
سلیمانی
بیعت غدیر
تحریر: سید آصف نقوی
پیغمبر اکرمؐ کی زندگی کا آخری سال تھا۔ ”حجۃ الوداع“ کے مراسم جس قدر باوقار اور باعظمت ہوسکتے تھے، وہ پیغمبر اکرمﷺ کی ہمراہی میں اختتام پذیر ہوئے، سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے، ابھی تک ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کر رہی تھی۔ اصحاب پیغمبرؐ کی کثیر تعداد آنحضرتؐ کے ساتھ اعمال حج انجام دینے کی عظیم سعادت پر بہت زیادہ خوش نظر آرہے تھے۔ پیغمبرؐ کے ساتھیوں کی تعداد بعض کے نزدیک 90 ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بارہ ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بیس ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبرؐ کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزاز و افتخار حاصل کرنے کے لئے آپؐ کے ہمراہ تھے۔
میدانِ غدیر خم کا پس منظر
سرزمین حجاز کا سورج در و دیوار اور پہاڑوں پر آگ برسا رہا تھا، لیکن اس سفر کی بے نظیر روحانی حلاوت نے تمام تکلیفوں کو آسان بنا دیا تھا۔ زوال کا وقت نزدیک تھا، آہستہ آہستہ ”جحفہ“ کی سرزمین اور اس کے بعد خشک اور جلانے والے ”غدیر خم“ کا بیابان نظر آنے لگا۔ در اصل یہاں ایک چوراہا ہے، جو حجاز کے لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے، شمالی راستہ مدینہ کی طرف، دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف، تیسرا راستہ مغربی ممالک اور مصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام تھا، جہاں آخری اور اس عظیم سفر کا اہم ترین مقصد انجام دیا جانا تھا اور پیغمبرؐ مسلمانوں کے سامنے اپنی آخری اور اہم ذمہ داری کی بنا پر آخری حکم پہچانا چاہتے تھے۔
آیہ بلغ
یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ ”اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پہنچا دیں، جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔“(سورہ مائدہ ، آیت 67) اہل سنت کی متعدد کتابوں نیز تفسیر و حدیث اور تاریخ کی (تمام شیعہ مشہور کتابوں میں) بیان ہوا ہے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ان احادیث کو بہت سے اصحاب نے نقل کیا ہے، منجملہ: ”ابوسعید خدری“، ”زید بن ارقم“، ”جابر بن عبد اللہ انصاری“، ”ابن عباس“، ”براء بن عازب“، ”حذیفہ“، ”ابو ہریرہ“، ”ابن مسعود“ اور ”عامر بن لیلی“، اور ان تمام روایات میں بیان ہوا کہ یہ آیت واقعہ غدیر سے متعلق ہے اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
ابن عساکر شافعی: الدر المنثور سے نقل کیا ہے، جلد دوم، صفحہ۲۹۸
فخر الدین رازی: ”تفسیر کبیر“، جلد ۳، صفحہ ۶۳۶
بد ر الدین حنفی: ”عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری“، جلد ۸، صفحہ ۵۸۴
شیخ محمد عبدہ مصری: ”تفسیر المنار“، جلد ۶، صفحہ ۴۶۳
اور ان کے علاوہ بہت سے دیگر علمانے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
ان مذکورہ روایات کے علاوہ بھی متعددروایات ہیں، جن میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ یہ آیت غدیر خم میں اس وقت نازل ہوئی کہ جب پیغمبر اکرم (ص) نے خطبہ دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا وصی و خلیفہ بنایا، ان کی تعداد گذشتہ روایات کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے، یہاں تک محقق بزرگوار علامہ امینی نے کتابِ ”الغدیر“ میں ۱۱۰ اصحاب پیغمبر سے زندہ اسناد اور مدارک کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جمعرات کا دن تھا اور ہجرت کا دسواں سال، آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ جیسے ہی یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبرﷺ کی طرف سے سب کو ٹھہرنے کا حکم دیا گیا، مسلمانوں نے بلند آواز سے قافلہ سے آگے چلے جانے والے لوگوں کو واپس بلایا اور اتنی دیر تک رُکے رہے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ گئے۔ آفتاب خط نصف النہار سے گزر گیا تو پیغمبرؐ کے موٴذن نے ”اللہ اکبر“ کی صدا کے ساتھ لوگوں کو نماز ظہر پڑھنے کی دعوت دی، مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوگئے، لیکن فضا اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی حصہ سر پر رکھنے کے لئے مجبور تھے، ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رہی تھیں۔
اس صحرا میں کوئی سایہ نظر نہیں آتا تھا اور نہ ہی کوئی سبزہ یا گھاس، صرف چند خشک جنگلی درخت تھے، جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے۔ کچھ لوگ انہی چند درختوں کا سہارا لئے ہوئے تھے، انہوں نے ان برہنہ درختوں پر ایک کپڑا ڈال رکھا تھا اور پیغمبرؐ کے لئے ایک سائبان بنا رکھا تھا، لیکن سورج کی جلا دینے والی گرم ہوا اس سائبان کے نیچے سے گزر رہی تھی۔ نماز ظہر کے بعد رسول اللہ ؐنے انہیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوند تعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ہو جائیں، جسے ایک مفصل خطبہ کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔ جو لوگ رسول اللہ ؐ سے دور تھے، وہ اس عظیم اجتماع میں پیغمبر کا ملکوتی اور نورانی چہرہ دیکھ نہیں پا رہے تھے، لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا، پیغمبرؐ اس پر تشریف لے گئے، پہلے پروردگار عالم کی حمد و ثنا بجا لائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے یوں خطاب فرمایا: "میں عنقریب خداوند ِ متعال کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تمہارے درمیان سے جانے والا ہوں، میں بھی جوابدہ ہوں اور تم لوگ بھی جوابدہ ہو، تم میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟ سب لوگوں نے بلند آواز میں کہا: ”نَشھَد اٴنّکَ قَد بَلَغْتَ وَ نَصَحْتَ وَ جَاھَدتَّ فَجَزَاکَ اللہُ خَیْراً“ ”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اور خیر خواہی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپ کو جزائے خیر دے۔“
اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت، میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اور اس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ہونے کی گواہی نہیں دیتے۔؟ سب نے کہا: کیوں نہیں! ہم سب گواہی دیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: خدایا! گواہ رہنا۔ آپؐ نے مزید فرمایا: اے لوگو! کیا تم میری آواز سن رہے ہو۔؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ہوگیا، سوائے ہوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نہیں دیتی تھی، پیغمبرؐ نے فرمایا: دیکھو! میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جا رہا ہوں، تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرو گے۔؟ حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کہا: یارسول اللہؐ وہ دو گرا نقدر چیزیں کونسی ہیں۔؟ تو پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا: پہلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، جو ثقل اکبر ہے، اس کا ایک سرا پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھ میں ہے، اس سے ہاتھ نہ ہٹانا، ورنہ تم گمراہ ہو جاؤ گے، دوسری گرانقدر یادگار میرے اہل بیت ؑہیں اور مجھے خدائے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیں گے۔ ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ہی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ہلاک ہو جاؤ گے۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ رسول اللہؐ اپنے ارد گرد نگاہیں دوڑا رہے ہیں، گویا کسی کو تلاش کر رہے ہیں، جونہی آپؐ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی تو فوراً ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور انہیں اتنا بلند کیا کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انہیں دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو اسلام کا وہی سپہ سالار ہے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نہیں دیکھا۔ اس موقع پر پیغمبرؐ کی آواز زیادہ نمایاں اور بلند ہوگئی اور آپؐ نے ارشاد فرمایا: ”اٴیُّھا النَّاس مَنْ اٴولیٰ النَّاسِ بِالمَوٴمِنِیْنَ مِنْ اٴَنْفُسِھم“ اے لوگو! بتاؤ وہ کون ہے، جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولیت رکھتا ہے۔؟ اس پر سب حاضرین نے بیک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبرؐ بہتر جانتے ہیں۔ تو پیغمبرؐ نے فرمایا: خدا میرا مولا اور رہبر ہے اور میں مومنین کا مولا اور رہبر ہوں اور میں ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے پر مقدم ہے)۔ اس کے بعد فرمایا: ”فَمَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِیّ مَولاہ۔“ ”یعنی جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کے مولا اور رہبر ہیں۔“
پیغمبر اکرمؐ نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی اور بعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبرؐ نے یہ جملہ چار مرتبہ دہرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کرکے بارگاہ خداوندی میں عرض کی: ”اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاٰہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ وَاٴحب مَنْ اٴحبہُ وَ ابغِضْ مَنْ اٴبغَضہُ وَ انْصُرْمَنْ نَصَرُہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ، وَاٴدرِالحَقّ مَعَہُ حَیْثُ دَارَ“ یعنی "بار الٰہا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ، جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر، جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مدد سے محروم رکھ اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر وہ رُخ کرے۔" اس کے بعد فرمایا: ”اٴلَا فَلْیُبَلِّغ الشَّاہدُ الغائبُ“ ”تمام حاضرین آگاہ ہو جائیں کہ یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو ان لوگوں تک پہنچائیں، جو یہاں پر اس وقت موجود نہیں ہیں۔“ پیغمبر کا خطبہ ختم ہوگیا، پیغمبر پسینے میں شرابور تھے، حضرت علی علیہ السلام بھی پسینہ میں غرق تھے، دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رہا تھا۔
ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئی تھیں کہ جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور پیغمبر کو ان الفاظ میں تکمیلِ دین کی بشارت دی: "الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی" ”آج کے دن ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین اور آئین کو کامل کر دیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کر دیا۔“(سورہٴ مائدہ، آیت3)
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر اکرم ؐنے فرمایا: ”اللہُ اٴکبرُ اللہُ اٴکبرُ عَلیٰ إکْمَالِ الدِّینِ وَإتْمَام النِعْمَةِ وَرَضیٰ الربِّ بِرسَالَتِی وَالوِلاٰیَة لِعَلیّ مِنْ بَعْدِی“ ”ہر طرح کی بزرگی و بڑائی خدا ہی کے لئے ہے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کیا اور میری نبوت و رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت کے لئے خوش ہوا۔“
واقعۂ غدیر میں تحقیق کی ضرورت:
واقعۂ غدیر کی صحیح شناخت حاصل کرنے کا ایک راستہ اس عظیم واقعہ کی تاریخی حوالے سے صحیح تحقیق ہے، دیکھنا یہ چاہیئے کہ غدیر کے دن کون سے واقعات اور حادثات رونما ہوئے۔ رسول اکرمﷺ نے کیا کیا؟ اور دشمنوں اور مخالفوں نے کس قسم کا رویّہ اختیار کیا۔؟ تاکہ غدیر کی حقیقت واضح اور روشن ہو جائے، اگر غدیر کا دن صرف اعلان ولایت کے لئے تھا؛ تو پھر رسول اکرمﷺ کی گفتگو اور عمل کو بھی اسی حساب سے صرف ابلاغ و پیغام تک محدود ہونا چاہیئے تھا! یعنی رسول اکرمﷺ سب لوگوں کو جمع کرتے اور حضرت علیؑ کی لیاقت اور صلاحیّتوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہ فرماتے؛ پھر کچھ اخلاقی نصیحتوں کے ساتھ لوگوں کے لئے دعا فرماتے اور خدا کی امان میں دے دیتے، بالکل اس طرح سے جیسے آج سے پہلے بعثت کے آغاز سے لے کر غدیر کے دن تک بارہا آنحضرتﷺ کی طرف سے دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد ہر شہر و دیار سے آئے ہوئے مسلمان اپنے اپنے وطن کی طرف لوٹ جاتے۔ رسول اکرمﷺ اس کام کو مکّہ کے عظیم اجتماع میں حج کے وقت بھی انجام دے سکتے تھے، عرفات اور منیٰ کے اجتماعات میں بھی یہ کام کیا جاسکتا تھا۔ لیکن غدیر کے تاریخی مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہو جائے گی اور یہ نظریہ بھی سامنے آئے گا کہ غدیر کی داستان کچھ اور ہی ہے۔
آیات غدیر پر غور و خوص
آیت بلغ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے کوئی ایسا عظیم کام رسول اکرمﷺ سپرد کیا ہے، جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوں کی مایوسی کا سبب بھی ہے۔ اس سے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت، وصایت اور جانشینی کے منصب پر معین کریں۔؟ بعض لوگوں نے سورۂ مبارکہ مائدہ کی آیت ۶۷ (یا أَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰا أُنْزِلَ إِلَیْک)کے ظاہر پر توجّہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ غدیر کا دن صرف ’’پیغام ولایت‘‘ پہچانے کا دن ہے اور رسول اکرمﷺ نے اس مبارک دن ’’حضرت علیؑ‘‘ کی ولایت کا پیغام لوگوں تک پہنچایا اور بس اتنے ہی کو کافی سمجھتے ہوئے خوش حال ہو جاتے ہیں یا تو غدیر کے دوسرے تمام زاویوں کو درک کرنے سے ان کی عقلیں قاصر ہیں یا کتب کے مطالعہ کے ذریعہ حقیقت تک پہنچنے کی زحمت نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ: لفظ ( بَلِّغْ) یعنی ابلاغ کر دو، لوگوں تک پہنچا دو اور (مٰا أُنْزِلَ إِلَیْک) یعنی ولایت اور امامت حضرت امیرالمؤمنینؑ۔ لہٰذا غدیر کا دن صرف ’’اعلان ولایت‘‘ کا دن ہے۔
اس گروہ کا جواب بھی مختلف طریقوں سے دیا جاسکتا ہے ،جیسا کہ:
1۔ آیات غدیر کی صحیح تحقیق: یہ صحیح ہے کہ لفظ ’’بلّغ‘‘ کے معنیٰ ہیں (پہنچا دو)؛ لوگوں میں ابلاغ کر دو اور لوگوں کو آگاہ کر دو، لیکن کس چیز کے پہنچانے کا حکم دیا جا رہا ہے؛ اس حکم کا متعلّق کیا ہے۔؟ یہ بات اس آیہ مبارکہ میں ذکر نہیں ہوئی ہے، کس چیز کو پہنچانا ہے؟ ظاہر آیت سے واضح نہیں ہے اور اس آیت کا باقی حصّہ یعنی (مٰا أُنْزِلَ إِلَیْک) جو کچھ تم پر نازل کیا گیا، یہ عام ہے؛ جو کچھ تم پر نازل کیا گیا، یہ کیا چیز ہے۔؟ آیا مقصود صرف ’’ اعلان ولایت‘‘ ہے۔؟ آیا مقصود ’’امام کا تعارف‘‘ ہے۔؟ آیا مراد ’’قیامت اور رجعت تک آنے والے اماموں کا تعارف‘‘ ہے۔؟ آیا مراد ’’اسلام کی رہبریت کا تعیّن‘‘ ہے۔؟ یا (مٰا أُنْزِلَ إِلَیْک) کا متعلّقہ موضوع ’’تھیوری اور پریکٹیکل‘‘ یعنی عملی و نظری پر مشتمل ہے، یعنی ائمّہ معصومین علیہم السّلام کا تعارف کروائیں اور ان ہستیوں کے لئے بیعت بھی طلب کریں۔؟ تاکہ ’’بیعت عمومی‘‘ کے بعد کوئی بھی شکوک و شبہات کا سہارا لیتے ہوئے مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل نہ کرسکے۔ چنانچہ یہ سمجھنا اور جاننا ضروری ہے کہ (مٰا أُنْزِلَ إِلَیْک) کیا ہے۔؟ جو کچھ پیغمبر اسلامﷺ پر نازل ہوچکا تھا، وہ کیا تھا۔؟
سورۂ مبارکہ مائدہ کی آیت ۶۷ میں موجودہ پیغامات اور مسلسل احتیاط اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ پہلا نظریہ (صرف اعلان ولایت) صحیح نہیں ہے، بلکہ دوسرے نظریئے (وسیع اہداف) کو ثابت کر رہے ہیں۔ اس آیہ مبارکہ میں مزید آیا ہے: (وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰالَتَہُ) (اگر تم نے یہ کام انجام نہ دیا تو گویا اس کی رسالت کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا۔) (مٰا أُنْزِلَ) کا متعلق کیا اہم چیز ہے کہ جس کو انجام نہ دیا گیا تو پیغمبر اسلامﷺ کی رسالت ناقص و نامکمّل رہ جائے گی۔؟ ادھر رسول اکرمﷺ بھی اس کو انجام دینے سے گھبرا رہے ہیں کہ شاید اس کو قبول نہ کیا جائے اور رخنہ ڈال دیا جائے، اگر صرف ’’اعلان ولایت‘‘ تھا تو اس میں کس بات کا ڈر اور ہچکچاہٹ۔؟ کیونکہ اس سے پہلے بھی بارہا، محراب میں، منبر پر، مدینہ اور دوسرے شہروں میں، جنگ کے میدان میں اور جنگوں میں کامیابیوں کے بعد حضرت امام علیؑ کی ولایت اور وصایت کا اعلان کرچکے تھے، لوگوں تک اس بات کو پہنچا چکے تھے، کسی کا خوف نہ تھا اور کسی سے اس امر کی بجا آوری میں اجازت طلب نہ کی تھی۔
آپ ﷺ نے جنگ تبوک اور جنگ خیبر کے موقع پر حدیث ’’منزلت‘‘ میں حضرت علیؑ ابن ابی طالب ؑ کا تعارف بعنوان وزیر اور خلیفہ کروایا اور کسی بھی طاغوتی طاقت اور قدرت کی پروا نہ کی۔ غدیر کے دن ایسا کیا ہونے والا تھا، جو رسول خداﷺ کو خوفزدہ کئے ہوئے تھا اور فرشتۂ وحی آپﷺ کو تسلّی دیتے ہوئے اس آیت کو لے کر نازل ہوا (وَﷲُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ) (ﷲ تمہیں انسانوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔) جملۂ (مٰا أُنْزِلَ) کا متعلّق کونسی ایسی اہم چیز ہے کہ جس کے وجود میں آنے کے بعد اکمال دین: ( أَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ) اتمام نعمات الٰہی: (وَ أَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتٖیْ) بقاء اور جاویدانی اسلام: (وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلٰامَ دِیْناً) کفّار کی ناامیدی: (أَ لْیَوْمَ یَئسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) جیسے اہم فوائد حاصل ہونگے۔؟ چنانچہ یقیناً پہلا نظریہ صحیح نہیں ہے اور (مٰا أُنْزِلَ إِلَیْک) کا متعلّق ’’ولایت امیرالمؤمنینؑ کا اعلان‘‘ اور ’’مسلمانوں کی عمومی بیعت‘‘ ہونا چاہیئے۔
اے رسول خداﷺ! آج ہم نے جو کچھ تم پر نازل کیا ہے، لوگوں تک پہنچا دو، یعنی امام علیؑ اور ان ؑکی اولاد میں سے گیارہ بیٹوں کی ولایت اور امامت کا اعلان کر دو اور اس کے بعد حج کی برکت سے ساری دنیا سے آکر اس سرزمین پر جمع ہونے والے مسلمانوں سے بیعت اور اعتراف لے لو (کہ پھر اتنا بڑا اجتماع وجود میں نہ آئے گا) اور امامت کے مسئلے کو نظریہ اور عقیدہ میں عمومی اعتراف اور عملی طور پر عمومی بیعت کے ذریعہ انجام تک پہنچا دو، کیونکہ خدا کے انتخاب اور رسول خداﷺ کے ابلاغ کے بعد لوگوں کی عمومی بیعت بھی تحقق پذیر ہوئی اور دین کامل ہوگیا۔ (امامت راہ رسالت کی بقا اور دوام کا ذریعہ ہے۔) خداوند عالم کی نعمتیں انسانوں پر تمام ہوگئیں، دین اسلام ہمیشہ کے لئے کامیاب ہوگیا، کفّار ناامید ہوگئے کہ اب ارکان اسلام کو متزلزل نہ کرسکیں گے۔اس مقام پر وحی الٰہی یہ بشارت دے رہی ہے کہ (أَلْیَوْمَ یَئسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) آج ’’روز غدیر‘‘ کفّار ناامید ہوگئے۔
وگرنہ صرف ’’اعلان ولایت تو غدیر سے پہلے بھی کئی بار ہوچکا تھا، کفّار نااُمید نہ ہوئے تھے اور صرف ’’اعلان ولایت کے ذریعہ دین کامل نہیں ہوتا، کیونکہ ممکن ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ امامت کا پیغام پہنچا دیں، لیکن لوگ بیعت نہ کریں اور اُمّت میں اختلاف پیدا ہو جائے، گذشتہ اُمّتوں کی طرح پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف قیام کیا جائے اور ان کو قتل کر دیا جائے۔ کیا گذشتہ اُمّت نے پیغمبر خدا حضرت زکریا علیہ السلام کو آرے سے دو حصّوں میں تقسیم نہیں کیا۔؟ کیا مخالفوں نے حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر کا سر تن سے جدا نہیں کیا اور اس زمانے کے طاغوت کے لئے اس سر کو ہدیے کے طور پر پیش نہیں کیا۔؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر کو ایک عرصہ کے لئے ہجرت کرنے اور پوشیدہ رہنے پر مجبور نہیں کیا اور یہودیوں کے جھوٹے دعوے اور مسیحیت کے جھوٹے عقیدے کو بنیاد بنا کر ان کو سولی پر نہیں لٹکایا۔؟
اس مقام پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:
۱۔ صرف اعلان ولایت کشیدگی کا سبب نہیں ہے۔
۲۔ اُمّت کے درمیان اختلاف کا خطرہ نہیں ہے۔
۳۔ مسلّحانہ کارروائیوں کا حامل نہیں ہے۔
۴۔ پیغمبر اکرمﷺ کو خوفزدہ نہیں کرسکتا۔
یہ سارے وہم اور خوف ’’عمومی بیعت کے تحقّق‘‘ کی وجہ سے ہیں، جو کہ موقع کی تلاش میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کو خوف و وحشت میں مبتلا کئے ہوئے ہے اور کفّار کی یاس و نااُمیدی اسی سبب سے ہے اور حکومت و قدرت کے پیاسوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ایک مسلّحانہ بغاوت کریں۔
مولا علیؑ کی بیعت اللہ کی بیعت ہے
اپنے خطبہ کے آخری حصہ میں زبانی بیعت انجام پائی اور آپؐ نے فرمایا: ”خداوند عالم کا یہ حکم ہے کہ ہاتھ کے ذریعہ بیعت لینے سے پہلے تم سے زبانوں کے ذریعہ اقرار لوں“ اس کے بعد جس مطلب کی تمام لوگوں کو تائید کرنا تھی وہ معین فرمایا، جس کا خلاصہ بارہ اماموں کی اطاعت دین میں تبدیلی نہ کرنے کا عہد و پیمان، آئندہ نسلوں اور غائبین تک پیغام غدیر پہنچانا تھا۔ ضمناً یہ بیعت ہاتھ کی بیعت بھی شمار ہوتی تھی چونکہ آنحضرت ؐ نے فر مایا: کہو کہ ہم اپنی جان و زبان اور ہاتھوں سے بیعت کرتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ کے خطبہ کے آخری کلمات آپؐ کے فرامین کی اطاعت کرنے والوں کے حق میں دعا اور آپؐ کے فرامین کا انکار کرنے والوں پر لعنت تھی اور خداوند عالم کی حمد و ثناء پر آپؐ نے خطبہ تمام فر مایا۔ آپﷺ نے فرمایا: مَعاشِرَ النّاسِ، إنّی قَدْ بَینْتُ لَکُمْ وَأَفْهَمْتُکُمْ، وَهذا عَلِی یفْهِمُکُمْ بَعْدی. أَلا وَاءنّی عِنْدَ انْقِضاءِ خُطْبَتی أَدْعُوکُمْ اءلی مُصافَقَتی عَلی بَیعَتِهِ وَالاْءقْرارِ بِهِ، ثُمَّ مُصافَقَتِهِ بَعْدی. أَلا وَاءنّی قَدْ بایعْتُ اللّهَ وَعَلِی قَدْ بایعَنی، وَأَنَا آخِذُکُمْ بِالْبَیعَةِ لَهُ عَنِ اللّهِ عَزَّ وَجَلَّ. «إنَّ الَّذینَ یبایعُونَکَ إنَّما یبایعُونَ اللّهَ، یدُ اللّهِ فَوْقَ أَیدیهِمْ. فَمَنْ نَکَثَ فَإنَّما ینْکُثُ عَلی نَفْسِهِ، وَمَنْ أَوْفی بِما عاهَدَ عَلَیهُ اللّهَ فَسَیؤْتیهِ أَجْرا عَظیما۔(بحار الانوار جلد ۳۷ صفحہ ۲۰۱ ۔۲۰۷۔ اثبات الھداۃ جلد ۲ صفحہ ۱۱۴، جلد ۳ صفحہ ۵۵۸۔) (سورہ فتح آیت نمبر 10)
ایھاالناس! میں نے سب بیان کر دیا اور سمجھا دیا، اب میرے بعد یہ علی تمہیں سمجھائیں گے۔ آگاہ ہو جاؤ! کہ میں تمہیں خطبہ کے اختتام پر اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ پہلے میرے ہاتھ پر ان کی بیعت کا اقرار کرو، اس کے بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کرو، میں نے اللہ کے ساتھ بیعت کی ہے اور علیؑ نے میری بیعت کی ہے اور میں خداوند عالم کی جانب سے تم سے علیؑ کی بیعت لے رہا ہوں۔ (خدا فرماتا ہے:) ”بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں، وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہاتھ ہے، اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے، وہ اپنے ہی خلاف اقدام کرتا ہے اور جو عہد الٰہی کو پورا کرتا ہے، خدا اسی کو اجر عظیم عطا کرے گا۔“ اس کا مفہوم یہ ہے کہ علی ؑ کی بیعت نبی کی بیعت ہے اور نبیﷺ کی بیعت اللہ کی بیعت ہے۔ جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کسی کی بیعت کا محتاج نہیں ہے، ویسے ہی نبیؐ بھی کسی کی بیعت کے محتاج نہیں اور اسی طرح علیؑ بھی کسی کی بیعت کے محتاج نہیں ہیں۔ چونکہ بیعت دو طرفہ چیز کا نام ہے۔ ایک وہ جس کی بیعت کی جائے اور دوسرا بیعت کرنے والا۔ اس لیے جو اس بیعت پر قائم رہے گا، اسی کے لیے اجر عظیم ہے اور جو اس بیعت کو توڑ دے گا، اس کے لیے ہلاکت ہے۔ یعنی جو مولا علیؑ کو امام سمجھے، ان سے محبت رکھے اور وفادار رہے۔ اسی کے لیے نجات ہے اور جس نے رو گردانی کی اس کے لیے ہلاکت ہے۔
اعلان ولایت
پیغمبر اکرمؐ نے تمام مقدمات فراہم کرنے اور امیرالمومنین علیہ السلام کی خلافت و ولایت کا تذکرہ کرنے کے بعد اس غرض سے کہ قیامت تک ہر طرح کا شک و شبہ ختم ہو جائے اور اس سلسلہ میں ہر طرح کا مکر و فریب غیر موٴثر ہو جائے، ابتدا میں آپؐ نے زبانی طور پر اشارہ فرمایا اور اس کے بعد لوگوں کے لئے عملی طور پر بیان کرتے ہوئے ابتدا میں اس ترتیب کے ساتھ بیان فرمایا: ”قرآن کا باطن اور تفسیر تمھارے لئے کوئی بیان نھیں کرسکتا، مگر یہ شخص جس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور اس کو بلند کر رہا ہوں۔“ اس کے بعد آنحضرتؐ نے اپنے قول کو عملی صورت میں انجام فرمایا اور امیرالمومنین علیہ السلام سے جو منبر پر آپؐ کے پاس کھڑے ہوئے تھے، فرمایا: ”میرے اور قریب آوٴ“ حضرت علی علیہ السلام اور قریب آئے اور آنحضرت ؐ نے حضرت علی علیہ السلام کے دونوں بازؤوں کو پکڑا، اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آنحضرت ؐ کے چہرہٴ اقدس کی طرف بڑھا دیا، یہاں تک کہ دونوں کے دست مبارک آسمان کی طرف بلند ہوگئے۔ اس کے بعد آنحضرتؐ نے حضرت علی علیہ السلام کو ”جو آپ سے ایک زینہ نیچے کھڑے ہوئے تھے“ ان کی جگہ سے اتنا بلند کیا کہ ان کے پائے اقدس آنحضرتؐ کے زانو کے بالمقابل آگئے اور سب نے آپؐ کی سفیدیٴ بغل کا مشاہدہ کیا، جو اس دن تک کبھی نھیں دیکھی گئی تھی، اس حالت میں آپؐ نے فرمایا: ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا عَلِیٌّ مَوْلَاہُ“ ”جس کا میں مولا ہوں، اس کے یہ علی مولا ہیں۔“ (بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ /۱۱۱،۲۰۹۔ عوالم: جلد ۱۵/۳صفحہ ۴۷۔ کتاب سلیم: صفحہ ۸۸۸ حدیث/۵۵)
دلوں اور زبانوں کے ذریعہ بیعت
آنحضرت ؐنے دوسرا اقدام یہ فرمایا کہ چونکہ اس انبوہ کثیر کے ایک ایک فرد سے بیعت لینا غیر ممکن تھا اور دوسری جانب ممکن تھا کہ لوگ بیعت کرنے کے لئے مختلف قسم کے بہانے کریں اور بیعت کرنے کے لئے حاضر نہ ہوں، جس کے نتیجہ میں ان سے عملی طور پر پابند رہنے کا عہد اور قانونی گواہی نہ لی جا سکے، لہٰذا آنحضرتؐ نے اپنے خطبہ کے آخر میں فرمایا: ایھا الناس! ایک ہاتھ پر، اتنے کم وقت میں اس انبوہ کثیر کا بیعت کرنا سب کے لئے ممکن نھیں ہے، لہٰذا جو کچھ میں کہنے جا رہا ہوں، سب اس کی تکرار کرتے ہوئے کہیں: "ہم آپؐ کے اس فرمان کی جو آپؐ نے حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ اور ان کی اولاد سے ہونے والے اماموں کے متعلق فرمایا، اس کو قبول کرتے ہیں اور اس پر راضی ہیں، ہم اپنے دل، جان، زبان اور ہاتھوں سے اس مدعا پر بیعت کرتے ہیں۔ ان کے لئے ہم سے اس بارے میں ہمارے دل و جان، زبانوں، ضمیروں اور ہاتھوں سے عہد و پیمان لے لیا گیا ہے۔ جو شخص ہاتھ سے بیعت کرسکا، ہاتھ سے بیعت کرچکا ہے اور جو ہاتھ سے بیعت نہ کرسکا، وہ زبان سے اس کا اقرار کرچکا ہے۔“ (بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ /۲۱۵،۲۱۹) ظاہر ہے کہ آنحضرتؐ جس کلام کی بعینہ تکرار کرانا چاہتے تھے، وہ آپؐ نے ان کے سامنے بیان کیا اور اس کی عبارت معین فرما دی، تاکہ ہر انسان اپنے مخصوص طریقہ سے اس کا اقرار نہ کرے، بلکہ جو کچھ آپؐ نے بیان فرمایا ہے، سب اسی طرح اسی کی تکرار کریں اور بیعت کریں۔ جب آنحضرتؐ کا کلام تمام ہوا، سب نے اس کو اپنی زبانوں پر دھرایا، اس طرح عمومی بیعت انجام پائی۔
خطبہ کے بعد کے مراسم
خطبہ تمام ہونے کے بعد، لوگ ہر طرف سے منبر کی طرف بڑھے اور حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی، آنحضرت ؐ اور حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کو مبارک باد پیش کی اور آنحضرتؐ فرما رہے تھے :”اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلیٰ جَمِیْعِ الْعٰا لَمِیْن“ تاریخ میں عبارت اس طرح درج ہے: "خطبہ تمام ہو جانے کے بعد لوگوں کی صدائیں بلند ہوئیں کہ: ہاں، ہم نے سنا ہے اور خدا و رسولﷺ کے فرمان کے مطابق اپنے دل و جان، زبان اور ہاتھوں سے اطاعت کرتے ہیں۔“ اس کے بعد مجمع پیغمبر اکرمؐ اور حضرت علی علیہ السلام کی طرف بڑھا اور بیعت کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہوئے ان کی بیعت کی۔ مجمع سے اٹھنے والے اس احساساتی اور دیوانہ وار شور سے اس بڑے اجتماع کی شان و شو کت دُوبالا ہو رہی تھی۔ جس اہم اور قابل توجہ مطلب کا پیغمبر اسلام ؐکی کسی بھی فتح (چاہے جنگوں میں ہو یا دوسرے مقامات پر ہو، حتی ٰکہ فتح مکہ بھی) میں مشاہدہ نہ کیا گیا، وہ یہ ہے کہ آپؐ نے غدیر خم میں فرمایا: "مجھے مبارکباد دو مجھے تہنیت کہو، اس لئے کہ خدا نے مجھ سے نبوت اور میرے اہل بیت علیھم السلام سے امامت مخصوص کی ہے۔“(بحار الانوار: جلد ۲۱صفحہ ۳۸۷۔ امالی شیخ مفید: صفحہ ۵۷) یہ بڑی فتح اور کفر و نفاق کی تمام آرزووٴں کا قلع و قمع کر دینے کی علامت تھی۔ دوسری طرف پیغمبر اسلامؐ نے منادی کو حکم دیا کہ وہ مجمع کے درمیان گھوم گھوم کر غدیر کے خلاصہ کی تکرار کرے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا عَلِیٌ مَوْلَاہُ اَللَّھُمَّ وٰالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ“ تاکہ غدیر کا موقع لوگوں کے ذہن میں منقش ہو جائے۔
لوگوں سے بیعت
مسئلہ کو رسمی طور پر مستحکم کرنے کیلئے اور اس لئے کہ پورا مجمع منظم و مرتب طریقہ سے بیعت کرسکے، لہٰذا پیغمبر اکرم ؐنے خطبہ تمام کرنے کے بعد دو خیمے لگانے کا حکم صادر فرمایا۔ ایک خیمہ اپنے لئے مخصوص قرار دیا اور آپؐ اس میں تشریف فرما ہوئے اور حضرت علیؑ کو حکم دیا کہ آپؑ دوسرے خیمہ کے دروازہ پر تشریف فرما ہوں اور لوگوں کو جمع ہونے کا حکم دیا۔ اس کے بعد لوگ گروہ گروہ کرکے آنحضرتؐ کے خیمہ میں آتے اور آپؐ کی بیعت کرتے اور آپؐ کو مبارکباد پیش کرتے، اس کے بعد حضرت امیر المؤمنینؑ کے خیمہ میں آتے اور آپؑ کو پیغمبر اکرمؐ کے خلیفہ اور امام ہونے کے عنوان سے آپؑ کی بیعت کرتے اور آپؑ پر (امیر المومنین) کے عنوان سے سلام کرتے اور اس عظیم منصب پر فائز ہونے کی مبارکباد پیش کرتے تھے۔ بیعت کا یہ سلسلہ تین دن تک چلتا رہا اور تین دن تک آنحضرتؐ نے غدیر خم میں قیام فرمایا۔ یہ پروگرام اس طرح منظم و مرتب تھا کہ تمام لوگ اس میں شریک ہوئے۔
یہاں پر اس بیعت کے سلسلہ میں تاریخ کے ایک دلچسپ مطلب کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہوگا کہ سب سے پہلے غدیر میں جن لوگوں نے امیر المومنین علیہ السلام کی بیعت کی، وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے سب سے پہلے یہ بیعت توڑی اور اپنا عہد و پیمان خود ہی اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔ حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کے بعد اپنی زبان سے یہ کلمات ادا کئے: ”مبارک ہو مبارک اے ابو طالبؑ کے بیٹے، مبارک اے ابو الحسنؑ آج آپ میرے اور ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت کے مولا ہوگئے“! پیغمبر اسلام ؐ کے حکم صادر ہو جانے کے بعد تمام لوگوں نے چون و چرا کے بغیر حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی، لیکن حضرت ابو بکر اور حضرت عمر (جنھوں نے سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی تھی) نے بیعت کرنے سے پہلے سوال کیا: کیا یہ حکم خداوند عالم کی جانب سے ہے یا اس کے رسولؐ کی جانب سے ہے۔؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ہے۔ کیا اتنا بڑا مسئلہ خداوند عالم کے حکم کے بغیر ہوسکتا ہے۔؟ نیز فرمایا: ”ہاں یہ حق ہے کہ حضرت علی علیہ السلام خدا اور اس کے رسول کی طرف سے امیر المومنین ہیں۔“ (بحار الانوار جلد۲۱ صفحہ ۳۸۷، جلد ۲۸ صفحہ ۹۰، جلد ۳۷ صفحہ۱۲۷ ۔۱۶۶۔ الغدیر جلد ۱ صفحہ ۵۸،۲۷۱،۲۷۴۔ عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۴۲، ۶۰،۶۵، ۱۳۴، ۱۳۶، ۱۹۴،۱۹۵، ۲۰۳، ۲۰۵۔)
عورتوں کی بیعت
پیغمبر اسلامؐ نے عورتوں کو بھی حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کرنے کا حکم دیا اور ان کو امیر المومنین کہہ کر سلام کریں اور ان کو مبارکباد پیش کریں اور اس حکم کی اپنی ازواج کے لئے تاکید فرمائی۔ اس عمل کو انجام دینے کے لئے آنحضرت ؐ نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور اس کے اوپر ایک پردہ لگایا، اس طرح کہ عورتیں پردہ کے ایک طرف پانی کے اندر ہاتھ ڈالیں پردہ کے ادھر سے مولائے کائنات کا ہاتھ پانی کے اندر رہے اور اس طرح عورتوں کی بیعت انجام پائے۔ یہ بات بھی بیان کر دیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا بھی غدیر خم میں حاضر تھیں۔ اسی طرح پیغمبر اکرم ؐ کی ازواج، حضرت علی علیہ السلام کی بہن ام ہانی، حضرت حمزہ علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ اور اسماء بنت عمیس بھی اس پرو گرام میں موجود تھیں۔(بحارالانوار جلد ۲۱ صفحہ/ ۳۸۸۔ عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۳۰۹)
دستار بندی
عرب جب کسی کو کسی قوم کا رئیس بناتے تھے تو اُن کے ہاں اس کے سر پر عمامہ باندھنے کی رسم تھی۔ عربوں کے یہاں اس بات پر بڑا فخر ہوتا تھا کہ ایک بڑی شخصیت اپنا عمامہ کسی شخص کے سر پر باندھے، کیونکہ اس کا مطلب اس پر سب سے زیادہ اعتماد ہوتا تھا۔ (الغدیر جلد۱ صفحہ/ ۲۹۱۔ عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۱۹۹۔ اثبات الھداة جلد۲ صفحہ۲۱۹ حدیث ۱۰۲) پیغمبر اکرمؐ نے اس رسم و رواج کے موقع پر اپنا عمامہ جسے ”سحاب“ کہا جاتا تھا، تاج افتخار کے عنوان سے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے سر اقدس پر باندھا اور تحت الحنک کو آپؑ کے دوش پر رکھ کر فرمایا: ”عمامہ تاجِ عرب ہے۔“ (تاج العروس جلد ۸ صفحہ ۴۱۰) خود امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں یوں فرماتے ہیں: ”پیغمبر اکرم (ص) نے غدیر خم کے دن میرے سر پر عمامہ باندھا اور اس کا ایک کنارہ میرے دوش پر رکھتے ہوئے فرمایا: خداوند عالم نے بدر و حنین کے دن اس طرح کا عمامہ باندھنے والے ملائکہ کے ذریعے میری مدد فرمائی۔“
تائید الہیٰ
معجزہ کے عنوان سے ایک واقعہ جو غدیر کے پروگرام کے اختتام پر پیش آیا، وہ ”حارث فہری" کا ماجرا تھا، یہ شخص تیسرے دن پروگرام کی آخری گھڑیوں میں اپنے بارہ ساتھیوں کو لیکر آیا اور پیغمبر اکرمؐ سے عرض کیا: ”اے محمدﷺ میں آپ سے تین سوال پوچھنا چاہتا ہوں: خداوند عالم کی وحدانیت کی گواہی اور اپنی رسالت کا اعلان آپؐ نے پروردگارِ عالم کی جانب سے کیا یا اپنی طرف سے کیا ہے۔؟ کیا نماز و زکات و حج اور جہاد کا حکم پروردگار عالم کی جانب سے آیا یا آپ نے اپنی طرف سے ان کا حکم دیا۔؟ آپؐ نے جو حضرت علیؑ بن ابی طالب ؑ کے با رے میں یہ فرمایا ہے : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَا ہُ فَعَلِیٌ مَوْلَاہُ۔۔۔“ یہ آپؐ نے پروردگار عالم کی جانب سے فرمایا ہے یا آپؐ کی طرف سے ہے۔؟ تو آپؐ نے تینوں سوالوں کے جواب میں فرمایا: "خداوند عالم نے مجھ پر وحی کی ہے، میرے اور خدا کے درمیان جبرئیل واسطہ ہیں، میں خداوند عالم کے پیغام کا اعلان کرنے والا ہوں اور خداوند عالم کی اجازت کے بغیر میں کسی بات کا اعلان نھیں کرتا۔“
حارث نے کہا: ”پروردگار! محمدؐ نے جو کچھ بیان فرمایا ہے، اگر وہ حق ہے اور تیری جانب سے ہے تو مجھ پر آسمان سے پتھر یا دردناک عذاب نازل فرما۔“ حارث کی بات تمام ہوگئی اور اس نے اپنی راہ لی تو خداوند عالم نے اس پر آسمان سے ایک پتھر بھیجا، جو اس کے سر پر گرا اور اس کے پاخانہ کے مقام سے نکل گیا اور اس کا وہیں پر کام تمام ہوگیا۔(بحار الانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۳۶، ۱۶۲، ۱۶۷۔ عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۵۶، ۵۷، ۱۲۹، ۱۴۴۔ الغدیر: جلد ۱ صفحہ ۱۹۳) اس واقعہ کے بعد یہ آیت نازل ہوئی: ساٴَلَ سَائلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِلْکَافِرِیْنَ لَیْسَ لَہُ دَافِعٌ، "ایک سائل نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا، جس کا کافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے، یہ بلندیوں والے خدا کی طرف سے ہے۔"(سورہ معارج آیت /۲تا۱) نازل ہوئی پیغمبر اکرمؐ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: کیا تم نے دیکھا اور سنا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ اس معجزہ کے ذریعے سب کو یہ معلوم ہوگیا کہ ”غدیر“ منبع وحی سے معرض وجود میں آیا اور ایک الہیٰ فرمان ہے۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: ”مَا عَلِمْتُ اَنَّ رَسُوْلُ اللہِ (ص)تَرَکَ یَوْمَ الْغَدِیْرِلِاَحَدٍ حُجَّةً وَلَالِقَائِلٍ مَقَالاً“ ”پیغمبر اکرم (ص) نے غدیر کے دن کسی کے لئے کوئی حجت اور کوئی بہانہ باقی نھیں چھوڑا" (اثبات الھُداۃ :جلد ۲ صفحہ ۱۵۵حدیث۴۷۶) حدیث قدسی میں خداوند تبارک و تعالیٰ کے کلام کے عمیق و دقیق ہونے کو پہچانا جا سکتا ہے، جو یہ فرماتا ہے: ”لَوْ اِجْتَمَعَ النَّاسُ کُلُّھُمْ عَلیٰ وِلَایَةِ عَلِیٍّ مَاخَلَقْتُ النَّارَ“ ”اگر تمام لوگ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت پر متفق ہو جاتے تو میں جہنم کو پیدا نہ کرتا۔“(بحارالانوار جلد ۳۹صفحہ۲۴۷) مختصر یہ کہ نبی اکرم ؐ کو معلوم تھا کہ اس دور کے لوگ امیر المومنین ؑسے کی گئی بیعت سے روگردانی کریں گے، اس لیے انہوں نے الہٰی منصب امامت کی اس لحاظ سے تبلیغ کا اہتمام کیا کہ بعد میں کوئی اسے جھٹلا نہ سکے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ الہیٰ پیغام دور دراز کے علاقوں اور آئندہ آنے والی نسلوں تک پہنچ جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نبی مکرمﷺ اپنے اس ہدف میں کامیاب و کامران رہے اور ان کے دشمنوں کے حصے میں ذلت و رسوائی آئی۔ درود و سلام ہو نبی پاک ﷺ اور ان کی آل پاک علیہم السلام پر۔ چونکہ غدیر کا دن حضرت علیؑ کے ساتھ لوگوں کی عمومی بیعت کا دن ہے، روز غدیر حضرت علیؑ سے لے کر حضرت مہدی ؑ تک بارہ ائمہ(ع) کی اثبات ولایت اور تحقق امامت کا دن ہے۔ لہذا ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ اس الہیٰ پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں۔ کیونکہ اسی پیغام کے ساتھ دین کی تکمیل ہے اور انسانیت کی فلاح بھی اسی میں ہے۔
کیا واقعۂ غدیر صرف اعلانِ دوستی کے لئے تھا؟
ماخذ: کتاب منزلت غدیر,حجۃ الاسلام والمسلمین محمد دشتی ؒ
مترجم : ضمیرحسین آف بہاول پور,مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام علماء اہل سنّت نے روزِ غدیر سے لے کر آج تک اس موضوع پر مختلف قسم کے نظریات کا اظہار کیا ہے، بعض نے خاموشی اختیار کی تاکہ اس خاموشی کے ذریعے اس عظیم واقعہ کو بھول اور فراموشی کی وادی میں ڈھکیل دیا جائے، اور یہ حَسین یاد لوگوں کے ذ ہنوں سے محوہو جائے ،لیکن ایسا نہ ہو سکا ، بلکہ سینکڑوں عرب شاعروں کے اشعار کی روشنی میں جگمگا تا گیا جیسے عرب کا مشہور شاعر فرزدق رسولِ خد ا ا [ص] کی خدمت میں موجود تھا ۔ اس نے ا پنی فنکارانہ شاعری میں نظم کر کے اس عظیم واقعہ کو دنیا والوں تک پہنچا دیا، اور بعض نے حکّامِ وقت کی مدد سے سقیفہ سے اب تک تذکرہ غدیر پر پابندی لگا دی ا س کو جرم شمار کیا جانے لگا !کوڑوں ،زندان اور قتلِ عام کے ذریعے چاہا کہ اس واقعہ کو لوگ فرموش کر ڈالیں۔لیکن اپنی تمام تر کوششوں کی باوجود ناکام رہے ، ولایت کے متوالوں پر ظلم ڈھایا گیا انھیں قتل کیا گیا ،تازیانوں کی زد پررکھا گیا ، جتنا راہ غدیر کو خونی بنا یا گیا اُتنا ہی مقامِ غدیر اُجاگر ہوتا گیا اور آخر کار ان کا خون رنگ لایا اور شفق کی سرخی کے مانند جاوید ہو گیا ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلامُ اﷲِ علَیہا کی ہمیشہ یہ کوشش رہی بحث و مباحثہ اور مناظرات کے دوران غدیر کے موضوع پر بات کریں ، خود حضرت علی ۔ نے غدیر کی حساس سیاسی تبدیلیوں سے ،متعلق گفتگو کی اور میدان غدیر میں حاضر چشم دید گواہوں سے غدیر کے واقعہ کا اعتراف لیا، اور دوسرے ائمّۂ معصومین ؑ اور ولایت کے جانثاروں نے ا س دن سے لے کر آج تک ہمیشہ غدیرِ خُم کو اُجاگر کیا، اور پیامِ غدیر کو آ ئندہ نسلوں تک پہنچایا اب کوئی غدیر میں شک و تردد کا شکار نہیں ہو سکتااور نہ ہی اس کو جھٹلا سکتا ہے ۔ ۱ ۔ دوستانہ نظریات
بعض اہل سنت مصنِّفین جو اس بات کو سمجھتے تھے کہ واقعۂ غدیر سورج کی طرح روشن و منوّر ہے اور جس طرح سورج کو چراغ نہیں دکھایا جاسکتا اُسی طرح اس کا انکار بھی ممکن نہیں ہے اور اگر اِس کو نئے رنگ میں پیش نہیں کیا گیا تو غدیر کی حقیقت بہت سے جوانوں اور حق کے متلاشیوں کو ولایتِ علی ۔ کے نور کی طرف لے جائے گی ،تو وہ حیلہ اور مکر سے کام لینے لگے اور حقیقت غدیر میں تحریف کرنے لگے ،اور کہا کہ ! ہاں واقعۂ غدیر صحیح ہے اور اس کا انکار ممکن نہیں ہے لیکن اس دن رسولِ خداؐ کا مقصد یہ تھا کہ اس بات کا اعلان کریں کہ (علی ۔ کو دوست رکھتے ہیں) اور یہ جو آپ [ص] نے فرمایا: مَنْ کُنْتُ مَوْلٰاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلٰاہُ آپ [ص] کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ( جو بھی مُجھے دوست رکھتا ہے ضروری ہے کہ علی ۔ کو بھی دوست رکھے )۔اور یہیں سے وہ الفاظ کی ادبی بحث میں داخل ہوئے لفظِ ’’ ولی ‘‘ اور ’’ مولیٰ ‘‘ کاایک معنیٰ ( دوستی )اور( دوست رکھنے ) کے ہیں لہذا غدیر کا دن اس لئے نہیں تھا کہ اسلامی دنیا کی امامت اور رہبری کا تذکرہ کیا جائے بلکہ روزِ غدیر علی ۔ کی دوستی کے اعلان کا دن تھا۔ اُنہوں نے اس طرح پیغامِ غدیر میں تحریف کر کے بظاہر دوستانہ نظریات کے ذریعہ یہ کوشش کی کہ ا ہلسُنّت جوانوں اور اذہانِ عمومی کو پیغامِ غدیر سے منحرف کیا جائے ،چنانچہ اپنی کتابوں میں اس طرح بیان کیا کہ اہلِسُنّت مدارس کے طالبِ علموں اور عام لوگوں نے اس بات پر یقین کر لیا کہ روزِ غدیر علی ۔ کی دوستی کے اعلان کا دن ہے ، پس کوئی غدیر کا انکار نہیں کرتا اور رسولِ خدا [ص]نے اُس دن تقریر کی لیکن صرف علی ۔ کی اپنے ساتھ دوستی کا اعلان کیا اور اس بات کی تاکید کی کہ مسلمان بھی حضرت علی ۔ کو دوست رکھیں۔ ۲ ۔ حقیقتِ تاریخ کا جواب:
واقعۂ غدیرکی صحیح تحقیق کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ غدیر خم صرف اعلان دوستی کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقت کچھ اور ہے۔۱۔واقعۂ روزِغدیر کی تحقیق: اہلِ عراق کو عراق کی طرف ، اہلِ شام کو شام کی طرف ،بعض کو مشرق کی سمت اوربعض کو مغرب کی سمت ،ایک تعدادکو مدینہ ، اور اسی طرح مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قبیلوں اور دیہاتوں کی طرف لَوٹنا تھا،رسولِ خدا [ص]ایسے مقام کا انتخاب کرتے اور توقّف کرتے ہیں شدید گرمی کا عالم ہے ، سائبان اور گرمی سے بچنے کے دوسرے وسائل موجود نہیں ہیں اور عورتوں اور مردوں پر مشتمل ایک لاکھ بیس ہزار (۰۰۰،۱۲۰)حاجیوں کی اتنی بڑی تعداد کو ٹہرنے کا حکم دیتے ہیں یہاں تک کہ(۱) پچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیاجائے ،آگے چلے جانے والوں کو واپس بلایا جائے اور پھر آپؐ نے اُونٹوں کے کجا ووں اور مختلف وسائل سے ایک اُونچی جگہ بنانے کا حکم د یا تاکہ سب لوگ آپؐ کو آسانی سے دیکھ سکیں، اور اسلامی ممالک سے آ ئے ہو ئے حاجیوں کے جمع ہونے تک انتظار کیا گیا، گرمی کی شدّت سے پسینے میں شرابور لوگ صرف اس لئے جمع ہوئے تھے کہ پیغمبراکرم [ص] کا پیغام غور سے سنیں اور آپ [ص] یہ فرمائیں! ( ۱ ) واقعۂ غدیر کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت حاجیوں کا جمع غفیر تھا جوکہ مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے تھے جنکی تعداد مؤرّخین نے نوّے ہزار (۰۰۰،۹۰) سے ایک لاکھ بیس ہزار (۰۰۰،۱۲۰)تک نقل کی ہے اورحج کی ادائگی کے بعد اپنے اپنے وطن لَوٹتے ہوئے ۱۸؍ ذی الحجہ کے دن خدا کے حکم سے سرزمینِ غدیر خُم پر جمع ہوئے اور جنہوں نے رسولِ خد اؐکے پیام کو سُننے کے بعدحضرت علی ۔ کی بیعت کی،غدیر کے دن لوگوں کی اس عام بیعت کا اعتراف بہت سارے مؤرِّخین نے کیا ہے ۔جو مندرجہ ذیل ہیں! ۱ ۔ سیرۂ حلبی ، ج ۳ ص ۲۸۳ : حلبی : ۲ ۔ سیرۂ نبوی ، ج ۳ ص ۳ : زینی دحلان ۳ ۔ تاریخُ الخُلَفاء ، ج ۴ : سیوطی (متوفّٰی ۹۱۱ ہجری) ۴ ۔ تذکرۃُخواص الاُمّۃ ، ص ۱۸ : ابنِ جَوزی(متوفّٰی ۶۵۴ ہجری) ۵ ۔ احتجاج ، ج ۱ ص ۶۶ : طبرسی (متوفّٰی ۵۸۸ ہجری) ۶ ۔ تفسیرِ عیّاشی ، ج ۱ ص ۳۲۹/۳۳۲ حدیث ۱۵۴ : ثمر قندی ۷ ۔ بحارُا لا نوار ، ج ۳۷ ص ۱۳۸ حدیث ۳۰ : علّامہ مجلسی ۸۔ اثباتُ الہُداۃ ، ج ۳ حُرِّعاملی ص ۵۴۳ /۵۴۴ حدیث ۵۹۰/۵۹۱/۵۹۳ : ۹ ۔ تفسیرِبرہان ، ج ۱ ص ۴۸۵ حدیث ۲ ، ص ۴۸۹ حدیث ۶ :بحرانی ۱۰ ۔ حبیبُ السَّیر ، ج ۱ ص ۲۹۷/۳۷۵/۴۰۴/۴۱۲/۴۴۱ : خواند میر ’’اے لوگو !میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ‘‘ پھر آپ [ص]کی لوگوں سے بار بارتاکید کی کہ آج کے اس واقعہ کو اپنی اَولادوں،آئندہ آنے والی نسلوں اور اپنے شہرودیار کے لوگوں تک پہنچادیں۔ یہ اہم واقعہ کیا ہے؟ کیا صرف یہ ہے کہ آپ [ص] یہ فرمائیں ! میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ؟ کیا ایسی حرکت کسی عام شخص سے قابلِ قبول ہے ؟ کیا ایسی حرکت بیہودہ ،اذیّت ناک اور قابل مذمّت نہیں ہے ؟ پھر کسی نے اعتراض کیوں نہیں کیا؟ کیا مسلمان یہ نہیں جانتے تھے کہ پیغمبراکرم [ص] حضرت علی ۔ کو دوست رکھتے ہیں ؟ کیا علی ۔ ایسے صف شکن مجاہد کی محبّت پہلے سے مسلمانوں کے دلوں میں نہیں بسی ہوئی تھی؟ ۲۔فرشتۂ وحی کا بار بار نزول:
اگر غدیر کا دن صرف دوستی کے اعلان کے لئے تھا تو ایسا کیوں ہواکہ جبرئیل امین جیسا عظیم فرشتہ تین بار آپ [ص] پر نازل ہو اور پیغامِ الٰہی سے آپ [ص] کو آگاہ کرے؟! جیسا کہ آنحضرت [ص]نے خود ارشاد فرمایا!۔’’إِنَّ جِبْرَئےْلَ۔ھَبَطَ إِلَیَّ مِرٰاراً ثَلٰاثاً یَأْ مُرُنِیْ عَنِ السَّلٰامِ رَبِّیْ وَھُوَالسَّلٰامُ أَنْ أَقُوْمَ فِی ھٰذا الْمَشْہَدِ، فأُعْلِمَ کُلَّ أَبْےَضٍ وَ أَسْوَدٍ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طٰالِبٍ أَخِیْ وَ وَصِییّ وَ خَلِیفَتِی عَلٰی أُمَّتِیْ وَ الْإِمٰامُ مِنْ بَعْدِیْ أَلَّذِی مَحَلَّہٗ مِنِّیْ مَحَلَُ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلّٰا إنَّہٗ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَ ھُوَ وَلِیُّکُمْ بَعْدَ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ وَ قَدْ أَنْزَلَ اﷲ تَبٰارَ کَ وَ تَعٰا لٰی عَلَیَّ بِذٰ لِکَ آیَۃً مِنْ کِتٰابِہٖ!‘‘ (إِنَّمٰاوَلِیُّکُمُ اﷲُ وَرَسُوْلُہُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْ تُوْن الزَّکٰوۃَ وَ ھُمْ رٰاکِعُوْنَ )(۱) وَعَلِیُّ بْنَ أَبِیْطالِبٍ أَلَّذِیْ أَ قٰامَ الصَّلٰوۃَوَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَھُوَرٰاکِعٌیُرِیْد اﷲَ عزَّ وَجَلَّ فِیْ کُلّ حٰالٍ (۲) جبرائیل ۔ تین بار وحی لے کرمجھ پرنازل ہو ئے اور درود و سلام کے بعد فرمایا کہ یہ مقام غدیرہے یہاں قیام فرمائیں اورہر سیاہ و سفید،یہ بات جان لے کہ حضرت علی ۔ میرے بعد .................. (۱)مائدہ، ۵/ ۵۵
|
دور امام علی نقی الہادی(ع) کے سخت ترین حالات اور آپکا طرز امامت
مام علیدور ا نقی الہادی(ع) کے سخت ترین حالات اور آپکا طرز امامت
تحریر: حجت الاسلام سید نجیب الحسن زیدی
امام ہادی علیہ السلام نے ۱۵ ذی الحجہ ۲۱۴ ہجری میں مدینہ منورہ کے علاقے '' صريا،، (۱)میں آنکھیں کھولیں آپکو نجیب ،ناصح، متوکل ، مرتضی، ہادی و نقی جیسے القاب سے یاد کیا جاتا(۲) ہے آپکی کنیت ابوالحسن ثالث بیان کی گئی ہے(۳) جیسا کہ واضح ہے آپ امام جواد علیہ السلام کے فرزند ہیں آپکی والدہ گرامی کا نام تاریخ میں والدہ سمانہ(۴) یا سوسن(۵) بیان کیا گیا ہے ، آپ اور آپکے بیٹے امام حسن عسکری علیہ السلام کو امامین عسکریین(۶) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے بظاہر اسکی وجہ عباسی خلفا ء کی جانب سے آپ دونوں بزرگواروں کو سنہ 233 ہجری میں سامرا لے جاکر چھاونی میں رکھنا ہے چنانچہ آپ آخرِ عمر تک سامرہ میں ہی نظر بند رہے جو کہ اس وقت ایک ایسا علاقہ تھا جسے چھاونی کے طور پر جانا جاتا تھا ۔
آپ کا علم اوراخلاقی فضائل
آپ علم و حلم میں لا ثانی تواخلاقی فضائل خاص کر سخاوت و بخشش میں بے نظیر و یکتائے روزگار تھے آپکی زندگی میں فقراء و محروم طبقہ کو خاص حیثیت حاصل تھی آپ انہیں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے انکی مشکلوں کو حل کرتے انکے مسائل کو سنتے اور انکی حاجتوں کو پورا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے ، آپ مدینہ میں موجود کھجوروں کے باغات میں خود بھی کام کرتے اور جن کے پاس کام نہ ہوتا انہیں بھی ضروریات زندگی کے لئے کام پر لگا دیتے کھیتی باڑی کرتے اورطلب رزق حلال کے لئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہ کرتے ،آپ انکے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے جو لوگ آپکا برا چاہتے ، شاید یہی وجہ ہے کہ دیگر ائمہ کے سلسلہ سے امامت کے دعویدار نظر آتے ہیں لیکن آپکی امامت پر تمام ہی بزرگان شیعہ متفق نظر آتے ہیں اور کمسنی میں امامت کے باوجود کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ہے(۷)
آپکے دور کے سیاسی حالات:
آپکی زندگی کے سات سال معتصم عباسی کی خلافت کے دور میں گزرے ، اور یہ سات سال کا عرصہ آپ پر بہت سخت وگراں گزرا ، ان سات سالوں میں مدینہ میں آپکی کڑی نگرانی ہوتی، آپ پر لوگوں سے ملنے جلنے پر پابندی تھی یہاں تک "بصریا" نامی جگہ پر آپ پر نظر رکھنے کے لئے بھی کچھ گماشتوں کو رکھا گیا تھا(۸) سامرا و بغداد کی صورت حال بھی مدینہ سے الگ نہ تھی یہاں پر بھی آپکے ساتھ آپکے شیعوں پر بھی آپ ہی کی طرح حکومت وقت کی جانب سے پابندیاں تھیں اور جو شیعہ آپ سے ملتے جلتے وہ بھی تقیہ کی حالت میں ملتے تھے(۹)
معتصم کے مرنے کے بعد ۲۲۷ ہجری میں اسکا بیٹا واثق خلیفہ بنا اور اس نے مامون کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے علمی نشستوں کا اہتمام کرنا شروع کیا کبھی علمی گفتگو ترتیب دی جاتی کبھی مناظرے ہوتے اس طرح ایک اچھا علمی ماحول فراہم ہوا لیکن یہ سلسلہ زیادہ نہ چل سکا اور انجام کار ۲۳۲ ھ میں دو ترک سرداروں کی تحریک پر قتل کر دیا گیا اور اسکا بھائی جعفر جسے متوکل بھی کہا جاتا ہے مسند نشین ہوا(۱۰)
متوکل ایک شرابی ، تند خو اور بہت ہی متعصب قسم کا آدمی تھا اسکے نظریات بھی بہت خشک اور متہجرانہ تھے اور ان پر سختی بھی بہت کرتا تھا چنانچہ *اس دور میں معتزلہ کے خلق قرآن کے عقیدے پر اس نے بہت سختی کی اور ان تمام لوگوں کو کافر قرار دیا جو معتزلہ کے عقیدے کے قائل تھے اور اسکے مقابل احمد بن حنبل و اہل حدیث کے نظریات کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے انکی حمایت کی، شیعوں سے اسکی دشمنی بہت شدید تھی اور اہلبیت و شیعوں سے شدید عناد رکھتا تھا، شیعوں اور اور اہل بیت اطہار علیھم السلام سے اسکی دشمنی کا عالم یہ تھا کہ اس نے مقامات مقدسہ کی زیارت کو ممنوع قراردے دیا تھا حتی ۲۳۵ ھجری میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کو منہدم کرنے کا حکم(۱۱) دے کر اس نے نہ صرف اپنی سفاکیت بلکہ اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ساتھ اپنی شدید دشمنی کا واضح طور پر اعلان کر دیا ، متوکل کے دور حکومت میں بہت سے شیعوں کو دار پر چڑھا دیا گیا بہت سوں کو سخت ترین ایذائیں دے کر شہید کر دیا ،نہ جانے کتنوں کو زندانوں میں ڈال ڈال کر مار دیا انجام کار خود اپنے بیٹے کے حکم سے ۲۴۷ ھ میں واصل جہنم ہوا(۱۲) متوکل کے بعد اسکے بیٹے منتصر نے ۶ مہینہ سے زیادہ خلافت نہ کی لیکن ہر طرف فتنہ و فساد کا بازار گرم ہو گیا مصرو خراسان اور سیستان عباسی سلطنت سے خارج ہو گئے سیستان میں یعقوب لیث صفاری کا سکہ چلا تو بغداد میں لوگوں نے مستعین کے نیچے سے تخت حکومت کھینچ لیا اور اسکی جگہ معتز عباسی کو بٹھا دیا تین سال بعد اسکی جگہ پر واثق کا بیٹا محمد مھتدی خلیفہ بنا(۱۳) ان تمام حوادث کے درمیان امام علی نقی علیہ السلام سامرا میں حالات کا مشاہدہ کرتے رہے ،آپکو ۲۳۳ ھ میں متوکل …
مابده(67) اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے
مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا ایک سال مکمل ہونے پر ایران میں مقیم پاکستانیوں کا سیمینار
کشمیر میں بھارت اسرائیل کی راہ پر
تحریر: سید ثاقب اکبر
جب کبھی مسلمان خاص طور پر عرب فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں بظاہر سنجیدہ تھے، بھارت اسرائیل سے اپنے تعلقات کو مخفی رکھے ہوئے تھا۔ اب فلسطینی حقوق کے دعویدار عرب اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ایسی صورت حال میں بھارت کو اسرائیل سے اپنے خفیہ مراسم اور دیرینہ آشنائی کو چھپانے کی کیا ضرورت پڑی ہے، لہذا بات اب سر بام آگئی ہے۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان تعلقات کا منحوس سایہ مسئلہ کشمیر اور اہلیان کشمیر کے حقوق پر پڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ افسوس پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کو ایسے سنجیدہ موضوعات سے کوئی دلچسپی نہیں اور ہو بھی کیسے کہ کشمیریوں کے بزعم خویش سفیر کے دور حکومت میں ہمارا وزیر خارجہ بھارتی استبداد اور کشمیر میں وحشیانہ اقدامات کے جواب میں قوم کو ایک منٹ کی خاموشی تجویز کر رہا ہے۔
تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم
بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ بھارت نے سترہ ستمبر 1950ء کو اسرائیل کو ایک جائز ریاست تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد ممبئی میں اسرائیل کا ایک امیگریشن دفتر کھول لیا گیا، جس کا نام ٹریڈ اینڈ کونسلنگ سینٹر رکھا گیا۔ یہ دراصل اسرائیل کا سفارتخانہ تھا جسے سفارتخانے کا نام نہیں دیا گیا۔ اس زمانے میں اسرائیل کو سب سے زیادہ اس امر کی ضرورت تھی کہ پوری دنیا سے زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو فلسطین کی مقبوضہ سرزمین میں منتقل کیا جائے، چنانچہ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں ایک لاکھ سے زیادہ یہودی باشندوں کو بھارت سے اسرائیل کی طرف جانے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سلسلہ گذشتہ دہائی تک جاری رہا ہے، جب بھارت کے شمال مشرقی حصوں سے بڑی تعداد میں یہودی اسرائیل بھجوائے گئے۔
1992ء میں حالات کو سازگار پا کر دونوں ملکوں نے باقاعدہ سفارت خانے کھول لیے۔ بھارت اور اسرائیل کے مابین سائنس، ٹیکنالوجی، انڈسٹری، تعلیم وغیرہ جیسے اہم شعبوں میں گہرے تعلقات قائم ہیں لیکن سب سے اہم عسکری اور فوجی تعلقات ہیں۔ اسرائیل سے بھارت نے اس قدر اسلحہ خریدا ہے کہ بھارت اسرائیل سے اسلحہ خریدنے والے پانچ بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے جبکہ بعض ایسے برس بھی آئے کہ جب بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار قرار پایا۔ چنانچہ 2017ء میں بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار تھا ۔ بھارت نے اپنی فضائیہ کے لیے 53 کروڑ پاونڈ کے عوض راڈار اور ہوا سے زمین پر ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل خریدے۔ یاد رہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے میانمار کو بھی سب سے زیادہ اسلحہ بیچنے والا اسرائیل ہی ہے۔ اسرائیل اور بھارت مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان مشقوں کی تفصیلات بہت حیران کن ہیں۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے گہرے تعلقات کا بیشتر حصہ اور تفصیلات پردہ اخفاء میں ہیں اور دونوں ملک بیشتر تزویراتی کام خاموشی سے انجام دیتے ہیں۔
1999ء میں جب کارگل کا معرکہ پیش آیا تو اس کے بعد بھارت نے اسرائیل سے 6.1 ارب ڈالر کا اسلحہ اور فوجی ساز و سامان خریدنے کا معاہدہ کیا۔ اسرائیل میں اسلحہ سازی کے 150 سے زیادہ کارخانے ہیں جو بھارت اور دیگر ملکوں کے آرڈرز کے مطابق دن رات اسلحہ تیار کرتے ہیں۔ 2006ء تک بھارت اسرائیل سے 4.4 ارب ڈالر کا اسلحہ خرید چکا تھا۔ 2013ء میں اسرائیل کا ایک اعلیٰ سطحی فوجی وفد بھارت آیا، جس سے بھارتی حکام نے اپنی افواج کی ٹریننگ اور ان کو جدید ہتھیار مہیا کرنے کے لیے 3 ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ کیا، تاہم اسرائیل کو یہ تشویش تھی کہ کہیں بھارت کے ذریعہ اسرائیل کی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی ایران منتقل نہ ہو جائے، جس کے لیے بھارت نے اسرائیل کو ہر طرح کی یقین دہانی کروا رکھی ہے۔ بعید نہیں کہ حالیہ دنوں میں بھارت اور ایران کے مابین اقتصادی معاہدوں کے ختم ہونے کے پیچھے امریکہ کے علاوہ اسرائیل کا بھی ہاتھ ہو۔
دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین بہت دیرینہ روابط ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ را اور موساد 1968ء سے رابطے میں ہیں۔ اس وقت دونوں ملکوں کے مابین انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ مودی کے دور میں ہونے والے معاہدوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ دونوں ملک ’’اسلامی شدت پسندی‘‘ کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ ’’اسلامی شدت پسندی‘‘ سے مقابلے کے لیے اسرائیل بھارتی کمانڈوز کو باقاعدہ تربیت دے رہا ہے۔ یادر رہے کہ اسرائیل اور بھارت دونوں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے مظلوم مسلمانوں اسلامی شدت پسند قرار دیتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے کے باوجود اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔
گذشتہ برس بھارت نے کشمیریوں کے حقوق پر جو ڈاکہ ڈالا ہے اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا اور پھر کشمیریوں کے خلاف جو پے در پے اقدامات کیے اسے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ماڈل قرار دیا جا رہا ہے۔ جس کے مطابق کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنا، اہم ترین مناصب سے مسلمانوں کو ہٹا کر ہندوں اور سکھوں کو تعینات کرنا، مختلف حیلوں سے مسلمانوں کی سرزمینوں پر قبضہ کرنا، سرکاری ملازمتوں میں غیر مسلموں کو ترجیح دینا، کشمیر میں کاروبار کو بھارت کے طاقتور سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری کے ذریعے سے کنٹرول کرنا، انتخابات کے لیے ایسی نئی حلقہ بندیاں کرنا جس سے غیر مسلموں کو زیادہ مواقع میسر آسکیں، مسلمان نوجوانوں کو بغیر مقدمے کے اٹھا لینا، مقابلے کے نام پر قتل کرنا اور خوف و وحشت کی فضا پیدا کرنا یہ سب اقدامات اسرائیلی ماڈل کا حصہ ہیں۔ کیا ان سب کے جواب میں پاکستانی قوم کو احتجاج کے طور پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنا چاہیے؟ شاہ محمود قریشی نے یہ بات تو کہ دی ہے:
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
دھماکے کی آواز 240 کلومیٹر تک سنی گئی بیروت میں خوفناک دھماکہ، سینکڑوں افراد متاثر
لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہولناک دھماکے سے درجنوں افراد کے ہلاک اور سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کا اندیشہ ہے۔ دھماکہ اتنا شدید اور ہولناک تھا کہ اس کی آواز ڈھائی سو کلومیٹر دور تک سنی گئی۔ لبنان کے ایک نجی خبر رساں ادارے نے اس دھماکے کو ہیروشیما اور ناگاساکی کے دھماکے کی گونج سے مثال دی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق بیروت کی بندرگاہ کے علاقے میں ہولناک دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں گردو نواح کے علاقے لرز گئے اور شہر کے مختلف علاقوں کی عمارتیں اور گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ برطانوی خبر ایجینسی کے مطابق تباہ ہونے والی عمارتوں میں لبنان کے سابق وزیراعظم سعد حریری کا گھر بھی شامل ہے۔ مقامی خبر ایجنسی کے مطابق دھماکا ایک ایسے گودام میں ہوا ہے جہاں ضبط کیا گیا دھماکا خیز مواد رکھا گیا تھا۔ لبنان کے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ گودام میں سال قبل ایک بحری جہاز سے ضبط کیا گیا سوڈیم نائٹریٹ رکھا گیا تھا اور اسے ضایع کیا جانا تھا۔ دھماکے کی آواز 240 کلومیٹر دور تک سنی گئی اور دور تک عمارتیں اس کی شدت سے لرز گئیں۔ اس سے قبل لبنان کے وزیر صحت حماد حسن نے دھماکے میں سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔ علاوہ ازیں دھماکے کے مقام کی قریبی عمارتوں سے لی گئی تصاویر اور ویڈٰیوز میں دھماکے کی شدت کے باعث ہونے والی تباہی اور گردو ونواح میں پھیلنے والا دھواں دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ایک عالمی خبر رساں ادارے نے بیروت دھماکے میں کم از کم 500 افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
عید الاضحی کی مناسبت سے رہبر انقلاب کا خطاب ذی الحج کا پہلا عشرہ عظیم ماضی کی یادگار اور دوسرا 'عشرۂ ولایت' جبکہ 'ولایت' تمام الہی احکامات پر فوقیت رکھتی ہے، آیت اللہ خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایران کے اندر منائی جانے والی "عید الاضحی" کی مناسبت سے ٹیلیویژن پر قوم کے ساتھ براہِ راست خطاب کیا۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ایرانی قوم سمیت پوری امتِ مسلمہ اور ادیانِ ابراہیمیؑ کو عید الاضحی کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے عید کے پر مسرت موقع پر قوم کو بڑھ چڑھ کر "کمزور طبقات کی مالی مدد اور عوامی صحت کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ تعاون" کی دعوت دی۔
رہبر انقلاب اسلامی ایران نے ماہ مبارک ذی الحج کی عظمت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس کے پہلے عشرے کو عظیم ماضی کی یادگار، راہِ حق کی جانب ہدایت کرنے والا اور تضرع و زاری و توسل کا عشرہ قرار دیا اور کہا کہ اس مبارک مہینے کا دوسرا عشرہ، "عید غدیر" کے سبب "عشرۂ ولایت" ہے جبکہ الہی احکام کے درمیان "ولایت" ایک اعلی مقام کی حامل ہے کیونکہ یہی "ولایت"؛ تمام احکاماتِ الہی کے اجراء کی ضمانت ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اس مبارک مہینے کا تیسرا عشرہ بھی "عید مباہلہ" سمیت متعدد مناسبتوں کے حوالے سے ایک اہم عشرہ ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ امید ہے کہ امتِ مسلمہ کے لئے اس عظیم مہینے کا نہ صرف پہلا عشرہ بابرکت ثابت ہوا ہو گا بلکہ بعد میں آنے والے دو عشرے بھی امت مسلمہ کے لئے "اللہ تعالی کی رضا اور امت کی خوشبختی" کا باعث بنیں گے۔ رہبر انقلاب نے محرم الحرام کے ایام عزاء کی مناسبت سے پیروان مکتب حسینیؑ کو بھرپور عزاداری کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس کے سلسلے میں سفارش شدہ احتیاطی تدابیر پر بھی مکمل عملدرآمد کرنے کی تاکید کی۔ انہوں نے ماہ محرم کے دوران عزاداروں کے لئے نذر و نیاز کے اہتمام کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ محرم الحرام میں بھی مکمل احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کے ساتھ نذر و نیاز کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں ملک کے خلاف عائد غیرقانونی امریکی پابندیوں کے فوری، درمیانے عرصے اور لمبے عرصے کے اہداف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ دشمن نے ملک و قوم کے خلاف پابندیوں کے ساتھ ساتھ حقائق مسخ کرنے کی مہم بھی چلا رکھی ہے تاہم اللہ تعالی کے فضل و کرم اور ایرانی قوم کی بیداری و عقلمندی اور اسے حاصل امریکہ کی گہری پہچان کے بدولت دشمن اپنے کسی بھی ہدف تک پہنچ نہیں پایا اور نہ ہی کبھی پہنچ پائے گا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران؛ صبر و استحکام اور عوام کے اقتصادی مسائل کے حل و ملک میں موجود اندرونی وسائل سے بھرپور استفادے کے لئے حکام کی پہلے سے بڑھ کر کی جانے والی کوششوں کے ذریعے اپنے روشن مستقبل کی جانب گامزن رہے گا۔
ایرانی سپریم لیڈر نے غیرقانونی امریکی پابندیوں کو ایرانی قوم کے خلاف عظیم جرم قرار دیا اور کہا کہ خبیث دشمن؛ پوری ایرانی قوم کو نشانے پر لے لینے والی ان پابندیوں کے ذریعے مختلف اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ رہبر انقلاب نے ایران کے خلاف غیر قانونی امریکی پابندیوں کے فوری مقصد کو "ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا" قرار دیتے ہوئے کہا کہ دشمن چاہتا ہے کہ عوام کو آپس میں الجھا کر حکومت کے خلاف سڑکوں پر لے آئے اور یہی وجہ ہے وہ اس حوالے سے "شدید گرمی کے موسم" (Hot Summer) کی اصلاح کو مسلسل استعمال کر رہا ہے تاہم اس وقت وہ خود ہی "شدید گرمی کے موسم" میں گرفتار ہو چکا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے "مُلک و قوم کی بالخصوص علمی میدان میں ترقی کو روکنا" غیرقانونی امریکی پابندیوں کا درمیانی مدت کا ہدف قرار دیا اور کہا کہ "ملک کو دیوالیہ کر کے معاشی ناکامی کا شکار بنانا" دشمن کا لمبے عرصے کا ہدف ہے کیونکہ ایسی صورت میں کوئی ملک زندہ نہیں رہ سکتا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں "اسلامی جمہوریہ ایران کو خطے کے مزاحمتی مراکز سے کاٹ دینے" کو امریکی پابندیوں کا ضمنی ہدف قرار دیا اور نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے دشمن اپنی سازشوں میں ناکام رہا ہے۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے امریکیوں کا اصلی مقصد ملک و قوم کی انتہائی اہم صلاحیتیں سلب کرنا ہے تاہم موجودہ امریکی صدر اپنے ذاتی و انتخاباتی مفادات کی فکر میں ہے جیسا کہ شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات سے انتخاباتی فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جاری امریکی حادثات "راکھ تلے چھپی چنگاری" تھے جو، دبائے جانے کے باوجود اب بھڑک کر شعلوں میں بدل چکے ہیں اور یہی حوادث موجودہ امریکی حکومتی نظام کے خاتمے کا سبب بنیں گے کیونکہ اس حکومتی نظام کا سیاسی و معاشی فلسفہ غلط اور قابل مذمت ہے۔
حزب اللہ سے خوف کے مارے اسرائیل کی خودکشی
چند دن پہلے لبنان کے ساتھ مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر واقع شبعا کھیتوں میں ایک بہت عجیب واقعہ رونما ہوا ہے۔ یہ واقعہ اسرائیل آرمی کے ماتھے پر کلنک کا داغ بن گیا ہے۔ واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ اسرائیل آرمی نے غلطی سے اپنے ہی افراد کو نشانہ بنا ڈالا۔ گذشتہ ہفتے شام کے دارالحکومت دمشق میں اسرائیل کے فضائی حملے میں حزب اللہ لبنان کے ایک اعلی کمانڈر علی کمال محسن شہید ہو گئے جس کے بعد حزب اللہ نے اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد اسرائیل آرمی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا۔ لبنان کی سرحد کے قریب شبعا کھیتوں میں گشت کرنے والی ایک اسرائیلی یونٹ کو یوں محسوس ہوا گویا حزب اللہ لبنان کے کمانڈوز نے ان پر حملہ کر دیا ہے جس پر انہوں نے بوکھلا کر فائرنگ اور گولہ باری شروع کر دی۔
لیکن حقیقت یہ تھی کہ انہوں نے بوکھلاہٹ میں اپنے ہی فوجیوں کو نشانہ بنا ڈالا تھا۔ اب انہوں نے شرمندگی سے بچنے کیلئے یہ خبر اڑا دی کہ اسرائیل آرمی نے حزب اللہ لبنان کا کمانڈو ایکشن ناکام بنا دیا ہے۔ جب ان سے ثبوت کے طور پر جھڑپ میں مارے جانے والے افراد کی تصاویر کا مطالبہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ زندہ بچنے والے حزب اللہ کے کمانڈوز اپنے ساتھیوں کی لاشیں اپنے ساتھ واپس لے گئے ہیں۔ ایسی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ اس فائرنگ اور گولہ باری میں اسرائیل آرمی نے اپنے ہی پانچ فوجی ہلاک اور بارہ زخمی کر دیے ہیں۔ واقعے کے کچھ دیر بعد حزب اللہ لبنان نے اپنے سرکاری بیان میں واضح کیا کہ انہوں نے مقبوضہ فلسطین کے اندر کوئی کاروائی انجام نہیں دی اور ان کا کوئی مجاہد زخمی یا شہید نہیں ہوا۔
حزب اللہ لبنان نے اس واقعہ پر دو قسم کی حکمت عملی اپنائی۔ ایک "اسٹریٹجک خاموشی" اور دوسری "بامقصد ابہام" پر مبنی تھی۔ حزب اللہ لبنان کی جانب سے اس واقعہ کے بارے میں کچھ مدت کیلئے خاموشی اختیار کئے جانا اسرائیلیوں کیلئے ہر بیانئے یا دھمکی سے زیادہ دردناک تھا۔ اس خاموشی نے صہیونی رژیم کو شدید قسم کے اوہام کا شکار کر دیا جس کے نتیجے میں اس کا خوف و ہراس اپنے عروج تک جا پہنچا۔ اس واقعہ کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ آپس میں لڑنے میں مصروف تھے۔ اس دوران حزب اللہ لبنان نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ یوں حزب اللہ لبنان نے ایک گولی بھی چلائے بغیر محض اسٹریٹجک خاموشی اور بامقصد ابہام کے ذریعے شبعا کھیتوں میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم حزب اللہ لبنان سے اس قدر خوفزدہ ہو چکی ہے کہ نہ صرف حزب اللہ کے مجاہدین بلکہ مجاہدین کے سائے سے بھی وحشت زدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوجی حتی مجاہدین کی موجودگی کا وہم و گمان کر کے بھی گولہ باری اور فائرنگ کا آغاز کر دیتے ہیں۔ تاریخ میں یہ حقیقت لکھی جائے گی کہ ایسے احمق بھی تھے جو خوف کا شکار ہو کر میدان جنگ میں اترتے تھے اور فرضی دشمن کے خلاف کاروائی انجام دیتے تھے۔ گویا اسرائیل حزب اللہ لبنان سے خوفزدہ ہو کر خودکشی پر اتر آیا ہے۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان نے اعلان کیا ہے کہ وہ دمشق میں شہید ہونے والے اپنے فوجی کمانڈر کا بدلہ لے کر رہے گی۔ حزب اللہ کی جانب سے جاری کردہ بیانئے میں کہا گیا ہے کہ ہم اپنے شہید کمانڈر کا بدلہ ضرور لیں گے۔
لہذا شبعا کے کھیتوں میں غلطی سے اپنے ہی فوجی مارنے اور زخمی کرنے کے باوجود اسرائیل کی سکیورٹی فورسز بدستور ہائی الرٹ پر ہیں۔ خود اسرائیل بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ حزب اللہ لبنان جس اقدام کا اعلان کرتی ہے اسے انجام دیتی ہے۔ چند سال پہلے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اعلان کیا تھا کہ ہم نے اپنی دفاعی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے اور آج کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم دنیا کے جس حصے میں بھی ہمارے خلاف کسی قسم کا دہشت گردانہ اقدام انجام دے گی ہم اس کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ لہذا ماضی میں بھی حزب اللہ لبنان اپنے اعلی سطحی کمانڈرز کی شہادت کے بدلے باقاعدہ پہلے سے اعلان کر کے مقبوضہ فلسطین کے اندر غاصب صہیونی فوجیوں کے خلاف انتقامی کاروائی انجام دیتی آئی ہے۔
شبعا کے کھیت مقبوضہ فلسطین اور لبنان کی سرحد پر واقع ہیں۔ یہ علاقہ درحقیقت لبنان کی سرزمین کا حصہ ہے جس پر اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ ایسے ہی جیسے اسرائیل نے شام کے علاقے گولان ہائٹس پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ حزب اللہ لبنان نے اس عزم کا اظہار کر رکھا ہے کہ جب تک لبنان کی خاک کا ایک چپہ بھی غاصب صہیونی رژیم کے قبضے میں ہے یہ تنظیم اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھے گی۔ حزب اللہ لبنان نے اعلان کیا ہے کہ وہ شہید علی کمال محسن کے خون کا بدلہ لینے کیلئے مناسب وقت اور جگہ کا انتخاب خود کرے گی۔ اسرائیلی حکمرانوں کے خوف اور وحشت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حزب اللہ لبنان کی ممکنہ انتقامی کاروائی کے وقت، جگہ اور نوعیت سے لاعلم ہیں۔
یوم عرفہ اللہ تعالی کی عطا ، بخشش اور دعا کی استجابت کا دن ہے
یوم عرفہ ، اللہ تعالی کی پہچان اور شناخت کا دن ہے۔ یہ دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع و زاری نیز دعا اور توبہ قبول ہونے کا اہم دن ہے۔
اللہ تعالی نے اس دن اپنے بندوں کے لئے اپنے احسان وکرم اور جود و سخا کے دسترخوان بچھا دیئے ہیں یوم عرفہ اللہ تعالی کی عطا اور بخشش کا دن ہے۔ بعض دینی ذرائع کے مطابق یوم عرفہ کو عید کے عنوان سے بھی یاد کیا گیا ہے، مفاتیح الجنان کے مطابق یوم عرفہ اور نویں ذالحجہ بڑی اعیاد میں سے ہے اگر چہ روایات میں عید کے نام سے موسوم نہیں ہوا ہے لیکن یہ دن بھی اہم ایام میں شامل ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت اور اطاعت کی دعوت دی ہے۔ اس دن لوگ اللہ تعالی کے فضل و کرم اور جود و سخا سے بہرہ مند ہوتے ہیں ۔عرفہ کے معنی پہچان اور شناخت کے ہیں اس دن لوگ اپنے حقیقی معبود اور خالق کو پہچانتے ہیں اس کی عبادت و بندگی کرتے ہیں اس سے مدد اور نصرت طلب کرتے ہیں ۔ آج کے اعمال میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زيارت اہم ہے اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج کربلائے معلی میں اپنے مولا و آقا حضرت امام حسین (ع) کے روضہ پرحاضر ہو کر اپنے معبود برحق سے راز و نیاز کررہے ہیں۔آج کے دن کی دعاؤں میں یوم عرفہ میدان عرفات میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی دعا معروف ہے جو عبد و معبود کے درمیان گہرے رابطہ کا مظہر ہےجو اللہ تعالی کی پہچان اور شناخت کا مظہر ہے۔
اس دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت اور کربلائے معلی میں حاضر ہونے کی سخت تاکید کی گئی جس کے نتیجے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت اور جلالت دو چنداں ہوجاتی ہے بعض روایات کے مطابق عرفہ کے دن اللہ تعالی پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین پر نظر کرتا ہے اور اس کے بعد عرفات میں حاضر ہونے والے حجاج پر نظر کرتا ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: " انّ اللّه تبارک و تعالی یتجلّی لزوّار قبر الحسین(ع) قبل اهل العرفات و یقضی حوائجهم و یغفر ذنوبهم و یشفّعهم فی مسائلهم ثمّ یأتی اهل عرفه فیفعل بهم ذلک." اللہ تعالی عرفات سے پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین پر نظر کرتا ہےان کی توبہ کوقبول کرتا ہے ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور ان کے مسائل اور مشکلات کو حل کرتا ہے اور اس کے بعد اہل عرفہ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتا ہے۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم عرفہ دعا ، توبہ اور انابہ کے لحاظ سے بہت ہی اہم دن ہے اور مؤمنین کو اس دن کے فیوض اور برکات سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔
آج اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مقدس اور مذہبی مقامات پر طبی پروٹوکول کی رعایت کے ساتھ اس دعا کی تلاوت کی جائے گی اور مؤمنین اس دعا کے ذریعہ اپنے گناہوں کی بخشش اور قرب خدا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یوم عرفہ حضرت آدم اور حضرت داؤد کی توبہ قبول ہوئی یہ دن اللہ تعالی سے دعا ، رحمت اور مغفرفت طلب کرنے کا دن ہے۔