
سلیمانی
علماء و مشائخ کا فرقہ واریت، دہشتگردی کیخلاف متحد ہونے کا اعلان
جامعہ بیت القرآن گلبرگ لاہور میں ملک کے جید علماء ومشائخ اور درگاہوں کے سجادہ نشینوں کی اتحاد امت کانفرنس۔ فرقہ واریت، دہشتگردی کیخلاف متحد ہونے کا عزم، پاک فوج کیخلاف کسی بھی قسم کی ہرزاہ سرائی قبول نہیں کریں گے۔ مفتی سید عاشق حسین کی زیر نگرانی اتحاد امت کانفرنس میں پیر سید حبیب عرفانی، میاں جلیل احمد شرقپوری، مفتی عاشق حسین، پیر علی جمیل خان، سجادہ نشین دربار عالیہ سندر شریف، مرکزی صدر پی ٹی آئی مذہبی امور ونگ پیر سید حبیب عرفانی، سجادہ نشین شرقپور شریف و رکن صوبائی اسمبلی میاں جلیل احمد شرقپوری، دربار میاں میر کے سجادہ نشین پیر سید علی رضا گیلانی، کل مسالک علماء بورڈ کے سربراہ مولانا محمد عاصم مخدوم، زیب آستانہ عالیہ دیوان علی عظمت سید محمد، آستانہ عالیہ ڈی ایچ اے لاہور خواجہ اسرارالحق نظامی، دربار عالیہ ملتان سے خواجہ محمد اکمل اویسی، دربار عالیہ پیر فضل شاہ ولی کے سجادہ نشین پیر علی رضا، پی ٹی آئی علماء و مشائخ ونگ کے مرکزی رہنما علامہ اصغر عارف چشتی اور سابق صوبائی ایڈوائزر جمیل خان نے شرکت کی۔
کانفرنس میں پیر اختر رسول قادری، پیر سید ارشد حسین گردیزی، مفتی شبیر انجم، علامہ پرویز اکبر ساقی، بابا محمد شفیق بٹ، مفتی لیاقت علی صدیقی، قاری محمد اعظم، علامہ محمد حسین گولڑوی، پیر محمد رمضان رضوی سیفی، مولانا محمد شفیق اللہ اجمل، پیر محمد امین ساجد، پیر، قاسم علی قاسمی، پیر عثمان نوری، ڈاکٹر امجد حسین چشتی، سید محمد شاہ ہمدانی و دیگر علمائے کرام و مشائخ عظام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس کے شریک علماء نے متفقہ طور پر عزم کیا کہ اتحاد امت کیخلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ملک میں مسلکی، فرقہ وارانہ بحث نہیں چھڑنے دینگے، ملک کسی بھی قسم کی افراتفری اور فرقہ واریت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دینے والے عناصر کیخلاف کاروائی کرے۔ مشائخ عظام نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف پاک فوج کی لازوال قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، قیام امن کیلئے اپنے ریاستی اداروں اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، پاک فوج کیخلاف کسی بھی قسم کی ہرزاہ سرائی برداشت نہیں کریں گے۔
یہ وقت مناظرہ بازی کا نہیں
مقبوضہ جموں و کشمیر میں گذشتہ کچھ عرصہ سے کورونا وائرس کی عالمگیر وباء کے بیچ ہی آن لائن اور آف لائن مناظرہ بازی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے، اس نے یہاں کے ذی حس طبقوں کو انتہائی مضطرب کر دیا ہے اور گذشتہ چند روز سے سوشل اور روایتی میڈیا کے توسط سے مسلسل اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ اس طرح کی تفرقہ بازی سے اجتناب کیا جائے۔ مقامی سول سوسائٹی نے بارہا علماء دین اور مذہبی جماعتوں کو معاملہ کی نزاکت سمجھتے ہوئے باہمی اخوت کو فروغ دینے کی تاکید کرتے ہوئے مسلکی اور گروہی افتراق کو پنپنے نہ دینے کی اپیل کرکے عوام سے کہا کہ وہ دین کے بنیادی عقائد پر جمع ہوکر آپسی اتحاد و اتفاق کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بنیادی عقائد ایک ہیں تو پھر جھگڑوں کا کیا جواز بنتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اخوت اور اتحاد کا پیغام دیتا ہے، مگر جموں و کشمیر میں بالعموم اور وادی کشمیر میں بالخصوص مذہب و مسلک کے نام پر جس انداز میں قوم کو گروہوں میں تقسیم کرنے کی سازشیں رچائی جا رہی ہیں، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔
ماضی قریب تک مقبوضہ وادی کشمیر میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے بلکہ اسلامیان کشمیر بنیادی عقائد پر مجتمع ہوکر ملی اتحاد کا بھرپور مظاہرہ کر رہے تھے، تاہم اب جو ہوا چلنے لگی ہے، اگر فوری طور پر اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو کل یہ ہوا ایک آندھی کی شکل اختیار کرکے ملت کا شیرازہ بکھیرنے کا کام کرے گی اور اس وقت ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔ مسلکی منافرت اور گروہ بندی کی تباہ کاریوں سے کوئی نا آشنا نہیں ہے۔ ایسے ہی فروعی معاملات کو لیکر کئی مسلم ممالک کو جو خمیازہ بھگتنا پڑا، وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اس کے باوجود بھی اگر کشمیر میں کوئی اس سمت میں جانے کی کوشش کرے تو وہ مذہب اور ملت کا بہی خواہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ پہلے ہی عالم اسلام اس وقت کئی مسائل سے دوچار ہے۔ عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنے کے لئے باضابطہ طور پر ایک مربوط مہم چل رہی ہے، جس کو اسلام دشمن قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
اس مہم کے تحت مسلمانوں کو انتہاء پسندوں اور انسانیت دشمنوں کے طور پیش کرنے کی مکروہ کوششیں کی جا رہی ہیں، جبکہ اسی مہم کے تحت مسلک اور پارٹیوں کے نام پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ اس نازک ترین صورتحال میں اگر امتِ مسلمہ طبقوں میں تقسیم ہو جائے تو اس کا براہ راست فائدہ ایسی قوتوں کو ہوگا، جنہیں ملت اسلامیہ کا وجود ایک آنکھ بھی نہیں بھاتا ہے۔ اتحاد میں طاقت اور وحدت ہی مسلم امہ کو موجودہ پریشان کن دور سے باہر نکال سکتی ہے۔ انتشار و افتراق کی صورتحال ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیئے، کیونکہ جب قرآن ایک ہے، نبی (ص) ایک ہے، قبلہ ایک ہے اور اسلام کے بنیادی عقائد مشترک ہیں تو کون سی چیز ہمیں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے لئے آمادہ کر رہی ہے۔ ملت میں انتشار و افتراق ہمیں بنیادی اہداف سے کوسوں دور لے جائے گا، لہٰذا قوم کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پریشان کن صورتحال سے نمٹنے میں ادراک سے کام لے۔
علماء کرام، جن کا کام اسلام کی اشاعت ہے، ان کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں روز قیامت میں اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے اصلاح معاشرہ اور اتحاد ملت کے لئے کون سی ذمہ داریاں انجام دیں۔ وعظ و تبلیغ کا فریضہ انجام دیکر ہی مبغلین اسلام، مفتیاں کرام، ائمہ مساجد، علماء دین اور مذہبی اسکالر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ ان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ملت کو اُس ڈگر پر لے جائیں، جس پر چل کر دنیا و آخرت میں سرخروئی مقدر بن سکے۔ ملت اسلامیہ میں پھیلی بیماریوں پر ان علماء سے جوابدہی ہوگی، لہٰذا انہیں بھی خاموش تماشائی بننے کی بجائے عملی طور پر اتحاد ملت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام قائدین، سماجی جماعتوں، سول سوسائٹی اور سماج کے ہر باشعور فرد کو انفرادی طور بھی اپنے آپ کو اس سنگین مسئلہ سے لاتعلق رکھنے کی بجائے اس کا تدارک کرنے کے لئے ہاتھ بٹانا چاہیئے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ بھولیں گے اور نہ ہی معاف کرینگے، ایران
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے ایک پیغام میں ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس اور رفقاء سمیت ٹارگٹ کلنگ کی امریکی کارروائی کو بزدلانہ اور اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ سید عباس موسوی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ ہمارے خطے میں انسداد دہشتگردی کے ہیرو، جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر مبنی بزدلانہ (امریکی) کارروائی نہ صرف ایک "خودسرانہ قتل" بلکہ اقوام متحدہ کے منشور کی بھی کھلی خلاف ورزی تھی۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے لکھا کہ امریکہ اس مجرمانہ اقدام کا ذمہ دار ہے جس سے وہ اقوام متحدہ پر اپنی شدید تنقید کے ذریعے "بری" نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اپنے پیغام کے آخر میں لکھا کہ ہم اس (گھناؤنے امریکی جرم) کو بھولیں گے اور نہ ہی معاف کریں گے!
.jpg)
سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کی شکست
گذشتہ روز عالمی ادارے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا آن لائن اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایران اور چار جمع ایک ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور اس کے نتیجے میں سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے جائزے پر مشتمل رپورٹ پیش کی۔ امریکہ نے حسب معمول اور حسب توقع اس آن لائن اجلاس میں ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیاں برقرار رکھنے پر تاکید کی۔ سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت اکتوبر 2020ء میں ایران پر اسلحہ جاتی پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ ایران کو یہ سہولت حاصل نہ ہو اور اس پر اسلحہ جاتی پابندیاں بدستور برقرار رہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے اس آن لائن اجلاس میں امریکی موقف کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکہ کے موقف کو تسلیم کر لیا جائے اور ایران پر پابندیوں کا سلسلہ باقی رہے تو گویا عالمی ایٹمی معاہدے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں۔ ڈاکٹر جواد ظریف کا کہنا تھا کہ امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں اور ایران کیخلاف اپنائی گئی پالیسیوں کو ماننا گویا جنگل کے قانون کو تسلیم کرنا ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں عالمی معاہدہ مسائل اور بحرانوں کو حل کرنے کا اقدام سفارتی کامیابی تھی اور اگر اس سفارتی کوشش اور اقدام کو امریکہ کے دباؤ پر مسترد کر دیا تو عالمی برادری کا سفارتی کوششوں اور سفارتی اقدامات پر اعتماد اٹھ جائیگا۔
گذشتہ روز سلامتی کونسل کے آن لائن اجلاس میں امریکہ کے علاوہ تمام اراکین نے عالمی ایٹمی معاہدے کے باقی رہنے پر زور دیا۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ عالمی معاہدہ کے حوالے سے تنہائی کا شکار ہے اور امریکہ نے عالمی سطح پر ایران کو سیاسی و سفارتی سطح پر تنہاء کرنے کی جو کوششیں کی ہیں، وہ بری طرح ناکام رہیں۔ گذشتہ رات کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کے وزیر خارجہ اس قدر تنہاء رہ گئے کہ وہ وقت سے پہلے اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔
ایرانی جوہری معاہدے بارے سلامتی کونسل کا اجلاس ایران پر پابندیاں برقرار رکھنے کی امریکی کوشش کیخلاف ہیں، امریکہ معاہدے میں واپس آجائے، چین
ایرانی جوہری پروگرام (JCPOA) کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2231 پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لئے منعقد ہونے والے سلامتی کونسل کے ویڈیو اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں چین کے مسقل نمائندے وانگ کان نے کہا ہے کہ اس بحران کی اصلی جڑ ایرانی جوہری پروگرام سے امریکہ کی یکطرفہ دستبرداری اور ایران پر عائد ہونے والی امریکی پابندیاں ہیں۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے نے کہا کہ جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں بتایا جا چکا ہے؛ ایران پر لگائے جانے والے الزامات اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2231 کے متن کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔
اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے وانگ کان نے کہا کہ ایران کے خلاف اسلحے کے پابندیوں میں توسیع پر مبنی امریکی کوششوں نے ایرانی جوہری معاہدہ (JCPOA) بچانے کے مشترکہ اقدامات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وانگ کان نے اپنے خطاب میں کہا کہ چین امریکہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی غیرقانونی پابندیوں کو فورا اٹھا لے اور ایرانی جوہری معاہدے پر عملدرآمد شروع کر دے۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے نے کہا کہ چین ایران کے خلاف اسلحے کی پابندیوں میں توسیع پر مبنی امریکی کوششوں کے خلاف ہے جبکہ امریکہ جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کے باعث "ٹرگر میکینزم" استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
پورا فلسطین فلسطینی عوام کا ہے
انبیاء کی سرزمین مقدس فلسطین پر بسنے والے فلسطینی عرب گذشتہ ایک سو سال یعنی جس دن سے برطانوی استعمار کے عہدیدار بالفور نے Rothschild کو ایک خط کے ذریعہ اعلان نامہ پھیجا کہ سرزمین فلسطین پر یہودیوں کے لئے ایک ریاست بنام اسرائیل قائم کی جائے، اس دن سے آج تک ایک سو سالہ تاریخ میں فلسطینی عرب صہیونیوں کے ظلم و ستم کے رحم و کرم پر ہے۔ غاصب صہیونیوں نے پہلے جنگوں اور قتل و غارت کے ذریعہ فلسطین کا استحصال کیا، بعد میں امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے دباؤ کو فلسطین کی تنظیم پی ایل او کے ساتھ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نام نہاد امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ بہرحال ہر دو صورتحال میں اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتا رہا اور نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ فلسطین کی اراضی پر مسلسل صہیونیوں نے قبضہ جاری رکھا۔ صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ صہیونی آباد کاری کے ذریعے فلسطین کے مغربی کنارے کو صہیونی آبادی کے تناسب سے فلسطینی آبادی پر برتری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غزہ کے علاقہ کو مغربی کنارے سے پہلے ہی جدا کر دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ یہاں گذشتہ بارہ برس سے غاصب اسرائیل کا مصری حکومت کے ساتھ مشترکہ محاصرہ کیا گیا ہے، جو تاحال جاری ہے۔
موجودہ زمانہ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جو خود امریکی عوام کے لئے بھی ایک مصیبت اور عذاب سے کم نہیں ہیں، انہوں نے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ پیش کرتے ہوئے پہلے فلسطین کے ابدی دارالحکومت قدس کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور بعد میں اسی کوشش کو یقینی بنانے کے لئے امریکی حکومت نے تل ابیب سے قدس میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ دراصل ان سب باتوں کا مقصد امریکی صدر یہ بتانا چاہتے تھے کہ فلسطین پر اب مکمل اسرائیل کا قبضہ ہے۔ حالانکہ ماضی میں امریکہ کی پیش رو انتظامیہ نے فلسطینی پی ایل او کے ساتھ مذاکرات میں اسرائیل کی ضمانت دی تھی کہ اسرائیل امن مذاکرات کی کامیابی کے لئے 1967ء کی سرحدوں تک چلا جائے گا۔ بعد ازاں یہ ہونا بھی آج تک اسی طرح سے ناممکن رہا ہے کہ جس طرح اعلان بالفور میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل قائم کیا جائے گا، لیکن غیر یہودی قوموں کو فلسطین سے نہیں نکالا جائے گا۔ حقیقت اس کے بھی برعکس ثابت ہوئی، اسرائیل قائم کر لیا گیا، لیکن فلسطینی عربوں کو فلسطین سے نکال پھینکا گیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں 29 نومبر 1947ء کو منظور ہونے والی بڑی قرارداد میں طے پایا کہ فلسطینی آزاد ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے، لیکن اس پر بھی آج تک اقوام متحدہ عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی ہے، البتہ اسرائیل کو قائم کر دیا گیا۔
اب حالیہ دنوں اسرائیل امریکی سرپرستی میں امریکی صدر کے شیطانی منصوبہ صدی کی ڈیل پر تکیہ لگائے ہوئے ہے۔ اب غرب اردن کے علاقہ کو اسرائیل میں ضم کرنے یا الحاق کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یعنی صدی کی ڈیل نامی منصوبہ کے مطابق فلسطین کا مغربی کنارا اب اسرائیل کے ساتھ شامل کیا جانے کا ناپاک ارادہ کیا جا چکا ہے۔ اس حوالہ سے امریکہ اور اسرائیل مسلسل اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ جولائی 2020ء میں غرب اردن کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا۔ یہاں پر یقیناً ایک سوال ضرور ہے اور لمحہ فکریہ ان سب قوتوں اور عناصر کے لئے ہے کہ جو ماضی سے اب تک فلسطین کے مسئلہ کا حل امریکی فارمولہ کے مطابق دو ریاستی حل میں سمجھ رہے تھے۔ یعنی وہ حکومتیں اور ادارے جو فلسطین کے لئے امریکی فارمولہ کے مطابق کہا کرتے ہیں کہ 1967ء کی سرحدوں تک اسرائیل واپس ہو جائے اور فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہو جائے۔ ایسے تمام عناصر اور حکومتوں کے لئے لمحہ فکر ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اس طرح کے کسی منصوبہ کو مانتے ہی نہیں ہیں، بس یہ تو مسلم دنیا اور فلسطین کی نام نہاد حامیوں کو ایک لالی پاپ دیا گیا تھا، جسے آج تک ہماری مسلم حکومتیں لئے گھوم رہی ہیں۔
اسی عنوان پر فلسطین کے سابق وزیر اور تجزیہ نگار وصفی قبہا نے کہا ہے کہ وہ تمام عناصر اور لیڈر جو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت پر زور دیتے رہے ہیں۔ آج فلسطینی قوم کو بتائیں کہ ان کے مذاکرات کا کیا فائدہ ہوا ہے۔؟ اسرائیلی دشمن نے ماضی میں فلسطینی قوم کو دھوکہ دیا اور آئندہ بھی وہ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ فلسطینی علاقوں پر صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کی توسیع کے عمل میں امریکا سمیت ہر وہ حکومت، ادارہ اور عناصر بھی برابر کے شریک مجرم ہیں، جنہوں نے فلسطین کے لئے امریکہ کے منصوبہ یعنی دو ریاستی حل اور نام نہاد مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ اب اصل مسئلہ کی بات کرتے ہیں کہ اسرائیل غرب اردن کو اپنے ساتھ ملحق کرنا چاہتا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اب فلسطین باقی نہیں رہے گا۔ ایسے حالات میں مسلم دنیا کی حکومتیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا کر اپنے مفادات کی خاطر مسلم امہ کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ایسی حالت میں فلسطینیوں کے لئے سنگین مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔
ایک طرف امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواری ہیں، جو اس منصوبہ کی اعلانیہ اور مخفیانہ طور پر حمایت کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف فلسطینی قوم ہے، جو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے اور واضح طور پر دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ فلسطین کے ایک انچ زمین سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ فلسطینی عربوں میں صرف مسلمان اکیلے نہیں بلکہ عیسائی فلسطینی اور ایسے وہ تمام یہودی فلسطینی بھی موجود ہیں کہ جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اسرائیل کو ایک جعلی ریاست تصور کرتے ہیں۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس سمیت دیگر گروہوں نے غرب اردن کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کے صہیونی منصوبہ کو شدت کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے پیغام دیا ہے کہ فلسطینی عوام مزاحمت کریں گے۔ فلسطینی ریاست کو اسرائیل میں شامل کرنے کے ظالمانہ اور غاصبانہ پروگرام کا مقابلہ صرف مسلح مزاحمت سے ممکن ہے۔ فلسطینیوں نے اپنا موقف دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ ارض فلسطین میں فلسطینی قوم کے سوا اور کسی قوم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دریائے اردن سے بحر متوسط تک پورا فلسطین صرف فلسطینی قوم کا ہے۔ غرب اردن سے متعلق اسرائیلی غاصب حکومت کے فیصلہ اور اعلان پر آج تک عالمی انسانی حقوق کے اداروں سمیت اقوام متحدہ خاموش ہے۔ اسرائیلی جرائم کی داستان طویل سے طویل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے غرب ردن، غزہ اور القدس فلسطین کے حصے ہیں۔ اگر اسرائیل غرب اردن پر قبضہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں یہ علاقہ سات حصوں میں بٹ کر رہ جائے گا۔ ہر حصہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوگا اور غرب اردن کے 30 فی صد علاقے صہیونی ریاست کا حصہ ہوں گے۔ القدس دیوار فاصل کے عقب میں ہوگا اور یوں فلسطینی ریاست ایک ایسا ملک بن جائے گی، جس کا کوئی دارالحکومت نہیں ہوگا۔ یہ وہ اصل سازش ہے، جس کا آغاز عالمی شیطان امریکہ کی سرپرستی میں انجام دیا جا رہا ہے۔ عرب دنیا کے معروف تجزیہ نگاروں کا اس تمام تر صورتحال پر کہنا ہے کہ ایک طرف جہاں امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ خطے کی متعدد عرب ریاستیں بھی اسرائیل کے اس منصبوبہ کی حمایت کر رہی ہیں، ایسی صورتحال میں فلسطین کی حمایت میں باقی ماندہ ایک دو ممالک یا حکومتوں کے کوئی سامنے نہیں ہے۔
ماضی کے تجربات کی روشنی میں فلسطینی عوام کی مزاحمت ہی اس وقت ایسا مضبوط ہتھیار ہے، جو فلسطین کی سرزمین اور یہاں امت کے مقدسات کا دفاع کرسکتی ہے، وہ ہتھیار فلسطینیوں کی مزاحمت ہے۔ اسی مزاحمت نے ہی فلسطین کو باقی رکھا ہے، ورنہ امریکی و صہیونی اتحاد کئی سال پہلے ہی فلسطین کا مسئلہ نابود کرچکے ہوتے۔ فلسطینی قوم کی سماجی، سفارتی، سیاسی اور قانونی محاذوں پر فلسطین کے دفاع کے لیے کام کے ساتھ ساتھ مسلح مزاحمت بھی جاری رہنا ضروری امر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین فلسطینی عوام کا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی باضمیر حکومتیں اور عالمی ادارے انصاف کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے ایک منصفانہ حل کی کوشش کریں، جس کا مقصد فلسطین فلسطینیوں کے لئے ہو۔ غاصب دشمن کو حق نہ دیا جائے کہ وہ فلسطین پر مزید تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
غاصب و قابض رہے۔ مسلم دنیا کا اسرائیل کی کاسہ لیسی سے بھی اجتناب ضروری ہے۔
امام رضا (ع) کی ولایت عہدی کا تحلیلی تجزیہ
جیسا کہ مشہور ہے ’’سیاست میں کوئی دوست اور رشتہ دار نہیں ہوتا‘‘ کچھ ایسی ہی داستان عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دو بیٹوں مامون اور امین کی ہے، جب مامون کو اپنے بھائی امین سے خطرہ لاحق ہوا تو اپنے سگے بھائی کے خلاف تلوار کھینچ لی، ہزاروں لوگوں کے قتل عام کے بعد مامون اپنے بھائی امین پر فائق آیا اور اس کا سر قلم کرکے اقتدار کی کرسی بچا لی۔ مامون عباسی خلفاء میں سب سے زیادہ ذہین، فطین اور شاطر مزاج آدمی تھا، لہذا امین کو اپنے راستے سے ہٹانے کے بعد اسے مدینہ منورہ میں علویوں کی بغاوت کا خطرہ لاحق ہوا، اسے خبر پہنچ چکی تھی کہ دور دور سے لوگ امام رضا (ع) کے پاس جمع ہو کر ان کے فیوضات اور برکات سے سیراب ہو رہے ہیں اور ان کی بارگاہ اقدس میں زانو تلمذ خم کرکے اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں، یہ بات مامون کے لیے انتہائی ناگوار اور ناقابل برداشت تھی، دوسری جانب مدینہ منورہ، مرو (خراسان) سے بہت دور تھا، وہ امام رضا (ع) کی علمی اور سیاسی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا چاہتا تھا، لہذا اس نے امام رضا (ع) کو "مرو" بلانے کا مصمم ارادہ کیا، اپنے وزیر فضل بن سہل کو بلایا اور اس سے مشورہ کرنے کے بعد امام رضا (ع) کو خراسان بلانے کے بعد ولایت عہدی کا عہدہ ان کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔[1]
عباسی خاندان کے لوگ اس فیصلے سے خوش نہیں تھے جبکہ دربار اور مامون کے حلقہ احباب میں بھی اس فیصلے سے متعلق آپس میں چہ میگویاں ہو رہی تھیں۔ چنانچہ مامون کو اپنے فیصلے کے پیچھے پوشیدہ راز آشکار کرنے پڑے، ان میں سے کچھ اہم اغراض و مقاصد یہ ہیں:
1۔ خلافت عباسیہ کی تثبیت و تائید
مامون الرشید نے امام رضا(ع) کے خراسان بلانے کا مقصد صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، ’’میں ابو الحسن (ع) کو یہاں بلا کر ولایت عہدی کی پیشکش کروں گا، اب اگر امام رضا (ع) نے قبول کر لیا تو گویا انہوں نے خلافتِ عباسیہ کو قبول کیا ہے۔‘‘[2]
2۔ امام رضا (ع) کی سرگرمیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا
مامون چاہتے تھے کہ اس طریقے سے امام (ع) کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں کنٹرول میں رکھے، کیونکہ اگر امام رضا (ع) ولایت عہدی کے منصب کو قبول کر لیتے تو آپ خلافت عباسی کے زیر سایہ ایک ولی عہد کے طور پر ذمہ داریاں انجام دیتے اور آپ کی کاوشیں خلافت عباسیہ کی تشہیر و ترویج کا باعث ہوتیں، یوں اس بات کا خطرہ ٹل جاتا کہ امام رضا (ع) مامون کے راستے میں رکاوٹ بن کر لوگوں کو اپنے گرد جمع کرے گا۔[3]
3۔ لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی شان و عظمت گھٹانا
مامون کا اس فیصلے سے ایک اور مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی شان اور عظمت گھٹائی جائے، کیونکہ جب امام (ع) ولایت عہدی کے منصب پر راضی ہو جاتا تو عاشقان، دلدادگان اور موالیان اہل بیت (ع) کو یہ باور کروایا جاتا کہ امام (ع) کی تمام تر سرگرمیاں دنیاوی لالچ کے حصول کے لیے تھیں، رفتہ رفتہ امام عالی مقام (ع) کا وقار اور رعب و دبدبہ ان کے چاہنے والوں کی نظروں میں ماند پڑ جاتا اور ان کے سینوں میں امام (ع) کے ساتھ جذبہ اور عشق و ولولہ ٹھنڈا ہو جاتا۔[4]
4۔ عراق اور یمن میں حکومت کیخلاف ہونیوالے قیاموں کا سدّباب
عراق اور یمن کے بیشتر شہروں میں مامون کے خلاف قیام کے لیے تیاریاں ہو رہی تھیں اور واضح سی بات ہے کہ ہر دنیا پرست سیاستدان کی طرح مامون بھی ان تمام تر ممکنہ خطرات کو مول لینا نہیں چاہتا تھا اور بروز ہونے سے قبل ہی فتنہ دفن کرنا چاہتا تھا، جس کے لیے مامون کی نظر میں بہتر فیصلہ یہی تھا کہ امام رضا (ع) کو خراسان بلا کر ان کی تمام تر سرگرمیاں زیرِ نظر رکھی جائیں۔[5]
5۔ خراسان کے شیعوں کے دل موہ لینا
خراسان میں آلِ علی اور اہل بیت (ع) کے شیعوں کی اکثریت تھی، مامون کی کوشش تھی کہ ولایت عہدی کی پیشکش کے ذریعے انہیں بھی اپنی جانب رغبت دلا سکے اور یہ تاثر ظاہر کرے کہ میں بھی اہل بیت (ع) کا نام لیوا اور دلداہ ہوں، یوں علویوں کے خراسان میں عباسی حکومت کے خلاف ممکنہ اقدامات کا سدباب کیا جا سکے گا۔[6]
تحلیل و تجریہ:
لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو یہ مسئلہ عیاں اور آشکار ہو جاتا ہے کہ مامون کسی طرح بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا، کیونکہ جب امام رضا (ع) خراسان پہنچے اور انہیں تعظیم و تکریم کے ساتھ ولایت عہدی کی پیشکس ہوئی تو امام (ع) نے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور فرمایا: ’’اگر تم ہی خلافت کے لیے سزاوار ہو تو تیرے اس لباس کو اتار کر کسی دوسرے کو پہنانا جائز نہیں ہے اور خلافت تیرے لیے نہیں ہے تو تجھے اسے مجھے سپرد کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ امام عالی مقام کے اس جواب سے مامون کے ذہن میں چھپے پشت پردہ عزائم خاک میں مل گئے، لہذا مامون کو اپنا لہجہ تبدیل کرنا پڑا، آگ بگولہ ہو کر تھدید آمیز لہجے میں کہنے لگا: ’’اے اباالحسن! اگر آپ نے ولایت عہدی کی پیشکش ٹھکرا دی تو میں وہی سلوک کروں گا، جو خلیفہ ثانی نے اپنے بعد شوریٰ بناتے وقت کیا تھا کہ جو بھی شوریٰ کے انتخاب میں شرکت نہیں کرے گا، اسے قتل کیا جائے گا۔‘‘[7]
شہید مطہری (رہ) لکھتے ہیں: ’’ امام رضا (ع) ولایت عہدی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن حالات کی نزاکت کے باعث انہیں با دل نخواستہ ایسا کرنا قبول کرنا پڑا، کیونکہ ولایت عہدی کا مطلب یہی یہ ہے کہ مامون اس منصب کا حقدار تھا اور اب وہ کسی کو اپنا جانشین بنا رہا ہے۔‘‘ [8] اور جیسا کہ اس بات کی طرف امام رضا (ع) نے خود اشارہ کیا ہے، فرمایا ’’جیسا کہ میرے جدّ علی ابن ابی طالب کو شوریٰ قبول کرنا پڑی تھی، میں بھی ایسے ہی ولایت عہدی قبول کر رہا ہوں‘‘ [9] بنابرایں، امام رضا (ع) نے منصب ولایت عہدی قبول کرنے کے لیے شرائط رکھیں کہ وہ عزل و نصب نہیں کریں گے اور ہر طرح کا حکم دینے سے کناہ کش رہیں گے۔ یوں آپ نے اپنے دامن کو ظلم و استبداد پر مبنی حکومتی اقدامات کی تائید سے الگ کر دیا اور ریاستی امور میں مداخلت سے کنارہ کش ہو کر اسلام کی ترویج و تشہیر میں مشغول ہوگئے، لوگ دور دور سے امام (ع) کی قدم بوسی اور زیارت کے لیے خراسان کا رخ کرنے لگے، امام (ع) کا حلقہ عشاق بڑھتا گیا، مامون کے لیے یہ حالت ناقابل برداشت تھی کہ ظاہری طور پر منصب خلافت کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود دربار میں بھی اس کا کوئی پرسان حال نہیں، جبکہ لوگوں کے دلوں کے اعماق پر امام (ع) کی حکومت و سلطنت ہے۔
لہذا عوام میں امام (ع) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کم کرنے کے لیے مامون نے مختلف مذاہب و مسالک کے نامور علماء کو دربار بلانا شروع کیا، لیکن اس کا یہ حربہ بھی کارساز نہ ہوا، مناظرے پر بلائے گئے تمام فرقوں کے علماء نے امام (ع) کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اب پورے خراسان میں امام (ع) کی شہرت کا بول بالا تھا اور مامون ان کے سامنے بالکل بے بس دکھائی دے رہے تھے، اس کی تمام تر تجاویز اور ترکیبیں جواب دے چکی تھیں۔ وقت گزرتا گیا، خشکسالی اور قحط سالی سے رنجیدہ لوگ اپنا مدعا لے کر خلیفہ وقت کے پاس آئے، اب مامون کو پاس امام (ع) کی آزمائش کا ایک اور موقع ہاتھ آیا، وہ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر امام (ع) کی بارگاہ میں آیا اور کہنے لگا: ’’ اے اباالحسن! آپ امام اور اللہ تعالیٰ کی مقرب مخلوق ہیں، آپ ہی بارش کے لیے دعا کیجیے!‘‘
مامون کو پورا یقین تھا کہ بھلا اس چلچلاتی دھوپ میں کیسے بارش ہوسکتی ہے؟! اب امام (ع) بھی دعا سے انکار نہیں کرسکتے اور اگر ہاتھ اٹھا کر بارش کے لیے دعا مانگیں اور بارش نہ ہو تو لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی عظمت ختم جائے گی۔ امام عالی مقام نے فرمایا: "سب نماز استسقاء کے لیے صحرا کی طرف نکل آؤ، امام نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کئے، اچانک آسمان سے بادل نمودار ہوئے اور بجلی گرجنے لگی، لوگ بارش کے تصور میں اپنے لیے سر چھپانے کی تلاس میں ادھر ادھر دوڑے۔ امام (ع) نے فرمایا: یہ بادل فلاں علاقے پر برسیں گے، دس مرتبہ بادل نمودار ہوئے اور امام عالی مقام نے بادل برسنے کی جگہ کی نشاندہی کی، اب جو بادل آئے تو امام (ع) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے یہ بادل تمہارے لیے بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔"[10]
اس واقعہ نے مامون کی کمر توڑ دی، اب مامون امام (ع) کے سامنے عاجز اور بے بس ہوچکا تھا، خراسان میں قیام کے مختصر عرصہ (صرف دو ہی برسوں) میں امام (ع) کی شہرت آسمانوں کو چھو گئی تھی، لہذا مامون کے پاس امام (ع) کو شہید کرنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں تھا اور آخرکار ایسا ہی ہوا، 201 ہجری کو امام رضا (ع) خراسان تشریف لائے تھے اور 30 صفر 203 ہجری کو امام عالی مقام نے مامون کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔
افغانستان میں تقریبی نظریہ کے حامی اور طرفدار علماء کا بہیمانہ قتل
گذشتہ دو ہفتوں ميں افغانستان میں اہلسنت کی مساجد پردہشت گردوں کے بم دھماکوں میں ایسے علماء دین کو نشانہ بنایا گيا جو اسلامی مسالک کے درمیان تقریبی نظریہ رکھتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں کابل یونیورسٹی کے استاد اور وزیر محمد اکبر خان مسجد کے امام مولوی محمد ایاز نیازی کو اس مسجد میں ایک بم دھماکے میں شہید کردیا گیا۔ ادھر صوبہ تخار میں بھی وہابی دہشت گردوں نے مولوی عین اللہ خلیانی کو شہید کردیا جبکہ کابل میں شدت پسندوں نے ایک اور حملے میں مولوی عزیز اللہ مفلح کو شہید کردیا ۔ افغانستان میں ممتاز مذہبی رہنماؤں کا بہیمانہ قتل ایک سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہے ۔ افغانستان میں شہید ہونے والے علماء اسلامی مسالک کے درمیان اتحاد اور تقریب کے حامی اور طرفدار تھے لہذا وہ طاقتیں جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی سے خوفزدہ ہیں ، ان کا ہاتھ افغان علماء کے قتل کے پيچھے نمایاں ہے۔
ایک طرف افغانستان میں صلح کی بات کی جارہی ہے اور دوسری طرف افغانستان کے ممتاز علماء اور تقریبی نظریہ طرفدار اور حامی علماء کا سلسلہ وار قتل اس بات کا مظہر ہے کہ اسلام اور افغان دشمن طاقتیں ان علماء کو درمیان سے اٹھانا چاہتی ہیں جو اسلامی وحدت و یکجہتی کے طرفدار ہیں ۔
افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں افغان حکومت اور طالبان نے قیدیوں کے تبادلے کا آغاز کیا ہے جس کے بعد افغان انٹرا مذاکرات کے آغاز ہونے کا امکان ہوگیا ہے۔ لیکن وہ طاقتيں جو افغانستان سے نکلنا نہیں چاہتیں وہ افغانتسان میں ایک بار پھر دہشت گردی کے ذریعہ افغانیوں کو ایکدوسرے کے خلاف صف آراء کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان کا افغانستان میں دائمی حضور برقرار رہے لہذآ افغانستان حکومت کو چآہیے کہ وہ ایسے افراد کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے جو افغانستان میں دشمن کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔
مسئلہ کشمیر عالمی اور اسلامی مسئلہ/ کشمیری عوام بھی فلسطینی عوام کی طرح مظلوم
مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس کے مطابق پاکستان کی مذہبی اور سیاسی تنظیم ، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور خارجہ پالیسی کے سربراہ علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں مسئلہ کشمیر کو عالمی اور اسلامی مسئلہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کسی ملک کا اندرونی مسئلہ نہیں یہ ایک عالمی اور اسلامی مسئلہ ہےجس پر عالمی اداروں اور اسلامی ممالک کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
مہر نیوز: کیا کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے اور کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے؟ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی: دنیا جانتی ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایکد یرینہ متنازعہ مسئۂہ ہے جس پر دونوں ممالک کے درمیان متعدد جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ میںم سئلہ کشمیر پر قرارداد بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ متنازعہ مسئلہ ہے کشمیر میں اقوام متحدہ کے بمصرین کی موجودگی بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور خارجہ امور کے سربراہ علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں مسئلہ کشمیر کو عالمی اور اسلامی مسئلہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کسی ملک کا اندرونی مسئلہ نہیں یہ ایک عالمی اور اسلامی مسئلہ ہےجس پر عالمی اداروں اور اسلامی ممالک کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے بھارت میں قانون سازی کی کوئی حیثيت نہیں ، کشمیر متنازعہ مسئلہ ہے جسے کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
علامہ شفقت حسین شیرازی نے اپنی گفتگو میں کشمیری مسلمانوں کو فلسطینی مسلمانوں کی طرح مظلوم قراردیتےہوئے کہا کہ دنیا بھر کے باشعور لوگ بھارت کی اس ناپاک سازش سے آگاہ ہیں اور دنیا بالخصوص عالم اسلام کے رہنماوں کی ذمہ داری ہے کہ کشمیر کی مظلوم قوم کی حمایت کرتے ہوئے بھارت پر دباو بنائیں تاکہ جلد از جلد مسئلہ کشمیر کو حل کرایا جائے اور کشمیری عوام کو بھارت مظالم سے نجات دلائی جاسکے۔
علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے کا کہنا تھا کہ بھارتی وزراء کی جانب سے تحریک پیش کرنا اور حکومت کا مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنے ہی مختلف قانونی آرٹیکلز میں ردو بدل کرنا نہتے کشمیریوں پر کھلا ظلم اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو للکارنے کے ساتھ ساتھ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔جس کی ہر پہلو سے مذمت کی جاتی ہے، جہاں اس موقعہ پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی ضروری ہے وہاں حکومت پاکستان کو اپنے ان مظلوم بھائیوں کے لئے واضح پالیسی کا اعلان کر کے ان کی ہر صورت میں اخلاقی اور سیاسی مدد کرنی چاہیے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نےمہر نیوز کے ساتھ مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ہندو تعصب کو پروان چڑھایا گیا کہ جس کے نتیجے میں ہندو انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس سے منسلک نریندر مودی مسند اقتدار پر براجمان ہو جاتا ہے اور اپنی متعصبانہ پالیسیوں سے مسلمانان ہند کے خلاف بالعموم اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف بالخصوص ظلم کا بازار گرم کرتاہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہندوستان میں شہریت قانون کے نام پر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے اور نریند مودی اپنے ہی ملک کے دستور کے برخلاف کروڑوں مسلمانوں کی شہریت کو منسوخ کرنے کے درپے ہے۔
علامہ شفقت حسین شیرازی نے بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیری عوام کے حقوق کو کچلنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دس ماہ سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے کہ جب، کشمیری مسلمان اپنے بنیادی ترین حقوق سے محروم ہیں۔ ریاستی دہشتگردی کی وجہ سے ہزاروں جوان شہید ہو چکے ہیں، سیکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے اورکشمیر میں ظلم کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کریں اور ظلم کی چکی سے نکلنے میں ان کی مدد کریں۔ نریندر مودی جیسا شخص نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ جہاں کشمیریوں سے ہمارا ایمانی رشتہ ہے وہاں قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان کی روشنی میں کشمیر پاکستان کی شہ رگ حیات بھی ہے اور جب کوئی کسی کے رشتہ کو پامال کرنے کی سوچے یا اسکی شہ رگ کی جانب ہاتھ اٹھائے تو حق بنتا ہے کہ اس ظالم کے ہاتھ توڑ دیئے جائیں،ہمیں یقین ہے کہ ہمارے مقتدر ادارے اپنے کشمیری بھائیوں کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اس حوالہ سےان کی بھی مدد کرنا ہمارا اخلاقی اور معاشرتی فریضہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم عرب دنیا میں پوری طاقت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتے آئے ہیں لیکن بدقسمتی سے عرب ممالک کی عوام کو ابھی تک مسئلہ کشمیر کے بارے میں بالکل بھی معلوم نہیں ہے جو کہ امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی لاپرواہی اور کمزوری ہے۔
مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے کہا کشمیری عوام کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو واضح طور پر پوری دنیا کے سامنے پیش کریں مخصوصا وہ افراد جو کشمیر سے باہر مقیم ہیں ان کی اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری ہے کہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے لائیں تاکہ بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جاسکے۔
علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے اپنی گفتگو کے آخر میں کشمیر کے مظلوم اور ستمدیدہ مسلمانوں کی حمایت کا مکمل اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی حمایت کرنا ہمارا نہ صرف سیاسی بلکہ دینی اور ایمانی فریضہ ہے اور مجلس وحدت مسلمین ہر میدان میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی۔
فداھا ابوھا حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حضرت فاطمہ معصومہ (س) حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی بیٹی، امام علی رضا علیہ السلام کی بہن اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ہجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ شیخ عباس قمی فرماتے ہیں: "امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت صاحبزادی فاطمہ تھیں، جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں۔۱۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ حضرت فاطمہ معصومہ (س) بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے بہت مانوس تھیں، انہیں کے پر مرن دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔
اس عظیم خاتون کی فضائل کے لئے یہی کافی ہے کہ امام وقت نے تین بار فرمایا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ کتاب "کشف اللئالی" میں مرقوم ہے کہ ایک دن کچھ شیعیان اہلبیت علیہم السلام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے، جن کا جواب وہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے لینا چاہتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔ حضرت معصومہ (س) گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور ان کے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دیئے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے ان کی ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے ان کے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ اس وقت حضرت معصومہ (س) کی عمر بہت کم تھی، لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔۲۔
مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی (رہ) اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی سے نقل کرتے ہیں نخ حضرت معصومہ (س) کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا (س) کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ مرحوم نے حضرت فاطمہ زھرا (س) کی قبر کی جگہ معلوم کرنے کے لئے ایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا: "علیک بکریمہ اھل البیت" یعنی تم کریمہ اہلبیت (س) کی پناہ حاصل کرو۔ انہوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی: "جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں۔" امام علیہ السلام نے فرمایا: "میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ (س) کی قبر ہے۔" پھر فرمایا: "کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ حضرت فاطمہ زھرا (س) کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے۔
امام رضا علیہ السلام کے مجبوراً شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد 201ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں، راستہ میں جب ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے، لہٰذا حکومتی کارندوں کے سے مل کر حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کر دیا اور جنگ چھیڑ دی، جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سارے افراد شہید ہوگئے۳۔ حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا: مجھے شہر قم لے چلو، کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے: قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔ ۴۔ اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہوگئیں۔ بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے، مویٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور حضرت فاطمہ معصومہ (س) کو اہل قم نے گلبارن کرتے ہوئے موسٰی بن خزرج کے شخصی مکان میں لائے۔۵۔
بی بی مکرمہ نے 17 دنوں تک اس شہر امامت و ولایت میں زندگی گزاری، اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں، اس طرح اپنی زندگی کے آخری ایام خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے۔ جس جگہ آج حرم مطہر حضرت معصومہ (س) ہے، یہ اس زمانے میں "بابلان" کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسٰی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ تھی۔ حضرت معصومہ (س) کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا، جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ (س) کے بدن اقدس کو اس قبر میں اتارے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آرہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ (س) کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کرکے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسٰی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ (س) کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔۶۔
امام علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام فرماتے ہیں: "من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی" ۷۔ یعنی جس نے قم میں معصومہ (س) کی زیارت کی، گویا اس نے میری زیارت کی۔ حضرت معصومہ (س) کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: إِنَ لِلّهِ حَرَماً وَ هُوَ مَکَةُ وَ إِنَ لِلرَّسُولِ (ص) حَرَماً وَ هُوَ الْمَدِینَهُ وَ إِنَ لِأَمِیرِالْمُؤْمِنِینَ(ع) حَرَماً وَ هُوَ الْکُوفَهُ وَ إِنَ لَنَا حَرَماً وَ هُوَ بَلْدَهٌ قُمَّ وَ سَتُدْفَنُ فِیهَا امْرَأَهٌ مِنْ أَوْلَادِی تُسَمَّی فَاطِمَةَ فَمَنْ زَارَهَا وَ جَبَتْ لَهُ الْجَنَةُ؛۸۔
"خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مکہ میں ہے، رسول خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مدینہ ہے، امیر المومنین کا ایک حرم ہے جو کہ کوفہ ہے اور ہم اہل بیت کا حرم ہے جو کہ قم ہے اور عنقریب میری اولاد میں سے موسٰی بن جعفر کی بیٹی قم میں وفات پائے گی، اس کی شفاعت کے صدقے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔"
ایک اور بیان کے مطابق آپکی زیارت کا اجر بہشت ہے۔ امام جواد علیہ السلام نے فرمایا: "جو کوئی قم میں پورے شوق اور معرفت سے میری پھوپھی کی زیارت کرے گا، وہ اہل بہشت ہوگا"۹۔ حضرت فاطمہ زھرا (س) کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ (س) بنت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے ہم پلہ نہیں ہے۔" امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "تدخل بشفاعتہا شیعتناالجنۃ باجمعھم" یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔"
منابع:
1۔ منتہی الآمال، ج۲، ص۳۷۸
2۔ کریمہ اہل بیت، ص ۶۳ و ۶۴ نقل از کشف اللئالی
3۔ دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹
4۔ زندگانی حضرت معصومہ/آقائے منصوری: ص/ ۱۴، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی
5۔ دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی: ص/۱۲، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ/ آقائے انصاری
6۔ تاریخ قدیم قم ص/ ۲۱۳
7۔ مستدرک سفینہ البحار، ص۵۹۶؛ النقض، ص۱۹۶. بحارالانوار، ج۵۷، ص۲۱۹.
8۔ ریاحین الشریعۃ، ج۵، ص۳۵.
9۔ کامل الزیارات، ص۵۳۶، ح۸۲۷؛ بحارالانوار، ج۱۰۲، ص۲۶۶.