وہ واحد دین جس نے عورت کو اس کی حقیقی قدر و منزلت دی

Rate this item
(0 votes)
وہ واحد دین جس نے عورت کو اس کی حقیقی قدر و منزلت دی

مرحوم علامہ طباطبائیؒ ـ صاحبِ تفسیرِ عظیم المیزان ـ نے سورہ بقرہ کی آیات ۲۲۸ تا ۲۴۲ کی تفسیر میں “اسلام اور دیگر مذاہب میں عورت کے حقوق، اُس کی حیثیت اور سماجی مقام” کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ذیل میں اسی بحث کا آٹھواں حصہ پیش کیا جاتا ہے۔

اس گفتگو سے حاصل ہونے والے نتائج

علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں کہ پوری بحث سے چند نکات سامنے آتے ہیں:

۱۔ اسلام سے پہلے انسان کے ہاں عورت کے بارے میں دو بنیادی نظریے موجود تھے:

پہلا نظریہ:بہت سے لوگ عورت کو انسان نہیں بلکہ بے زبان جانور کے درجے کی مخلوق سمجھتے تھے۔

دوسرا نظریہ: کچھ لوگ عورت کو پست اور کمزور انسان سمجھتے تھے، ایسا وجود جس سے مرد ـ یعنی مکمل انسان ـ اس وقت تک محفوظ نہیں رہ سکتا جب تک عورت اُس کی مکمل تابع نہ ہو۔

اسی لیے عورت کو ہمیشہ مرد کی ماتحتی میں رکھا جاتا تھا، اور اسے کسی بھی طرح کی ذاتی آزادی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔

پہلا نظریہ زیادہ تر جنگلی قوموں میں پایا جاتا تھا، جبکہ دوسرا نظریہ اُس زمانے کی مہذب اقوام کا رویّہ تھا۔

۲۔ اسلام سے پہلے عورت کی سماجی حیثیت کے بارے میں بھی دو طرح کے تصوّر تھے:

پہلا تصور: کچھ معاشروں میں عورت کو انسانی معاشرے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔

وہ اسے گھر یا سامان کے درجے کی کوئی ضرورت سمجھتے تھے، جیسے رہائش ایک ضرورت ہے مگر انسانوں کے اجتماع کا حصہ نہیں۔

دوسرا تصور: کچھ اقوام میں عورت ایک قیدی یا غلام کی طرح سمجھی جاتی تھی۔

وہ معاشرے کے طاقت ور طبقے کی اسیر ہوتی، اس سے محنت لی جاتی اور اس کے کسی بھی اثر و نفوذ کو روک دیا جاتا۔

۳۔ عورت کی محرومی مکمل اور ہمہ جہت تھی۔

ان معاشروں میں عورت کو ہر اس حق سے محروم رکھا جاتا تھا جس سے وہ کسی فائدے یا مقام کی مستحق ہو سکتی تھی…

سوائے اُن حقوق کے جن سے آخرکار فائدہ مردوں کو پہنچتا تھا، کیونکہ مرد ہی عورت کے مالک اور قیم سمجھے جاتے تھے۔

۴۔ عورت کے ساتھ برتاؤ کا بنیادی اصول: طاقت ور کا کمزور پر غلبہ

غیر مہذب اقوام عورت سے ہر معاملہ محض اپنی خواہش، تسلط اور فائدے کے حصول کے تحت کرتی تھیں۔

مہذب معاشروں میں بھی یہی سوچ موجود تھی، البتہ وہ اس میں یہ نظریہ بھی شامل کرتے تھے کہ:

عورت فطری طور پر کمزور اور ناقص ہے، وہ اپنی زندگی کے امور میں خود مختار نہیں ہو سکتی، اور وہ ایک خطرناک وجود ہے جس کے فتنہ و فساد سے محفوظ رہنا مشکل ہے۔

ممکن ہے کہ ان مختلف قوموں کے میل جول اور وقت کے تغیر نے ان نظریات کو مزید پختہ کر دیا ہو۔

اسلام نے عورت کے بارے میں جو انقلاب پیدا کیا

یہ تمام حقائق اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ اسلام کے آنے سے پہلے دنیا عورت کے بارے میں کس قدر پست اور توہین آمیز نظریات رکھتی تھی۔

علامہ فرماتے ہیں: کسی بھی قدیم تاریخ یا قدیم تحریر میں عورت کی عزت و احترام کا واضح تصور نہیں ملتا۔البتہ تورات اور حضرت عیسیٰؑ کی چند نصیحتوں میں تھوڑی بہت ہمدردی ملتی ہے کہ عورتوں کے ساتھ نرمی اور سہولت کا معاملہ کیا جائے۔

لیکن اسلام ـ یعنی وہ دین جس کے قیام کے لیے قرآن نازل ہوا ـ نے عورت کے بارے میں ایک ایسا نظریہ پیش کیا جو اس سے پہلے پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتا تھا۔

اسلام نے عورت کو اسی حقیقت اور فطرت پر متعارف کرایا جس پر وہ پیدا کی گئی ہے،انسانوں کے بنائے ہوئے غلط تصورات اور ناجائز رسموں کو منسوخ کیا، عورت کے مقام کے بارے میں ساری پست سوچوں کو باطل قرار دے دیا، اور ایک نئی، باوقار، متوازن اور فطری حیثیت عورت کو عطا کی۔

اسلام نے سب اقوامِ عالم کی رائج سوچوں کا مقابلہ کیا اور عورت کو اس کی اصل اور حقیقی منزل دکھائی، جسے انسانوں نے صدیوں سے مٹا دیا تھا۔

(ماخذ:ترجمہ تفسیر المیزان، جلد ۲، صفحہ ۴۰۶)

Read 4 times