سلیمانی

سلیمانی

امریکہ میں کورونا وائرس کے معاملے ہر روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران مزید ہزاروں افراد کورونا میں مبتلا ہوگ‏ئے۔ اس طرح اس ملک میں کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 3 لاکھ  56 ہزار 7 ہو گئی جبکہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر10467 ہو گئی۔

امریکی حکومت نے دیگر ممالک کی بہ نسبت بہت دیر سے کورونا ٹیسٹنگ کا آغاز کیا ہے اور اس وقت کورونا بیماروں میں اچانک اضافے کے بعد امریکہ کے طبی مراکز کورونا ٹیسٹ کیٹس کی قلت سے روبرو ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ ہفتے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکہ دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے اصل مرکز میں تبدیکل ہو سکتا ہے۔ اس وقت امریکہ کی تمام پچاس ریاستوں میں کورونا وائرس سرایت کر چکا ہے اور اس وبا کا شکار ہونے والوں کی تعداد کے لحاظ سے امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر کے آخر میں چین کے ہوبئی صوبے سے کورونا وائرس کے معاملے شروع ہوئے تھے اور اب یہ وبا دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیل چکی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کےعالمی امور کے نمائندے حسین امیرعبداللهیان نے اپنی ٹویٹ میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ کورونا بحران نے ثابت کردیا کہ امریکہ نہ فقط دنیا کو چلانے کی طاقت و توانائی نہیں رکھتا بلکہ وہ تو اپنے ملک کو بھی چلانے میں ناکام رہا ہے کہا کہ اس بحران نے ون مین شو اور عالمی نظام کو ایک ملک کی جانب سے چلانے کے انسانی دعوے کو بے نقاب کردیا ہے۔

امریکی حکومت نے دیگر ممالک کی بہ نسبت بہت دیر سے کورونا ٹیسٹنگ کا آغاز کیا ہے اور اس وقت کورونا بیماروں میں اچانک اضافے کے بعد امریکہ کے طبی مراکز کورونا ٹیسٹ کیٹس کی قلت سے روبرو ہیں۔

امریکہ میں کورونا وائرس کے معاملے ہر روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران مزید ہزاروں افراد کورونا میں مبتلا ہوگ‏ئے۔ اس طرح اس ملک میں کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 3 لاکھ  56 ہزار 7 ہو گئی جبکہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر10467 ہو گئی ہے۔

تحریر: محمد زینی (کالم نگار المیادین نیوز ویب سائٹ)

جب 1965ء میں یورپی یونین کی بنیاد رکھی گئی تھی تو وہ ایک اقتصادی اور سیاسی اکائی اور متحدہ مارکیٹ دکھائی دے رہا تھا اور بعد میں ایک مشترکہ کرنسی بھی جاری کر دی گئی تھی۔ سب یہ توقع کر رہے تھے کہ یونین تشکیل پانے کے بعد یورپی ممالک کے اندر انتہائی مضبوط تعلق پیدا ہو جائے گا جس کے باعث وہ مستقبل میں پیش آنے والے ناگوار حوادث اور چیلنجز سے مل کر مقابلہ کریں گے۔ لیکن حال ہی میں دنیا بھر میں کرونا وائرس کی خطرناک وبا پھیلی ہے جو اب یورپی ممالک تک بھی پہنچ چکی ہے۔ اٹلی اور اسپین دو ایسے یورپی ممالک ہیں جہاں کرونا وائرس کے باعث اموات کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے۔ کرونا وائرس کی جانب سے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لینے کے بعد یورپی یونین سے متعلق پرانا تصور اور توقعات بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ یورپی ممالک کے درمیان مشترکہ سرحدیں مکمل طور پر بند کر دی گئی ہیں، اور یورپی یونین کے رکن ممالک ایک دوسرے سے دور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ رکن ممالک نے ایکدوسرے کی مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے جس کی واضح مثال اٹلی اور سربیا ہیں۔

اٹلی کے صدر نے ایک طرف یورپی یونین کو اپنی مدد نہ کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ دوسری طرف چین سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے وہ چین کی جانب سے ہر قسم کے امدادی اقدام کا خیرمقدم کریں گے۔ کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کیلئے اب تک یورپی ممالک کے سربراہان مملکت کئی ہنگامی اجلاس بھی منعقد کر چکے ہیں لیکن کسی مشترکہ راہ حل تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔ شمالی یورپ کے ممالک جیسے ہالینڈ کا خیال ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر ہر یورپی ملک کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی اندرونی صلاحیتوں پر بھروسہ کرے۔ دوسری طرف جنوبی یورپ کے ممالک جیسے اٹلی، اسپین اور یونان کا نقطہ نظر ہے کہ کرونا وائرس کا پھیلاو کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور موجودہ صورتحال کا مقابلہ صرف آپس میں مل کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ فرانس بھی ان کے موقف کی حمایت کر رہا ہے۔ ان ممالک کا مدعی ہے کہ اگر اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو عنقریب بہت بڑا انسانی المیہ رونما ہو گا۔

اگر ہم کرونا وائرس سے درپیش حالات کا مقابلہ کرنے میں یورپی یونین کے حریف ممالک جیسے چین، روس اور کیوبا کے اقدامات کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ انہوں نے آپس میں بہت گہرا تعاون کیا ہے۔ تینوں ممالک سے میڈیکل ٹیمیں اور ضروری سازوسامان ایکدوسرے کو فراہم کیا گیا ہے۔ ان ممالک کی یہ حکمت عملی کامیاب بھی ثابت ہوئی ہے۔ یورپی یونین کا مستقبل روشن نہیں ہے۔ اسی طرح امریکہ کی دنیا میں سپر پاور ہونے کی حیثیت بھی شدید خطرے میں پڑ گئی ہے۔ کرونا وائرس سے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بعض ریاستوں خاص طور پر نیویارک کے گورنرز کے درمیان شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔ ان اختلافات کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امریکہ اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ میں کرونا وائرس سے درپیش حالات دھیرے دھیرے سیاسی رنگ اختیار کرتے جا رہے ہیں اور مختلف صدارتی امیدوار انہیں اپنے اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی وبائی مرض کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار امریکہ اور یورپی یونین آمنے سامنے کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔

مذکورہ بالا حالات کے تناظر میں دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل پانے والا عالمی نظام متزلزل دکھائی دے رہا ہے۔ یورپی ممالک اور امریکہ کی جانب سے واحد مشترکہ حکمت عملی تک پہنچنے میں ناکامی کے باعث ان کا انتشار اور عجز و ناتوانی عیاں ہو چکی ہے۔ دوسری طرف چین، روس اور کیوبا جیسے ممالک موجودہ بحرانی حالات میں سپر پاور کا کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کرونا وائرس کا شکار ممالک کو مدد کی پیشکش کر رکھی ہے اور اب تک اس بارے میں اہم اور مفید اقدامات بھی انجام دے چکے ہیں۔ اسپین کے وزیراعظم پیدرو سینچیز نے حال ہی میں گارجین اخبار میں ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کرونا وائرس نے یورپی یونین کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف موجودہ جنگ ان تمام جنگوں سے مختلف ہے جو ماضی میں یورپی ممالک کو درپیش رہی تھیں۔ اگر ہم موجودہ جنگ میں باہمی اتحاد اور ہم آہنگی کا مظاہرہ نہیں کرتے تو یورپی یونین کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہم نے ماضی سے یہی سبق سیکھا ہے کہ اگر ہم سب فاتح نہ ہوں تو گویا سب شکست کا شکار ہو چکے ہیں۔
 
 
 

 اسلامی جمہوریہ ایران کے صدارتی مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹر سورنا ستاری نے ملک کے اندر تیار کردہ کرونا وائرس کی تشخیص کے نئے سسٹم کا افتتاح کرتے ہوئے خبرنگاروں کو بتایا کہ ایران میں کرونا وائرس کی تشخیصی کٹس کی تیاری کے بعد اب ایرانی ماہرین نے سی ٹی اسکین کے ذریعے مریضوں کے اندر کرونا وائرس کی تشخیص کرنے والا نیا بھی سسٹم تیار کر لیا ہے جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے چند سیکنڈز کے اندر 97 فیصد درستگی کے ساتھ نتیجہ فراہم کر دیتا ہے۔


تفصیلات کے مطابق ایران میں تیار کیا جانے والا کرونا وائرس کی تشخیص کا نیا سافٹ ویئر سسٹم سی ٹی اسکین ٹیکنالوجی پر مبنی ہے جس میں کرونا وائرس میں مبتلا مریض کے پھیپھڑوں کی سی ٹی اسکین کے ذریعے حاصل کی جانے والی ڈیجیٹل تصاویر کو اس سافٹ ویئر سسٹم کے حوالے کر دیا جاتا ہے جبکہ ایرانی ماہرین کی طرف سے تیار کردہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مبنی یہ سسٹم کسی ریڈیالوجسٹ ماہر کی طرح ان تصاویر کا معائنہ کرتا ہے اور کرونا وائرس کے باعث متاثر ہو جانے والے حصوں کی پہچان کر کے ان پر نشان کھینچ دیتا ہے۔

ایرانی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کی تیاری سے قبل سی ٹی اسکین کے ذریعے مریض کے پھیپھڑوں میں کرونا وائرس کی تشخیص صرف ماہر ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر ہی کر پاتا تھا جبکہ اب ملک کے کسی بھی مقام پر لی گئی سی ٹی اسکین تصاویر کو اس سافٹ ویئر کے ذریعے جانچا جا سکتا ہے کیونکہ یہ اپنی مصنوعی ذہانت کی بناء پر سی ٹی اسکین تصاویر میں موجود کرونا وائرس سے متاثرہ حصوں کو چند سکینڈز کے اندر تشخیص دینے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ کسی ماہر ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر کو ایسی ہی تشخیص دینے کے لئے کم از کم 15 منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے۔

Sunday, 05 April 2020 20:56

هود 86

 اللہ کی طرف کا ذخیرہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو اور میں تمہارے معاملات کا نگراں اور ذمہ دار نہیں ہوں

Sunday, 05 April 2020 20:38

صفات مومن

حدیث :
روی ان رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم قال:یکمل الموٴمن ایمانہ حتی یحتوی علیہ مائة وثلاث خصالٍ:فعل وعمل و نیة وباطن وظاہر فقال امیر المؤمنین علیہ السلام:یا رسول اللهصلی الله علیہ وآلہ وسلم ما المائة وثلاث خصال؟فقال صلی الله علیہ وآلہ وسلم:یا علی من صفات المؤمن ان یکون جوال الفکر،جوہری الذکر،کثیراً علمہ عظیماً حلمہ،جمیل المنازعة ۔۔۔۔۔۔ [1]

ترجمہ :
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ مومن کامل میں ایک سو تین صفتیں ہوتی ہیں اور یہ تمام صفات پانچ حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں صفات فعلی،صفات عملی،صفات نیتی اور صفات ظاہری و باطنی۔ اس کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول وہ ایک سو تین صفات کیا ہیں؟حضرت نے فرمایا:”اے علی ﷼ مومن کے صفات یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ فکر کرتا ہے اور علی الاعلان الله کا ذکر کرتا ہے،اس کا علم ،حوصلہ وتحمل زیادہ ہوتا ہے اور دشمن کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتا ہے “

حدیث کی شرح :
یہ حدیث حقیقت میں اسلامی اخلاق کا ایک مکمل دورہ ہے ،جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے بیان فرمارہے ہیں ۔اس کا خلاصہ پانچ حصوں میں ہوتا ہے جو اس طرح ہیں:فعل،عمل،نیت،ظاہر اور باطن۔

فعل و عمل میں کیا فرق ہے؟
فعل ایک گزرنے والی چیز ہے،جس کو انسان کبھی کبھی انجام دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عمل ہے جس میں استمرار پایا جاتاہے یعنی جو کام کبھی کبھی انجام دیا جائے وہ فعل کہلاتا ہے اور جو کام مسلسل انجام دیا جائے وہ عمل کہلاتاہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

مومن کی پہلی صفت ” جوال الفکر“ ہے
یعنی مومن کی فکر کبھی جامد وراکد نہیں ہوتی وہ ہمیشہ فکر کرتا رہتا ہے اور نئے مقامات پر پہونچتا رہتا ہے۔ وہ تھوڑے سے علم سے قانع نہیں ہوتا ۔یہاں پر حضرت نے مومن کی پہلی صفت فکر کو قراردیا ہے جس سے فکر کی اہمیت واضع ہو جاتی ہے ۔مومن کا سب سے بہترین عمل تفکر ہے۔ اور یہاں پر ایک بات قابل غور ہے اور وہ یہ کہ ابوذرۻ کی بیشتر عبادت تفکر ہی تھی۔اگر ہم کاموں کے نتیجہ کے بارے میں فکر کریں تو ان مشکلات میں مبتلا نہ ہوں جن میں آج گھرے ہوئے ہیں۔

مومن کی دوسری صفت”جوہری الذکر“ہے:
بعض نسخوں میں” جہوری الذکر “بھی آیاہے ۔ہماری نظر میں دونوں ذکر کو ظاہر کرنے کے معنی میں ہے۔ذکر کو ظاہری طور پر انجام دنیا قصد قربت کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ اسلامی احکام میں ذکر جلی اور ذکر خفی دونوں موجودہیں۔صدقہ اور زکوٰة مخفی بھی ہے اور ظاہری بھی،ان میں سے ہرایک کااپنا خاص فائدہ ہے جہاں پر ظاہری ہے وہاں تبلیغ ہے اور جہاں پر مخفی ہے وہ اپنا مخصوص اثر رکھتی ہے ۔

مومن کی تیسری صفت” کثیراً علمہ“ ہے ۔
یعنی مومن کے پاس علم زیاد ہوتا ہے۔حدیث میں ہے کہ ثواب،عقل اور علم کے مطابق ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ ایک انسان دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے مقابل دوسرا انسان سو رکعت نماز پڑھے مگر ان دو رکعت کا ثواب اس سے زیاد ہو ۔واقعیت بھی یہی ہے کہ عباد ت کے لئے ضریب ہے اور عبادت کی اس ضریب کا نام علم وعقل ہے۔

مومن کی چوتھی صفت”عظیماً حلمہ“ ہے
یعنی مومن کا علم جتنا زیادہ ہوتا ہے اس کا حلم بھی اتنا ہی زیاد ہوتا ہے ۔ایک عالم انسان کو سماج میں مختلف لوگوں سے روبرو ہونا پڑتا ہے اگر اس کے پاس حلم نہیں ہوگا تو مشکلات میں گھر جائے گا ۔مثال کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حلم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔گذشتہ اقوام میں قوم لوط سے زیادہ خراب کوئی قوم نہیں ملتی اور ان کا عذاب بھی سب سے دردناک تھا فلما جاء امرنا جعلنا عٰلیہاسافلہا وامطرنا علیہا حجارة من سجیل منضود [2] اس طرح کہ ان کے شہر اوپر نیچے ہوگئے اور بعد میں ان کے او پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ان سب کے باوجود جب فرشتے اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لئے آئے تو پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے، اور ان کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دی جس سے وہ خوش ہوگئے،بعدمیں قوم لوط کی شفاعت کی ۔فلما ذہب عن ابراہیم الروع و جاتہ البشریٰ یجادلنا فی قوم لوط ان ابراہیم لحلیم اواة منیب [3] ایسی قوم کی شفاعت کے لئے انسان کو بہت زیادہ حلم کی ضرورت ہے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی ،حلم اور ان کے وسیع القلب ہونے کی نشانی ہے۔بس عالم کو چاہئے کہ اپنے حلم کو بڑھائے اور جہاں تک ہو سکے اصلاح کرے نہ یہ کہ اس کو چھوڑ دے۔

مومن کی پانچوین صفت”جمیل المنازعة“ہے
یعنی اگرمومن کو کسی کے کوئی بحث یا بات چیت کرنی ہوتی ہے تو اس کو نرم لب و لہجہ میں انجام دیتا ہے اورجنگ و جدال نہیں کرتا ۔آج ہمارے سماج کی حالت بہت حسا س ہے ،خطرہ ہم سے صرف دو قدم کے فاصلے پر ہے۔ان حالات میں عقل کیا کہتی ہے؟کیا عقل یہ کہتی ہے ہم کسی بھی موضوع کو بہانہ بنا کرجنگ کے ایک جدید محاذ کی بنیاد ڈال دیں،یا یہ کہ یہ وقت آپس میں متحد ہونے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا وقت ہے؟
جب ہم خبروں پر غور کرتے ہیںتو سنتے ہیں کہ ایک طرف تو تحقیقی وفد عراق میں تحقیق میں مشغول ہے دوسر طرف امریکہ نے اپنے آپ کو حملہ کے لئے تیارکرلیا ہے اور عراق کے چاروں طرف اپنے جال کو پھیلا کر حملہ کی تاریخ معین کردی ہے۔دوسری خبر یہ ہے کہ جنایت کار اسرائیلی حکومت کا ایک ذمہ دار آدمی کہہ رہا ہے کہ ہمیں تین مرکزوں (مکہ ،مدینہ،قم)کو ایٹم بم کے ذریعہ تہس نہس کردینا چاہئے۔کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ بات واقعیت رکھتی ہو؟ایک دیگر خبر یہ ہے کہ امریکیوں کا ارادہ یہ ہے کہ عراق میں داخل ہونے کے بعد وہاں پر، اپنے ایک فوجی افسر کو تعین کریں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ہم پر مسلط ہو گئے تو کسی بھی گروہ پر رحم نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی گروہ کو کوئی حصہ دیںگے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ جب ہمارے یہاںمجلس میں کوئی ٹکراوپیدا ہو جاتا ہے یا اسٹوڈنٹس کا کوئی گروہ جلسہ کرتا ہے تو دشمن کامیڈیا ایسے معاملات کی تشویق کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔کیا یہ سب کچھ ہمارے بیدار ہو نے کے لئے کافی نہیں ہے؟کیا آج کا دن اعتصموا بحبل الله جمیعاً ولا تفرقوا وروز وحد ت ملی نہیں ہے؟عقل کیا کہتی ہے؟اے مصنفوں،مئلفوں،عہدہ داروں،مجلس کے نمائندوں،اور دانشمندوں ! خداکے لئے بیدار ہو جاؤ کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہم کسی بھی موضوع کو بہانہ بنا کر جلسہ کریں اور ان کو یونیورسٹی سے لے کر مجلس تک اور دیگر مقامات پر اس طرح پھیلائیں کہ دشمن اس سے غلط فائدہ اٹھائے؟میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی اعتراض بھی ہے تو ا س کو ”جمیل المنازعة“ کی صورت میں بیان کرنا چاہئے کیونکہ یہ مومن کی صفت ہے۔ہمیں چاہئے ک قانون کو اپنا معیار بنائیں او روحدت کے معیاروںکو باقی رکھیں۔
اکثر لوگ متدین ہیں ،جب ماہ رمضان یا محرم آتا ہے تو پورے ملک کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دین سے محبت ہے۔آگے بڑھو اور دین کے نام پر جمع ہو جاؤ اور اس سے فائدہ اٹھاؤ وحدت ایک زبردست طاقت اور سرمایہ ہے ۔
--------------------------------------------------------------------------------
[1] بحار الانوار ،ج/ ۶۴ باب علامات المومن،حدیث/ ۴۵ ،ص/ ۳۱۰
[2] سورہٴ ہود:آیہ/ ۸۲
[3] سورہٴ ہود:آیہ/ ۷۴ و ۷۵
Sunday, 05 April 2020 20:07

طلوع شمس امامت

 کلام: شہید محسن نقوی 
اے    فخر    ابن    مریم    وسلطان   فقر   خو
تیرے   کرم   کا   ابر   برستا   ہے   چار   سُو


تیرے   لیے   ہوائیں  بھٹکتی  ہیں  کو  بہ  کو
تیرے   لئے   ہی   چاند   اترتا  ہے  جوبجو  !


پانی    ترے   لیے   ہے   سدا   ارتعاش   میں
سورج   ہے  تیرے  نقش  قدم  کی  تلاش  میں


اےآسمان    فکر    بشر    ،    وجہ   ذوالجلال
اے   منزل   خرد   کا   نشاں   ،  سرحد  خیال


اے    حُسن    لایزال    کی    تزئین    لازوال
رکھتا  ہے  مضطرب  مجھے  اکثر  یہی سوال


جب   تو   زمین   واہل   زمین  کا  نکھار  ہے
عیسیٰ  کو  کیوں  فلک  پہ  ترا  انتظار  ہے  ؟


اے    عکس   خدوخالِ   پیمبر   جمال   ِ   حق
تیری   ترنگ   میں   ہیں  فضائیں  شفق  شفق


تیری  عطا  سے  نبض  جہاں  میں  سدا  رمق
تیری    کرن    پڑے    تو    رُخ    آفتاب   فَق


تیرے  نفس  کی  آنچ دل خشک وتر میں ہے !
تیرے  ہی  گیسوؤں  کی  تجلی سحر میں ہے!!


تو   مسکرا  پڑے  تو  خزاں  رنگ  رنگ  ہو
تو  چُپ  رہے  تو  سارا  جہاں  مثل  سنگ  ہو


تو  بول  اُٹھے  تو  نطق  جہاں  ساز  دَنگ  ہو
ر  دل  میں  کیوں  نہ تیری "ولا" کی امنگ ہو


میں  کیوں  نہ  تیرا  شکر  کروں بات بات میں
ہر  سانس  تیرے  دَر  سے ملی ہے زکواۃ میں


تیرے   حشم   سے   رنگ  فلک  لاجورد  ہے
مہتاب   تیرے  حسن  کے  پرتو  سےزرد  ہے


موج   ہوائے   خلد   ترے   دم  سے  سرد  ہے
محشر کی دُھوپ کیا؟ تیرے قدموں کی گرد ہے


تیرا    کرم    بہشت    بریں   کا   سُہاگ   ہے
تیرا  غضب  ہی  اصل  میں دوزخ کی آگ ہے


اے   باغ   عسکری   کے   مقدس  ترین  پھول
اے    کعبۂ    فروع    نظر    ،   قبلۂ   اصول!


آ،  ہم  سے  کر  خراج  دل وجاں کبھی وصول
تیرے    بغیر    ہم    کو   قیامت   نہیں   قبول


دنیا   نہ   مال   وزر  نہ  وزارت  کےواسطے
ہم  جی  رہے  ہیں  تیری  زیارت کے واسطے


مولا    تیرے   حجاب   معانی   کی   خیر   ہو
تیرے   کرم   کی،   تیری  کہانی  کی  خیر  ہو


تیرے    خرام   تیری   روانی   کی   خیر   ہو
نرجس   کا   لال   تیری  جوانی  کی  خیر  ہو


ممکن   ہے   اپنی   موت   نہایت  قریب  ہو  !
اک  شب  تو  خواب  ہی میں زیارت نصیب ہو


اے    آفتاب    مطلع    ہستی    ،   ابھر   کبھی
اے    چہرۂ    مزاج    دو   عالم   نکھر   کبھی


اے  عکس  حق ، فلک سےادھر بھی اتر کبھی
اے   رونق   نُمو   ،   لے   ہماری  خبر  کبھی


قسمت  کی  سرنوشت  کو  ٹوکے  ہوئے ہیں ہم
تیرے  لئے  تو  موت  کو  روکے ہوئے ہیں ہم


اب  بڑھ چلا ہے ذہن ودل وجاں میں اضطراب
پیدا    ہیں    شش   جہات   میں   آثار   انقلاب


اب  ماند  پڑ  رہی  ہے  زمانے  کی  آب وتاب
اپنے  رُخ  حسیں  سے  اُٹھا  تُو  بھی اَب نقاب


ہرسُو   یزیدیت   کی   کدورت   ہے  اِن  دنوں
مولا   !  تیری  شدید  ضرورت  ہے  ان  دنوں


نسل   ستم   ہے   در   پئے  آزار  ،  اب  تو  آ
پھر  سج  رہے  ہیں  ظلم  کے دربار ، اب تو آ


پھر   آگ   پھر   وہی   درودیوار  ،  اب  تو  آ
کعبے  پہ  پھر  ہے  ظلم  کی  یلغار  ، اب تو آ


دِن  ڈھل  رہا  ہے  ،  وقت  کو  تازہ  اُڑان دے
آ   "اے   امام  عصر"  حرم  میں  "اذان"  دے


از           کتاب           "فرات           فکر"
 

جنرل یحییٰ صفوی نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں پڑوسی ملک عراق میں امریکہ کی غیر قانونی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ اب امریکی انتظامیہ کو بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کی پابندی کے تعلق سے اپنی ذمہ داری سمجھ لینی چاہئے۔

جنرل صفوی کا کہنا تھا کہ عراقی پارلیمنٹ اپنے ملک میں امریکی سرکردگی میں موجود غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کا بل پاس کر چکی ہے جس کے بعد ان کی موجودگی غیر قانونی ہے اور عراق کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے مشیراعلیٰ نے امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کو نظر انداز کرے گا تو پھر اسے عراق میں اپنی غیر قانونی موجودگی کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی اور عراقی حکومت و عوام اس کی مہم جوئی کا جواب دینے کے لئے پوری طرح حق بجانب ہیں۔

تحریر: ہادی محمدی

امریکہ نے 2003ء میں عراق پر فوجی قبضہ کیا تھا۔ اس وقت امریکہ کی اسٹریٹجی آئندہ 7 برس میں خطے کے 5 بڑے ممالک پر فوجی قبضہ کر کے انہیں نابود کرنے پر مشتمل تھی۔ لیکن افغانستان اور عراق پر فوجی قبضے کے بعد امریکہ 2008ء میں شدید اقتصادی بحران کا شکار ہو گیا جس کے نتیجے میں اسے 2010ء میں اپنے فوجیوں کی اکثریت عراق سے واپس بلانا پڑی۔ اس کے بعد جب خطے میں خود امریکہ کا ہی ایجاد کردہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش ابھر کر سامنے آیا تو امریکہ اس سے مقابلے کے بہانے ایک بار پھر عراق میں حاضر ہو گیا۔ امریکی حکام نے ہمیشہ اپنے حقیقی عزائم پوشیدہ رکھے ہیں لیکن موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اصل حقائق پوشیدہ نہ رکھ سکے اور انتہائی بے شرمانہ انداز میں کہہ ہی ڈالا کہ عراق اور شام میں ہمارا مقصد وہاں موجود خام تیل کے ذخائر ہیں۔ 2013ء سے اب تک عراق میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں اسی بے شرمی پر مبنی رہی ہیں اور امریکہ مسلسل عراق کی خودمختاری اور حق خود ارادیت کی خلاف ورزی کرتا آیا ہے۔ حالیہ چند دنوں میں یہ امریکی بدمعاشی اپنے عروج تک پہنچ چکی ہے۔

جب اسلامی جمہوریہ ایران کی مرکزیت میں اسلامی مزاحمتی فورسز فورسز اور عراق آرمی نے اس ملک میں داعش کا قلع قمع کر دیا اور امریکہ کے ہاتھ سے یہ اہم ہتھکنڈہ نکل گیا تو امریکہ نے اپنے شیطانی مقاصد کے حصول کیلئے این جی اوز، جاسوسوں، مغرب نواز حلقوں اور بکے ہوئے عناصر کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ خطے سے متعلق امریکہ کا شیطانی منصوبہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ شہید جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے نائب سربراہ شہید ابو مہدی المہندس کے ہاتھوں شکست کا شکار ہوا تھا لہذا امریکہ نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے ایک دہشت گردانہ اقدام کے ذریعے ان دونوں کی ٹارگٹ کلنگ کی۔ اس دہشت گردانہ اقدام میں امریکہ نے تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں اور حتی اقوام متحدہ نے اسے عراق کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی اور غیر قانونی اقدام انجام دیا ہے۔ امریکی حکام کا خیال تھا کہ اکتوبر 2019ء میں ان کی منصوبہ بندی سے عراق میں شروع ہونے والے ہنگاموں اور شدت پسندی کے بعد اس ملک میں مغرب نواز حلقوں کے برسراقتدار آنے کے مقدمات فراہم ہو جائیں گے لیکن امریکہ کی یہ خوش فہمی بھی سراب ثابت ہوئی۔

عراق کی پارلیمنٹ نے شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی شہادت کے بعد متفقہ طور پر عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء پر مبنی بل منظور کر لیا۔ اس کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے امریکہ کے عین الاسد فوجی اڈے پر میزائل حملہ امریکہ کے منہ پر زوردار طمانچہ ثابت ہوا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ نے عراق میں موجود سیاسی بحران کو طول دے کر اور نئی کابینہ تشکیل پانے کی راہ میں روڑے اٹکا کر اپنے شیطانی اقدامات کیلئے مناسب موقع حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن عراق میں قومی عزم پوری طاقت سے باقی ہے جبکہ ایران نے بھی امریکہ سے شدید انتقام کو اپنی پہلی ترجیح بنا رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایجنٹس کی جانب سے چلائی جانے والی مہم اور پروپیگنڈا بھی بے نتیجہ ثابت ہوا ہے جبکہ عراق آرمی اور حشد الشعبی کے مراکز پر ہوائی حملوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آج امریکہ اپنے ہی بنائے ہوئے کرونا وائرس کی لپیٹ میں آ کر اقتصادی بحران کی نئی لہر سے روبرو ہو چکا ہے جس کے باعث وہ عراق اور مغربی ایشیا کے دیگر حصوں میں فوجی سرگرمیوں پر دولت لٹانے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ لہذا ڈونلڈ ٹرمپ ایسے طریقوں کی تلاش میں ہے جن سے کم اخراجات کے ذریعے بہتر نتائج حاصل کئے جا سکیں۔

انہی میں سے ایک عراق میں نئی حکومت کی تشکیل کیلئے عدنان الزرفی کا انتخاب ہے۔ عراق میں عدنان الزرفی امریکی فوج کے نوکر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ اگلے دس دنوں میں عراقی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ البتہ اس کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے۔ عراق میں موجود امریکی فوجی اس وقت کرونا وائرس جیسے بڑے چیلنج سے روبرو ہیں۔ عراق میں موجود امریکی فوجی اپنے اڈوں میں محصور رہتے ہیں کیونکہ انہیں شہر میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ کرونا وائرس سے بچنے کیلئے امریکہ نے عراق میں بڑے پیمانے پر فوجی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں اور اپنے فوجیوں کو چھوٹے اڈوں سے نکال کر بڑے اڈوں میں منتقل کر رہا ہے۔ دوسری طرف اس صورتحال کا غلط فائدہ اٹھا کر امریکی حکام نے حشد الشعبی کے خلاف ایک نفسیاتی جنگ کا آغاز کر رکھا ہے اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے امریکہ حشد الشعبی کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے چیف کمانڈر جنرل سلامی نے خبردار کیا ہے کہ ایران ہر گز عراق میں اپنی اتحادی فورسز کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور مشکل وقت آنے پر ان کی بھرپور مدد اور حمایت کرے گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلابی گارڈز "سپاہ پاسداران" کے دفتر تعلقات عامہ کی جانب سے ایران میں اسلامی جمہوری نظام حکومت کے انتخاب کے روز، 1 اپریل 1979ء (مطابق با 12 فروردین 1358ء) "یوم اللہ" کی مناسبت سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ نظام حکومت کی 41 سالہ تاریخ میں ایرانی عوام کے بیمثال ریفرنڈم کے نتیجے میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے ہی دشمن کی پلید اور شیطانی سازشوں کا آغاز ہو گیا تھا تاہم اس کے باوجود ایرانی عوام اور اسلامی جمہوری نظام حکومت روز افزوں ترقی کرتا ہوا پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن رہا حتٰی کہ اب 4 دہائیاں گزر جانے کے بعد پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم اور طاقتور، اپنی دیرینہ آرزو "جدید اسلامی تمدن" کے حصول کے لئے قدم بڑھا رہا ہے جبکہ اسلامی انقلاب کی اس کامیابی نے مغربی ایشیائی خطے سے باہر تک اپنے اثرات ڈالے ہیں جس کے نتیجے میں اب یہ امریکہ، اسرائیل اور ان کے پلید اتحادیوں کی آنکھ کا کانٹا بن چکا ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے روز کی مناسب سے سپاہ پاسداران کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ شرارتی و بدطینت دشمن کی طرف سے دنیا کے کسی بھی کونے میں ایران کے خلاف سرزد ہونے والی کوئی چھوٹے سے چھوٹی خطا بھی اس کی آخری غلطی ثابت ہو گی۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی جارحیت کے مقابلے میں اسلامی انقلابی محاذ کی اٹل اور انتہائی تباہ کن جوابی کارروائی ناقابل یقین ہو گی جس کے بعد دشمن کو پچھتانے کی فرصت بھی نہیں ملے گی۔ سپاہ پاسداران نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے زندہ، مستحکم و متاثر کن حقائق اور عدالت، حق طلبی و استکبار مخالف موقف کی بناء پر نہ صرف پوری انسانیت کو اپنا مخاطب قرار دیا ہے بلکہ امریکہ و اسرائیل کی آمر و دہشتگرد رژیموں کو دنیا کے اسٹریٹیجک نشیب و فراز پر تنہاء کر کے ان کے ظاہری جاہ و جلال کی قلعی کو بھی کھول دیا ہے۔

ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی طرف سے جاری ہونے والے اس بیان میں ایران کے اندر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے روز کی مبارکباد پیش کی گئی اور اسلامی انقلاب کے معنوی پیغام کو آزاد قلوب کیلئے نوید، امید اور امریکہ جیسی فریب کار، شیطانی و انسان دشمن طاقتوں سے آزادی کا پیغام قرار دیا گیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالی کے شکرگزار ہیں کہ قوم کے سپوتوں کی جدوجہد اور دفاعی میدانوں میں خصوصا سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی کاوشوں کی بدولت آج مملکت خداداد کسی بھی دشمن کی طرف سے سخت یا نرم، ہر قسم کی جارحیت کا بھرپور مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس بیان میں گذشتہ 41 سال کے دوران اسلامی انقلاب کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء خصوصا سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور رہبر کبیر انقلاب اسلامی آیت اللہ خمینیؒ کے ساتھ تجدید عہد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی کی مدد سے قیام، فعال مزاحمت اور دفاعی ترقی پر مبنی سپاہ پاسداران کی حکمت عملی پورے زور و شور سے جاری رہے گی۔