وہ انقلاب جس نے عورت کو فیصلے اور ارادے کی قوت عطا کی

Rate this item
(0 votes)
وہ انقلاب جس نے عورت کو فیصلے اور ارادے کی قوت عطا کی

مرحوم علامہ طباطبائیؒ "جو تفسیر المیزان کے مصنف ہیں" نے سورہ بقرہ کی آیات 228 تا 242 کی تفسیر میں یہ وضاحت کی ہے کہ اسلام اور دیگر ادیان و اقوام میں عورت کے حقوق، شخصیت اور سماجی مقام کے بارے میں کیا اصول پائے جاتے ہیں۔ ذیل میں اسی سلسلے کی گیارہویں قسط پیش کی جا رہی ہے۔

اسلام میں عورت کا سماجی مقام اور حیثیت

اسلام نے عورت اور مرد دونوں کو معاشرتی معاملات، فیصلہ سازی اور اجتماعی ذمہ داریوں میں برابر کا حق دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح مرد کھانے، پینے، پہننے اور زندگی کے دیگر تقاضے پورے کرنے کا محتاج ہے، عورت بھی انہی ضروریات کی حامل ہے۔ اسی لیے قرآن کہتا ہے: "بَعۡضُکُم مِّنۢ بَعۡضٍ" یعنی تم سب ایک دوسرے ہی کی جنس سے ہو۔

لہٰذا جس طرح مرد اپنے بارے میں خود فیصلہ کرنے، خود عمل کرنے اور اپنی محنت کا مالک بننے کا حق رکھتا ہے، اسی طرح عورت بھی اپنی کوشش اور عمل کی مالک ہے۔

قرآن فرماتا ہے: "لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ"یعنی عورت اور مرد، دونوں اپنے عمل کے خود ذمہ دار ہیں۔چنانچہ اسلام کے نزدیک حقوق کے دائرے میں عورت اور مرد برابر ہیں۔ البتہ اللہ نے فطرتِ انسانی کے تحت عورت میں دو خصوصی صفات رکھی ہیں جن کی وجہ سے اس کی ذمہ داریاں اور معاشرتی کردار کچھ پہلوؤں میں مرد سے مختلف ہو جاتا ہے۔

عورت کی تخلیق میں دو امتیازی خصوصیات

1. نسلِ انسانی کی پرورش کا مرکز

اللہ نے عورت کو نسلِ انسانی کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنایا۔

بچہ اسی کے وجود میں نشوونما پاتا ہے، اسی کے بطن میں پروان چڑھ کر دنیا میں آتا ہے۔

اس لیے بقایائے نسلِ بشر عورت کے وجود سے وابستہ ہے۔

اور چونکہ وہ "کھیتی" (قرآن کے لفظ میں: حرث) ہے، اس حیثیت سے اس کے کچھ خاص احکام ہیں جو مرد سے مختلف ہیں۔

2. جذب و محبت کی لطیف فطرت

عورت کو اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ مرد کو اپنی طرف مائل کر سکے تاکہ نکاح قائم ہو، خاندان وجود میں آئے اور نسل باقی رہے۔

اسی مقصد کے تحت:

اللہ نے عورت کی جسمانی ساخت کو لطیف بنایا

اور اس کے احساسات و جذبات کو نرم و رقیق رکھا

تاکہ وہ بچے کی پرورش اور گھر کی ذمہ داریوں کے مشقت بھرے مرحلوں کو بہتر طریقے سے نبھا سکے۔

یہ دونوں خصوصیات "ایک جسمانی، ایک روحانی" عورت کی سماجی ذمہ داریوں اور کردار پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

یہی ہے اسلام میں عورت کا مقام اور سماجی حیثیت، اور اسی بیان سے مرد کا سماجی مقام بھی واضح ہو جاتا ہے۔ یوں دونوں کے مشترک احکام اور ہر ایک کے مخصوص احکام میں جو پیچیدگیاں نظر آتی ہیں، وہ بھی آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہیں۔

جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے: «وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَکُمْ عَلَیٰ بَعْض لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِمَّا اکْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِه إِنَّ اللَّهَ کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًاـ»

"اور تم اس فضیلت کی تمنا نہ کرو جو اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر دی ہے۔ مردوں کے لیے ان کی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کی کمائی کا حصہ۔ اور اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو؛ بے شک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔"

اسلام کا توازن: نہ مرد افضل، نہ عورت

اسلام وضاحت کرتا ہے کہ: کچھ فضیلتیں خالص فطری ذمہ داریوں کی وجہ سے مختص ہوتی ہیں

کچھ فضیلتیں عمل اور کردار پر منحصر ہوتی ہیں، جو دونوں کے لیے یکساں ہیں مثلاً: مرد کا حصۂ وراثت عورت سے زیادہ رکھا گیا۔

گھر کا خرچ عورت پر لازم نہیں کیا گیا— یہ اس کی فضیلت ہے لہٰذا: مرد یہ آرزو نہ کرے: "کاش گھر کا خرچ میری ذمہ داری نہ ہوتا" عورت یہ آرزو نہ کرے: "کاش وراثت میں میرا حصہ برابر ہوتا"

اس لیے کہ یہ فطری ذمہ داریوں کی بنیاد پر تقسیم ہیں، نہ فضیلت یا کمی کی بنیاد پر۔ باقی فضیلتیں "جیسے ایمان، علم، عقل، تقویٰ اور نیکی" خالصتاً عمل پر منحصر ہیں۔ یہ نہ مرد سے مخصوص ہیں نہ عورت سے؛ جو زیادہ عمل کرے گا، وہی زیادہ مقام پائے گا۔ اسی لیے آیت کے آخر میں فرمایا گیا: "وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ" یعنی اللہ کے فضل کا طلبگار بنو۔

 

(منبع: ترجمہ تفسیر المیزان، جلد 2، صفحہ 410)

Read 3 times