حسن سلوک قرآن اور اہل بیتؑ کی نظر میں

Rate this item
(0 votes)
حسن سلوک قرآن اور اہل بیتؑ کی نظر میں

اللہ تعالی قرآن مجید میں اپنے نبی ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:

((فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ))(سورة آل عمران ـ 159 )

(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

حسن سلوک ،نرمی اور مہربانی :

تشدد اور سختی انسان میں پائی جانے والی دو نا پسندیدہ صفات ہیں اور ان کے مقابلے میں حسن سلوک اور نرمی ہیں۔لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو رفق  اصل میں نفع کو کہتے ہیں۔اسی لیے عرب کہتے ہیں کہ فلاں فلاں سے زیادہ نفع بخش ہے جب ایک دوسرے سے فائدہ زیادہ ہو۔کسی کو رفیق  کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شخص دوسرے کی صحبت سے منافع اٹھا رہا ہوتا ہے۔مرافق البیت گھر کے ان مقامات کو کہا جاتا ہے جن سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

ہمارا یہاں پر رفق سے مراد وہ معنی ہے جس میں نرمی،مہربانی ،سہولت اور آسانی پائی جاتی ہو۔اسی لیے رفق کا ایک مومن انسان کی زندگی میں بڑا اہم کردار ہے۔جب انسان عملی زندگی میں لوگوں کے ساتھ میل جول کرتا ہے تو اس کا اظہار ہر جگہ ہوتا ہے۔نرمی اور حسن سلوک کی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت اہمیت ہے اور یہ زندگی خوبصورت کر دیتا ہے۔حسن سلوک سے مزین انسان ایک خوبصورت انسان ہوتا ہے اور اس کی زندگی میں استقامت اور اعتدال پایا جاتا ہے۔نرمی اور حسن سلوک وہ اعلی صفات ہیں جو کسی کے مقابلے میں نہیں ہوتی  بلکہ یہ خود کے تکامل کے لیے ہوتی ہے اس سے معاشرے کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان کے دوسرے کے ساتھ تعلقات بہتر انداز میں تشکیل پاتے ہیں یوں ایک بہت ہی خوبصورت معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔اسلام نے ان اعلی اخلاقی اقدار سے خود کو مزین کرنے اور پھر لوگوں کو اس کی طرف محبت سے دعوت دینے کا حکم دیا ہے تاکہ یہ صفت حسنہ معاشرے میں عملی طور پر نافذ ہو اور  اسلام جن خصوصیات پر مشتمل معاشرے کی تشکیل کی دعوت دیتا ہے ان پر عمل در آمد ہو سکے۔

اسلام معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا نظام پیش کرتا ہے جس میں اخلاقی اقدار کی بڑی اہمیت ہے اسی لیے سچ ،نیکی، احسان،بھلائی،معاف کرنا،پیار و محبت  اور سلامتی سمیت کئی اہم اچھائیاں شامل ہیں۔ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ خصوصیات کسی حکم کے ذریعے پیدا نہیں کی جاتیں بلکہ یہ خصوصیات ہر انسان میں موجود ہوتی ہیں کیونکہ یہ پہلے سے اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھ دی ہیں۔فطرت میں تخلیق کردہ ان صفات میں اللہ کی سنت کے مطابق کوئی تبدیلی نہیں آتی۔جتنا مرضی زمانہ گزر جائے کیونکہ  فطرت کا یہ پیغام اتنا واضح ہے کہ  اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ کبھی کوئی معاشرہ ایسا نہیں ہو گا جہاں جھوٹ،دھوکے،ملاوٹ اور دغا بازی کو اچھا سمجھ کر اس کی اشاعت کی جائے ا س کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان اخلاقیات کی بنیاد فطرت ہے۔

حسن سلوک  لوگوں کو سچائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے:

لین دین میں نرمی کرنا رفق کہلاتا ہے۔مقالہ کے شروع میں جس آیت مجید کا ذکر کیا گیا اس کا معنی یہ ہے کہ اے رسول ﷺ آپ نرمی فرماتے ہیں اور آپ کی یہ نرمی اور حسن سلوک ان کے لیے دین اسلام میں داخل ہونے کا باعث بنتا ہے۔نبی اکرمﷺ کی ادلہ اور آپ  کی طرف سے پیش کیے گئے استدلات کے ساتھ  حسن سلوک باعث بنتا ہے کہ لوگ اسلام میں داخل ہوں۔اگر نبی اکرمﷺ کے اخلاق کریمہ میں یہ حسن سلوک اور نرمی والا پہلو نہ ہوتا تو لوگ دین مبین اسلام میں اس طرح داخل نہ ہوتے۔نرمی،حسن سلوک،اپنائیت اور وحدت کا احساس وہ عظیم صفات ہیں جن کو تبلیغ دین میں بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ جب بھی حق کا پیغام دینے لگیں تو خود کو حسن سلوک اور نرمی جیسی عظیم صفات سے مزین کریں۔جب تبلیغ کے لیے جائیں تو لوگوں کے ساتھ  بڑی مہربانی سے پیش آئیں،ان کے لیے تنگی پیدا نہ کریں،ان کا کھلے دل سے استقبال کریں،انہیں وہ چیز دیں جس کی انہیں ضرورت ہو،ان کی پریشانیوں کو بانٹیں،ان کی فکر کریں،ہمیشہ ان کی دیکھ بھال کریں،ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں،ان  کے ساتھ رواداری کا معاملہ کریں تاکہ وہ آپ سے اطمنان اور دوستی محسوس کریں۔

وہ حسن سلوک اور نرمی جو اللہ تعالی تبلیغ حق کے لیے چاہتا ہے اس کی تاکید مذکورہ بالا آیت کریمہ میں آئی ہے۔اس میں عملی طور پر نرمی اور حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہےکہ مومنین کیسے اسے انجام دیں گے۔اسلام کے نظام اخلاق میں ایک انتہائی اہم چیز جس کی اسلام نے بہت تاکید کی اور تقاضا کیا کہ اسے معاشرے میں پھیلایا جائے وہ  لوگوں کی غلطیوں پر انہیں معاف کرنا اور اس ثقافت کو عام کرنا ہے تاکہ معاشرے میں حسن سلوک کا دور دورہ ہو اور اس حسن سلوک کی وجہ سے معاشرے کی نبویﷺ کے طریقے پر تربیت ہو:

((فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ))

پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں

حسن سلوک کا اس سے بڑا مظاہرہ کیا ہو گا کہ آپ ﷺ کو صحابہ سے مشورہ کرنے کا کہا گیا۔یہ بات ہم جانتے ہیں کہ جنگ احد میں لوگ نبی اکرمﷺ کو چھوڑ گئے تھے  پھر بھی آپ کو مشورہ کا کہا گیا :

((وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ......))

اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں

مشورے کے بعد آپﷺ کو حکم ہوا کہ آپ اس میں سے جسے بہتر سمجھتے ہیں اس پر عمل کریں:

((فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّه))

تو اللہ پر بھروسہ کریں

یہ آیت مجیدہ حسن سلوک کی وضاحت کرتی ہےجس کے ذریعے اللہ تعالی انسانی معاشرے کا تکامل چاہتا ہے اور اس کے انبیاءع نے اس کے لیے کاوشیں کی ہیں۔

مسلمانوں کی زندگی میں حسن سلوک کی اہمیت :

نرمی ،حسن سلوک اور رحم کی مسلمانوں کی زندگی میں خاص اہمیت ہے ہم اسے مزید بھی بیا ن کریں گے۔ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی مبارکہ میں ایسے مواقع آئے جس میں لوگوں نے آپ کو مشکل وقت میں چھوڑ دیا جیسے غزوہ احد میں لوگوں نے آپﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کی،اس مخالفت کے بہت ہی برے نتائج برآمد ہوئے،دشمن نے حملہ کر دیا،آپ ﷺ کے ساتھ لوگ ثابت قدم نہ رہے،لوگ شکست کھاتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھ گئے اور نبی اکرمﷺ کو چند مخلص صحابہ کے درمیان چھوڑ دیا گیا۔آپﷺ پر حملہ کیا گیا جس میں آپﷺ کے دندان مبارک شہید ہو گئے۔آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر زخم آئے آپ بلاتے رہے مگر لوگ نہ پلٹے۔لوگوں نے اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور جو ان کی ذمہ داری تھی اسے ادا نہیں کیا  اس سب کے باوجود نبی اکرمﷺ نے ان کے ساتھ جو حسن سلوک اور نرمی کی ،اس سے یہ لگتا ہی نہیں تھا کہ کچھ ہوا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ........))

(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔۔۔

دشمنوں نے آپﷺ پر تہمتیں لگائیں ،آپ ﷺ کے خلاف چالیں چلیں مگر آپ ﷺ کا پیغام دنیا میں پھیل گیا اور اللہ نے آپﷺ کو ان کے مقصد میں کامیاب فرمایا۔

نبی اکرمﷺ کی بعثت کا مقصد لوگوں کو حق کی طرف بلانا تھا۔لوگ کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے انہیں ایک درد مند دل جو نبی اکرمﷺ کی طرح ہودرکار تھا جس میں تمام انسانوں کے لیے وسعت ہو اور اس میں کسی جاہل کی جہالت کی وجہ سے کوئی تنگی نہ آئے اور نہ ہی کوئی اسے کمزور کر سکے۔

روایات میں حسن سلوک :

نبی اکرمﷺ اور اہلبیت ؑ کی روایات میں حسن سلوک کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہے اور اس حوالے سے روایات کافی زیادہ ہیں۔

نبی اکرمﷺ سے مروی ہےحسن سلوک کثرت کا باعث ہے اور تجاوز کرنا بدبختی ہے۔اس حدیث مبارکہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ حسن سلوک میں برکت ہےجو لوگوں دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں اللہ انہیں برکت دیتا ہے اور وہ لوگوں کے دلوں میں جو محبت کا بیج بوتے ہیں اس میں برکتیں ہوتی ہیں اور اللہ تعالی آسمان سے ان کے لیے برکتیں نازل فرماتا ہے۔

نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہےبے شک حسن سلوک جب کسی کے ساتھ آتا ہے تو اس کی زینت میں اضافہ کر دیتا ہے اور جب جاتا ہے تو اس کی شان و شوکت کو بھی لے جاتا ہے۔ یہ حدیث اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ حسن سلوک کے ساتھ زینت و جمال کا تعلق ہے جو بھی حسن سلوک کرتا ہے و ہ صاحب زینت و جمال بن جاتا ہے۔جو خود کو حسن سلوک سے مزین کرتا ہے حسن سلوک اس کی خوبصورتی،وقار اور ھیبت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔لوگ اس شخص میں موجود نقائص کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے اور لوگوں میں کامل فرد بن جاتا ہے۔ایک شخص ایسا ہے جو حسن سلوک نہیں کرتا  مگر دوسری  بہت سی نیکیاں کرتا ہےاس انسان کی مثال ایسے شخص کی سی ہے  جو خود سے لوگوں کو دور کر دیتا ہے  کیونکہ عملی اخلاق میں حسن اخلاق اور احسان کا بنیادی کردار ہے جس کے ذریعے انسان دوسرے لوگوں کے ساتھ معاملات کر رہا ہوتا ہے۔

امام  محمد باقر علیہ السلام  فرماتا ہے ہر چیز کےلئے ایک تالا ہے اور ایمان کا تالا حسن سلوک ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز کی حفاظت کرنے والی کوئی چیز ہوتی ہے اور ایمان کی حفاظت کرنے والی چیز حسن سلوک ہے جو اسے خراب اور برباد ہونے سے بچاتا ہے۔یہ ایک معنوی چیز کی ایک محسوس چیز سے تشبیہ ہے جس کے ذریعے بات کو سمجھایا گیا ہے۔ایمان کے تالے کو حسن سلوک کہنا اس لیے ہے کہ حسن سلوک ایمان کی ختم ہونے اور فاسد ہونے سے حفاظت کرتا ہے۔جب کوئی حسن سلوک اور نرمی کو ترک کر دیتا ہے تو وہ مخلوق پر زبان و عمل سے تشدد کرتا ہے اور وہ حسن سلوک نہیں کرتا تو ایمان کی حفاظت نہیں رہتی۔حسن سلوک کرنے کا انسان کے معاملات پر اثر پڑتا ہے۔حسن سلوک ایسا امر ہے جس کے ذریعے انسان بہت سی خرابیوں اور آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔

امام  محمد باقر علیہ السلام فرماتا سے مروی ہے اللہ  تعالی نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو سختی پر عطا نہیں کرتا۔ہم دیکھتے ہیں کہ یہ حدیث مبارکہ حسن اخلاق پر دلالت کرتی ہے یہ حدیث اس بات کا بھی بیان ہے کہ انسان کو وہ صفات اپنے اندر پیدا کرنی چاہیں جو خدا کی صفات ہیں ان جیسی پیدا نہیں کر سکتے تو اس سے ملتی جلتی پیدا کر لیں جیسے  اللہ کریم ہے کرم کو پسند کرتا ہے،کرم اچھی صفات میں سے ہے،اللہ برد بار ہے بردباری کو پسند کرتا ہے۔سخاوت اچھائی ہے اور اللہ تعالی سخی ہےاسی لیے کہا گیا ہے کہ خود کو اللہ کے اخلاق سے مزین کرو۔اللہ تعالی ایسا وجودِ کمال ہے جو تمام کمالات سے مزین ہے اور تمام نقائص سے پاک ہے اس لیے اگر تمام کمالات کو پانا چاہتے ہیں تو خود کو الہی اخلاقیات سے مزین کرنا ہو گا۔

نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں ایمان کا بہترین وزیر علم ہے،علم کا بہترین وزیر بردباری ہے،بردباری کا بہترین وزیر حسن سلوک ہے اور حسن سلوک کا بہترین وزیر صبر ہے۔وزیر وہ ہے جو امیر کا بوجھ اٹھاتا ہے اور اس کے کاموں میں اس کی مدد کرتا ہے۔علم ایمان کا وزیر ہے یہ تو واضح ہے کیونکہ الہی معارف اور دینی مسائل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم دل میں نور علم کو قوی کرتا ہے،ایمان کو قوی کرنے والے امور کی تدبیر کرتا ہے اور تمام ارکان ایمان کی حفاظت کرتا ہے اور ان کی ہر طرح کی مصیبت سے حفاظت کرتا ہے اور انسان کو ہر ایسے عمل کے صادر کرنے سے مانع بنتا ہے جو ایمان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔حلم وہی خود اطمنان ہے جس میں غضب نہیں آتا اور نہ ہی کسی چیز کو دیکھ لینے سے بھڑک اٹھتا ہے۔علم نفس کی تنابین اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیےمدد گار بنتا ہے۔روحانی منازل طے کرنے کے لیے فقط علم کافی نہیں ہے۔جب تک بادشاہ کے پاس حلم نہیں ہو گا اس کا علم اسے عوام کے معاملات میں انصاف سے کام نہیں لینے دے گا کیونکہ بادشاہ کے پاس  ایک ظالم نفس ہے جو ہر انسان کو بھٹرکانے کی کوشش کرتا ہے۔اگر وزیر حلم کی صورت میں نہیں ہوگا تو امور مملکت بگڑ جائیں گے اور معاملات ہاتھوں سے نکل جائیں گے۔

حسن سلوک حلم کا وزیر ہے وہ اس لیے کہ یہ حسن سلوک ہی بتاتا ہے کہ حلم موجود ہے۔حلم کا پتہ اسی سے چلتا ہے اور یہ حلم دیکھنے کا پہلا پیمانہ ہے اور حسن سلوک کو حلم برقرار رکھنے اور اس کے نظام کو جاری رکھنے کا بڑا ذریعہ ہے۔

جہاں تک یہ بات ہے کہ صبر حسن سلوک کے لیے وزیر ہے وہ یوں کہ صبر وہ عظیم صفت ہے جو حسن سلوک کے باقی رہنے کا باعث بنتی ہے کیونکہ جب مشکلات آتیں ہیں تو صبر کے ذریعے ان سے نمٹا جاتا ہے۔

علم،حلم اور حسن سلوک :

نبی اکرمﷺ نے علم کو ایمان کے لیے زینت قرار دیا،حلم کو علم کے لیے زینت قرار دیا ،حسن سلوک کو بردباری کے لیے زینت قرار دیا اور صبر کو حسن سلوک کے لیے زینت  قرار دیا۔اس پورے عمل کے نتیجے میں ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ایمان،علم اور اخلاق میں باہمی رابطہ اور تعلق موجود ہے۔جو چاہتا ہے کہ علم حاصل کرے تو اسے چاہیے کہ خود کو بردباری سے زینت دے یوں اس کا علم فائد مند ہو جاتا ہے۔وہ علم جس کے ساتھ غرور،تکبر اور عجب ہو وہ منزل تک پہنچانے والا علم نہیں ہوتا۔وہ جو چاہتا ہے کہ اس کا علم نافع ہو اور اس میں حسن سلوک  پیدا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر بردبادی پیدا کرے ۔

حسن سلوک میں بزرگی،کرامت،تواضع،وسعت  اور لوگوں کے ساتھ ان کی عقلوں کے مطابق مکالمہ ہوتا ہے،لوگوں کے گناہوں سے درگزر کرنا ہوتا ہے،جو اول فول بولتے ہیں اس سے خود کو بلند کرنا ہوتا ہے۔ حسن اخلاق نرمی سے بڑھتا ہے،جہاں بھٹکنے کا خطرہ ہو وہاں راستہ دکھاتا ہے،جب کوئی اس پر عمل کرتا ہے تو پچھتاتا نہیں ہے،جھگڑے کی صورتحال درپیش ہوتو بھی کام آتا ہے،جب غصہ اور بغاوت کے آثار ہوں تو بھی راہ اعتدال پر رکھتا ہے۔نبی اکرمﷺ ہمیں ایمان علم اور اخلاق کے ساتھ جڑا دیکھنا چاہتے ہیں،آپﷺ کی ذات گرامی حق مجسمہ اخلاق تھی۔آپﷺ کی سنت عملی سنت ہے جسے قرآن مجید خلق عظیم سے تعبیر کرتا ہےآپﷺ کا روشن اخلاق زمانے کے لیے نمونہ عمل ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

 ((وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ))(سورة القلم ـ 4)

۴۔ اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔

نبی اکرمﷺ کا فرمان ہےدوساتھیوں میں سے اللہ کے ہاں بڑے اجر کا حقدار اور محبوب وہ ہے جو ان میں سے زیادہ حسن اخلاق رکھتا ہے۔

اللہ کے لیے تعلق رکھنا اللہ کا پسندیدہ عمل ہے اس کے ذریعے سے اللہ نے اسلام کو بڑی برکت دی،اسی پر لوگوں کو ابھارا ہے اور اس پر عمل کرنےو الوں کے لیے بڑا اجر اور اعلی منازل رکھی ہیں۔جو اللہ کے لیے تعلق رکھتے ہیں ان کے درمیان فرق ہے اور ان اجر و منزل میں فرق کی کیا وجہ ہے؟

اللہ کے نبی ﷺ نے ہمارے لیے اس راز کو بتا دیا ہے جس کی وجہ سے فضیلتیں زیادہ ہوتی ہیں اور یہ حسن سلوک ہے۔حسن سلوک وہ صفت ہے جس کی وجہ سے دو ساتھیوں میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح ملتی ہے،اسی  کےذریعے شرف میں اضافہ ہوتا ہے اور اللہ کی محبت ملتی ہے۔اللہ تعالی دنیا میں لوگوں کو حسن اخلاق پر جزا دیتا ہے اور آخرت میں منازل بلند ہوں گی نبی اکرمﷺ نے اس کی وضاحت کی ہے۔آپ ﷺ فرماتے ہیں:

حسن سلوک میں برکت اور کثرت ہےجو حسن سلوک سے محروم ہے وہ بھلائی سے محروم ہے۔ امام صادق ؑ فرماتے ہیں جب اہلبیت ؑ کو حسن سلوک میں سے عطا کیا تو اللہ نے ان پر رزق کو وسیع کر دیا اور کوئی چیز انہیں عاجز نہیں کر سکتی۔فضول خرچی کے ساتھ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے اللہ تعالی خود بھی رفیق ہے اور دوسروں میں بھی رفق کو پسند کرتا ہے

Read 132 times