تعلیم و تربیت دینے سے مراد کیا ہے؟

Rate this item
(0 votes)
تعلیم و تربیت دینے سے مراد کیا ہے؟

حسب روایت ہم بزرگوں کے درمیان بیٹھے ان کی گفتگو سن رہے تھے۔ دورانِ گفتگو کسی بزرگ نے کہا کہ پہلے وقتوں میں جب ہم گاؤں کے بیٹھک میں شریک ہوتے تھے تو وہاں بزرگوں کی اکثریت نیک، پرہیزگار، شفیق، مہربانی ہونے کے ساتھ ساتھ خاندانی ہوتے تھے۔ ہمارے برابر میں بیٹھے ہوئے نوجوان نے پوچھا، دادا جان باقی باتیں تو ہماری سمجھ میں آئیں، مگر خاندانی لفظ سمجھنے سے قاصر ہیں؟ بزرگ نے نوجوان کی طرف دیکھا، مسکرائے، پھر بولنے لگے کہ آپ اپنے اردگرد بے چینی، بے سکون دیکھ رہے ہو، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماجی اداروں میں خاندانی لوگ نایاب ہوچکے ہیں۔

بزرگ نے مزید کہا اگر ان اداروں میں قدم رکھنے کے لیے خاندانی ہونا بنیادی شرائط میں ہو تو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں جرائم کا گراف ایک دم سے نیچے آئے گا۔ نوجوان نے پھر پوچھا، دادا جان ہمارا دین ہمیں حکم دیتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ کے نذدیک کسی قوم، قبیلہ، خاندان کی حیثیت نہیں بلکہ صاحبِ تقویٰ کی اہمیت ہے؟ بزرگ کہنے لگے بالکل ہمارا دین سچا ہے اور ان کی تعلیمات حقیقت پر منبی ہے۔ میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ جب کوئی بھی فرد صفاتِ حسنہ کو اپنی ذات میں بساتا ہے تو ہم  اسے خاندانی کہتے ہیں۔ مثلاً

1۔ خاندانی شخص خود بھوکا ہوگا مگر مہمان کو بھوکا نہیں سلائے گا۔
2۔ خاندانی شخص تعلیم و تربیت کے لیے اپنی رہائش، گھربار کو پیش کرے گا
3۔ خاندانی شخص خواتین کی عزت و توقیر کرے گا
4۔ خاندانی شخص غریب، یتیم، مسکین کو اپنی اولاد کی جگہ رکھ کر ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے گا
5۔ خاندانی شخص ہمیشہ فساد کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا
6۔ خاندانی شخص بزرگوں کا احترام کرے گا
7۔ خاندانی شخص انفرادی مفادات کے بجائے اجتماعی مفادات کو ترجیح دے گا
8۔ خاندانی شخص ایثاروقربانی کا عملی مظاہرہ اپنی ذات سے شروع کرے گا
9۔ خاندانی شخص غیبت، الزامات اور جھوٹی قسمیں کھانے والوں سے دور رہے گا
10۔ خاندانی شخص پروپیگنڈا کرنے والوں سے دور رہے گا

نوجوان کہنے لگے جی جی دادا جان اب ہم سمجھے گئے، ہمارا بنیادی اشکال دور ہوگیا۔ میں کافی دیر سے دادا، پوتا کی گفتگو بڑے غور سے سن رہا تھا اور میری آنکھوں کے سامنے میرے ایک دوست کی کتابِ زندگی کے ورق تیزی سے پلٹ رہے تھے۔ قصہ مختصر،  ہمارے ایک دوست نہایت شریف النفس، مگر بیوی الامان الحفیظ۔ بیچارہ شوہر کہیں سے کوئی نصیحت بھرا پیغام، آنکھوں دیکھا حال، مشاہدہ، تجربہ بیوی کے سامنے بیان کرنا شروع کرے تو آدھی بات اس کے حلق میں پھنس کر رہ جاتی تھی، اس کی بنیادی وجہ اس کی بیوی کا وسوسہ، وہم ہوتا ہے۔

پچھلے دنوں وہ اپنے جذبات سے مرعوب ہوکر اپنے بچپن کے دوست کو خوشی خوشی کوئی تحفہ دیتا ہے اور گھر میں اپنی بیوی سے ذکر کرتا ہے کہ آج میں نے اپنے بچپن کے فلاں دوست کو یہ چیز تحفہ میں دی ہے، بس اتنا سننا تھا کہ بیوی آگ بگولا ہوئی اور انہیں ایسی کھری کھری سنائی کہ وہ بیچارہ  اگلی صبح اپنے دوست کے گھر پہنچ گیا کہ برائے مہربانی کل میں نے جو تحفہ آپ کو دیا تھا وہ مجھے واپس کریں۔ یہی وجہ تھی کہ پرانے وقتوں میں لڑکے کا رشتہ بھیجنے سے پہلے اس کے گھر کی خواتین دلہن کے گھر کا ماحول دیکھتی تھیں، معلومات لیتی تھیں، پھر باقاعدہ طور پر مرد رشتہ لے کر جاتے تھے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک تربیت یافتہ عورت کئی رشتوں میں الفت و محبت پیدا کرتی ہے مگر اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ مخاطبین میں قبولیت کا جذبہ ہو، اگر مخاطبین بدخواں، حاسد اور دلوں میں نفرت و کدورت رکھتے ہوں تو وہ کبھی بھی اس خاتون کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے قرآنِ مجیدکا واضح پیغام ہے کہ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوْطٍؕ-كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـا وَّ قِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ۔ (القران، سورۃ التحریم، آیت 10)۔ ترجمہ: اللہ کافروں کی مثال دیتا ہے نوح کی عورت اور لوط کی عورت وہ ہمارے بندوں میں دو سزاوارِ قرب (مقرّب) بندوں کے نکاح میں تھیں پھر انہوں نے ان سے دغا کی تو وہ اللہ کے سامنے انہیں کچھ کام نہ آئے اور فرما دیا گیا کہ تم دونوں عورتیں جہنم میں جاؤ جانے والوں کے ساتھ۔

دوسری جگہ آیا ہے کہ وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَۘ-اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔ (القران، سورۃ التحریم، آیت 11)۔ ترجمہ: اور اللہ نے مسلمانوں کے لئے فرعون کی بیوی کو مثال بنا دیا جب اس نے عرض کی، اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات عطا فرما۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہم اپنی مصروف ترین زندگی سے کچھ لمحات نکال کر اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا؟ آنے والے وقتوں کے لیے کیا ہم  نے کوئی ایسا کام انجام دیا ہے جس کی بنیاد پر ہمیں یہ امید ہو کہ ہماراانجام بخیر ہو؟ جبکہ ہم آئے روز اپنے عزیزوں کو، دوستوں کو، رشتہ داروں کو، جاننے والوں کو اچانک اپنی محفلوں سے، پروگراموں سے، اداروں سے، محلوں سے، گھروں سے غائب ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

جب ہم پوچھتے ہیں کہ یہ کیوں غائب ہے تو فوراً جواب ملتا ہے کہ وہ اس دنیا کو خیرباد کہہ کر چلا گیا۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ کہاں چلے گئے؟ ہر لب خاموش، آنکھوں میں آنسو، دلوں میں حسرتیں اور زبان میں ایک ہی جملہ گردش کرتا ہے کہ کاش جانے والا اتنی جلدی نہیں کرتا؟ اگر انہیں جانا ہی تھا تو کم از کم اپنے بکھرے کاموں کو سنوارتا، دوستوں، رشتہ داروں سے رخصت لیتا، خدا حافظ کہتا، اپنے سفر کے اخراجات، کپڑے، بستر، کھانا وغیرہ ساتھ رکھتا باالفاظِ دیگر اپنے لیے توشہ آخرت کا انتظام کرکے چلے جاتے۔ یہ تو ہماری خواہشات ہیں موت کا فرشتہ، موت سے غافل انسانوں کو اتنا موقع نہیں دیتا۔

فاعتبروا یااولی الابصار

تحریر: ڈاکٹر انصار مدنی

Read 13 times