اہل بیت (ع) کی محبت اطاعت کا سرچشمہ قرار پاتی ہے

Rate this item
(1 Vote)
اہل بیت (ع) کی محبت اطاعت کا سرچشمہ قرار پاتی ہے

 اہل بیت علیہم السلام کی درخشاں تعلیمات میں ایک بنیادی سوال ہمیشہ مؤمنین کے ذہن میں موجود رہا ہے: ہم کس طرح اپنے تعلق کو ان چودہ پاک ہستیوں سے زیادہ گہرا اور مضبوط بنا سکتے ہیں؟ اسی سوال کا مدلل اور قرآنی و روائی جواب حجت الاسلام والمسلمین رضا محمدی شاہرودی نے "پرسمان تاریخی" نامی پروگرام میں پیش کیا ہے۔

سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اہل بیت علیہم السلام کو جیسا وہ تھے اور جیسا کہ روایات میں ان کا تعارف ہے، پورے وجودی پہلوؤں کے ساتھ پہچانیں اور ان کی معرفت حاصل کریں۔

یہ معرفت معتبر روایات، تاریخی شواہد حتی کہ دوست و دشمن کی نقل کردہ باتوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ جتنا یہ معرفت گہری ہوگی اتنا ہی ہمارا ایمان، عقیدہ، عشق اور محبت بڑھے گی۔ یہی محبت، ہماری اطاعت کا سرچشمہ بنتی ہے اور جب اطاعت پیدا ہو جائے، تو ہم ہدف تک پہنچ چکے ہوتے ہیں، جیسا کہ خداوند عالم قرآن کریم فرماتا ہے: "وَ مَن یُطِعِ اللَّهَ وَ الرَّسُولَ فَأُولَـٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَیْهِم..." یعنی جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں۔ (سورہ نساء، آیت 69)

اور سورہ فاتحہ میں ہم پڑھتے ہیں: "صراط الذین أنعمت علیهم" یعنی ان کا راستہ جن پر تُو نے انعام فرمایا، اور یہ وہی افراد ہیں جنہیں سورہ نساء کی آیت 69 میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے طور پر متعارف کرایا گیا۔

پس پہلا راستہ ہے معرفت، پھر محبت جو اسی معرفت سے پیدا ہوتی ہےاور پھر اطاعت، جو محبت کی فطری نتیجہ ہے اور یوں انسان مطلوبہ مقام تک پہنچ جاتا ہے۔

دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنے ایمان اور عقیدہ کو مضبوط بنانے کے لیے عملی طور پر اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرے۔ کیونکہ جو شخص کسی سے مشابہت اختیار کرتا ہے، وہ خود بخود اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ جیسے ایک کھلاڑی کا مداح اس کے لباس، انداز و اطوار میں اس کی نقل کرتا ہے، ویسے ہی ہمیں بھی اہل بیت علیہم السلام کے کردار و عمل کو اپنانا چاہیے۔ ان کی سیرت کو عملی زندگی میں نافذ کر کے ہم ان سے قلبی قرب حاصل کر سکتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص نماز میں امام سجاد علیہ السلام یا امام رضا علیہ السلام کو اپنا نمونہ بنائے اور ان کی کیفیت نماز میں اپنانے کی کوشش کرے تو یہی عمل اسے قلباً ان بزرگ ہستیوں کے قریب کر دیتا ہے اور اس کا ایمان مضبوط تر ہوتا ہے۔

تیسرا نکتہ توسل ہے۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنی مناجات میں خود کو واسطہ بنا کر اللہ سے دعا مانگتے ہیں، ہمیں بھی اہل بیت علیہم السلام کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ بنانا چاہیے تاکہ ہم ان کی معرفت حاصل کر سکیں اور ان کے قریب ہو سکیں۔

توسل ایک شارٹ کٹ ہے، جو ہمیں خدا کی قربت کی جانب تیز تر لے جاتا ہے اگر ہم یہ تین قدم "معرفت، عمل اور توسل " ایک ساتھ اٹھائیں تو راستہ بھی مختصر ہو جاتا ہے اور دل بھی نورانی تر۔

Read 11 times