا اور آپ کے بیٹے حسینؑ کی شہادت کی خبر ہے تو ام البنین فرماتیں، نہیں میرے عباسؑ کے ہوتے ہوئے بھلا حسینؑ کو کون ہاتھ لگا سکتا ہے، پھر بی بی جنت البقیع میں آئیں اور جناب زہراء سلام اللہ علیھا کے قبر اقدس پر کھڑے ہوکر اتنا گریہ کیا کہ اہل مدینہ اکٹھے ہوگئے اور ساتھ گریہ کرنے لگے۔ ام البنینؑ جب تک زندہ رہیں، کربلاء والوں کی ایسی عزاداری برپا کرتی رہیں کہ اپنوں کے ساتھ ساتھ دشمن بھی رو پڑتے۔
تحریر: علی اصغر سرگودھا
ایران میں تعینات فرانسیسی سفیر "نیکلاس رش" محکمہ خارجہ میں طلب
ایرانی حکام، مقدسات اور مذہبی اور قومی اقدار کی توہین کرنے والے فرانسیسی میگزین کے تضحیک آمیز اقدام کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران میں تعینات فرانسیسی سفیر "نیکلاس رش" کو محکمہ خارجہ میں طلب کیا گیا۔
ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان "ناصر کنعانی" نے بروز بدھ کو اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے شدید احتجاج کو فرانسیسی حکام کا حوالہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اسلامی، مذہبی اور قومی مقدسات اور اقدار کی توہین کو کسی بھی صورت قبول نہیں کرتا اور فرانس کو آزادی اظہار کے بہانے سے دوسرے مسلم ممالک اور اقوام کے مقدسات کی توہین کا جواز فراہم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پیغمبر اسلام کے مقدس مقام، قرآن کریم اور دین اسلام پر حملہ کرنے سے متعلق اس فرانسیسی میگزین کے سیاہ کارنامے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ، ایران فرانس کی حکومت کو اس نفرت انگیز، توہین آمیز اور بلا جواز اقدام کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔
کنعانی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس اقدام کا متناسب جواب دینے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں فرانسیسی سفیر کو سرکاری احتجاجی نوٹ پیش کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران فرانسیسی میگزین کے ناقابل قبول رویے کی مذمت میں فرانسیسی حکومت کی وضاحت اور معاوضہ کے اقدام کا منتظر ہے۔
دراین اثنا فرانسیسی سفیر نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ایران کے نظریات اور احتجاجی نوٹ کو اپنے ملک کے حکام ک پنچہادیں گے۔
دہشتگردی کیخلاف جنگ کے ہیرو، شہید قاسم سلیمانیؒ
تین سال قبل 3 جنوری کی صبح سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی اپنے ساتھی ابو مہدی المہندس اور ان کے کئی ساتھیوں کیساتھ امریکی ڈرون کے ذریعے بغداد کے ہوائی اڈے پر نشانہ بنے تھے۔ حملے کے فوراً بعد اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشتگردی کی اس کارروائی میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا اور اس حملے کا حکم دینے اور اس کی کمانڈ کرنے کا اعتراف کیا۔ اس رات جنرل سلیمانی کو کچھ عراقی حکام سے ملاقات اور خطے میں جاری واقعات کے بارے میں بات چیت کرنا تھی۔ اس وفد نے عراق کے وزیراعظم سے ملاقات کیلئے سرکاری دعوت پر عراق کا سفر کیا۔ جنرل سلیمانی کا قتل، نہ صرف فوج کے ایک اعلیٰ سرکاری فوجی عہدیدار کیخلاف ریاستی دہشتگردی کا ارتکاب تھا بلکہ ایک آزاد ملک کی افواج کیخلاف دہشتگردی، بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی اور جارحیت تھی۔ اس کے علاوہ، یہ ایک خطرناک چال تھی، جو دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ایک کامیاب کمانڈر کو ختم کرنے کیساتھ ساتھ دہشتگردی کے حملے سے پیدا ہونیوالے دیگر نتائج سے پورے خطے میں امن و سلامتی کو منفی طور پر متاثر کرسکتی ہے۔
ایک اور نقطہ نظر میں، دہشتگردی کی یہ کارروائی عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور اقوام متحدہ کے دو ارکان کیخلاف جارحانہ کارروائی کے مترادف تھی۔ اس سال اس بہادر ہیرو کے قتل کی تیسری برسی ہے۔ یہ صرف تین سال پہلے کی بات ہے، جب جنرل سلیمانی نے باضابطہ طور پر داعش کے خاتمے کا اعلان کیا اور ان کا یہ خواب اس وقت پورا ہوا، جب اس وقت یہ دہشتگرد گروہ مکمل طور پر کمزور اور خاتمے کے دہانے پر تھا۔ شہید قاسم سلیمانی نے انتہاء پسندی اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں جس بہادری کا مظاہرہ کیا، اس نے خطے میں داعش کا خاتمہ کر دیا بلکہ اس نے نہ صرف مشرق وسطیٰ کے پہلے سے ہی جنگ زدہ علاقہ بلکہ تمام ممالک بشمول امریکہ اور یورپ سمیت پوری دنیا کو امن و سلامتی عطا کی۔ سلیمانی نے داعش کے بحران پر ایسے حالات میں ردعمل کا اظہار کیا، جب پورا خطہ پہلے ہی داعش کے اس ظالم دہشتگرد گروہ کی لپیٹ میں آچکا تھا، جس کے نتیجے میں کچھ ممالک ٹوٹنے کے قریب تھے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر سلیمانی نے انتہاء پسندی اور دہشتگردی کیخلاف اقدام کو متحرک نہ کیا ہوتا تو خطے کا نقشہ آج مختلف ہوتا۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں انسداد دہشتگردی کی کارروائیوں کی کمان سنبھالی، جب داعش نے اسلامی خلافت کا اعلان کیا اور شہریوں اور فوجوں کیخلاف انسانی تاریخ کے سب سے گھناؤنے اور بے مثال جرائم کا ارتکاب کیا۔ یہاں ایک متضاد صورتحال سامنے آتی ہے، جہاں مختلف حالات میں داعش اور بعض دیگر دہشتگرد گروہوں کا پیدا ہونا امریکی ہتھکنڈوں کا پتہ دیتا ہے۔ ISIS کی اصلیت کے حوالے سے انتخابی کمپین میں دوسروں کے علاوہ ٹرمپ کے اعترافات اس کی واضح مثال ہیں۔ شہید سلیمانی دہشتگردی کیخلاف ایک معروف ہیرو تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی دہشت گردی اور جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ تو معاملہ کیا ہے؟ ٹرمپ: ہم نے داعش کو بنایا۔ اس کے بعد، اسی ٹرمپ نے کہا کہ میں نے ذاتی طور پر جنرل سلیمانی پر حملے کا حکم دیا تھا۔ اس کا جواب امریکہ کے دوہرے معیار کی سیاست میں مل سکتا ہے۔ جنرل سلیمانی کا قتل بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور اخلاقیات کی صریح خلاف ورزی تھی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مجرموں کو بین الاقوامی سطح پر اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیئے۔
بہت سے قانون دان، سفارتکار، سیاستدان اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین واضح کرتے ہیں کہ کسی ملک کے اعلیٰ فوجی عہدیدار کا غیر قانونی قتل پورے خطے اور دنیا کے امن و سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ کیونکہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کا طویل تجربہ رکھنے والے قابل کمانڈروں کی عدم موجودگی کے باعث خطے میں داعش جیسے شدت پسند گروہوں کے دوبارہ سر اٹھانے کی تشویق پائی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ اس کیخلاف دہشتگردانہ حملہ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی اور دوسرے ملک کی خودمختاری کیخلاف جارحیت اور ریاستی دہشتگردی کی واضح مثالوں میں سے ایک مثال سمجھی جاتی ہے، جس کا ارتکاب ایک ملک دوسرے کیخلاف کرتا ہے اور اسے باضابطہ طور پر ملک کے اعلیٰ عہدے داروں اور کیمروں کے سامنے مجرم کے اعتراف کے ذریعے قبول کیا جاتا ہے۔
تین سال گزر چکے ہیں اور اب بہت سے لوگ "سلیمانی سکول آف تھاٹ" کے بارے میں بات کرتے ہیں، وہ اس وقت ایک مقبول کمانڈر تھے اور اس وقت تاریخ سے ماورا ایک لیجنڈ شخصیت ہیں۔ ان کے حامی ان کے قتل کو اس کی کہانی کا عروج اور اس کی سرشار زندگی کا ایک ناگزیر انجام اور ہدف سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی شہادت ان لوگوں کیلئے زیادہ تباہ کن ہے، جن کیخلاف وہ لڑے اور ان لوگوں کیلئے جو ان سے محبت کرتے تھے، ان کی زندگی سے زیادہ متاثر کن ہے۔ ایک مخیر، سماجی اور شہری کارکن ہونے کے ناطے خاص طور پر ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اور مختلف خطوں میں غربت، سیلاب اور زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے کیلئے، وہ واقعی بہت سے لوگوں کے یہاں تک کہ ان کے ناقدین کی طرف سے بھی پسند کیے گئے۔ جنازے کی تقریبات میں لوگوں کا بے ساختہ امڈ آنا اس دعوے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ انسانوں کیلئے کام کرنے کیلئے پُرعزم تھے۔
وہ نسل، مذہب، قومیت اور طرز زندگی سے بالاتر ہو کر انسانی وقار اور لوگوں کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم تھے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں، وہ خواتین کی کوریج کے حوالے سے مختلف طرز زندگی کا سامنا کرنے والوں کو سختی سے مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں اور ہمارے انسانی وسائل ہیں۔ تین سال قبل انہیں دوسرے ملک میں بے دردی اور بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ وقت اور تاریخ انسانی ذہن کی عدالت کے بہترین استاد اور بہترین گواہ ہیں۔ ایرانی حکام نے وعدہ کیا کہ اس جرم کے ذمہ داروں کو کھلا نہیں چھوڑا جائے گا اور اس غیر انسانی جرم کے مرتکب افراد اور معاونین نے کو انصاف کی منصفانہ عدالت میں لایا جائے گا۔ تاہم، اس وقت کے امریکی صدر کے اس گھناؤنے دہشت گردانہ اقدام کی سیاست دانوں، وکلا، ماہرین تعلیم اور رائے عامہ سمیت بہت سے لوگوں نے بڑے پیمانے پر مذمت کی تھی۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی سیاسی، قانونی اور بین الاقوامی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ملزمان اور مجرموں کیخلاف منصفانہ کارروائی کرے گا۔
گذشتہ دہائیوں کے دوران دشمنی، دہشتگردی اور شہریوں کا قتل دو عظیم اقوام ایران اور پاکستان کا مشترکہ درد رہا ہے۔ دونوں ممالک اس دکھ سے دوچار ہوئے ہیں اور کئی خاندان اپنے پیاروں سے محروم ہوچکے ہیں۔ ایران اور پاکستان کی طرح کوئی بھی قوم دہشتگردی کے طاعون کو نہیں سمجھتی۔ ان دونوں مسلم ممالک کے عوام دہشتگردی کی تباہ کاریوں اور تشویش کو محسوس کرتے ہیں اور اس راہ پر قوموں کے نوجوانوں کا بہت سا پاک خون بہا ہے۔ دونوں برادر ممالک ایران اور پاکستان میں اب تک بہت سے شہداء نے اپنی زندگیاں وقف کیں اور امن و سلامتی کے مقدس مقصد کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ موجودہ خطرے کی صورتحال جو ہم دیکھ رہے ہیں، اور اس تباہ کن امکان کیساتھ جو خطے میں بڑے پیمانے پر پھیل رہا ہے، عالم اسلام کو ایک متفقہ طرز عمل کیساتھ قدم اٹھانا چاہیئے اور اپنی غلط فہمیوں کو ایک طرف رکھ کر، جن میں زیادہ تر غیر ملکیوں کی طرف سے پھیلائیں ہوئی ہے، امن اور سلامتی کو برقرار رکھنا چاہیئے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، اس خطے سے مقامی امن اور سلامتی کا آغاز کیا جائے۔
تحریر: سید محمد علی حسینی
(پاکستان میں ایران کے سفیر)