سلیمانی

سلیمانی

آج یوم القدس ہے، آج یوم الاسلام ہے۔ آج یوم اللہ ہے، آج یوم حمایت مظلومین جہان ہے۔ آج یوم مظلومین فلسطین ہے، آج یوم آزادی القدس ہے، آج یوم حریت ہے، آج یوم استقامت ہے۔ آج یوم مزاحمت ہے، آج یوم امید ہے، آج یوم جہاد ہے، آج یوم اتحاد امت ہے، آج یوم قبلہ اول ہے، آج یوم شہداء ہے، آج یوم مستکبرین پر مستضعفین کی فتح کا دن ہے، آج طاغوت کے خلاف قیام کا دن ہے، آج استکبار کے خلاف کھڑے ہونے کا دن ہے، آج امام خمینی کے بتائے ہوئے راستے پر عمل کا دن ہے۔ آج امام خامنہ ای کی پیشین گوئی کو سچ ثابت کرنے کا دن ہے، آج سید حسن نصر اللہ کی فاتحانہ مسکراہٹوں پر درود و سلام بھیجنے کا دن ہے، آج شہید القدس شہید سلیمانی کی شہادت اور جدوجہد کے مقصد پر عمل درآمد کا دن ہے۔ آج شہید احمد یسٰین، شہید فتحی شقاقی، شہید ڈکٹر رنتیسی، شہید حاج رضوان کی شہادت کا بدلہ چکانے کا دن ہے۔

آج قبلہ اول بیت المقدس کیلئے اپنی جانوں کو نچھاور کرنے والے جوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔ آج اپنی دھرتی، اپنے آبائی وطن کی حفاظت کیلئے غاصبوں سے ٹکرانے والے فداکاروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔ آج دنیا بھر میں امت مسلمہ کے قدیم ترین مسئلہ کو پہلا مسئلہ بنا کر پیش کرنے کا دن ہے۔ آج ارض مقدس کی ان مائوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے، جنہوں نے اتنا عرصہ تک مسلسل ایسے سپوت دیئے، جنہوں نے اپنے خون کی سرخی سے اس کتاب قربانی و ایثار کے ورق ورق پر آزادی و حریت کے ابواب لکھے اور لکھ رہے ہیں، ایسے ابواب جو مسلسل جوانوں کے خون سے لکھے جا رہے ہیں اور بہنون کی عزتوں کی پائمالی سے بھی خالی نہیں، بچوں کی مسکراہٹیں چھینتے، بوڑھوں کی آنکھوں کی نورانیت چورانے سے عبارت ہیں، مگر اس داستان شجاعت، حریت و آزادی، ایثار و قربانی کے چراغوں کی لو کم نہیں ہونے دی ہے۔

غاصبوں کے ظلم و تشدد، قتل و غارت، طاقت کے مظاہروں نے اہل فلسطین جو اس پاک و مقدس سر زمین کے مالک ہیں، ان کے جذبہ حریت و مالکیت کو ماند نہیں پڑنے دیا۔ آپ لوگوں نے وہ تصویریں ضرور دیکھی ہون گی، جن میں اہل فلسطین جو اس مقدس سرزمین کے اصل مالک ہیں، غاصب صیہونی فوجیوں کی بندوقوں کی گھن گرج اور رعب و دبدبہ کو کسی خاطر میں لائے بنا مسجد الاقصیٰ میں ایسے بیٹھے جیسے واقعی کسی اصل مالک کو اپنی زمین پر بیٹھنا چاہیئے۔ اس قدر اطمینان، سکون اور اعتماد کہ تصویریں دیکھنے والا بھی دنگ رہ جائے کہ اتنے جدید اسلحہ کے ساتھ غاصب فوجی ان کے سامنے موجود ہیں اور وہ اپنے اطمینان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے سینہ تان کر بیٹھے ہیں یا کھڑے ہیں بلکہ بعض تصویروں میں لیٹے بھی ہیں، جبکہ صیہونی فوج مسجد اقصیٰ میں حملہ آور ہے۔

اس جذبے کو کیسے ماند کیا جا سکتا ہے، اس اعتماد کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے، اس جراءت کو اگر اتنے طویل عرصہ میں ختم نہیں کرسکے تو یہ تو اگلی نسلوں میں منتقل ہوتا رہیگا، فلسطینی مائوں کو اس لئے بھی سلام پیش کرنا چاہیئے کہ اس سرزمین کی باسی مائوں نے اپنے بچوں کو بیت المقدس کی آزادی، قربانیوں، اس کیلئے مرنے مارنے اور جہاد کرنے کی لوریاں کانوں میں رس گھول کے پلانے کی طرح ازبر کرا د ی ہوتی ہیں، تب ہی ایسا ممکن ہوا ہے کہ پچھتر برس سے ایسے ایسے جوانوں نے اپنی جانیں نچھاور کی ہیں کہ جن پہ سر فخر سے بلند ہے۔ ارض مقدس فلسطین کے باسیوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے کسی بھی غیر کی طاقت، قوت، حمایت، مدد اور نصرت پر انحصار نہیں کیا۔ اگر کسی بھی طرف سے اس لمبے عرصہ کے دوران ان کو مدد ملی ہے تو یہ اس وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ بذات خود ان کے اندر حریت و آزادی، مزاحمت و مقاومت کا جذبہ صادق موجود ہے۔

اگر ان کے اندر جذبہ صادق نہ ہوتا تو شاید کسی کی مدد و نصرت اور امداد کام نہ کرتی۔ جو کام آج نظر آرہا ہے کہ اسرائیل دنیا کی جدید ترین آرمی، اسلحہ، ایٹمی قوت، اقتصادی پاور ہونے کے باوجود غلیلوں سے شروع ہونے والے اور پتھروں سے لڑی جانے والی جنگ سے خوف زدہ نظر آتا ہے، کل جن کے ہاتھوں میں پتھر اور غلیلیں تھیں، آج تمام تر سختیوں، تمام تر پابندیوں، مظالم، تشدد، جیلوں، اسارتوں کے باوجود فلسطینی مزاحمتی قوتیں راکٹ اور میزائل کیساتھ ڈرون خودکش کو بھی استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ گذشتہ ایام میں جس جرات و شجاعت کیساتھ فلسطینی نوجوانوں نے مقبوضہ علاقوں میں تمام تر پابندیوں اور سختیوں، سکیورٹی حصارز کو توڑتے ہوئے کامیاب کارروائیاں کی ہیں، اس نے غاصب صیہونیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔

میرے خیال میں ہمارے کشمیری مسلمانوں کیلئے فلسطینی جدوجہد اور مزاحمت کے جانبازوں کی شکل اور حکمت عملی نیز جذبہ صادق میں بہت سی رہنمائی کی علامات موجود ہیں۔ ہندوستان نے اسرائیلی غاصب حکومت کے سفاکانہ طریقہ کار پر عمل شروع کر رکھا ہے تو اس کا توڑ بھی اہل فلسطین کی حکمت، جہاد و ایثار نیز مقاومت سے ہی ممکن ہے۔ کسی کو انکار نہیں کہ کشمیری مسلمانوں نے بھی ہزاروں کی تعداد میں جانیں قربان کی ہیں، کشمیری مائوں بہنوں کی عزتیں تار تار ہو رہی ہیں، ان کے گھر بار اور املاک تاراج کیے گئے ہیں، ان کے جوانوں کو بھی بدترین اذیتیں دی جا رہی ہیں اور ان کے جوان بھی ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں ہیں، مگر ان پر بیرونی عوامل زیادہ موثر اور طاقتور تھے، جس کی وجہ سے اندر کے کشمیری نوجوان کے جذبہ حریت و استقامت کو عالمی سطح پر اس طرح تسلیم نہیں کیا گیا،جیسے فلسطینی نوجوانوں کی جدوجہد کو تسلیم کیا جاتا ہے۔

فلسطین میں مقاومت و مزاحمت کرنے والے بیرونی لوگ نہیں ہیں، یہ اصلی و نسلی فلسطینی ہیں، لہذا آزادی کی جنگ لڑنا ان کا قانونی حق ہے، اپنے حق کیلئے غاصبوں سے ٹکرا جانا ان کا بنیادی حق ہے، جسے کوئی بھی تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اہل کشمیر کو اپنی جدوجہد آزادی، مزاحمت کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگا۔ ملت فلسطین کی جدوجہد آزادی، حریت، مزاحمت کی تاریخ میں اپنا الگ مقام رکھتی ہے، جو دنیا بھر کی آزادی و حریت کے پیروکاروں کیلئے روشن مثال کے طور پر موجود ہے اور رہیگی۔ یوم القدس امام خمینی کے فرمان پر ان کی عظیم جدوجہد، ان کیساتھ اظہار یکجہتی، امت مسلمہ، انسانی آزادی کے علمبرداروں، انسانی حقوق کیلئے بر سرپیکار تنظیموں اور مہذب اقوام کیلئے ایک پیغام ہے کہ ارض مقدس فلسطین کی بازیابی سے کم اس ملت مظلوم کو کچھ بھی قبول نہیں ہوگا۔

اگرچہ بعض نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی خیانت اور ارض مقدس سے ان کی غداری، صیہونیوں سے ان کی قربتیں کچھ نیا نہیں، اس سے اہل فلسطین یا آزادی و حریت کے علمبردار گھبرانے والے نہیں، یہ تو پہلے سے واضح و روشن ہے کہ نام نہاد مسلم حکمران اپنی کرسیاں اور سلطنتیں بچانے کیلئے عالمی طاقتوں کی جھولی میں گر جاتے ہیں، فلسطین کا فیصلہ فلسطین کی غیور و غیرت مند عوام نے کرنا ہے، جو انہیں قبول ہوگا، اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا۔ یوم القدس کا دن دنیا بھر کے مسلمانوں کی اہل فلسطین کے ساتھ یکجہتی اور اہل فلسطین کے اس دن بلند ہوتے شعار ثابت کریں گے کہ ان کا فیصلہ کیا ہے، فلسطینیوں کا فیصلہ یہی ہے کہ "قدس ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے۔"

تحریر: ارشاد حسین ناصر

عقل، احکام اسلام کی ضرورت، رسول اکرمؐ اور امیر المومنینؑ کا رویہ اور آیات و حدیث کے مفاد سے، حکومت اسلامی کی تشکیل واجب اور لازم ہے۔ بطور نمونہ ایک روایت امام رضاؑ سے نقل کرتا ہوں۔ حدیث کا آخری حصہ ہمارےمطلب کے لئے مفید ہے اس لئے اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔

خدا نے ’’اولی الامر‘‘ کیوں معین فرمایا؟

’’ اگر کوئی پوچھے کہ خدا نے ’’اولی الامر‘‘ کیوں معین فرمایا؟ جن کی اطاعت ہم پر واجب ہے۔ اس کا جواب یوں دینا چاہئے کہ بہت سی حکمتوں اور دلیلوں کے پیش نظر خدا نے ایسا کیا ہے، ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ لوگوں کو ایک طریقہ کا پابند کر دیا گیا ہے اور یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اس کے حدود و قوانین سے آگے نہ بڑھیں ورنہ مبتلائے فساد ہوجائیں گے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک فرد (یا قدرت) ان کے لئے امین و پاسبان نہ ہو، جس کا فریضہ ہو کہ لوگوں کو ان کے حقوق سے آگے نہ بڑھنے دیں۔ دوسروں کے حقوق پر کوئی ظلم و تعدی نہ کر سکے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو لوگ اپنی لذت و منفعت کے حصول کے لئے دوسروں پر ظلم سے باز نہیں آئیں گے۔

ایک دلیل یہ بھی کہ دنیا کہ دنیا کے مختلف فرقوں اور مذہبوں میں کسی بھی ملت یا مذہب یا فرقے کا وجود بغیر رئیس کے ممکن نہیں ہوا ہے (اس لئے مسلمانوں میں بھی ایک حاکم اور رئیس ہونا چاہئے) کیونکہ دین و دنیا کے امور میں ایسے شخص کا وجود ضروری ہے۔

اسی لئے خدا خدا وند عالم کی حکمت میں یہ بات نا جائز ہے اپنے بندوں کو بغیر رہبر اور سرپرست کے چھوڑ دے۔ کیونک خدا جانتا ہے کہ مخلوق کے لئے ایسا رہبر ہونا ضروری ہے جو دشمنوں سے جنگ کر کے آمدنی کو ان کے درمیان تقسیم کرے، ان کے جمعہ و جماعت قائم کرے، مظلوموں کے دامن تک ظالموں کے ہاتھوں کو نہ پہنچنے دیں۔ علاوہ بر ایں

رہبر و امام کے تعیین کا فلسفہ

خدا اگر مخلوق کے لئے امام، امین، رہبر اور حافظ معین نہ کرے تو ملت کہنہ ہوجائے، دین برباد ہوجائے، سنت اور اس کے احکام متغیر ہو جائیں، بدعتی لوگ دین میں اضافہ کر دیں، ملحدین کمی کر دیں۔ اور اس طرح کر دیں کہ دین مسلمانوں پر مشتبہ ہو کر رہ جائے، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ ناقص ہیں، کمال کے محتاج ہیں، اس کے علاوہ آپس میں اختلافات رکھتے ہیں، ان کے حالات ان کی خواہشیں الگ الگ ہیں۔

لہذا خدا اگر لوگوں کے لئے دین کا قیم اور محافظ معین نہ کرتا تو جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں لوگ فساد میں مبتلاء ہوجاتے، شریعتیں، سنن، احکام، ایمان سب میں تغیر ہوجاتا اور اس میں پوری مخلوق کا فساد ہی فساد ہوتا۔

کتاب: حکومت اسلامی، ص ۲۷ سے ۲۸، امام خمینی رح؛ سے اقتباس

کوئٹہ، کراچی، اسلام اباد، لاہور سمیت چھوٹے بڑے شہروں میں قدس شریف کے دفاع کا عزم ظاہر کیا گیا۔

ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق رمضان المبارک کے آخری جمعے کو انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی نے یوم قدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا اور اسی حوالے سے دنیا کے مختلف دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے اکثر شہروں میں بھی نمازیوں نے جمعہ کے بعد صیھونی مظالم اور فلسطینیوں سے یکجتہی کے لیے ریلی نکالی گئی اور قدس شریف کے دفاع کا عزم ظاہر کیا گیا۔

 

پاکستان؛ ملک میں یوم قدس جوش و خروش سے منایا گیا+ تصاویر

 

مجلس وحدت مسلمین، امامیہ طلبا تنظیم، اسلامی مرکز اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان سیمت مختلف اسلامی جماعتوں کے زیر اہتمام یوم القدس کے موقع پر فلسطینی مظلومین پر ڈھائے جانے والے صہیونی مظالم کے خلاف القدس ریلی کے راستے میں تصویریں آویزاں کی گئیں جبکہ القدس ریلی کے مرکزی راستہ پر امریکی و اسرائیلی پرچم زمین پر بچھائے گئے تھے۔

 

پاکستان؛ ملک میں یوم قدس جوش و خروش سے منایا گیا+ تصاویر

 

کوئٹہ میں نماز جمعہ کے بعد فلسطین حمایت اجتماع سے خطاب میں امام جمعہ سید ہاشم موسوی نے قدس ریلی کے اجازت نہ دینے پر انتظامیہ کی شدید مذمت کی اور کہا کہ شرم کا مقام ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک میں قدس شریف اور فلسطین کی حمایت پر پابندی لگائی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی حمایت سے کبھی نہیں ہٹے تھے اور نہ ہی یہ سلسلہ رکنے والا ہے۔

 

پاکستان؛ ملک میں یوم قدس جوش و خروش سے منایا گیا+ تصاویر

پاکستان؛ ملک میں یوم قدس جوش و خروش سے منایا گیا+ تصاویر

پاکستان؛ ملک میں یوم قدس جوش و خروش سے منایا گیا+ تصاویر

ارنا رپورٹ کے مطابق 7 اگست 1979 ایک ایسے راستے کا آغاز تھا جس نے جعلی صہیونی ریاست کو تاریخ کو مسخ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ وہ دن جب اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی (رح) نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو "عالمی یوم القدس" کا نام دیا جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔

جب تک ایرانی عوام اور پوری دنیا کے آزادی پسندوں کی طرف سے اس کی یاد منائی جائے گی، وہ فلسطینی عوام پر صیہونی غاصبوں کے مظالم کو فراموش نہیں ہونے دے گا۔

اس نام کے 43 سال گزرنے کے بعد اب ایرانی عوام نے متفقہ، آزادانہ طور اور فرقہ واریت اور نسل پرستی کے بغیر قدس اور غزہ کی مظلومیت کا نعرہ لگایا۔

تہران اور دیگر شہروں میں فلسطین کے مظلوم اور مقتدر عوام کی حمایت میں ایرانی قوم کا عظیم مارچ مقامی وقت کے مطابق، صبح 10 بجے سے شروع ہوا لیکن اعلان کردہ مارچ میں شرکت کے لیے بہت سے لوگ صبح سویرے سڑکوں میں جمع ہوئے تھے۔  

اس کے علاوہ، کل رات سے، بہت سے مقبول گروپ، انقلابی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ، مختلف ثقافتی پروگراموں کو انجام دینے کے لیے مارچ کے راستوں پر تعینات ہیں۔

عالمی یوم القدس مارچ کے راستے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی کامیابیوں کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔

خیبرشکن میزائل؛ ایران کا جدید ترین بیلسٹک میزائل جس کی رینج 1450 کلومیٹر ہے جو کہ دنیا کا سب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والا ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائل ہے اور عماد میزائل اسلامی انقلابی گارڈ کور کا تیار کردہ جدید ترین میزائل ہے۔

ایران بھر میں عالمی یوم القدس کے موقع پر "طاقتور مظلوم" کی حمایت میں عظیم الشان ریلیاں نکالی گئیں

خیبرشکن میزائل کے ساتھ شہید کمانڈر حاج قاسم سلیمانی کی تصویر کے ساتھ لگا ہوا یمنی شہداء کا بینر تہران میں یوم القدس کے موقع پر ان شاندار مناظر میں سے ایک ہے جس میں اسلامی انقلاب اور مزاحمتی محاذ کے دشمنوں کے لیے ایک اہم پیغام ہے۔

انقلاب اسکوائر میں فلسطینی پرچم تقسیم کیا جاتا ہے، اور بچے اور نوجوان صہیونی حکومت کے جھنڈے اور قابض اور بچوں کو مارنے والی حکومت کے رہنماؤں کی تصویر کو مارچ کرنے والے مختلف راستوں پر ڈارٹس کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ ڈارٹس کو نشانہ بنانے میں ان کی درستگی کی پیمائش کی جا سکے۔

ایران بھر میں عالمی یوم القدس کے موقع پر "طاقتور مظلوم" کی حمایت میں عظیم الشان ریلیاں نکالی گئیں

انقلاب کی طرف جانے والی سڑکوں اور اس کے پویلین کو شہداء کی تصاویر، ثقافتی مصنوعات اور کتابوں سے سجایا گیا ہے، اور آزادی اسکوائر اور انقلاب اسکوائر کے درمیان یوم القدس کے جلوس ساتھ لگائے گئے ثقافتی پویلین بے شمار اور متنوع ہیں۔

اس سال یوم القدس مارچ کے دوران، "فلسطینی قوم کے تیسرے انتفاضہ" کے لیے ایک پویلین قائم کیا گیا تھا، جس نے مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے میں حالیہ شہادتوں کی کارروائیوں کی روشنی میں ناجائز صہیونی ریاست کی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے تیسرے انتفاضہ کے آغاز کو بیان کیا ہے۔

شہید "یحیی عیاش" کی تصویر جو عزالدین القسام بریگیڈز (حماس کی عسکری شاخ) کے اعلی ترین کمانڈروں میں سے ایک ہے، جس کی ان دنوں مقبوضہ علاقوں میں شہادت کی کارروائیوں نے ان کی صیہونی مخالف سرگرمیوں کی یاد تازہ کردی۔ اور اسرائیلیوں میں خوف و ہراس پھیلا، مارچ کے دوران دکھایا گیا۔

ایران بھر میں عالمی یوم القدس کے موقع پر "طاقتور مظلوم" کی حمایت میں عظیم الشان ریلیاں نکالی گئیں

نیز قدس کے عالمی دن کے موقع پر ولی عصر (ع) کے چوراہے پر انفوگرافکس کی شکل میں یمن میں سعودی حکومت کے جرائم کا بینر نصب کیا گیا ہے۔

یوم القدس کے مارچ کے راستے میں ایرانی عوام کی لے جانے والی شہداء حاج قاسم سلیمانی، "احمد متوسلیان" اور "محسن فخر زادی" کی تصاویر، تہران کی سڑکوں پر دیکھنے والوں میں سے ایک ہے۔

اس سال یوم القدس مارچ میں بچوں اور نوجواں کی موجودگی خاص طور پر انقلاب اسکوائر میں چشم کشا ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ نئی نسل ہر معاملے میں مختلف ہے۔ فلسطینی عوام کے ظلم کی حمایت تمام نسلوں کا مشترکہ نقطہ ہے۔

ایران بھر میں عالمی یوم القدس کے موقع پر "طاقتور مظلوم" کی حمایت میں عظیم الشان ریلیاں نکالی گئیں

تہران میں ولی عصر چوراہے پر بچوں کا ایک گروپ فلسطین کی حمایت میں فارسی اور انگریزی میں پرفارم کر رہا ہے اور تہران یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک تھیٹر گروپ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

کالج چوراہے پر امام علی (ع) بٹالین کے بسیجی جوان یوم القدس کے جلوس میں موجود ہیں اور فوجی دستے بھی جلوس میں شریک ہیں۔

کھیلاڑی بھی تہران کے میدانوں جیسے میدان جنگ میں فلسطین کی حمایت میں نعرے لگانے کے لیے آئے؛ مارشل آرٹ کا مظاہرہ کرنے کے لیے ولی عصر اسکوائر کے ارد گرد تائیکوانڈو کے جنگجوؤں اور کراٹے کاروں کی موجودگی نمایاں ہے۔

مارچ کے پہلے ہی لمحات سے فوجی اور قومی حکام نے ایران کی عظیم قوم کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ صیہونیوں سے اپنی نفرت اور فلسطین اور القدس کی آزادی کی حمایت کا اظہار کیا۔

گریٹر تہران کے پولیس کمانڈر سردار "حسین رحیمی"،  شہید حاج قاسم سلیمانی کی بیٹی  اورتہران سٹی کونسل کی رکن "نرگس سلیمانی"،  نائب ایرانی صدر اور شہداء اور ویٹرنز افیئرز فاؤنڈیشن کے سربراہ سید  امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی" مارچ میں موجود پہلے عہدیداروں میں شامل ہیں۔

نیز  پاسداران اسلامی انقلاب کے کمانڈر بریگیڈئیر جنرل "اسماعیل قآنی" نے مقدس شہر مشہد میں عوام کیساتھ مارچ میں حصہ لیا۔

ایران بھر میں عالمی یوم القدس کے موقع پر "طاقتور مظلوم" کی حمایت میں عظیم الشان ریلیاں نکالی گئیں

ایرانی صدر مملکت  آیت اللہ سید "ابراہیم رئیسی" نے بھی عوام کے بڑے اجتماع میں حاضر ہوکر عالمی یوم القدس کے مارچ میں حصہ لیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالمی یوم قدس کی مناسبت سے اپنےخطاب کے آغاز میں فرمایا: فلسطینی عوام  نے اب تک فلسطین کے بارے میں امریکہ ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کی ہر قسم کی سازش کوناکام بنادیا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مقبوضہ فلسطین میں اسرائيل کی طرف سے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فلسطینیوں پر اسرائیل کے وحشیانہ اور ہولناک  مظآلم پر امریکہ اور یورپی ممالک نا صرف خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ وہ آشکارا طور پر اسرائيل کے وحشیانہ جرائم کی حمایت بھی کررہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج یوم قدس کی مناسبت سے عظیم الشان ریلیوں میں عوام کی بھر پور شرکت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی عوام نے یوم قدس کی ریلیوں پر بھر پور شرکت کرکے بہت بڑا اور عظيم کارنامہ انجام دیا ہے۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بیت المقدس تمام مسلمانوں کو آواز دے رہا ہے جب تک بیت المقدس پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ موجود ہے تب تک سال کے ہر دن کو یوم قدس سمجھنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب کا مکمل متن حسب ذیل ہے:

بسم ‌اللّه ‌الرّحمن‌ الرّحیم

الحمد للّه رب العالمین و الصلاة والسلام علی سیّد الخلق و اشرف البریة سیّدنا محمدٍ المصطفی خاتم المرسلین و علی آله الطاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدین.

دنیا بھر میں مسلم بھائیوں اور بہنوں کو سلام و تہنیت پیش کرتا ہوں۔ سلام ہو دنیائے اسلام کے نوجوانوں پر! سلام ہو فلسطین کے شجاع ، بہادر و غیور جوانوں اور تمام فلسطینی عوام پر!

ایک بار پھر یوم قدس کی آمد ہوئی ہے۔ قدس شریف دنیا بھر کے مسلمانوں کو آواز دے رہا ہے۔ جب تک قدس پر بد قسمتی سے غاصب و جرا‏ئم پیشہ صیہونی حکومت قابض ہے اس وقت تک ہر دن یوم قدس سمجھا جانا چاہیے۔ قدس شریف فلسطین کا قلب ہے اور پورا غصب شدہ ملک سمندر سے لیکر دریا تک قدس کا ہی تسلسل ہے۔ ملت فلسطین ہر دن ماضی سے زیادہ واضح طور پر یہ ثابت کر رہی ہے کہ کم نظیر شجاعت کے ساتھ ظالم کے مد مقابل کھڑی ہے اور بدستور ڈٹی رہے گی۔ اپنی قربانیوں کے ذریعے نوجوان، فلسطین کی ڈھال بن گئے ہیں اور ایک مختلف مستقبل کی نوید دے رہے ہیں۔

اس سال یوم قدس ایسے عالم میں منایا جا رہا ہے کہ ساری چیزیں فلسطین کے حال و مستقبل میں نئے توازن قائم ہونے کا عندیہ دے رہی ہیں۔ آج فلسطین اور پورے مغربی ایشیا میں نا قابل شکست قوت ارادی نے ناقابل تسخیر صیہونی فوج کی جگہ لے لی ہے۔ آج وہ جرائم پیشہ فوج جارحانہ اور اقدامی فوجی آرایش کو ترک کرکے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ آج سیاسی میدان میں غاصب حکومت کے سب سے بڑے حامی یعنی امریکہ کو خود پے در پے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جنگ افغانستان میں شکست، اسلامی مملکت ایران پر سخت ترین دباؤ ڈالنے کی پالیسی میں شکست، ایشیائی طاقتوں کے سامنے شکست، عالمی اقتصاد کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش میں شکست، اپنے داخلی انتظامات میں شکست اور امریکہ کے حکومتی نظام میں موجود گہری کھائی۔

غاصب صیہونی حکومت سیاسی و عسکری دونوں میدانوں میں ایک دوسرے میں پیوست مشکلات کے جال میں پھنسی ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ سابق جلاد و مجرم جو اس حکومت کی باگڈور سنبھال رہا تھا 'سیف القدس آپریشن' کے بعد کوڑے دان کی نذر ہو گيا اور آج اس کے جانشین ہر لمحہ دوسرے آپریشن کی تلوار کے منتظر ہیں۔

جنین کی کارروائیوں نے صیہونی حکومت پر دیوانگی طاری کر دی۔ حالانکہ بیس سال پہلے غاصب حکومت نے نہاریا میں چند صیہونیوں کے قتل کئے جانے پر جنین کیمپ میں 200 لوگوں کو قتل کر ڈالا تھا کہ جنین کا کام ہمیشہ کے لئے تمام ہو جائے۔

سروے رپورٹیں بتاتی ہیں کہ تقریبا 70 فیصدی فلسطینی 1948 اور 1967 میں قبضے میں لئے گئے علاقوں میں اسی طرح بیرونی کیمپوں میں فلسطینی رہنماؤں کو غاصب حکومت پر حملہ کر دینے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔ یہ بڑی اہم حقیقت ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب غاصب حکومت سے مقابلے کے لئے فلسطینیوں کی مکمل آمادگی ہے اور اس سے مجاہد تنظیموں کے ہاتھ کھل گئے ہیں کہ وہ جب ضروری سمجھیں کارروائی شروع کر دیں۔

1948 کے مقبوضہ علاقوں کے شمالی اور جنوبی دونوں حصوں میں فلسطینی عوام کی مجاہدانہ سرگرمیوں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اردن اور مشرقی بیت المقدس میں بڑے پیمانے پر جلوسوں، فلسطینی نوجوانوں کی طرف سے مسجد الاقصی کے زوردار دفاع اور غزہ میں فوجی مشقوں سے ثابت ہو گیا کہ پورا فلسطین مزاحمت کا میدان گيا ہے۔ آج جہاد کو جاری رکھنے پر فلسطینی عوام کا اجماع بن گيا ہے۔

یہ واقعات اور فلسطین میں حالیہ برسوں میں جو کچھ وقوع پذیر ہوا ہے وہ صیہونی دشمن سے مفاہمت کے تمام منصوبوں پر خط بطلان ہے۔ کیونکہ فلسطین کے بارے میں کوئی بھی منصوبہ اس کے اصلی مالکان یعنی فلسطینیوں کی عدم شرکت یا مخالفت کی صورت میں قابل عمل نہیں ہو سکتا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ پہلے کے تمام معاہدے جیسے اوسلو معاہدہ یا ٹو اسٹیٹ کی عرب تجویز یا سنچری ڈیل یا (صیہونی حکومت سے) معمول کے تعلقات سے متعلق حالیہ حقیرانہ سمجھوتے سب کالعدم ہو چکے ہیں۔

صیہونی حکومت کے کس بل ڈھیلے پڑ چکے ہیں لیکن اس کی مجرمانہ کارروائياں جاری ہیں اور مظلوموں پر مسلحانہ حملے کر رہی ہے۔ غیر مسلح عورتوں، بچوں، پیر و جواں کو قتل کر رہی ہے، جیلوں میں ڈال رہی ہے، ایذائیں دے رہی ہے، گھروں کو مسمار کر رہی ہے، کھیتیوں اور املاک کو اجاڑ رہی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں انسانی حقوق کے دعویدار دروغ گو جو یوکرین کے مسئلے میں آسمان سر پے اٹھائے ہوئے ہیں، فلسطین میں اتنے جرائم پر مہر بلب ہیں، مظلوم کا دفاع نہیں کرتے بلکہ خونخوار بھیڑئے کی مدد کر رہے ہیں۔

یہ بہت بڑا سبق ہے۔ دنیائے اسلام کے مسائل اور ان میں سر فہرست مسئلہ فلسطین کے معاملے میں ان نسل پرست اور کینہ پرور طاقتوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، تکیہ نہیں کرنا چاہئے۔ صرف اور صرف مزاحمتی قوت سے جو قرآنی تعلیمات اور دین اسلام کے احکام پر استوار ہے، عالم اسلام کے مسائل اور ان میں سر فہرست مسئلہ فلسطین کو حل کیا جا سکتا ہے۔

مغربی ایشیا میں مزاحمتی فورس کی تشکیل حالیہ عشروں میں اس علاقے کی سب سے بابرکت تبدیلی رہی ہے۔ یہ مزاحمتی قوت ہی تھی جس نے لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو صیہونیوں کے وجود سے پاک کیا، عراق کو امریکہ کے حلق سے باہر نکال لیا، عراق کو داعش کے فتنے سے نجات دلائی، امریکی سازشوں کا مقابلہ کرنے والے شامی مزاحمت کاروں کی مدد کی۔ مزاحمتی فورس بین الاقوامی دہشت گردی کا مقابلہ کرتی ہے۔ یمن کے مزاحمت کار عوام کی اس جنگ میں مدد کر رہی ہے جو ان پر مسلط کر دی گئی ہے۔ فلسطین میں غاصب صیہونیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی ہے اور توفیق خداوندی سے انھیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی اور اپنی مجاہدانہ کوششوں سے قدس اور فلسطین کے موضوع کو عالمی رائے عامہ کے سامنے روز بروز زیادہ پرزور انداز میں پیش کر رہی ہے۔

آپ فلسطین کے عوام، آپ غرب اردن اور 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے فداکار نوجوان، جنین کے کیمپ کے آپ مجاہدین، قدس اور غزہ کے آپ مزاحمت کار، دیگر ملکوں میں فلسطینی کیمپوں میں بسنے والے آپ لوگ مزاحمتی پیکر کا بہت اہم اور حساس جز ہیں اور اسے آگے لے جانے والے انجن کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ پر سلام ہو! ثابت قدمی سے ڈٹے رہئے اور یاد رکھئے کہ: إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا، اور: لَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ، اور: وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ .. اور: سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ.

اسلامی جمہوریہ مزاحمتی محاذ کی حامی و مددگار ہے۔ فلسطین کے مزاحمتی محاذ کی حامی و پشت پناہ ہے۔ یہ ہم نے ہمیشہ کہا ہے، اس پر عمل بھی کیا ہے اور اس پر ہمیشہ تاکید کی ہے۔ ہم اسرائیل سے معمول کے تعلقات قائم کرنے کے خیانت آمیز عمل کی مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل سے نارمل تعلقات قائم کرنے کی پالیسی کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ جو بعض عرب حکومتوں نے امریکہ سے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں جلدی کرے، اگر ان کی مراد یہ ہے کہ اس علاقے سے باہر نکلنے سے پہلے وہ غاصب حکومت کی جڑیں مضبوط کرنے کے راستے کی رکاوٹوں کو ہٹا دے تو پہلی بات یہ کہ انھوں نے غداری کا ارتکاب کیا ہے اور دنیائے عرب کی پیشانی پر کلنک کا داغ لگا دیا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ ان کی سادہ لوحی ہے۔ کیونکہ نابینا کسی اندھے شخص کی چھڑی نہیں بن سکتا ہے۔

آخر میں فلسیطنی شہیدوں کی ارواح پر درود و سلام بھیجتا ہوں، ان کے صابر خاندانوں کو سلام کرتا ہوں، فلسطینی قیدیوں کو جو اپنے مضبوط ارادوں سے مزاحمت کر رہے ہیں، سلام کرتا ہوں، مزاحمتی فلسطینی تنظیموں کو سلام کرتا ہوں جو اس بھاری ذمہ داری کا بڑا حصہ

اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے ہیں، دنیائے اسلام بالخصوص نوجوانوں کو عزت و وقار کے اس میدان میں اترنے کی دعوت دیتا ہوں۔

مہر خبررساں ایجنسی 

غزہ : حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیه نے کہا ہے کہ عالمی یوم القدس نے اب ایک نئی شکل اختیارکرلی ہے۔اسماعیل ہنیہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ قدس، مسجد الاقصی اور فلسطینیوں کی آزادی کے مسائل مذاکرات کی میز پر حل ہونے والے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی یوم القدس نے اب ایک نئی شکل اختیار کی ہے اور یہ ایک عظیم تحریک میں بدل گئی ہے۔ اسماعیل ہنیه نے غرب الاردن اور مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی جانب سے شہادت پسندانہ کارروائیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی کارروائیوں کی اہمیت اس میں ہے کہ فلسطینی عوام نے استقامت کے راستے کا انتخاب کیا اور یہ مسجد الاقصی میں نماز کی ادائیگی اور ہماری آزادی کیلئے اہم انتخاب ہے۔ فلسطینی عوام نے گزشتہ کئی روز کے دوران ہر جگہ اسرائیل کے مذموم مقاصد اور سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔

آستان قدس رضوی ویب سائٹ کے مطابق اس قرآنی میوزیم میں قرآن کریم کے 17 نسخے اور چند پارے ایسے ہیں جن کی کتابت حضرات معصومین علیہم السلام سے منسوب ہے جن میں امیرالمؤمنین امام علی(ع)، امام حسن(ع)، امام حسین(ع)، امام سجاد(ع) اور امام رضا(ع) کے دست مبارک سے تحریر کردہ قرآنی تحریریں موجود ہیں۔ ان قیمتی نسخوں کو  بہت ہی حفاظت سے اس قرآنی میوزیم میں رکھا گیا ہے ،زیارت امام رضا علیہ السلام سے مشرف ہونے والے زائرین ان قرآنی نسخوں کی قریب سے زیارت کر سکتے ہیں۔
قرآن کریم کا سب سے قدیمی نسخہ جو امام رضا(ع) کے نام  پر  وقف کیا گيا ہے  اس کی تاریخ ہزار سال قبل کی ہے جسے فارسی دری میانہ اور سیستانی لہجہ کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے قرآن کریم کا یہ نسخہ 6 ہجری قمری سے متعلق ہے اس کے علاوہ اس قرآنی میوزیم میں آٹھ صفحات پر مشتمل قرآن بایسنغری جو کہ دنیا کا سب سے بڑا خطی نسخہ ہے   اس میوزیم میں رکھا گیا ہے ۔


قرآنی میوزیم کا ایک مخصوص شعبہ   ان تحائف سے مخصوص ہے جو  رہبرانقلاب اسلامی کو ملتے رہے ہيں اور انہوں نے ان سبھی تحائف کو   امام رضا علیہ السلام کے حرم کے لئے ہدیہ کردیا ہے  ان تحائف میں   قرآن کریم کے قیمتی نسخے  بھی شامل ہيں جو رہبر معظم انقلاب اسلامی کی جانب سے اس میوزیم کے لئے ہدیہ کئے گئے ہیں،رہبر معظم انقلاب اسلامی کے تحائف والےحصہ اور قرآنی میوزیم میں مجموعی طور پر قرآن کریم کے 130 نسخہ پائے جاتے ہیں اس کے علاوہ قرآنی جزوات اور قرآن کریم کے کئی قیمتی آثار بھی موجود ہیں ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا روزہ داری کے سلسلہ میں ارشاد ہے کہ «مَنْ أَفْطَرَ يَوْماً مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ خَرَجَ رُوحُ الْإِيمَانِ مِنْه‏؛ اگر کوئی بغیر کسی عذر اور مجبوری کے ماہ مبارک رمضان کا روزہ نہ رکھے تو اس سے ایمان کی روح جدا ہوجاتی ہے » (۱)

ہر زندہ موجود اس وقت تک زندہ اور با حیات ہے جب تک اس کے بدن میں روح موجود ہے اور اگر بدن سے روح نکل جائے تو معمولا اس کی بازگشت بھی ناممکن ہے ، ایمان کا بھی ایک ظاھر ہے اور وہ انسان کا مسلمان یا مومن ہونا ہے اور اس کا ایک باطن اور اس کی روح ہے ، روایت میں موجود ہے کہ جان بوجھ کر روزہ نہ رکھنا اور ماہ مبارک رمضان میں کھانے پینے کو مباح سمجھنا اس قدر بڑا ہے کہ ایمان کا جسم بے جان و روح ہوجاتا ہے اور معمولا اس روح کے واپس لوٹنے کی بھی کوئی امید نہیں ہے کہ جس بنیاد پر انسان دوبارہ حقیقی مومن بن سکے ، لہذا ایسے انسان کا فقط ظاھر مومنوں جیسا ہے مگر اس کے اندر ایمان کی مہک اور خوشبو موجود نہیں ہے ، ہماری اس بات کی دلیل روزہ واجب ہونے کی وہ حکمت ہے جس کا تذکرہ معصوم اماموں نے کیا ہے کہ روزہ سچے اور مخلص ایمان دار اور غیر مومن کے درمیان خط امتیاز ہے ۔

امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ «فرض الله... الصِّيَام ابْتِلَاءً لِإِخْلَاصِ الْخَلْق‏؛ خداوند متعال نے روزہ واجب کیا تاکہ اس کے وسیلہ لوگوں کے اخلاص کو آزما سکے » (۲) اور جب بھی لوگ اس میدان میں ناکام رہیں گے تو ان کے ایمان و اخلاص پر شک کیا جائے گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 
Wednesday, 27 April 2022 06:26

یوم قدس

امام خمینیؒ:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں نے سالہائے دراز کے دوران، مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے سے آگاہ کیا کہ جس نے آج کل فلسطینی مرد اور خواتین پر اپنے حملے کو شدید کر دیا ہے اور خاص طور پرجنوب لبنان میں فلسطینی مجاہدوں کو نابود کرنے کی غرض سے ان کے گھروں اور کاشانوں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔
میں تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے تقاضا کرتا ہوں کہ وہ اس غاصب اور اسکے حامیوں کے دست قدرت کو مہار کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ آئیں،  اور تمام مسلمانوں کو دعوت دے رہا ہوں کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو، جو کہ ایام قدر ہیں اور ممکن ہے کہ فلسطین کی عوام کی تقدیر کے لئے بھی فیصلہ کن ثابت ہو، یوم قدس کے عنوان سے انتخاب کریں اور  مسلمانوں کے درمیان بین الاقوامی قربت کے پروگرام کے توسط سے، فلسطین کے مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت کا اعلان کریں۔ خداوند متعال سے اہل کفر پر  مسلمانوں کی کامیابی کا طلبگار ہوں۔
(صحیفه امام، ج9، ص267.)

قابض قوتوں کا پرانا حربہ ہے کہ مقامی باشندوں پر تشدد کرتی ہیں، انہیں قتل کرتی ہیں اور گرفتار کرکے قید و بند کی صعوبتوں میں ڈال دیتی ہیں۔ ظلم و جبر سے یہ ظالم قوتیں ایسی نسل تیار کرنا چاہتی ہیں، جو ان کی غلام ہو، ایسی نسل جس میں خوداری اور قومی غیرت و حمیت نام کی کوئی چیز نہ ہو۔ برطانوی استعمار نے ہندوستان میں یہی حربے استعمال کیے تھے۔ پنجاب کے اجتماعی شعور نے آج تک جلیانوالہ باغ کے سانحے کو نہیں بھلایا۔ پنجاب کے سینے پر لگا وہ زخم برطانوی استعمار کی سفاکیت کی علامت تھا۔ وہ سینکڑوں لاشیں اور بہنے والا خون پنجاب میں مزاحمت کی آواز بن گیا۔ ادھم سنگھ نے اس واقعہ کے ذمہ دار اس وقت کے پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ مائیکل او ڈائر کو لندن میں جا کر قتل کر دیا تھا۔ بعد میں چلنے والی تحریک آزادی میں امرتسر کے اس قتل عام نے اہم کردار ادا کیا اور تحریک آزادی کو جذباتی بنیادیں فراہم کیں۔ صیہونی ریاست بھی تشدد کا سہارا لے کر  فلسطینی تحریک آزادی کو دبانا چاہتی ہے، مگر ان کے ہر ظلم و ستم کے جواب میں تحریک آزادی مزید آگے بڑھ جاتی ہے۔

صیہونی سکیورٹی فورسز نے تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے اور یہ بار بار مسجد اقصیٰ کے صحن مبارک میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب فلسطین کے غیور اور نہتے مسلمان مزاحمت کرتے ہیں تو یہ پرتشدد انداز میں مسجد میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ تو کافی پرانا ہے، مگر اب اس نے تسلسل کی شکل اختیار کر لی ہے۔ فلسطینی ماں کے ساتھ مسجد میں آئی بچیوں کے سامنے ان کی ماوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسی طرح بچے کے سامنے ان کے باپ پر تشدد کیا جاتا ہے، تاکہ ان کی عزت نفس کو جتنا ہوسکے مجروح کیا جائے۔ نام کی حد تک ہی سہی پہلے حرم شریف کا اہتمام اردن کے پاس تھا، مگر اب اس برائے نام انتظام کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا۔ مسجد کی دیواروں پر صیہونی ریاستی اداروں کی ہدایات کے اشتہارات لگائے جاتے ہیں اور ان پر درج قوانین پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ اس طرح کے کام کرکے صیہونی ادارے فلسطینی مسلمانوں کو اکسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انتہاء پسند صیہونی گروہ بار بار مسجد اقصیٰ کے صحن میں داخل ہونے اور یہودی طریقہ کے مطابق عبادت کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ صیہونی اہلکار انہیں روکنے کی نام نہاد کوشش کرتے ہیں، مگر اصل میں وہ انہیں باحفاظت لانے اور لیجانے کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔

ماہ مبارک رمضان میں صیہونی مداخلت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مسلمان بڑی تعداد میں عبادت کے لیے بیت المقدس کا رخ کرتے ہیں تو وہ آزادی کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، جس سے ان پر تشدد بہت بڑھ جاتا ہے۔ ویسے نہتے مسلمانوں پر ہونے والا تشدد ان مسلمان ریاستوں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے، جو دنیا بھر میں اپنے ہمدردوں کو یہ سمجھا رہی تھیں کہ ہمارا اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنا خود اہل فلسطین کے لیے بہتر ہے۔ اس پوری صورتحال میں اردن، عرب امارات اور غالباً مصر کا فقط ایک بیان جاری ہوا، جس میں ایسے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس تشویش سے فلسطینیوں کو کیا حاصل ہوگا؟ اور ہاں غلاموں کی تشویش بے معنی ہوتی ہے۔ اگر آپ نے کچھ کرنا ہے تو عملی اقدام کریں اب تو آپ کے سفارتی تعلقات ہیں، چلیں اسرائیلی سفیر کو ہی طلب کرکے احتجاج کر لیں؟ اپنے سفیر کو واپس بلانے کی دھمکی ہی دے دیں؟؟؟ ہمیں معلوم ہے کہ آپ یہ کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے۔ بس عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے تشویش کا اظہار کر دیا۔

صیہونی ریاست ہر وہ اقدام کر رہی ہے، جس سے وہ اہل فلسطین کی مزاحمت کو کمزور اور پھر بعد میں ختم کرسکے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ کی بحالی میں بھی بڑی رکاوٹ ہے۔ بین الاقوامی طور پر  یہ لابنگ کر رہی ہے کہ القدس فورس اور دیگر طاقتور ادارے جو فلسطینی مزاحمت کے حمایتی ہیں، ان پر پابندیاں برقرار رہیں۔ ایران اور بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں چند بڑے مسائل یہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران یہ چاہتا ہے کہ امریکہ سے دو طرح کی گارنٹیاں لی جائیں، ایک تو پہلے کی طرح یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہوں گے اور دوسرا ایسا نہیں ہوگا کہ مختلف حیلے بہانے کرکے پابندیوں کو دوبارہ سے نافذ کر دیا جائے۔ یہ امریکہ کا طریقہ واردات ہے کہ وہ ایسے معاہدے کرتا ہے، جن کی من مانی تشریحات ممکن ہوتی ہیں اور پھر پتلی گلی سے نکل جاتا ہے۔ اب معاہدے کے ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے کہ امریکہ سے گارنٹیز لے لی جائیں۔

امت مسلمہ کو قدس میں ہونے والے واقعات سے آگاہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ بہت افسوسناک صورتحال ہے، ہم چھوٹے موٹے مقامی سیاسی معاملات میں الجھے رہتے ہیں۔ سیاسی عصبیتیں اس قدر زیادہ ہوگئی ہیں کہ ہم تقسیم در تقسیم کا شکار ہوچکے ہیں۔ چند سال پہلے تک فلسطین کے چھوٹے سے مسئلہ پر بھی ہمارا میڈیا یکسو ہو کر آواز بلند کرتا تھا، مگر آج قبلہ اول کی خبریں کہیں پیچھے چلی گئی ہیں۔ امام خمینیؒ کی قبر پر اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، یہ ان کی بابصیرت قیادت تھی، جس نے محسوس کر لیا تھا کہ بین الاقوامی طاقتیں قدس کو امت کے ذہنوں سے محو کرنا چاہتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے یوم القدس کا آغاز کیا، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں فلسطینوں کے حق میں آواز بلند کی جاتی ہے اور قبلہ اول کی آزادی کی جدوجہد کرنے کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے۔