سلیمانی

سلیمانی

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے طلباء اور  ملک بھر کی طلباء تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات میں فرمایا: امریکہ بیس سال پہلے کی نسبت اب ہر چیز میں بہت زيادہ کمزور ہوگيا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی یونیورسٹیوں کو قابل فخر یونیورسٹیاں قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی سے پہلے کی یونیورسٹیوں اور انقلاب اسلامی کے بعد کی یونیورسٹیوں کا آپس موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ انقلاب سے قبل یونیورسٹیوں میں طلباء کی تعداد ہزاروں میں تھی اور انقلاب اسلامی کے بعد یونیورسٹیوں میں طلباء کی تعداد کئی ملین تک پہنچ گئی ہے۔ ایرانی یونیورسٹیوں میں علمی اور سائنسی ترقی کی بدولت آج ملک بہت سے شعبوں ميں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی سطح پر ایک نئے نظم کی تشکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دنیا جدید اور نئے نظم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سابق سویت یونین کے خاتمہ کے بعد امریکہ نے دنیا پراپنی بالا دستی کا نعرہ لگایا تھا جو غلط نعرہ تھا ۔ آج دنیا نئے عالمی نظم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کی بالا دستی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ امریکہ بیس سال پہلے کی نسبت آج ہر چیز ميں بہت ہی ضعیف اور کمزور ہوگیا ہے۔ امریکہ سیاسی ، اقتصادی ، ثقافتی اور عسکری  لحاظ سے اندرونی اور بیرونی سطح پر بہت ہی کمزور ہوچکا ہے اوراس کی کمزوری میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے ۔ امریکہ کا زوال قریب پہنچ گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی پارلیمنٹ کے نمائندوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مجموعی طور پر ایرانی پارلیمنٹ کے نمائندے انقلاب ہیں ۔ پارلیمنٹ کے نمائندوں کو اپنی نظارتی ذمہ د اریوں پر عمل کرنا چاہیے۔ حکومت اور پارلیمنٹ  میں اچھے اور عمدہ افراد موجود ہیں، جنھیں عوام کی خدمت پر اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
.taghribnews.

 یوم قدس ان اہم ترین دنوں میں سے ایک ہے جس کے بارے میں مراجع عظام، علمائے کرام اور حوزہ کے عمائدین نے بہت سے احکامات اور تاکیدات بیان کی ہیں۔ یہاں ہم قدس کے بارے میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان شدہ چند نکات کو قارئین کے استفادہ کے لئے پیش کر رہے ہیں:

حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ:

یوم قدس اسلام کا دن ہے۔

یوم قدس اسلام کی حیات کا دن ہے۔

یوم القدس ایک ایسا دن ہے (جو یہ یاد دلاتا ہے کہ) اسلام کو زندہ کرنا ضروری ہے۔

یوم القدس وہ دن ہے جب مظلوم قوموں کی تقدیر کا تعین ہونا چاہیے۔

یوم القدس ایک عالمی دن ہے؛ یہ دن صرف قدس کے لیے مخصوص نہیں ہے، یہ مظلوموں کے لیے مستکبرین کا مقابلہ کرنے کا دن ہے۔

یوم القدس جو لیلۃ القدر سے متصل ہے، اسے مسلمانوں میں دوبارہ زندہ کرنے اور ان کی بیداری اور ہوشیاری کا ذریعہ بننے کی ضرورت ہے۔

دنیا کے مسلمانوں کو یوم قدس کو تمام مسلمانوں بلکہ تمام دنیا کے مظلوموں کا بھی دن سمجھنا چاہیے۔

یوم القدس جو کہ خدائے بزرگ و برتر کے مہینہ کے آخری ایام میں ہے، اس بات کا مستحق ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان بڑے شیطانوں اور طاغوتی سپر پاورز کی غلامی سے آزاد ہو کر خدای لایزال کی طاقت میں شامل ہو جائیں۔

ماخذ: کلمات قصار، صفحہ 147 و 148

.taghribnews.

فلسطین پر صہیونی رژیم کے غاصبانہ قبضے کو 74 برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ان تمام سالوں میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ یہ جعلی رژیم اس مقدس سرزمین پر اپنا تسلط مستحکم کرنے میں ناکام رہی ہے اور خود کو ایک قابل قبول ریاست کی حد تک نہیں لا سکی۔ کسی بھی نئی ریاست کے معرض وجود میں آنے کے بعد اسے خود کو منوانے میں زیادہ سے زیادہ 25 سال، یعنی ایک نسل کا وقت درکار ہوتا ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال پاکستان کا جنم لینا ہے۔ پاکستان نے اپنی تشکیل کے 25 سال بعد استحکام حاصل کیا اور 1972ء میں ہندوستان نے بھی اسے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرکے اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح بنگلہ دیش، عراق، سعودی عرب، کویت، قطر، عمان، مصر، الجزائر، تیونس وغیرہ دیگر مثالیں ہیں۔

لیکن کیا وجہ ہے کہ غاصب صہیونی رژیم اب تک خود کو تسلیم نہیں کروا سکی اور اس کی مسلح افواج اب بھی ہائی الرٹ ہیں؟ اس کی ایک اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا مثالوں میں اگرچہ ان ریاستوں کی تشکیل سے پہلے اس نام کا کوئی ملک موجود نہیں تھا، لیکن سرزمین اور قوم موجود تھی۔ مثال کے طور پر پاکستان بننے سے پہلے جو عوام یہاں زندگی بسر کر رہے تھے، وہ یہیں کے مقامی افراد تھے اور انہیں دنیا کے کسی اور کونے سے اکٹھا کرکے یہاں نہیں لایا گیا تھا۔ لاہور، کراچی، راولپنڈی وغیرہ کے باسی گذشتہ کئی نسلوں سے اپنے آبائی گھروں میں مقیم تھے اور ان شہروں کی زمین ان کی آبائی ملکیت تھی اور وہ ان شہروں کے پکے شہری تھے۔ یہ سرزمینیں اور وہاں کے باسی ناقابل انکار حقیقت تھے اور فرق صرف یہ تھا کہ ان پر حکمران کوئی اور تھا۔

لہذا جب پاکستان بنا تو صرف حاکمیت تبدیل ہوئی اور ریاست کے باقی عناصر جوں کے توں باقی رہے۔ دوسری طرف جب ہم اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی تشکیل کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہاں ریاست کا کوئی بھی عنصر موجود نہیں تھا۔ نہ ان کی سرزمین تھی، نہ ہی قوم تھی اور نہ ہی حاکمیت پائی جاتی تھی۔ چونکہ حاکمیت بھی دراصل قوم اور سرزمین کے ملاپ سے معرض وجود میں آتی ہے، لہذا غاصب صہیونی رژیم جعلی ہونے کے اندر جعلی اور اس کے اندر بھی جعلی ہے۔ یعنی تین سطح پر جعلی پن تشکیل پایا ہے، تب جا کر اسرائیل کی جعلی صہیونی رژیم معرض وجود میں لائی گئی ہے۔ 75 برس یعنی تین نسلیں گزر جانے کے بعد بھی فلسطین میں مزاحمت جاری رہنا بذات خود غاصب صہیونی رژیم کے جعلی ہونے کا بڑا ثبوت ہے۔

آج بھی جب غزہ کی پٹی، رام اللہ، حیفا، بئر السبع، صفد، یافا، عکار وغیرہ میں ایک فلسطین بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں ہوتا کہ اس کا ملک مقبوضہ حالت میں ہے اور اسے اپنے ملک کو آزاد کروانے کیلئے جدوجہد انجام دینی چاہیئے۔ لہذا آج ہم دیکھتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین کے چپے چپے میں مزاحمتی کارروائیاں اور آزادی کی جدوجہد جاری ہے اور تمام فلسطینی شہری اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے شہریوں کی نظر میں ان کی سرزمین غصب شدہ ہے اور غزہ کی پٹی میں خان یونس، مغربی کنارے میں الخلیل، جنوب میں بئر السبع اور شمال میں صفد میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ یوں فلسطینی سرزمین آج بھی وہی سرزمین ہے جو 1948ء میں تھی اور آج بھی اس کا وہی تشخص ہے، جو غصب ہونے سے پہلے پایا جاتا تھا۔

فلسطین کی اسلامی سرزمین پر اسرائیل جیسی جعلی ریاست تشکیل دینے پر مبنی مغربی دنیا کے مجرمانہ اقدام کو 74 سال گزر جانے کے بعد بھی یہ جعلی رژیم اسلامی مقدس مقامات پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اب بھی اہم مذہبی مواقع پر غاصب صہیونی افواج ان مقدس مقامات کا محاصرہ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں اور آج بھی یہ مقدس مقامات فلسطینی مسلمانوں اور یہودی آبادکاروں کے درمیان شدید جھڑپوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ابھی اسی وقت الخلیل، نابلس اور قدس شریف میں مسلمانوں کے مقدس مقامات غاصب صہیونی افواج کے محاصرے میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدس مقامات اب بھی متنازعہ ہیں اور ان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا اور غاصب صہیونی رژیم ان پر اپنا تسلط قائم نہیں کر پائی ہے۔

اس بات کی اہمیت اس وقت زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ صہیونی رژیم کے بانیوں نے یورپ، افریقہ اور ایشیاء میں مقیم یہودیوں کو یہ لالچ دے کر فلسطین بلایا تھا کہ وہاں انہیں مقدس مقامات تک مکمل رسائی حاصل ہوگی۔ آج ان یہودی مہاجرین کی اکثریت مر چکی ہے یا جوانی میں ہی اسرائیل چھوڑ کر واپس جا چکی ہے۔ ان میں سے بعض اس حد تک مسن ہوچکے ہیں کہ ان مقدس مقامات کی جانب جانے کی جرات نہیں کرتے۔ وہاں جا کر اپنی مذہبی رسومات ادا کرنا تو دور کی بات ہے۔ غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے یہودی آبادکاروں کو فلسطین کے مشرقی حصوں میں بسانا بھی اس رژیم کی کمزوری کی علامت ہے، کیونکہ تقریباً تمام مقدس مقامات فلسطین کے مغربی حصوں میں واقع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی فلسطین میں مسلمان شہریوں کی تعداد یہودی آبادکاروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

اسلام ٹائمز


اگرچہ ناجائز صہیونی ریاست مظلوم فلسطینیوں پر کافی عرصے سے ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، لیکن ہر سال جب بھی مسلمانوں کا اسلامی مہینہ ماہ مبارک رمضان آتا ہے، تو ان مظالم کی شدت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور کھلم کھلا عالم اسلام کی غیرت کو للکارا جاتا ہے، طاقت کے نشے میں چور اسرائیلی افواج فلسطینی مسلمانوں پر حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ جیسی مقدس مسجد میں بھی ظلم کرنے سے اور دہشتگردانہ کارروائیوں سے باز نہیں آتیں، یہ اور بات ہے کہ انہیں مزاحمت کی صورت میں منہ کی کھانا پڑتی ہے۔ ان دنوں صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں اور ڈرون طیاروں نے بڑی تعداد میں غزہ پر فضائی حملے کئے، جس کا فلسطینی استقامت نے منہ توڑ جواب دیا۔ فلسطین کے استقامتی گروہوں نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ صیہونی حکومت کی جارحیتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہیں اور اس کا ڈٹ کر جواب دیں گے اور جارحیت کی صورت میں نتائج کی ذمہ داری صیہونیوں پر ہوگی۔

گذشتہ برس بھی رمضان کے دوران غزہ کی پٹی پر مزاحمت کاروں کی بڑی کامیابی سے صیہونی ریاست اور اس کی فوجی قیادت کو شرمناک شکست ہوئی۔ رمضان المبارک میں ان کارروائیوں کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تمام دنیا میں رمضان کے آخری جمعہ کو جمعۃ الوداع یوم فلسطین، یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یوم القدس اسرائیل کے دل میں چبھتا ہوا ایک ایسا کانٹا ہے، جو اس کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے اور یہ کانٹا اس وقت تک نہیں نکل سکتا، جب تک اسرائیل ناجائز قبضے کو چھوڑ نہیں دیتا۔ انقلاب اسلامی ایران کے بانی اور عظیم اسلامی لیڈر امام خمینیؒ نے مسلمانوں کو مسئلہ فلسطین پر یوم القدس کی شکل میں ایک ایسا زبردست لائحہ عمل دیا ہے، جس کی وجہ سے ہر سال صیہونی ریاست کو پوری دنیا سے شدید مزاحمت کا سامنا پڑتا ہے اور بوکھلاہٹ میں صیہونی ریاست طاقت کے نشے میں یہ ناکام کوشش کرتی ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کو اپنی دہشتگردانہ کارروائیوں کے ذریعے دبا دے گی۔ لیکن ہر سال اسے نہ صرف اس میں ناکامی ہوتی ہے بلکہ دنیا کے سامنے شرمندہ بھی ہونا پڑتا ہے۔

گذشتہ برس 12 روزہ تباہ کن جنگ نے عالمی سطح پر اسرائیل کی ساکھ اور حیثیت کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ دو ہزار آٹھ، دو ہزار نو، دو ہزار بارہ اور دو ہزار اکیس میں غزہ کی پٹی کے علاقے میں ہونیوالی جنگوں کے بعد ایک ہی طرح کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ مرنے والوں کا سوگ مناتے فلسطینی باشندے، آئندہ جنگ کے خوف سے لرزتے بچے اور کھنڈرات پر گھروں کی تعمیر نو کی کوشش کرتے فلسطینی۔ تاہم بغور دیکھنے سے ایک بھیانک حقیقت سامنے آجاتی ہے، وہ یہ کہ تعمیر نو کا کوئی بھی منصوبہ ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ جنگ زدہ علاقوں کی سیٹلائٹ تصاویر اور اموات کی تعداد دل ہلا دینے والے حقائق بیان کرتی ہیں۔ ایک وہ وقت تھا، جب دنیا کے کچھ بااثر یہودیوں نے یہودیوں کیلئے ایک آزاد ریاست بنانے کا سوچا۔ برطانوی حکومت نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا مسئلہ حل کرنا چاہا۔ یقیناً، انہوں نے پہلے یوگنڈا جانے اور اسے اپنا آبائی ملک بنانے پرغور کیا تھا۔ تھوڑی دیر کیلئے انہوں نے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس جانے کا سوچا۔ چنانچہ انہوں نے جا کر اطالویوں سے بات کی، اس وقت طرابلس ان کے کنٹرول میں تھا، لیکن اطالویوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ آخرکار انھوں نے انگریزوں کیساتھ معاہدہ کر لیا۔

بنیادی طور پر برطانیہ اور کچھ دوسرے مغربی ممالک کی امداد سے یہ سب کچھ ہوا تھا۔ لیکن یہ دھیرے دھیرے برطانیہ سے الگ ہو کر یہ سازشی امریکہ سے مل گئے۔ ان کو امریکہ نے آج تک اپنے بازوؤں میں لے رکھا ہے۔ اس لحاظ سے انہوں نے ایک ریاست بنائی اور فلسطین کی ریاست پر قبضہ کر لیا۔ اسرائیل کی بنیاد رکھتے وقت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹیں گے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ عرب ممالک سلطنتِ عثمانیہ کیخلاف برطانوی اتحاد کی حمایت پر اس شرط پر شامل ہوئے تھے کہ جیت کی صورت میں انہیں آزادی دی جائے گی۔ مگر جنگ کے بعد تیل کے ذخائر پر نظر رکھنے والی قوتوں نے خطے کو اپنی مرضی کے مطابق بانٹنا شروع کر دیا اور نئی سرحدی تقسیم کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین کے علاقے کو تقسیم کرکے یہاں یہودی مملکت کی بنیاد رکھی گئی اور فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کر دیا گیا۔ مشرقی یروشلم جو جھگڑے کی بنیاد بنا، طے ہوا تھا کہ مسجد اقصیٰ مشرقی یروشلم میں ہی رہے گی اور یہ علاقہ اسرائیلی کنٹرول میں رہے گا یا آزاد رہے گا۔ کئی تبدیلیاں ہوئیں اور فلسطینیوں کو حق نہیں دیا گیا، جس کی وجہ سے وہ مزاحمت پر اتر آئے۔

مکار قابضوں نے بڑی فلسطینی زمینیں، جو عرب کسانوں اور کسانوں کی طرف سے کاشت کی گئی تھیں اور جو بہت سرسبز اور خوشحال تھیں، اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمتوں پر، یورپ اور امریکہ میں ان بڑی زمینوں کے اصل مالکان سے خریدیں۔ یہ زمینیں ان لوگوں کی جاگیر بن گئیں، واقعی سخت طریقوں سے اور ظلم و بربریت کے ساتھ، آہستہ آہستہ کسانوں کو ان زمینوں سے بے دخل کرنا شروع کر دیا گیا۔ وہ جہاں گئے، ظلم و زیادتی کی اور ساتھ ہی انہوں نے جھوٹ اور فریب سے دنیا کی رائے عامہ کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا اور فریب سے اس ملک کو اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب رہے۔ اس وقت بیرونی طاقتیں بھی ان کیساتھ تھیں۔ جس میں بڑے انگریز تھے۔ اقوام متحدہ اور اقوام متحدہ سے پہلے، نام نہاد امن کے مسائل کیلئے جنگ کے بعد قائم ہونیوالی لیگ آف نیشنز نے بھی ہمیشہ ان کی حمایت کی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آج تک اقوام متحدہ تشویشی بیانات سے زیادہ آگے نہیں گیا۔

بہرحال جو کہا گیا اس پر عمل نہیں ہوا اور نہتے فلسطینی ٹینکوں، توپوں اور جدید ہتھیاروں کے مقابلے میں غلیلوں اور پتھروں سے مقابلے کرتے رہے ہیں۔ اس سنگین دہشتگردی اور انسانیت سوز مظالم سے معصوم بچے اور خواتین بھی محفوظ نہیں۔ آج غزہ کی ایک پوری نئی نسل روزگار کی اشد ضرورت کا سامنا کر رہی ہے، مگر اسے کام کاج کے بہت ہی کم امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ فلسطینی باشندے انتہائی غیر مطمئن اور ناگفتہ بہ صورتحال میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں سے 40 فیصد اپنے مستقبل کے بارے میں قطعی بے یقینی کا شکار ہیں اور اگر انہیں موقع ملے تو وہ غزہ پٹی کا علاقہ چھوڑ کر کہیں اور جانے کیلئے بھی تیار ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ مسلسل بحران کا شکار ہے اور جنگ ہر بار حالات کی سنگینی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ یہ نتیجہ فلسطینیوں کی جدوجہد اور مشکلات دونوں کو بڑھا دیتا ہے۔

فلسطینی حکام کے مطابق غزہ کی دو ملین کی آبادی کا 70 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ ان نوجوان بالغوں نے اپنا بچپن اور بلوغت کے سال باقاعدہ جنگ کے دوران "وار زون" میں گزارے ہیں۔ غزہ میں نوجوانوں کی اوسط عمر 19 اور اسرائیل میں 30 برس ہے۔ ان کو درپیش چیلنجز میں بیروزگاری اور طویل المدتی حالت جنگ میں زندگی بسر کرنے کے اثرات سے نمٹنا بھی شامل ہے۔ جب سے حماس نے غزہ پر قبضہ کیا ہے، اس علاقے میں بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اس کی سطح مغربی اردن کے فلسطینی علاقے میں بیروزگاری سے دوگنا زیادہ ہے۔ 2012ء کی جنگ میں قریب ایک ہزار بچوں کی مدد سے ایک ریسرچ مکمل کی گئی، جن میں سے تقریباً ہر ایک نے کہا کہ اس نے ٹینکوں، توپوں اور فوجی طیاروں سے شیلنگ کی آوازیں سنی ہیں۔ ان میں سے نصف بچوں نے کہا کہ انہوں نے کسی نہ کسی کو زخمی ہوتے یا مارے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ انسانی حقوق کا جھوٹا راگ الاپنے والی مغربی دنیا، دنیا میں کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آجائے، ٹھیکیدار بن جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں یوکرین پر چڑھائی کرنے کی وجہ سے روس کیخلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے، کیونکہ یہاں ان کے ذاتی مقاصد اور مفادات ہیں۔ ورنہ یہی انسانی حقوق اور ہمدردیاں سالہا سال سے فلسطین اور کشمیر میں ہونیوالے مظالم پر نہیں جاگتیں۔ اسرائیل اور بھارت کو ان مجرمانہ کارروائیوں سے کیوں نہیں روکا جاتا۔ کیونکہ جن پر ظلم ہو رہا ہے، وہ مسلمان ہیں اور اس میں قصور ان انسانی حقوق کے علمبرداروں کا نہیں بلکہ خود ہم ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا ہے، جو اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود متحد نہیں ہوتے۔ اقوام متحدہ کے دوغلے رویہ پر مایوسی ایک الگ بات ہے، جب دنیا کا کوئی ملک، ملکی سالمیت کے لئے خطرہ بن جائے تو اقوام متحدہ کا کام ہے کہ اس کیخلاف اقدام کرے، ایسے موقع پر فوراً بیان آجاتا ہے کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، لیکن جب خود امریکی دیگر اقوام اور خاص طور پر مسلمانوں کیخلاف یکطرفہ اقدام کرتے ہیں، تو یہ ایسے سر جھکائے بیٹھے رہتے ہیں، جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔

سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد اسرائیل نے بہت سے تاریخی مقامات کو یا تو تباہ کر دیا یا انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اسرائیل اب تک فلسطین میں موجود 40 مساجد کا وجود مٹا چکا ہے۔ ان میں سے 20 کو قمار خانوں، جوا خانوں یا شراب خانوں، ہوٹلوں، مویشیوں کے باڑوں اور پولٹری فارموں میں تبدیل کیا گیا، جبکہ 18 مساجد کو یہودی معابد میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ یہودیوں کا دین ہے، جس میں غصب شدہ جگہ پر عبادت جائز ہے۔ اسی طرح ایک تاریخی مسجد تھی، جسے ایک شراب خانے میں بدل دیا گیا۔ القدس میں قائم تاریخی مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ ہسپتال بنایا گیا۔ اسی طرح المالحہ مسجد کو شراب خانے میں بدلا گیا۔ غاصب صہیونیوں نے فلسطین کی تاریخی املاک کو یہودیانے کے لیے ایک ظالمانہ قانون کا سہارا لیا اور املاک متروکہ کی آڑ میں درجنوں تاریخی عمارتوں کو غصب کیا گیا۔ یہ تمام اقدامات نہ صرف ریاستی دہشتگردی ہے بلکہ مسلمانوں کی غیرت کو بھی للکارا گیا ہے، مگر افسوسناک مقام یہ ہے کہ عالم اسلام میں اتحاد و اتفاق کا فقدان ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں ہونیوالے او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم فلسطین اور کشمیر پر ناکام ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح فلسطین میں دن دیہاڑے ڈکیتی ہو رہی ہے، اگر ہم متحد نہ ہوئے اور ایک موقف نہ اپنایا تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ طاقتیں جانتی ہیں کہ ہم ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں، مگر پھر بھی ہم ناکام ہیں، ہم کوئی اثر نہیں ڈال سکے، ہم منقسم ہیں، حالانکہ ہم کسی ملک پر قبضے کی بات نہیں کرتے، بین الاقوامی قانون بھی ہمارے ساتھ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا فلسطین کا یہ عالم دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے غم و غصے کا باعث ہے، مسئلہ فلسطین مشرق وسطیٰ میں تنازعات کا مرکز ہے۔ اگر تمام عالم اسلام اور ان کے حکمران ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں تو کسی کو مسلمانوں کیخلاف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی جرات نہ ہو۔ امام خمینی ؒ فرمایا تھا کہ اگر تمام دنیا کے مسلمان متحد ہوکر ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل کی طرف پھینک دیں تو اسرائیل بہہ جائے گا۔ یہ ہے اسرائیل کی اصل حیثیت اور واقعی اس میں کوئی شک نہیں ایک چھوٹی سی ناجائز ریاست نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو تکلیف میں مبتلا کر رکھا ہے۔

تحریر: شبیر احمد شگری

سیمینار ''قدس عالم اسلام کی وحدت کا محور"  کا گزشتہ روز اسلام آباد شہر میں فاؤنڈیشن فار دی سپورٹ آف فلسطین آف پاکستان کے زیر اہتمام انعقاد کیا گیا، جس میں پاکستان کی اہم سیاسی، مذہبی اور سماجی شخصیات نے تقریر کی۔

مقررین نے حالیہ دنوں میں مسجد الاقصی پر صیہونی قابض افواج کے حملے اور بے حرمتی اور کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی اداروں بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ سے بیان بازی اور بیان جاری کرنے کےبجائے عملی اقدام اٹھانے کا مطالبہ کیا۔

مقرریں نے اسرائیلی تسلط سے فلسطینی عوام  کے بچانے اور بیت المقدس کی آزادی کا انحصار صرف مسلمانوں اور امت مسلمہ کے اتحاد و یکجہتی پر ہے۔

پاکستان میں ''قدس عالم اسلام کی وحدت کا محور" کے سیمینار کا انعقاد؛ فلسطین کی حمایت کے تسلسل پر زور

پاکستانی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ آج کی دنیا میں، فلسطین اور مشرق وسطیٰ جنگ کے لیے دو اہم مقامات ہیں۔عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینی عوام کا دفاع کریں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بیت المقدس فلسطینیوں کی ملکیت میں ہے اور اسرائیل نے غیر قانونی طور پر اور زبردستی سے فلسطینی سرزمین پر قبضہ کیا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور خطے میں سمجھوتہ کرنے والے حکمرانوں کا تعاون بین الاقوامی قوانین خاص طور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی دنیا کو درپیش مسائل خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے، شام، یمن اور فلسطین کے بحرانوں کے حل کے لیے سنجیدہ کردار ادا کرنا چاہیے۔

پاکستان کے اس مذہبی رہنما نے مزید کہا کہ اسرائیل ایک غاصب حکومت ہے اور یقیناً وہ ناکام ہو چکی ہے اس لیے مزاحمتی فرنٹ کو کمزور کرنے کے لیے بعض عربوں کے ساتھ تعاون کرنے کی سازش ناکامی سے دوچار ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید نیر حسین بخاری نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے صرف الفاظ ہی کافی نہیں ہیں بلکہ ہمیں عملی اقدام اٹھانا چاہیے۔ اقوام متحدہ بالخصوص عرب لیگ کو چاہیے کہ وہ فلسطین اور اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے روکنے کے لیے اپنے فرائض پر عمل کریں۔

انہوں نے فلسطینیوں پر اسرائیل کےظلم اور بیت المقدس پر حملے کو "ظالمانہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے اختلافات  کو ختم کریں اور مسئلہ فلسطین کے حل میں مدد کریں۔

فلسطین فاؤنڈیشن کے سربراہ صابر ابو مریم نے کہا کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کے نام سے منسوب کرنے کے امام خمینی کے تاریخی اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ امام خمینی نے فلسطین کی آزادی کی تحریک اور صہیونی دشمن کے خلاف جنگ سمیت دنیا کی مظلوم اقوام کی آزادی کی تحریکوں میں نئی ​​جان ڈالی۔

انہوں نے خطے اور عرب دنیا کے بعض ممالک کی طرف سے ناجائز صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول لانے پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایک عظیم اسرائیل اور عظیم مشرق وسطیٰ کے قیام کی سازشیں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔

سیمینار کے اختتام پر شرکاء نے ایک قرارداد منظور کی جس میں پاکستانی حکومت سے سرکاری طور پر رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کے طور پر منانے کا مطالبہ کیا گیا۔

انہوں نے مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کے حالیہ حملے کی شدید مذمت کی۔

انہوں نے شام، لبنان، عراق، افغانستان، لیبیا اور یمن میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت اور جارحیت کی بھی مذمت کی۔

ایرانی صدر مملکت سید ابراہیم رئیسی نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں اسکولوں اور مساجد میں دہشت گردانہ دھماکوں جن کے نتیجے میں بہت افغان شہری شہید اور زخمی ہوئے، کے تسلسل کے بعد، اپنے ایک پیغام میں افغانوں اور خطے کی قوموں کے خلاف خطرات کے پھیلاؤ کے بارے میں خبردار کیا۔

ڈاکٹر رئیسی نے افغانستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس ملک خاص طور پر اسکولوں، مساجد اور مذہبی مراکز میں عوام کی سلامتی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ حملوں کے ملوث دہشت گردوں کی شناخت اور انہیں سزا دینے میں افغان حکمرانوں کی ذمہ داری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران تکفیری دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کرنے اور ان واقعات کی روک تھام کے لیے تعاون اور اپنے تمام وسائل بروئے کار لانے کے لیے تیار ہے۔

رئیسی نے بتایا کہ ہم طب کے شعبے میں ان دہشت گردانہ حملوں کے متاثرین اور زخمیوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کیلیے آمادہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق حالیہ دنوں میں، دہشت گردوں نے کابل، مزار شریف اور قندوز سمیت افغانستان کے مختلف صوبوں میں اسکولوں، مساجد پر کئی بزدلانہ دھماکے کیے ہیں، جن میں خواتین اور بچوں سمیت متعدد شیعہ اور سنی مسلم شہید ہوگئے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی مبارک زندگی اور سیرت ولادت سے لے کر شہادت تک خوشنودی خدا اور رضائے الہی میں بسر ہوئی۔مولائے کائنات خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور مسجد کوفہ میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔

 آپ (ع) کی پیشانی ایک دن بھی غیر خدا کے سامنے نہیں جھکی۔ آپ  ان پانچ ہستیوں میں سے ایک ہیں کہ جن کی طہارت و پاکیزگی کی گواہی کے لئے قرآن مجید میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ نیز قرآن مجید میں اسکے علاوہ بھی متعدد آیات حضرت علی (ع)  کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ جن میں سے آیہ تبلیغ، آیہ اکمال دین، آیہ ولایت، آیہ اولی الامر اور آیہ مباہلہ قابل ذکر ہیں۔

امیر المومنین ؑ حضرت علی(ع) کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ آپ ؑ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی۔

امیر المومنین ؑ حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو رسول اللہ ؐ سے اتنی عقیدت تھی کہ جس طرح آپ کی دنیا میں ظاہری آمد سے پہلے آپ کے والدین نے ہر لمحہ رسول اللہ ؐ  کا ساتھ دے کر نصرت و حفاظت کا فریضہ سر انجام دیا اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام نے بھی ہر لمحہ اور ہر وقت دشمنان خدا و دشمنان رسول (ص)کے مقابلے میں رسول اللہ ؐ کی حمایت اور حفاظت و دفاع کا فریضہ انجام دیا۔

خود کو رسول اللہ ؐ  کا غلام کہہ کر مولائے متقیان امیر المومنین ؑ  فخر کیا کرتے تھے جبکہ خود رسول  اکرم  نے آپ کو دین و دنیا میں اپنا بھائی قرار دیا تھا۔ حضرت علی (ع) فرماتے تھے کہ رسول اللہ (ص)  نے مجھ کو علم کے ہزار باب تعلیم فرمائے اور میں نے ہر باب سے ہزاز ہزار باب مزید سیکھ لئے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ؐ  نے خود کو علم و حکمت کا شہر اور حضرت علی (ع) کو اس شہر علم کا دروازہ قرار دیا۔ اور پھر کہا کہ جو شخص علم و حکمت حاصل کرنا چاہے اسے دروازے سے آنا پڑے گا۔

رسول اللہ (ص) نے اپنے دل کی ٹھنڈک اور اکلوتی بیٹی حضرت فاطمۃ زہرا سلام اللہ علیہا کا نکاح فرمان خداوندی سے حضرت علی ؑسے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر علی ؑنہ ہوتے تو کائنات میں خاتون جنت فاطمۃ زہرا سلام اللہ علیہا کا کوئی ہمسراورکفو نہ ہوتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت علی ؑو حضرت فاطمہ زہرا (س) کو ایک دوسرے کے لئے خلق فرمایا۔ اور پھر دین مبین اسلام کی خدمت و بقا کی خاطر اللہ تعالی نے حضرت علی ؑاور حضرت زہرا(س)کو امام حسن و امام حسین اور جناب زینب اور بی بی ام کلثوم (سلام اللہ علیہم) کی صورت میں اولاد عطا کی۔

قرآن و سیرت اور احادیث رسول (ص) میں امیر المومنین حضرت علی ؑاور اہلبیت ؑکی شان و عظمت کی وضاحت کے باوجود پتہ نہیں کیوں رسول اللہ (ص) کے وصال کے فوراً بعد دشمنان خدا نے اہلبیت رسول (ص) بالخصوص حضرت بی بی فاطمہ زہرا (س) اور امیرالمومنین ؑپر ظلم و جبر کے پہاڑ ڈھائے حتٰی کہ خاتون جنت (س) زوجہ امیرالمومنین ؑجناب فاطمہ بتول سلام اللہ علیہ کو یہاں تک فریاد کرنا پڑی۔ کہ اے میرے بابا (ص) آپکے جانے کے بعد مجھ پر ایسی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ روشن دنوں پر پڑتیں تو وہ بھی تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے۔ اور پھر اسکے بعد بھی اہلبیت اطہار ؑو آل رسول (ص) پر اسلام کے لبادے میں موجود دشمنان اسلام خوارج، بنی امیہ اور بنی عباس کے مظالم کا سلسلہ جاری رہا۔

رسول اللہ (ص) کی حضرت علی کے بارے میں واضح حدیث ہے کہ علی ؑحق کے ساتھ ہے اور حق علی ؑکے ساتھ، خدایا حق کا رخ ادھر موڑ دے جس طرف علی ؑجائے، اس صریح حدیث کے باوجود بھی دشمنان دین اسلام نے امیرالمومنین ؑکو اتنی اذیتیں دے کر مظالم کا نشانہ بنایا کہ جس کی نظیر ملنا شاید مشکل ہو۔ رسول اللہ (ص) کے وصال کے بعد ایک مرتبہ حضرت زہرا (س) نے حضرت علی ؑسے پوچھا کہ اے ابو الحسن ؑسنا ہے، کوئی آپ کو سلام نہیں کرتا۔ تو حضرت علی نے مظلومیت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :بات اس سے آگے نکل چکی ہے، اب حالت یہ ہے کہ سلام تو دور کی بات، جب میں سلام کرتا ہوں تو کوئی جواب تک نہیں دیتا۔

خوارج کے فتنے نے امیر المومنین حضرت علی ؑ(ع) کے مقابلے میں سر اٹھایا اور یہاں تک کہ اس فتنے نے خلیفہ رسول (ص) امیر المومنین ؑکو مسجد و محراب میں دوران عبادت شہید کر دیا۔ نماز، روزہ اور دوسری تمام عبادات کی ادائیگی کے علاوہ خوارج میں سے ایک بڑی تعداد حافظان قرآن کی تھی، مگر حال یہ تھا کہ وہ اپنے علاوہ باقی تمام مسلمانوں کو کافر قرار دے کر اسلام کے لبادے میں ظلم و جبر اور عوام الناس پر دہشت گردی کا بازار گرم کرکے یہ شعار اور نعرہ بلند کرتے تھے کہ لا حکم الا للہ۔ یعنی حکومت صرف اللہ کے لئے ثابت ہے۔

حضرت علی ؑ(ع) خوارج کے اس نعرے کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہ نعرہ اور شعار تو برحق ہے لیکن اس کے پیچھے خوارج کے مقاصد باطل اور فساد پر مبنی ہیں۔ انہی خوارج کی طرح آج بھی اسلام کے نام اور لبادے میں موجود القاعدہ ، داعش اور طالبان کے غیر انسانی و غیر اسلامی افعال و کردار اور دہشت گردی پر نظر دوڑائیں تو دہشت گرد تنظیمیں بھی خوارج کی تصویر پیش کررہی ہیں۔

اسلام کا لبادہ پہن کر اور منبر رسول پر بیٹھ کر مساجد میں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف خطبے دیئے جاتے تھے اور سب و شتم بھی کیا جاتا تھا۔

امیر المومنین علیہ السلام اور اہلبیت اطہار(ع) پر لعن طعن کے لئے کئی ہزار مساجد کے منبر و محراب درہم و دینار سے خریدے گئے تھے۔ جہاں سے باقاعدہ جمعہ کے خطبات اور دیگر مواقع پر امیر المومنین علی علیہ السلام اور اولاد رسول (ص) پر لعن طعن کی جاتی تھی۔ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ جب انیس رمضان کی صبح مسجد کوفہ میں نماز فجر کے لئے آنے والے امیر المومنین حضرت امام علی ؑپر اس وقت کے شقی ترین انسان ابن ملجم لعین نے سجدے میں وار کرکے مسجد کوفہ کے محراب کو خون میں تر کر دیا۔ اور جب یہ خبر بنی امیہ کے پایہ تخت شام تک پہنچی کہ امیر المومنین  علی (ع) کو مسجد کوفہ میں شہید کردیا گیا، تو لوگ ایک دوسرے سے تعجب سے پوچھنے لگے کہ علی (ع) مسجد میں کیا کر رہے تھے؟ جب بتایا گیا کہ نماز فجر پڑھنےگئے تھے تو لوگ اور زیادہ تعجب سے پوچھنے لگے کہ کیا علی ؑنماز پڑھتے تھے؟  یہ تھا اسلام کے لبادے میں مسلط خوارج و بنی امیہ کے پروپیگنڈے اور اس زمانے کے باطل ذرائع ابلاغ کا کردار کہ اپنے ناجائز مفادات اور اقتدار کے حصول کے لئے خلیفہ وقت امیر المومنین ؑعلی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حوالے سے اتنا غلیظ اور گمراہ کن منفی پروپیگنڈہ کر رکھا تھا کہ زمانے کی متقی ترین ہستی کو  نعوذ باللہ بے نمازی اور بے دین قرار دے کر عوام میں مشہور کر دیا گیا تھا۔ اس سے خوارج اور بنی امیہ کی اسلام اور اہلبیت اطہار کے خلاف شدید دشمنی اور بغض و عداوت کا پتہ چلتا ہے۔

انیس رمضان نماز فجر کے وقت خوارج و بنی امیہ کی زہر میں ڈوبی تلوار کے زخم کے بعد مسجد کوفہ میں امیر المومنین ؑنے یہ جملہ ادا کیا۔" فزت و رب الکعبہ " (رب کعبہ کی قسم علی ؑکامیاب ہو گیا)، اور اسکے دو دن بعد اکیس رمضان المبارک کو امیر المومنین ؑحضرت امام علی علیہ السلام شہید ہو گئے اور یوں علی ؑکا ظاہری سفر خانہ کعبہ میں ولادت سے شروع ہو کر مسجد کوفہ میں شہادت پر اختتام پذير ہوگیا لیکن اسلام اور پیغمبر اسلام کی حفاظت کے سلسلے میں آپ کی شجاعت ، حلم و بردباری کے کارنامے تاریخ کے درخشاں صفحات پر موجود ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق کابل میں ایرانی سفیر کے معاون اور اس کے ہمرہ وفد نے افغانستان میں حالیہ  دہشت گردی کے واقعات سے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا شہداء کے اہل خانہ کے نام تعزیتی پیغام پیش کیا۔ واضح رہے کہ دہشت گردوں نے تعلیمی مرکز ممتاز اور کابل شہر میں واقع عبدالرحیم شہید کالج پر دہشت گردانہ حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں متعدد افغان طلباء شہید اور زخمی ہوگئے تھے۔ جس کے بعد کابل میں ایرانی سفارتخانہ نے اس حادثے میں زخمی ہونے والوں کو علاج کے لئے تہران منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

رمضان المبارک کے آخری جمعہ (جمعۃ الوادع) کو عظیم بانی و رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ کی دور اندیشی اور عالمی نقطہ نظر کے تناظر میں عالمی یوم قدس قرار دیا۔ یوم القدس ایک پائیدار اور امام خمینی ؒ کی اہم ترین یادگاروں میں سے ایک اعلیٰ یادگار ہے۔ یوم القدس کا انعقاد حق اور باطل کے درمیان تقابل اور ظلم و ستم  کے خلاف انصاف کی صف آرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ امام خمینیؒ کا یہ یادگار جملہ "فلسطین اسلام  کے جسم کا حصہ ہے"، اس لیے تھا کہ مختلف زمانوں میں مسئلہ فلسطین فراموشی کے سپرد کر دیا گیا تھا، جو امام خمینیؒ کے سیاسی نقطہ نگاہ کی برکت کی بدولت لوگوں کے ذہنوں میں دوبارہ زندہ ہوچکا ہے۔

یہ دن نہ صرف فلسطین کا دن ہے بلکہ امت مسلمہ کا بھی دن ہے، اس لیے کئی سالوں سے قدس اور فلسطین کا مسئلہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کا سب سے تشویشناک مسئلہ بن چکا ہے۔ عالمی یوم القدس ایک ایسا دن ہے، جب پوری اسلامی دنیا غاصب صیہونی حکومت کے خلاف بیزاری کا اظہار کرتی ہے اور مقدس شہر القدس (بیت المقدس) کی آزادی کے لیے ایک بار پھر ہم نوا ہو رہے ہیں۔ آج چالیس سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد یوم القدس کو مسلمانوں کے قبلہ اول کا عنوان دینے میں امام خمینیؒ کے ہوشمندانہ اقدام کے سبب فلسطینی عوام اور دنیا کے تمام مظلوموں کی فریاد پوری دنیا اور آزادی کے مفکرین کے کانوں تک پہنچ چکی ہے اور صہیونی حکومت کی امریکہ کی حمایت سے ریاستی دہشت گردی تمام دنیا پر آشکار ہوچکی ہے۔

ملت ایران، پاکستان کے دوست اور برادر عوام کے ساتھ جنہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی رہنمائی اور علامہ محمد اقبال ؒ کے افکار کی روشنی میں صہیونی حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کیا، جوں جوں یوم القدس قریب آرہا ہے، صہیونی رژیم کے مقبوضہ فلسطین اور دیگر اسلامی ممالک میں مغربی اور بعض عرب حامیوں کی حمایت کی سرزنش کرتے ہوئے اور نہتے مسلمانوں کے ساتھ اپنی حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔

تحریر: احسان خزاعی
ثقافتی قونصلر سفارت اسلامی جمہوریہ ایران، اسلام آباد

ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک- اسلامی جمہوریہ ایران نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
 
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے افغانستان میں یکے بعد دیگرے ہونے والے دہشتگردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس صورتحال پرسخت تشویش ظاہر کی ہے ۔
 
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں افغانستان میں جمعرات کو مزار شریف کی مسجد اور اسی طرح کابل میں ہونے والے دہشتگردانہ حملوں کی جانب اشارہ کیا اورکہا کہ افغانستان میں ماہ رمضان میں جب مسجدوں میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے روزہ دارنمازیوں کو بزدلانہ اور دہشتگردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنانا نفرت انگیزہے۔
 
ترجمان وزارت خارجہ نے مزارشریف میں دہشت گردانہ دھماکے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کے لئے صبر اور زخمیوں کے لئے صحت وسلامتی کی دعا کی۔