سلیمانی

سلیمانی

شیعہ تاریخی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو انسانی معاشرے کا تکامل صرف اور صرف  ائمہ معصومین علیهم السلام کی ولایت پر منحصر ہے، تقرب الہیٰ کے حصول اور توحید الہیٰ تک پہنچنے کا واحد راستہ یہی ہے اور تمام شعبہ ہائے حیات میں توحید پر مبنی زندگی کے اصولوں کا حصول ولایت ائمہ معصومین علیهم السلام کے بغیر ہرگز ممکن نہیں، کیونکہ الہیٰ تعلیمات کے تناظر میں ائمہ معصومین علیهم السلام کی ذوات مقدسہ کو ارکان توحید، دعائم دین کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے، چنانچہ زیارت جامعہ کبیرہ میں "ارکان توحیدک"، "دعائم دینک"، "محال معرفه الله "مساکن برکتہ اللہ "معادن حکمه الله"، "المخلصین فی توحید الله"(1) جیسی تعبیرات اسی بات کی غماض ہیں۔ چنانچہ اسی نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے ائمہ معصومین علیهم السلام کے قول و فعل اور تقریر کی ظرفیت واضح ہو جاتی ہے، جس میں تمام عالم بشریت کی ہدایت کیلئے تمام ادوار میں ہر جہت سے انسانی تکامل کی گنجایش موجود ہے۔

چنانچہ افعال معصومین علیهم السلام میں واقعہ عاشورا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، یہاں تک کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی بعثت بھی اسی واقعے کی مرہون منت ہے۔ اسی لئے تاریخ میں واقعہ عاشورا کو بڑی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا  گیا ہے، اگر واقعہ عاشورا  معرض وجود میں نہ آتا تو یزید جیسا فاسق اور فاجر شخص "لَعِبَتْ هاشِمُ بِالْمُلْکِ فَلاَ *** خَبَرٌ جاءَ وَ لاَ وَحْىٌ نَزَلْ(2) کے مذموم خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے اسلام کی بساط کو لپیٹ کر مقصد بعثت نبوی پر اس طرح پانی پھیر دیتا کہ لوگ اسلام کی حقیقت سے بیگانہ ہو جاتے اور انہیں اس بات کا علم نہ ہوتا کہ اسلام کس شریعت کا نام ہے، ایسے میں امام حسین علیه السلام کا یہ فرمان "علی الاسلام السلام" (3) عملی طور پر محقق ہو جاتا۔ چنانچہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو واقعہ عاشوراء در حقیقت "برز الایمان کلہ علی الشرک کلہ(4)  کا دوسرا رخ تھا، جسے میدان کربلا میں معرکہ حق و باطل کی صورت میں پیش کیا جا رہا تھا۔

جس میں ایک طرف پورا اسلام اور دوسری طرف تمام کفر کھڑا تھا، حق اور باطل کے اس عظیم پیکار میں جہاں ایک طرف علی بن ابی طالب علیہ السلام  کی نیابت میں حسین بن علی علیہ السلام، تعلیمات اسلامی پر مبنی اسلامی تہذیب کے تمام نمونوں کو انسانیت کے سامنے پیش کر رہا تھا۔ وہی دوسری طرف یزید بن معاویہ  عمرو بن عبدود کا نمایندہ بن کر تمام شرک اور شیطانی رذائل کو عملی شکل دے رہا تھا، لہذا اس اعتبار سے ضرورت اس بات کی ہے کہ واقعہ عاشورا کو اس سے متصل تمام حلقوں کے ساتھ  ملا کر تحلیل کرتے ہوئے ایمانی اور اسلامی معاشرے کی بنیاد میں عاشورا کے کردار کو  واضح کیا جائے، چنانچہ سیرہ اہلبیت علیهم السلام میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت نیز ان کی مصیبت پر گریہ کرنے کی فضیلت کے حوالے سے وارد شدہ روایات، اسی بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اگر ایمانی اور اسلامی نہج پر سماج میں اسلامی تہذیب کو وسیع پیمانے پر بڑی تیزی کے ساتھ فروغ مل سکتا ہے تو وہ امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی سے عقیدت ہے۔

اس ضمن میں امام صادق علیہ السلام کا یہ فرمان "کُلُنا سُفُن النّجاة و لکن سَفینة جَدّی الحُسُین أوسَع وفی لُجج البحار أسرع"(5) بھی اسی  نکتے کی جانب اشارہ کرتا ہے، چنانچہ امام حسین علیہ السلام سے عقیدت کا عظیم جلوہ اربعین حسینی کی صورت میں چہلم کے موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے، جس میں اسلامی تہذیب کے خوبصورت جلوے ہر طرف بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آج کے ماڈرن دور میں جہاں مغربی تہذیب کی یلغار کے نتیجے میں ہر طرف مادیت کو پروموٹ کیا جا رہا ہے، اگر کہیں اسلامی تہذیب کی حقیقی جھلک نظر آتی ہے تو وہ اربعین حسینی کا ملین مارچ ہے، جو روز بروز آفاقی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے، جس نے کفر اور و الحاد کے ایوانوں کو لرزہ بر اندام کرتے ہوئے اسلامی دنیا کے افق پر تہذیب اسلامی کے نئے آفتاب کا مژدہ سنایا ہے۔ یہ عظیم اجتماع، عالمی موضوع بن گیا ہے، جو معرفت حسینی کی ترویج اور نئے اسلامی تمدن کی تشکیل کیلئے بہترین ذریعہ ہے۔

چنانچہ اس نکتے کے پیش نظر کہ امام حسین علیہ السلام  پوری انسانیت سے تعلق رکھتے ہیں، اربعین حسینی کے موقع پر ہر نسل و رنگ سے تعلق رکھنے والے انسانوں کا بحر بیکراں نظر آتا ہے، جس میں مسلمانوں کے علاوه غیر مسلم حضرات بھی کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور اس میں شریک ہر انسان امام حسین علیہ السلام سے عقیدت کو اصول زندگانی سمجھتے ہوئے اسے اتحاد کا مرکز قرار دیتا ہے  اسی لئے تو شاعر نے کہا تھا:
در حسین پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ
یہ اتحاد کا مرکز ہے آدمی کیلئے
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف گوشوں سے لوگ یہاں آکر عشق حسین علیہ السلام سے لبریز ہوتے ہوئے یکجان و یک روح ہو کر عملی صورت میں خالص انسانی اصولوں پر قائم اسلامی تہذیب و تمدن کے ایسے جوہر دکھاتے ہیں، جس میں چاروں طرف   انسانی اقدار کی موجیں ٹھاتیں مارتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

ایک دوسرے سے محبت،  دوسروں کا احترام، ایثار و فداکاری، تواضع اور خلوص، مہمان نوازی اور سینکڑوں دیگر  اخلاقی اور اسلامی اقدار، اربعین حسینی کے وہ خوبصورت جلوے ہیں، جس میں ہر شخص دوسروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جس کا  جوہر اصلی محبت حسین علیہ السلام ہے اور "حب الحسین یجمعنا" کی عملی تفسیر یہاں آکر متحقق ہوتی ہے، جس میں ہر انسان  خالص انسانی اور ایمانی جذبے کے تحت قدم بڑھاتے ہوئے مشی کے صحیح مفہوم  کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہی سے اربعین حسینی کی عظیم تاثیر واضح ہو جاتی ہے، چنانچہ یہ تاثیر واقعہ عاشورا کی دین ہے، جس میں امام عالی مقام نے  عظیم قربانی پیش کرکے انسانی اور ایمانی معاشرے میں ایک ایسی حرارت پیدا کر دی ہے، جو گزرتے وقت کے ساتھ کبھی بھی ٹھندی ہونے والی نہیں اور زمان و مکان کی حدود و قیود سے ماوراء ہو کر ہر مومن انسان کے دل میں گرمایش ایجاد کرتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ "اِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَیْنِ علیه السّلام حَرارَةً فى قُلُوبِ الْمُؤ منینَ لا تَبْرُدُ اَبَداً"(6) کی تفسیر کی صورت میں مهدی موعود علیه السلام کے ظهور پرنور تک ایمانی معاشرے کے قلب میں خون کی طرح گردش کرتی رہے گی۔

چنانچه اربعین حسینی کے موقع پر کڑوڑوں انسانوں کا عظیم اجتماع اس کی واضح مثال ہے، جو اسی حرارت کی بنا پر اپنی حرکت کو جاری رکھتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے اہداف اور امنگوں کی تکمیل کیلئے لمحہ بہ لمحہ قدم آگے بڑھاتا ہے اور یہاں آکر رنگ، نسل، قومیت اور قبیلہ سب سے کے سب اپنا رنگ کھو بیٹھتے ہیں  اور "حب الحسین یجمعنا" کی اساس پر اسلامی تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے، جس میں ایثار و فداکاری، مہر و محبت جیسی بہت سی الہیٰ صفات کو معراج حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو اربعین حسینی کی عظیم ریلی، تہذیب اسلامی کے فروغ کے لئے بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے، جس میں دنیائے اسلام   کا دانشور طبقہ تہذیب اسلامی کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات پر مشتمل    اپنی آراء و نظریات کو  دنیا بھر سے آنے والے زائرین امام حسین علیہ السلام کے توسط سے دنیا کے گوشہ و کنار تک پہنچا سکتا ہے۔

اسی لئے حوزات علمیہ، دانشگاہوں اور علمی اداروں سے وابستہ افراد کی شرکت،  دوسرے طبقات کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور اربعین حسینی کے موقع پر دانشور طبقہ اپنی حاضری کو یقینی بنا کر مغربی سیکولر نظریات پر مشتمل تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات کی رو سے عاشورائے حسینی کے اہداف کے تناظر میں تہذیب اسلامی کے خدوخال کو بہترین انداز میں پیش کرسکتا ہے، چنانچہ ماہرین نفسیات کے مطابق اربعین حسینی کا عظیم اجتماع خالص انسانی رجحانات پر مبتنی ہے، جس میں فطرت انسانی سے ہم آہنگ اسلامی اور ایمانی معارف کی قبولیت کیلئے انسانی وجود میں اعلیٰ ظرفی پائی جاتی ہے، جہاں ہر انسان، اپنے آپ کو دوسروں کی خدمت کیلئے وقف کر دیتا ہے، جو اس کے قلب کی پاکیزگی کی   علامت ہے اور پاکیزہ قلب ظرف بن کر معارف اہلبیت علیہم السلام کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتا ہے، جسے معارف ناب اہلبیت علیہم السلام کے مظروف سے پر کرنا علماء اور دانشوروں کا کام ہے۔

چنانچہ اس  عظیم اجتماع میں ہر طرح کی انانیت دم توڑ دیتی ہے، جس کے نتیجے میں ہر طرح کی کثرت وحدت میں بدل کر کعبہ دل، حسین علیہ السلام کے گرد چکر کاٹ رہی ہوتی ہے اور اسی مدار پر کڑوڑوں کے اس بے نظیر اجتماع کا ہر فرد حبل االلہ سے متمسک ہوکر قرآن کریم کی آیت مبارکہ "وَاعْتَصِمُواْ بحَبْلِ اللّهِ جمِیعًا وَلاَ تفَرَّقُواْ وَاذْکرُواْ نعْمَتَ اللّهِ عَلَیکمْ إِذْ کنتُمْ أَعدَاء فَأَلَّفَ بَینَ قُلُوبِکمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًاO(7) کو لائحہ عمل بناتے ہوئے تہذیب اسلامی کے بنیادی ستوں یعنی اخوت اور برادری کو جامہ عمل پہنانے کی کوشش کرتا ہے، لہذا اربعین حسینی کے موقع پر اس بات کا بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح امام حسین علیہ السلام کی محبت نے کڑوڑوں کی تعداد میں عقیدت مندوں کے پروانوں کو شمع امامت کے گرد جمع کیا ہے اور آئے دن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں جوش ملیح آبادی کا وہ شعر شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین

اربعین حسینی کے جلووں میں سے ایک جلوہ یہ ہے کہ انسان کو ایسی طرز زندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ایمان کی اساس پر قائم ہے، جس میں معنویت اپنے عروج پر ہوتی ہے اور امامت کے محور پر عشق اور محبت کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر ایثار و فداکاری کی عظیم مثال قائم کر رہا ہوتا ہے، ایمان اور معنویت کی رو سے ہر شخص  دوسروں کو اپنے اوپر مقدم کرتے ہوئے "وَ یؤْثِرُونَ عَلی اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ کانَ بهِمْ خصاصَةٌ"(8) کی تفسیر کا عملی مظاہرہ کرتا ہے اور ہر زائر حسینی میزبانوں کے اسی جذبہ ایمانی کی سوغات کو دل میں بسا کر خالص اسلامی تہذیب کو اپنے تمام تر معیارات کے ساتھ فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ ایثار و فداکاری وہ عظیم جوہر ہے، جس کے سائے میں ایمانی اصول پر مشتمل ایک خوبصورت سماج کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ لہذا اربعین حسینی کی تمام تر ظرفیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کو عالمی سطح پر عام کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے مرحلے میں دانشور طبقے کی سرپرستی اور نظارت میں ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے، جو ہمیشہ اس واقعے کے تہذیبی پہلوؤں کی تحقیقات کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کے اصولوں کو عالم اسلام کے قومی، علاقائی اور عالمی حالات کے مطابق پیش کریں۔

دوسرے مرحلے میں اس ملین مارچ کو کسی خاص فرقے کا رنگ دیئے بغیر امت مسلمہ کی یکجہتی اور اتحاد کے مظہر کے طور پر پیش کیا جائے، تاکہ اربعین حسینی، ہر قسم کے مسلکی اور مذہبی رنگ و بو سے بالاتر ہو کر عالمی استکبار کے مقابلے میں اسلامی دنیا کے اتحاد کی علامت کے طور پر سامنے آسکے۔ تیسرے مرحلے میں اربعین حسینی کو قومی، لسانی اور طبقاتی امتیازات پر مشتمل اوہام پرستی کے بتوں سے پاک کرکے اسلامی طرز زندگی کے سائے میں اس کی سادگی پر توجہ نہایت ضروری امر ہے۔ چوتھے مرحلے میں اربعین حسینی میں جو چیز محوریت رکھتی ہے، وہ عزاداری ہے، جس کے اندر  "مظلوموں کی حمایت کے ساتھ مستکبرین جہاں سے بیزاری اور ان کے خلاف جدوجہد" کا پہلو مضمر ہے، لہذا اس پہلو کو کم رنگ ہونے سے بچایا جائے۔ پانچویں مرحلے میں تمام مسلمانوں کی  شرکت کیلئے زمینہ ہموار کیا جائے، تاکہ دنیا کا ہر مسلمان اربعین حسینی کے اس سفر عشق میں شریک ہو کر اس کے فیوضات سے بہرہ مند ہوتے ہوئے اپنے ملک اور قوم کیلئے تہذیب اسلامی کا سفیر قرار پائے۔

چھٹے مرحلے میں اربعین حسینی کے موقع پر رونما ہونے والے اسلامی تہذیب کے شاہکاروں کو کلیپ، موویز، ڈاکومنٹری اور سیریل کی شکل میں بڑے پیمانے پر میڈیا  کے ذریعے دنیا میں پھیلانے کیلئے تمامتر صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے۔ ساتویں اور آخری مرحلے میں اربعین حسینی کے ذریعے امام زمانہ کے عالمی انقلاب کیلئے راہ ہموار کرنے کی غرض سے تمام ذمہ دار افراد اپنا وظیفہ شرعی سمجھ کر عقیدہ مہدویت کو فروغ دیتے ہوئے انتظار کی کیفیت میں بہتری لانے کے ساتھ تمام مومنین کو امام زمانہ کی عالمی حکومت کیلئے آمادہ کریں، تاکہ عاشورائے حسینی کے سرخ اور عقیدہ مہدویت کے سبز پهلو کے سائے میں اسلامی تہذیب کا طائر پرواز افق عالم پر اس قدر اونچی اڑان بھرے کہ استعماری سازشوں کے تمامتر سیاسی، اقتصادی، اجتماعی، ثقافتی حربے کسی طرح کارگر ثابت نہ ہوں اور ان کے زہر آلود تیر اسے شکار کرنے سے عاجز رہیں اور یوں اسلامی تعلیمات پر مبنی اسلامی تہذیب کے نقوش، دنیا کی دیگر تہذیبوں پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرتے ہوئے امام زمانہ کی عالمی حکومت کیلئے زمینہ فراہم کریں، جہاں ارسطو جیسے معلم اول کے مدینہ فاضلہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 حواله جات:

  1. 1۔ ابراهيم كفعمى «المصباح» ص505، قم‏: دار الرضي، 1405 ق‏، چاپ دوم/ محمد باقر مجلسی «بحار الأنوار» ج97 ص223، بیروت: مئوسسه الوفاء، 1983 م، چاپ دوم۔
    2۔ ابن عماد حنبلى‏ «شذرات الذهب‏» ج1 ص 278، دمشق: دار ابن كثير، 1006ق، چاپ اول۔
    3۔ أحمد بن اعثم الكوفى «الفتوح‏» تحقیق: علی شیری، ج5 ص17، بيروت، دارالأضواء، 1411ق، چاپ اول/ ابن طاووس، اللهوف على قتلى الطفوف» ص24، تهران: نشر جهان، 1348ش، چاپ اول۔
    4۔ عبد الحميد ابن أبي الحديد معتزلی «شرح نهج البلاغة» تحقیق: ابراهيم، محمد ابوالفضل‏، ج13 ص261، قم: کتاب خانه آیت الله مرعشی، 1404ق‏، چاپ اول/ علامه حلى، «نهج الحقّ و كشف الصدق‏» ص217، بیروت: دار الكتاب اللبناني‏، 1982 م‏، چاپ اول‏۔
    5۔ محمد باقر مجلسی «بحار الانوار» ج ۲۶، ص ۳۲۲، بیروت: مئوسسه الوفاء، 1983 م، چاپ دوم۔
    6۔ حسين نورى، «مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل‏» ج10 ص318، قم‏: مؤسسة آل البيت عليهم السلام‏، 1408 ق‏، چاپ اول‏۔
    7۔ سورہ آل عمران، آیت نمبر: 103۔
  2. 8۔ سوره حشر، آیت نمبر: 9۔

تحریر: محمد علی جوہری

حضرت امام حسین ؑ نے اپنے اعزاء اور اصحاب کے ساتھ اسلام کی بقاء کیلئے عظیم قربانی پیش کی ۔ اس راہ میں امام عالی مقام ؑ نے کسی چیز سے بھی دریغ نہیں فرمایا یہاں تک کہ چھ مہینے کےشیرخوار بچے کو بھی بقاء اسلام کیلئے قربان کردیا ۔
اسلام کو مٹانے کی کوششیں
اسلام کو مٹانے کی کوششیں پیغمبر اکرم کی وفات سے ہی شروع ہوگئیں ۔ بنی امیہ نے اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا تھا ، اس کی حدود کو توڑ کر اس کے عہد و پیمان کو پارہ پارہ کردیا تھا ۔ اسلام نبوی پر اسلام اموی کا لبادہ ڈال دیا گیا تھا ۔ ظلم و بربریت ، درندگی و حیوانیت ، نکبت و رسوائی لوگوں کا مقدر بن چکی تھی ، وہ اسلام میں جاہلیت کے احکام نافذ کرنے لگے تھے ، کفر و شرک اور نفاق جیسی موذی مرض کو ہوا دینے لگے تھے ، ہر طرف ایک دھشت و خوف کا عالم تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے زمین و آسمان سب کچھ متغیر ہوکر رہ گیا ہے ۔تاریخ کہتی ہے کہ : ابوسفیان (ملعون) سید الشہداء حضرت حمزہ ؑ کی قبر پر ٹھوکر مارکر تمسخر و استہزاء آمیز لہجہ میں کہتا ہے :(اسلام کی زمام اب ہمارے ہاتھ میں ہے وہ حکومت ( جس کے ہم اور ہمارے لوگ متمنی تھے) جسے ہم نیزہ و تلوار کے ذریعے تم سے حاصل نہ کر پائے تھے اور تم نے ہمیں صدر اسلام میں بدر و احد جیسی جنگوں میں ذلیل و رسوا کیا تھا آج وہ ہمارے بچوں کے ہاتھ میں آگئی ! اٹھو اے بنی ہاشم کے بزرگو ! دیکھو وہ کس طرح اس سے کھیل رہے ہیں۔۔۔ ( تلقفوها تلقف الکرۃ)جیسے گیند بازی میں ایک دوسرے کو پاس دیتے ہیں اسی طرح یہ بھی حکومت کو اپنے بعد ایک دوسرے کے سپرد کررہے ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ حکومت ، حکومتاسلامی ہے لیکن بادشاہت جاہلیت کی ہے ۔ پس فورا ً( اے عثمان ! تو ) تمام حکومتی مسائل و مقامات پر بنی امیہ کے افراد کو مقرر کردے ۔ دیر نہ کرکہ کہیں یہ آئی ہوئی حکومت ہمارے ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔(1)معاویہ کی سازشیں :
معاویہ کے دور میں اس کے ہاتھ دو خطرناک ترین امور پایہ تکمیل کو پہنچے جن کی داغ بیل گذشتہ لوگوں کے عمل نے ڈالی تھی ۔ انہی دو امور نے اسلامی معاشرےکو پستی کی طرف دھکیل دیا۔
پہلا :
رسول اکرم کی عترت و اہل بیت ؑ جو کہ حامیان دین تھے اور قرآن کے ہم پلہ تھے ان کو اسلام سے کلی طور پر حذف کردیا گیا۔
دوسرا :
اسلامی نظام حکومت میں یکسر تغیر پیدا کرکے استبدادی سلطنت میں تبدیل کردیا ۔
معاویہ نے مملکت اسلامی پر قبضہ کیا اور اپنے لئے میدان خالی دیکھا تو مخالفت اہل بیت ؑ اور ان کے فضائل لوگوں کے دلوں سے ہٹانے کو اپنا معمول بنالیا ، بقول ابن ابی الحدید معاویہ نے اپنے تمام ملازمین اور حکام کو اس مضمون کا فرمان بھیجا : (ہر اس فرد کیلئے کوئی امان نہیں جو ابوتراب اور ان کے خاندان کے فضائل بیان کرے) (2)
نیز یہ بھی منقول ہے کہ تمام مساجد کے خطیبوں کو حکم دیا گیا : (منبروں سے حضرت علی ؑ اور ان کےخاندان کے ساتھ ناروا باتوں کو نسبت دی جائے ) ۔ پس اس حکم کے بعد حضرت علی ؑ اور ان کے خاندان پر گالی گلوچ کی جانے لگی۔معاویہ نے اپنے تمام حاکموں کو پیغام بھیجا :(اگر کسی کے بارے میں شیعہ علی ؑ و اہلبیت رسول ہونے کا پتہ چل جائے تو اس کی گواہی کسی معاملے میں قبول نہ کی جائے اور اگر کوئی علی ؑ کی کسی فضیلت کو حدیث رسول سے بیان کرے تو فوراً اس کے مقابلے میں ایک حدیث جعل کرواکر بیان کردی جائے ) ۔ ایک دوسرے فرمان میں اس نے لکھا :توجہ رہے کہ اگر کسی کیلئے ثابت ہوجائے کہ وہ شیعہ علی ؑ ہے تو اس کا نام فورا ً رجسٹر سے کاٹ دیا جائے اور اس کی تنخواہ و انعامات کو ختم کردیا جائے)۔(3) اسی فرمان کے ساتھ دوسرا حکم تھا کہ اگر کسی پر شبہہ ہوجائے کہ وہ اہلبیت ؑ کا دوست ہے تو اس کے گھر کو تباہ و برباد کرکے اسے شکنجے میں کس دیا جائے ۔۔۔)(4) معاویہ کے اس تمام پروپیگنڈے اور فرامین کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ حضرت علی ؑ پر سبّ و شتم کرنے کو ایک عبادت سمجھنے لگے اور بہت سے ایسے بھی تھے کہ اگر ایک دن علی ؑ کو ناسزا کہنا بھول جاتے تو اگلے دن اس کی قضاء کرتے تھے ۔یزید کی بالجبر بیعت :
معاویہ نے آخری مؤثرترین ضربت جو پیکر اسلام پر لگائی وہ یزید کی بالجبر بیعت تھی۔ اس نے اپنے نالائق اور پست ترین بیٹے یزید کیلئے لوگوں سے بیعت لی۔ خلافت اسلامی کو اپنا خاندانی ورثہ قرار دے دیا۔ تمام مورخین متفق ہیں کہ یزید حکومت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لائق نہ تھا۔ یزید عیش و عشرت کی زندگی کا دلدادہ تھا۔ ہر وقت شراب کے نشے میں مست رہتا تھا۔ اس کی راتیں مستی اور دن خمار میں بسر ہوتے تھے۔ وہ غیر از شراب اور معشوق کچھ نہ جانتا تھا۔ طہ حسین لکھتے ہیں کہ وہ لہو لعب ، فسق و فجور سے ملول ہوتا اور تھکتا نہ تھا ۔ (5)یعقوبی لکھتا ہے جب عبداللہ بن عمر سے یزید کی بیعت کے لئے کہا گیا تو انہوں نے یوں جواب دیا اس کی بیعت کروں جو بندرباز ، کتےّباز ہے ، شرابخوار ہے اور اعلانیہ فسق و فجور کے علاوہ اسے کوئی کام نہیں۔ میں خدا کے حضور اس کی بیعت کا کیا جواز پیش کروں گا ۔(6)امام حسینؑ کا یزید کی بیعت سے انکار:
محافظ اسلام و قرآن حسینؑ بن علیؑ نے اپنے قیام سے پہلے لوگوں کو بنی امیہ کی سازشوں سے آشنا کیا پھر یزید بن معاویہ ملعون کی بیعت نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے دنیا کے سامنے یزیدکے متنفر وجود پہچنوا کے ابنائے اسلام کے ضمیروں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا پھر آواز دی کہ اے لوگو: مجھے اور یزید فاسق و فاجر کو پہچانو! میں کہاں صاحب لولاک کا بیٹا اور کہاں یابن الطلقاء ، کہاں راکب دوش رسول اور کہاں لاعب کلوب ، کہاں آغوش رسالت میں پرورش پانے والا ! اور کہاں شام کے اندھیروں کا پروردہ ! (انا اهل بیت النبوة و معدن الرسالة ومختلف الملائکة و بنافتح الله و بنا ختم الله )( ہم خاندان نبوت و معدن رسالت ہیں ہمارا گھر فرشتوں کے آمد و رفت کی جگہ ہے ہم سے خدا کا فیض شروع ہوتا ہے اور ہم ہی پر اس کا فیض ختم ہوجاتا ہے…) ؛ اے لوگو!کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ کس طرح حق کو روپوش کیا جار ہا ہے اور نہ ہی باطل پر عمل سے لوگوں کو روکا جا رہا ہے ؟! ایسے حالات میں اے اہل ایمان آؤ ! راہ خدا میں شہادت اور اس کی ملاقات کے لئے آمادہ ہو جاؤ ! یاد رکھو ابو سفیان کا پوتا معاویہ کا فرزند یزید ملعون! ( رجل فاسق ، شارب الخمر ، قاتل النفس المحترمة ، معلن بالفسق و مثلی لا یبایع مثله…) ایسا شخص ہے جو شراب کا پینا والا ، لوگوں کو بے گناہ قتل کرنے والا ، کھلے عام فسق و فجور کو انجام دینے والا ، مجھ جیسا یزید ملعون جیسے کی بیعت ہرگز نہیں کرسکتا ! ) انا للہ و انا الیہ راجعون و علی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامۃ براع مثل یزید ولقد سمعت جدی رسول اللہ یقول: الخلافۃ محرمۃ علی آل ابی سفیان ) (ایسے)اسلام پر فاتحہ پڑھ دینا چاہئیے جس کی زمامداری یزید جیسے (فاسق وفاجر شخص)کے ہاتھوں میں ہو ! میں نے اپنے جد امجد (حضرت رسالتمآب سے سنا ہےکہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ:آل ابی سفیان پر خلافت حرام ہے(7)
آل ابی سفیان کی حکومت کا اصل ہدف اور مقصد اسلام کو مٹانا اور قوم و ملت کی گردن پر مسلّط ہونا تھا۔ جیسا کہ یزید بے حیاء کا یہ کہنا اس بات کی روشن دلیل اس کا یہ معروف شعر ہے:
لعبتھاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل
(یہ سب بنی ہاشم کا ڈھونگ اور کھیل تماشا تھا !کون کہتا ہےکہ رسول پر ملائکہ نازل ہوا کرتے تھے اور ان پر وحی نازل ہوا کرتی تھی) تاریخ کے مطابق امام عالی مقامؑ نے 28 رجب المرجب 61 ہجری کو اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مدینہ منورہ سے کوچ کیا اور جب لوگوں نے آپؑ سے مدینہ کو خیر باد کرنے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا : ( خط الموت علی ولد آدم مخط القلادۃ علی جیدالفتاۃ…)بنی آدم کیلئے موت کا نوشتہ یوں آویزاں ہےجیسے دوشیزہ کے گلے میں گلوبند ہوتا ہے۔ مجھے اپنے بزرگوں سے ملنے کا وہی اشتیاق ہے جو یعقوبؑ کو یوسفؑسے ملنے کا تھا ، میری قتلگاہ ، گویا میں بیابانوں کے درندوں (کوفہ کے فوجیوں )کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ کربلا کی سرزمین پر میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں ۔۔۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ تم میں سے جو شخص بھی ہماری راہ میں اپنی جان کو قربان کرنے کا جذبہ رکھتا ہے وہ کل صبح ہمارے ساتھ سفر کیلئے تیار ہوجائے ۔(8) یاد رہے !(انی لم اخرج اشرا ولا بطرا ولا مفسدا ولا ظالما وانما خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی رسول اللہ ارید ان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر و اسیر بسیرۃ جدی و ابی علی بن ابیطالب ؑ )(9) (میں کسی تفریح ، بڑا بننے ، فتنہ و فساد اور ظلم ستم کیلئے اپنے وطن کو نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ میرے مدینے سے نکلنے کا مقصد اپنے جد رسول اللہ کی امت کی اصلاح ہے ، میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں ، اور چاہتا ہوں کہ اپنے نانا اور اپنے بابا علی بن ابیطالب ؑ کی سیرت پر عمل پیرا ہوں)۔ دیکھنا یہ ہے کہ کس قسم کی اصلاح تھی جو کہ مطلوب تھی ؟ آیا معاشی اصلاح تھی کہ لوگ مال حرام کھارہے تھے یا فکری اصلاح تھی ، کہ لوگ باطل اعتقادات کے شکار ہورہے تھے وغیرہ وغیرہ ۔ اس مقام پر زیارت اربعین کا یہ انمول فقرہ کیفیت اصلاح کی نشاندہی کرتا ہے:(و بذل مهجتة فیک لیستنقذ عبادک من الجهالة و حیرۃ الضلالة) (10)(اے خدا !)حسین ؑ نے اپنا خون جگر تیری راہ میں بہایا تاکہ تیرے بندوں کو جھالت ، گمراہی اور سرگردانی سے نجات دیں ۔ بنی امیہ نے بندگان خدا کو جہالت ، گمراہی اور سرگردانی میں رکھا ہوا تھا ۔ اگر امام حسین ؑ کا قیام نہ ہوتا تو خدا جانے لوگ کب تک اسی گمراہی اور جھالت و سرگردانی میں باقی رہتے !مؤرخین کے بقول واقعہ کربلا کے بعد ۳۰ سال کے اندر بنی امیہ و ۔۔۔ کی غاصب و مطلق العنان حکومت کے آگے ۲۰ مختلف انقلاب اسلامی ایسا سینہ سپر ہوگئے کہ جس کے باعث بنی امیہ کو اپنی بساط حکومت لپیٹ دینا پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے بنی امیہ کے ظلم و جبر کا خاتمہ ہوا اور ہر طرف ان کی مخالفت ہونے لگی اور جو لوگ اہل بصیرت ہیں آج تک ان سے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور ہر ظالم و جابر حکومت و حکمرانوں کے خلاف ( ہل من ناصر ینصرنا ) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں ۔
………………..

منابع :

(1) علی و شہر بی آرمان ، ص ۲۶۔

(2) ۔ شرح ابن ابی الحدید ، خطبہ ۲۰۰۔

(3) ۔ شرح ابن ابی الحدید ، ج ۳ ، ص ۲۴ ، طبع بیروت

(4) ایضا

(5) علیؑ و دو فرزندش ، ص262

(6) تاریخ یعقوبی ، ج 2 ، ص165

(7) لہوف ، ص11 ؛ بحارالانوار ، ج44 ، ص325

(8) سخنان حسین بن علی ؑ از مدینہ تا کربلا ، ص ۵۷۔

(9) بحار الانوار ، ج ۴۴ ، ص ۳۲۹ ۔ ۳۳۴۔

(10) مفاتیح الجنان ، زیارت اربعین۔

 

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس کے ضمن میں یورپی یونین کے اعلی اہلکارجوزپ بوریل سے ملاقات اور گفتگو کی ۔ اس گفتگو میں ایرانی وزیر خارجہ نے مشترکہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی غیر تعمیری رفتار پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور تین یورپی ممالک کو مشترکہ ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہیے اور یہ کام کوئي مشکل نہیں ہے۔

دونوں رہنماؤں نے مختلف موضوعات کے علاوہ افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران کی نئي حکومت مذاکرات کی حمایت کرتی ہے لیکن ایسے مذاکرات جو با مقصد ہوں اور جن میں ایرانی عوام کے حقوق محفوظ رہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ نے مشترکہ ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکہ کی رفتار کو غیر تعمیری قراردیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور تین یورپی ممالک کو مشترکہ ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہیے، ایران اپنے وعدوں پر عمل کرچکا ہے اور اب امریکہ اور تین یورپی ممالک کو اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہیے۔

اس ملاقات میں یورپی یونین کے اعلی اہلکارجوزپ بوریل نے مشترکہ ایٹمی معاہدے کو جامع معاہدہ قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ ایران، گروپ 1+5 ، علاقائی اور عالمی برادری کے لئے اہم اور مفید ہے اور اس پر عمل ہونا چاہیے یورپی یونین نے مشترکہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ اور  ٹرمپ کے خارج ہونے پر ہمیشہ تنقید کی ہے اور امریکہ کے اس اقدام کو غیر مفید قراردیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پائدار امن و صلح انصاف کے ذریعہ ہی ممکن ہے انبیاء علیھم السلام کی رسالت کا ہدف بھی یہی تھا کہ انسان حق و انصاف کے مطالبہ کے لئے قیام کریں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے امریکی کانگریس کی عمارت پر امریکی عوام کے حملے اور امریکی ہوائي جہاز سے افغانستان کے عوام کو نیچے پھینکنے کی تصاویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیپیٹل ہل سے لیکر کابل تک دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ امریکہ کا ملک کے اندر اور ملک سے باہر اعتبار ختم ہوگيا ہے۔

ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے قوموں کی استقامت کو بڑی طاقتوں کی قدرت پر قوی قراردیتے ہوئے کہا کہ آج مغربی ممالک کے تشخص کا منصوبہ ناکام ہوگیا ہے۔ امریکہ نے گذشتہ چند دہائیوں سے اپنی روش بدلنے کے بجائے جنگ و خونریزی سے دنیا کو بدلنے کی کوشش کی، جو امریکہ کی سب سے بڑی غلطی تھی۔

صدر سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ امریکہ نے اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ دنیا ميں نئی جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا سلسلہ ایران کے ایٹمی پروگرام یا انقلاب اسلامی کی کامیابی سے وابستہ نہیں بلکہ امریکہ نے ایرانی قوم کے خلاف پابندیوں کا سلسلہ 1951 ء سے شروع کیا، جب ایران نے تیل کو قومی صنعت قراردیا۔ اور امریکہ و برطانیہ نے ایران کی قومی حکومت کے خلاف فوجی کودتا کی حمایت کی اور ایران کے اندر عوامی حکومت کو گرا دیا تھا۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے شام اور عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور جمہوریت کے خلاف سازش قراردیتے ہوئے کہا امریکہ جمہوریت اور انسانی حقوق کا سب سے بڑا دشمن ہے، جس نے عراق، شام، افغانستان، لیبیا اور یمن میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا ہے۔

صدر سید ابراہیم رئیسی نے افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل پر زوردیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں پائدار امن و صلح کے قیام کے لئے ایسی حکومت کی تشکیل ضروری ہے جو افغان عوام کے ارادوں پر مشتمل ہو۔

صدر ابراہیم رئیسی نے یمن میں انسانی المیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یمن کے نہتے عوام کے خلاف مسلط کردہ جنگ سے کئی ملین  یمنی متاثر ہوئے ہیں عالمی برادری کی خاموشی جارح طاقتوں کی حوصلہ افزائی کا موجب بنی ہے۔ عالمی اداروں نے یمن کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا۔

صدر رئيسی نے غزہ کے محاصرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کا محاصرہ اور فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی بربریت اور جارحیت کا سلسلہ جاری ہے اور عالمی برادری کو اسرائیلی مظالم روکنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے جو بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کی نگرانی اور نظارت میں جاری ہے۔ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تمام پروپیگنڈے ناکام ہوگئے اور ایران نے ثابت کردیا ہے کہ ایران کے دفاعی پروگرام میں ایٹمی ہتھیاروں کی کوئی جگہ نہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کی حرمت کے بارے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کا فتوی موجود ہے۔ امریکہ نے مشترکہ ایٹمی معاہدے سے خارج ہوکر تاریخ غلطی کا ارتکاب کیا۔ ایران ملکی اور قومی مفادات کے تحفظ کے ساتھ  عالمی برادری اور دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ مذاکرات اور تعاون کے لئے آمادہ ہے۔ ایران ہمسایہ ممالک اور دیگر ممالک کے ساتھ ملکر دنیا میں پائدار امن و صلح کے سلسلے میں اپنا اہم نقش ایفا کرنے کے لئے تیار ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے آج نیویارک روانہ ہوں گے۔ اطلاعات کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ نیویارک کے سفر کے دوران روپ 4+1 کے وزرائے خارجہ اور 45 ممالک کے حکام کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کریں گے۔ اس سے قبل ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا تھا کہ ایرانی وزير خارجہ آج پیر کے دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے آج نیویارک روانہ ہوں گے۔ انھیں نے کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ اس دورے کے دوران گروپ 4+ 1کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ساتھ 45ممالک کے حکام کے ساتھ دو طرفہ تعلقات اور عالمی امور کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے المسیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے سربراہ مہدی المشاط  نے کہا ہے کہ یمنی عوام  پر فوجی حملے کا اصل مجرم امریکہ ہے۔ یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے سربراہ نے کہا کہ ہمیں آج ایسی جنگ کا سامنا ہے جو امریکہ نے ہم پر مسلط کی ہے ۔ سعودی عرب کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے، امریکہ سعودی عرب کو وسیع اور بڑے پیمانے پرہتھیار فراہم کررہا ہے ۔ امریکہ کی پشتپناہی کے باوجود سعودی عرب کو یمن پر ممسلط کردہ جنگ میں شکست اور ناکامی کا سامنا ہے۔

یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے سربراہ نے اقوام متحدہ کے انفعال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ نے یمن پر مسلط کردہ جنگ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا بلکہ اس نے یمنی عوام کے خلاف سعودی عرب کے ہولناک اور سنگین جرائم کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یمنی عوام یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ جنگ کا مقابلہ جاری رکھیں گے اور اس سلسلے میں یمن کی مسلح افواج اور قبائل کی طرف سے  سعودی عرب کے اندر دفاعی کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔

رپورٹ کے مطابق، "حسین امیرعبداللہیان" نے شنگھائی سرابراہی اجلاس کے موقع پر باہمی ملاقاتوں کے سلسلے میں جمعرات کی رات کو بھارت کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔

اس موقع پر انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی اور گہرے تعلقات سمیت تعاون بڑھانے کے بنیادی ڈاھنچوں کی موجودگی کا ذکرکرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، بھارت سے کثیر الجہتی تعاون بڑھانے پر تیار ہے۔

امیر عبداللہیان نے ایران اور افغانستان کے درمیان طویل مشترکہ سرحدوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران، افغانستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا سب سے پہلا متاثر ملک ہے۔

انہوں نے ایران میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی موجودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے ان مہاجرین کو امداد فراہم کرنے میں عالمی اداروں اور مغربی ممالک کی بے حسی پر تنقید کی۔

امیر عبداللہیان نے ان مہمانوں کے استقبال اور میزبانی اور ہمارے ملک کیجانب سے انتہائی سخت اقتصادی پابندیوں کے نفاذ کے عروج پر ان کیلئے انسانی خدمات کی فراہمی کو دونوں قوموں کی انسان دوستی کی گہرائی کی علامت سمجھا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے تمام افغان نسلی گروہوں کی شرکت کیساتھ ایک جامع حکومت کی تشکیل کو افغانستان کیلئے واحد مطلوبہ سیاسی نمونہ قرار دیا اور کہا کہ ہمارا ملک افغانستان کی سیاسی صورتحال کا خصوصی تعاقب کرتا رہتا ہے۔

انہوں نے تعلقات کے فروغ کے سلسلے میں ایران اور بھارت کے درمیان تعاون کے مشترکہ کمیشن کے جلد قیام کا مطالبہ کیا۔

دراین اثنا بھارتی وزیر خارجہ "جے شنکر" نے دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ان کا ملک ایران سے باہمی تعاون بڑھانے پر تیار ہے۔

انہوں علاقائی چیلنجز اور خاص طور افغان مسئلے سے متعلق، ایران اور بھارت کے درمیان مزید مشاورت کا مطالبہ کیا۔

بھارتی وزیر خارجہ نے مشترکہ اقتصادی کمیشن کے انعقاد کی تیاری کا اعلان کرتے ہوئے تعاون بڑھانے کیلئے نئی دہلی کی تیاری پر زور دیا۔

واضح رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے 21 ویں اجلاس کا آج بروز جمعہ کو اس تنظیم کے 12 مستقل اور مبصر رکن کے سربراہوں بشمول اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مملکت کی شرکت سے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں انعقاد کیا گیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ٹوکیو میں اولمپک اور پیرالمپک 2020 مقابلوں میں میڈلز حاصل کرنے والے ایرانی کھلاڑیوں سے ملاقات ميں فرمایا: اولمپک اور پیراولمپک مقابلوں میں آپ کی کامیابی درحقیقت عالمی سطح پر آپ کی ہمت، نشاط اور استقامت پر مبنی اہم پیغام ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی سطح پر کامیابی کے پیغامات  کو معاشرے کے جوانوں اور نوجواں کے لئے بھی اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: ان پیغامات کا تعلق دل کی گہرائیوں سے ہے اور ہم اس کی قدر و قیمت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض پابندیوں اور محدودیتوں کے باوجود عالمی سطح پر ایران کے پرچم کو کامیابی کے ساتھ لہرانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آپ نے پابندیوں کے باوجود ملک کے پرچم کو عالمی پلیٹ فارمز پر بلند کیا یہ آپ کے مضبوط و مستحکم ارادے اور خلاقیت کا مظہر ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی خواتین کی طرف سے ٹوکیو مقابلوں میں باحجاب شرکت کرنے اور میڈلز حاصل کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی خواتین نے ثابت کردیا ہے کہ حجاب ان کی ترقی اور پیشرفت میں مانع اور رکاوٹ نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایران کی باپردہ اور باحجاب خواتین کھلاڑي آج دیگر اسلامی ممالک کی خواتین کھلاڑيوں کے لئے بھی بہترین نمونہ ہیں اور آج 10 ممالک کی مسلمان خواتین حجاب کے ساتھ عالمی کھیلوں میں شرکت کرتی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسرائيل کی طرف سے عالمی مقابلوں میں شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسرائیل کی غاصب حکومت عالمی سطح پر اپنے لئے قانونی جواز تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اس سلسلے میں کھیل کے میدان سے بھی استفادہ کررہی ہے اور اسے اس سلسلے میں عالمی سامراجی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے، لیکن ایران نے عالمی سطح پر واضح کردیا ہے کہ وہ اسرائيل کی غاصب ، ناجائز اور نامشروع حکومت کو کھیل کے میدان میں بھی تسلیم نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ ایرانی کھلاڑی اسرائيل کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں ، لہذا ایران کے کھیل کے حکام کو بھی اس موضوع پر خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

شیعیت نیوز: دوشنبے میں جاری شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی سائیڈ لائن پر وزیراعظم عمران خان اور برادر اسلامی ملک ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے درمیان اہم ملاقات ہوئی۔ بعدازاں اس ملاقات کا اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، اعلامیے کے مطابق ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات، علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا اور پاک ایران برادرانہ تعلقات کو مضبوط اور وسعت دینے کے عزم کا اعادہ کیا، وزیراعظم عمران خان نے تجارت، اقتصادی و علاقائی روابط پر زور دیا۔

ملاقات میں وزیراعظم پاکستان نے حالیہ صدارتی انتخابات میں کامیابی پر ایرانی صدر کو مبارکباد دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر پر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی مسلسل حمایت پر شکریہ ادا کیا۔ اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم نے ایرانی صدر سے ملاقات کے دوران مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر گفتگو کی، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایران کا مؤقف کشمیریوں کی حق خودارادیت جدوجہد کی طاقت کا ذریعہ ہے۔

 

دونوں رہنماؤں نے ملاقات میں افغانستان صورتحال پر بھی تفصیلی گفتگو کی، وزیراعظم عمران خان نے پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چالیس سال بعد افغانستان میں تنازعات، جنگ کے خاتمے کا موقع ہے، وزیراعظم نے مثبت تعمیری عملی اقدامات اور عالمی برادری کے کردار کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے ایران کے صدر کو دورہ پاکستان کی دعوت دی جبکہ ایران کے صدر نے بھی وزیراعظم عمران خان کو دورہ ایران کی دعوت دی۔ علاوہ ازیں خانہ فرہنگ ایران کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بڑھانے کی انتہائی قیمتی صلاحیتیں ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ان کا ملک خطے کے ممالک بالخصوص ہمسایہ ملک پاکستان سے تعلقات کے فروغ اور علاقائی تعاون پر پُختہ عزم رکھتا ہے، پاک، ایران تعلقات دو ہمسایہ ممالک سے کہیں زیادہ آگے ہیں، ہمیں اغیار کی سازشوں کو ان اچھے تعلقات پر خلل ڈالنے کی اجارت نہیں دینی ہوگی۔

آیت اللہ رئیسی نے دونوں ممالک کے درمیان طویل مشترکہ سرحدوں اور ان سرحدی علاقوں میں اقتصادی تعلقات کے فروغ کی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی علاقوں میں سکیورٹی کا قیام، ان علاقوں کی اقتصادی اور تجارتی لین دین کی اہم صلاحیتوں کو فعال کرسکتا ہے اور ان علاقوں کی خوشحالی میں اضافے میں بھی مدد دے سکتا ہے۔ انہوں نے افغانستان کی تبدیلیوں سے متعلق ایک مشترکہ اجلاس کے انعقاد کیلئے پاکستانی وزیراعظم کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں افغانستان میں ایک جامع حکومت کے قیام میں مدد کرنی ہوگی، جس میں تمام افغان سیاسی اور نسلی گروہ شامل ہوں۔ افغانستان کے مصائب کے حل کا کلید، جامع حکومت کا قیام اور اس ملک کے اندرونی معاملات میں اغیار کی عدم مداخلت ہے۔ سید ابراہیم رئیسی نے مزید کہا کہ افغانستان میں امریکی اور مغربی افواج کی 20 سالہ موجودگی سے 35 ہزار سے زائد افغان بچوں اور ہزاروں مردوں اور عورتوں کے قتل، تباہی اور بے گھر ہونے کے سوا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ امریکی فوجیوں کا انخلا، افغانستان میں جمہوری حکومت بنانے اور ملک اور خطے میں امن لانے کا ایک تاریخی موقع ہے۔

 

 

اس موقع پر پاکستانی وزیراعظم نے اسلامی جمہوریہ ایران کیجانب سے پاکستان سے متعلق برادرانہ اور تعمیری موقف اپنانے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایران سے کثیرالجہتی تعلقات بالخصوص نقل و حمل کے میدان میں تعاون بڑھانے کے خواہاں ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی سطح کو بہتر بنانے سے مثبت علاقائی اور عالمی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن اور استحکام، علاقے اور دنیا کے تمام ممالک کے مفاد میں ہے۔ اگر افغانستان میں ایک جامع حکومت کا قیام نہ ہو تو اس ملک کے مسائل شدت اختیار کر جائیں گے اور اس کے نقصانات کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں پاکستان اور ایران پر ہوں گے۔ عمران خان نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان کو افغانستان میں ایک جامع حکومت کے قیام میں تعمیری کردار ادا کرنے کیلئے ایک دوسرے کیساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔

افغانستان میں اقتدار کی منتقلی کے بعد پاکستان اور ایران کی اعلیٰ قیادت کے درمیان یہ پہلی ملاقات ہے، جس میں افغان صورتحال اور اس کے خطہ پر مرتب ہونے والے اثرات کے تناظر میں اہم بات چیت ہوئی، تاہم اس ملاقات میں پاکستان کے دیرینہ مسئلہ کشمیر پر وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے ایران کی اعلیٰ قیادت یعنی رہبر انقلاب اسلامی کی مکمل اور تسلسل کیساتھ حمایت پر اظہار تشکر اہم ترین پیشرفت ہے۔ واضح رہے کہ پاک، ایران تعلقات کی مخالف قوتیں ماضی میں ایران اور بھارت کے تعلقات کے تناظر میں کشمیر پر ایرانی قیادت کی حمایت نہ کئے جانے کا پروپیگنڈا کرتی رہی ہیں۔ عمران خان کی جانب سے آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی کشمیر ایشو پر حمایت کرنے پر شکریہ ادا کرنا نہ صرف اس پروپیگنڈے کا بھرپور جواب ہے، بلکہ یہ اعتراف بھی ہے کہ جس طرح رہبر اعلیٰ سید علی خامنہ ای دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کیلئے سب سے توانا آواز بلند کرتے ہیں، اسی طرح وہ کشمیری مسلمانوں کیلئے بھی وہی جذبات رکھتے ہیں۔

 تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران، روس، چین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزرائے خارجہ نے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں افغانستان کے بارے میں ایک اہم ملاقات انجام دی ہے۔ یہ ملاقات دوشنبہ میں جاری شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر انجام پائی ہے جس میں افغانستان سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ اس ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیانیہ جاری کیا گیا ہے جس میں افغانستان کی خودمختاری، حق خود ارادیت اور سالمیت کے احترام پر زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح اس بیانیے میں افغانستان سے متعلق وزرا، خصوصی نمائندگان اور سفیروں کی سطح پر مزید نشستیں منعقد کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اس مشترکہ بیانیے کے آغاز میں کہا گیا ہے: "ایران، روس، چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر 16 ستمبر 2021ء کے دن آپس میں ملاقات انجام دی۔ ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک بار پھر افغانستان اور پورے خطے میں امن، سکیورٹی اور استحکام کو فروغ دینے کیلئے اپنے عزم راسخ کا اظہار کیا ہے۔"
 
افغانستان سے متعلق ایران، روس، چین اور پاکستان کے مشترکہ بیانیے میں مزید کہا گیا ہے: "وزرائے خارجہ، افغانستان کی حاکمیت، خودمختاری اور سالمیت پر زور دیتے ہوئے ایک بار پھر بنیادی اصول "افغان شہریوں کی قیادت میں، افغان شہریوں کی ملکیت میں" پر زور دیتے ہیں اور افغان عوام کے امن، استحکام، ترقی اور فلاح و بہبود کے حق سے برخورداری پر زور دیتے ہیں۔ وزرائے خارجہ ایسے ممالک سے رابطہ رکھنے کی تاکید کرتے ہیں جنہوں نے جنگ کے بعد افغانستان میں سماجی اور اقتصادی تعمیر نو کیلئے مالی اور انسانی ہمدردی کی امداد فراہم کرنے کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔" ایران، پاکستان، چین اور روس کے وزرائے خارجہ نے افغانستان میں قومی مفاہمت اور ایک وسیع البنیاد قومی حکومت تشکیل دینے پر زور دیا ہے۔ مزید برآں، وزرائے خارجہ نے افغانستان میں پیش آنے والے مختلف چیلنجز جیسے دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ وغیرہ سے مقابلہ کرنے کیلئے مل کر موثر اقدامات انجام دینے پر تاکید کی ہے۔