
سلیمانی
کابل میں خونریز بم دھماکے / امن مذاکرات میں تعطل اور امریکہ کا تخریبی کردار
مہر خبررساں ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں امریکی فوجیوں کے انخلا اور امن مذاکرات میں تعطل کے بعد افغانستان کے دارالحکومت کابل میں شیعہ نشین علاقہ میں خونریز بم دھماکے اس بات کا مظہر ہیں کہ سامراجی طاقتیں افغانستان کا بحران جاری رکھنے کی تلاش و کوشش کررہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق کل سہ پہر کو مقامی وقت کے مطابق پانچ بجے کابل کے شیعہ نشین علاقہ میں لڑکیوں کے سید الشہداء مدرسہ کے قریب تین بم دھماکے کئے گئے، جس کے بعد عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ان دھماکوں میں تین پہلو پیش نظر ہیں ایک پہلو یہ ہے کہ دھماکے شیعہ نشین علاقے میں ہوئے، دوسرا پہلو یہ کہ دھماکے میں لڑکیوں کے سید الشہداء مدرسہ کو نشانہ بنایا گیا اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ دھماکے رمضان المبارک کے اختتامی ایام اور عید سعید فطر سے چند روز پہلے کئے گئے۔ مذکورہ تین پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے دہشت گردوں کی پہچان کوئی مشکل کام نہیں ، دہشت گرد سب سے پہلے مذہبی اور قومی اتحاد کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں اس لئے انھوں نے شیعہ مدرسے کا انتخاب کیا۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں اب تک 58 افراد شہید ہوگئے ہیں جن میں 50 طالبات شامل ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق پہلا بم دھماکہ ایک گاڑی کے ذریعہ کیا گیا جبکہ دو بم دھماکے طالبات کے مدرسے سے نکلتے وقت دو بم پھٹنے سے ہوئے، افغان حکومت اس حادثے کا ذمہ دار طالبان کو قراردے رہی ہے ، افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ طالبان نے ملک میں جنگ اور تشدد کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور وہ افغان عوام کے دشمن ہیں اور انھیں امن و صلح سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ افغانستان میں پائدار امن کے خلاف ہے امریکہ افغانستان میں ایک طرف افغان حکومت اور دوسری طرف طالبان اور داعش دہشت گردوں کی بھی پشتپناہی کررہا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں شیعہ نشین علاقہ میں بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکوں میں امریکہ کے حامی داعش دہشت گرد ملوث ہیں۔ امریکہ افغانستان میں اس بار طالبان کے بجائے داعش دہشت گردوں کو مدد فراہم کررہا ہے اور وہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کے باقی رہنے کا جواز پیدا کررہا ہے۔ ادھر افغانستان کے امور میں امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمائے خلیل زاد نے کہا ہے کہ اگر طالبان نے تشدد کا راستہ ترک نہ کیا تو امریکی فوج دوبارہ افغانستان پہنچ سکتی ہے۔ خلیل زاد کے اس اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کی آڑ میں افغانتسان سے نکلنا نہیں چاہتا اور امریکہ کا افغانستان میں جاری دہشت گردی کے پیچھے ہاتھ نمایاں ہے۔
عالمی نہضت آزادی قدس اور مدافعین حرم کا کردار
جمعۃ الوداع کی اہمیت سب جانتے ہیں اور اس کا پہلا محرک یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلامﷺ اِس جمعہ کو بہت اہتمام کیا کرتے تھے اور اس کی تاکید بھی فرماتے تھے۔ دوسری جو اہم مناسبت ہے، وہ یہ ہے کہ امام خمینی نے ماہِ صیام کے اس آخری جمعہ کو "یوم القدس یعنی آزادی قدس" کے عنوان سے موسوم کیا ہے اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اس دن کو قدس کے نام سے برپا کریں۔ یوم القدس صرف فلسطین سے مخصوص نہیں ہے، یہ اسلام کا دن ہے۔ بہت سارے اسلامی ممالک ایسے ہیں، جن میں لوگوں کو خبر بھی نہیں ہے کہ یہ کونسا دن ہے اور اِس کو کیوں برگزار کیا جاتا ہے؟ بلکہ اس کے بارے میں شبہات بھی رکھتے ہیں، مثلاً عام مسلمان سوچتے ہیں کہ ہم کیوں جمعۃ الوداع کو روزِ قدس، روزِ آزادی فلسطین، روزِ آزادی قبلہ اول کے طور پر برپا کریں۔؟ اس موضوع کی تفسیر و تبیین یعنی اس کی نظریاتی بنیادوں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کس پسِ منظر کے تحت امام خمینی نے روزِ قدس کو بعنوانِ یوم اللہ قرار دیا؟ تمام مسلمانوں سے توقع بھی نہیں ہے کہ وہ اتنی بصیرت کے ساتھ ایسے امور کو درک کر پائیں، جو کہ ایک طبعی بات ہے۔
جہانِ اسلام میں بصیرت بہت ہی کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طویل عرصہ سے مسلمانوں کو سیاسی دین سے دور کرکے خانقاہی اور صوفیانہ دین کی طرف مائل کیا گیا، یعنی دین کو ایسا بنا کر پیش کیا گیا، جس کا سیاسی امور میں کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ سیاسی امور کو ایک طرح کی بے دینی تصور کیا گیا۔ آج بھی ایسی شخصیات دیکھنے کو ملتی ہیں، جو سیاسی امور میں مداخلت کرنا خلاف ِ تقویٰ سمجھتی ہیں۔ کیا ستم ہے کہ مسجد کا محراب جسے حرب کی جگہ قرار دیا گیا، اُسی اسلام کے نام لیوا خود کو سیاسی امور میں مداخلت سے دور رکھیں۔ اس فکر نے یعنی دین کو سیاست سے جدا کرنے نے اسلام کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، اتنا دشمنانِ اسلام نے بھی نہیں پہنچایا۔ اسی وجہ سے سیاسی دین کی بصیرت عوام، علماء اور خواص میں پیدا ہی نہیں ہوئی، جس کے نتائج جہانِ اسلام کے لیے تباہ کن نکلے اور اُس کی ایک عملی تصویر سالوں سے جاری فلسطین کی آزادی کی کوششوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔
راہ خدا میں قیام کا نام دین ہے۔ قیام کرنے اور کروانے کو نہضت کہتے ہیں۔ خداوند تعالیٰ نے امام خمینی کو جو صلاحیت دی تھی کہ جو قوم جمود کی حالت میں تھی، اُس کے اندر تحرک پیدا کیا اور اسی کام کو نہضت کہتے ہیں۔ نہض اٹھانے کو کہتے ہیں اور نہضت یعنی اٹھانا۔ کسی قوم کو مقصد کے حصول کے لیے قیام کرانے کو نہضت کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ایسی بہت ساری آیات ہیں، جن میں طاغوتوں، ظالموں اور غاصبوں کے خلاف قیام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے امام خمینی فرمایا کرتے تھے کہ اسلام مذہبِ قیام ہے۔ قیام سے مراد کسی مقصد کے لیے نکلنا، اٹھنا اور تحرک اور حرکت کرنا ہے۔ جو شخص مسلمین کے امور سے لاتعلق رہتا ہے، وہ مسلمان ہی نہیں بلکہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ رسولِ خداﷺ کی معروف حدیث ہے کہ:*من اصبح لایتھم بامور المسلمین فلیس بمسلم* "اگر کوئی مسلمان ایک دن گزارے اور اس دن مسلمانوں کے امور سے متعلق کوئی اہتمام نہ کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے۔"ایک اورحدیث میں فرمایا: من سمع عیال المسلمین۔۔۔۔۔ "اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مدد کے لیے فریاد سنے اور اس کی آواز پر لبیک نہ کہے تو وہ اسلام سے باہر ہے۔"
مسئلہ قدس کے اندر اتنی صلاحیت موجود ہے، لہذا اسے جہان اسلام کے لیے ایک عالمی نہضت قرار دیا گیا، کیونکہ قدس امتِ مسلمہ کے لیے ایک دینی اور خالصتاً اسلامی موضوع ہے اور یوم القدس کا تعلق فقط آزدی فلسطین کے ساتھ نہیں بلکہ یہ مسئلہ اہداف کے لحاظ سے پوری دنیائے اسلام کی حد تک وسیع ہے۔ یعنی شروع میں فلسطین، قدس اور مسجد اقصیٰ محرک ہیں، لیکن اس کا غایت و ہدف بہت وسیع ہے، یعنی یہ نہضت صرف فلسطین کو اسرائیل کے ناپاک وجود سے آزاد کروانے تک محدود نہیں بلکہ تمام اسلامی ممالک کو ہر اُس طاقت سے آزاد کرانے کے لیے ہے، جو اس پر غالب اور مسلط ہے۔ آج ہر اسلامی سرزمین بلآخر کسی نہ کسی طرح کسی بیرونی یا اندرونی شیطانی طاقت کے چنگل میں گرفتار ہے۔ اسی طرح عرب سرزمینیں جتنی بھی ہیں، یہ مغربی مہروں کے اختیار میں ہیں اور ان سرزمینوں کو بھی آزاد کروانا ہے۔
کیسے ممکن ہے کہ قدس کا تذکرہ ہو شہید قدس اور مدافعین حرم کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ آج جو ہم باآسانی "قدس قریب است" کے نعرے بلند ہوتے سن رہے ہیں، یہ شہید حاج قاسم سلیمانی اور مدافعین حرم کے مرہون منت ہیں۔ جنرل سلیمانی نے فلسطین اور تحریک مزاحمت کو عروج تک پہنچایا، اس کو مقتدر اور طاقتور بنایا اور اپنے آپ کو فلسطین اور فلسطینی عوام کی خاطر قربان کر دیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے شہید کے جنازے پہ حاضر ہو کر کہا: *شہید سلیمانی شہید قدس ہیں؛ شہید قدس ہیں، شہید قدس ہیں* آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ قدس کی ریلی میں جانے سے کیا ہوگا۔؟ کیا ہمارے جانے سے فلسطین آزاد ہو جائے گا؟ ایسے تمام لوگوں کے لیے مدافعانِ حرم شہید ساجد کی داستان قابل مطالعہ ہے، جو زینبیون کے سب سے کم عمر شہید تھے۔
شہید ساجد فرسٹ ائیر کے طالب علم تھے، جب اُنہیں معلوم ہوا کہ نواسی رسول کو ایک بار پھر اسیر کر لیا گیا ہے، آپ اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہوئے سیدہ زینب سلام علہیا کے حرم کی حفاظت پر گئے۔ آپ نے فقط حرمِ سیدہؑ کی حفاظت تک خود کو محدود نہ کیا بلکہ واپس آکر قدس کی ریلیوں میں شرکت کے لیے انتظامی امور میں بھی پیش پیش رہے۔ جب شہید کی والدہ نے شکوہ کرنا چاہا کہ آپ ابھی سوریا سے لوٹے ہیں، ریلی میں نہ جائیں تو بی بی زینبؑ کے اس حقیقی سپاہی نے کیا خوبصورت جملہ کہا کہ *فقط دفاع سوریا میں نہیں ہے، بلکہ جہاں جہاں مظلومین ہیں، چاہے وہ شام میں ہوں، فلسطین میں ہوں، یمن میں ہوں یا پاکستان میں، اُن سب کی حمایت اور اُن کا دفاع واجب ہے۔* مدافعین حرم کے اس کم عمر شہید کا جملہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے، جو بلاوجہ کی عذر خواہی کرتے ہیں۔ مدافعین حرم اور شہید قدس نے اپنا فریضہ ادا کیا اور آج وہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ کاش ہم اپنی ذمہ داریوں سے نہ بھاگے ہوتے۔ اپنے ذاتی اختلافات کو مکتب پر قربان کر دیتے تو شاید بیت اول کی آزادی میں جاری سالوں کی یہ کوششیں جلد رنگ لے آتیں۔
عالمی یوم قدس کے موقع پرہندوستان ، پاکستان ، کشمیر میں ریلیاں اور آن لائن پروگرام منعقد
عالمی یوم قدس کے موقع پر فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی اور اظہار یکجہتی کے سلسلے میں ہندوستان ، پاکستان ، کشمیر ، افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک میں ریلیاں اور آن لائن پروگرام منعقد کئے گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مجلس علماء ہند نے آن لائن احتجاجی پروگرام منعقد کیا ، پروگرام کے شرکاء نے فلسطینیوں پر اسرائیل مظالم کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے بعض اسلامی اور عرب ممالک کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ادھر کشمیر کے مختلف شہروں میں بھی علماء اور دانشوروں نے یوم قدس کے موقع پر عوام کولائن پروگرام میں فلسطین میں ہونے والے اسرائیل مظالم سے آگاہ کیا ۔ کشمیر کے ضلع کرگل میں عوام نے خود جوش ریلی نکالی اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی اور فلسطین کی فتح کے سلسلے میں دعا کی۔ ادھر پاکستان کے مختلف صوبوں اور شہروں میں بھی عالمی یوم قدس کی مناسبت سے ریلیاں اور آن لائن پروگرام منعقد کئے مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے پاکستان کے تمام شہروں میں پروگرام منعقد کئے گئے۔ لاہور ، اسلام آباد، کراچی اور پشاور میں پاکستانی شہریوں نے فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا اور اسرائیل، امریکہ اور ان کے اتحادی عرب حکمرانوں کی گھناؤنی سازشوں کی بھر پور الفاظ میں مذمت کی۔ ادھر افغانستان، ترکی، شام، لبنان، فلسطین، یمن اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یوم قدس انسانی، مذہبی اور اخلاقی ہمدردی کے تحت منایا گيا۔
ایران کے روحانی پیشوا رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالمی یوم قدس کی مناسبت سے آن لائن خطاب میں اسرائیل کے اضمحلال اور زوال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسرائیل کے زوال کا آغاز ہوگيا ہے جس کا سلسلہ کسی وقفہ کے بغیر جاری رہےگا۔
دوسری طرف حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ فلسطینی اپنے حقوق کے حصول اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے جد وجہد میں مصروف ہیں اور ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
فلسطینیوں نے کبھی بھی اپنی سرزمین سے صرف نظر نہیں کیا بلکہ وہ اپنے وطن اور اپنے گھروں کی واپسی کے سلسلے میں بیشمار قربانیاں پیش کرچکے ہیں اور قربانیاں پیش کررہے ہیں، اور فلسطین کے موجودہ حالات اس بات کے گواہ ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ فلسطینی اتحاد، یکجہتی ، استقامت اور پائداری کی صورت میں اپنے اہداف تک پہنچ جائیں گے کیونکہ آج اسرائيلی حکومت داخلی بحران کا شکار ہے اور اسرائیل کی اندرونی سطح پر تباہی کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایران اسلامی مزاحمتی محور میں طاقتور ملک ہے جس نے خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کردیا ہے۔
اسرائیل کے زوال کا مرحلہ آغاز ہوگیا ہےجس کا سلسلہ کسی وقفہ کے بغیر جاری رہےگا
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالمی یوم قدس کی مناسبت سے آن لائن خطاب میں اسرائیل کے اضمحلال اور زوال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسرائیل کے زوال کا آغاز ہوگيا ہے جس کا سلسلہ کسی وقفہ کے بغیر جاری رہےگا۔
فلسطین دنیائے اسلام کا اہم مسئلہ
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کو دنیائے اسلام کا اہم مسئلہ قراردیتے ہوئے فرمایا: عالمی سامراجی طاقتوں نے فلسطین کے مظلوم عوام کو اپنے وطن سے بے وطن اور گھر سے بے گھر کرکے ان کی جگہ غیر علاقائی صہیونیوں کو آباد کیا ۔
اسرائیل کا مقابلہ سب کا فریضہ ہے
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا: غاصب صہیونی حکومت کا مقابلہ صرف فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کی ذمہ د اری ہے کہ وہ بیت المقدس کی آزادی کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں اور اس سلسلے میں فلسطینیوں کی بھر پور حمایت کریں۔
امت مسلمہ میں تفرقہ ، ضعف اور اختلاف فلسطین کے غصب کا اصلی سبب
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: غاصب صہیونی حکومت کی 1948 میں تاسیس کی گئی لیکن اسلام کے اس حساس علاقہ پر قبضہ کا منصوبہ بہت پہلے بنایا گيا تھا۔ اس دوران مغربی ممالک کی اسلامی ممالک میں مداخلت نمایاں رہی اور انھوں نے اسلامی ممالک پر ایسے حکمرانوں کی حمایت کی، جو ان کے حامی اور تربیت یافتہ تھے۔ مغربی ممالک نے ایران ، ترکی، عرب ممالک ، مغربی ایشیاء سے لیکر شمال افریقہ تک اپنے عمال کو اقتدار تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ، جس سے یہ تلخ حقیقت نمایاں ہوجاتی ہے کہ امت مسلمہ میں تفرقہ اور اختلاف کی وجہ سے فلسطین کا المیہ رونما ہوا اور عالمی سامراجی طاقتوں نے دنیائے اسلام کے پیکر پر کاری ضرب وارد کی۔
مسلم ممالک میں فلسطین کی بنیاد پر اتحاد و یکجہتی پر تاکید
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی ممالک پر زوردیا کہ وہ فلسطین کی بنیاد پر آپسی اتحاد اور یکجہتی کو مضبوط بنائیں اور اپنے آّپ کو سامراجی طاقتوں سے مستقل رکھنے اور امت اسلامی کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو مضبوط بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ مسلم ممالک کے اتحاد سے امریکہ اور مغربی ممالک خائف ہیں اگر مسلم ممالک متحدہ ہوجائیں اور فلسطین کی آزادی کو اپنا نصب العین بنالیں تو فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
مسئلہ فلسطین میں دو فیصلہ کن عوامل
رہبر معظم نے دو عوامل کو مستقبل کے لئے فیصلہ کن قراردیتے ہوئے فرمایا: پہلا اور اہم عامل یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں استقامت اور پائداری کا سلسلہ پوری قوت اور قدرت کے ساتھ جاری رہنا چاہیے اور دوسرا عامل یہ ہے کہ تمام مسلمان اورمسلم ممالک فلسطینی مجاہدین کی بھر پور حمایت کا سلسلہ جاری رکھیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کے ساتھ خیانت اور غداری کو ناقابل معاف جرم قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی خائن اور غداروں کو کبھی معاف نہیں کرےگا۔
لبنانی اور فلسطینی شہیدوں کو خراج تحسین
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عربی زبان میں اپنے بیان میں لبنانی اور فلسطینی شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی مزاحمت کے شہیدوں کے خون کی برکت سے آج پرچم فلسطین پوری دنیا میں لہرا رہا ہے اور ایران سمیت دنیا بھر کے مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم فلسطین کی مکمل آزادی تک اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں فلسطین صرف فلسطینیوں سے متعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق پورے عالم اسلام سے ہے اور اسلامی ممالک کو فلسطین کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے۔ ہمیں فلسطین کے مظلوم عوام کی فتح پر یقین ہے اور اللہ تعالی فلسطینیوں کو کامیابی اور فتح نصیب کرےگا۔
خدا پر بھروسہ رکھنے اور اسکی راہ میں مخلصانہ قدم بڑھانیوالے عنقریب صیہونیوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہونگے ، سید عبدالملک الحوثی
انصاراللہ یمن کے سربراہ نے اپنی گفتگو میں زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے عوام اسرائیلی دشمنوں کو پوری امتِ مسلمہ اور خطے سمیت پوری دنیا کے امن و امان کے لئے شدید خطرہ گردانتے ہیں جبکہ غاصب اور غیر قانونی اسرائیلی رژیم ایک ایسے سرطانی غدے کے مانند ہے جسے فی الفور صفحۂ ہستی سے مٹ جانا چاہئے۔ سید عبدالملک الحوثی نے بعض عرب ممالک کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ کھلی سازباز کو حق پر مبنی موقف سے عدول اور اسلام و مسلمانوں سے کھلی خیانت قرار دیا اور کہا کہ اس اقدام نے "ان کی ہمیشہ کی خیانت و منافقت"
سید عبدالملک الحوثی نے تاکید کی کہ صیہونیوں کے ساتھ سازباز کرنے والے ممالک نے فلسطینیوں کی جدوجہد کی تمام تاریخ میں منفی کردار ادا کرتے ہوئے حیلے بہانوں سے کام لیا اور ہر موثر اقدام کے اٹھائے جانے میں رکاوٹ ڈالی ہے جس کے باعث وہ ہمیشہ ہی دشمن
یمنی سپریم لیڈر نے مسجد الاقصی کے گردونواح میں غاصب صیہونیوں کے ساتھ فلسطینی جوانوں کی جھڑپوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس اقدام کو سراہا اور غاصب صیہونی رژیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ اب ایک عظیم سختی میں گرفتار ہو چکے ہو کیونکہ وہ لوگ جو خدا پر مکمل اعتماد
سید عبدالملک الحوثی نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں تاکید کی کہ یمنیوں نے سعودی شاہی رژیم سے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے فوجی قیدیوں کے بدلے اپنے پاس قید حماس کے حامیوں کو آزاد کر دے لیکن اس رژیم نے ان مطالبات کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے سعودی شاہی رژیم کی جانب سے حماس کے حامیوں کو اپنی قید میں باقی
فلسطینی جدوجہد نے حجت تمام کر دی، مزاحمتی محاذ میدان میں اتر پڑے، سید حسن نصراللہ
لبنانی مزاحمتی فورس حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے عالمی یوم القدس کے حوالے سے عرب چینل المیادین کے "المنبر الموحد" نامی پروگرام سے گفتگو میں تاکید کی ہے کہ امتِ مسلمہ کو چاہئے کہ وہ فلسطینی امنگوں کے حوالے سے اپنے موقف کو مکمل سچائی اور بہادری کے ساتھ بیان کرے۔ سید حسن نصراللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک عرصے سے وقوع پذیر ہونے والے پے در پے واقعات کے باعث آج امت مسلمہ کے ہر فرد کے کاندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے؛ جیسا کہ ہم فلسطینی جوانوں کو قیام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور جیسا کہ آج پوری فلسطینی قوم نے مسئلۂ فلسطین اور اسلامی مزاحمتی محاذ کے حوالے سے اپنے اٹل موقف کو کھل کر بیان کر دیا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے تاکید کی
کہ بعض افراد کی یہ بات کہ آج فلسطینیوں نے اپنی امنگوں اور سرزمین سے ہاتھ اٹھا لیا ہے، صرف اور صرف افتراء اور فلسطینیوں کے حق میں ظلم ہے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں وقوع پذیر ہونے والے حوادث نے بخوبی ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی عوام اپنے حق کے حصول کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں جس سے انہوں نے کبھی ہاتھ نہ کھینچا تھا جبکہ یہ مسئلہ فلسطینیوں کی مدد کے حوالے سے امتِ مسلمہ کی سنگین ذمہ داری کو مزید بھاری بنا رہا ہے۔ سید مقاومت نے فلسطینی شہر نابلس کے جنوب میں غاصب صیہونی فوجیوں پر ہونے والی فائرنگ، جس کے نتیجے میں 3 صیہونی فوجی شدید زخمی ہو گئے تھے، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی فلسطینی عوام کی اپنے حق و حقوق کے حصول پر اصرار کی عکاسی کرتی ہے جبکہ جوان فلسطینی نسل اس
مقصد کے حصول کے لئے تاحال ہر قسم کی جانثاری کو تیار ہے۔
سید حسن نصراللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم ہر قسم کی صورتحال میں حتمی کامیابی کی جانب قدم بڑھاتے رہیں گے! انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ (سابق و انتہاء پسند امریکی صدر) ڈونلڈ ٹرمپ اور خطے میں اس کے چیلوں کی حکومت کا خاتمہ اور (صیہونی سازش) "صدی کی ڈیل" کی کھلی شکست خطے میں وقوع پذیر ہونے والے اہم واقعات میں سے ہیں جبکہ حال ہی میں وقوع پذیر ہونے والے دوسرے واقعات نے مزاحمتی محاذ کے پاس موجود فرصتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج خطے کی نئی صورتحال اور دشمن کی جانب سے شکست اور بند گلی میں پہنچ جانے کا اعتراف ان عوامل میں سے ہے جن کے بعد اب ہمیں اپنے پورے وجود کے ساتھ یہ محسوس کر لینا چاہئے
کہ "قدس کی آزادی نزدیک ہے"۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے تاکید کی کہ مزاحمتی محاذ ہمیشہ سے فلسطینی قوم اور فلسطین کی امنگوں کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ صیہونی رژیم کے گہرے اندرونی بحران ان عوامل میں سے ایک ہیں جن کے باعث (حاصل ہونے والی فرصتوں کے حوالے سے) ہماری ذمہ داری مزید سنگین ہو جاتی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے مختلف اسلامی عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل دوستی کے اعلانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کے ساتھ سازباز، مزاحمتی محاذ کی آواز کے بلند تر ہونے کا باعث ہے درحالیکہ (غاصب صیہونیوں کے ساتھ) سازباز کرنے والے ممالک (ماضی میں بھی) کبھی غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ مقابلے کے رستے پر نہ تھے کہ اب (سازباز کے نتیجے میں) اُن کے اپنے رستے سے ہٹ جانے کے باعث (مزاحمت
کے) اس مسئلے پر کوئی (منفی) اثر پڑے گا۔
سید حسن نصراللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی محاذ کو چاہئے کہ وہ اپنی وحدت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر میدان میں حاضر رہے اور ہر طریقے سے اپنی قوت میں اضافہ کرے کیونکہ یہ مزاحمتی محاذ ہی ہے جس کے ہاتھوں مستقبل کی تقدیر لکھی جائے گی۔ انہوں نے غاصب صیہونی رژیم کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ آپ خود اپنی دینی و عقیدتی بنیادوں پر جانتے ہیں کہ اس (غاصب صیہونی) رژیم کا کوئی مستقبل نہیں اور یہ ہر صورت صفحۂ ہستی سے مٹنے والی ہے! انہوں نے کہا کہ میں اسرائیلیوں سے کہتا ہوں کہ تم نے اس معرکے میں اپنی تمام جدوجہد، کوششوں اور اپنے جوانوں کو برباد کرتے ہوئے ان کے خون کو رائیگاں بہایا ہے۔
سید مقاومت نے اپنی گفتگو
کے آخر میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں عظیم کمانڈر اور بزرگ شہید حاج قاسم سلیمانی کی اعلی روح پر درود بھیجتا ہوں کہ جن کا نام، تصویر، روح اور تزویراتی سوچ ہمیشہ باقی رہے گی۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی موجودگی؛ ان کے پاکیزہ سانسوں کی صورت پوری طاقت کے ساتھ مزاحمتی محاذ کے تمام میدانوں میں ہمیشہ باقی رہے گی۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ جدوجہد کے میدان میں فلسطینی عوام کی موجودگی تمام عرب و مسلمان اقوام کے لئے "عظیم الہی حجت" ہے جبکہ دنیا میں ہر آزاد انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو پہچاننے کے بعد اپنی پوری طاقت اور تمام وسائل کے ہمراہ فلسطینی عوام کے شانہ بشانہ آ کھڑا ہو۔
قدس شریف کے تشخص کی جنگ
فلسطینی استقامتی گروہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ بیت المقدس میں غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ ہماری جنگ تشخص اور بقا کی جنگ ہے اور بیت المقدس مسلم امۃ کا اصلی مسئلہ، غاصب صیہونی حکومت کے خلاف جنگ کا محور اور فلسطین کا دائمی دارالحکومت ہے اور فلسطین میں غاصبوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ استقامتی گروہوں کے بیان میں کہا گیا ہے کہ آزادی فلسطین کے لئے بہترین اور نزدیک ترین راستہ مسلح جدوجہد اور ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے، جن کے ذریعے فلسطینی کاز کو نابود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ قدس شریف ہمیشہ سے عربی و اسلامی رہا ہے اور رہے گا اور قدس شریف ہی مسلم امہ کا اصلی موضوع، غاصب صیہونیوں کے خلاف جدوجہد کا محور ہے اور فلسطین میں غاصبوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
فلسطینی استقامتی گروہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ قدس میں غاصبوں کے خلاف ہماری جنگ تشخص اور موجودیت کی جنگ ہے، سینچری ڈیل، زمینوں کا انضمام، غاصبانہ قبضہ اور روابط کو معمول پر لانے کی کوششیں دم توڑ رہی ہیں اور فتح و کامیابی مسلم امہ کا مقدر اور یقینی ہے۔ آج کا دور ایسا دور ہے، جس میں بیت المقدس کے مسلمان فلسطینی باشندوں نے اپنے گوشت اور خون کو مسجد الاقصیٰ کے دروازوں کی ڈھال بنا رکھا ہے۔ فلسطینیوں اور صہیونیوں کے درمیان جاری تنازعہ قدس شریف کے تشخص کی جنگ ہے اور اس پر امت مسلمہ کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ امسال بھی دنیا بھر میں یوم القدس کرونا وائرس کی مشکلات کے باوجود طبی ہدایات کی روشنی میں منایا جائیگا اور مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا جائیگا۔
مسئلہ فلسطین رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی نگاہ میں
آج بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین پر کیوں بحث کرتے ہیں، یہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کسی صورت میں ختم نہیں ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ یہ تصور کریں کہ فلسطین کے اصلی مالک فلسطینی ہمیشہ اپنی اولاد کے ہمراہ اہنی سرزمین سے باہر رہیں گے یا جو فلسطینی مقبوضہ سرزمین میں ہیں وہ ہمیشہ دبی ہوئی اقلیت کی صورت میں زندگی بسر کریں گے اور غیر ملکی غاصب وہاں ہمیشہ رہیں گے، نہیں ایسا نہیں ہے۔ وہ ممالک جو سو سال تک دوسرے ملک کے تصرف میں رہے ہیں انہیں دوبارہ استقلال مل گیا۔ یہی قزاقستان، جارجیا اور مرکزی ایشیائی ممالک جنہیں آپ دیکھ رہے ہیں ان میں بعض سوویت یونین اور بعض سوویت یونین سے پہلے روس کے قبضے میں تھے جب سوویت یونین کا وجود بھی نہیں تھا لیکن ان کو استقلال مل گیا اور وہ اپنے عوام کو مل گئے لہذا کوئی وجہ نہیں ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کو نہ ملے، یہ کام ضرور ہوگا اور انشاء اللہ ضرور ہوکر رہے گا۔ فلسطین فلسطینی عوام کو مل کر رہے گا لہذا مسئلہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس قسم کی فکر کا تصور غلط ہے۔ آج صہیونیوں اور ان کے حامیوں ’امریکہ ان کا سب سے بڑا اور اہم حامی ہے‘ کا مکر و فریب یہ ہے کہ وہ صلح کے خوبصورت اور حسین نام سے استفادہ کرتے ہیں: صلح کیجیئے، یہ کیسی باتیں ہیں۔؟ جی ہاں، صلح ایک اچھی چیز ہے لیکن صلح کہاں اور کس سے۔؟
کوئی شخص آپ کے گھر میں داخل ہوجائے۔ طاقت کے زور پر آپ کا دروازہ توڑ دے اور آپ کو مارے پیٹے، آپ کے بال بچوں کی توہین کرے اور چلا جائے اور پھر یہ کہے کہ کیوں ادھر ادھر اس کی شکایت کرتے ہو اور مسلسل لڑائی جھگڑا کرتے ہو، آؤ ہم صلح کرلیں، کیا یہ صلح ہوگی۔؟ یہ صلح ہے کہ آپ کو آپ کے گھر سے باہر نکا دیا جائے اور اگر آپ کے گھر پر قبضہ کرنے والے کے خلاف آواز اٹھائیں یا قیام کریں تو اس وقت دشمن کے حامی آئیں اور صلح کرائیں جب کہ غاصب دشمن آپ کے گھر میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے گھر میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے آپ کے خلاف ہر ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ اب بھی اگر اس کا ہاتھ پہنچے تو کمی نہیں چھوڑے گا۔ اسرائیل کی ذات میں حملہ اور تشدد کا عنصر ہے۔ اسرائیلی حکومت کی ماہیت اور طبیعت میں حملہ، خونخواری اور تشدد موجود ہے۔ اسرائیلی حکومت کی بنیاد اور داغ بیل تشدد، فسادات اور طاقت کے زور پر ڈالی گئی ہے، اسی بنیاد پر وہ آگئے بڑھ رہی ہے اور اس کے بغیر اس کی پیش رفت ممکن نہیں تھی اور آئندہ بھی ممکن نہیں ہوگی۔ کہتے ہیں کہ اس حکومت کے ساتھ صلح کریں۔ کیسی صلح۔؟ اگر وہ اپنے حق میں قناعت کریں ’’یعنی وہ گھر جو فلسطین کے نام سے ہے وہ فلسطینی عوام کے حوالے کردیں اور اپنے کام میں مشغول ہوجائیں یا فلسطینی حکومت سے اجازت لیں اور کہیں کہ ہم میں سے بعض کو یا سب کو یہاں رہنے کی اجازت دے دیں‘‘۔ تو کسی کو انکے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، جنگ یہ ہے کہ انہوں نے طاقت کے زور پر دوسروں کے گھر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے گھر والوں کو گھر سے باہر نکال دیا ہے اور اب بھی ان پر ظلم و تشدد کو روا رکھے ہوئے ہیں۔ علاقائی ممالک پر ظلم کرتے ہیں اور سب کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں لہذا وہ صلح کو بھی بعد والے حملے کا مقدمہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ صلح برقرار ہوجائے تاکہ یہ صلح ان کے آئندہ حملے کے لئے مقدمہ قرار پا سکے۔
مسئلہ فلسطین کا یہ جھوٹ اور فریب پر مشتمل راہ حل اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتا۔ مسئلہ فلسطین کا راہ حل صرف یہ ہے کہ فلسطین کے اصلی عوام (نہ غاصب اور قابض مہاجرین) خواہ وہ فلسطین میں مقیم ہوں یا فلسطین سے باہر ہوں وہ خود اپنے ملک کا حکومتی ڈھانچہ بنائیں اور اگر جمہوریت کے دعوے داروں کا یہ دعوٰی سچ ہے کہ وہ کسی ملت کی رائے کا احترام کرتے ہیں تو پھر ملت فلسطین بھی ایک ملت ہے لہذا اسے اپنی سرنوشت تعین کرنے کا حق ہے اور وہ جو اسرائیل کے نام پر غاصب حکومت تشکیل دی گئی ہے اسے اس سرزمین پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ وہ جھوٹ، فریب اور ظالم طاقتوں کے بل بوتے پر معرض وجود میں آئی تھی لہذا فلسطینی عوام سے اسے تسلیم کرنے کا مطالبہ بالکل غلط ہوگا۔ اگر جہان اسلام میں سے کوئی بھی اس غلطی کا ارتکاب کرے اور اس ظالم و قابض حکومت کو تسلیم کرلے تو ایک تو اس نے اپنے لئے ننگ و عار کو مول لیا ہے اسکے علاوہ اس کا یہ کام بے فائدہ بھی ہے کیونکہ اس غاصب حکومت کو دوام نہیں ہے۔ صہیونیوں کا خیال ہے کہ وہ فلسطین پر قابض اور مسلط ہیں اور ہمیشہ کے لئے فلسطین ان سے متعلق رہے گا، نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے کہ بلکہ فلسطین کی سرنوشت یہ ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن آزادی حاصل کرے گا کیونکہ ملت فلسطین نے اس راہ میں قربانیاں دی ہیں۔ مسلمان اقوام اور اسلامی حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ فلسطین کی آزادی تک پہنچنے میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے جد و جہد کریں تاکہ ملت فلسطین جلد از جلد اپنی آرزو تک پہنچ سکے۔
فلسطین مسئلہ کا بہترین حل موجود ہے اور وہ راہ حل یہ ہے کہ دنیا کا بیدار اور باشعور طبقہ اور وہ تمام لوگ جو آج کی دنیا میں رائج مفاہیم پر ایمان رکھتے ہیں وہ مجبور ہیں کہ اس بات کو قبول کریں۔ یہ وہ راہ حل ہے جو کو ہم نے پہلے پیش کیا تھا اور ہماری اسلامی حکومت کے ذمہ دار افراد نے عالمی اداروں میں بھی اسے بارہا بیان کیا ہے اور آج بھی ہم اس پر تاکید کریں گے کہ خود فلسطینی عوام سے رائے لی جائے اور ان تمام فسلطنیوں کو کہ جو اپنے وطن لوٹ کر آنا چاہتے ہیں ان سب سے رائے لی جائے وہ فلسطینی جو لبنان، اردن، کویت، مصر اور دوسرے عرب ممالک میں مہاجرت کی زندگی گزار رہے ہیں یہ سب فلسطینی واپس آئیں ہم یہ نہیں چاہتے کہ کسی کو زبردستی واپس لایا جائے اور وہ لوگ جو اسرائیل کی جعلی حکومت بننے سے پہلے یعنی پہلے سے فلسطین میں موجود تھے خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی اور خواہ یہودی ہو ان سب سے رائے لی جائے اور عام ریفرنڈم کے ذریعے فلسطین کا حکومتی نظام متعین کیا جائے یہ جمہوریت ہے۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جمہوریت سب دنیا کے لئے تو اچھی ہو لیکن فلسطینی عوام کے لئے جمہوریت اچھی نہ ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام دنیا کی عوام کو تو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنی سرنوشت خود متعین کریں لیکن فلسطینی عوام اس حق سے محروم ہو۔ کوئی شخص بھی اس بات میں شک و تردید نہیں کرسکتا کہ فلسطین پر آج جو حکومت قابض ہے وہ طاقت اور فریب کے بل بوتے پر بنائی گئی ہے وہ زبردستی ٹھونسی جانے والی حکومت ہے لہذا فلسطینی عوام جمع ہوکر ریفرنڈم کے ذریعے حکومتی ڈھانچہ کا انتخاب کریں کس طرح کا وہ نظام حکومت چاہتے ہیں اس پر اپنا ووٹ دیں۔ جب حکومت بن جائے تو پھر ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے جو کہ بعد میں فلسطین میں داخل ہوئے ہیں جو بھی فیصلہ ہو اسے عملی جامہ پہنایا جائے اگر فیصلہ انکے حق میں ہوتا ہے تو وہ رہیں اگر فیصلہ انکے خلاف ہوتا ہے تو وہ جائیں یہ ہے عوام کی رائے کا احترام۔ یہ ہے جمہوریت اور یہی انسانی حقوق کی پاسداری کا تقاضا ہے جو موجودہ دنیا کے رائج قوانین کے عین مطابق ہے۔ یہ ہے راہ حل اور اسی راہ حل کا نفاذ ہونا چاہیئے۔
غاصب حکومت تو اس راہ حل کو خوش اسلوبی سے قبول نہیں کرے گی۔ لہذا تمام عرب ممالک، اسلامی ممالک، دنیا کی مسلمان اقوام، بالخصوص ملت فلسطین اور عالمی ادارے ان سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس راہ حل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جد و جہد کریں۔ بعض لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ راہ حل خواب و خیال پر مبنی ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے۔ نہیں ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ ممالک جو برسوں تک سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہے وہ آج مستقل اور آزاد ہوگئے اور قفقاز کے بعض ممالک تو سوویت یونین کی تشکیل سے برسوں پہلے روس کے زیر تسلط تھے لیکن آزاد ہوگئے۔ آج قزاقستان، آذربائیجان، گرجستان وغیرہ سب آزاد ہوگئے ہیں پس ایسا ہونا ممکن ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی انوکھا کام ہو البتہ اس کے لئے عزم و ارادہ، جرات اور دلیری کی ضرورت ہے۔ اب یہ بہادری کا جوہر کون دکھائے۔؟ اقوام یا حکومتیں۔ اقوام تو بہادر ہیں اور انہوں نے اپنی بہادری کے مختلف مواقع پر ثابت کیا ہے کہ وہ تیار ہیں۔
میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنا حق پلٹانے کے سلسلے میں فلسطینی قوم کی کامیابی اسلامی جمہوریہ کے قیام کے سلسلے میں ایرانی قوم کی کامیابی سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اُس دن جدوجہد کے دوران ہمارے پاس وسائل کی اس سے کہیں زیادہ قلت تھی جو آج غزہ اور مغربی کنارے میں آپ کے عوام کے پاس ہیں لیکن یہ واقعہ بہر صورت رونما ہوا، یہ ناممکن کامیابی حاصل ہوئی اور انجام کو پہنچی۔ جدوجہد کے تسلسل کی برکت سے، خدا پر توکل کی برکت سے، ہمارے امام بزرگوار کی پرعزم اور مضبوط قیادت کی برکت سے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ صورتحال پیش آئے کہ کچھ لوگ میدان پر نظر ڈالیں، امریکی طاقت کو دیکھیں، صہیونیوں کو حاصل مغرب کی پشت پناہی کو دیکھیں، امریکہ اور دنیا کے دوسرے نقاط میں صہیونیوں کے نیٹ ورک کی طاقت کو دیکھیں اور ان کی تشہیری طاقت کو دیکھیں اور سمجھیں کہ فلسطین کا فلسطینیوں کے پاس پلٹانا ایک ناممکن امر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں، یہ ناممکن امر ممکن ہوجائے گا۔ بشرطیکہ استقامت اور پامردی ہو۔ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے “فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ” (۲۸) استقامت لازمی ہے، پامردی اور جم کر رہنا لازمی ہے، راستے پر مداومت سے چلتے رہنا لازمی ہے۔
ترتیب و تزئین: جاوید عباس رضوی
علی ابن ابی طالب (ع) کون ہیں؟
کتاب فضل تو را آب بحر کافی نیست
که تر کنم سر انگشت و صفحه بشمارم
وہ علی :جو عین اسلام تھا۔
وہ علی :جو کل ایمان تھا۔
وہ علی: جوخانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔
وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب تھا ۔
وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی تھا۔
وہ علی :جوفاطمہ الزہرا(س) کا شوہر تھا۔
وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔
وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔
وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔
وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔
وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اور جو کی خشک روٹی کھاتا رہا۔
وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔
وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا اعلان کیا۔
وہ علی: جس کے عدل کی یہ شان تھی کہ اپنے دور خلافت میں اپنی زرہ کے جھوٹےدعوی کے مقدمہ کے قاضی کی عدالت میں ایک معمولی یہودی کے برابر کھڑا ہو گیا اور اپنے خلاف قاضی کے فیصلہ کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا۔
وہ علی :جس کی قوت فیصلہ کی شان یہ ہے کہ رسول خدا نے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا: اقضاکم علی
وہ علی :جس کی شجاعت ضرب المثل تھی اور ہاتف غیبی نے جنگ احد میں جسے یوں داد شجاعت دی: لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار۔
وہ علی :جس نے بدر و احد کی سخت جنگوں میں اسلام کو فتح مند کیا اورہر معرکے مین پرچم اسلام کو سر بلند کر کے نصرت و کامرانی کے جھنڈے گاڑ دئے۔
وہ علی :جس کی جنگ خندق کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت پر بھاری تھی اورجس نے کل ایمان بن کر کل کفر پر فتح حاصل کیا۔ضربۃ علی یوم الخندق افضل من عبادۃ الثقلین۔
وہ علی: جس نے ایک ہاتھ سے در خیبر اکھاڑ کر جنگ کا نقشہ بدل دیا اوررسول خدا سے سند افتخار لی۔
وہ علی :جس نے مشرکین مکہ کے سامنے سورہ برائت کی تلاوت کی۔
وہ علی :جس نے فتح مکہ کے دن علم اسلام کو اٹھایا۔
وہ علی: جو رسول خدا کے دوش مبارک پر بلند ہو کر خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا اور{طہر بیتی لطائفین} کا حق ادا کیا۔
وہ علی :جو رزم و بزم دونوں میں یکساں تھا اگر میدان جنگ میں بے مثال سپاہی و سپہ سالار تھا تو مجلس میں ایک بے نظیر حاکم اورشفیق استاد تھا۔
وہ علی: جس کی فصاحت و بلاغت کے سامنے دنیا عاجز تھی اورجس کے زور بیان کے آگے عرب و عجم کے خطبا زبان کھولنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔
وہ علی :جو شب ہجرت بستر رسول خدا پر بے خوف و خطر آرام کی نیند سویا اورنفس مطمئنہ کا لقب بارگاہ یزدی سے حاصل کیا۔
وہ علی :جو نماز فجر کے سجدے میں ابن ملجم کے تلوار کے وار سے زخمی ہوا اوراکیس رمضان المبارک کے دن درجہ شہادت پر فائز ہوا۔
وہ علی: جس نے محنت و مزدوری کر کے اورباغوں کو پانی دے کر روزی کمانے کو فخر سمجھا۔
وہ علی :جس کا طرز جہانبانی قیامت تک کے لئے مشعل راہ ہے ۔
وہ علی : جس نے امیری اور غریبی کے فرق کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔
وہ علی :جس کی فضیلت کے بارے میں جب خلیل ابن احمد سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: ؛میں کیسے اس شخص کی توصیف و تعریف کروں جس کے دشمنوں نے حسادت اور دوستوں نے دشمنوں کے خوف سے اس کے فضائل پر پردہ پوشی کی ہو ان دو کرداروں کے درمیان مشرق سے مغرب تک فضائل کی دنیا آباد ہے۔
وہ علی :جس کے بارے میں رسول خدا نے فرمایا:{ یا علی ما عرف اللّه حق معرفته غیری و غیرک و ما عرفک حق معرفتک غیر اللّه و غیری} اے علی! خدا کو میرے اور آپ کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا، اور آپ کو میرے اور خدا کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا۔
وہ علی :جس کی فضائل حساب نہیں کر سکتے ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تمام درخت قلم، تمام دریا سیاہی، تمام جن حساب کرنے اور تمام انسان لکھنے بیٹھ جائیں تب بھی علی علیہ السلام کے فضائل کا شمار نہیں کر سکتے۔
وہ علی :جس میں تمام انبیاء کی صفات بطور کامل موجود تھیں۔ جیسا کہ حدیث نبوی ہے: جو شخص آدم (ع) کے علم کو، نوح (ع) کے تقویٰ کو، ابراہیم (ع) کے حلم کو اور موسی(ع) کی عبادت کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ علی بن ابی طالب پر نگاہ کرے۔
وہ علی :جونفس پیغمبر ’’ انفسنا‘‘ کی مصداق بن کر میدان مباہلہ میں اترا ۔
وہ علی :جن کی فضائل و کمالات بیان کرنے میں رسول خدا نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی یہاں تک کہ غدیر کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں کے مجمع میں آپ کا ہاتھ اٹھا کر فرمایا کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا یہ علی مولی ہیں۔
وہ علی :جو حق کا محور اور مزکر تھا۔ علیّ مع الحقّ و الحقّ مع علیّ و لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة؛علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ روز قیامت حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔
وہ علی :جس کے بارے میں رسول خدا نے عمار سے فرمایا: اے عمار! اگر تم دیکھو کہ علی ایک طرف جا رہے ہیں اور دیگر تمام لوگ دوسری طرف جا رہے ہیں تو تم علی کے ساتھ جانا اور باقی لوگوں کو چھوڑ دینا اس لیے کہ علی گمراہی کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اور راہ ہدایت سے الگ نہیں کریں گے۔
وہ علی :جو قسیم النار و الجنہ ہے۔
وہ علی :جسے کھو کر دنیا ایک فقیہ،ایک حکیم،ایک فلسفی،ایک منطقی،ایک انشاپرداز،ایک خطیب،ایک عالم،ایک مومن،ایک مفتی،ایک قاضی،ایک عادل،ایک صف شکن،ایک زاہد،ایک عابد،ایک مجاہد،ایک انسان مجسم اور ایک انسانیت کے عدیم المثال قائد سے محروم ہوگئی۔ آخر میں امام علی علیہ السلام کے بارے میں چند اشعار ذکر کر کے اس تحریر کو ختم کرتا ہوں۔
جس نے اصنام کو کعبے سے نکالا وہ علی
ہر اندھیرے کو کیا جس نے اجالا وہ علی
جس کا رتبہ ہے رسولوں سے بھی بالا وہ علی
جس نے اس دین کی کشتی کو سنبھالا وہ علی
جو ملائک سے بھی ہے رتبے میں برتر وہ علی
جس کے خدام ہیں سلمان و ابوذر وہ علی
جو ہر جنگ میں ہے سب سے مقدم وہ علی
جس نے مجمع کئے کفار کے برہم وہ علی
علی امام من است و منم غلام علی
هزار جان گرامی فدای نام علی
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
مسئلہ فلسطین، یوم النکبہ سے میزائلوں کے ذریعے مزاحمت تک
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے اپنی ناجائز تشکیل کے پہلے دن سے امریکہ اور بعض عرب ممالک کی غیر مشروط حمایت اور عالمی تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی کے سائے تلے تسلط پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھا ہے۔ جب ستر سال پہلے مغربی ایشیا خطے میں اس منحوس رژیم کی بنیاد ڈالی گئی تو کوئی یہ سوچ بھی سکتا تھا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کا دعوی کرنے والی عالمی تنظیمیں مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں ظالم صہیونی رژیم کے ظالمانہ اور مجرمانہ اقدامات کے سامنے اس حد تک مجرمانہ خاموشی اختیار کریں گی۔ فلسطینیوں نے 15 مئی 1948ء کے دن کو "یوم النکبہ" قرار دیا۔ یہ وہ دن ہے جب غاصب صہیونی رژیم کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ لیکن علاقائی اور عالمی سطح پر حالات صہیونی رژیم کے سخت خلاف ہیں۔
اگرچہ 1948ء سے لے کر آج تک اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم مختلف قسم کے بحرانوں سے روبرو رہی ہے لیکن حالیہ چند برسوں سے یہ رژیم بدترین سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ 2018ء کے آخر میں بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ ٹوٹ جانے کے بعد 9 اپریل 2019ء کے دن وقت سے پہلے مڈٹرم پارلیمانی الیکشن منعقد ہوئے۔ لیکن اس کے بعد بھی نیتن یاہو حکومتی اتحاد تشکیل دینے میں ناکام رہے۔ یوں چھ ماہ بعد 17 ستمبر 2019ء کے دن دوبارہ پارلیمانی الیکشن کا انعقاد کیا گیا۔ لیکن اس بار بھی کوئی سیاسی جماعت بھاری اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ آ سکی۔ لہذا ایک عبوری حکومت تشکیل دے دی گئی اور طے پایا کہ حکومت کچھ عرصے تک لیکوڈ پارٹی کے سربراہ نیتن یاہو اور کچھ عرصہ بنی گانٹیز کے سپرد کی جائے گی۔
23 مارچ 2021ء کے دن مقبوضہ فلسطین میں دو سال کے اندر چوتھی بار پارلیمانی الیکشن منعقد کئے گئے۔ اس کے بعد ایک بار پھر صدر نے بنجمن نیتن یاہو کو کابینہ تشکیل دینے کی دعوت دی۔ نیتن یاہو کو 4 مئی تک دیگر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر نئی حکومت تشکیل دینے کی مہلت دی گئی ہے۔ اگر وہ اس مدت میں حکومت تشکیل نہیں دے پاتے تو یہ مہلت ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کو دے دی جائے گی۔ بنجمن نیتن یاہو اب تک نئی کابینہ کی تشکیل کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے میں ناکام رہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے سیاسی حریف بنی گانٹیز نے ان پر شدید تنقید کا آغاز کر رکھا ہے اور کہا ہے کہ وہ اب تک ملک کا نیا بجٹ منظور کروانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔
معروف صہیونی تھنک ٹینک "یہود ایجنسی" کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 70 فیصد صہیونی شہریوں کا خیال ہے کہ اگر انہیں کسی دوسرے ملک میں بہتر مواقع میسر آتے ہیں تو وہ مقبوضہ فلسطین چھوڑ دیں گے۔ اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 68 فیصد صہیونی شہری دیگر ممالک کی شہریت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں جبکہ 73 فیصد صہیونیوں کا عقیدہ ہے کہ صہیونی حکمران ان کے بچوں کیلئے بہتر مستقبل کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتے۔ 1948ء میں مقبوضہ فلسطین پر ناجائز صہیونی ریاست کی تشکیل کے آغاز سے ہی صہیونی حکمرانوں نے اپنے لئے ایک جعلی تشخص ایجاد کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی ہیں۔
صہیونی رژیم نے جعلی تشخص پیدا کرنے کیلئے مختلف قسم کے اقتصادی، فوجی، سیاسی اور حتی علمی ہتھکنڈے بروئے کار لائے ہیں۔ ان کا ایک علمی ہتھکنڈہ تاریخ میں تحریف ایجاد کرنا ہے۔ لیکن امریکہ اور برطانیہ جیسی عالمی طاقتوں کی غیر مشروط حمایت اور ان شیطانی ہتھکنڈوں کے باوجود اپنے مقصد میں ناکام رہی ہے۔ دنیا کی اکثر عوام خاص طور پر مغربی ایشیا خطے کے افراد اب تک صہیونیوں کو غاصب اور قابض تصور کرتے ہیں جبکہ فلسطینی باشندوں کو اس سرزمین کا حقیقی مالک قرار دیتے ہیں۔ صہیونی حکمران "نیل سے فرات تک" کے منحوس تصور کی روشنی میں ناقابل عمل آرزوئیں دل میں لئے بیٹھے تھے لیکن فلسطینیوں کی شجاعانہ مزاحمت نے انہیں اپنی چار دیواری میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔
قابض صہیونی رژیم نے مقبوضہ فلسطین خاص طور پر قدس شریف کو یہودیانے کی بھرپور کوشش انجام دی لیکن سات عشرے گزر جانے کے باوجود اور بعض عرب حکمرانوں کی غداری اور غاصب صہیونی رژیم سے سازباز کے باوجود وہ قدس شریف اور مقبوضہ فلسطین کا اسلامی تشخص ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ فلسطینی عوام نے صہیونی قوتوں کے ہاتھوں اپنی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ قائم ہو جانے کے باوجود استقامت اور مزاحمت برقرار رکھی ہے اور مسلسل اپنے جائز حقوق کے دفاع کیلئے جدوجہد میں مصروف رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی یہ مزاحمت سادہ ترین آلات سے شروع ہوئی ہے اور آج وہ ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے میزائلوں سے لیس ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف غاصب صہیونی رژیم روز بروز زیادہ منفور، کمزور، گوشہ نشین اور شکست خوردہ ہوتی جا رہی ہے۔
تحریر: محسن ایران دوست