سلیمانی

سلیمانی

اہل تبریز کے 18 فروری 1978 کے تاریخی قیام کی سالگرہ پر صوبۂ مشرقی آذربائيجان کے ہزاروں لوگوں نے اتوار کی صبح رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
     

اس موقع پر اپنے خطاب میں آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پہلی مارچ 2024 کو ہونے والے پارلیمنٹ اور ماہرین اسمبلی کے انتخابات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے سامراجی محاذ کو ایران کے انتخابات کا مخالف قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن، نظام کی جمہوریت کا مظہر ہے اور اسی لیے سامراجی طاقتیں اور امریکا، جو جمہوریت کے بھی مخالف ہیں اور اسلام کے بھی خلاف ہیں، انتخابات اور الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت کے مخالف ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام سے ماضی کے ایک الیکشن میں شرکت نہ کرنے کی امریکا کے ایک سابق صدر کی اپیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس امریکی صدر نے نادانستگی میں ایران کی مدد کی کیونکہ لوگوں نے اس کی ضد میں اور اس کی مخالفت میں ہمیشہ سے زیادہ اور بھرپور طریقے سے ووٹنگ کی اور اسی وجہ سے اب امریکی اس طرح کی بات نہیں کرتے ہیں لیکن مختلف طریقوں سے لوگوں کو الیکشن سے دور رکھنے اور الیکشن کے سلسلے میں انھیں مایوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پچھلے عشروں کے درمیان الیکشن میں کبھی بھی ویسی گڑبڑی کا مشاہدہ نہیں کیا گيا جس طرح کی گڑبڑی کا دشمن دعویٰ کرتے ہیں اور ان کی یہ بات بے بنیاد ہے۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ بعض مواقع پر کچھ دعوے کیے گئے اور تحقیق و تفتیش کے بعد بعض خلاف ورزیاں ثابت ہوئيں لیکن کبھی بھی وہ خلاف ورزیاں، الیکشن کے مجموعی نتیجے میں تبدیلی پر منتج نہیں ہوئيں اور ملک میں انتخابات ہمیشہ صحیح، سالم اور شفاف طریقے سے منعقد ہوئے ہیں۔

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے حادثات اور سازشوں کے طوفان کے درمیان اپنی اب تک کی 45 سال کی عمر میں اسلامی انقلاب کی پیشرفت اور مزید مضبوط ہونے کے عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قوم اور نظام کے معنی میں یہ انقلاب، سخت اور دشوار گزار راستوں سے گزر کر زیادہ مضبوط، زیادہ طاقتور، زیادہ با اثر رائے اور زیادہ اثر و رسوخ والا بن چکا ہے اور آج ہمیں اصل ذمہ داریوں کو بروقت سمجھ کر، ان پر بروقت عمل کرنا چاہیے۔

رہبر انقلاب کے مطابق خود پر اور دشمن پر نظر رکھنا سبھی کے دو بنیادی فرائض ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنا اور دشمن دونوں کا صحیح اندازہ ہونا چاہیے اور اس فریضے سے غفلت ایک بڑی مصیبت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی شناخت کا ہدف، قدردانی، مضبوط نکات کی حفاظت و تقویت اور کمزوریوں کو دور کرنا بتایا اور انقلاب اور قوم کے مضبوط پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ پوری طرح سے بدعنوان، بے ایمان، حق پامال کرنے والے، ظالم، آمر اور سلطنتی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، انقلاب کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ وہ ایسا نظام تھا جو عوام کو کسی طرح کا حق اور احترام دیے جانے کا قائل نہیں تھا اور بہت سے معاملوں میں وہ عملی طور پر امریکیوں اور برطانوی سفارتخانے کے حکم پر کام کرتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت اس زوال پذیر نظام کے بالکل برخلاف، عوام ملک اور نظام کے مالک ہیں اور بالواسطہ یا بلاواسطہ انتخابات کے ذریعے، ملک چلانے کے لیے ملک کے اہم حکام کا تعین کرتے ہیں۔

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ انقلاب کے افکار و اقدار کا فروغ خاص طور خطے میں ان کا پھیلاؤ، مغربی تمدن کے پھیلاؤ کو روکنے کی راہ میں حاصل ہونے والی کسی حد تک کامیابی، اپنے آپ عوامی گروہوں کی تشکیل، ملک کے تمام علاقوں میں سہولتوں اور سروسز کا پھیلاؤ اور مختلف میدانوں میں سائنسدانوں اور دانشوروں کی تربیت، ایسی کامیابیان ہیں جو انقلاب نے اپنے اب تک کے سفر میں حاصل کی ہیں۔

انھوں نے قومی اتحاد و یکجہتی کی حفاظت کو عوام کا فریضہ بتایا اور کہا کہ سبھی کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ ان ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائيگی، دشمن کے مقابلے میں ایک جہادی کام ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ یہ ذمہ داریاں ادا کی جائيں اور اسی وجہ سے وہ اسلامی جمہوریہ میں انجام پانے والے ہر کام کے مخالف ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دوسرے اہم فریضے یعنی دشمن پر نظر رکھنے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دشمن اور اس کے حربوں، عیاریوں اور ہتکنڈوں سے غافل نہیں رہنا چاہیے اور اسے کمزور اور ناتواں نہ سمجھنے کے ساتھ ہی اس کے خطرات، دباؤ اور رجز خوانی سے مرعوب بھی نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے ایران کا برا چاہنے والوں کی سازشوں اور نفسیاتی دباؤ کی وجہ، اسلامی انقلاب کے مضبوط نکات اور پیشرفتوں کو بتایا اور کہا کہ دشمنوں کے مقابل میں کبھی پسپا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کی پالیسی فریق مقابل کو رسوا اور پسپا کرنا ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر 11 فروری کو زبردست جلوس نکالنے پر پورے ملک کے عوام کا دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ قوم نے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور دیہی علاقوں میں اپنے انقلابی حوصلے، جوش اور گرمی حیات کا مظاہرہ کیا اور ان لوگوں کو متحیر کر دیا جو ایرانی عوام کے دل کو پژمردہ بنانے اور 22 بہمن (11 فروری انقلاب کی سالگرہ) کو بھلا دینے کے خواہاں تھے۔

انھوں نے اپنے خطاب میں اسی طرح آذربائیجان کے عوام کو تاریخ، موجودہ دور اور حالیہ عشروں میں حمیت، عشق، جوش اور ایمان کا مظہر بتایا۔

انھوں نے اہل تبریز کے 18 فروری 1978 کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے تاریخ رقم کرنے والا واقعہ بتایا اور کہا کہ اس واقعے نے اہل قم کے 9 جنوری 1978 کے قیام کو بے ثمر نہیں ہونے دیا اور پورے ملک میں قیام کا جذبہ اور انقلابی جوش پھیلا کر اسلامی انقلاب کی کامیابی کی راہ ہموار کر دی۔

 
 

انقلاب اسلامی ایران کی پینتالیسویں سالگری پر 22کو عوام کا سمندر شریک تھا جہاں اجتماع میں ایرانی صدر حجت الإسلام ابراہیم رئیسی شریک تھے۔

 
 

عبدالباری عطوان نے "رائے ال یوم" اخبار میں صہیونی حکام کی طرف سے اپنے دو اسیروں کو رہا کرنے پر بے پناہ خوشی کے اظہار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حکومت کے قائدین کی خوشی ان دو لوگوں کی وجہ سے ہے، جن کو چھڑانے کے لئے انہوں نے سینکڑوں طیاروں کو استعمال کیا۔ ان کو آزاد کرانے کے لیے رفح کے جنوب میں شدید فضائی حملے کیے گئے، جو اسرائیل کی شکست کا ایک اور ثبوت ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "صیہونی حکومت اپنی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے لیے ایک چھوٹی سی فتح کی تلاش میں ہے۔" نیتن یاہو نے اس آپریشن کو اس حکومت کی تاریخ کا سب سے کامیاب آپریشن قرار دیا اور ان کے جنگی وزیر یوو گیلانٹ نے بھی اسے جنگی عمل میں ایک اہم موڑ قرار دیا۔

یہ شرمناک ہے کہ نیتن یاہو اور ان کے سینیئر جرنیل اس معمولی آپریشن کو لمحہ بہ لمحہ فالو کر رہے ہیں اور اسے اہم کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ اس تجزیہ نگار نے مزید کہا: "اگر یہ حکومت مضبوط ہے اور فتح کا دعویٰ کرتی ہے تو کیا وہ کینسر سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ان دو بوڑھے قیدیوں کی رہائی کے لیے خصوصی اجلاس منعقد کرتی؟ حماس ان دو بیمار اسیروں کو رہا کرنا چاہتی تھی اور اسی وجہ سے انہیں رفح کے جنوب میں دو گھروں میں رکھا اور گویا کہہ دیا کہ انہیں لے جاو۔ صیہونیوں نے اس علاقے میں F15 اور F16 سے شدید بمباری کی لیکن نتیجہ صفر رہا۔

انہوں نے مزید کہا: اگر حماس اور اسلامی جہاد کے زیر قیادت دیگر مزاحمتی گروپ کمزور ہوتے، جیسا کہ نیتن یاہو نے پریس کانفرنس کے دوران فخریہ دعویٰ کیا تو کیا وہ 130 دن سے زیادہ مزاحمت کرسکتے۔؟ نیتن یاہو اپنے استاد امریکی صدر جو بائیڈن کی طرح جھوٹا ہے، جس نے جنگ روکنے کے بارے میں ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ رفح پر حملہ کرنے اور رہائشیوں کے لیے شہر سے بھاگنے کے لیے محفوظ راستہ بنانے کی نیتن یاہو کی تمام دھمکیاں ہالی ووڈ کی فلموں کے ڈائیلاک کی طرح ہیں۔ امریکہ کے علاوہ پوری دنیا اس وقت نسل پرست صیہونی کابینہ اور بچوں کی قاتل نااہل مجرم حکومت کے خلاف ہے۔"

عطوان نے لکھا: جلد یا بدیر، جنگ ایک دن ختم ہو جائے گی، لیکن طوفان الاقصیٰ آپریشن کا ریکارڈ صہیونی منصوبے کے خاتمے کے آغاز کے طور پر باقی رہے گا۔ ہم نیتن یاہو سے کہتے ہیں کہ نستوہ کا جنگجو "یحییٰ السنور" ابھی زندہ ہے اور وہ ایک محفوظ سرنگ سے اپنے جرنیلوں کے ساتھ جنگ کی کمان کر رہا ہے، وہ ابھی تک بلکہ کبھی بھی اس تک نہ پہنچ پائیں گے، نہ کبھی تلاش کرسکیں گے اور اگر وہ اس تک پہنچ بھی جائیں تو وہ خدا کی نصرت سے اپنی رائفل کی آخری گولی تک مزاحمت کرے گا۔ مزاحمت اب بھی مضبوط اور ثابت قدم ہے، اس وقت نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ تمام عرب اور اسلامی اقوام نیز دنیا کے باشعور لوگ ان کی حمایت کرتے ہیں۔ فلسطینی مجاہدین غاصبوں اور جارحین کو کفن دیکر ان کے تابوت ان لوگوں تک پہنچائیں گے، جنہوں نے  اس پاک سرزمین فلسطین پر ان کی حکومت قائم کی ہے۔

تحریر: عبدالباری عطوان

Wednesday, 14 February 2024 07:52

امام حسین کی سبق آموز زندگی

مومن کے دل کی خوشی:

حضرت امام حسین علیہ السلام سے نقل ہوا کہ آپ نے فرمایا:

میرے نزدیک ثابت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: نماز کے بعد بہترین کام کسی مؤمن کے دل کو خوش کرنا ہے، اگر اس کام میں گناہ نہ ہو۔

میں نے ایک روز ایک غلام کو دیکھا جو اپنے کتے کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا، میں نے اس سے سبب دریافت کیا تو اس نے کہا: یابن رسول الله! میں غمگین ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اس کتے کا دل خوش کروں تا کہ میرا دل خوش ہو جائے، میرا آقا یہودی ہے، میں اس سے جدا ہونے کی تمنا رکھتا ہوں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام دو سو دینار اس کے آقا کے پاس لے گئے اور اس غلام کی قیمت ادا کرنی چاہی، اور اس کو خریدنا چاہا، تو اس کے مالک نے کہا: غلام آپ کے قدموں پر نثار اور میں نے یہ باغ بھی اس کو بخش دیا اور یہ دینار بھی آپ کو واپس کرتا ہوں۔

امام حسین علیہ السلام نے کہا: میں نے بھی یہ مال تمھیں بخشا، اس آقا نے کہا: میں نے آپ کی بخشش کو قبول کیا اور اسے غلام کو بخش دیا، امام حسین علیہ السلام نے کہا: میں نے غلام کو آزاد کر دیا اور یہ مال اس کو بخش دیا۔

اس شخص کی زوجہ اس نیکی کو دیکھ رہی تھی، چنانچہ وہ مسلمان ہو گئی اور اس نے کہا: میں نے اپنا مہر شوہر کو بخش دیا ہے، اس کے بعد وہ آقا بھی اسلام لے آیا اور اپنا مکان اپنی زوجہ کو بخش دیا۔

ایک قدم اٹھانے سے ایک غلام آزاد ہو گیا، ایک غریب بے نیاز ہو گیا، ایک کافر مسلمان ہو گیا، میاں بیوی آپس میں با محبت بن گئے، زوجہ صاحب خانہ ہو گئی، اور عورت مالک بن گئی، یہ قدم کیسا قدم تھا۔

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار، 44، ص 190، باب 26، حدیث 2

لوگوں میں سب سے زیادہ کریم:

ایک بادیہ نشین عرب مدینہ میں داخل ہوا اور مدینہ کے سب سے زیادہ کریم شخص کی تلاش کرنے لگا، چنانچہ اس کو حضرت امام حسین علیہ السلام کا نام بتایا گیا، وہ عرب مسجد میں آیا اور آپ کو نماز کے عالم میں دیکھا، وہ امام حسین علیہ السلام کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے اس مضمون کے اشعار پڑھے؟

جو شخص آپ کے دروازے پر دق الباب کرے وہ ناامید نہیں ہو گا، آپ عین جود و سخا اور معتمد ہیں، آپ کے والد گرامی طاغوت اور نافرمان لوگوں کو ہلاک کرنے والے تھے اگر آپ نہ ہوتے تو ہم دوزخ میں ہوتے۔

امام حسین علیہ السلام نے اس اعرابی کو سلام کیا اور جناب قنبر سے فرمایا:

کیا حجاز کے مال سے کچھ باقی بچا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، چار ہزار دینار باقی ہیں، فرمایا: ان کو لے آؤ کہ یہ شخص اس مال کا ہم سے زیادہ سزاوار ہے، اس کے بعد اپنی ردا اتاری اور اس میں دینار رکھے اور اس عرب سے شرم کی وجہ سے اپنا ہاتھ دروازے سے نکالا اور اس مضمون کے اشعار پڑھے:

یہ مال ہم سے لے لو ، میں تجھ سے معذرت چاہتا ہوں، جان لو کہ میں تمھاری نسبت مہربان اور تمہارا دوستدار ہوں، اگر میرے اختیار میں حکومت ہوتی تو ہمارے جود و سخا کی بارش تمہارے اوپر ہوتی، لیکن زمانے کے حادثات نے مسائل ادھر ادھر کر دئیے ہیں، اس وقت صرف یہی کم مقدار میں دے سکتے ہیں۔

چنانچہ اس اعرابی نے وہ مال لیا اور اس نے رونا شروع کر دیا، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: شاید جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے وہ کم ہے؟ اس نے کہا: نہیں، میرا رونا اس وجہ سے ہے کہ اس عطا کرنے والے کو یہ زمین کس طرح اپنے اندر سما لے گی۔!!!

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 190، باب 26، حدیث 2

قرض ادا کرنا:

حضرت امام حسین علیہ السلام، اسامہ بن زید کی بیماری کے وقت اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ، حالانکہ اسامہ ہمیشہ کہے جا رہے تھے: ہائے ، یہ غم و اندوہ

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اے برادر! تمہیں کیا غم ہے؟ انھوں نے کہا: میں 60000 درہم کا مقروض ہوں، امام علیہ السلام نے فرمایا: میں اس کو ادا کروں گا، انھوں نے کہا: مجھے اپنے مرنے کا خوف ہے، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: تمھارے مرنے سے پہلے ادا کر دوں گا اور آپ نے اس کے مرنے سے پہلے اس کا قرض ادا کر دیا۔

مناقب، ج4، ص 65

بحار الانوار 44، ص 189، باب 26، حدیث 2

خدمت کی نشانی:

حادثہ کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے شانے پر زخم کی طرح ایک نشان پایا گیا، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے اس کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ نشانی ان بھاری تھیلیوں کی وجہ سے ہے جو ہمیشہ بیواؤں، یتیموں اور غریبوں کی مدد کے لیے اپنے شانوں پر رکھ لے جایا کرتے تھے۔

مناقب، ج 4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 190، باب 26، حدیث 3

استاد کی تعظیم:

عبد الرحمن سلمی نے امام حسین علیہ السلام کے ایک بیٹے کو سورہ حمد کی تعلیم دی، جب اس بیٹے نے امام حسین علیہ السلام کے سامنے اس سورہ کی قرائت کی، تو (خوش ہو کر) استاد کو ایک ہزار دینار اور ہزار حُلّے عطا کیے اور ان کا منہ نایاب درّ سے بھر دیا، لوگوں نے ایک دن کی تعلیم کی وجہ سے اتنا کچھ عطا کرنے پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا:

اٴَیْنَ یَقَعُ ھٰذٰا مِنْ عَطٰائِہِ۔

جو کچھ میں نے اس کو عطا کیا ہے اس کی عطا کے مقابلے میں کہاں قرار پائے گا؟!”

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 190، باب 26، حدیث 3

میری خوشی حاصل کرو:

حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے بھائی محمد حنفیہ میں ایک گفتگو ہوئی، محمد نے امام حسین علیہ السلام کو ایک خط لکھا: میرے بھائی، میرے والد اور آپ کے والد علی (علیہ السلام) ہیں، اس سلسلہ میں نہ میں تم پر فضیلت رکھتا ہوں اور نہ تم مجھ پر، اور آپ کی والدہ جناب فاطمہ بنت پیغمبر خدا ہیں، اگر میری والدہ پوری زمین کی مقدار بھر سونا رکھتی ہو تو بھی آپ کی والدہ کے برابر نہیں ہو سکتی، اور جب تمھیں یہ خط مل جائے اور اس کو پڑھو تو میرے پاس آؤ تا کہ میری خوشی حاصل کر سکو، کیونکہ نیکی میں آپ مجھ سے زیادہ حقدار ہیں، تم پر خدا کا درود و سلام ہو۔

امام حسین علیہ السلام نے جب یہ خط پڑھا تو اپنے بھائی کے پاس گئے اور اس کے بعد سے ان کے درمیان کوئی ایسی گفتگو نہیں ہوئی۔

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 191، باب 26، حدیث 3

حرّیت اور آزادی کی انتہاء:

روز عاشوراء جب امام حسین علیہ السلام سے کہا گیا کہ یزید کی حکومت کو تسلیم کر لو اور اس کی بیعت کر لو اور اس کی مرضی کے سامنے تسلیم ہو جاؤ! تو آپ نے جواب دیا:

نہیں، خدا کی قسم میں اپنے ہاتھ کو ذلیل و پست لوگوں کی طرح تمہارے ہاتھ میں نہیں دوں گا، اور تم سے میدان جنگ میں غلاموں کی طرح نہیں بھاگوں گا اور پھر یہ نعرہ بلند کیا: اے خدا کے بندو! میں ہر اس متکبر سے جو روز حساب پر ایمان نہ لائے اپنے پروردگار اور تمھارے پروردگار کی پناہ چاہتا ہوں۔

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 191، باب 26، حدیث 4

بہترین انعام:

انس کہتے ہیں: میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ کی کنیز آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ریحان کے گل دستہ تہنیت اور مبارک کے عنوان سے تقدیم کیا، امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا: تو خدا کی راہ میں آزاد ہے!

میں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: (اس کنیز نے) ایک ناچیز گل دستہ آپ کی خدمت میں پیش کیا اور آپ نے اس کے مقابلے میں اُسے راہ خدا میں آزاد کر دیا! امام علیہ السلام نے فرمایا: خداوند نے ہماری اس طرح تربیت کی ہے، جیسا کہ خداوند کا ارشاد ہے کہ:

وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنٍ مِنْہَا اٴَوْ رُدُّوہَ…

اور جب تم لوگوں کو کوئی تحفہ(سلام)پیش کیا جائے تو اس سے بہتر یا کم سے کم ویسا ہی واپس کرو…۔

سورہٴ نساء آیت 86

اس کی مبارک سے بہتر مبارک ، اس کو غلامی کی قید و بند سے آزاد کرنا۔

کشف الغمة، ج 2، ص 31

بحار الانوار، ج 44، ص 195، باب 26، حدیث 8

انسان کی اہمیت:

ایک اعرابی حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا: یا بن رسول الله! میں ایک کامل دیت کا ضامن ہوں، لیکن اس کو ادا نہیں کر سکتا، میں نے دل میں سوچا کہ اس کے بارے میں سب سے زیادہ کریم و سخی انسان سے سوال کروں اور میں پیغمبر اکرم (ص) کے اہل بیت (علیھم السلام) سے زیادہ کسی کریم کو نہیں جانتا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: اے عرب بھائی تجھ سے تین سوال کرتا ہوں اگر ان میں ایک کا جواب دیا تو تمھاری درخواست کا ایک تہائی حصہ تجھے عطا کر دوں گا، اگر تو نے دو سوال کا جواب دیا تو دو تہائی مال عطا کر دوں گا اور اگر تینوں کا جواب دیدیا تو سارا مال تجھے عطا کر دوں گا۔

اس عرب نے کہا: کیا آپ جیسی شخصیت جو علم و شرف کے مالک ہیں مجھ جیسے شخص سے مسئلہ معلوم کرتی ہے؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں، میں نے اپنے جد رسول اکرم (ص) سے سنا ھے کہ آپ نے فرمایا: شخص کی اہمیت اس کی معرفت کے مطابق ہوتی ہے، اس عرب نے کہا: تو معلوم کیجئے کہ اگر مجھے معلوم ہو گا تو جواب دوں گا اور اگر معلوم نہیں ہو گا تو آپ سے معلوم کر لوں گا، اور خدا کی مدد کے علاوہ کوئی طاقت و قدرت نہیں ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ اس عرب نے کہا: خدا پر ایمان رکھنا۔
امام علیہ السلام نے اس سے سوال کیا: ہلاکت سے نجات کا راستہ کیا ہے؟ اس عرب نے کہا: خدا پر بھروسہ رکھنا۔

آپ نے فرمایا: مردوں کی زینت کیا ہوتی ہے؟ اس عرب نے کہا: ایسا علم، جس کے ساتھ بُردباری ہو، امام علیہ السلام نے سوال کیا کہ اگر یہ نہ ہو تو؟ اس عرب نے کہا: ایسی دولت جس کے ساتھ ساتھ سخاوت ہو، امام علیہ السلام نے سوال کیا: اگر یہ نہ ہو تو؟ اس نے کہا: تنگدستی اور غربت کہ جس کے ساتھ صبر ہو، امام علیہ السلام نے سوال فرمایا: اگر یہ نہ ہو تو؟ اس عرب نے کہا: آسمان سے ایک بجلی گرے اور ایسے شخص کو جلا ڈالے کیونکہ ایسے شخص کی سزا یہی ہے!

حضرت امام حسین علیہ السلام مسکرائے اور ایک ہزار دینار کی تھیلی اس کو دی اور اپنی انگوٹھی اس کو عطا کی جس میں دو سو درہم کا قیمتی نگینہ تھا، اور فرمایا: اے عرب! ہزار دینار سے اپنا قرض ادا کرو اور انگوٹھی کو اپنی زندگی کے خرچ کے لیے فروخت کر دو، چنانچہ عرب نے وہ سب کچھ لیا اور کہا: الله بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے۔

اللهُ اٴَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ،

سورہٴ انعام ، آیت 124

جامع الاخبار، ص137، فصل 96

بحار الانوار، ج44، ص196، باب26، حدیث11

ا

انقلاب اسلامی ایران کی 45 بہاریں، گویا امت مسلمہ کی بیداری نظم، اتحاد، قوت، جہاد، آزادی، استقلال، استقامت، شہامت، قیادت، سیادت کی بہاریں ہیں، یہ پینتالیس برس گویا نشاط ثانیہ کی بہاریں ہیں، احیاء اسلام کی بہاریں ہیں، ظالمین کے خلاف مظلومین کی سربلندی کی بہاریں ہیں، غاصبین کے خلاف حق لینے والوں کی بہاریں ہیں، استعمار کی شکست اور اسلام کی فتح و کامرانی کی بہاریں ہیں، سامراج کی نابودی اور جہد مسلسل کرنے والوں کے روشن مستقبل کی نوید سنانے کی بہاریں ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کا پینتالیس برس پہلے ظہور دنیا بھر کے مظلوموں، ستم رسیدہ اور پسے ہوئے طبقات کی قوت، طاقت، ابھار، امید اور انقلاب کے راستے پہ قائم رہتے ہوئے آگے بڑھنے کی بہاریں ہیں۔

بالخصوص جہان اسلام میں اسلام کے آفاقی و الہی نظام کو عملی نفاذ کے ذریعے انسانی سماج اور زندگیوں کو گذارنے و سنوارنے کی عملی شکل و مثال بننے کے پینتالیس بہاریں ہیں، ایسے پینتالیس سال جن میں انقلاب کے وقوع ہونے کی جدوجہد سے لیکر اس کی حفاظت، اس کی تعمیر اس کی ترقی و پیش رفت، اس کے خلاف عالمی، داخلی، مقامی، اپنوں اور غیروں کی سازشوں کو ناکام بنانے کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں، جن سے سبق لیتے ہوئے اس راہ کے راہی اپنی جدوجہد کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران نے اپنے آغاز سے لیکر آج تک دنیا کی سیاست پہ جو اثرات مرتب کئے ہیں ان کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ انقلاب اسلامی ایران کے اثرات ہیں کہ آج مقاومت زندہ ہے، آج مزاحمت جاری ہے، آج ظالموں کے خلاف بڑی سے بڑی قربانی دے کے بھی حوصلہ و ہمت نہیں ٹوٹتا کہ یہی انقلاب کا سبق ہے، آج تو اہل غزہ، اہل فلسطین نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اس انقلاب کے حقیقی فرزند ہیں جو بڑی بڑی طاقتوں کو سبق سکھا رہے ہیں، سازشوں کو ناکام بنا رہے ہیں، مزاحمت کو اوج بخشا ہے بلکہ ہر ایک مزاحمت پسند کو حوصلہ و ہمت دی ہے، آج اہل یمن کو دیکھیں، انقلاب اسلامی سے ان کی گہری وابستگی نے انہیں وہ شرف بخشا ہے جو کسی اور کے نصیب میں نہیں، اہل یمن کی جرات، استقامت، شجاعت اپنی مثال آپ ہیں، انہوں نے سرحد نہ ہونے کے باوجود اسرائیل اور اس کے حواریوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔

اگر غزہ کی اسرائیل کیساتھ حالیہ جنگ میں یمنیوں کا کردار شامل نہ ہوتا تو ممکن ہے اسرائیل و امریکہ جنگ بندی کی جانب نہیں آتا، آج درون خانہ جنگ بندی کی بھیک مانگی جا رہی ہے، آج یمنیوں نے اسرائیل کے سمندری راستے کو بلاک کرکے فلسطینی مظلوموں کی بہت بڑی خدمت سرانجام دی ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ دراصل یہ انقلاب اسلامی کا مرہون منت ہے، انقلاب کے یہ فرزند، انقلاب و نظام کے یہ عشاق روشن و تابناک کردار کی مانند تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کے چمکتے رہیں گے، لبنان کی مقاومت اسلامی سے کون ناواقف ہوگا، انقلاب، اسلام، ولایت فقیہ کے یہ فرزند جہاد، استقامت، قربانیوں کے ذریعے مقدسات کی توہین کے زمہ داروں کو ان کے انجام تک پہنچانے کیلئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔

دنیائے سیاست و سماجوں کو تغیرات سے دوچار کرنے والے انقلاب اسلامی کے قائد امام خمینی رح نے قیادت کا جو معیار دیا تھا، وہ رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی شکل میں انقلاب اسلامی کو اس کی اصل منازل یعنی انقلاب مہدوی کے ظہور کی راہیں ہموار کرنا اور مظلومین کو صاحب اقتدار بنانے کیلئے بڑی کامیابی سے کوشاں ہیں، انقلاب اسلامی کے پہلے عشرہ یعنی 1979ء سے لے کر 1989ء رحلت امام تک اگرچہ بہت مشکلات رہیں، نوزائیدہ انقلاب پہ بے جا پابندیاں، مسلط کردہ جنگ  جو آٹھ برس تک جاری رہی۔

اس جنگ میں 57 ممالک ایک طرف اور نوزائیدہ انقلابی ایران ایک طرف تھا، اس کے باوجود قربانیوں کی لازوال داستانوں سے اپنی زمین کا دفاع کیا، دشمنوں کو حاوی نہیں ہونے دیا، امریکہ سے دشمنی مملکتوں کو اجاڑ دیتی ہے، حکومتوں کو برباد کر دیتی ہے مگر ان برسوں میں امریکی سازشوں کو ناکام بنانا امام خمینی رح کی الہی قیادت و رہبری کا نتیجہ تھا، اور یہ سازشیں آج بھی کھل کے ہو رہی ہیں،اس وقت بھی موجودہ رہبر بطور صدر مملکت مقابلے پہ سامنے موجود تھے اور آج بھی رہبر معظم، ولی فقیہ کی صورت  موجود ہیں، یہ سعادت و خوشبختی ہے کہ ہم نے امام خمینیؒ کا زمانہ بھی پایا اور آج امام خامنہ ای کے دور میں بھی ان کی سیادت و رہبری سے مستفید ہو رہے ہیں۔

آج کا انقلاب 80ء کے عشرے کا انقلاب نہیں ہے، جس پہ سبھی حملہ آور تھے، آج انقلاب اسلامی ایک ایسی قوت و طاقت ہے جس کا سامنا کرنا امریکہ جیسی نام نہاد سپر پاور کیلئے ممکن نہیں اس لئے کہ اسے علم ہے کہ اگر حملہ کرے گا تو جواب کیسا ملے گا، لہذا ہم نے دیکھا ہے کہ ڈائریکٹ ایران پہ حملہ کی گیدڑ بھبھکیاں تو دی جاتی ہیں، دھمکایا جاتا ہے، ڈرایا جاتا ہے، ماحول بنایا جاتا ہے مگر جرات نہیں کی جاتی، ہاں عراق و شام میں مقاومتی مراکز کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں ایرانی سپاہ کے کمانڈرز بھی شہید ہوئے ہیں اور ایران سے متعلق دیگر مزاحمتی و مقاومتی گروہ کے اعلی کمانڈرز بھی نشانہ بنے، مگر ایران کیلئے یہ قربانیاں ہیں۔

یہ شہادتیں کسی بھی طور پریشانی کا باعث نہیں، کہ وہ لوگ شہید ہو رہے ہیں جو تا عمر شہادت کی تلاش میں دنیا کے مختلف محاذوں پہ شہادت تلاش کرتے رہے اور شہادت کو دوست رکھتے تھے، البتہ آج کا ایران کھل کے، اعلانیہ ہر حملے کا جواب دیتا ہے، حتیٰ کرمان میں بم دھماکوں کے ذمہ دار گروہ کو بارہ سو کلومیٹر دور سے میزائل کا نشانہ بناتا ہے۔ یہ آج کا ایران ہے، قوی ایران، مضبوط ایران، خوددار ایران، آزاد ایران، اپنا دفاع کرنے والا ایران، اپنے ساتھ متصل لوگوں کا دفاع کرنے والا ایران، امام خامنہ ای کا ایران، شہداء کا ایران، مجروحین کا ایران، مظلومین کا ایران، مقاومین کا ایران، امام رضا (ع) کا ایران، امام زمانہ (عج) کا ایران۔
 
 
 


آفتابِ انقلابِ اسلامی ایران، اپنی پوری آب و تاب کیساتھ دنیا کے افق پر چمک دمک رہا ہے۔ اس کی روشنی نے نہ صرف ایران بلکہ دنیا کے مستضعفین کو بھی منور کیا ہے، انہیں بھی حریت کی راہ دکھائی ہے۔ یہ انقلاب اسلامی کی برکت ہے، کہ آج ایران سے دنیا کی سپرپاورز خوفزدہ ہیں۔ امریکہ جیسی موذی قوت بھی ایران کیساتھ براہ راست زور آزمائی سے لرزہ براندام ہے۔ ایران نے اسی انقلاب کی بدولت ہی، اس کی برکت سے ہی، اپنے دفاع کو اتنا مضبوط کر لیا ہے کہ اب کوئی بھی دشمن، ایران پر چڑھائی کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ نام نہاد سپرپاور امریکہ کو کب کا گھٹنے ٹیک چکا ہے۔ ایران نے بہت سے مواقع پر ثابت کیا ہے کہ ایران کا دفاع مضبوط ترین ہاتھوں میں ہے۔ امریکہ کیلئے سب سے بڑی مشکل انقلاب ہی ثابت ہوا ہے، جس نے مشرق وسطیٰ سے امریکہ کے پاوں اکھاڑ دیئے ہیں، آج مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی امریکہ کی بزدلی اور کھوکھلی قوت سے آشنا ہو چکے ہیں۔

سعودی عرب جیسا ملک بھی امریکی حقیقت بے نقاب ہونے پر بیدار ہوگیا ہے۔ ورنہ اس سے قبل سعودی عرب امریکہ کو ہی اپنا ’’محافظِ اعلیٰ‘‘ سمھتا تھا لیکن ایران نے جب سے امریکہ کی حقیقت بے نقاب کی ہے، ریاض سمیت دیگر عرب ممالک بھی اس کے جعلی رعب و دبدبے سے باہر آ گئے ہیں۔ عرب دنیا کی نفسیات یہ ہیں کہ جہاں سعودی عرب ہوتا ہے، دیگر عرب ممالک بھی وہیں ہوتے ہیں۔ جہاں ہاتھی کا پاوں، وہاں سب کا پاوں کے مصداق، عرب بھی سعودی عرب کی تقلید میں چلتے ہیں۔ اب سعودی عرب اس حقیقت کو جان چکا ہے کہ امریکہ جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹس کی بنیاد پر انہیں اپنے ہی بھائی بندوں سے ڈرا کر رکھتا تھا، اب حقیقت کھلنے پر سعودی عرب نے ایران کو گلے لگا لیا ہے۔ یوں مسلمانوں کی دو اہم ترین قوتوں میں ہونیوالا اتفاق اپنی برکت کے ثمرات ضرور دے گا اور اس سے امت کے معاملات میں بہتری آئے گی۔

انقلاب اسلامی ایران نے چین کو بھی ایران کی اہمیت سے آشنا کر دیا ہے، روس جیسا ملک جو کبھی دنیا کی سپرپاور تھا، آج ایران کی دفاعی قوت کا گیت گاتا دکھائی دیتا ہے۔ روس یوکرائن جنگ ایک طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن یوکرائن کو مسلسل ناکامی کا سامنا ہے، روس کی اس کامیابی کا سہرا بھی ایران کے سر ہے۔ ایران کی ڈرون اور میزائل ٹیکنالوجی نے یوکرائن کے پاس موجود امریکی ٹیکنالوجی کو عبرتناک شکست سے دوچار کر رکھا ہے۔ اسی طرح کچھ اطلاعات ہیں کہ چین اور ایران مل کر مزید جدید دفاع ہتھیار تیار کر رہے ہیں جو امریکہ کیلئے بالخصوص تیار کئے جا رہے ہیں۔ ادھر روس نے بھی اپنے دفاع میں ایران کے بھرپور تعاون پر اظہار تشکر کیا ہے۔ ایران نے نہ صرف اپنا دفاع مضبوط کیا ہے بلکہ خطے کے مستضعفین کی بھی مدد کی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج حماس جیسی چھوٹی سے تنظیم نے اسرائیل جیسی جدید ہتھیاروں سے لیس، امریکہ و برطانیہ کی بھرپور سرپرستی میں چلنے والی ناجائز ریاست کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔

حماس نے اسرائیل کی نام نہاد دفاعی طاقت کا غور خاک میں ملا دیا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا تھا کہ سات دنوں کے اندر اندر حماس کا مکمل صفایا کرکے فلسطین پر قبضہ کرلیں گے، وہ سات دن آج 130 دن ہو گئے ہیں۔ حماس اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے قابو میں نہیں آ رہی، بلکہ اسرائیل کا آج تک کروڑوں اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے، قیمتی ٹینکس، میزائل اور دیگر ہتھیار ضائع ہو چکے ہیں۔ لیکن حماس کا خاتمہ اسرائیل کا خواب ہی ہے۔ اس کیساتھ ساتھ انقلاب کی برکات ہی ہیں کہ حزب اللہ لبنان اور یمن کے حوثی مجاہدین انصاراللہ نے بھی عالمی طاقتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ اس وقت بحیرہ احمر کے باب المندب پر مکمل طور پر حوثی مجاہدین کا کنٹرول ہے۔ امریکہ ہزار کوشش کے باوجود حوثیوں سے باب المندب کلیئر نہیں کروا سکا، امریکہ و برطانیہ کے حملے بھی ناکام ہوئے اور تیرہ رکنی امریکی اتحاد بھی بحری بیڑوں کو بحیرہ احمر میں تحفظ فراہم نہیں کر پایا۔ انہی حوثیوں نے برسوں سعودی حملوں کا مقابلہ کرکے بھی اپنی استقامت سے مخالفین سمیت امریکہ کو شکست دی ہے۔

اس حوالے سے پوری دنیا میں دیکھیں تو انقلاب کی روشنی سے نئے راستے دریافت ہو رہے ہیں۔ دنیا اعتراف کر رہی ہے کہ انقلاب اسلامی ایران واقعی اسلام ناب محمدی کا حقیقی عکس بن کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس انقلاب نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی اُمید اور تحفظ فراہم کیا ہے۔ آج پوری دنیا میں انقلاب کا طوطی بول رہا ہے۔جبکہ انقلاب دشمن، جو یہ کہتے تھے کہ یہ چند دنوں اور مہینوں کی بات ہے، یہ انقلاب اپنی موت خود مر جائے گا، اس انقلاب نے آج دوسروں کو زندگیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ اس انقلاب نے مظلوموں کیساتھ ساتھ خود ایران کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ الہی پلاننگ اللہ کی ہوتی ہے اور شیطان کے وسوسے اس وقت دم توڑ دیتے ہیں جب الہی تدبیر متحرک ہوتی ہے۔ یقیناً انقلاب کی کامیابی نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تعاون انقلاب اور ایران کیساتھ ہے اور جس کیساتھ اللہ ہو، اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔

تحریر: تصور حسین شہزاد

 

 

اسلام ٹائمز۔ یمن کی مزاحمتی تحریک انصار اللہ کے سیاسی دفتر نے جمعرات کی صبح امریکی دہشت گردانہ حملے میں عراق میں کتائب حزب اللہ کے کمانڈر "ابو باقر السعدی" کی شہادت کی شدید مذمت کی ہے۔ انصار اللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ الحشد الشعبی کے اس کمانڈر کا قتل ایک بزدلانہ مجرمانہ جارحیت ہے، یہ جارحیت صیہونی حکومت کے لیے امریکہ کی حمایت کا حصہ ہے، شہید مجاہد ابوباقر السعدی کو نشانہ بنانا پورے عراقی عوام پر حملہ ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی جارحیت غزہ میں فلسطینی عوام کی حمایت میں عراقی مزاحمت کے حملوں کے اثرات اور تاثیر کی حد کو ظاہر کرتی ہے، یہ جارحیت امریکہ اور اسرائیل کی عراق میں اسلامی مزاحمت کے حملوں کو روکنے میں ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔

 

انصار اللہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ عراق اور مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکی موجودگی صیہونی حکومت کی حفاظت کے مقصد کے ساتھ خطے کی سلامتی کے عدم استحکام کا بنیادی سبب ہے کہا ہے کہ امریکہ کے یہ پے درپے حملے مشرق وسطیٰ کے لوگوں پر ہیں، ان حملوں سے مزاحمتی تحریکوں کی جانب سے فلسطینی عوام کی حمایت اور ان کے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس بیان کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ہم عراق کے عوام اور عراق کی اسلامی مزاحمت کو تعزیت پیش کرتے ہیں اور فلسطینی عوام کے دفاع کے لیے ان کی عظیم قربانیوں پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

 

27 رجب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے موقع پر اسلامی جمہوری ایران کے اعلی حکام اور اسلامی ممالک کے سفیروں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ عید مبعث کے موقع پر ایرانی عوام اور امت مسلمہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ عید مبعث تاریخ کے بزرگترین واقعے کی یاد دلاتی ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ تاریخ انسانیت میں پیش آنے والا سب سے بڑا واقعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت ہے۔

 

رہبر معظم نے کہا کہ بعثت کے واقعے میں دنیا اور آخرت میں انسان کی سعادت کا کامل اور دائمی دستور سامنے آیا۔

 

 

 

 

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ 45 سالوں کے دوران صحت کے میدان میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ذیل میں حفظان صحت کے میدان کی چند اہم کامیابیوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:

 

1: اوسط عمر کی شرح

 

ایران میں اوسط عمر کی شرح انقلاب سے پہلے کے مقابلے میں اب 22 سال کی بڑھوتری رکھتی ہے جو کہ عمر کے عالمی اوسط سے بھی زیادہ ہے۔ انقلاب سے پہلے اوسط عمر کا تناسب 55 سال تھا جو کہ عالمی اوسط درجے میں سب سے کم تھا۔ لیکن آج ایران میں اوسط عمر 77 سال تک پہنچ گئی ہے۔ عالمی بینک نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی اس اہم کامیابی کی طرف اشارہ کیا ہے۔

 

2: شیر خوار بچوں اور حاملہ ماؤں کی شرح اموات

 

صحت کے شعبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی ایک اور اہم کامیابی شیر خوار بچوں اور حاملہ ماؤں کی شرح اموات میں 10 گنا کمی ہے۔

 

انقلاب سے پہلے زچگی کی شرح اموات 274 فی 100,000 افراد پر تھی لیکن اب یہ 16 فی 100,000 افراد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی شرح اموات 82 فی 1000 افراد سے کم ہو کر 11 فی 1000 افراد پر آ گئی ہے جو کہ ایک اہم کامیابی ہے۔ اس کے علاوہ شعبہ صحت عامہ میں ترقی کی بدولت پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں بڑی کمی آئی ہے، جو کہ انقلاب سے پہلے کے دور کے مقابلے میں نمایاں طور پر قابل ستائش اضافہ ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پہلوی (شاہی رجیم) دور حکومت میں ہر سال 140,000 سے زائد بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے جو کہ حالیہ برسوں میں کم ہو کر 20,000 سے نیچے رہ گئے ہیں۔

 

3: علاج معالجے تک عام رسائی

 

علاج معالجے تک رسائی کے اشارئے میں ڈاکٹروں، ہسپتالوں اور علاج کے مراکز اور ادویات تک رسائی شامل ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ملک کے زیادہ سے زیادہ 37 فیصد شہروں کو ہسپتالوں اور طبی مراکز تک رسائی حاصل تھی لیکن اب یہ تعداد 97 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ملک میں ہسپتالوں کے بستروں کی تعداد 50 ہزار سے بڑھ کر 150 ہزار ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ انقلاب سے پہلے ملک میں فی 10 ہزار افراد پر 3 ڈاکٹر ہوتے تھے لیکن اب یہ تعداد 16 ڈاکٹروں تک پہنچ گئی ہے۔ اس لیے پچھلے 45 سالوں میں فی کس ڈاکٹروں کی تعداد میں 5 گنا اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ ملک کی آبادی میں 2.5 گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اہم اور قابل توجہ پیش رفت ڈاکٹروں کی تعداد میں تقریباً 12 گنا اضافے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ انقلاب سے پہلے ملک میں تقریباً 14000 ڈاکٹرز تھے جن میں جنرل پریکٹیشنرز اور مختلف شعبوں کے ماہرین شامل تھے اور اس تعداد کا نمایاں حصہ غیر ملکی ڈاکٹروں پر مشتمل تھا لیکن اب ملک میں 160,912 ڈاکٹرز ہیں جو کہ 11 گنا سے بھی زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ . اس وقت تقریباً 60,000 ڈاکٹر جنرل ڈاکٹریٹ اور طبی معاونین تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اگر ہم انہیں بھی شامل کریں تو ملک میں ڈاکٹروں کی تعداد تقریباً دولاکھ ہوجائے گی اورغیر ملکی ڈاکٹروں کی ضرورت نہیں رہتی۔

 

4: خواتین ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ

 

دشمنوں نے گزشتہ سال خاص طور پر ایران میں خواتین پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ خواتین اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈھانچے میں ترقی نہیں کر رہی ہیں اور انہیں صنفی امتیاز یا تشدد کا سامنا ہے۔ لیکن درج ذیل اعدادوشمار ان دعووں کی مکمل تردید کرتے ہیں کہ صرف خواتین کی صحت سے متعلق شعبے میں 60% ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والی خواتین ہیں۔ ڈاکٹریٹ کی سطح پر، 52% خواتین ہیں۔ اس وقت ایران میں خواتین ڈاکٹروں کی تعداد 71,000 تک پہنچ گئی ہے جو کہ انقلاب کے آغاز کے مقابلے میں 35 گنا زیادہ ہے۔ 1984 میں اسپیشلسٹ خواتین ڈاکٹروں کی تعداد تین تھی لیکن اب 1600 کے لگ بھگ ہے۔

 

5: صحت عامہ کے شعبے میں شاندار کامیابیاں

 

صحت عامہ کے میدان میں وبائی امراض کی روک تھام اور ان پر قابو پانا اسلامی جمہوریہ ایران کی گزشتہ 45 برسوں میں نمایاں کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ صحت عامہ کے شعبے میں کالی کھانسی، تپ دق، چیچک، پولیو، بچوں کی تشنج، جذام، خسرہ، روبیلا اور خناق جیسی بیماریوں کا خاتمہ کیا گیا ہے اور اسہال کی بیماریوں پر قابو پایا گیا ہے اور دیگر متعدی امراض جیسے ہیپاٹائٹس اور شدید سانس کے انفیکشن وغیرہ کی روک تھام میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ 

 

6: فارماسیوٹیکل یا طبی ادویات کے شعبے میں ترقی

 

پہلوی دور حکومت میں ملک میں طبی آلات کے شعبے میں 50 کے قریب مینوفیکچرنگ کمپنیاں تھیں، جن میں سے تمام خام مال بیرون ملک سے درآمد کر کے ایران کے اندر اسمبل کرتی تھیں۔ یہ کمپنیاں ملک کی ضروریات کا صرف 3 فیصد فراہم کر پاتی تھیں۔ اسلامی انقلاب کے بعد، 500 سے زائد طبی سازوسامان بنانے والی کمپنیاں فعال ہیں اور ملک کی 80% سے زیادہ ضروریات فراہم کرتی ہیں۔ اس وقت ملک میں طبی آلات تیار کرنے والے یونٹ 8 ہزار سے زائد اقسام کے طبی آلات مختلف شعبوں میں تیار کرتے ہیں اور ملکی اور غیر ملکی مارکیٹوں کو فراہم کرتے ہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں دواسازی کی پیداوار میں پہلے نمبر پر ہے اور ملک کو درکار ادویات کا 97 فیصد مقامی طور پر ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اب ایران ایشیا میں ادویات کی ریکومبیننٹ میں چوتھے نمبر پر ہے اور اب تک اس قسم کی 14 ادویات ملک میں تیار کی جا چکی ہیں۔ ریکومبیننٹ دوائی بنیادی طور پر لاعلاج بیماریوں جیسے کینسر، کچھ وائرل بیماریوں، ایم ایس اور ہیموفیلیا کے علاج میں استعمال ہوتی ہے۔

 

نتیجہ

 

طب اور صحت کے شعبوں میں حاصل ہونے والی پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ 45 سالوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی اہم ترین ترجیحات میں سے ایک عوام کی زندگیوں پر توجہ دینا اور صحت کے اشاریوں کو بہتر بنانا ہے۔ 

 

لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن ان واضح اور ٹھوس کامیابیوں کا انکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قاب ذکر بات یہ ہے کہ ان شعبوں میں پیش رفت ایسی حالت میں ہوئی ہے جب ایران پر 8 سالہ جنگ مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ مغرب بالخصوص امریکہ کی طرف سے ظالمانہ پابندیاں بھی لگائی گئیں اور یہ ناجائز اور ظالمانہ پابندیاں کورونا وائرس کے عروج کے دوران بھی رہیں لیکن رہبر معظم انقلاب کی جانب سے مختلف سائنسی شعبوں بالخصوص طبی میدان میں شاندارترقی پر تاکید کے سبب اسلامی جمہوریہ ایران نے ملک کی صحت عامہ کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی۔ بلاشبہ یہ پیش رفت انقلاب اسلامی کے دوسرے مرحلے میں بھی جاری رہے گی۔

 

 

 

 

 

اسلام ٹائمز: آج آزادی اور آزادی کے سائے میں ایران علم و سائنس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور مختلف سائنسی میدانوں میں دنیا کے 10 بہترین ممالک میں شامل ہے۔ اس تیز رفتار سائنسی ترقی نے دشمن کو ایرانی سائنسدانوں کو قتل کرنے اور اپنی غداری و خیانت کی گہرائی کو اور زیادہ ظاہر کر دیا ہے۔ دفاعی میدانوں میں سائنسی ترقی اس حد تک آگے بڑھی ہے کہ ایران کے دشمنوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں ایک مضبوط فوج اور منظم جنگی سسٹم کا سامنا ہے، جو "ڈیٹرنس" کی سرحدیں عبور کرچکی ہے اور پیشگی حملے کی استعداد رکھتی ہے۔ ایران کی اس فوجی ترقی نے نیٹو جیسے اداروں کو نئے چیلنجوں سے دوچار کر دیا ہے۔

تحریر: محمد کاظم انبارلوی

 

1۔ اسلامی انقلاب کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ایران میں دینی حکومت کا قیام ہے۔ ایرانی عوام کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ مذہبی لوگوں میں ہوتا ہے۔ شاہ ایران کے وقت لوگوں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ مٹھی بھر شرابی، کرپٹ اور ظالم لوگ ہم پر حکومت کیوں کریں؟ وہ لوگ جو محرم اور صفر کے دوران امام حسین علیہ السلام کے مقام و منزلت کی حفاظت اور عاشورا کے عبادات میں اپنی تمام تر کوششیں صرف کرتے تھے، وہ اپنے آپ سے سوال کرتے تھے کہ ایک بے لگام شخص ہم پر حکومت کیوں کرے؟ ایک مذہبی شخص اور دینی نظام ہم پر حکمران کیوں نہیں ہونا چاہیئے؟ امام خمینی (رح) نے اس مطالبے کو نظریہ ولایت فقیہ کی شکل میں پیش کیا اور لوگوں نے اپنا سب کچھ اس پر فدا کر دیا اور یوں اسلامی جمہوریہ قائم ہوا۔ اسلامی جمہوریہ سے مراد وہ لوگ ہیں، جو مسلمان ہیں اور چاہتے ہیں کہ خدا ان پر حکومت کرے اور اسلامی انقلاب کی فتح کا مطلب ہے کہ ایران میں اور ان شاء اللہ دنیا میں خدا کی حکومت کا آغاز! تب سے لے کر اب تک امریکہ کھلم کھلا اسلام اور ہماری قوم کے خلاف کھڑا ہے اور وہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اپنی دشمنانہ روش سے باز نہیں آیا ہے۔

 

2۔ پچھلی دو صدیوں میں ملک کی آزادی، ارضی سالمیت اور علاقائی سالمیت ایرانی قوم کے اہم مطالبات میں سے ایک رہا ہے۔ قاجار اور پہلوی ادوار میں عالمی طاقتوں نے ایران پر حملہ کیا۔ آج کا ایران قاجار کے ابتدائی دور کے ایران کا ایک تہائی ہے۔اسلامی انقلاب ملک کے معاملات اور تقدیر میں غیر ملکیوں کے تسلط اور مداخلت کو قبول نہیں کرتا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب علاقائی سالمیت کے تحفظ اور خطے اور دنیا میں ایران کے اثر و رسوخ اور حکمت عملی کی گہرائی کو وسعت دینے کا آغاز تھا۔ آج عالمی استکبار دنیا بھر بالخصوص مغربی ایشیا میں اسلامی ایران کے حامیوں کی سیاسی اور قانونی یلغار کے دباؤ میں ہے۔ انقلاب اسلامی کے قائدین دنیا میں ایرانیوں کی عزت اور ملک کی آزادی اور ارضی سالمیت کے علمبردار ہیں اور یہ ایران کی عصری تاریخ میں واضح طور پر درج ہے۔ تمام عالمی مبصرین تسلیم کرتے ہیں کہ آج کا سیاسی، ثقافتی اور عسکری ایران اس سرزمین کے قدرتی جغرافیہ سے کہیں بڑا ہے۔

 

3۔ آج ایران میں سب سے زیادہ مقبول و عوامی حکومت ہے اور ایران دنیا کا سب سے آزاد ملک ہے۔ آزادی گویا پہلوی اور قاجار کے دور کا کھویا ہوا خزانہ ہے۔ انسانی وقار کو ظلم کے بوٹ تلے روند دیا گیا تھا۔ آج آزادی کے مخالفین اور ظلم کے حامی اپنے اصلی وطنوں یعنی امریکہ، انگلستان اور فرانس کی طرف ہجرت کرچکے ہیں اور سی آئی اے، موساد اور ایم آئی 6 کی سرمایہ کاری سے 250 ٹیلی ویژن اور سیٹلائٹ چینلز سے ایران کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ انقلاب کے بعد ایران میں 40 سے زائد انتخابات کے انعقاد نے مذہبی جمہوریت کو تقویت دی ہے اور ایران سے ظلم کو نکال باہر کیا ہے۔

 

4۔ آج آزادی اور آزادی کے سائے میں ایران علم و سائنس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور مختلف سائنسی میدانوں میں دنیا کے 10 بہترین ممالک میں شامل ہے۔ اس تیز رفتار سائنسی ترقی نے دشمن کو ایرانی سائنسدانوں کو قتل کرنے اور اپنی غداری و خیانت کی گہرائی کو اور زیادہ ظاہر کر دیا ہے۔ دفاعی میدانوں میں سائنسی ترقی اس حد تک آگے بڑھی ہے کہ ایران کے دشمنوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں ایک مضبوط فوج اور منظم جنگی سسٹم کا سامنا ہے، جو "ڈیٹرنس" کی سرحدیں عبور کرچکی ہے اور پیشگی حملے کی استعداد رکھتی ہے۔ ایران کی اس فوجی ترقی نے نیٹو جیسے اداروں کو نئے چیلنجوں سے دوچار کر دیا ہے۔

 

5۔ پورے ملک میں مدارس کی توسیع اور مساجد اور حسینیہ کی ترقی کی ایران کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اب صوبوں کے مراکز حتیٰ کہ چھوٹے شہروں میں بھی دینی مدارس ہیں۔ نوجوان اور انقلابی طلبہ کی تربیت دینی نظام تعلیم کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ قم، مشہد اور دیگر بڑے شہروں میں سو سے زائد ممالک کے طلباء زیر تعلیم ہیں۔ اس سال ملک بھر کی 70 ہزار مساجد میں 10 لاکھ سے زائد افراد نے اعتکاف کی روحانی عبادت میں شرکت کی۔ تین دن کے اعتکاف کے بعد انہوں نے اپنی عبادت کی خوشبو سے ملک کی روحانی فضا کو معطر کیا۔

 

6۔ دشمن نے ایرانی قوم کو تباہ کرنے اور مفلوج کرنے والی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ انہوں نے عالمی ایٹمی معاہدے کے تمام وعدے پس پشت ڈال دیئے۔ آج ایران میں ایک ایسی حکومت ہے، جس نے عوام کی مرضی سے پابندیوں کو عبور کیا ہے۔ ایران ایف اے ٹی ایف کے بغیر، اپنا تیل بیچتا ہے اور اس کا پیسہ ملک کو لوٹاتا ہے۔ دشمن کے کارٹل اور ٹرسٹ اس نظام کے خلاف کمربستہ ہیں۔ آج حکومت نے بند اور نیم بند فیکٹریوں اور اقتصادی اداروں کو شروع کرکے پیداوار کا پہیہ متحرک کر دیا ہے اور خالی دھمکیوں کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنے کا عزم بالجزم کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابیاں بے شمار ہیں۔ مذکورہ چھ نکات انتہائی ٹھوس، واضح اور عملی کامیابیاں ہیں، جن کا اختصار سے ذکر کیا گیاہے