سلیمانی

سلیمانی

حوزہ نیوز ایجنسی امام ابو جعفر جواد علیہ السلام سے مروی ہے کہ: ماہ رجب میں ایک رات ہے کہ وہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج چمکتا ہے اور وہ ستائیسویں رجب کی رات ہے کہ جس کی صبح رسول اعظم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ ہمارے پیروکاروں میں جو اس رات عمل کرے گا تو اس کو ساٹھ سال کے عمل کا ثواب حاصل ہوگا۔ میں نے عرض کیا اس رات کا عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : نماز عشا کے بعد سوجائے اور پھر آدھی رات سے پہلے اٹھ کر بارہ رکعت نماز دو دو رکعت کرکے پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد قرآن کی آخری مفصل سورتوں ﴿سورہ محمد سے سورہ ناس﴾ میں سے کوئی ایک سورہ پڑھے۔ نماز کا سلام دینے کے بعد سورہ حمد، سورہ فلق سورہ ناس، سورہ توحید، سورہ کافرون اور سورہ قدر میں سے ہر ایک سات سات مرتبہ نیز آیۃ الکرسی بھی سات مرتبہ پڑھے اور ان سب کو پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے:

ستائیس رجب کی رات کے اعمال اور دعائیں:

1- غسل کرنا.
2- بارہ رکعت نماز جو کہ امام محمد بن علي الجواد عليہما السلام سے مروی ہے.
3- زيارة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليہ السلام.
4- یہ دعا پڑھنا: "اَللّـهُمَّ إِنّي أَساَلُكَ بِالتَّجَلِي الأعْظَمِ في هذِهِ اللَّيْلَةِ مِنَ الشَّهْرِ الْمُعَظَّمِ...".

ستائیس رجب کے دن کے اعمال:

غُسل، روزہ رکھنا،اس دن کا روزہ ستر سال کے روزے کا ثواب رکھتا ہے۔کثرت سےمحمد وآل محمد پر درود بھیجنا۔زيارة خاتم الأنبياء وسيّد المرسلين محمد صلى الله عليه آلہ وزيارة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليہ السلام۔

تیس رکعت نماز پڑھنا ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد 10 مرتبہ سورہ توحید پڑھنا۔

شب مبعث کے اعمال

مستحب ہے کہ انسان شب بیداری کرے اور وارد شدہ اعمال کو بجالاءے ۔اعمال کی کیفیت مندرجہ ذیل ہے :

۱۲رکعت نماز ہے جس کی ہر رکعت میں سورہ سورۂ حمد کے بعد سورۂ محمد کی تلاوت کرے ۔اور ہر دو رکعت کے بعد سلام کے ساتھ نماز کو تمام کرے ۔۱۲ رکعت نماز تمام ہو جانے کے بعد سات مرتبہ چار وں قل کی تلاوت کرے ۔پھر سات مرتبہ انا انزلناہ اور آیۃ الکرسی کی تلاوت کرے اور اس کے بعد اس دعا کو پڑھے ۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدا وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيرا اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعَاقِدِ عِزِّكَ عَلَى أَرْكَانِ عَرْشِكَ وَ مُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِكَ وَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ وَ ذِكْرِكَ الْأَعْلَى الْأَعْلَى الْأَعْلَى وَ بِكَلِمَاتِكَ التَّامَّاتِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَفْعَلَ بِي مَا أَنْتَ أَهْلُهُ .اپنی حاجت طلب کریں انشاء اللہ مستجاب ہو گی ۔

۲۔ زيارت حضرت امير المؤمنين عليہ السلام کہ اس رات کے افضل ترین اعمال میں سے ہے ۔

۳۔ شيخ كفعمى بلد الامين میں فرماتے ہیں کہ شب مبعث میں اس دعا کی تلاوت کریں :

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِالتَّجَلِّي [بِالنَّجْلِ‌] الْأَعْظَمِ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ مِنَ الشَّهْرِ الْمُعَظَّمِ وَ الْمُرْسَلِ الْمُكَرَّمِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا مَا أَنْتَ بِهِ مِنَّا أَعْلَمُ يَا مَنْ يَعْلَمُ وَ لا نَعْلَمُ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي لَيْلَتِنَا هَذِهِ الَّتِي بِشَرَفِ الرِّسَالَةِ فَضَّلْتَهَا وَ بِكَرَامَتِكَ أَجْلَلْتَهَا وَ بِالْمَحَلِّ الشَّرِيفِ أَحْلَلْتَهَا اللَّهُمَّ فَإِنَّا نَسْأَلُكَ بِالْمَبْعَثِ الشَّرِيفِ وَ السَّيِّدِ اللَّطِيفِ وَ الْعُنْصُرِ الْعَفِيفِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَجْعَلَ أَعْمَالَنَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَ فِي سَائِرِ اللَّيَالِي مَقْبُولَةً وَ ذُنُوبَنَا مَغْفُورَةً وَ حَسَنَاتِنَا مَشْكُورَةً وَ سَيِّئَاتِنَا مَسْتُورَةً وَ قُلُوبَنَا بِحُسْنِ الْقَوْلِ مَسْرُورَةً وَ أَرْزَاقَنَا مِنْ لَدُنْكَ بِالْيُسْرِ مَدْرُورَةً اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَرَى وَ لا تُرَى وَ أَنْتَ بِالْمَنْظَرِ الْأَعْلَى وَ إِنَّ إِلَيْكَ الرُّجْعَى وَ الْمُنْتَهَى وَ إِنَّ لَكَ الْمَمَاتَ وَ الْمَحْيَا وَ إِنَّ لَكَ الْآخِرَةَ وَ الْأُولَى اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَذِلَّ وَ نَخْزَى وَ أَنْ نَأْتِيَ مَا عَنْهُ تَنْهَى اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِكَ وَ نَسْتَعِيذُ بِكَ مِنَ النَّارِ فَأَعِذْنَا مِنْهَا بِقُدْرَتِكَ وَ نَسْأَلُكَ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ فَارْزُقْنَا بِعِزَّتِكَ وَ اجْعَلْ أَوْسَعَ أَرْزَاقِنَا عِنْدَ كِبَرِ سِنِّنَا وَ أَحْسَنَ أَعْمَالِنَا عِنْدَ اقْتِرَابِ آجَالِنَا وَ أَطِلْ فِي طَاعَتِكَ وَ مَا يُقَرِّبُ إِلَيْكَ وَ يُحْظِي عِنْدَكَ وَ يُزْلِفُ لَدَيْكَ أَعْمَارَنَا وَ أَحْسِنْ فِي جَمِيعِ أَحْوَالِنَا وَ أُمُورِنَا مَعْرِفَتَنَا وَ لا تَكِلْنَا إِلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ فَيَمُنَّ عَلَيْنَا وَ تَفَضَّلْ عَلَيْنَا بِجَمِيعِ حَوَائِجِنَا لِلدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ ابْدَأْ بِآبَائِنَا وَ أَبْنَائِنَا وَ جَمِيعِ إِخْوَانِنَا الْمُؤْمِنِينَ فِي جَمِيعِ مَا سَأَلْنَاكَ لِأَنْفُسِنَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الْعَظِيمِ وَ مُلْكِكَ الْقَدِيمِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا الذَّنْبَ الْعَظِيمَ إِنَّهُ لا يَغْفِرُ الْعَظِيمَ إِلا الْعَظِيمُ اللَّهُمَّ وَ هَذَا رَجَبٌ الْمُكَرَّمُ الَّذِي أَكْرَمْتَنَا بِهِ أَوَّلُ أَشْهُرِ الْحُرُمِ أَكْرَمْتَنَا بِهِ مِنْ بَيْنِ الْأُمَمِ فَلَكَ الْحَمْدُ يَا ذَا الْجُودِ وَ الْكَرَمِ فَأَسْأَلُكَ بِهِ وَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَجَلِّ الْأَكْرَمِ الَّذِي خَلَقْتَهُ فَاسْتَقَرَّ فِي ظِلِّكَ فَلا يَخْرُجُ مِنْكَ إِلَى غَيْرِكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ الطَّاهِرِينَ وَ أَنْ تَجْعَلَنَا مِنَ الْعَامِلِينَ فِيهِ بِطَاعَتِكَ وَ الْآمِلِينَ فِيهِ لِشَفَاعَتِكَ اللَّهُمَّ اهْدِنَا إِلَى سَوَاءِ السَّبِيلِ وَ اجْعَلْ مَقِيلَنَا عِنْدَكَ خَيْرَ مَقِيلٍ فِي ظِلٍّ ظَلِيلٍ وَ مُلْكٍ جَزِيلٍ فَإِنَّكَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ اللَّهُمَّ اقْلِبْنَا مُفْلِحِينَ مُنْجِحِينَ غَيْرَ مَغْضُوبٍ عَلَيْنَا وَ لا ضَالِّينَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِعَزَائِمِ مَغْفِرَتِكَ وَ بِوَاجِبِ رَحْمَتِكَ السَّلامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ وَ الْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَ الْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ وَ النَّجَاةَ مِنَ النَّارِ اللَّهُمَّ دَعَاكَ الدَّاعُونَ وَ دَعَوْتُكَ وَ سَأَلَكَ السَّائِلُونَ وَ سَأَلْتُكَ وَ طَلَبَ إِلَيْكَ الطَّالِبُونَ وَ طَلَبْتُ إِلَيْكَ اللَّهُمَّ أَنْتَ الثِّقَةُ وَ الرَّجَاءُ وَ إِلَيْكَ مُنْتَهَى الرَّغْبَةِ فِي الدُّعَاءِ اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ اجْعَلِ الْيَقِينَ فِي قَلْبِي وَ النُّورَ فِي بَصَرِي وَ النَّصِيحَةَ فِي صَدْرِي وَ ذِكْرَكَ بِاللَّيْلِ وَ النَّهَارِ عَلَى لِسَانِي وَ رِزْقا وَاسِعا غَيْرَ مَمْنُونٍ وَ لا مَحْظُورٍ فَارْزُقْنِي وَ بَارِكْ لِي فِيمَا رَزَقْتَنِي وَ اجْعَلْ غِنَايَ فِي نَفْسِي وَ رَغْبَتِي فِيمَا عِنْدَكَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ .

سجده مین جاکر یہ کہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِمَعْرِفَتِهِ وَ خَصَّنَا بِوِلايَتِهِ وَ وَفَّقَنَا لِطَاعَتِهِ شُكْرا شُكْرا ۔سو مرتبہ سجدہ سے سر اٹھا کر یہ کہے:

اللَّهُمَّ إِنِّي قَصَدْتُكَ بِحَاجَتِي وَ اعْتَمَدْتُ عَلَيْكَ بِمَسْأَلَتِي وَ تَوَجَّهْتُ إِلَيْكَ بِأَئِمَّتِي وَ سَادَتِي اللَّهُمَّ انْفَعْنَا بِحُبِّهِمْ وَ أَوْرِدْنَا مَوْرِدَهُمْ وَ ارْزُقْنَا مُرَافَقَتَهُمْ وَ أَدْخِلْنَا الْجَنَّةَ فِي زُمْرَتِهِمْ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ .

ابوطالب علیہ السلام، امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے والد بزرگوار اور رسول اللہ (ص) کے چچا اور آپ (ص) کے والد ماجد کے سگّے بھائی ہیں دونوں کی والدہ بھی ایک ہے. انہوں نے اس بارے میں شاعری کی زبان میں فرمایا ہے:
لا تخذلا و انصرا ابن عمکما
اخی لامی من بینهم و ابی(1)
[بیٹو] اپنے چچا زاد بھائی کو تنہا مت چھوڑو اور اس کی مدد کرو
کہ وہ میرے بھائیوں کے درمیان والد اور والدہ دونوں کی طرف سے میرے بھائی کا فرزند ہے.

 

1. معروف عصر:

جناب ابو طالب (ع) اپنی شخصیت کی عظمت اور ہر لحاظ سے قدآور، طاقتور اور اپنے زمانے میں دین ابراہیم علیہ السلام کے مبلغ تھے.

 

2. ان کی قابل قبول روایتیں:

انہوں نے عصر جاہلیت میں ایسی نیک روایات کی بنیاد رکھی جن کو کلام وحی کی تائید حاصل ہوئی. (2) حضرت ابوطالب علیہ السلام «قسامہ» کے بانی ہیں جو اسلام کے عدالتی نظام میں مورد قبول واقع ہؤا۔ (3)


نیکوان رفتند و سنت ہا بماند
و زلئیمان ظلم و لعنت ہا بماند

نیک لوگ چلے گئے؛ ان کی سنتیں باقی رہ گئیں جبکہ لئیموں سے ظلم و لعنت کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہا

 

3. بندہ خدا:

ابو طالب جو «عبد مناف» کے نام سے مشہور تھے، اور عبدمناف کے معنی ہیں «بندہ خدا» یوں وہ رسول اللہ (ص) کے تیسرے جد امجد کے ہم نام بھی تھے۔ (4)

 

4. کفر کے خلاف جدوجہد:

وہ اپنے والد ماجد «حضرت عبدالمطلب» کی مانند یکتاپرستی کے راستے پر گامزن رہے اور کفر و شرک اور جہل کے زیر اثر نہیں آئے.

 

5. ان کے ایمان کے دلائل:

ان کی شاعری ان کے طرز فکر اور ان کے ایمان کو واضح کرتی ہے اور اس مضمون کے آخر میں ان کے بعض اشعار بھی پیش کئے جارہے ہیں.

 

6. خلوص قلب:

ویسے تو بہت ایسے واقعات تاریخ میں ثبت ہیں جن سے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے خلوص دل اور صفا و طہارت قلب عیاں ہے. مگر ہم یہاں صرف ایک واقعہ بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ:
اہلیان حجاز پر قحط عارض ہؤا. لوگ – عیسائی و مشرک و جاہل و بت پرست اور دین حنیف کے پیروکار – سب کے سب مؤمن قریش حضرت ابوطالب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ کیونکہہ انہیں معلوم تھا کہ مکہ میں دین ابراہیم (ع) کے اس مروج و مبلغ جتنی کسی کو بھی خدا کی اتنی قربت حاصل نہیں ہے چنانچہ انہوں نے ان تشویشناک حالات میں ان ہی سے درخواست کی کہ اٹھیں اور "خدا سے باران رحمت کی درخواست کریں"ان کا جواب مثبت تھا اور ایسے حال میں بیت اللہ الحرام کی طرف روانہ ہوئے کہ ان کی آغوش میں «چاند سا» لڑکا بھی تھا. حضرت ابوطالب (ع) نے اس لڑکے سے کہا کہ کعبہ کو پشت کرکے کھڑا ہوجائے اور حضرت ابوطالب (ع) نے اس لڑکے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور خداوند متعال کی بارگاہ میں باران رحمت کی دعا کی. بادل کا نام و نشان ہی نہ تھا مگر اچانک آسمان سے بارش نازل ہونے لگی اور اس بارش نے حجاز کی پیاسی سرزمین کو سیراب کیا اور مکہ کی سوکھی ہوئی وادی کھل اٹھی.
وہ چاند سا لڑکا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوا کوئی اور نہ تھا (5) جنہیں ابوطالب ہی جانتے اور پہچانتے تھے کہ وہ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں اور اسی بنا پر خدا سے ان کے صدقے باران رحمت کی دعا کی جو فوری طور پر قبول بھی ہوئی. حضرت ابوطالب علیہ السلام اسی حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں فرماتے ہیں:
و ابیض یستسقى الغمام بوجهه
ثمال الیتامى عصمة للارامل
وہ ایسا روشن چہرے والا ہے جس کے صدقے بادل پر باران ہوجاتے ہیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں “


ہرکسی اندازہ روشن دلی
غیب را بیند بہ قدر صیقلی
ہرکہ صیقل بیش کرد او بیش دید
بیشتر آمد بر او صورت پدید
گر تو گویی کان صفا فضل خداست
نیزاین توفیق صیقل زآن عطاست

ہر کوئی اپنی روشن دلی کی سطح مطابق غیب کو دیکھتا ہے اپنے قلب کی صفا و خلوص کی حد تک جس نے جتنا دل کو زیادہ خالص کیا اس نے زیادہ ہی دیکھا اس کے لئے زیادہ سے زیادہ صورتیں نمودار ہوئیں اگر تو کہے کہ وہ صفا و خلوص فضل خداوندی ہے تو یہ تزکیہ و صیقل دل بھی اسی عطا کا حصہ ہے


7. رؤیائے صادقہ (سچا سپنا):

حضرت ابوطالب نے «حجر اسماعیل» میں ایک سچا خواب دیکھا کہ آسمان سے ان کی طرف ایک دروازہ کھل گیا ہے اور اس دروازے سے نور اور روشنی نیچے آکر ارد گرد کے ماحول کو روشن کررہی ہے.
بس عجب در خواب روشن می شود
دل درون خواب روزن می شود
آنچنان کہ یوسف صدیق را
خواب بنمودی و گشتش متکا

پس عجب ہے کہ خواب میں ہی روشن ہوتا ہے
خواب کے اندر دل دریچہ بن جاتا ہے
جیسا کہ یوسف صدیق کو خواب دکھائی دیا
اور یہی خواب ان کے لئے سہارا بن گیا


ابوطالب علیہ السلام اٹھے اور خواب تعبیر کرنے والوں کے پاس روانہ ہوئے. اور اپنے خواب کی تفصیل بیان کی.
مُعَبِّر نے کہا: بشارت ہو آپ کو! آپ کو بہت جلد ایک نہایت شرافتمند فرزند عطا ہوگا. ثقة الاسلام محمد بن یعقوب کلینی رحمة اللہ علیہ نے الکافی میں روایت کی ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کی خوشخبری سنائی؛ حضرت ابوطالب (ع) نے بھی ان کو علی علیہ السلام کی ولادت کی خوشخبری سنائی.(6)

 

8. رسول خدا(ص) کی سرپرستی:

حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کے بیٹوں میں حضرت ابوطالب (ع) برتر اخلاقیات کے مالک تھے؛ ان کی روش دوسرے بھائیوں کی نسبت زیادہ شائستہ تھی؛ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شدید محبت کرتے تھے اور آپ (ص) پر بہت مہربان تھے اور ان اوصاف کے علاوہ وہ رسول اللہ (ص) کے لئے نہایت عمیق عقیدت و احترام کے قائل تھے چنانچہ حضرت عبدالمطلب (ع) نے اپنے انتقال سے قبل ان کو حضرت رسول (ص) کا سرپرست مقرر کیا.

 

9. رسول خدا(ص) کی تربیت اور نگہداشت:

حضرت ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شدید محبت کرتے تھے؛ علاوہ ازیں وہ آپ (ص) کے روشن مستقبل سے آگاہ تھے اور انہیں معلوم تھا کہ آپ (ص) مستقبل میں رسالت الہیہ کے حامل ٹہریں گے؛ چنانچہ انہوں نے آپ (ص) کی پرورش و تربیت اور حفاظت کے سلسلے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا اور اس راستے میں انہوں نے قربانی اور ایثار کی روشن مثالیں قائم کیں اور ہر جگہ اور ہر مقام پر خطروں میں بھی آپ (ص) کو اپنے آپ پر مقدم رکھا. (7)

 

10. شریک حیات کو ہدایت:

سرپرستی کا اعزاز ملا تو رسول اللہ (ص) کو گھر لے آئے اور اپنی اہلیہ کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: «یہ میرے بھائی کے فرزند ہیں جو میرے نزدیک میری جان و مال سے زیادہ عزیز ہیں؛ خیال رکھنا! مبادا کوئی ان کو کسی چیز سے منع کرے جس کی یہ خواہش کریں » اور حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا بھی ایسی ہی تھیں اور ان کو پالتی رہیں اور ان کی ہر خواہش پوری کرتی رہیں اور رسول اللہ (ص) کے لئے مادر مہربان تھیں.(8)

 

11. مشرکین کے مد مقابل آہنی دیوار:

مورخین نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ: ابوطالب (ع) رسول خدا (ص) کو بہت دوست رکھتے تھے اور اپنے بیٹوں پر بھی اتنی مہربانی روا نہیں رکھتے تھے جتنی کہ وہ رسول اللہ (ص) پر روا رکھتے تھے؛ ابوطالب (ع) رسول اللہ (ص) کے ساتھ سویا کرتے تھے اور گھر سے باہر نکلتے وقت آپ (ص) کو ساتھ لے کر جاتے تھے؛ مشرکین نے ابوطالب علیہ السلام کے انتقال کے ساتھ ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آزار و اذیت پہنچانے کا وہ سلسلہ شروع کیا جو حیات ابوطالب (ع) میں ان کے لئے ممکن نہ تھا؛ چنانچہ رسول اللہ (ص) نے خود بھی اس امر کی طرف بار بار اشارہ فرمایا ہے.(9)

 

12. رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمنوں کو سزا:

ایک دفعہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد الحرام مین نماز ادا کررہے تھے کہ قریشی مشرکین نے اونٹ کی اوجڑی آپ (ص) کے جسم مبارک پر پھینک دی اور آپ (ص) کے کرتے کو آلودہ کیا. رسول اللہ (ص) حضرت ابوطالب(ع) کے پاس آئے اورفرمایا: چچاجان! آپ اپنے خاندان میں میرے رتبے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ ابوطالب نے کہا: پیارے بھتیجے ہؤا کیا ہے؟
رسول اکرم (ص) نے ماجرا کہہ سنایا. ابوطالب (ع) نے فوری طور پر بھائی حمزہ کو بلایا اور شمشیر حمائل کرکے حمزہ سے کہا: ایک اوجڑی اٹھالاؤ اور یوں دونوں بھائی قوم قریش کی طرف روانہ ہوئے جبکہ نبی اکرم (ص) بھی ان کے ہمراہ تھے. کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے قریش کے سرداروں کے پاس پہنچے. جب انہوں نے ہاشمی بھائیوں اور رسول اللہ (ص) کو اس حالت میں دیکھا تو سب اپنا انجام بھانپ گئے. مؤمن قریش نے بھائی حمزہ کو ہدایت کی کہ اوجڑی کو قریشیوں کی داڑھیوں اور مونچھوں پر مل لیں. حمزہ نے ایسا ہی کیا اور آخری سردار تک کے ساتھ ہدایت کے مطابق سلوک کیا. اس کے بعد ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جان سے پیارے بھتیجے یہ ہے آپ کا مقام و رتبہ ہمارے درمیان۔(10)
یوں قریشی مشرکین کو اپنے کئے کی سزا ملی اور قریش کے سرغنوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ «جب تک ابوطالب زندہ ہیں رسول اللہ (ص) کو حصول ہدف سے روک لینا، ممکن نہیں ہے.

 

13. بیٹے کو ہدایت:

جب غار حرا میں خدا کا کلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہؤا تو علی علیہ السلام آپ (ص) کے ہمراہ تھے چنانچہ آپ (ص) نے سب سے پہلے اپنے وصی و جانشین اور بھائی کو دعوت دی اور علی علیہ السلام نے لبیک کہتے ہوئے رسول اللہ (ص) کی امامت میں نماز ادا کی اور جب گھر آئے تو اپنے والد کو ماجرا کہہ سنایا اور کہا «میں رسول اللہ (ص) پر ایمان لایا ہوں تو مؤمن قریش نے ہدایت کی: «بیٹا! وہ تم کو خیر و نیکی کے سوا کسی چیز کی طرف بھی نھیں بلاتے اور تم ہر حال میں آپ (ص) کے ساتھ رہو».(11)

 

14. واضح و روشن حمایت:

جب آیت «وانذر عشیرتک الاقربین» (12) نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں کو بلا کر انہیں اپنے دین کی دعوت دی تو ان کی مخالفت کے برعکس حضرت ابوطالب علیہ السلام نے کہا: «یا رسول اللہ (ص)! آپ کی مدد اور نصرت ہمارے لئے بہت ہی زیادہ محبوب اور مقبول و پسندیدہ ہے؛ میں آپ کی خیرخواہی کی طرف متوجہ ہوں اور آپ کی مکمل طور پر تصدیق کرتا ہوں؛ جائیں اور اپنی ماموریت اور الہی فریضہ سرانجام دیں؛ خدا کی قسم میں آپ کی حفاظت کرتا رہوں گا اور کبھی بھی آپ سے جدائی پر راضی نہ ہونگا.(13)

 

15. تہدید دشمنان رسول خدا(ص):

ایک روز رسول اللہ (ص) گھر سے نکلے تو واپس نہیں ائے. حضرت ابوطالب علیہ السلام فکرمند ہوئے کہ مشرکین قریش نے کہیں آپ (ص) کو قتل ہی نہ کیا ہو؛ چنانچہ انہوں نے ہاشم اور عبدالمطلب کے فرزندوں کو اکٹھا کیا اور ان سب کو حکم دیا کہ : تیزدھار ہتھیار اپنے لباس میں چھپا کر رکھو؛ مل کر مسجدالحرام میں داخل ہوجاؤ اور تم میں سے ہر مسلح ہاشمی شخص قریش کے کسی سردار کے قریب بیٹھ جائے اور جب میں تم سے تقاضا کروں تو اٹھو اور قریش کے سرداروں کو موت کی گھاٹ اتارو.
ہاشمیوں نے حضرت ابوطالب کے حکم کی تعمیل کی اور سب کے سب مسلح ہوکر مسجدالحرام میں داخل ہوکر قریش کے سرداروں کے قریب بیٹھ گئے مگر اسی وقت زید بن حارثہ نے ان کو خبر دی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی گزند نہیں پہنچی ہے اور بلکہ آپ (ص) مسلمان کے گھر میں تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں چنانچہ منصوبے پر عملدرآمد رک گیا مگر مؤمن قریش ہاشمی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرکین قریش کو رسول اللہ (ص) کے خلاف کسی بھی معاندانہ اقدام سے باز رکھنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: میرا بھتیجا گھر سے نکلا اور گھر واپس نہیں آیا تو مجھے اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں تم نے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچایا ہو چنانچہ میں نے تمہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ پھر انہوں نے ہاشمی نوجوانوں کو حکم دیا کہ اپنے ہتھیار انہیں دکھا دیں. قریش کے سرداروں نے کانپتے ہوئے کہا: اے اباطالب! کیا تم واقعی ہمیں قتل کرنے کا ارادہ لے کر آئے تھے؟ فرمایا: اگر رسول اللہ کو تمہاری جانب سے کوئی نقصان پہنچا ہوتا تو میں تم میں سے ایک فرد کو بھی زندہ نہ چھوڑتا اور آخری سانس تک تمہارے خلاف لڑتا.(14)


واستان از دست دیوانہ سلاح
تا ز تو راضی شود عدل و صلاح
چون سلاح و جہل، جمع آید بہ ہم
گشت فرعونی جہان سوز از ستم

دیوانے کے ہاتھ سے ہتھیار چھین لو تا کہ عدل و صلاح تم سے راضی ہوجائے جب اسلحہ اور جہل ساتھ مل جائیں ظلم و ستم کے ذریعے جہان کو جلادینے والا فرعون جنم لیتا ہے

 

16. دین اسلام کے مبلغین کے حامی:

سنی عالم و مورخ و ادیب ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں:
ولولا ابوطالب علیه السلام وابنه
لما مثل الدین شخصا وقاما
فذاک بمکة آوی وحامی
وهذا بیثرب جس الحماما


اگر ابوطالب (ع) اور ان کا بیٹا (علی (ع)) نہ ہوتے مکتب اسلام ہرگز باقی نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرسکتا ابوطالب (ع) مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑہے اور علی (ع) یثرب (مدینہ) میں حمایت دین کی راہ میں موت کے بھنور میں اترے“

کثیر تعداد میں متواتر اخبار و روایات سے ثابت ہے کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام دین مبین کی ترویج کے سلسلے میں رسول اللہ (ص) کی مدد کیا کرتے تھے اور اپنے فرزندوں، اقرباء اور اہل مکہ کو آپ (ص) کی حمایت اور پیروی کی دعوت دیا کرتے تھے.
«عثمان بن مظعون» جو سچے مسلمان تھے ایک روز کعبہ کے ساتھ کھڑے ہوکر بت پرستوں کو ان کے مذموم روش سے منع کررہے تھے اور ان کو وعظ و نصیحت کررہے تھے. قریش کے نوجوانوں کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک نے عثمان پر وار کیا جس کے نتیجے میں ان کی ایک آنکھ زخمی ہوئی.
حضرت ابوطالب علیہ السلام کو اطلاع ملی تو انہیں سخت صدمہ پہنچا اور قسم کھائی کہ : جب تک اس قریشی نوجوان سے قصاص نہ لوں چین سے نہ بیٹھوں گا اور پھر انہوں نے ایسا ہی کیا. (15)


17. حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی قدردانی:

جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ان کی پذیرائی کی اور ان کی حمایت و سرپرستی کہ اور قریش کے نمائندے بھی انہیں مسلمانوں کے خلاف کرنے میں ناکام ہوئے.
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
اور جو بھی تقوائے الہی اپنائے گا خداوند متعال اس کے لئے راہ نجات فراہم کرے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق و روزی عطا کرے گا جس کا وہ گمان بھی نہیں کرتا.(16)


از رہ پنہان کہ دور از حس ماست
آفتاب چرخ را بس راہ ہاست

ہمارے حس سے دور خفیہ راستے سے
آفتاب فلک کے لئے بہت سے راستے ہیں


ابوطالب علیہ السلام کو ایک الہی فریضہ سونپا گیا تھا اور وہ ایسی عظیم شخصیت کے سرپرست تھے جو خود کائنات کے سرپرست ہیں اور انبیاء کے سردار ہیں اور خدا کے بعد ان سے کوئی بڑا نہیں ہے؛ چنانچہ رسول اللہ کے دین کی ترویج بھی ان کی ذمہ داری تھی اور جو لوگ اس راستے میں آپ (ص) کی مدد و نصرت کرتے تھے ان کی قدردانی کو بھی وہ اپنا فرض سمجہتے تھے چنانچہ جب نجاشی نے مسلمانوں کو پناہ دی تو محسن اسلام نے ان کے حق میں اشعار لکھ کر روانہ کئے. نجاشی کو جب حضرت ابوطالب کے اشعار کا تحفہ ملا تو بہت خوش ہوئے اور انہوں نے جعفر ابن طالب (ع) کی قیادت میں حبشہ میں پناہ حاصل کرنے والے مسلمانوں کے احترام میں اضافہ کیا اور ان کی پذیرائی دو چند کردی.

 

18. رسول خدا (ص) کی حفاظت و حمایت:

قریش کے تمام مشرک قبائل نے شعب ابی طالب (ع) میں خاندان رسالت اور مسلمانوں کو مکہ سے جلاوطن کیا اور شعب ابی طالب (ع) میں ان کی ناکہ بندی کردی. یہ ناکہ بندی معاشی، سماجی اور سیاسی ناکہ بندی تھی. شعب ابی طالب اس وقت شہر مکہ سے باہر واقع ایک درہ تھا. یہ ناکہ بندی شدید ترین اقدام کے طور پر قریش کی طرف سے مسلمانوں پر ٹھونسی گئی تھی اور اس دوران پیغمبر اکرم (ص) اور آپ (ص) کے ہمراہ دیگر مسلمان و مؤمنین صرف حرام مہینوں اور ایام حج میں بیت اللہ الحرام آسکتے تھے اور حج اور عمرہ بجالاسکتے تھے اور اسی دوران تبلیغ اسلام بھی کیا کرتے تھے. اس دوران صرف حضرت ابوطالب علیہ السلام تھے جو پیغمبر کی حفاظت کرتے اور رات بہر جاگتے اور نبی اکرم (ص) کے سونی کے مقام کو تبدیل کرکے اپنے بیٹے علی علیہ السلام کو آپ (ص) کے بستر پر لٹایا کرتے تا کہ اگر دشمن حملہ کرنا چاہے تو نبی (ص) کی بجائے علی قربان ہوجائیں اور ایسا عمل صرف مؤمن قریش ہی کے بس میں تھا جو اپنے ایمان کی بنیاد پر بیٹے کو بآسانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتے تھے مگر علی علیہ السلام بھی اس قربانی پر سمعاً و طاعتاً راضی و خوشنود تھے. قریش نے ایک میثاق تحریر کی تھی جس پر ناکہ بندی کے حوالے سے متعدد نکات درج تھے اور یہ عہدنامہ کعبہ کی دیوار پر ٹانکا گیا تھا جسے ایک دیمک نے نیست و نابود کردیا تو ابوطالب علیہ السلام نماز شکر بجالانے بیت اللہ الحرام میں حاضر ہوئے اور وہیں انہوں نے مشرکوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مخالفین کو بددعا دی اور ان پر نفرین کردی.(17)

 

19. کلام نور میں ابو طالب کا مقام:

امام سجاد (ع) نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان کے بارے میں شک کرنیے والے افراد کے جواب میں فرمایا: عجب ہے کہ خدا اور اس کے رسول (ص) نے غیر مسلم مرد کے ساتھ مسلم خاتون کا نکاح ممنوع قرار دیا جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا – جو سابقین مسلمین میں سے ہیں - حضرت ابوطالب علیہ السلام کے انتقال تک ان کے عقد میں رہیں".
کسی نے امام باقر(ع) کو بعض جھوٹی محدثین کی یہ جعلی حدیث سنائی کہ "ابوطالب (ع) [معاذاللہ] آگ کی کھائی میں ہیں!"
امام علیہ السلام نے فرمایا: "اگر ایمان ابوطالب (ع) ترازو کے ایک پلڑے میں رکہا جائے اور ان سب لوگوں کا ایمان دوسرے پلڑے میں تو ابوطالب (ع) کا ایمان ان سب پر بہاری نظر آئے گا".
"ابان بن محمود" نامی شخص نے امام رضا علیہ السلام کو خط میں لکہا کہ "میں آپ پر قربان جاؤں! میں ابوطالب کے ایمان کے سلسلے میں شک و تردید میں مبتلا ہوا ہوں".
امام علیہ السلام نے جواب میں تحریر فرمایا: " وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِیرًا
جو شخص حق ظاہر و آشکار ہونے کے بعد پیغمبر (ص) کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کی راہ کے سوا کسی دوسرے راستے کی پیروی کرے ہم اسے اسی راستے پر لے چلیں گے جس پر کہ وہ گامزن ہے اور اسے جہنم میں داخل کردیں گے اور جہنم بہت ہی بری جگہ ہے"(18) اما بعد جان لو کہ اگر تم ایمان ابوطالب کا یقین نہیں کروگے تو تم بھی آگ کی طرف لوٹا دئیے جاؤگے.(19)

 

20. ابو طالب علیہ السلام علی علیہ السلام کے والد ماجد:

ابوطالب (ع) کو اللہ تعالی نے ایک ایسے فرزند سے نوازا جو زمانے کے بہترین فرزند تھے. اس فرزند کی ولادت بھی ایسی ہوئی جس کی مثال اس سے پہلے کبھی بھی نظر نہیں آئی اور بعد میں میں بھی نظر نہیں آئے گی. اسی بنا پر وہ اپنے نومولود فرزند کے ساتھ خاص محبت رکہتے تھے. بعثت نبی (ص) سنہ 40 عام الفیل کو واقع ہوئی اور اس وقت علی علیہ السلام کی عمر شریف کے صرف دس برس بیت گئے تھے مگر حضرت ابوطالب نے اپنے اس فرزند کے بارے میں جو پیشین گوئیاں کی ہیں وہ سب ان کے ایمان اور اعتقاد راسخ پر دلالت کرتی ہیں. انہوں نے ایک شعر کے ضمن میں فرمایا: «علی کی ولادت کے ساتھ ہی کفر کی کمر خم ہوئی اور اس کی شمشیر کے ذریعے اسلام کی بنیادیں استوار اور مستحکم ہو جائیں گی" حضرت ابوطالب (ع) نے خداوند متعال سے اپنے بیٹے کے لئے نام منتخب کرنے کی درخواست کی تھی اور اسی درخواست کی بنا پر آسمانوں سے ایک «لوح لطیف» نازل ہوئی اور ابراہیم خلیل علیہ و علی نبینا و آلہ السلام کے وارث و جانشین حضرت ابوطالب علیہ السلام کی آغوش میں آپڑی. اس لوح پر لکہی ہوئی تحریر کے ذریعے حضرت ابوطالب اور حضرت فاطمہ بنت اسد علیہما السلام کو پاک و برگزیدہ فرزند کی ولادت کی خوشخبری سنائی گئی تھی اور اس فرزند کا نام «علی» رکہا گیا تھا.(20)

 

21. غم ہجران:

شعب ابی طالب (ع) میں ناکہ بندی کے دوران مؤمن قریش کو شدید صعوبتیں جہیلنی پڑیں اور شدید دباؤ اور مشکلات سہہ لینے کی وجہ سے حضرت ابوطالب کمزور ہوگئے چنانچہ ناکہ بندی کے خاتمے کے چھ مہینے بعد بعثت نبوی کے دسویں برس کو حضرت ابوطالب علیہ السلام وفات پاگئے جس کی وجہ سے حضرت رسول اللہ (ص) کو شدید ترین صدمہ ہوا اور بے تاب ہوکر اپنے چچا اور غمخوار کے سرہانے تشریف فرما ہوئے اور ان کے چہرے پر اپنے مقدس ہاتھ پھیر پھیر کر فرمایا: چچا جان! آپ نی بچپن میں میری تربیت کی؛ میری یتیمی کی دور میں آپ نے میری سرپرستی کی اور جب میں بڑا ہؤا تو آپ نے میری حمایت اور نصرت کی؛ خداوند متعال میری جانب سے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے. میت اٹھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنازے سے آگے آگے قبرستان کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں بھی محسن اسلام کے لئے دعائے خیر فرماتے رہے.(21)

 

22. اشعار ابو طالب علیہ السلام:

آخر میں حضرت ابو طالب علیہ السلام کی پر مغز اشعار کے کچھ ابیات پیش کئے جارہے ہیں جن سے کسی حد تک خدا اور اس کے رسول (ص) پر ان کی ایمان راسخ اور اعتقاد عمیق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
و الله لا اخذل النبی و لا
یخذله من بنی ذو حسب
اللہ کی قسم کہ میں نبی (ص) کو تنہا نہیں چہوڑوں گا اور
میرے فرزندوں میں سے بھی کوئی با شرف آپ (ص) کو تنہا نہ چہوڑے گا.
انہوں نے حبشہ کی بادشاہ کو اشعار کا تحفہ بھیجا تو ان اشعار کے ذریعے انہوں نے رسول اللہ (ص) پر اپنے ایمان و اعتقاد کے علاوہ انبیاء سلف علی نبینا و علیہم السلام کے بارے میں بھی اپنے ایمان و اعتقاد کی وضاحت کی اور نجاشی کو مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت کی ترغیب دلائی:
تعلم ملیک الحبش ان محمدا
نبی کموسی و المسیح ابن مریم
اتانا بهدی مثل ما اتیا به
فکل بامر الله یهدی و یعصم(22)
 

ای حبشہ کے بادشاہ جان لے کہ بتحقیق محمد (ص) نبی ہیں جیسے کہ موسی اور عیسی ابن مریم نبی ہیں وہ ہمارے پاس ہدایت لے کر آئے جیسا کہ وہ دونوں لائے تھے پس تمام انبیاء الہی خدا کے فرمان پر امتوں کی راہنمائی کرکے انہیں پلیدیوں اور گناہوں سے بچالیتے ہیں
ابوطالب علی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اپنی وفاداری اور آپ (ص) کی حمایت کا یوں اظہار فرماتے ہیں:
والله لن یصلوا الیک بجمعهم حتی اوسد فی التراب دفینا و ذکرت دینا لا محالة انه من خیر ادیان البریة دینا(23)

اللہ کی قسم! کہ ان کا ہاتھ - سب مل کر بھی – آپ تک نہ پہنچ سکے گا جب تک کہ میں زمین کے سینے میں دفن نہ ہؤا ہوں اور جو دین آپ لائے ہیں اور آپ نے اس کی یادآوری فرمائی ہے بے شک و ناگزیر انسانوں کے لئے بھیجے گئے ادیان سے بہترین ہے


مآخذ‏:

1. بحارالانوار، ج 35، ص121.
2. ینابیع المودة، قندوزی حنفی، ج2، ص 10.
3. صحیح بخاری، ج 3، ص 196.
4. مجالس المومنین، قاضی نور اللہ شوشتری ،ج 1، ص 163.
5. السیرة الحلبیة، ج 1، ص 125،شرح نہج البلاغة، ج 3، ص 316،الملل و النحل، شہرستانی پاورقی،ص 255.
6. اصول کافی، شیخ کلینی، کتاب الحجة ،باب تولد امیرالمومنین، ص 301.
7. امام علی صدای عدالت انسانی، جرج جرداق، ترجمہ سیدہادی خسروشاہی، ج1 . 2، ص 74.
8. تاریخ انبیا، ج3، سیدہاشم رسولی محلاتی، ص 76.
9. تاریخ طبری ،ج 2، ص 229.
10. الکافی ج1 ص 449۔
11. امام علی صدای عدالت انسانی، ج 1.2، ص 77 . 78.
12. شعرا، 214.
13. الکامل، ابن اثیر، ج 2، ص 24.
14. طرائف، ص 85 و طبقات کبری، ابن سعد، ج 1، ص 302.303.
15. شرح نہج البلاغة،ج 3، ص 313.
16. سورہ طلاق آیات 2 و 3.
17. الغدیر، ج 7، ص 364 والکامل فی التاریخ، ج 2، ص 71.
18. نسا، 115.
19. الغدیر، ج 7، ص 36.
20. مناقب ،ابن شہر آشوب ،ج 2، ص 175.
21. تاریخ انبیا، ج 3، ص 218.
22. بحار الانوار، ج 35، ص 122 . 123.
23. بحار الانوار، ج 35، ص 122 . 123.

مؤلف: غلامرضا گلی زوارہ ذرائع: ترجمہ: ف.ح.مہدوی 

اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈر پاکستان کے عسکری و سیاسی حکام سے ملاقات کے لئے اسلام آباد کے دورے پر ہیں۔

ایران کی فضائیہ کے کمانڈر جنرل حمید واحدی اتوار کو پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچے ہیں۔

جنرل حمید واحدی اپنے اس دورے میں اپنے پاکستانی ہم منصب ظھیر احمد بابر اور پاکستان کی دفاعی پیداوار کی وزیر زبیدہ جلال سے ملاقات و گفتگو کریں گے۔

جنرل واحدی کے دورہ پاکستان کا مقصد باہمی فوجی تعاون کے فروغ بالخصوص ٹریننگ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تجربات کے تبادلے پر گفتگو کرنا ہے۔ جنرل حمید احمدی کے پروگرام میں پاکستانی فضائیہ کے اڈوں اور کیڈٹ کالج کا دورہ بھی شامل ہے۔

  ایرانی پاستور انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ نے دنیا میں ایسے ممالک کی تعداد جو کورونا ویکسین تیار کرنے والے ممالک کی تعداد 10 ممالک ہیں جو ایران ان 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔

یہ بات ڈاکٹر  علیرضا بیگلری  نے  آج بروز اتوار 'کورونا، پبلک سیفٹی اور ہیلتھ' کے بارے میں قومی کانفرنس  کے موقع پر صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ ایران کورونا ویکسین کی تیاری کے مختلف پلیٹ فارمز اور طریقوں میں داخل ہونے میں کامیاب رہا اور اس میدان میں کامیاب ہوا جس سے ویکسین ٹیکنالوجی کے میدان میں ملک کی شاندار ترقی اور کامیابی کا پتہ چلتا ہے۔

بیگلری نے بتایا کہ اگرچہ گزشتہ مہینوں میں اس شعبے میں ملک میں کوتاہیاں موجود تھیں لیکن آج ہمارے ہم وطن اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ اگر  تیسری اور چوتھی خوراک کی ضرورت ہو‏ئے ملکی کمپنیاں اس ویکسین کو تیار کر سکتی ہیں۔

 انہوں نے پاسٹوکووکس ویکسین سے لوگوں کے اچھے استقبال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بہت سے ممالک بشمول ہمسائہ ممالک نے اس ویکسین کا بہت خیر مقدم کیا ہے جو یہ ملک کے لیے باعث فخر ہے

تہران، ارنا- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، یوکرین کے تنازع کے پُرامن حل کے لیے کسی بھی سفارتی کوشش کی حمایت کرتا ہے اور یوکرین میں قیام امن کی واپسی میں کردار ادا کرنے پر تیار ہے۔

رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے اتوار کی شام کابینہ کے اجلاس میں امام موسیٰ ابن جعفر (ع) کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے یوکرین کی حالیہ تبدیلیوں کا ذکر کیا اور کہا اسلامی جمہوریہ ایران اپنی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں کی بنیاد پر تسلط پسندی اور تسلط کے سامنے سر جھکانے کی مخالفت کرتا ہے اور تمام اقوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتا ہے۔

*** ایران کا تمام ممالک کی علاقائی سالمیت اور قومی خودمختاری کے تحفظ پر زور

 صدر رئیسی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، نیٹو کی توسیع پسندی کے عشروں سے متعلق سیکورٹی خدشات کو سمجھتے ہوئے، تمام ممالک کی ارضی سالمیت اور قومی خود مختاری کے تحفظ پر زور دیتا ہے۔ ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام فریقین کی طرف سے سفارت کاری اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی مخلصانہ پابندی موجودہ صورتحال سے نکلنے کا واحد دیرپا اور منصفانہ راستہ ہے۔

رئیسی نے مزید کہا کہ شہریوں اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی پاسداری پر تمام فریقین کو سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ تمام ایرانی شہریوں بالخصوص یوکرین میں ہمارے طلباء کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے وزارت خارجہ اور دیگر ذمہ دار اداروں کے دیے گئے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔

*** تعلیمی امور کے فعال کردار سے بہت سی سماجی برائیاں کم ہوتی ہیں

صدر نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں، تعلیمی امور اور اسلامی تعلیم کے دن کو یاد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکولوں میں تعلیمی امور  شہدا رجائی اور باہنر کی یادگاروں میں شامل ہیں۔ وزارت تعلیم کو مقدار اور معیار کے لحاظ سے تعلیمی امور اور معلمین کا خیال رکھنا چاہیے۔ تعلیمی امور کی فعال منصوبہ بندی سے بہت سی سماجی برائیاں کم ہوتی ہیں۔

انہوں نے تیل و توانائی کے وزراء اور دونوں وزارتوں کے عملے کی کھپت میں اضافے کے باوجود سردیوں میں گیس اور بجلی کی پائیدار فراہمی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اسے عوام کی بھلائی کے لیے معاملات کو منظم کرنے کی ایک کامیاب مثال قرار دیا۔

*** کاروبار اور پیداوار کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک کاروباری لائسنس جاری کرنے میں تاخیر ہے

صدر رئیسی نے سال کے بہترین نعرے کیساتھ "پروڈکشن؛ حمایت اور رکاوٹوں کو دور کرنے" کی طرف اشارہ کیا اور زور دیا کہ انٹرپرینیورشپ اور پیداوار کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک کاروباری لائسنس جاری کرنے میں تاخیر ہے، جس کی وجہ سے پیداوار بند ہو جاتی ہے اور بہت زیادہ عدم اطمینان ہوتا ہے۔ کاروباری لائسنس کے اجراء کے لیے سہولت فراہم کرنا اور وقت کم کرنا حکومت کے منصوبوں اور عوام کی مرضی کا حصہ ہے اور اب یہ قانون بن چکا ہے۔

***حکومت سرمایہ کاروں، تاجروں اور حلال کاروبار کی حمایت کرتی ہے

صدر مملکت نے اس بات پر زور دیا تمام اداروں کو مقررہ وقت تک تجارتی لائسنس جاری کرنے کے عمل کو منظم کرنا چاہیے اور یہ تنظیم طاقت کے ساتھ اور غفلت کے بغیر انجام دینی چاہیے۔ حکومت سرمایہ کاروں، تاجروں اور حلال کاروبار کی حمایت کرتی ہے۔

صدر رئیسی نے شمالی ساحلوں کی آزادی کے مسئلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ چونکہ لوگوں نے ساحلوں کی آزادی کے کامیاب عمل کو دیکھا، وہ خوش ہیں اور  بجا طور پر توقع بھی کرتے ہیں کہ متعلقہ ایجنسیاں اور ادارے دوسرے شعبوں میں بھی ایسا ہی کریں گے۔

"انتم الصراط الاقوم والسبیل الاعظم وشهداء دار الفناء وشفعاء دار البقاء" (زیارت جامعة کبیرة)

 

"آپ ھی صراط اقوام (بہت ھی سیدھا راستہ) ھیں، عظیم ترین راستہ (وسیلہ) اس فانی دنیا کے گواہ، باقی رھنے والی دنیا کے شفیع ھیں۔"
چونکہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم اور مشیت سے زندہ ھیں ان کے علاوہ باقی آئمہ طاھرین علیھم السلام جام شھادت نوش فرما چکے ھیں۔ان میں سے کوئی امام بھی طبعی موت یا کسی بیماری کی وجہ سے اس دنیا سے نھیں گیا۔ ھمارے آئمہ اطھار شھادت کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ھیں۔ سب سے پھلے تو ھمارا ھر امام ھمیشہ اپنے لیے خدا سے شھادت کی دعا کرتا ھے۔ پھر انھوں نے جو ھمیں دعائیں تعلیم فرمائیں ھیں ان میں سے بھی شھادت سب سے پسندیدہ چیز متعارف کی گئی ھے جیسا کہ ھمارا آقا و مولا حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں۔ میں بستر کی موت کو سخت ناپسند کرتا ھوں۔ مجھ پر ھزار ٹوٹ پڑنے والی تلواریں اور ھزاروں زخم اس سے کھیں بھتر ھیں کہ میں آرام سے بستر کی موت مروں۔ ان کی دعاؤں میں یھی التجاء ھے، تمناؤں میں یھی تمنا، آرزوؤں میں یھی آرزو، مناجات میں یھی دعا ھے کہ خدا ھمیں شھادت کے سرخ خون سے نھلا کر اپنی ابدی زندگی عطا فرما، غیرت رحمیت، حریت، و عظمت میری زندگی کا نصب العین ٹھرے۔ زیارت جامعہ کبیرہ میں ھم پڑھتے ھیں کہ:
"انتم الصراط الاقوم، والسبیل الاعظم و شهداء دار الفناء وشفعاء دار البقاء"
"کہ آپ بہت ھی سیدھا راستہ، عظیم ترین شاھراہ آپ اس جھان کے شھید اور اس جھان کے شفاعت کرنے، بخشوانے والے ھیں۔"
لفظ شھید امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی کے ساتھ وقف کیا گیا ھے ھم عام طور پر جب بھی آپ کا نام لیتے ھیں"تو الحسین الشھید"کھتے ھیں اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ صادق اور امام موسیٰ ابن جعفر کا لقب موسیٰ الکاظم اور سید الشھداء کا لقب حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ خاص ھے۔ اس کا یہ مطلب ھر گز نہ لیا جائے کہ ائمہ طاھرین علیھم السلام میں سے امام حسین علیہ السلام ھی شھید ھوئے ھیں؟ اس طرح موسیٰ ابن جعفر کے ساتھ کاظم کا لقب ھے اس کا مقصد یہ نھیں ھے کہ صرف وھی کاظم ھیں، امام رضا علیہ السلام کے ساتھ الرضا کا لقب خاص ھے اس کا یہ معنی نھیں کہ دوسرے ائمہ رضا نھیں ھیں اگر امام جعفر صادق کو صادق (ع) کھتے ھیں تو اس کا یہ مفھوم نھیں ھے کہ دوسرے ائمہ صادق نھیں ھیں۔ یہ سارے کے سارے محمد (ص) بھی ھیں اور علی (ع) بھی ان کی زندگی ایک دوسرے کی زندگی کا عکس ھے۔ تاثیر بھی ایک، خوشبو بھی، ایک سلسلہ نسب بھی ایک مقصد حیات بھی ایک۔

 

جھاد اور عصری تقاضے

یھاں پر ایک سوال اٹھتا ھے کہ تمام ائمہ اطھار علیھم السلام شھید کیوں ھوئے ھیں؟ حالانکہ تاریخ ھمیں بتلاتی ھے کہ امام حسین علیہ السلام کے سوا کوئی امام تلوار لے کر میدان جھاد میں نھیں آیا۔ امام سجاد (ع) خاموشی کے باوجود شھید کیوں ھوئے؟ اسی طرح امام باقر (ع)، امام صادق (ع) امام موسی کاظم (ع) اور باقی تمام ائمہ شھید کیوں ھوئے ھیں؟ اس کا جواب یہ ھے یہ ھماری بہت بڑی غلطی ھوگی کہ اگر یہ سمجھیں کہ امام حسین (ع) اور دیگر ائمہ طاھرین (ع) کے انداز جھاد میں فرق ھے؟ اسی طرح کچھ ناسمجھ لوگ تک بھی کھہ دیتے ھیں کہ امام حسین علیہ السلام ظالم حکمرانوں کے ساتھ لڑنے کو ترجیح دیتے تھے اور باقی ائمہ خاموشی کے ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتے تھے۔ درحقیقت اعتراض کرنے والے یہ کہہ کر بہت غلطی کرتے ھیں۔ ھمارے مسلمان بھائیوں کو حقیقت حال کو جانچنا اور پھچاننا چاھیے۔ ھمارے ائمہ طاھرین (ع) میں سے کوئی امام ظالم حکومت کے ساتھ سمجھوتہ نھیں کرسکتا اور نہ ھی وہ اس لیے خاموش رھتے تھے کہ ظالم حکمران حکومت کرتے رھیں۔ حالات و واقعات کا فرق تھا موقعہ محل کی مناسبت کے ساتھ ساتھ جھاد میں بھی فرق ھے۔ کسی وقت ان کو مجبوراً تلوار اٹھانا پڑی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حالات میں سخت گھٹن پیدا ھوگئی، یھاں تک کہ لوگوں کا سانس لینا بھی مشکل ھو گیا تھا۔ اس کے باوجود ھمارے کسی امام نے بھی حکومت وقت کے ساتھ سمجھوتہ نہ کیا بلکہ وہ ظالموں، آمروں کو بار بار ٹوکتے اور ان کے مظالم کے خلاف آواز حق بلند کرتے تھے۔
آپ اگر ائمہ طاھرین (ع) کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ آل محمد (ص) نے ھمیشہ اور ھر دور میں ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور مظلوموں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ان کی ھر طرح کی مدد بھی کی۔ جب کبھی ان کی اپنے دور کے حکمران سے ملاقات ھوتی تھی تو وہ اس کے منہ پر ٹوک دیتے تھے۔ آپ کو تاریخ میں یہ کبھی نھیں ملے گا کہ آئمہ اطھار (ع) میں کسی امام نے کسی حکمران کی حمایت کی ھو۔ وہ ھمیشہ مجاھدت میں رھے۔ تقیہ کا یہ مقصد نھیں ھے کہ وہ آرام و سکون سے زندگی بسر کرنا چاھتے تھے تقیہ وقی سے جیسا کہ تقویٰ کا مادہ بھی وقی ھے ۔ تقیہ کا معنی یہ ھے کہ خفیہ طور پر اپنا اور اپنے نظریے کا دفاع کرنا۔ ھمارے ائمہ طاھرین (ع) تقیہ کی حالت میں جو جو کارنامے سرانجام دیتے شاید تلوار ٹھانے کی صورت میں حاصل نہ ھوتے۔ ھمارے ائمہ کی بھترین حکمت عملی، حسن تدبر اور مجاھدت کی زندگی بسر کرنا ھمارے لیے باعث فخر ھے۔ وقت گزر گیا مورخین نے لکھ دیا کہ آل محمد (ص) حق پر تھے۔ ان کا ھر کام اپنے جد امجد رسول اکرم (ص) کے مقدس ترین دین کو تحفظ فراھم کر نے کیلئے تھا۔ آج ان کا دشمن دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک قابل نفرین اور مستحق لعنت ھے۔ صدیاں بیت گئیں۔ عبدالملک مروان، اولاد عبدالملک، عبد الملک کے بھتیجے بنی العباس، منصور دوانیقی، ابو العباس سفاح، ھارون الرشید، مامون و متوکل تاریخ انسانیت کے بدنام ترین انسان شمار کیے جاتے ھیں۔ ھم شیعوں کے نزدیک یہ لوگ غاصب ترین حکمران تھے انھوں نے شریعت اسلامیہ کو جتنا نقصان پھنچایا ھے۔ اس پر ان کی جتنی مذمت کی جائے کم ھے۔ اگر ھمارے ائمہ طاھرین (ع) ان کے خلاف جھاد نہ کرتے تو وہ اس سے بڑھ کر بلکہ علانیہ طور پر فسق و فجور کا مظاھرہ کرتے، نہ جانے کیا سے کیا ھو جاتا۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں مخلص نہ تھےائمہ طاھرین (ع) کے ساتھ مقابلہ کرنے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے ظاھری طور پر اسلام کا نام لیتے اور علمی مراکز اور مساجد قائم کر کے لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کرتے کہ وہ پکے اور سچے مسلمان ھیں۔ لیکن ائمہ حق نے نہ صرف ان کے منافقانہ چھروں سے نقاب اٹھا کر ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ لوگوں کو بھی راہ راست پر لانے کی بھر پور کوشش کی۔
اگر آل محمد (ص) ان ظالموں کے خلاف مجاھدت و مقاومت نہ کرتے تو آج تاریخ اسلام میں ان جیسے منافق، خود نما مسلمان حکمرانوں کو اسلام کے ھیرو کے طور پر متعارف کرایا جاتا۔ اگر چہ کچھ اب بھی ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔لیکن مسلمان کی اکثریت تاریخی حقائق کو ان کی بات کی طرف دھیان نھیں دیتی۔ اس نشست میں ھم امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شھادت کی وجوھات اور محرکات پر روشنی ڈالنا چاھتے ھیں کہ امام علیہ السلام کو شھید کیوں کیا گیا؟ آپ کو سالھا سال کی قید با مشقت اور اسیری کے انتھائی تکلیف دہ ایام گزارنے کے باوجود آپ کو زھر دے کر شھید کیوں کردیا گیا؟ اس کی وجہ یہ ھے کہ آپ پر بے پناہ مظالم ڈھانے کے بعد بھی وہ امام کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہ ھوسکے۔ جب وہ ھر طرح سے ناکام و نامراد ھوگئے تو استقامت اور پائیداری کے اس عظیم المنزلت پہاڑ کو بزدلانہ حرکت کے ذریعہ گرانے کی ناکام کوشش کی گئی کہ آپ کو زھر دے کر شھید کر دیا گیا۔

امام زندان بصرہ میں

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو ایک زندان میں نھیں رکھا گیا بلکہ آپ کو مختلف زندانوں میں رکھا جاتا۔ آج ایک زندان میں توکل کسی اور زندانوں میں منتقل کیا جاتا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینا مقصود تھا اور دوسری وجہ آپ جس جیل میں جاتے وھاں کے قیدی آپ کے مرید بن جاتے۔ سب سے پھلے امام کو عیسیٰ بن ابی جعفر منصور کے زندان میں بھیجا گیا۔ یہ منصور دوانیقی کا پوتا تھا اور بصرہ کا گورنر تھا امام علیہ السلام کی نگرانی اس کے ذمہ تھی۔ یہ عیاش ترین شخص تھا۔ھر وقت نشہ میں مدھوش رھتا اور رقص و سرور، ناچ گانے کی محفلیں منعقد کرتا تھا۔ ایک کسان کے بقول کہ اس عارف خدا ترس، عابد و زاھد انسان کو ایسی جگہ پر قیدی بنا کر لایا گیا کہ جس کا تصور بھی نھیں کیا جا سکتا، آپ کے کانوں میں ناچنے گانے والوں کی آوازیں آتی تھیں۔ ایسی آوازیں کہ آپ نے زندگی بھر نہ سنی تھیں۔۷ ذی الحجہ سال ۱۷۸کو امام علیہ السلام کو زندان بصرہ میں لایا گیا۔ عید الاضحیٰ کا دن تھا اس لیے لوگ خوشیاں اور جشن منارھے تھے۔ آپ کو روحانی و ذھنی لحاظ سے بہت زیادہ تکلیف پھنچائی گئی۔
آپ (ع) ایک طویل مدت تک اس زندان میں رھے۔ عیسیٰ بن جعفر آھستہ آھستہ آپ کا مرید ھوگیا۔ وہ پھلے آپ کے بارے میں کچھ اور خیال کرتا تھا وہ سمجھتا تھا کہ امام موسیٰ کاظم (ع) حکومت و سیاست کیلئے کوشاں ھیں لیکن اس نے جب دیکھا کہ امام علیہ السلام تو بہت ھی عظیم اور عبادت گزار شخصیت ھیں۔ اس کے بعد اس کی سوچ یکسر بدل گئی چناچہ اس نے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ امام علیہ السلام کے لیے بھترین کمرہ مھیا کیا جائے۔ آپ کا غیر معمولی طور پر احترام کیا جانے لگا۔ ھارون نے اسے پیغام بھیجا کہ اس قیدی کا خاتمہ کر دے۔ عیسیٰ نے جواب میں کھا کہ میں ایسا ھر گز نھیں کرسکتا۔ بھتر یہ ھے کہ یہ قیدی مجھ سے واپس لے لیا جائے۔ ورنہ میں ان کو آزاد کردوں گا۔ میں اس قسم کے عظیم انسان کو اپنے قید خانے میں نھیں رکھ سکتا چونکہ وہ خلیفہ وقت کا چچا زاد بھائی اور منصور کا پوتا تھا اس لیے اس کی بات میں وزن تھا اور امام کو کسی دوسرے زندان میں منتقل کر دیا گیا۔

امام علیہ السلام مختلف زندانوں میں

حضرت امام موسی کاظم کو بغداد لایا گیا یھاں پر فضل بن ربیع مشھور دروغہ تھا۔ امام (ع) کو اس کے سپرد کر دیا گیا۔ اس پر تمام خلفاء اعتماد کرتے تھے۔
ھارون نے اس سے خاص تاکید کی تھی کہ امام علیہ السلام کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہ برتے بلکہ جتنا ھوسکے ان پر سختی کی جائے لیکن فضل امام کے معصومانہ کردار کو دیکھ کر پسیج گیا اور آپ کا عقیدت مند بن گیا۔ سختی کی بجائے نرمی سے پیش آنے لگا۔ زندان کے کمرے کو ٹھیک کیا اور امام علیہ السلام کو قدرے سھولتیں فراھم کیں۔ جاسوس نے ھارون کو خبر دی کہ امام موسی کاظم فضل بن ربیع کے زندان میں آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کررھے ھیں۔ یوں محسوس ھورھا ھے کہ زندان نھیں ھے بلکہ مھمان سرا ھے۔ ھارون نے امام علیہ السلام کو اس سے لے کر فضل بن یحییٰ برمکی کی نگرانی میں دے دیا۔ فضل بن یحییٰ بھی کچھ عرصہ کے بعد امام (ع) سے محبت کرنے لگا۔ ھارون کو جب اس کے رویے کی تبدیلی کی خبر ملی تو سخت غضبناک ھوا اور اپنے جاسوس کو بھیجا کہ جاکر معاملہ کی تحقیق کریں۔ جب جاسوس آئے تو معاملہ ویسا ھی تھا جیسا کہ ھارون کو بتیا گیا تھا۔ھارون فضل برم، کی پر سخت ناراض ھوا اس کا باپ وزیر تھا، یہ ایرانی النسل تھا۔ بہت ھی ملعون شخص تھا۔ اس کو ڈر لاحق ھوا کہ کھیں اس کا بیٹا خلیفہ کی نظروں میں گر نہ جائے، یہ فوری طور پر ھارون کے پاس آیا اور کھا کہ وہ اس کے بیٹے کی غلطی کو معاف کر دے۔ اس کی جگہ پر میں معافی مانگتا ھوں۔ اور میرا بیٹا بھی اپنے کیے پر شرمندہ ھے۔ پھر وہ بغداد آیا امام (ع) کو اپنے بیٹے کی نگرانی سے لے کر سندی بن شاھک کی نگرانی میں دیا۔ یہ انتھائی ظالم اور سفاک آدمی میں تھا اور مسلمان بھی نہ تھا، اس لیے امام علیہ السلام کے بارے میں اس کے دل ذرا بھر رحم نہ تھا۔ پھر کیا ھوا؟ امام علیہ السلام پر سختی کی جانے لگی اس کے بعد میرے آقا نے کسی لحاظ سے سکون نھیں دیکھا ۔

ھارون کا امام علیہ السلام سے تقاضا

امام علیہ السلام کے زندان میں آخری دن تھے، یہ تقریباً شھادت سے ایک ھفتہ پھلے کی بات ھے۔ ھارون نے یحییٰ برمکی کو امام علیہ السلام کے پاس بھیجا اور انتھائی نرم اور ملائم لھجہ کے ساتھ اس سے کھا کہ میری طرف سے میرے چچا زاد بھائی کو سلام کھنا اور ان سے یہ بھی کھنا کہ ھم پر ثابت ھو چکا ھے کہ آپ بے قصور ھیں آپ کا کوئی گناہ نھیں ھے لیکن افسوس کہ میں نے قسم اٹھا رکھی ھے کہ اس کو توڑ نھیں سکتا۔ میری قسم یہ کہ جب تک آپ اپنے گناہ کا اعتراف نہ کریں گے اور مجھ سے معافی نھیں مانگیں گے تو آپ کو آزاد نھیں کروں گا اور کسی کو پتہ بھی نہ چلے آپ صرف یحییٰ کے سامنے اعتراف جرم کرلیں۔ میرے سامنے معافی مانگنے کی بھی ضرورت نھیں ھے۔ یہ بھی ضروری نھیں ھے کہ اعتراف جرم کے وقت بھت سے لوگ موجود ھوں میں تو صرف اتنا ھی چاھتا ھوں کہ اپنی قسم نہ توڑوں۔ آپ یحییٰ برمکی کے سامنے اعتراف گناہ کر لیں اور صرف اتنا کھہ دیں کہ معافی چاھتا ھوں، میں نے غلطی کی ھے مجھے معاف کر دیجئے تو میں آپ کو آزاد کردوں گا۔ اس کے بعد میرے پاس تشریف لے آیئے اور میں آپ کی ھر طرح کی خدمت کروں گا۔
اب اس استقامت کوہ گراں کی طرف دیکھئے۔ یہ شفیح روز جزاء کیوں ھیں؟ یہ شھید کیوں ھو جاتے ھیں؟ یہ ایمان اور اپنے نظریہ کی پختگی کی وجہ سے شھید کیے گئے اگر یہ سب آئمہ اپنے موقف کو بدل دیتے اور احکام وقت کی ہاں میں ہاں ملاتے تو ھر طرح کا آرام و سکون حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن رات اور دن اور حق و باطل، روشنی اور تاریکی، سچ اور جھوٹ ایک جگہ پر جمع نھیں ھوسکتے۔ بھلا امام وقت کسی حاکم وقت کے ساتھ کس طرح سمجھوتہ کر سکتا ھے؟! آپ نے یحیٰ کو جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ ھارون سے کھہ دینا کہ میری زندگی کے دن ختم ھو چکے ھیں اس کے بعد تو جان اور تیرا کام جانے۔ ھم نے جو کرنا تھا وہ کرچکے۔ اس کے بعد میرے آقا کو زھر دے کر شھید کر دیا گیا ۔

امام علیہ السلام کی گرفتاری کی وجہ؟

اب سوال یہ ھوتا ھے کہ ھارون نے امام علیہ السلام کو گرفتار کرنے کا حکم کیوں دیا تھا؟ اس لیے کہ وہ امام علیہ السلام کی عوام میں غیر معمولی مقبولیت کے باعث آپ سے حسد کرتا تھا اور اس کو یہ بھی ڈر تھا کہ لوگ ھمیں چھوڑ کر امام علیہ السلام کو اپنا مذھبی و سیاسی رھنما نہ بنالیں۔ ھارون دیگر خلفاء کی مانند آل محمد علیھم السلام کے ھر فرد سے ھراساں رھتا وہ اس خدشہ کے تحت ھمیشہ چوکنا رھتا تھا کہ آل رسول کھیں انقلاب نہ لے آئیں۔ وہ روحانی و نظریاتی انقلاب سے بھی ڈرتے تھے۔ اس لیے وہ لوگوں کو آئمہ طاھرین علیھم السلام کے ساتھ ملنے نہ دیا کرتے، لوگوں کی آمد و رفت پر مکمل طور پر پابندی تھی۔ جب ھارون نے چاھا کہ اپنے بیٹوں امین اور اس کے بعد مامون اور اس کے بعد موتمن کی ولیعھدی کا دوبارہ رسمی طور پر اعلان کرے تو وہ شھر کے علماء اور زعماء کو دعوت کرتا ھے کہ وہ مکہ میں اس سلسلے میں بلائی جانے والی عالمی کانفرنس میں شرکت کریں اور سب لوگ اس کی دوبارہ بیعت کریں لیکن سوچتا ھے کہ اس منصوبہ اور پروگرام کے سامنے رکاوٹ کون ھے؟وہ کون ھے کہ جس کی موجودگی خلیفہ کے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی کر سکتی ھے۔ کون ھے وہ کہ جس کی علمی استعداد اور پاکیزگی کردار لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ھے۔
کون ھے وہ کہ جس کی معصومانہ کشش اور مظلومانہ انداز احتجاج اس کی حکومت ظلم کی چولیں ھلاسکتا ھے؟ ظاھر ھے وہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ھی ھو سکتے ھیں۔ وہ مدینہ آتے ھی امام (ع) کی گرفتاری کا آرڈر جاری کر دیتا ھے۔ یھی یحییٰ برمکی ایک شخص سے کھتا ھے کہ مجھے گمان ھے کہ خلیفہ وقت آج نھیں توکل امام علیہ السلام کو گرفتار کرنے کا حکم صادر کر دے گا۔ اس شخص نے پوچھا وہ کیسے؟ بولا میں خلیفہ مسجد النبی (ص) میں گئے تو اس نے اس انداز میں حضور پر سلام کیا السلام علیک یاابن العم۔ سلام ھو آپ پر اے میرے چچا کے بیٹے۔ آپ سے معزرت چاھتا ھوں ۔ میں آپ کے بیٹے موسیٰ کاظم کو گرفتار کرنے پر مجبور ھوں (گویا وہ پیغمبر اسلام کے سامنے بھی جھوٹ بول رھا تھا) اگر میں ایسا اقدام نہ کروں تو ملک میں بھت بڑا فتنہ کھڑا ھوجائے گا۔ اجتماعی اور ملکی مفاد کیلئے کچھ دیر کیلئے امام علیہ السلام کو نظر بند کر رھا ھوں۔ یا رسول اللہ میں آپ سے معافی چاھتا ھوں۔ یحییٰ نے اپنے ساتھی سے کھا دیکھ لینا آج کل امام علیہ السلام نظر بند ھو جائیں گے۔ چناچہ ھارون نے امام کی گرفتاری کے لیے احکامات صادر کر دیئے۔ پولیس امام (ع) کے گھر گئی تو آپ وھاں پر موجود نہ تھے۔ پھر وہ مسجد النبی (ص) میں آئے دیکھا تو آپ نماز پڑھ رھے تھے۔ ان ظالموں نے آپ کو نماز مکمل کرنے کا موقعہ ھی نہ دیا۔ نماز کے دوران امام کو پکڑ کر زبردستی مسجد سے باھر لے آئے۔ اس وقت حضرت نے قبر رسول (ص) پر حسرت بھری نگاہ سے دیکھا اور عرض کی "السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا جداہ" نانا اپنے اسیر و مجبور بیٹے کا سلام قبول فرمائے دیکھ لیا آپ نے کہ آپ کی امت آپ کی اولاد کے ساتھ کیا سلوک کر رھی ھے؟
ھارون ایسا کیوں کر رھا ھے؟اس لیے کہ اپنے بیٹوں کی ولی عھدی کیلئے لوگوں کو بیعت پر مجبور کرے ۔ امام موسی کاظم علیہ السلام خاموش رھے ۔ صبر و تحمل سے کام لیا کسی قسم کا انقلاب برپا کرنے کی بات نہ کی کیونکہ اس وقت کا ماحول بالکل آپ کے خلاف تھا کوئی بھی نہ تھا کہ جو آپ کی حمایت کرتا جو حامی تھے وہ بہت مجبور تھے۔ لیکن آپ کی اسیری کا انداز ظالمانہ نظام حکومت کے خلاف پر زور احتجاج بھی تھا اور آمریت کے منہ پر طمانچہ بھی آپ نے قول و فعل سے ثابت کر دیا ھے کہ ھارون اور اس کے بیٹے غاصب ھیں، مجرم ھیں ملت اسلامیہ کے دشمن ھیں ۔

مامون کی باتیں

مامون کا طرز زندگی ایسا تھا کہ بہت سے مورخین اس کو شیعہ کھتے اور لکھتے ھیں۔ میرے عقیدہ کے مطابق یہ ضروری نھیں ھے کہ ایک شخص ایک چیز پر عقیدہ رکھتا ھو لیکن وہ عمل بھی اس پر کرے۔ ھو سکتا ھے کہ وہ شیعہ ھو اور اس کا شمار شیعہ دانشوروں میں سے ھوتا ھو۔ تاریخ میں یہ بھی درج ھے کہ اس نے علماء اھل سنت کے ساتھ متعدد بار مباحثے و مناظرے کیے ھیں۔ میں نے کسی ایسے شیعہ عالم کو نھیں دیکھا جو اس جیسی بھترین گفتگو کرتا ھو۔ چند سال پیش ترکی کے ایک سنی جج کی ایک کتاب چھپی اس کا فارسی زبان میں بھی ترجمہ ھو چکا ھے ۔ اس کتاب میں مامون کے اھل سنت علماء کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت حقہ کے بارے میں مباحثے، مناظرے درج کیے گئے ھیں۔ مامون کی عالمانہ، فاضلانہ، دانشمندانہ آراء کو پڑھ کر انسان حیران ھو کر رہ جاتا ھے۔ اس طرح کی بحثیں تو بڑے سےبڑا عالم بھی نہ کرسکے ۔ مورخین نے لکھا ھے کہ مامون نے ایک مرتبہ کھا ھے کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ میں نے شیعہ ھونا کس سے سیکھا ھے تو میں کھوں گا کہ میں نے شیعیت کا درس اپنے بابا ھارون سے حاصل کیا ھے ۔
کسی نے بالآخر کھہ ھی دیا کہ تمھارے بابا تو شیعہ اور آئمہ شیعہ کا سخت ترین مخالف ار کٹر دشمن تھا، تو اس نے کھا ھاں ایسا ھی ھے، لیکن میں آپ کو ایک واقعہ سنا تا ھوں وہ یہ کہ میں ایک مرتبہ اپنے بابا کے ھمراہ حج پر گیا اس وقت میں بچہ تھا سب لوگ بابا سے ملنے کیلئے آجارھے تھے ۔ خاص طور پر علماؤ، مشائخ اور زعمائے ملت کی خلیفہ وقت کے ساتھ خصوصی میٹنگیں تھیں ۔ بابا کا حکم تھا کہ جو بھی آئے سب سے پھلے اپنا تعارف خود کروائے، یعنی اپنا نام تمام شجرہ نسب بیان کرے تاکہ خلیفہ کو معلوم ھو کہ یہ قریش سے ھے یا غیر قریش ھے۔ اگر انصار میں سے ھے تو خرزی قبیلہ سے ھے یا اوسی قبیلہ سے۔ سب سے پھلے نوکر اطلاع کرتا کہ آپ کو فلاں شخص، فلاں کا بیٹا ملنے آیا ھے ۔ ایک روز نوکر آیا اس نے بابا سے کھا کہ آپ سے ایک نوجوان ملنے آیا ھے، اور کھتا ھے کہ وہ موسی ابن جعفر بن محمد بن علی ابن الحسین بن علی ابن ابی طالب (ع) ھے۔ اس نے اتنا ھی کھنا تھا کہ میرا بابا اپنی جگہ سے اٹھا اور کھا کہ ان سے کھو کہ تشریف لے آئیں۔ پھر بولا کہ ان کو سواری سمیت آنے دیا جائے اور ھمیں حکم دیا کہ اس عظیم القدر شھزادے کا استقبال کیا جائے۔ جب ھم استقبال کیلئے گئے تو دیکھا کہ عبادت وتقویٰ کے آثار آپ کی پیشانی سے جھلک رھے تھے۔ چھرہ اقدس پر نور ھی نور تھا۔ ان کو دیکھتے ھی ھر انسان نجوبی سمجھ جاتا تھا کہ یہ نوجوان انتھائی پرھیزگار اور متقی شخص ھے۔ بابا نے دور سے زور سے آواز دی کہ آپ کو قسم دیتا ھوں کہ آپ سواری سمیت آئیں۔ وہ نوجوان چند قدم سواری سمیت آیا ھم جلدی سے دوڑے اور اس کی رکاب پکڑ کر اس کو نیچے اتارا۔ انھوں نے انتھائی شائستگی و متانت سے سب کو سلام کیا۔ بابا نے ان کا بھت زیادہ احترام کیا ان کی اور ان کے بچوں کی خیر خیریت دریافت کی۔ پھر پوچھا کوئی مالی پریشانی تو نھیں ھے۔ انھوں نے جواب میں کھا الحمد للہ میں اور میرے اھل و عیال سب ٹھیک ھیں۔ اور کسی قسم کی پریشانی نھیں ھے ۔ جب وہ جانے لگے تو بابا نے ھم سے کھا جاؤ ان کو گھوڑے پر سوار کراؤ۔
جب میں ان کے قریب گیا تو آھستگی سے مجھ سے کھا کہ تم ایک وقت خلیفہ بنو گے میں تم کو ایک نصیحت کرتا ھوں کہ میری اولاد سے برا سلوک نہ کرنا۔ مجھے پتہ نھیں تھا کہ یہ کون ھیں۔ واپس آیا مین تمام بھائیوں کی نسبت زیادہ جرات مند تھا۔ موقع پا کر بابا کے پاس آیا اور کھا کہ جس کا آپ اتنا زیادہ احترام کر رھے تھے وہ تھا کون؟ بابا مسکرا کر کھنے لگے بیٹا اگر تو سچ پوچھتا ھے تو جس مسند پر ھم بیٹھے ھیں یہ ان ھی کی تو ھے ۔ میں نے کھا کیا آپ جو کھہ رھے ھیں دل سے کھہ رھے ھیں؟ بابا نے کھا کیوں نھیں۔ میں نے کھا بس خلافت ان کو دے کیوں نھیں دیتے؟کھا کیا تو نھیں جانتا کہ "الملک عقیم"؟ تو میرا بیٹا ھے اگر مجھے پتا چلے کہ میری حکومت کے خلاف تیرے دل میں فطور پیدا ھوا ھے اور تو میرے خلاف سازش کرنا چاھتا ھے تو تیرا سر قلم کر دوں گا۔ وقت گزرتا رہا ہارون لوگوں کو انعامات سے نوازتا رھا۔ پانچ ھزار سرخ دینار ایک شخص کی طرف اور چار ھزار دینار کسی دوسرے شخص کی طرف۔ میں نے سمجھا کہ بابا جس شخصیت کا حد سے زیادہ احترام کر رھے تھے ان کی طرف بھی زیادہ مقدار میں بھیجیں گے لیکن اس نے ان کی طرف سے سب سے کم رقم ارسال کی یعنی دوسو دینار۔ میں نے وجہ پوچھی تو بابا نے کھا کیا تو نھیں جانتا کہ یہ ھمارے رقیب ھیں سیاست کا تقاضا یہ ھے کہ یہ ھمیشہ تنگدست رھیں۔ ان کے پاس پیسہ نہ ھو کیونکہ اگر ان کے پاس دولت آگئی تو ممکن ھے ایک لاکھ تلوار کے ساتھ تمھارے بابا کے خلاف انقلاب برپا کردیں ۔

روحانی اعتبار سے امام (ع) کا اثر و رسوخ

یھاں سے آپ اندازہ لگایئے کہ شیعوں کے آئمہ کا روحانی اثر و رسوخ کس قدر زیادہ تھا۔ وہ نہ تلوار اٹھاتے تھے اور نہ کھلے عام تبلیغ کر سکتے تھے ۔ لیکن ان کی عوام کے دلوں پر حکومت تھی۔ ہارون کی حکومتی مشنری میں ایسے ایسے افراد موجود تھے جو امام علیہ السلام کو دل و جان سے چاھتے تھے ۔ دراصل حق اور سچ ایسی حقیقت ھے جو اندر بلا کی کشش رکھتی ھے ۔ آج آپ نے اخبار میں پڑھا ھو گا کہ اردن کے شاہ حسین نے کھا کہ میں اب سمجھا کہ میرا ڈرائیور میرے مخالفوں کا آلہ کار ھے اور میرا کچن بھی انھیں کی سازشوں کی زد میں ھے ۔ ادھر علی بن یقطین ھارون الرشید کا وزیر ھے یہ مملکت کا دوسرا ستون ھے۔ لیکن شیعہ ھے۔ تقیہ کی حالت میں زندگی بسر کررھا ھے۔ ظاھر میں ھارون کا کارندہ ھے لیکن پس پردہ امام امام موسی علیہ السلام کے پاک و پاکیزہ اھداف کی ترجمانی کرتا ھے۔ دو تین مرتبہ علی بن یقطین کے خلاف خلیفہ کو رپوٹ پیش کی گئی لیکن امام علیہ السلام نے اسے قبل از وقت بتا دیا اور اس کو ھوشیار رھنے ک تلقین ک جس کی وجہ سے علی بن یقطین حاکم وقت کے شر سے محفوظ رھا۔ ھارون کی حکومت میں ایسے افراد بھی موجود تھے جو امام علیہ السلام کے بیحد عقیدت مند تھے۔ لیکن حالات کی وجہ سے امام علیہ السلام سے رابط نھیں رکھ سکتے تھے ۔ اھواز کا رھنے والا ایک ایرانی شیعہ کھتا ھے کہ حکومت وقت نے مجھ پر بھت زیادہ ٹیکس عائد کر دیا تھا۔ ادائیگی ک صورت ھی میں مجھے چھٹکارا مل سکتا تھا۔ اتفاق سے انھیں دنوں میں اھواز کا گورنر معزدل ھوگیا۔ نیا گورنر آیا مجھے خوف تھا کہ اس نے آتے ھی مجھ سے ٹیکس کا مطالبہ کرنا ھے ۔ میری فائل کھل گئی تو میرا کیا بنے گا؟ لیکن میرے بعض دوستوں نے مجھ سے کھا کہ گھبراؤ نھیں نیا گورنر اندر سے شیعہ ھے اور تم بھی شیعہ ھو۔ ان کی باتوں کو سن کر مجھے قدرے دلی سکون ھوا۔ لیکن مجھ میں گورنر کے پاس جانے کی ھمت نہ تھی ۔
میں نے دل ھی دل میں سوچا کہ مدینہ جا کر امام موسی کاظم علیہ السلام کا رقعہ لے آؤں (اس وقت آقا گھر پر تھے) میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا اور سارا ماجرا گوش گزارا کیا۔ آپ نے تین چار جملے تحریر فرمائے جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ھمارا حکم ھے کہ اس مرد مومن کی مشکل حل کی جائے ۔ آخر میں آپ نے لکھا کہ مومن کی مشکل کو حل کرنا اللہ کے نزدیک بہت ھی پسندیدہ عمل ھے۔وہ خط لے کر چھپتے چھپاتے اھواز آیا۔ اب مسئلہ خط پھنچانے کا تھا۔ چناچہ میں رات کی تاریکی میں بڑی احتیاط کے ساتھ گورنر صاحب کے گھر پھنچا۔ دق الباب کیا۔ گورنر کا نوکر باہر آیا میں نے کھا اپنے صاحب سے کھہ دو کہ ایک شخص موسیٰ ابن جعفر (ع) کی طرف سے آپ کو ملنے آیا ھے۔ میں نے دیکھا کہ گورنر صاحب فوری طور پر خود دروازے پر آگئے۔ سلام ودعا کے بعد آنے کی وجہ پوچھی میں نے امام علیہ السلام کا خط اس کو دے دیا۔ اس نے خط کو کھول کر اپنی آنکھوں پر لگایا اور آگے بڑھ کر مجھے گلے لگایا اور میری پیشانی پر بوسہ دیا۔ اس کے بعد مجھے اپنے گھر میں لے گیا۔ اور مجھے کرسی پر بٹھایا اور خود زمین پر بیٹھ گیا۔ بولا کیا تم امام علیہ السلام کی خدمت اقدس سے ھوکر آئے ھو؟ میں نے کھا جی ھاں پھر گورنر بولا کی آپ نے انھیں آنکھوں سے امام علیہ السلام کی زیارت کی ھے۔ میں نے کھا جی ھاں۔ پھر کھا آپ کی پریشانی کیا ھے؟میں نے اپنی مجبوری بتائی۔ آپ نے اسی وقت افسروں کو بلایا اور میری فائل کی درستگی کے آرڈر جاری کیے۔ چونکہ امام علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مومن کو خوش کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ھوتی ھے گورنر صاحب جب میرا کام کرچکے تھے تو مجھ سے بولے ذرا ٹھر جاؤ میں آپ کی خدمت کرنا چاھتا ھوں، وہ یہ کہ میرے پاس جتنا سرمایہ ھے اس کا آدھا حصہ آپ کو دیتا ھوں، میری آدھی رقم اور میرا آدھا سرمایہ آپ کا ھے۔ وہ مومن روایت کرتا ھے کہ ایک تو میری بہت بڑی مشکل حل ھوچکی تھی دوسرا گورنر صاحب نے مجھے امام علیہ السلام کی برکت سے مالا مال کردیا تھا۔ میں گورنر کو دعائیں دیتا ھوا گھر واپس آگیا۔ ایک سفر پہ میں امام (ع) کی خدمت اقدس میں گیا تو سارا ماجرہ عرض کیا آپ علیہ السلام سن کر مسکرا دیئے اور خوشی کا اظھار فرمایا۔
اب سوال یہ ھے کہ ہاروں کو ڈر کس چیز سے تھا؟ جواب صاف ظاھر ھے وہ حق ک جاذبیت اور کشش سے خوف زدہ تھا:
"کونوا دعاۃ الناس بغیر السنتکم"
"یعنی آپ لوگ کچھ کھے بغیر لوگوں کو حق کی دعوت دیں۔ زبان کی باتوں میں اثر اکثر کم ھی ھوتا ھے۔ اثر و تاثیر تو عمل ھی سے ھے۔"
وہ شخص جو امام موسی کاظم علیہ السلام یا آپ کے اباؤ اجداد اور اولاد کا نزدیک سے مشاھدہ کر چکا ھو۔ وہ جانتا ھے کہ یہ سب حق پر ھیں اور حق ان کے ساتھ ھے ۔ یہ پاک وپاکیزہ ھستیاں خدا کی حقیقی معرفت رکھتے ھیں۔ اور خوف خدا صحیح معنوں میں انھی میں ھے۔ یہ خدا سے صحیح محبت کرنے والے ھیں، اور جو کچھ بھی کرتے ھیں اسی میں خدا کی رضا ضرور شامل حال ھوتی ھے ۔

ایک جیسی عادتیں

دو عاتیں ایسی ھیں جو تمام آئمہ طاھرین علیھم السلام میں مشترک ھیں۔ عبادت اور خدا خوفی کا جذبہ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ھستیاں خدا کو اس طرح مانتی ھیں جیسا کہ ماننا چاھیے۔ خدا خوفی ایسی کہ نام الھی زبان پر آنے یا سننے سے ان کا جسم کانپ اٹھتا تھا یوں محسوس ھوتا ھتا جیسا کہ وہ خدا کو دیکھ رھے ھوں۔ جنت و جھنم کے مناظر آنکھوں کے سامنے ھوں؟ امام موسی کاظم علیہ السلام کے بارے میں تاریخ میں ملتا ھے ۔
"حلیف السجدہ الطویلۃ والدموع الغزیرۃ" (منتھی الآمال، ج 2/222)
"طویل سجدوں اور تیزی کے ساتھ بھنے والے آنسوؤں کے مالک امام ۔"
جب انسان کا دل اندر سے جوش مارتا ھے تو تب اس کی آنکھوں سے آنسو بھتے ۔ آئمہ طاھرین علیھم السلام کی دوسری مشترک صفت اور عادت یہ ھے کہ تمام آئمہ طاھرین علیھم السلام غریبوں سے محبت کرتے ان کے ساتھ ھمدردی کے ساتھ پیش آتے اور غریبوں، بے نواؤں کی فوری اور ھر طرح کی مدد کرتے تھے۔ امام حسن (ع)، امام حسین (ع)، امام زین العابدین (ع)، امام محمد باقر (ع)، امام جعفر صادق (ع)، امام موسی کاظم (ع)، اور دیگر آئمہ سیرت و کردار کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ھیں۔ جب ھم ان کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ھیں تو دیکھتے ھیں مظلوموں، بے کسوں، یتییموں، اور فقراء کی مدد کرنے میں ان کا کوئی ثانی نھیں ھے۔ ظاھری سی بات ھے یہ بے سھارا لوگ ان کو دیکھتے بھی ھوں گے۔ ان کے عمل نے ان کو وھاں تک پھنچا دیا جھاں کوئی بھی نھیں پھنچ سکتا ھے ۔

ھارون کی حکومتی مشنری

امام علیہ السلام ایک عرصہ سے زندان سے مظلومانہ زندگی گزار رھے تھے کہ ھارون نے سازش تیار کی کہ امام علیہ السلام کی حیثیت اور عزت کم کی جائے۔
ایک خوبصورت کنیز کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ زندان میں امام علیہ السلام کے ساتھ رھے اور کھانا پینا آپ کی خدمت میں پیش کرتی رھے۔ انھوں نے انتھائی حیسن عورت کو اس لیے ڈیوٹی پر متعین کیا کہ امام ایک قیدی ھیں اور مرد ھونے کی وجہ سے ان کی خوابیدہ خواھشات بیدار ھوں گی اور وہ کوئی ایسا قدم اٹھائیں گے کہ ھم ان کو گناہ میں ملوث کرلیں گے۔ ہارون اور اس کے کارندوں کی غلط فھمی تھی لیکن ادھر کیا ھوا یہ کنیز جب تنگ و تاریک کمرہ میں گئی تو اس کی زندگی میں بہت بڑا انقلاب برپا ھوگیا۔ اور اس نےبھی اپنا سر سجدہ میں رکھ دیا اور عبادت میں مشغول ھوگئی۔ جاسوسوں نے ہارون کو خبر دی کہ کنیز بھی عبادت کرنے لگی ھے۔ ہارون نے اس کو اپنے دربار میں بلوایا دیکھا وہ تو وہ نہ رھی، کبھی آسمان کی طرف دیکھتی ھے اور کبھی زمین کی طرف۔ پوچھا گیا اے کنیز تو نے اپنا یہ حال کیوں بنایا ھے؟ کھنے لگی میں تو گناہ کی غرض سے گئی تھی جب تقویٰ اور پرھیز گاری کے عظیم پیکر کو دیکھا تو مجھ میں احساس شرمندگی پیدا ھوا کہ ھم کیا کرنا چاھتے ھیں۔ اور یہ قیدی کس طرح عبادت الھی میں منھمک ھے۔ میں اپنی اس غلطی پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتی ھوں۔ اللہ میرے دوسرے گناہ بھی بخش دے گا۔ یہ کھتے کھتے وہ وھیں پر انتقال کر گئی۔

امام موسی کاظم (ع) اور بشر حافی

آپ نے بشر حافی کا واقعہ سنا ھے کہ ایک روز امام علیہ السلام بغداد کے ایک کوچے سے گزر رھے تھے۔ اچانک آپ کو رقص وسرود اور ناچ گانے کی آواز سنائی دی۔ اتفاق سے اسی گھر سے ایک نوکرانی باھر نکلی کہ گھر کا کوڑا کرکٹ ایک جگہ پر پھینکنے۔ آپ نے اس کنیز سے فرمایا کہ کیا یہ گھر کسی آزاد شخص کا ھے یا کسی غلام کا؟ سوال بڑا عجیب تھا وہ کنیز بولی آپ مکان کی ظاھری خوبصورتی اور زیبائش و آسائش کو نھیں دیکھ رھے کہ یہ کس شخص کا گھر ھوسکتا ھے۔ یہ گھر بشر حافی کا ھے ۔ بغداد کا امیر ترین یہ شخص ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سن کر فرمایا ہاں یہ گھر کسی آزاد ھی کا ھے۔ اگر بندہ ھوتا تو اس کے گھر سے موسیقی، راگ رنگ کی آوازیں بلند نہ ھوتی؟ عجیب تاثیر تھی امام کے جملوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جب وہ نوکرانی کوڑا ڈال کر واپس اپنے مالک کے گھر گئی تو اس نے نوکرانی سے تاخیر کی وجہ پوچھی، تو اس نے کھا کہ ایک شخص نے مجھ سے عجیب و غریب بات کھی ھے۔ بشر بولا وہ کیا؟ بولی کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ یہ گھر کسی آزاد کا ھے یا غلام کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کھا آزاد کا ھی گھر ھے۔ اس شخص نے کھاں ہاں واقعی وہ آزاد ھے۔ اگر بندہ ھوتا تو رقص وسرود کی آوازیں اس کے گھر سے بلند نہ ھوتیں۔ بشر نےپوچھا اس شخص کی کوئی خاص نشانی؟ کنیز نے جب اس کی وضع قطع بتائی تو سمجھا کہ آپ موسیٰ بن جعفر (ع) ھی تھے۔
بشر نے پوچھا پھر وہ شخص کھاں گیا؟ اس نے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ بزرگ اس طرف جارھے تھے۔ چونکہ وقت کم تھا اگر جوتا پھنتا تو شاید امام علیہ السلام آگے جا چکے ھوتے۔ لہذا وہ پا برھنہ امام علیہ السلام کے پیچھے دوڑ پڑا۔ آقا کے اس جملے نے اس کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ کہ اگر وہ بندہ ھوتا تو اس قسم کا گناہ نہ کرتا۔ یہ ہانپتا کانپتا امام علیہ السلام کی خدمت میں پھنچا۔ مولا (ع) آپ نےجو کچھ فرمایا سچ فرمایا ھے ۔ میں اپنی غلطی پر خدا سے توبہ کرتا ھوں اور واقعی طور پر اس کا بندہ بننا چاھتا ھوں۔ امام علیہ السلام نےاس کے حق میں دعا کی اور وہ توبہ تائب ھوکر اللہ تعالیٰ کے صالح ترین بندوں میں شامل ھو گیا۔ جب اس طرح کی خبریں ہارون الرشید تک پھنچیں تو وہ اپنے اندر حساس خطر کرنے لگا۔ دل ھی دل میں کھا کہ ایسا نھیں ھونا چاھیے گویا وہ کھہ رھا تھا کہ "وجودک ذنب" کہ اے موسیٰ ابن جعفر آپ کا زندہ رھنا میرے نزدیک گناہ ھے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا میں تمھارے کیا بگاڑا؟ میں نے کونسا انقلاب برپا کیا ھے؟ میں نے ایسا کونسا کام کیا ھے کہ تم مجھ سے گبھراتے ھو؟ ہارون جواب نہ دے سکا لیکن دل میں کھہ رھا تھا کہ آپ کا موجود رھنا بھی خطرے سے خالی نھین ھے۔ امام علیہ السلام یہ باتیں اپنے تحفظ اور دفاع کی خاطر کرتے تاکہ مومنین ہوشیار رھیں اور حکومتی ھتکنڑوں میں پھنس کر اپنا نقصان نہ کر بیٹھیں۔ ہارون کو ھر وقت آپ سے اور آپ کے ماننے والوں سے خطرہ لاحق رھتا تھا۔ اس لیے وہ امام اور ان کے چند خاص موالیوں کے خاتمہ کیلئے مشیروں سے مشورہ کرتا رھتا تھا۔

صفوان جمال اور ھارون

آپ نے صفوان کا واقعہ سنا ھے؟ یہ شخص اس دور میں اونٹ کرائے پر دیتا تھا۔ اس زمانے میں سب سے زیادہ استعمال ھونے والی سواری اونٹ ھی ھوا کرتا تھا۔ صفوان کا حکومت وقت کےساتھ بھی اچھا رابطہ تھا۔ کبھی کببھار سرکاری ڈیوٹی کے لیے بھی حکومت کو اونٹ مھیا کرتا تھا۔ ایک روز ھارون نے پروگرام بنایا کہ مکہ جائے۔ چناچہ اس نے صفوان کو بلوایا کہ وہ اس کے لیے چند اونٹ تیار کر لے کرایہ وغیرہ طے پاگیا۔ صفوان امام موسی کاظم علیہ السلام کے خاص شیعوں میں تھا۔ ایک روز امام علیہ السلام کی خدمت اقدس مین حاضر ھوا اس نے آتے ھی امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ مولا (ع) میں نے ہارون کو اونٹ کرائے پر دیئے ھیں۔ حضرت نے فرمایا تو نے اس ظالم، ستم گر شخص کو اونٹ کیوں دیئے ھیں۔ صفوان بولا مولا (ع) میں تو اس سے کرایہ لیا ھے، پھر اس کا سفر کوئی گناہ کی غرض سے نہ تھا بلکہ سفر حج کیلئے ھے۔ اگر وہ حج پر نہ جاتا تو میں اونٹ اس کو کرائے پر نہ دیتا۔ فرمایا تو نے اس سے پیسے لے لیے ھیں؟ یا اس رقم کا بقایا رھتا ھے؟ اپنے دل سے سوال کر، میں نے اونٹ اس کو کرائے پر دیئے ھیں اس لیے دیئے ھیں کہ ھارون واپس لوٹے گا اور میں اس سے کرایہ لوں گا۔ صفوان بولا جی ھاں مولا ایسا ھی ھے آپ نے فرمایا ظالم کی زندگی پر راضی رھنا بھی گناہ ھے ۔ صفوان باھر آیا ۔ ہارون سے دیرینہ تعلقات کے باوجود اس نے اپنے تمام اونٹ بیچ دیئے اور اعلان کیا کہ آئندہ وہ یہ کاروبار بلکل نھیں کرے گا۔ اس کے بعد ہارون کے پاس آیا کہ میں نے جو آپ سے معاھدہ کیا تھا وہ منسوخ کرتا ھوں کیونکہ میں نے مجبوری کی وجہ سے اپنے تمام اونٹ فروخت کر دیئے ھیں۔ ہارون نے پوچھا پھر بھی بتائے کہ اونٹ بیچنے کی وجہ کیا ھے؟ صفوان بولا اے بادشاہ سلامت میں بوڑھا ھوچکا ھوں اب اس طرح کا کام مجھ سے نھیں ھوسکتا ۔
ھارون بڑا چالاک شخص تھا اس نے کھا ایسا نھیں ھے کہ جو تم کھہ رھے ھو دراصل تجھے موسیٰ ابن جعفر (ع) نے منع کردیا ھے ۔ اور انھوں نے اس کام کو غیر شرعی قرار دیتے ھوئے اونٹ بیچنے کی تلقین کی ھے ۔ بخدا اگر تمھارے اور ھمارے درمیان پرانی دوستی نہ ھوتی تو تجھے ابھی اور اسی وقت قتل کردیتا ۔ یہ تھے وہ عوامل جو امام علیہ السلام کی شھادت کا سبب بنے ۔ سب سے پھلے تو دشمن کو آپ کے وجود سے سخت خطرہ لاحق تھا۔ دوسرا آپ تقیہ کی حالت میں زندگی گزارتے رھے، یعنی آپ نے اس انداز سے اپنا طور طریقہ رکھا کہ آپ کا دشمن کسی لحاظ سے بھی آپ کو نقصان نہ پھنچا سکا۔ اس کے باوجود آپ تبلیغی فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔ لوگوں کی روحانی و علمی ضروریات پوری کرتے، پسماندہ طبقے کے حقوق کے لیے بھر پور طریقے سے آواز بلند کرتے تھے۔ لیکن آپ نے اس تمام مدت دشمن کو انگشت نمائی کا موقعہ نہ دیا۔
وہ اپنے جاسوسوں، گماشتوں کے ذریعے اس کو کوشش میں رھا کہ امام علیہ السلام پر کوئی نہ کوئی سیاسی یا مذھبی جرم عائد کرکے ان کو سزا دے سکے۔ تیسرا آپ استقامت کا کوہ گراں تھے ۔ جب یحییٰ برمکی نے آپ سے کھا کہ آپ ایک مرتبہ ھارون سے معافی مانگ لیجئے تو آپ کو نہ صرف رھائی مل سکتی ھے بلکہ وافر مقدار میں انعام واکرام بھی ملے گا۔ آپ نے فرمایا اس زندگی سے مرجانا بھتر ھے اور ھم بھت جلد اس فانی دنیا سے کوچ ھی کرنے والے ھیں ۔
ایک دفعہ ھارون نے کسی دوسرے شخص کو امام کے پاس زندان میں بھیجا اور چاھا کہ پیار و محبت سے امام علیہ السلام سے گناہ کا اعتراف کروایا جائے۔ پھر بھی اس نے یہ لب و لھجہ اپنایا کہ ھم آپ سے دلی عقیدت رکھتے ھیں۔ آپ کا دل و جان سے احترام کرتے ھیں۔ ھماری دلی خواھش ھے کہ آپ یھیں پہ رھیں اور مدینہ نہ جائیں۔ ھم آپ کو زندان میں رکھنا نھیں چاھتے ۔ ھم آپ کو اپنے پاس ایک محفوظ مکان میں رکھنا چاھتے ھیں۔ میں نے آپ کے پاس ایک ماھر باورچی بھیجا ھے تاکہ آپ اپنی پسند کا کھانا تیار کرواسکیں۔ یہ تھا فضل بن ربیع۔ ھارون کو اس پر بھت زیادہ اعتماد تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یھی فضل سادہ لباس میں تلوار اپنے ساتھ حمائل کرکے امام کے پاس پھنچا۔ امام علیہ السلام نماز پڑھنے میں مشغول تھے ۔
امام علیہ السلام کو جب پتہ چلا کہ فضل بن ربیع آیا ھے ۔ فضل اس انتظار میں تھا کہ آپ نماز کو ختم کریں اور میں آپ کو خلیفہ کا پیغام پھنچاؤں۔ آپ نے نماز ختم کرتے ھی دوبارہ اور نماز شروع کردی۔ اس طرح اس کو سلام کرنے اور بات کرنے کی مھلت بھی نہ دی۔ پھلے تو اس نے سمجھا کہ امام علیہ السلام نے چند نمازیں پڑھنی ھیں لیکن پھر اس کو پتہ چلا کہ آپ اس سے بات کرنا نھیں چاھتے۔ اس لیے وہ نماز پہ نماز پڑھ رھے ھیں۔ کافی انتظار کرتا رھا پھر اس کے ذھن میں خیال گزرا کہ ہارون کے ذھن میں بدگمانی نہ ھو۔ امام نماز میں مشغول تھے کہ اس نے بات شروع کردی کہ آپ کے چچازاد بھائی ہارون نے آپ کو اس طرح پیغام بھیجا ھے ۔ ھارون نے پیغام میں کھا ھے کہ ھم پر آپ کی بے گناھی ثابت ھو چکی ھے ۔ اسلئے مصلحت کا تقاضا یہ ھے کہ آپ مدینہ جانے کی بجائے یھیں پہ رھیں۔ مجھے ھارون کی طرف سے حکم ملا ھے کہ بھترین باورچی آپ کی خدمت میں پیش کروں تاکہ حسب خواھش آپ اپنا کھانا تیار کرواسکیں ۔
مؤرخین نے لکھا ھے امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں صرف اتنا کھہ کر دوبارہ نماز شروع کرلی:
"لا حاضر لی مال فینفصنی وما خلقت سؤولا، اللہ اکبر"
"میرے پاس اپنا مال نھیں ھے کہ خرچ کرسکوں میں مال حلال سے کچھ کھاتا پیتا ھوں باقی رھی کسی سے مانگنے کی بات تو مانگنا تو ھم نے اپنی زندگی میں سیکھا ھی نھیں ھے۔ بھلا دینے والے مانگنا گوارا کب کرسکتے ھیں۔ اس کے بعد کھا اللہ اکبر اور نماز شروع کر لی۔ "
یہ تھا خلفاء کا ھمارے اماموں کےساتھ رویے، وہ کسی نہ کسی طریقے سے آئمہ کو مجبور کرتے رھتے تھے، لیکن آئمہ طاھرین علیھم السلام کی حسن سیاست اور تدبر کا کیا کھنا کہ دنیا کے طاقتور ترین حکمران ان کی استقامت کے مقابلے میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ھو گئے۔ وہ آئمہ کے وجود کو اس لیے برداشت نھیں کرتے تھے کہ ان کا وجود ھی ظالموں کی موت ھے اس لیے وہ تلوار کے ذریعہ یا زھر دے کر دنیا میں اللہ تعالیٰ کی خاص نشانیوں کو صفحہ ھستی سے مٹانے کےلیے عملی طور پر اس قبیح حرکت کے مرتکب ھوتے تھے، لیکن حق کی سچائی اور فتح ملاحظہ کیجئے کہ وہ قتل کر کے آرام سے نھیں رہ سکتے تھے اور یہ مرکر بھی امر ھوجاتے تھے ۔

شھادت امام علیہ السلام

جیسا کہ ھم نے پھلے عرض کیا ھے کہ امام علیہ السلام کے لیے آخری زندان سندی بن شاھک کا تھا۔ وہ مسلمان نہ تھا اس کے دل میں کسی کے بارے میں کسی قسم کا رحم نہ تھا۔ خلیفہ اس کو جو بھی حکم دیتا وہ فوری طور پر بجا لاتا تھا۔ امام علیہ السلام کو تنگ و تاریک کمرہ میں رکھا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ آپ اس کمرے کی وحشتناکی سے گھبرا کر اور بیماری سے نڑھال ھوکر یو نھی انتقال کر جائیں گے۔ اس سے عوام میں حکومت کےخلاف رد عمل ظاھر نہ ھوگا۔ مؤرخین نےلکھا ھے کہ یحییٰ برمکی نے ہارون سے کھا کہ امام علیہ السلام کو قتل کرنے کا کام وہ خود ھی کرے گا۔ اس نے سندی کو بلوایا اور اس کو مزید انعام واکرام اور اعلیٰ عھدے کی لالچ دی اور اس کو حکم دیا کہ وہ امام علیہ السلام کا کام تمام کردے۔ یحییٰ نے انتھائی خطرناک زھر منگوا کر سندی کو دیا وہ زھر کھجور میں رکھ کر امام علیہ السلام کو کھلایا۔ اس کے فوراً بعد انھوں نے چند سرکاری گواہ منگوائے اور چند علماء اور قاضیوں کو بلوایا گیا۔ حضرت کو اس میٹنگ میں لایا گیا۔ ھارون نے کھا لوگو! گواہ رھنا شیعہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بارے میں طرح طرح کے پروپیگنڑے کرتے ھیں اور ان کا کھنا کہ امام علیہ السلام زندان میں سخت تکلیف میں ھیں آپ خود اپنی آنکھوں سے مشاھدہ کر لیں کہ وہ تندرست و صحیح و سالم ھیں۔ ھارون کی بات ابھی مکمل نہ ھوئی تھی کہ قیدی امام علیہ السلام بول پڑے فرمایا ھارون جھوٹ کھتا ھے مجھے ابھی ابھی زھر دیا گیا اور میں چند لمحوں کا مھمان ھوں۔ ۔ ۔ ۔ یھان پر بھی ان عیار ترین حکمرانوں کا منصوبہ بھی پورا نہ ھوسکا۔
پھر کیا ھوا بغداد کا قیدی اور شیعوں و مومنوں کا ساتواں امام شھید ھوگیا۔ شھادت کے بعد غریب بغداد کا جنازہ پل بغداد پر رکھا گیا۔ لوگوں میں پھر پروپیگنڑا کیا گیا کہ ویکھو تو سھی امام کا کوئٰ عضو متاثر نھیں ھوا ھے۔ سر اور زبان سلامت ھے۔ یہ اپنی موت آپ مرے ھیں، ان کی وفات میں ھمارا کسی قسم کا ھاتھ نھیں ھے۔ تین دن تک اس پردیسی اور مظلوم ومسموم امام کا جنازہ بغداد کے پل پر پڑا رھا۔ اس سے صرف لوگوں کو یہ بتانا مقصود تھا کہ قتل امام علیہ السلام میں حکومت کا ھاتھ نھیں ھے۔ لیکن امام علیہ السلام کے ماننے والے (جو اس وقت سخت کرب اور پریشانی میں مبتلا تھے) جانتے تھے۔ امام علیہ السلام کو زھر ھی کے ذریعہ شھید کردیا گیا۔
مورخین لکھتے ھیں کہ ایران سے چند مومنین بغداد آئے ان کی دلی خواھش تھے کہ امام علیہ السلام کی زندان میں ملاقات کریں گے ۔ انھوں نے دروغہ جیل سے ملاقات کی اجازت چاھی تو اس نے انکار کر دیا۔ انھوں نے عھد کر لیا کہ وہ ھر ھال میں اپنے غریب و مظلوم آقا سے مل کر جائیں گے۔ حکام نے ان کے پاس چند سپاھی بھیجے کھا کہ آپ کی درخواست منظور کر لی گئی۔ آپ فلاں جگہ پر انتظار کریں۔ آپ کو اپنے امام (ع) سے ملایا جائے گا۔ یہ بیچارے اس انتظار میں کھڑے رھے اور دل ھی دل میں کھنے لگے جب ھم واپس اپنے وطن لوٹیں گے تو وھاں لوگوں کو امام علیہ السلام کی زیارت کے بارے میں بتائیں گے پھر ھم اپنے آقا سے شرعی مسائل بھی دریافت کریں گے۔ ابھی یہ اس طرح کی باتیں آپس میں کرھی رھے تھے کہ دیکھا چار مزدوروں نے ایک جنازہ اٹھایا ھوا ھے ھمیں جیل کا ایک ملازم کھنے لگا۔ "امام شما ھمین است"کہ آپ نے جس امام سے ملنا ھے وہ یھی ھے ۔ یہ جنازہ تمھارے بیکس امام ھی کا ھے۔ یہ ایرانی مومنین اپنا منہ پیٹتے رہ گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غریب بغداد کا جنازہ آگے سے گزر گیا۔

مؤلف: شھید آیت اللہ مرتضیٰ مطھری -مترجم: عابد عسکری ذرائع: صادقین ڈاٹ کام

سوشل میڈیا زرایع کے مطابق پاکستان کے ایک اعلی سطحی فوجی وفد نے ایران کے دافوس ملٹری کالج کا معائنہ کیا۔
 
ایران کا فوجی کمانڈ اور ملٹری اسٹاف کالج تقریبا اٹھاسی برس قبل قائم ہوا ہے، جہاں محتلف فوجی شعبوں میں سرگرمیاں کے ساتھ ساتھ فوجیوں کو تربیت بھی دی جاتی ہے۔
 
پاکستان کے اس وفد کے دورے کا مقصد مختلف عسکری و دفاعی میدان میں تربیت اور طلبا و اساتذہ کے تبادلے جیسے مسائل میں تعاون کو تقویت پہنچانا ہے۔ پاکستان کے فوجی وفد کے اس دورے میں ایران کے ملٹری کالج کے سربراہ بریگیڈیئر حسین ولی وند زمانی نے ہمراہی کی۔
 
واضح رہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان مختلف شعبوں میں گہرے روابط قائم ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان مختلف سطحوں پر وفود کے اس قسم کے دورے انجام پاتے رہتے ہیں۔
 
 
اہلبیت اطہار علیہم السلام کے دسیوں لاکھ چاہنے والوں کا ساتویں امام علیہ السلام کے یوم شہادت پر عزاداری کے مقصد سے عراق کے شہر کاظمین کی جانب ملین مارچ جاری ہے۔

آسمان امامت و ولایت کے ساتویں درخشاں ستارے، فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے عزاداری کے مقصد سے عراق کے مختلف علاقوں خاص طور سے جنوبی اور وسطی صوبوں سے لاکھوں کی تعداد میں زائرین بغداد کے شمال میں واقع شہرِ کاظمین پہنچ رہے ہیں۔

عراقی ذرائع‏ نے بھی اعلان کیا ہے کہ زائرین اور عزاداروں کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے جو کاظمین کی طرف رواں دواں ہیں جبکہ راستوں میں ان زائرین کی پذیرائی بھی کی جا رہی ہے۔ حکومت عراق نے بھی امام موسی کاظم علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے عراق میں اتوار کو سرکاری تعطیل کا اعلان کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ عراق، ایران، ہندوستان اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی شب شہادت کی مناسبت سے مجلس عزا اور ماتم و سینہ زنی اور عزاداری کا سلسلہ جاری ہے۔

حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کے چیئرمین سید ہاشم صفی الدین نے کہا کہ روس اور یوکرین کے درمیان موجودہ پیش رفت امریکہ کے لیے اپنے اتحادیوں کو تنہا چھوڑنے کی ایک اور وجہ ہے۔

العہد کے مطابق ، انہوں نے کہا کہ بعض لوگوں کا امریکی حمایت پر انحصار کرنا غلط ہے، انہوں نے مزید کہا کہ لبنان اور خطے کی تمام تباہیوں سے نجات امریکی تسلط سے حقیقی نجات کے ساتھ ہی ممکن ہوگی۔

صفیہ الدین نے مزید کہا کہ امریکہ اپنے مفادات سے اس وقت منہ موڑ لیتا ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مفادات داؤ پر ہیں، حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جن سے حمایت اور تعاون کا وعدہ کیا گیا ہے اور جو اپنے مفادات کو برقرار رکھتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور مغرب کی جانب سے یوکرینیوں کو اکسانے کے بعد آج یوکرین تن تنہا مقابلہ کر رہا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے معاملے کو سنگین دیکھ کر اس فوجی جنگ میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا۔

"یہ امریکہ کی حقیقت ہے جیسا کہ ہم اسے لبنان میں جانتے ہیں۔ اس نے کتنی بار ان لوگوں سے کنارہ کشی کی ہے جنہوں نے ان سے وعدہ کیا یا انہیں دھوکہ دیا۔ اس نے انہیں لبنان میں فتنہ کے جہنم میں گھسیٹا اور پھر رہا کر دیا۔

دو ماہ قبل روسی حکومت نے امریکہ اور نیٹو کو اپنی حفاظتی ضمانتوں کا پیکج پیش کیا تھا، جس میں یوکرین کی نیٹو میں رکنیت نہیں اور مشرقی یورپ سے اتحادی افواج کا انخلا شامل تھا۔

تاہم مغربی حکام نے روس کی تجاویز کو مسترد کر دیا ہے اور یوکرائنی حکام نے منسک معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق بات چیت کو مسترد کر دیا ہے جس میں کیف فورسز اور مشرقی یوکرین کے خود مختار علاقوں کے درمیان جنگ بندی بھی شامل ہے۔

روس نے جواب میں، لوہانسک اور ڈونیٹسک کی خود مختار جمہوریہوں کی آزادی کو تسلیم کیا اور، ان علاقوں کے حکام کی درخواست پر، ان کی حمایت میں ایک خصوصی آپریشن شروع کیا۔