سلیمانی

سلیمانی

۱۔جہاں تک ممکن ہو آپ اپنے بچوں کے ساتھ نہایت آرام وسکوں کے ساتھ گفتگو کریں اور گفتگو کرتے وقت اچھے الفاظ کو استعمال کیا جائے ۔

۲۔ آپ اپنے بچوں کے سامنے اپنی محبت کااظہار کریں اور ان سے پیار ومحبت کریں ، انہیں آغوش میں لیں ، ان کا بوسہ لیں اور ہمیشہ محبت آمیز نگاہوں سے انہیں دیکھیں ۔

۳۔بچوں کے اعمال کو مد نظر رکھئے اور انہیں سمجھائئے کہ ہمارا یہ عمل اس وجہ سے نہیں کہ ہم تم لوگوں پہ اعتماد نہیں رکھتے بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم لوگوں کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کریں۔ آئندہ کے بارے میں اپنے بچوں سے گفتگو کیجئے ، مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے انہیں آمادہ کیجئے ۔

۴۔بچوں کو مسواک کرنے کی جانب مائل کیجئے ۔

۵۔بچوں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے انہیں وقت دیجئے تاکہ انہیں یہ محسوس ہوجائے کہ آپ انہیں بہت چاہتے ہیں۔

۶۔اپنے بچوں کے سامنے کتابوں کا مطالعہ کیجئے تاکہ ان کے اندر کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہو اور اس طریقے وہ علمی درجات پہ فائز ہوں۔

۷۔انہیں تلاش وکوشش کی جانب مائل کیجئے ۔

۸۔جدید سوالات ایجاد کرنے کے سلسلے میں ان کی رہنمائی کیجئے ۔

۹۔ادہورے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہونچانے میں ان کی مدد کیجئے اور اس امر کو انہیں تعلیم دیجئے ۔

۱۰۔اگر آپ کے بچے گناہوں کی جانب مائل ہیں تو گناہوں کے نتائج ان کے سامنے بیان کیجئے اور اس امر میں ان سے محبت آمیز رفتار سے کام لیجئے ۔

۱۱۔جو کام بچہ انجام دینے پہ قادر ہے اسے انجام دینے کے لئے اس کی رہنمائی کیجئے ۔

۱۲۔اپنے بچوں کے سوالات کا جواب دیجئے اور دینی ومذہبی کتابوں کے ذریعہ دنیاوی اور اخروی زندگی سے انہیں آشنا کیجئے ۔

۱۳۔ اپنے بچوں کو شکرگزار بننے کی تعلیم دیجئے ۔

۱۴۔ اپنے بچوں کو احتمالی مشکلات سے آشنا کیجئے اور ایسی مشکلات کا راہ حل ڈھونڈنے کا طریقہ بھی سکھائیے۔

۱۵۔اپنے بچوں کو لائق وسائشتہ بچے کہہ کر پکارئیے ۔

۱۶۔اپنے بچوں کی بعض نامناسب رفتار اور حرکات کے سامنے صبر سے کام لیجئے کیونکہ ان کے سن وسال کا تقاضا یہی ہے ۔

۱۷۔بچوں کی زندگی کا خیال رکھئے اور انہیں صحیح وسالم غذا کھلانے کی کوشش کیجئے ۔

۱۸۔ موجودہ دور میں جدید تعلیمات سے اپنے بچوں کو آراستہ کیجئے اور روز مرہ کے مسائل سے انہیں آگاہ کیجئے ۔

۱۹۔ بچوں کے سونے اور جاگنے کا وقت معین کیجئے ۔

۲۰۔اسکول یا مدرسہ کے اساتذہ سے رابطہ میں رہئے اور اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں ان سے سوال کیجئے ۔

۲۱۔بچوں کی ناسائستہ ونامناسب چال وچلن سے انہیں منع کیجئے

منبع:راھنمای خانوادہ

 


source : http://www.ahl-ul-bayt.org

شیعیت نیوز: شام میں رہبر معظم کے نمائندے حجۃ الاسلام حامد صفر ہرندی نے غدیر خم کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: امام علی علیہ السلام امت اسلامیہ کے درمیان اتحاد کے محور ہیں۔

حجۃ الاسلام حامد صفر ہرندی نے آج دمشق میں IRNA کے نامہ نگار کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا: غدیر کو دیکھ کر ہر عاقل انسان کو جو بات نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) جو خاتم النبیین ہیں، اسی وجہ سے جن کے مشن کو جاری رکھنا چاہیے، وہ امت اسلامیہ کے مستقبل کا خیال رکھنے کے پابند ہیں، اور وہ جانشین کے تقرر کی صورت میں ہے، جو خدا کے حکم سے ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح پیغمبر اکرم (ص) خود امت کے امام تھے اور الہی تقرر سے امام بنے تھے اسی طرح خداوند متعال اس امام کو اپنے بعد امت کا رہنما مقرر کرے گا۔ ایک ایسا لیڈر جو صرف ایک سیاسی رہنما نہیں ہے بلکہ وہی فرائض جو پیغمبر اکرم (ص) کے ہیں یعنی لوگوں کی تعلیم اور لوگوں کی روحوں کی سربلندی – وہی فرائض امام بھی انجام دیتے ہیں۔ .

شام میں رہبر معظم کے نمائندے نے کہا: خدا مختلف طریقوں سے اس فرمان کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان صورتوں میں سے ایک انتباہ کا دن ہے۔ جس دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دینے کے پابند تھے۔ اس مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں بتاؤں کہ کچھ لوگ تم پر حملہ کریں گے تو کیا تم اسے قبول کرو گے؟ اس کے رشتہ داروں نے جواب دیا کہ آپ ثقہ اور سچے ہیں اور ہم اسے ضرور مانیں گے۔

 

 

حجۃ الاسلام صفر ہرندی نے واضح کیا کہ اس کے بعد پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے مشن کی خبر سنائی اور فرمایا کہ سب سے پہلا شخص جو مجھ پر ایمان لائے گا وہ میرا جانشین ہوگا، حضرت علی (ع) نے اپنا ہاتھ اٹھایا۔

انہوں نے کہا: ہم سب پیغمبر اکرم (ص) کے محور کے گرد جمع ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ تمام اسلامی امت حضرت علی (ع) کی قیادت کو قبول کرتی ہے۔ اب کوئی تاخیر سے قبول کرتا ہے اور کوئی ہدیہ کرکے اور اپنی مرضی سے قبول کرتا ہے۔ ہم شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امیر المومنین (ع) پیغمبر اکرم (ص) کے فوری خلیفہ اور جانشین ہیں، لیکن دوسرے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ امیر المومنین دیگر خلفاء کے بعد امت اسلامیہ کے قائد تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام تمام امت اسلامیہ کے درمیان مشترک محور ہیں۔

شام میں رہبر معظم کے نمائندے نے مزید کہا: تمام مسلمان امیر المومنین (ع) کو پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب میں سب سے زیادہ جاننے والے مانتے ہیں اور پیغمبر (ص) کے اصحاب میں سے کوئی بھی امیر سے زیادہ علم والا نہیں تھا۔ المومنین (ع)

انہوں نے کہا کہ حضرت علی (ع) امت اسلامی کے درمیان اتحاد کا محور ہیں اور جس طرح تمام مسلمان پیغمبر اکرم (ص) کو مانتے ہیں اسی طرح حضرت علی (ع) کو بھی مانتے ہیں۔

حجۃ الاسلام صفر ہرندی نے بیان کیا: غدیر کو تمام مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غدیر کا نمایاں کردار ایک ولی ہے جسے خدا نے گورنر کے لیے منتخب کیا ہے۔

شام میں رہبر معظم کے نمائندے نے کہا کہ امام صادق (ع) کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد شیعہ نہیں تھی، بلکہ عام طور پر سنی تھی، لیکن وہ امام صادق (ع) کے حکم کی پیروی کرتے تھے، جو حضرت کے فرزند تھے۔ علی (ع) اور ان کی نسل سے ہیں، وہ بیٹھ کر کہتے تھے کہ اگر امام صادق (ع) اور امام باقر (ع) نہ ہوتے تو لوگ ان کے حج کے مناسک کو نہ جانتے اور اس حد تک وہ حج کے مناسک ہیں۔ خدا کے دین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے احیاء کرنے والے جانتے تھے۔

آخر میں، حجۃ الاسلام صفر ہرندی نے شہید لیفٹیننٹ جنرل حج قاسم سلیمانی کی اپنی یادیں شیئر کیں اور کہا: "سالوں پہلے، میں حج قاسم کے ساتھ سفر کر رہا تھا اور میں نے حج کے دوران ان سے رومانوی تنہائیاں دیکھی تھیں۔”

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ امام خمینی (رح) علمی لباس میں ملبوس تھے اور ان کی شادی کا خطبہ امام خمینی (رح) نے پڑھا تھا، فرمایا: میرے کپڑے پہننے کے بعد امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ عالم پر عزم رہو اور یہ ہے۔ میرے لیے ایک بڑا سبق اور روشنی ہے اور میں علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ پرعزم رہنے کی پوری کوشش کروں گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بورل کے ساتھ  ٹیلیفونی گفتگو میں جوزف بورل  اور نائـب سربراہ انریکے  مورا  کی کوششوں کی قدردانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے اس عزم میں کوئی شک و شبہ نہیں پایا جاتا کہ وہ ایک اچھا اور پائیدار و مستحکم سمجھوتے کا خواہاں ہے۔ 

حسین امیرعبداللہیان  نے اس ٹیلیفونی گفتگو میں اٹلی اور فرانس کے  وزرائے خارجہ کے ساتھ اپنے حالیہ مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو اپنے بار بار کے ناکام طریقے کو ترک کر کے غیر تعمیری رویے سے دستبردار اوردباؤ کے ہتھکنڈے کو چھوڑ کر پابندیوں کو اٹھانا ہو گا۔

ایران کے وزیر خارجہ نے  ایران، روس اور ترکی کے سہ فریقی تہران سربراہی اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے خوراک اور توانائی کی سیکیورٹی کے بارے میں ایران کے موقف پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ انہوں نے یوکرین کے وزیر خارجہ کے ساتھ ہونے والی اپنی حالیہ گفتگو کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ یوکرینی گندم کی برآمدات خاص اہمیت کی حامل ہے۔

اس ٹیلی فونی گفتگو میں یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بورل نے بھی مذاکرات کے عمل میں ایران کے مثبت رویے کی قدردانی کرتے ہوئے موجودہ صورت حال میں فریقین کے نظریات پر غور کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔

جوزف بورل نے حتمی سمجھوتے کے حصول کے لئے بعض باقی ماندہ مسائل کے حل کے لئے ایران کی کوششوں کو سراہتے ہوئے تمام فریقوں کے ساتھ صلاح و مشورے کے ذریعے مذاکرات کے عمل کو تیز تر کرنے کے لئے اپنی اور اپنے نائـب انریکے مورا  کی آمادگی پر زور دیا۔ 

یاد رہے کہ امریکہ کی بائیڈن حکومت نے جو ایٹمی معاہدے میں واپسی کی کوششوں کا دعوی کرتی رہی ہے، ابتک اس سلسلے میں کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا ہے۔ مذاکرات میں شریک تمام ملکوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ ایران کے خلاف غیر قانونی اور ظالمانہ پابندیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں اور مذاکرات جلد سے جلد اپنے انجام کو بھی پہنچانا چاہتے ہیں تاہم حتمی سمجھوتے کا حصول بعض مسائل و موضوعات میں امریکہ کے سیاسی فیصلوں پر ٹکا ہوا ہے۔

ویانا مذاکرات کا آٹھواں دور ستائیس دسمبر دو ہزار اکیس کو شروع ہوا تھا جو گیارہ مارچ دو ہزار بائیس کو یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوز‌ف بورل کی تجویز پر نئے مرحلے میں داخل ہوا اور تمام فریق اپنے اپنے ملکوں کو واپس لوٹ گئے جس کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہوتے رہے۔

ویانا مذاکرات کا سلسلہ رکنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ بائیڈن امریکا کی  پچھلی حکومت پر اپنی تنقیدوں کے برخلاف ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی ناکام پالیسی پر ہی عمل پیرا ہیں اور اس پالیسی کو تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور بائیڈن انتظامیہ نے پابندیوں کے مکمل خاتمے اور ایران کو ٹھوس ضمانت دینے کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

 یاد رہے کہ امریکہ کی ٹرمپ حکومت نے بین الاقوامی معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدہ ہونے کا فیصلہ اور اعلان کیا اور ایران پر مختلف قسم کی سخت ترین پابندیاں نافذ کر کے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تاکہ ایران کو جھکنے پر مجبور کیا جا سکے مگر اسے منھ کی کھانا پڑی اور اپنے مقصد کے حصول میں ناکامی اور اس کو  بری طرح سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔   اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا اعلان کیا ہے کہ جوہری مسئلے میں ایران نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا اور اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے اور یہ امریکہ ہے جو اس معاہدے سے نکلا ہے لہذا اسے ہی پابندیوں کو ختم اور اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے ساتھ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں واپس لوٹنا ہو گا اور اس کام کے لئے اس کے سیاسی فیصلے کی ضرورت ہے۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کے کمانڈر ریئر ایڈمرل علی تنگسیری نے کہا ہے کہ اگر دشمن نے کوئی غلطی یا احمقانہ اقدام کیا یا اسلامی نظام کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کی کوشش تو ہم اس کو اور ان کے آلہ کاروں کو سخت سبق سکھائیں گے اور ہم اس سازش کے مرکز کو تہس نہس کر دیں گے۔

ایڈمیرل تنگسیری نے مسلمانوں کے مابین اتحاد اور بھائی چارے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس کے اہم علاقے کی سلامتی کو برقرار کرنے کی ہمسایہ ممالک میں صلاحیت موجود ہے اور علاقے میں سکیورٹی کی فراہمی کیلئے غیر علاقائی ممالک کی موجودگی کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اب سے کچھ ہی دیر قبل تہران میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی ۔

ہونے والی ملاقات کی تفصیلات تھوڑی دیکر بعد۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان آستانہ عمل کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے گزشتہ شب تہران پہنچے اور آج صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے اُن کا سعدآباد کلچرل کمپلیکس میں باضابطہ استقبال کیا۔

روس، ترکی اور ایران کے صدور کی موجودگی میں سہ فریقی سربراہی اجلاس تہران میں منعقد ہوگا۔ اس اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوتین، ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی شرکت کریں گے۔

-آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے

﴿آیه ۳ سوره مبارکه مائده ﴾

ارنا رپورٹ کے مطابق، شامی بحران کے سیاسی حل نکالنے اور جنگ بندی کے قیام کے سلسلے میں ابتدائی نشستوں کا متحارب فریقین سمیت ایران، روس اور ترکی کے نمائندوں کی شرکت سے قازقستان میں انعقاد کیا گیا اور "آستانہ امن عمل کے ضامن ممالک" کے پہلے اجلاس کا دسمبر 2017 میں ان تینوں ممالک کے صدور کی شرکت سے روسی شہر سوچی میں انعقادد کیا گیا۔

واضح رہے کہ اسی سلسلے میں ترک صدر ر"جب طیب اردوغان"، روسی صدر "ولادیمیر پیوٹین" پیر کی شام کو دورہ تہران کریں گے اور منگل کی صبح کو صدر ابراہیم رئیسی کی شرکت سے سعدآباد کے ثقافتی کمپلیکس میں ان کی استقبالیہ تقریب کا انعقاد ہوگا۔

امریکہ نے روس کے خلاف جنگ کے کھیل میں مختلف قسم کے اہداف کا تعین کر رکھا تھا جن میں روس کو عالمی سیاست سے نکال باہر کرنا اہم ترین اور پہلی ترجیح کا حامل مقصد تھا۔ پراکسی جنگ پر مبنی اس منصوبے کا ایک اور مقصد یورپ کو روس کے مقابل لا کھڑا کر کے اور اسے شدید بحرانی حالات سے دوچار کر اپنے ساتھ وابستہ کرنا اور اپنے اوپر اس کا انحصار قائم کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے یہ کوشش کی گئی کہ روس اور یوکرائن جنگ کی بابت یورپ کو بھاری تاوان ادا کرنا پڑ جائے۔ اس طرح یورپ اور روس کے درمیان تعلقات امریکہ کی مرکزیت میں قائم مغربی نظام کے کنٹرول میں رہ سکیں گے اور یورپ بھی عالمی سطح پر چین کے خلاف جاری طاقت کی رسہ کشی میں امریکہ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔
 
لیکن امریکی حکمرانوں کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ روس اپنے پاس موجود انرجی کے کارڈ کے ذریعے مغربی دنیا کو معیشت، صنعت اور حتی غذائی مواد کے میدانوں میں انتہائی وسیع اور سنگین بحران سے روبرو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس وقت امریکی نظام اور انرجی کے شعبے میں اس سے وابستہ مراکز منافع جمع کرنے میں مصروف ہیں جبکہ مغربی عوام کی معیشت روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہے اور ان کیلئے زندگی ناقابل برداشت ہو رہی ہے۔ امریکہ نے روس کو مزید بحرانوں سے روبرو کرنے کیلئے مغربی ایشیا، وسطی ایشیا اور برصغیر کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا خطے کا حالیہ دورہ اسی حکمت عملی کے تناظر میں انجام پایا ہے۔ امریکہ ساتھ ساتھ اسلحہ ساز کمپنیوں کے مالکین کے ذریعے اقتصادی مفادات کے حصول کیلئے بھی کوشاں ہے۔
 
طالبان کو نگل کر افغانستان اور وسطی ایشیا میں اپنی فوجی مداخلت کا زمینہ فراہم کرنے کی امریکی حکمت عملی تقریباً مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ عنقریب ازبکستان میں افغانستان سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہونے والی ہے اور سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ یوں داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں پر مشتمل امریکی کارڈ بھی تقریباً ناکارہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر جو بائیڈن اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ مغربی ایشیا خطے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مغرب کو درپیش انرجی کے بحران میں ان کی زیادہ مدد نہیں کر سکتے بلکہ اس خطے میں اگر کوئی ملک ان کیلئے مددگار ثابت ہو سکتا ہے تو وہ عراق ہے۔ یاد رہے عراق کے تیل کی خرید و فروش مکمل طور پر امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔
 
لہذا عراق کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں اسرائیل کی مرکزیت میں تشکیل پانے والے بلاک کی جانب دھکیلنا اور اسے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے پر مجبور کرنا، امریکہ کیلئے سعودی عرب سے بھی کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ان ہتھکنڈوں میں عراق کو جیوپولیٹیکل ایشوز کے ذریعے بلیک میل کرنا اور معیشت اور سکیورٹی کے شعبوں میں نت نئے بحرانوں سے روبرو کرنا شامل ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ سعودی حکمران اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ اپنے خفیہ تعلقات کو منظرعام پر لانے کی جرات نہیں رکھتے لیکن انہوں نے جیوپولیٹیکل، جیوگرافیکل، انرجی، سکیورٹی اور دیگر شعبوں میں اپنی تمام تر صلاحیتیں صہیونی حکمرانوں کے سپرد کر رکھی ہیں۔ اسی طرح آل سعود رژیم غاصب صہیونی رژیم کو بھرپور انداز میں سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون فراہم کرنے میں مصروف ہے۔
 
جو بائیڈن کے مشرق وسطی کے حالیہ دورے کا نتیجہ جنگ طلب اتحاد سازی کی صورت میں ظاہر ہو گا جس کا خاص نشانہ یمن بنے گا اور اس کا مقصد امریکہ اور اسرائیل کی اسلحہ ساز کمپنیوں کی معیشت کی بحالی ہو گی۔ عراق میں انرجی کے ذخائر امریکہ کے کنٹرول میں ہیں اور امریکہ انہیں یورپ کو درپیش انرجی کے بحران سے نمٹنے کیلئے استعمال کرے گا۔ اسی طرح عراق کو خطے میں اسرائیلی بلاک میں دھکیلنے کی کوششوں میں تیزی آئے گی۔ امریکہ مغربی ایشیا میں بھی براہ راست جنگ کا خطرہ مول لینے کیلئے تیار نہیں ہے لہذا خطے میں اپنی پٹھو عرب حکومتوں کو اسرائیل سے معاہدوں پر اکسا رہا ہے تاکہ یوں اسرائیل کی بدمعاشی اور شدت پسندی کے اخراجات ان عرب ممالک کے ذریعے پورے کئے جا سکیں۔
 
حقیقت یہ ہے کہ جو بائیڈن خطے اور دنیا میں امن و استحکام کی خاطر سرگرم عمل نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد پراکسی جنگوں اور دہشت گردانہ اقدامات کے ذریعے سکیورٹی بحران ایجاد کر کے دنیا کے مختلف حصوں میں موجود قدرتی ذخائر کی لوٹ مار اور اپنا فوجی اور سیاسی اثرورسوخ بڑھانا ہے۔ اگرچہ مغربی ایشیا، وسطی ایسیا، افغانستان اور پاکستان میں امریکہ کی پوزیشن انتہائی متزلزل ہے لیکن ہمیں کسی صورت امریکی اقدامات اور سازشوں سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنی حالیہ تقریر میں امریکی اور مغربی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے بڑے پیمانے پر ذہانت آمیز کھیل کھیلنے پر زور دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حکمت عملی اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت اور اثرورسوخ میں اضافے کا باعث بنے گی۔

تحریر: ہادی محمدی
 

ہفتۂ امامت و ولایت سے متعلق امور کی مرکزی کمیٹی کے ڈائریکٹر حسین ظریف منش نے کہا ہے کہ اس سال دنیا کے 140 ممالک میں عید غدیر اور عید مباہلہ کی تقریبات منعقد ہو رہی ہیں اور دنیا کے 140 ممالک میں ولایت و غدیر کا پرچم   لہرایا جائیگا۔

عید غدیر کے موقع پر گزشتہ برسوں کی مانند جہاں دنیا بھر میں زبردست تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے وہیں ایران میں بھی ملکی سطح پر عظیم الشان جشن ولایت و امامت کی تیاری عروج پر ہے۔ عید غدیر کے روز ایران میں عام تعطیل ہے۔

دارالحکومت تہران میں 18 ذی الحجہ بروز پیر کو جشن عید غدیر کے موقع پر غدیر واک کا بھی اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت  شمع ولایت کے پروانے تہران کے ولی عصر( عج) اسکوائر سے دس کلومیٹر کی مسافت طے کر کے پارک وے  اسکوائر پہنچیں گے۔ یہ پروگرام شام 6 بجے سے رات 10 بجے تک منعقد ہو گا اور دس کیلو میٹر کے راستے میں ہر جگہ غدیری مہمانوں کی پذیرائی کے لئے کھانے پینے اور شربت کی سبیلوں کے علاوہ بچوں کے مخصوص اسٹالز، مذہبی و ثقافتی مصنوعات کے اسٹالز، خصوصی تحائف اور گروہی ترانوں کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ غدیر واک کا اہتمام بھی اربعین حسینی واک کی طرح مخیر حضرات، مذہبی اور ثقافتی مراکز، انجمنوں اور رضاکاروں کے تعاون سے کیا جا رہا ہے۔ 

بایڈن نے غاصب صیہونی حکومت کے مرکز تل ابیب سے جدہ جاتے وقت کہا کہ وہ ایسے پہلے امریکی صدر ہیں جو مقبوضہ فلسطین سے براہ راست سعودی عرب جا رہے ہیں۔

تل ابیب سے ریاض تک بایڈن کے اس سفر کا مقصد غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کی قباحت و کراہت کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ بایڈن کے اس سفر سے قبل گزشتہ روز سعودی عرب نے غاصب ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی باضابطہ بحالی کے تناظر میں صیہونیوں کی غیر فوجی پروازوں کے لئے اپنے فضائی حدود کھولنے کا اعلان کیا تھا۔

بایڈن کے دورۂ تل ابیب اور پھر اسکے بعد دورۂ جدہ پر علاقائی عوام اور فلسطین کی طرف سے منفی ردعمل سامنے آیا ہے۔

فلسطین لبریشن فرنٹ کے سربراہ احمد خریس نے ایران پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بایڈن کے اس سفر سے عرب اقوام کی ویرانی و تاراجی کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

ایران کے نائب وزیر خارجہ محمد صادق فضلی نے بھی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ بایڈن کے اس شیطانی سفر کا تلخ نتیجہ فتنہ پروری، جنگ، برادر کُشی، خون خرابا اور سازش ہے۔

 

قابل ذکر ہے کہ آل سعود مخالف صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے معاملے نے بایڈن کے دورۂ جدہ پر بڑے سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔ ماضی میں امریکی صدر جوبایڈن اپنی انتخابی مہم کے دوران خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے سلسلے میں ریاض حکومت بالخصوص ولیعہد بن سلمان کو سخت ہدف تنقید بناتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات محدود کرنے کی بات کر چکے ہیں مگر اب وہ اپنے سابق موقف سے پسپائی اختیار کرنے کے بعد سعودی حکام سے دوستانہ ماحول میں ملاقات کے لئے جدہ پہنچ چکے ہیں جہاں ایئرپورٹ سے محل پہنچنے پر خود ولیعہد بن سلمان نے اُن کا استقبال کیا ہے۔

امریکہ، ترکی اور اقوام متحدہ کی مختلف تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق سعودی ولیعہد بن سلمان براہ راست جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں اور انہی کے حکم سے خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر نہایت بہیمانہ انداز میں قتل کیا گیا۔ اس عمل کو ولیعہد بن سلمان کے بھیجے گئے ایک خصوصی ڈیتھ اسکواڈ نے انجام دیا تھا۔