سلیمانی

سلیمانی

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے تاجیکستان میں شانگہائی تعاون تنظیم کے 21 ویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی دہشت گردی علاقائی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں کلیدی رکاوٹ ہے۔

صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ شانگہائی تعاون تنظیم نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اقتصادی ، سیاسی ظرفیتوں اور آبادی کے لحاظ سے عالمی سطح پر اپنا مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے۔

صدر رئسی نے کہا کہ آج دنیا میں یکطرفہ تسلط پسندانہ نظریہ کو زوال لاحق ہے اور دنیا چند جانبہ نظام کی جانب بڑھ رہی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہا کہ آج دنیا کو  دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگي پسندی جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔  انھوں نے کہا کہ شانگہائی تعاون تنظیم باہمی احترام، اعتماد ، مشترکہ مفادات اور شراکت کے ذریعہ  علاقائی اور عالمی سطح پر اپنا مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے۔

صدر رئيسی نے کہا کہ ہم نے عراق اور شام میں دہشت گردی کے خلاف وہاں کی حکومتوں کی درخواست پر مدد فراہم کی اور عراق و شام سے دہشت گردی کے خاتمہ کے سلسلے میں ایران نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

ایران کا اس بات پر یقین ہے کہ امن و سلامتی ایک مشترکہ مسئلہ ہے  اور امن و سلامتی کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے سلسلے میں علاقائی تنظیمیں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

ایران تمام ہمسایہ اور دوست ممالک کی امن و سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتا ہے۔ ایران کا اس بات پر اعتقاد ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال اور افغانستان کی تباہی اور بربادی کا ذمہ دار امریکہ ہے۔ ہم افغانستان کے عوام کے لئے امن و صلح کے خواہاں ہے۔ افغان عوام کو بھی امن و صلح کے ساتھ رہنے کا حق ہے ہم افغانستان میں امن و صلح برقرار کرنے کے سلسلے میں کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کریں گے ۔ ہم افغانستان کے لئے ایک ایسی جامع حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں جس میں افغانستان کے تمام عوام اور قبائل کے نمائندے موجود ہوں۔ ایرانی صدر نے کہا کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو چاہیے کہ وہ افغانتسان میں قیام امن اور جامع حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔

ایرانی صدر نے کہا کہ ہم ایرانی عوام کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ ضروری سمجھتے ہیں شانگہائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی مستقل رفتار کا احترام کرتے ہوئےہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کی یکطرفہ ظالمانہ اور غیر قانونی پابندیوں کی پیروی نہ کریں۔ اور شانگہائی تعاون تنظیم کے اہداف کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں سیاسی اور اقتصادی سطح پر باہمی تعاون کو مزيد مضبوط اور مستحکم بنائیں۔

تاجیکستان میں شانگہائی تعاون تنظیم کے21 ویں سربراہی اجلاس کے اختتام میں شانگہائی تعاون تنظیم کے 8 مستقل رکن ممالک نے اسلامی جمہوریہ ایران کو مستقل رکن کے عنوان سے منتخب کرکے اس سے متعلق دستاویزات پر دستخط کردیئے ہیں۔شانگہائی تعاون تنظیم کے 8 مستقل ارکان نے ایران کی اس تنظیم میں مستقل رکنیت کو اتفاق آسے منظور کرلیا ہے۔ اطلاعا ت کے مطابق ایران اس کے بعد شانکہائی تعاون تنظيم کا نواں دائمی اور مستقل رکن بن گيا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق تاجیکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں ایران، روس، چین اور پاکستان کے وزراء خارجہ نے تہران میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے اجلاس کے انعقاد کا خیر مقدم کیا ہے۔

اس ملاقات میں روس، چین، ایران اور پاکستان کے وزراء خارجہ نے افغانستان میں ہمہ گير اور جامع حکومت کی تشکیل کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔

مذکورہ ممالک کے وزراء خارجہ نے اس ملاقات میں افغانستان کی صورتحال، دہشت گردی اور منشیات کی ترسیل سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔

وزرا نے افغانستان میں انسانی، سماجی و معاشی صورتِ حال اور خطے میں مہاجرین کی یلغار کے خطرات پر اپنی تشویش کا بھی اظہار کیا۔

شیعیت نیوز: ویانا میں ایران کے نمائندے نے غاصب صیہونی حکومت کے جوہری ہتھیاروں کے سلسلے میں ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ آئی اے ای اے اور عالمی ادارے گذشتہ پانچ عشروں سے اسرائیل کی جوہری سرگرمیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں اور اس کی جوہری تنصیات پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔

ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے میں ایران کے مستقل مندوب کاظم غریب آبادی نے ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں صیہونی حکومت کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس غاصب صیہونی حکومت کے جوہری ہتھیاروں کے سلسلے میں ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی خاموشی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

انھوں نے کہا کہ آئی اے ای اے اور دیگر عالمی ادارے گذشتہ پانچ عشرے سے اسرائیل کی جوہری سرگرمیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں اور اس کی فوجی جوہری تنصیات پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔

 

انھوں نے کہا کہ اسرائیل این پی ٹی معاہدے کا رکن نہیں ہے اور وہ کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کا پابند نہیں ہے، بنابریں ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں صیہونی حکومت کا بیان مضحکہ خیز ہے۔

یاد رہے کہ صیہونی حکومت نے کہا ہے کہ آئی اے ای اے نے گذشتہ سات ماہ سے ایران کی جوہری سرگرمیوں کو نظر انداز کیا ہے۔

 

کاظم غریب آبادی نے کہا کہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ آئی اے ای اے اور عالمی ادارے گذشتہ پانچ عشروں سے اسرائیل کی جوہری سرگرمیوں کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں اور اب بھی ان عالمی اداروں کی جانب سے اسرائیل کی جوہری سرگرمیوں کو کنٹرول نہیں کیا جا رہا ہے۔

شیعیت نیوز: عراقی پارلیمنٹ کی دفاعی و سیکورٹی امور کی کمیٹی کے رکن بدر الزایدی نے بتایا کہ اکتوبر کے مہینے سے عراق سے امریکی فوج کے نکلنے کا عمل شروع ہو جائے گا۔

ارنا کے مطابق بدر الزایدی نے جمعرات کے روز کہا کہ عراق سے امریکی فورسز کا انخلا جولائی کے مہینے میں بغداد-واشنگٹن کے درمیان ہوئی موافقت کے تحت انجام پائے گا۔

اس موافقت کے تحت امریکی فورسز مرحلہ وار باہر نکالی جائے گی۔ انہوں نے آگے کہا 1 جنوری 2022 تک ایک بھی امریکی فوجی عراق میں باقی نہیں رہے گا۔

عراقی پارلیمنٹ کی دفاعی و سیکورٹی امور کی کمیٹی کے ممبر بدر الزایدی نے ملک میں امریکی فورسز کے آپریشن کے بارے میں کہا: داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے ممبرکی حیثیت سے امریکہ عراق میں ہوائی حملے نیز عراقی فورسز کی ٹریننگ اور اسے مشورہ دینے کا عمل جاری رکھے گا۔

الزایدی نے کہا اس وقت عراق میں 2500 امریکی فوجی موجود ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ کتنی تعداد میں یہ فوجی عراق میں ٹریننگ اور مشاورتی امور کے لئے باقی رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عراق سے امریکی فوج کے فوجی سازوسامان دوسرے عرب ملک منتقل ہوں گے۔

 

بغداد-واشنگٹن معاہدے کے مطابق، عراق میں امریکی فوجی مشن ختم کرنے میں چار مہینے سے بھی کم وقت رہ گیاہے۔ اس معاہدے کے مطابق، جس پر عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی اور امریکی صدر جو بائیڈن نے دستخط کئے ہیں، 31 دسمبر 2021 تک عراق میں امریکہ کا فوجی مشن ختم ہو جائے گا تاہم دیگر عناوین سے امریکی عراق میں بدستور موجود رہیں گے۔

یاد رہے جنوری 2020ء میں بغداد ایئرپورٹ کے قریب امریکی ڈرونز کے دہشت گردانہ حملے میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف نبرد آزما سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی عراق کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس شہید ہو گئے تھے۔

اس واقعے کے بعد عراقی پارلیمنٹ نے اسی سال فروری میں بھاری اکثریت سے ایک بل منظور کیا تھا جس میں امریکہ سمیت غیر ملکی افواج کے جلد از جلد انخلاء پر زور دیا گیا تھا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اس انخلاء کو یقینی بنائے۔ اس مقصد کیلئے اب تک عراقی اور امریکی حکام میں اسٹریٹجک مذاکرات کے چار دور منعقد ہو چکے ہیں۔

امریکی حکام نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس سال کے آخر تک عراق سے اپنے تمام فوجی باہر نکال لیں گے۔

شیعیت نیوز: حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ کا ایندھن کے حامل ایرانی ٹینکروں کے لبنان پہونچنے کے مدنظر بیان سامنے آیا ہے۔

المنار کے مطابق بدھ کے روز جاری ہونے والے بیان میں سید حسن نصراللہ نے کہا کہ مجھے یہ اطلاع ملی کہ بعلبک الہرمل میں عوام جمعرات کو ایرانی ٹینکروں کے استقبال کے لئے اکٹھا ہوں گے، لیکن میں مذکورہ علاقے میں حزب اللہ کے ذمہ دار افراد اور عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی سلامتی کے پیش نظر اور ایندھن کے انتقال کے عمل کو آسان بنانے کے لئے بھیڑ کی شکل میں اکٹھا نہ ہوں۔

سید حسن نصراللہ نے پیر کے روز اپنی تقریر میں کہا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات سے لدا پہلا جہاز رواں ہفتے شام کی بانیاس بندرگاہ پر پہونچ گیا ہے اور جمعرات سے ایندھن کے انتقال کا عمل شروع ہو جائے گا۔

دوسری جانب ایران کی طرف سے لبنان کے لئے بھیجا گیا ایندھن لبنان پہونچ گیا ہے۔

لبنان کے ٹی وی چوبیس نے ایک ویڈیو جاری کرکے اعلان کیا ہے کہ ایندھن لے جانے والے ٹینکر لبنان کے شہر الھرمل کے حوش السید علی علاقے میں داخل ہو چکے ہیں۔

 

 

حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے بدھ کی رات ایک پیغام میں کہا تھا کہ ہمیں عوام اور میڈیا کی جانب سے الھرمل کے بعبلک علاقے میں ایندھن کے حامل ٹینکروں کے استقبال کی تیاری کی خبریں ملی ہیں لیکن ہم عوام اورعلاقے میں حزب اللہ کے عہدیداروں سے چاہتے ہیں کہ وہ سب کی سیکورٹی، آسانی اور اچھی طرح منتقلی کے عمل کو آسان بنانے کے لئے کسی طرح کا عوامی اجتماع نہ کریں۔

سید حسن نصراللہ نے پیر کی شب اپنے ایک خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ایندھن لانے والا پہلا ٹینکر اتوار کی رات، شام کی بانیاس بندرگاہ پہنچ چکا ہے اور لبنان کے لئے ایندھن کی منتقلی جمعرات سے شروع ہو جائے گی۔

حالیہ ہفتوں میں لبنان میں ایندھن کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے یہاں تک کہ بعض اسپتالوں اور لازمی سروسزکے مراکز کی بجلی منقطع ہو گئی جس کے باعث لبنانی عوام نے ایک بار پھر مظاہرے شروع کر دیئے تھے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کا پہلا آئل ٹینکر ڈیزل لے کر شام کی بندرگاہ بانیاس پر لنگرانداز ہو گیا ہے۔ یہ آئیل ٹینکر حزب اللہ لبنان کی جانب سے  ایران سے خریدے گئے ان ٹینکرز میں سے ایک ہے جو ملک کو درپیش ایندھن کے بحران کے پیش نظر خریدے گئے ہیں۔ شام سے یہ ایندھن ٹینکرز کے ذریعے لبنان منتقل کیا جائے گا۔ ایندھن کی ایران سے لبنان کامیاب منتقلی امریکہ، اسرائیل اور لبنان کے اندر ان کی اتحادی قوتوں کیلئے ایک بڑی شکست قرار دی جا رہی ہے۔ اسی طرح یہ اقدام امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے ایران، شام اور لبنان کے خلاف جاری ظالمانہ اقتصادی محاصرہ ٹوٹ جانے کا بھی باعث بنا ہے۔ اس وقت لبنان میں امریکہ کی طاقت اور اثرورسوخ کم ترین سطح تک زوال کا شکار ہو چکا ہے۔
 
لبنان میں امریکہ کی متکبر سفیر دوروتی شیا نے بھی اپنی شکست تسلیم کر لی ہے اور میڈیا سے غائب ہو چکی ہے۔ دوروتی شیا اب تک لبنان کو اپنی رعایا تصور کرتی آئی ہیں اور سیاسی جوڑ توڑ کے دوران اپنے من پسند سیاست دانوں اور گروہوں کو عزت دیتی آئی ہیں جبکہ سیاسی مخالفین کی توہین میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ حال ہی میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنی تقریر کے دوران اعلان کیا کہ ایران سے ایندھن لے کر آنے والا پہلا آئل ٹینکر شام پہنچ چکا ہے اور جمعرات 16 ستمبر تک یہ ایندھن لبنان پہنچ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی یہ ایندھن لبنان پہنچے گا اسپتالوں، اولڈ ایج ہاسٹلز اور دیگر ایسے مراکز جنہیں ایندھن کی اشد ضرورت ہے، کو بغیر کسی معاوضے کے مفت فراہم کیا جائے گا۔
 
ایک عقلمند، طاقتور اور بہادر لیڈر ایسا لیڈر ہوتا ہے جو درست اور منطقی سوچ کی بنیاد پر صحیح فیصلے انجام دینے اور ان پر عملدرآمد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ ایسے ہی لیڈر ہیں اور انہوں نے ایسا ہی کام کر دکھایا ہے۔ میں بارہا اس بات پر زور دے چکا ہوں اور ایک بار پھر تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ سید حسن نصراللہ جو کہتے ہیں اس پر عمل کر کے دکھاتے ہیں۔ اسی طرح وہ لبنانی قوم کی فلاح و بہبود کو دیگر تمام امور پر ترجیح دیتے ہیں۔ لبنانی عوام بھوکے ہیں، روٹیاں پکنا بند ہو گئی ہیں، اکثر اسپتال ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں، میڈیکل سنٹرز پر یہ بورڈ دکھائی دیتا ہے کہ "پابندیوں کے باعث دوائیاں ختم ہو گئی ہیں"۔
 
ایسے حالات میں لبنانی عوام کی نجات کیلئے کم ترین مدت میں موثر اقدام انجام دینے والی شخصیت سید حسن نصراللہ اور حزب اللہ لبنان ہے۔ ان کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں اور رہنما کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا منہ موڑ لیا ہے اور عوام کو شدید مشکلات میں دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے مغربی آقاوں کے حکم پر ملک میں خانہ جنگی کی سازشیں تیار کر رہے ہیں اور اس کے آغاز کا انتظار کر رہے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کا یہ اقدام تین محاذوں پر امریکہ اور امریکی حکام، امریکی سفیر اور امریکی پابندیوں کے خلاف عظیم کامیابی ہے۔ پہلا محاذ ایران ہے جہاں سے ایندھن کے آئل ٹینکرز نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ دوسرا محاذ شام ہے جہاں یہ آئل ٹینکرز لنگرانداز ہوئے اور تیسرا محاذ لبنان ہے جہاں یہ ایندھن منتقل کیا گیا ہے۔
 
سید حسن نصراللہ نے ایران سے ایندھن کی خریداری کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل سمیت تمام دشمن طاقتوں کو خبردار بھی کیا تھا کہ ہماری نظر میں یہ آئل ٹینکرز لبنانی سرزمین کا حصہ ہیں لہذا انہیں درپیش ہر قسم کا خطرہ لبنان کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ تصور کیا جائے گا اور اس کا بھرپور انداز میں مقابلہ کیا جائے گا۔ یوں ان آئل ٹینکرز میں ایرانی ایندھن بھرا گیا اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی مزاحمت کے میزائلوں اور ڈرون طیاروں نے سنبھالی۔ ان آئل ٹینکرز نے ایران کے خلاف امریکہ کی ظالمانہ پابندیوں کو ناکارہ بنانے کے ساتھ ساتھ شام کے خلاف امریکہ کے ظالمانہ قانون قیصر کو بھی بے اثر کر دیا اور لبنانی قوم کے خلاف امریکہ کے ظالمانہ اقدامات کو بھی بے اثر کر دیا ہے۔
 
حزب اللہ لبنان کا یہ اقدام خطے میں امریکی اثرورسوخ کے زوال کا باعث بننے والے دیگر اقدامات پر مبنی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ جس لمحے لبنان کے وزیراعظم نجیب میقاتی نے ایران سے خریدے گئے ایندھن کے لبنان میں داخلے کا خیر مقدم کیا اور اس اقدام کے مخالفین کو تنقید کرنے کی بجائے مناسب راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کی تجویز دی، یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ ان کی سربراہی میں نئی کابینہ تشکیل بھی پا لے گی اور پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لبنان گذشتہ چند سالوں سے سیاسی اور اقتصادی بحران کی لپیٹ میں رہنے کے بعد اب ان بحرانوں سے باہر نکلنے کا سفر شروع کرنے والا ہے۔ لبنان کی یہ نجات اسلامی مزاحمت اور سید حسن نصراللہ جیسی نڈر اور مخلص قیادت کی بدولت ہے۔

تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)

 

امت اسلامیہ کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں جس چیز کی سب سے زیادہ ضروت ہےوہ’’اتحاد امت‘‘ہے امت اسلامیہ سے مراد،قرآن کو آخری الٰہی کتاب،پیغمبر(ص)کو خاتم الانبیاءاور اسلام کو قیامت تک کے لئے اللہ کا آخری دین ماننے والا گروہ مراد ہے۔جیسا کہ حدیث میں ان چیزوں پر ایمان رکھنے والے کو مسلمان کہا گیا ہے،جو بھی ان اصولوں پر اعتقاد رکھتا ہو وہ امت اسلامیہ میں شامل ہے اور اسی گروہ کو خدا نے ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے:یقیناًتمام مومنین آپس میں بھائی ہیں،لہذا تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو،(الحجرات۔۱۰)
اور ایک جگہ دین اسلام کو حقیقی دین قرار دیتے ہوئے خدا فرماتا ہے:بے شک تمہارا یہ دین’’اسلام‘‘ایک ہی دین ہے اورمیں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کرو۔(انبیاء ۔۹۲)
اس امت کا ہدف اور منزل اسلام کی نگاہ میں ایک ہے لہٰذا اپنے اہداف کے حصول کے لئے امت کا اتحاد ایک دینی اصل اورعقلی ضرورت ہے،اسلام کے مایہ ناز علماء نے اسی کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا ہے اور عملی طور پر بھی کوشش کرتے رہے ہیں۔
اتحاد کا مقصد مسلمانوں کا اپنے افکار اور نظریات سے دستبردار ہو کر دوسروں کے افکار کو قبول کرنا نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کا اپنی مذہبی شناخت کو محفوظ رکھتے ہوئے،مشترکہ عقائد اور نظریات پر متحد ہونا،دشمنوں کے مقابلے میں مشترکہ مؤقف اپنانے اور ایک دوسرے کے مقدسات کا مکمل احترام کرناہے۔اختلافی موضوعات پر اپنے “مذہب کو نہ چھوڑیں اور دوسروں کے مسلک کو نہ چھیڑیں” کے اصول پر عمل پیرا ہوں یا احترام اوردلائل کے ساتھ اپنے نظریات کو دلیل، منطق اور دوسروں کے افکار کا احترام کرتے ہوئے دوستی اور بھائی چارگی کے ماحول میں گفتگو کی جانب قدم بڑھایاجائے۔
قرآن کریم نے واضح طور پر اتحاد پر زور دیا ہے!’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ۔(آل عمران۔۱۰۳)
حبل اللہ سے مراد اللہ کی کتاب،رسول اکرمؐ اور دین اسلام ہے جو انسان کو خدا تک پہنچاتا ہے،جو انسان کے دلوں کو آپس میں جوڑتے ہیں اور سب کو ایک ہی آئین کا پابند بنا کر ایک دوسرے کے لئے قربانی دینے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ عزت ،سربلندی اور سرفرازی ایسے معاشروں کے لئے ہے جہاں افراد ایک ہوں،تفرقہ اورجدائی سے پرہیز کرتے ہوں اور سینوں سے کدورتوں اور کینوں کو اکھاڑ پھینکتے ہوں۔
پیغمبر(ص)کی ایک حدیث میں تمام مسلمانوں کو جسد واحد قرار دیا گیا ہے جس کے ایک عضو کی تکلیف پورے جسم کو درد میں مبتلا کردیتی ہے ۔آپ ؐنے فرمایا کہ:
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اس کے اوپر ظلم نہیں کرتا ہے اور اسے تنہا نہیں چھوڑتا ہے جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں مشغول ہوتا ہے خدا اس کی حاجت پوری کرتا ہے اور جو کسی مسلمان کا کوئی غم دور کر دیتا ہے خداقیامت کے دن اس سے قیامت کا غم دور کر دے گا۔اور جو کسی مسلمان کو لباس پہناتا ہے خدا قیامت کے دن اس کو لباس پہنائے گا۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس کی تعلیمات کا احیا اور معاشرے میں فروغ اور ایک اسلامی معاشرے کا قیام مسلمانوں کی آپس میں ہم بستگی اور وحدت سے ہی ممکن ہے۔
استعمار اور اسلام دشمن عناصر کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور انتشار پھیلائے اور کبھی امت ایک نکتہ پر متحد نہ ہوجائے۔اس لئے مختلف جزوی مسائل اور اختلاف کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے اعلیٰ اہداف اور اصلی مقصد سے دور رکھنے کی کوشش کی جس میں ایک حد تک وہ وہ کامیاب ہوئے۔
آج جب کہ ہر طرف سے اسلام دشمن طاقتیں مختلف طریقوں سے مسلمانوں کی جان، مال،عزت وآبرو کے ساتھ کھیلنے میں مشغول ہیں ، چاہے وہ اسلامی ممالک پر ناجائز قبضوں کی صورت میں ہو یا اسلام، قرآن کی توہین کے ذریعے اور مسلمانوں کے وسائل کو لوٹنے کے ذریعے۔ آج فلسطین سمیت بہت سے اسلامی ممالک دشمنوں کے چنگل میں گرفتار ہیں اور ہر قسم کی زیادتی وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ جاری ہے۔ ایسے میں امت کے درمیان اخوت،بھائی چارگی اور کفر کے خلاف متحد ہونے کے بجائے خود آپس میں دست وگریبان ہونالمحہ فکریہ ہے۔علماء اور دینی شخصیات کا امت کے درمیان،اتحاد ویکجہتی کی دعوت، صلح وصفائی اور حق وحقیقت پر مبنی دوٹوک مؤقف اپنانا بنیادی فریضہ ہے۔وحدت امت اور بھائی چارگی کی فضاء کو قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں،کیونکہ امت مسلمہ ایک نہایت مشکل دور سے گزر رہی ہے جہاں عالم استعمار نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک ثقافتی اور عملی جنگ قائم کی ہوئی ہے.اس سے مقابلہ کے لئے واحد ہتھیار وحدتِ امت ہے۔
مسلمان معاشرہ میں جہاں مشترکہ نکات پر گفتگو کے ذریعے وحدت تک پہنچنے کی ضرورت ہے وہاں اختلافی مسائل پرمناظرہ سمیت مختلف  منطقی کوششوں سے نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش بھی مستحسن عمل ہے۔مگر زمانے کے تقاضوں ،معاشرے کی ذہنیت،مقام ومکان کی صورتحال کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
فی الوقت داخلی اختلاف اور تنقید کافائدہ مسلمانوں کی کمزوری اور دشمن کے لئے فائدہ کاسبب بن رہاہے۔اس لئے قائدین کو ہوشیاری کے ساتھ اقدام اٹھانا وقت کی ضرورت ہے۔تاکہ امت مسلمہ اپنی توانائیوں کو امت کی سربلندی،مشترکہ دشمنوں کے عزائم کوناکام بنانے میں استعمال کرے۔اس وقت عالمی استکبار امریکہ اوراسرائیل کی شکل میں عالم اسلام کے خلاف برس رپیکار ہے۔

سکندر علی بہشتی

فلسطینی قیدیوں کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والوں نے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے پر درجنوں چمچے پھینکے ہیں۔

مظاہرین اسرائیلی جیل سے چمچے کے ذریعے سرنگ کھود کر فرار ہونے والے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے جمع ہوئے تھے۔

یورپ اور بحیرہ روم ہیومن رائٹس واچ کے ‎سربراہ رامی عبدہ نے فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے بالکل مختلف تصویر شیئر کی ہے۔

انہوں نے اس تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ مظاہرین نے فلسطینی قیدیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے درجنوں چمچے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے پر پھینکے ہیں۔

واضح رہے کہ چھے فلسطینی چھے ستمبر کو مقبوضہ فلسطین کی انتہائی حفاظتی بندوبست والی جیل سے سرنگ کھود کر فرار ہوگئے تھے۔

اسرائیلی سیکورٹی اداروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد ، چھے میں سے صرف چار فلسطینی قیدیوں کو دوبار گرفتار کرسکے ہیں۔

 

دوسری جانب امریکہ کی ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس ارویل ہینس کا کہنا ہے کہ افغانستان اب بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے بڑا خطرہ نہیں رہا۔

امریکی ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس ارویل ہینس نے سالانہ انٹیلی جنس اور نیشنل سکیورٹی سمٹ میں شرکت کی جس دوران ان کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس کمیونٹی اب افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی ممکنہ تشکیل نو پر نظر رکھ رہی ہے۔

ارویل ہینس کا کہنا تھا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے بڑا خطرہ نہیں رہا، عالمی سطح پر زیادہ خطرہ اب صومالیہ،یمن،عراق، شام اور خاص طور پر داعش سے ہے۔

ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس ارویل ہینس نے تسلیم کیا کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان سے ملنے والی انٹیلی جنس معلومات اب کم ہوگئی ہیں لیکن امریکہ کو افغان سرزمین سے دہشت گردی کا فی الحال خطرہ نہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم  رئيسی اور روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے ٹیلیفون پرگفتگو میں عنقریب ملاقات کرنے کی امید ظاہر کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق روس کے صدر پوتین نے ایرانی صدر کو ٹیلیفون کیا اور کہا کہ میں کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے قرنطینہ میں جارہا ہوں اور میں نے حکم دیا ہے کہ دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ملاقات کا پروگرام اولین فرصت میں طے کیا جائے۔

روسی صدر نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ماسکو اور تہران کے درمیان تعاون اور مشترکہ طور پر اسپوٹنک ویکسین تیار کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کا سلسلہ جاری رہےگا۔

ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے بھی باہمی گفتگو میں دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعاون کو جاری رکھنے پر تاکید کی۔