سلیمانی

سلیمانی

 وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ

(22 سجده) اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جسے آیات هالہٰیہ کی یاد دلائی جائے اور پھر اس سے اعراض کرے تو ہم یقینا مجرمین سے انتقام لینے والے ہیں 

 اسرائیل پر ایران کے ڈرونز حملوں پر ایران کے مختلفف شہروں میں شہریوں نے جشن منانا شروع کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق ایران کی جانب سے اسرائیل پر فائر کیے گئے ڈرونز اور کروز میزائلز کے حملوں کے بعد تہران میں ایرانی شہری خوشی مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ عوام ایران کے پرچم لے کر سڑکوں پر آگئے اور جشن بھی منایا۔ دوسری جانب لبنانی دارالحکومت بیروت میں بھی اسرائیل پر ڈرونز حملوں کی خوشی میں ریلی نکالی گئی۔ واضح رہے کہ ایران نے اسرائیل پر 100 کے قریب ڈرونز اور کروز میزائلز فائر کر دیئے۔ایرانی پاسدران انقلاب نے اسرائیل پر حملے کی باضابطہ تصدیق کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایران نے اسرائیلی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے، گولان کی پہاڑیوں اور شام کے قریب اسرائیلی فوجی ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا۔

دیگر ذرائع کے مطابق اسرائیل پر حملے کے بعد ایران میں ہزاروں شہری جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تہران میں سینکڑوں ایرانی شہری اسرائیل پر حملے کی خوشی منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور "ڈیتھ ٹو اسرائیل" اور "ڈیتھ ٹو امریکا" کے نعرے لگائے۔ تہران میں برطانوی سفارت خانے کے باہر بڑی تعداد میں مظاہرین جمع ہوئے، ایران کے تیسرے بڑے شہر اصفہان میں بھی مظاہرہ کیا گیا، جہاں دمشق حملے میں شہید ہونے والے جنرلز میں سے ایک بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی کو دفن کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لبنانی دارالحکومت بیروت میں بھی اسرائیل پر ڈرونز حملوں کی خوشی میں ریلی نکالی گئی۔

واضح رہے کہ 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 ڈرون اور کروز میزائل فائر کیے تھے، ایرانی پاسدران انقلاب نے اسرائیل پر حملے کی باضابطہ تصدیق کی تھی۔ حملے میں اسرائیلی دفاعی تنصیاب اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق یہ حملہ یکم اپریل کو اسرائیل کے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے جواب میں ہے، جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12 افراد شہید ہوگئے تھے۔
 
 
 
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور کئی فوجی مشیروں کی شہادت کے بدلے میں ایران نے اسرائیل پر درجنوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے حملہ کر دیا ہے۔ صہیونی ریڈیو اور ٹیلی ویژن تنظیم نے اسرائیلی اور امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل پر ایرانی ڈرون حملہ شروع ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں کئی ڈرون طیاروں کی فضاء میں نچلی سطح پر پرواز کرتے ہوئے تصاویر دکھائی گئی ہیں۔ اس حوالے سے عبرانی زبان کی نیوز سائٹ والا اینڈ ایکسیوس نے امریکی اور اسرائیلی حکام کے حوالے سے ایران کی جانب سے مقبوضہ فلسطین پر ڈرون حملے کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ صیہونی میڈیا نے بھی حنظلہ ہیکنگ گروپ کی طرف سے صیہونی حکومت کے ریڈاروں کی ہیکنگ کی خبر دی ہے۔

ایرانی سرکاری ذرائع ابلاغ کی تصدیق
اسلامی جمہوری ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے باقاعدہ تصدیق کی ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی تنصیبات پر باقاعدہ اور وسیع ڈرون حملے شروع ہوگئے ہیں۔

صہیونی فضائی حدود بند
ایرانی ڈرون حملوں کے پیش نظر فضائی حدود کو صبح سات بجے تک کے لئے بند کردیا ہے۔ صہیونی فوج کے ریڈیو نے کہا ہے کہ ایران کا حملہ صرف ڈرون طیاروں تک محدود نہیں بلکہ کروز میزائل کی شکل میں بھی ہوگا۔ دوسری جانب صہیونی فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے، اس سلسلے میں امریکہ سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔

ایران حملوں کی خبریں منتشر ہونے کے بعد مقبوضہ علاقوں میں ہنگامی حالت نافذ
صہیونی حکام نے مقبوضہ فلسطین میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے لوگوں کی غیر ضروری رفت و آمد پر پابندی عائد کی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق بیرون ملک سفر کرنے والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی روانگی ملتوی کر دیں۔ ذرائع کے مطابق کل بن گوریان ائیرپورٹ کے علاوہ حیفا، نتانیا اور اشدود کی بندرگاہیں بھی بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

ایرانی حملوں کا سو فیصد مقابلہ نہیں کرسکتے، صہیونی فوجی ترجمان
اسرائیلی فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ ایران کے حملے کا جواب دینے کے لئے صہیونی آرمی اور فضائیہ مکمل الرٹ ہیں۔ اس حوالے سے امریکہ سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ ایرانی ڈرون طیاروں کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی، تاہم عوام کو خبردار کرتے ہیں کہ ایرانی حملوں کا سو فیصد دفاع ممکن نہیں ہے۔

ایرانی وزیر دفاع
ہم ان ممالک پر بھی جوابی حملہ کریں گے، جو ایران پر حملہ کرنے کے لیے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود یا سرزمین فراہم کریں گے۔

سپاہ پاسداران انقلاب کا بیان
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور کئی فوجی مشیروں کی شہادت کے بدلے میں ایران نے اسرائیل پر درجنوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے حملہ کر دیا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بیان کا متن درج ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنْتَقِمُونَ
اسلامی جمہوری ایران کے شہید پرور عوام!
صہیونی شرپسند حکومت کی جانب سے شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور ایرانی فوجی مشیروں کی شہادت کا بدلہ لینے کے لئے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ نے صہیونی حکومت کو سبق سکھانے کے لئے "یارسول اللہ" کے رمزیہ نعرے کے تحت مقبوضہ فلسطین کے اندر درجنوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ قومی سلامتی کونسل اور ملکی مسلح افواج کی جانب سے فیصلے کے بعد ایرانی بہادر عوام کی حمایت کے تحت ایرانی مسلح افواج اور وزارت دفاع کی جانب سے ان حملوں کی تفصیلات جاری کی جائیں گی۔
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ
 
 
غزہ کی جنگ نے غاصب صیہونی رژیم کی فوج اور معیشت کو تباہ حال کر دیا ہے اور چھ ماہ تک فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی کے باوجود صیہونی رژیم کو نہ تو اس جنگ میں کامیابی کی کم ترین امید ہے اور نہ ہی صیہونی فوج اور معیشت اس سے پہلے کسی ایسی جنگ میں مبتلا ہوئی ہے جو چند دن یا چند ہفتے سے زیادہ طول پکڑ چکی ہو۔ صیہونی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس اس جعلی رژیم کی ابتر صورتحال کی بہترین عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں:
ریڈیو صیہونی فوج: جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار ناحال بریگیڈ کے علاوہ پوری آرمی غزہ کی پٹی سے پسپائی اختیار کر چکی ہے۔
اسرائیل ہیوم: صیہونی فوج خان یونس میں اپنے یرغمالیوں کی بازیابی کے سلسلے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے۔
 
صیہونی اخبار ہارٹز: صیہونی فوجی ایسی حالت میں جنوبی غزہ ترک کر رہے ہیں کہ اپنے مطلوبہ اہداف سے حتی قریب بھی نہیں پہنچے۔ فتح اتنی بھی قریب نہیں جس طرح نیتن یاہو کہہ رہا ہے۔ صیہونی فوج کے چند افسران نے کہا ہے کہ غزہ سے پسپائی کی وجہ جنگ میں شدید تھکاوٹ ہے اور اس کا مقصد حسن نیت یا قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہے۔
صیہونی چینل 12: جنگ شروع ہوئے چھ ماہ گزر جانے کے باوجود اب بھی ایک لاکھ آبادکار جلاوطنی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کی اپنے گھروں کو واپسی کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔
صیہونی چینل کان: اسرائیل کے پاس جنگ کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے لہذا وہ مذاکرات بھی آگے بڑھانے سے قاصر ہے۔
 
صیہونی چیف آف آرمی اسٹاف ہرٹزل ہالیوے: ہم ایسی جنگ میں مصروف ہیں جس کا تجربہ ہم نے اس سے پہلے نہیں کیا۔ ہم بھاری تاوان دے رہے ہیں اور ہمارے بہت سے فوجی اور افسر مارے جا چکے ہیں۔
صیہونی قومی سلامتی کونسل کا سابق مشیر: ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران جوابی کاروائی ضرور کرے گا۔ اسرائیل اسٹریٹجک لحاظ سے اپنی تاریخ میں سب سے زیادہ کمزور پوزیشن میں ہے۔ لیکن ہماری حکومت نے احمقانہ طرز عمل اختیار کر کے ہمیں ہمیشہ سے زیادہ طاقتور، پیچیدہ اور پراسرار دشمن کے مقابلے میں شکست کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ سیاسی لحاظ سے امریکہ سے اختلافات اور عالمی سطح پر اسرائیل کے چہرے کو شدید نقصان پہنچنا۔ اسرائیل تاریخ میں پہلی بار عالمی عدالت انصاف میں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ اسرائیلی اب تک بحران کی شدت نہیں سمجھ پائے۔
 
ایسا دھچکہ جو سینکڑوں یا شاید ہزاروں صیہونیوں کو پہنچنے والا ہے کیونکہ وہ جس ملک میں بھی قدم رکھیں گے گرفتار ہونے کے خطرے سے روبرو ہوں گے۔ فوجی لحاظ سے صیہونی فوج شدید ترین بحران کا شکار ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف، پورا آرمی اسٹاف اور اکثر اعلی سطحی فوجی سربراہان شکست کے ذمہ دار ہیں۔ امریکہ اور ہمارے دیگر دوست ممالک غزہ میں ہماری فوجی شکست کی شدت سے چونک گئے ہیں۔ ہماری فورسز چھ ماہ بعد بہت خستہ حال ہو چکی ہیں اور ریزرو فورس بھی شدید نفسیاتی دباو کا شکار ہے۔ اگرچہ نیتن یاہو حکومت یہ ظاہر کر رہی تھی کہ غزہ میں مزاحمت کچل دی گئی ہے لیکن گذشتہ چند دنوں میں مزاحمتی کاروائیاں دوبارہ شدت اختیار کر گئی ہیں اور ایک دن میں 14 صیہونی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان اور عراقی مزاحمت نے گولان ہائٹس سے لے کر ایلات بندرگاہ تک میزائل حملے شروع کر رکھے ہیں۔
 
سابق صیہونی وزیراعظم ایہود براک: "ہمیں انتہائی پیچیدہ اور انوکھی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایران اور حزب اللہ لبنان اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور حماس کی شکست بھی ابھی بہت دور ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر نیتن یاہو حکومت کل یا اس سے بھی پہلے ختم ہو جانی چاہئے۔" ایسی صورتحال میں ایران کی جانب سے دمشق میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے فوجی کمانڈرز کے خون کا بدلہ لینے کے عزم نے اسرائیل کی مشکلات دوچندان کر دی ہیں۔ صیہونی حکمران ایک طرف دھمکی آمیز لہجے میں بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے ذرائع ابلاغ ان کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔ صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے دعوی کیا ہے: "ایران نے عمان کے ذریعے امریکہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی اور رفح پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں وہ جوابی کاروائی انجام نہیں دے گا۔"
 
اسرائیلی ویب سائٹ ٹیرر الارم بھی لکھتی ہے: "اگر ایران تل ابیب یا حیفا پر حملہ کرتا ہے تو اسرائیل ایران کے 9 مقامات پر حملہ کرے گا۔ ایران نے اسرائیل کو اطلاع دی ہے کہ وہ جوابی کاروائی انجام نہیں دے گا۔" ان ذرائع ابلاغ کی نفسیاتی جنگ کے برعکس ایرانی صدر کے مشیر نے اعلان کیا ہے: "ایران نے ایک خط کے ذریعے امریکی حکام کو پیغام دیا ہے کہ وہ نیتن یاہو کے جال میں مت پھنسے۔ خود کو غیر جانبدار کر لے تاکہ اسے نقصان نہ پہنچے۔ اس کے جواب میں امریکہ نے ایران سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکی مراکز کو نشانہ نہ بنائے۔" ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے عمان کے ہم منصب سے ملاقات میں کہا: "ایران قانونی اقدامات انجام دینے کے علاوہ جارح قوتوں کو سزا بھی دے گا۔" انہوں نے دمشق میں مزید وضاحت سے کہا: "صیہونی رژیم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بین الاقوامی قانون کی پابند نہیں ہے۔ اسے سزا ملے گی اور جواب دیا جائے گا۔"
 
 
تحریر: علی احمدی

ایران میں تیل کی کہانی
برسوں پہلے قاجار حکمرانوں کی طرف سے مسلط کردہ فکری محرومیوں کی وجہ سے اہل ایران کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کے قدموں تلے کون سی قیمتی چیزیں چھپی ہوئی ہیں۔ ایرانی تیل کی قیمت کو سمجھنے والے انگریزوں نے اسے لوٹنے کے لیے سب سے پہلے اسے بدبودار، بیکار اور فضول چیز کے طور پر متعارف کرایا۔ جب وقت آگے بڑھا اور لوگوں کو سمجھ میں آیا کہ یہ  تو کالا سونا ہے اور بہت قیمتی ہے تو اس بار سامراجی  طاقتوں نے دھونس دھاندلی سے اس پر قبضہ کر لیا اور اس قومی دولت کو یک طرفہ ٹھیکے دے کر معمولی قیمت پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ ان ایام میں جب بھی ایران کے باشعور اور روشن خیال لوگوں نے شکایت کی تو انہوں نے حقارت سے جواب دیا کہ تیل کیسے نکالو گے۔؟ کیا آپ کے پاس علم اور مہارت ہے اور کیا ایسے وسائل، امکانات اور آلات موجود ہیں، جس سے تم تیل زمین کی گہرائیوں سے باہر نکال سکو۔؟ تیل کی کہانی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ برطانوی استعمار نے اس وقت تک روڑے اٹکائے، جب تک کہ لوگوں کو اس قیمتی مادے کی قیمت معلوم نہ ہوگئی۔

مضبوط ایران اور مقامی جوہری علم و ٹیکنالوجی
جوہری صنعت کی بھی بالکل وہی کہانی ہے، جو تیل سے متعلق تھی۔ ایک زمانے تک ایٹمی ٹیکنالوجی کے فوائد سے انکار کیا گیا اور اب بھی بعض افراد کہتے ہیں کہ ایٹمی توانائی پر اتنا خرچ کیوں کیا جائے؟ یہ شکوک و شبہات   ایک طرف مغرب کا پروپگینڈا ہے تو دوسری طرف لوگوں کی زندگیوں میں جوہری توانائی کے ثمرات اور اس کے استعمال سے لاعلمی بھی ہے۔ معاشرے کے بعض طبقوں کی ایٹمی توانائی کے فوائد سے لاعلمی اور دشمن کی سازشوں کی وجہ سے ایران کی جوہری پروگرام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی  گئی ہیں۔ ان سازشوں میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف نفسیاتی جنگ  شروع کرنا اور فوائد کو جھٹلانا اور اسے مہنگا ثابت کرنا بھی شامل ہے۔ دوسری طرف یہ جھوٹا دعویٰ بھی کیا گیا کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن نہیں ہے اور ایران کے خلاف عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

جوہری پروگرام کے بہانے ایرانی قوم پر پابندیاں اور اقتصادی دباؤ ڈالنا، سائنسی پابندیاں نیز ایٹمی سائنسدانوں کا قتل بھی اس سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لیے مذاکرات کے ساتھ ساتھ  گاجر اور چھڑی کی پالیسی استعمال کی گئی۔ گذشتہ دو دہائیوں میں ایران کی ایٹمی صنعت کو روکنے اور تباہ کرنے کے مغرب کے اقدامات کی ایک طویل فہرست ہے۔ ایٹمی صنعت ایک قیمتی سرمایہ ہے اور اگر آج اسے غیر ملکی دشمن کے پروپیگنڈے کی وجہ یا کسی غفلت یا بے حسی کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں یقیناً اس قومی سرمائے کے حصول اور استعمال کے بارے میں مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔

ایٹمی صنعت ملک کے لیے کیوں اہم ہے؟
ملک کے لیے جوہری صنعت کی اہمیت جاننے کے لیے ہمیں تیل کی کہانی کی طرف واپس جانا ہوگا۔ آج بہت کم محب وطن ایرانی ایسے ہیں، جو تیل نکالنے اور پیداواری صلاحیت میں ایران کی مقامی پیش رفت سے انکار یا شک کرتے ہیں اور تیل کی صنعت کو قومیانے کو ملک کا اعزاز نہیں سمجھتے۔ یہ جاننا دلچسپ ہے کہ آج تیل کے شعبے بالخصوص ریفائنریوں میں ستر فیصد تک جدید ترین جوہری آلات استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس لیے آج جوہری آلات کے بغیر تیل کی صنعت نہیں ہوسکتی۔ کان کنی، تیل اور پیٹرو کیمیکل کی صنعتوں میں جوہری علم کا استعمال ضروی ہوگیا ہے۔ یورینیم کی کانوں کی دریافت اور "ایئر بورن جیو فزکس ٹیکنالوجی" کے ذریعے تیل کے کنوؤں کی دریافت جوہری صنعت کی اہم سائنسی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ نئی ٹیکنالوجی سے 15 ہزار میٹر گہرائی تک مختلف بارودی سرنگوں اور تیل کے کنوؤں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔

 ایٹمی صنعت، توانائی کے بحران سے نکلنے کا راستہ
توانائی کی قیمتوں میں بڑھاوا، تیل اور گیس کی منڈی میں عدم استحکام اور توانائی کی طلب میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والے عالمی بحران کی وجہ سے آج سلامتی اور وسائل کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف ممالک کو اپنی مطلوبہ توانائی حاصل کرنے کے لیے وسیع مسابقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ایندھن کے زیر زمین ذخائر محدود ہیں، لہذا متبادل ذرائع کی تلاش ضروری ہے۔ جوہری توانائی کا حامل ہونے سے نیز جوہری ایندھن کے ذریعے توانائی کی فراہمی کے میدان میں خود کفالت حاصل کرنا نہ صرف علم اور ٹیکنالوجی میں ترقی کا باعث بنے گا اور بلکہ اس سے مستقبل میں توانائی اور سکیورٹی کے شعبوں میں ایران کی پوزیشن بہتر ہوگی۔ اس وقت ایران کے جنوبی اور شمالی ساحلوں میں پاور پلانٹس کی تعمیر، چھوٹے اور مقامی پاور پلانٹس کی تعمیر اور بوشہر میں واٹر ڈی سیلینیشن کمپلیکس کی تعمیر نیز توانائی اور پانی کے شعبے میں کامیابی کی چند مثالیں ہیں۔ اس  ترقی سےجوہری توانائی کے شعبے کی کامیابیوں میں ایرانی سائنسدانوں کی تکنیکی طاقت کا بخوبی ادراک کیا جا سکتا ہے۔

مقامی جوہری علم
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے میدان کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک اس علم کی لوکلائزیشن یعنی مقامی ہونا ہے۔ یعنی اب ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس جوہری پاور پلانٹ ہو، لیکن اس کا مینیجر کوئی غیر ایرانی ماہر ہو۔ آج ان امور میں خودکفالت جہاں ملک کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز اور خود اعتمادی کی علامت ہے، وہاں دوسری طرف ملکی تعلیمی اور سائنسی ڈھانچے کی ترقی کی علامت اور ثبوت بھی ہے۔ ایک ایسا تعلیمی نظام جو نہ صرف وفادار نوجوانوں کی غیر معمولی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے، ان کی تربیت کرنے کا باعث بنا ہے بلکہ یہی نظام سائنس و ٹیکنالوجی کی پیداوار کو صنعتی مراحل تک پہنچانے اور آخرکار اس صنعت میں مغربی ممالک کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے قابل ہوا ہے۔

 آج ایران کا نیوکلیئر فیول سائیکل مکمل ہے، جس کا مطلب یورینیم کی دریافت، زرد کیک کی تیاری، یورینیم پروسیسنگ، افزودگی، سینٹری فیوجز سلاخوں اور فیول کمپلیکس کی تیاری میں خود کفالت ہے۔ ایٹمی ری ایکٹر کے قلب میں جوہری ایندھن کا دخول اور ری ایکٹر کے فضلے کا انتظام، سبھی ملک کے اندر اور مقامی ماہرین کے زیر نگرانی انجام پا رہا ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس صنعت کی کمرشلائزیشن کے میدان میں مزید سنجیدہ اور آپریشنل اقدامات کی ضروت ہے۔

ایٹمی میڈیسن کی تیاری میں کامیابیاں
"Tellurium 130 isotope" کی تیاری جوہری صنعت کے نوجوان سائنسدانوں کی کامیابیوں میں سے ایک ہے، جو 20 سینٹری فیوج مشینوں کی تعمیر اور ترتیب سے حاصل کی گئی ہے۔ آج طبی میدان میں، خاص طور پر ریڈیو فارماسیوٹیکل کے خام مال کی تیاری اور مختلف قسم کے کینسر، لاعلاج بیماریوں کی تشخیص اور دواسازی میں نیوکلیئر سائنسز کا وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے، جس میں ایران نے قابل رشک پیشرفت کی ہے۔ ارضیات، زراعت جیسے شعبوں میں جوہری محققین نے کارہای نمایاں انجام دئیے ہیں۔ ایران نے پچاس  سے زیادہ فالج سے متعلق تشخیصی، ریڈیو فارماسیوٹیکل تیار کرنے میں کامیاب حاصل کی ہے۔ طب کے میدان میں "Hemostat" یا "خون کا جمنا" جیسی بیماریوں کے علاج کے لئے پاؤڈر کی تیاری جوہری ٹیکنالوجی کی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ یہ ٹیکنالوجی خون کو روکنے کے لیے سرجریوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ ایران ان پانچ ممالک میں شامل ہے، جو ان طبی مصنوعات کو تیار کرنے کا تکنیکی علم رکھتے ہیں۔

جوہری توانائی کے ساتھ خوراک اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے میں بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کا اہم کردار ہے۔ آج ایرانی سائنسدانوں کی غیر معمولی کوششوں سے ایٹمی علم تین شعبوں "پلازما، حیاتیاتی اور تابکاری" میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور زراعت اور خوراک کی حفاظت میں مددگار ہے۔ زرعی کیڑوں سے نمٹنا، اناج اور خوراک کو جراثیم سے پاک کرنا اور ان کی شیلف لائف کو بڑھانا زرعی شعبے میں جوہری علم کی اہم ترین خدمات میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ صنعت اور ماحولیاتی تحفظ میں جوہری علم کا استعمال ایک اور کارنامہ ہے۔ ربڑ اور پولیمر کی صنعتوں میں استعمال ہونے والے صنعتی فضلے کے خطرات سے بچنے کے لیے "الیکٹرو سٹیٹک الیکٹران" ایکسلریٹر سسٹم کے ڈیزائن اور تعمیر نے ان شعبوں میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا کی ہے۔

نفسیاتی کارروائیوں کو شکست دینے کیلئے جوہری کامیابیوں کی وضاحت
یہ ایک فطری بات ہے کہ ایٹمی صنعت کی ان تمام کامیابیوں اور ترقی سے ایرانی قوم کے بدخواہ غصے میں آجائیں اور ایران کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائیں۔ استعماری طاقتیں اور استکباری ممالک سائنس و ٹیکنالوجی پر اپنی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایران کے دشمنوں نے ایران کی ایٹمی صنعت کی ترقی کو کم کرنے یا روکنے کے لیے (دھمکیاں، لالچ) تمام تر سازشیں اور حربے استعمال کیے ہیں۔ ایرانی سائنسدانوں کو قتل کیا گیا، بین الاقوامی دباؤ ڈالا گیا اور ایرانی قوم پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں۔ دشمن چاہتے تھے کہ ایرانی عوام اپنے ناقابل تنسیخ اور مسلمہ حق سے دستبردار ہو جائیں، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے۔ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی سے روکنے کے لئے پروپیگنڈہ جنگ کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ دشمن ایٹمی صنعت کو ایک مہنگا اور ناقابل حصول مسئلہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہا اور اب بھی اسے ترقی کے راستے کے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

رہبر انقلاب کے بقول ہمیں اس مذموم منصوبے کے خلاف کھڑا ہونا چاہیئے۔ "اگر آپ ایک مضبوط ایران چاہتے ہیں، ہر کوئی ایران سے محبت کرتا ہے، ہر کوئی اسلامی جمہوریہ سے محبت کرتا ہے، ہر کوئی قوم سے محبت کرتا ہے اور اس ملک کی مضبوطی کا مطالبہ کرتا ہے تو آپ کو سائنسی، تحقیقی، صنعتی اور کاروباری کوششوں اور سرگرمیوں کے اس حصے پر توجہ دینی چاہیئے۔ (3/21/1402) جوہری صنعت کے حکام کو بھی اس عظیم صلاحیت کو لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہیئے۔ "لوگوں کی زندگی کے تمام حصوں میں، یہ صنعت ایک مؤثر اور مفید موجودگی رکھ سکتی ہے۔ یہ بات لوگوں کو بتائیں، تاکہ لوگ اس صنعت کی تعریف کریں اور کہیں کہ "یہ ہمارا مسلمہ حق ہے"، وہ واقعی جان لیں کہ یہ ان کا مسلمہ حق ہے۔ (21/3/1402)

آخری بات یہ ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں جوہری صنعت کی کامیابیوں اور ایک مضبوط و طاقتور ایران کے لئے ایٹمی توانائی کے کردار کی اہمیت کو لوگوں کو بتایا جائے، تاکہ اسلامی جمہوریہ کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو سیاہ بنا کر پیش کرنے کی دشمن کی وسیع نفسیاتی کارروائیاں ناکام ہو جائیں۔ ایران کے آج اور کل کو تعمیر کرنے کے لئے ایرانی عوام نے ماضی کی تاریخ سے سبق سیکھ  لیا ہے۔ ایرانی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ جوہری ترقی کے موجودہ دشمن وہی عناصر ہیں، جو ماضی میں ایران کے تیل کی لوٹ مار میں ملوث تھے، البتہ آج انہوں نے اپنا روپ بدل لیا ہے۔

 شیعہ علماء کونسل پاکستان کی جانب سے جاری ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ تمام عالم اسلام کو عید سعید الفطر کے پرمسرت موقع پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ عید “مظلوم مسلمانوں” کی یاد میں منائیں، ان سے اظہار یکجہتی کریں۔ پورے دنیا کو پیغام دیں اور عید کے اجتماعات میں خصوصی دعائوں کا اہتمام کریں

اسلام ٹائمز۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ 10 اپریل 2024ء کی صبح ملک کے اعلی رتبہ حکام، تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفراء اور عوامی طبقوں کی ایک تعداد سے ملاقات کی۔ انہوں نے اس موقع پر اپنے خطاب میں عالمی یوم قدس کی ریلیوں میں ایرانی قوم کی حیرت الگيز موجودگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ یوم قدس کی ریلی ایک حیرت انگيز سیاسی اور بین الاقوامی اقدام تھا اور ماہر افراد کی رپورٹ کے مطابق لوگوں کی زبردست اور پچھلے برسوں سے زیادہ شرکت حقیقی معنی میں ایک اجتماعی گھن گرج میں تبدیل ہو گئی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ غزہ کا مسئلہ نظر انداز کیے جانے کے لائق نہیں، یہ عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ہم سب کو غزہ کے سلسلے میں ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیئے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس سلسلے میں کہا کہ اقوام یہاں تک کہ غیر مسلم اقوام کے دل بھی فلسطین اور غزہ کے مظلوموں کے ساتھ ہیں جس کی نشانی افریقا، ایشیا، یورپ یہاں تک کہ خود امریکا میں صیہونیوں کے جرائم کے خلاف بے مثال ریلیاں ہیں۔ انہوں نے عالمی میڈیا پر صیہونیوں کے طویل مدتی کنٹرول اور ان کی جانب سے فلسطین کی آواز اور پیغام کو دوسری جگہوں تک پہنچنے سے روکنے کے باوجود سب سے اہم موضوع کی حیثیت سے مسئلۂ فلسطین پر اقوام کی توجہ کو عالم اسلام میں نئی تبدیلیوں کا غماز بتایا اور کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ اقوام کی جانب سے ذمہ داری محسوس کیے جانے کے باوجود حکومتیں اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے بچوں اور عورتوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائے کے اوج پر ہونے کے باوجود بعض اسلامی ملکوں کی جانب سے اس حکومت کی مدد کو زیادہ افسوسناک حقیقت قرار دیا۔ انہوں نے صیہونی حکومت سے اسلامی حکومتوں کے سیاسی اور معاشی روابط کے خاتمے کو اسلامی جمہوریہ ایران کی حتمی تجویز اور توقع قرار دیا۔ انہوں  نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی ملکوں میں ریفرنڈم کرائے جانے کی صورت میں تمام مسلم اقوام اس توقع پر متفق ہوں گی، کہا کہ کم ترین توقع یہ ہے کہ اسلامی ممالک عارضی طور پر سہی صیہونی حکومت کے جرائم جاری رہنے تک اس سے اپنے تعلقات ختم کرلیں اور اس کی مدد نہ کریں۔

 غزہ اس وقت ایسا میدان جنگ ہے، جس میں مظلوم فلسطینی اور ظالم صیہونی ناجائز ریاست اسرائیل برسر پیکار ہیں۔ فلسطینیوں پر ہر وقت موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ آبادیاں کھنڈرات بن چکی ہیں۔ ہسپتالوں پر بھی حملے جاری ہیں۔ مسلم عرب ریاستیں قریب ہی موجود تو ہیں مگر مدد کی جرات نہیں رکھتیں۔ مزاحمتی تحریک حماس کے مجاہدین اپنی طاقت کے مطابق اسرائیلی مظالم کا جواب دے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں عوام سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں مگر حکمران بے حسی اور بے شرمی کی چادر لئے سو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کی قراردادیں بھی ظالم اسرائیل نے ہوا میں اڑا دی ہیں۔ گویا عالمی طاقتیں بھی اسرائیل کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق 7 اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصیٰ کے نام سے اسرائیل میں آپریشن شروع کرنیوالی حماس کے مجاہدین بڑی تعداد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، جبکہ فلسطینی عوام کی قربانیوں کا لفظوں میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ بہادری اور صبر کی تصویر یہ فلسطینی عوام کہ جنہیں پتہ ہے کہ اگلے ہی مرحلے میں اسرائیلی بمباری میں مارے جائیں گے لیکن وہ اپنی سرزمین کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔

ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی اپنے اختتام کو بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ 44 سال سے جمعة الوداع بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی اپیل پر یوم القدس کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں سے عالمی سطح پر اظہار یکجہتی کا آغاز انقلاب اسلامی کے ابتدائی دنوں میں ہی 1979ء میں شروع ہوگیا تھا۔ رہبر امت کی دوراندیشی کے باعث عالمی سطح پر مسلمانوں کو ہم آواز کرنے کا آغاز بھی انقلاب اسلامی کیساتھ ہی کر دیا گیا تھا۔ اس کے فکری اثرات دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مرتب ہوئے۔ سرور کائنات خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم ولادت باسعادت عید میلادالنبیﷺ کے عنوان سے پاکستان میں جس جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے، اس کی مثال شاید کہیں اور نہیں ملتی۔ برادران اہلسنت کے مطابق 12 ربیع الاول اور شیعہ نقطہ نظر سے 17 ربیع الاول کو یوم ولادت سید المرسلین پر اختلاف ہے، لیکن رہبر انقلاب امام خمینیؒ نے امت مسلمہ کو اختلافی نقطے پر متحد کرنے کی ابتدا 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک "ہفتہ وحدت" کا نام دے کر دی۔ دنیا بھر میں اعلان کیا کہ عید میلادالنبیﷺ کو پورے ہفتہ منائیں گے۔

میں تحریک جعفریہ کے کارکن کے طور پر اہلسنت برادران کی طرف سے منعقد کئے گئے عید میلاد النبیﷺ کے جلوسوں میں شریک ہوتا رہا ہوں۔ اس حوالے سے ریلوے اسٹیشن پر جناب آفتاب ربانی کی قیادت میں عید میلاد النبیﷺ کے پروگرام کا انعقاد اور بعد ازاں درود و سلام کا ورد کرتے ہوئے جلوس کا داتا دربار پر اختتام، شرکاء جلوس کی دستار بندی رسول اللہﷺ سے عقیدت کا ایک انداز تھا۔ امام خمینیؒ کی وفات کے بعد بھی اسلامی جمہوریہ ایران نے بانی انقلاب اسلامی کے مشن کو جاری رکھا۔ اتحاد امت کی فضا کے قیام کیلئے "ہفتہ وحدت" کی مناسبت سے ماہ ربیع الاول میں تہران میں کانفرنس کا انعقاد اور اس میں دنیا بھر سے سنی شیعہ علماء کی شرکت اتحاد کے عملی اظہار کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ اسی طرح ماہ رمضان المبارک میں حسن قرات کے مقابلے کی میزبانی ایران کا اچھا اقدام ہے۔ حال ہی میں مانسہرہ کے ایک نوجوان قاری ابوبکر بن ثاقب ظہیر یہ مقابلہ جیت کر آئے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ امام خمینیؒ کے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے پیغام کی روشنی میں پاکستان میں قائد ملت اسلامیہ نمائندہ ولی فقیہ علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی اپیل پر پاکستان میں یوم القدس کے جلوس نکالنے کی ابتدا کی گئی۔ تحریک جعفریہ اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے لاہور میں ناصر باغ سے پنجاب اسمبلی ہال چوک تک پہلا جلوس نکالا تو پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کر دیا۔ اسی جلوس میں ہمارے دوست سید غضنفر علی بخاری بھی شامل تھے۔ جب پولیس سے ہمارا آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے پولیس سے ڈنڈے چھین کر انہیں پر برسائے اور پھر پولیس نے بھی ہم پرتشدد کیا۔ کارواں چلتا رہا، قیادت تبدیل ہوئی۔ ایران میں امام خمینیؒ کی جگہ آیت للہ سید علی خامنہ ای اور پاکستان میں علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی جگہ علامہ ساجد علی نقوی قائد منتخب ہوئے تو انہوں نے بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ جو آج تک جاری ہے۔ یوم القدس کے جلوسوں کو منظم کرنے میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور آئی ایس او کے نوجوانوں کا قابل فخر کردار ہمیشہ ناقابل فراموش رہا ہے۔

مجھے یہاں حماس کی جراتمندانہ جدوجہد کو سلام ضرور پیش کرنا ہے کہ جس نے فلسطینیوں کی آواز بن کر اسرائیل کی سینے پر چڑھ کر اسے باور کروایا ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور پھر اس نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کو بھی جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ لبنان امت مسلمہ کا جرات مند بازو ثابت ہوا ہے، جس نے حماس کے شانہ بشانہ فلسطینی مسلمانوں کیلئے اسرائیل کیخلاف اپنا عسکری کردار ادا کیا ہے۔ یمن کے بہادر حوثیوں کی تنظیم انصاراللہ نے سمندر میں امریکی بحری بیڑوں پر حملے کرکے اسرائیل کی مدد کرنیوالوں کیلئے مشکلات پیدا کی ہیں اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی مدد کیلئے آنیوالے مجاہدین کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ البتہ عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ افغانستان اور عراق میں خود کو مجاہدین کہنے والے عسکری گروہ داعش، طالبان، القاعدہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کیخلاف لڑتے کہیں نظر کیوں نہیں آرہے۔؟

افسوس ہے ان عرب ریاستوں اور مسلمان ممالک پر، جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرکے فلسطین کے کیس کو عالمی سطح پر کمزور کیا۔ اطلاعات ہیں کہ امریکہ مزید مسلم ریاستوں پر دباو بڑھا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ حماس کو جب محسوس ہوا کہ متحدہ عرب امارات کے بعد مزید کئی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں تو فلسطینی مزاحمتی تحریک نے ”اب نہیں تو کبھی نہیں“ نعرے کے تحت طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع کرکے ان ریاستوں کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عزائم کو بے نقاب کرکے شرمندہ تعبیر ہونے کا عمل روک دیا۔ 1967ء میں عرب ممالک نے اسرائیل سے اپنے علاقے واپس لینے کے لیے جنگ کی، مگر اسے سات دن سے زیادہ جاری نہ رکھ سکے تھے، مگر 7 اکتوبر سے تادم تحریر اسرائیل کی اکیلے حماس سے جنگ جاری ہے۔ اس میں ابھی تک اسرائیل کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے، حالانکہ پورا عالم کفر صیہونی ریاست کی پشت پناہی کر رہا ہے، مگر وہ حماس کو شکست نہیں دے سکا۔ ہاں شہادتیں ہوئی ہیں، مزید بھی ہوں گی لیکن یہ حقیقت ہے کہ کوئی آزادی شہادتوں کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مظلوم فلسطینیوں کا خون اور سسکیاں ضرور رنگ لائیں گی۔

بحیثیت پاکستانی مسلمان، مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ یورپ کا کوئی ایک ملک بھی نہیں کہ جس میں فلسطین کی حمایت میں اسرائیلی مظالم پر عوام نے احتجاج نہ کیا ہو، مگر مسلم ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے۔ پاکستان میں توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ حماس کے لیے مالی امداد ادویات اور خوراک بھیجی جائے گی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نہ حکومت کی سطح پر حماس کے نوجوانوں کی حمایت میں کوئی اعلان کیا گیا اور نہ ہی فلسطین کے لاکھوں زخمیوں کے علاج کیلئے کوئی میڈیکل ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، جو کہ ان مظلوم انسانوں کے علاج کیلئے مددگار ثابت ہوتیں۔ ہاں جماعت اسلامی کی الخدمت فاونڈیشن کی خدمات غزہ میں قابل تعریف ہیں، جبکہ اس سال یوم القدس کے موقع پر جماعت اسلامی کا جلوس بھی فلسطینیوں کی حمایت میں اضافے کا باعث ہوگا۔ آج میں پاکستان کے عوام سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ یوم القدس کے جلوسوں میں بلا تفریق مذہب و مسلک تمام بنی نوع انسان جو انسانیت میں رواداری کو ترجیح دیتے اور مظلوموں کے ساتھی ہیں، وہ فلسطین پر ہونیوالے ظلم وستم، ریاستی دہشت گردی، خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے قتل کیخلاف سڑکوں پر نکلیں اور مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔

تحریر: سید منیر حسین گیلانی

غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے یکم اپریل کو دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر حملہ کیا ہے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق ایران کی القدس فورس کے اعلیٰ سطحی کمانڈر جنرل زاہدی سمیت سات افراد کی شہادت کی تصدیق ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اس قدر جنون کا شکار ہے کہ سفارتخانہ پر بھی حملہ سے گریز نہیں کیا۔ سرزمین فلسطین پر قائم کی جانے والی صیہونیوں کی اس جعلی ریاست نے ہمیشہ خطے میں دوسرے ممالک اور اقوام کے خلاف دہشت گردانہ عزائم جاری رکھے ہیں۔ آج بھی غزہ میں اپنی شکست کا بدلہ نہ لینے کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار صیہونی غاصب حکومت کبھی لبنان میں حماس رہنماؤں کو قتل کرتی ہے تو کبھی شام میں ایران کے عہدیداروں کو نشانہ بنایا جا تا ہے۔

حقیقت میں غاصب صیہونی حکومت غزہ میں چند سو حماس اور جہاد اسلامی کے نوجوانوں کے سامنے شکست خوردہ ہوچکی ہے۔ غزہ میں ایک سو اسی دن سے جاری جنگ میں اسرائیل کی ناجائز حکومت کو ایک بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تل ابیب میں صیہونی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوچکے ہیں۔ دسیوں ہزار صیہونی آباد کار نیتن یاہو کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ نیتن یاہو کی حکومت یعنی اسرائیل نابودی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ غاصب صیہونی حکومت سنہ1948ء سے اب تک ہمیشہ خطے میں کئی جنگوں کا آغاز کرنے کا ماہر رہا ہے۔ ہمیشہ جنگوں کو مقبوضہ فلسطین سے باہر لڑائی کی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ہمیشہ عرب افواج کو نقصان ہوا ہے۔ عرب علاقوں میں اسرائیل کی توسیع پسندی کو تقویت ملی ہے۔

لیکن اس مرتبہ غزہ کا معرکہ مختلف ہوچکا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اس جنگ میں خود اندر لڑائی میں مشغول ہے۔ اسرائیل کی امریکہ کے ساتھ مل کر پہلے دن سے کوشش ہے کہ جنگ کو فوری طور پر غزہ سے باہر نکال کر خطے میں پھیلا دیا جائے، تاکہ اسرائیل کو سکون میسر ہو، لیکن اس مرتبہ کی جنگ بھی منفرد ہے۔ غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے اندر جاری رہنے کے ساتھ ساتھ جنوبی لبنان کے محاذ سے بھی صیہونیوں کے لئے زمین تنگ کی جا چکی ہے۔ یمن کے انصاراللہ اور عراق کے حشد الشعبی اور کتائب حزب اللہ نے بحیرہ روم اور بحیرہ احمر میں غاصب صیہونی حکومت کی معاشی ناکہ بندی کر دی ہے، جس کی وجہ سے اسرائیل کی رہی سہی طاقت بھی دھڑام ہوچکی ہے۔

یہ تمام حالات غاصب صیہونی حکومت کی شکست خوردہ عکس بندی کر رہے ہیں۔ایسے حالات میں اسرائیل شدید ترین دباؤ اور تناؤ کا شکار ہو کر شام اور لبنان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور مسلسل شام میں ایران کے فوجی عہدیداروں کو کہ جو شام کی حکومت کی درخواست پر شام کے ساتھ مختلف سکیورٹی منصوبوں میں کام میں مصروف ہیں، ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یکم اپریل کو ایران کے سفارتخانہ کو اسرائیلی دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو تمام تر عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ کیا اب کوئی سلامتی کونسل جاگے گی؟ کیا افغانستان اور عراق کی طرح غاصب اسرائیل کے خلاف بھی نیٹو کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی؟ اگر ایسا نہیں کیا جا رہا ہے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اقوام متحدہ کا نظام ہو یا پھر نیٹو جیسے الائنس، یہ سب کے سب اس لئے بنائے گئے ہیں کہ ایشیائی اور افریقی ممالک کے قدرتی ذخائر کو ہڑپ کرکے امریکہ اور مغربی حکومتوں کے قدموں میں پیش کریں۔

دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر حملہ اور عہدیداروں کی شہادت کے واقعہ کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کو اس طرح کی بدمعاشی اور دہشتگردانہ کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ کیونکہ اسرائیل صرف طاقت اور مزاحمت کی زبان ہی سمجھتا ہے۔ مبصرین کا یہی کہنا ہے کہ اسرائیل کی شام اور لبنان میں اس طرح کی کارروائیاں جس میں حماس اور ایران کے اعلیٰ سطحی عہدیداروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جانا واضح طور پر اسرائیل کی شکست اور کمزوری کو ظاہر کر رہا ہے، تاہم عالمی نظام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کو لگام دے۔

اسرائیل کی جانب سے دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر حملہ کے بعد دنیا بھر میں دیگر ممالک کے سفارتخانوں کے سکیورٹی تحفظات بھی بڑھ گئے ہیں۔ ان حالات میں اب اقوام متحدہ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ ویانا کنونشن کی قراردادوں پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ ایک طرف اقوام متحدہ نے اس غاصب اور ناجائز ریاست کو وجود بخشا ہے تو دوسری جانب اب تمام تر غیر قانونی اقدامات پر خاموش تماشائی ہے۔ ایران کے سفارتخانہ پر اسرائیلی حملہ کے بعد سے اب

ایران کا جائز حق ہے کہ وہ بھی دنیا بھر میں اسرائیل کے سفارتخانوں کو نشانہ بنائے اور اپنے شہریوں کی قیمتی جانوں کا انتقام لے اور اس معاملہ میں اب دوہرا معیار رکھنے والی اقوام متحدہ کو بھی خاموش تماشائی ہی رہنا چاہیئے۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

زندگی کی چکا چوند اور بھاگ دوڑ میں مشغول حضرت انسان کے خالق نے انسانوں کیلئے ان کی فطرت تخلیق کو پیش نظر رکھا اور انہیں کسی مقام، کسی ساعت، کسی گھڑی میں رک جانے، ٹھہر جانے، اپنا جائزہ لینے، اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے، اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اگلے سفر کو مزید بہترین بنانے کا موقعہ دیا۔ لیجیے ایک بار پھر ماہ مبارک آن پہنچا، اللہ کریم و رحیم کی پاک کتاب میں آیت کریمہ سنائی دی: "یا أیّھا الّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون۔"، "اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں، جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے، شاید تم اس طرح متّقی بن جاؤ۔" ماہ مبارک رمضان وہ مبارک اور باعظمت مہینہ ہے، جس میں مسلسل رحمت پروردگار نازل ہوتی رہتی ہے۔ اس مہینہ میں پروردگار نے اپنے بندوں کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے گا۔ ہمیں ایک بار پھر اس ماہ مبارک کی سعادت مل رہی ہے تو یہ باعث خوش بختی و خوش نصیبی ہے۔ یقیناً یہ توفیق پروردگار کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

پروردگار نے یہ توفیق عطا کی کہ ہم اس ماہ مبارک و بابرکت میں اپنے گناہوں کیلئے استغفار کرسکیں، نیکیوں کی بہار سے لطف اندوز ہوسکیں اور اپنی آخرت کا ساماں کرسکیں، ورنہ کتنے ایسے لوگ ہیں، جو پچھلے سال ہمارے اور آپ کے ساتھ تھے، لیکن آج وہ اس دار فنا سے دار بقاء کی طرف منتقل ہوچکے ہیں، اللہ کریم ان پر اپنا فضل و رحمت نازل کرے۔ اس عنوان سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ ہم سب کو اس ماہ مبارک و پربرکت کی باسعادت گھڑیوں کی قدر کرنا چاہیئے اور زیادہ سے زیادہ  فائدہ اٹھانا چاہیئے، ممکن ہے کہ یہ مبارک گھڑیاں ہماری آخری گھڑیاں ہوں، آئندہ برس یہ مبارک و باسعادت گھڑیاں ملیں یا نا ملیں۔

کسی شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا: یارسول اللہ! "ثواب رجب أبلغ أم ثواب شھر رمضان؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لیس علی ثواب رمضان قیاس"، "یارسول اللہ! رجب کا ثواب زیادہ ہے یا ماہ رمضان کا؟ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماہ رمضان کے ثواب پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔" گویا خداوند متعال بہانہ طلب کر رہا ہے کہ کسی طرح میرا بندہ میرے سامنے آکر جھکے تو سہی۔ کسی طرح آکر مجھ سے راز و نیاز کرے تو سہی، تاکہ میں اس کو بخشش دوں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ مبارک کی فضیلت بیان فرماتے ہیں: "انّ شھر رمضان، شھر عظیم یضاعف اللہ فیہ الحسنات و یمحو فیہ السیئات و یرفع فیہ الدرجات۔"، "ماہ مبارک عظیم مہینہ ہے، جس میں خداوند متعال نیکیوں کو دو برابر کر دیتا ہے۔ گناہوں کو مٹا دیتا اور درجات کو بلند کرتا ہے۔"

رئیس مکتب جعفری امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "قال اللہ تبارک و تعالٰی: یا عبادی الصّدیقین تنعموا بعبادتی فی الدّنیا فانّکم تتنعّمون بھا فی الآخرة۔"، "خداوند متعال فرماتا ہے: اے میرے سچے بندو! دنیا میں میری عبادت کی نعمت سے فائدہ اٹھاؤ، تاکہ اس کے سبب آخرت کی نعمتوں کو پا سکو۔" یعنی اگر آخرت کی بےبہا نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر دنیا میں میری نعمتوں کو بجا لاؤں، اس لئے کہ اگر تم دنیا میں میری نعمتوں کی قدر نہیں کرو گے تو میں تمہیں آخرت کی نعمتوں سے محروم کر دوں گا اور اگر تم نے دنیا میں میری نعمتوں کی قدر کی تو پھر روز قیامت میں تمھارے لئے اپنی نعمتوں کی بارش کردوں گا۔ انہیں دنیا کی نعمتوں میں سے ایک ماہ مبارک اور اس کے روزے ہیں کہ اگر حکم پرور دگار پر لبیک کہتے ہوئے روزہ رکھا، بھوک و پیاس کو برداشت کیا تو جب جنّت میں داخل ہونگے تو آواز قدرت آئے گی: "کلوا و اشربوا ھنیئا بما أسلفتم فی الأیّام الخالیة"، "اب آرام سے کھاؤ پیو کہ تم نے گذشتہ دنوں میں ان نعمتوں کا انتظام کیا ہے۔"

علمائے اخلاق فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک خود سازی کا مہینہ ہے، تہذیب نفس کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں انسان اپنے نفس کا تزکیہ کرسکتا ہے اور اگر وہ پورے مہنیہ کے روزے صحیح آداب کے ساتھ بجا لاتا ہے تو اسے اپنے نفس پر قابو پانے کا ملکہ حاصل ہو جائے گا اور پھر شیطان آسانی سے اسے گمراہ نہیں کر پائے گا۔ احادیث و روایات سے ثابت ہے کہ اللہ کریم کو اس کا شکر ادا کرنا بہت زیادہ پسند ہے۔ اس مبارک مہینہ کے روز و شب انسان کے لئے نعمت پروردگار ہیں، جن کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہیئے۔ ہاں تو حضرت انسان کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان بابرکت اوقات اور اس زندگی کی نعمت کا کیسے شکریہ ادا کیا جائے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "من قال أربع مرّات اذا أصبح، ألحمد للہ ربّ العالمین فقد أدّٰی شکر یومہ و من قالھا اذا أمسٰی فقد أدّٰی شکر لیلتہ"، "جس شخص نے صبح اٹھتے وقت چار بار کہا: "الحمد للہ ربّ العالمین" اس نے اس دن کا شکر ادا کر دیا اور جس نے شام کو کہا، اس نے اس رات کا شکر ادا کر دیا۔"

کتنا آسان طریقہ بتا دیا امام علیہ السلام نے اور پھر اس مہینہ میں تو ہر عمل دس برابر فضیلت رکھتا ہے۔ ایک آیت کا ثواب دس کے برابر، ایک نیکی کا ثواب دس برابر۔۔ کیا ہم ان مبارک ساعتوں میں اس طرح شکر ادا کرکے اپنے رب، جو کریم ہے، اسے راضی نہیں کرسکتے، ہاں یہ کام بھی توفیق الہیٰ سے ہی ممکن ہے۔ لہذا ہمیں ادائے شکر کی توفیق بھی طلب کرنا چاہیئے، جو لوگ اس جانب متوجہ ہی نہیں کہ کسی عمل کی توفیق کا چھن جانا بھی بہت بڑا نقصان ہے، انہیں متوجہ کرنا چاہیئے اور ہر دم توفیق طلب کرتے رہنا چاہیئے۔ یہ ماہ یقیناً پروردگار کی عنایات کا مہینہ ہے، اس میں جو مانگو مل سکتا ہے۔

دوستان عزیز و محترم! نیکیوں کی اس باہرکت اور پربرکت گھڑیوں میں اللہ کریم و رحیم اور آئمہ طاہرین و معصومین ؑنے مخلوق خدا کیساتھ بھلائی اور اچھے برتائو کے بارے بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ اس مبارک مہینہ میں دنیا بھر کی طرح اہل پاکستان بھی جی بھر کر راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور صدقات و خیرات کے ذریعے مخلوق خدا کی خدمت کا جذبہ زوروں پہ ہوتا ہے، بہت سے گروہ، جماعتیں، شخصیات اور انجمنیں اس ماہ مبارک میں مستحقین تک راشن، نقد رقوم اور دیگر ضروریات زندگی پہنچانے کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں، جو ایک قابل تعریف و قابل تقلید عمل ہے، جس کو ہر ایک شخص کو اپنے تئیں اپنانا چاہیئے، ممکن ہے کہ کسی کی توفیق کسی ایک گھر کو راشن لے کر دینے کی ہو، کسی کی توفیق کسی ایک گھر کو ایک افطاری یا سحری کروانے کی ہو، اسے یہ عمل سرانجام دیتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کرنا چاہیئے، بلکہ پروردگار سے توفیق مزید طلب کرتے ہوئے اپنے اخلاص سے یہ عمل سرانجام دینا چاہیئے۔

ہاں جن کو مالک و خالق نے بے بہا دیا ہے، انہیں اگر توفیق حاصل ہو تو انہیں ہاتھ کھلا رکھنا چاہیئے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے انہیں کسی قسم کی تنگی نہیں ہوگی، نہ کمی ہوگی بلکہ جس پروردگار نے انہیں پہلے دیا ہے، وہی اس میں برکت ڈال دیگا اور ان کے رزق میں فراوانی و کشادگی ہوگی۔ ہاں اہل خیر کو مستحقین تک ضروریات پہنچانے میں سستی نہیں کرنا چاہیئے۔ یہاں مجھے مولا کا فرمان یاد آگیا، مولائے کائنات امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں اے انسان تیرے پاس تین ہی تو دن ہیں، ایک کل کا دن، جو گزر چکا اور اس پر تیرا قابو نہیں چلتا، اس لئے کہ جو اس میں تو نے انجام دینا تھا، دے دیا۔ اس کے دوبارہ آنے کی امید نہیں اور ایک آنے والے کل کا دن ہے، جس کے آنے کی تیرے پاس ضمانت نہیں، ممکن ہے کہ زندہ رہے، ممکن ہے کہ اس دنیا سے جانا پڑ جائے، تو بس ایک ہی دن تیرے پاس رہ جاتا ہے اور وہ آج کا دن ہے، جو کچھ بجا لانا چاہتا ہے، اس دن میں بجا لا۔

اگر کسی غریب کی مدد کرنا ہے تو اس دن میں کر لے، اگر کسی یتیم کو کھانا کھلانا ہے تو آج کے دن میں کھلا لے، اگر کسی کو صدقہ دینا ہے تو آج کے دن میں دے، آج اس مبارک مہینہ میں اپنے ربّ کی بارگاہ میں سرجھکا لے، خدا رحیم ہے، تیری توبہ قبول کر لے گا۔ یقیناً یہ ماہ مبارک عبادت، بندگی، دعا و مناجات، تزکیہ نفس، خدمت خلق، احساس، درد، بخشش، توبہ کا مہینہ ہے۔ یہ واحد مہینہ ہے، جس میں سانس لینا اور سونا بھی عبادت شمار ہوتا ہے، پروردگار سے توفیق طلب کرتے ہیں کہ ہمیں اس ماہ مبارک و سعادت میں اس کی مرضی و قرب کے حصول کی منزلیں پانے کی مزید توفیقات عطا ہوں، تاکہ جب امام ؑکا ظہور ہو اور ہم ان کی بارگاہ میں پیش ہوں تو ان کے طرفداروں میں، ان کے یاوروں اور ان کے ساتھیوں میں شمار ہوں۔ وما توقفی الا باللہ۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر