سلیمانی

سلیمانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ملت ایران کے جرائم پیشہ اور شرپسند دشمنوں نے پھر المیہ رقم کیا اور کرمان میں شہیدوں کے مزار کی عطر انگیز فضا میں عزیز عوام کی ایک بڑی تعداد کو شہید کردیا۔  ملت ایران سوگ میں ڈوب گئی اور بہت سے خاندان اپنے عزیزوں اور جگر گوشوں کے غم میں مبتلا ہوگئے۔ سنگ دل مجرم، عوام کا اپنے عظیم کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کے مزار کی زیارت کا عشق و شوق برداشت نہ کر پائے، وہ یاد رکھیں کہ سلیمانی کی روشن راہ کے سپاہی بھی ان کی پستی اور جرائم کو برداشت نہیں کریں گے۔ بے گناہوں کے خون سے رنگین ہاتھ ہوں یا وہ فاسد اور شرانگیز دماغ ہوں جنہوں نے ان عناصر کی اس گمراہی کی جانب دھکیلا، وہ اسی وقت سے منصفانہ سرکوبی اور سزا کی یقینی آماجگاہ بنیں گے، وہ یاد رکھیں کہ اس طرح کے المیہ انجام دینے پر انہیں انشاء اللہ بڑے سخت جواب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں سوگوار خاندانوں کے غم میں شامل اور ان کے ہمراہ ہوں اور اللہ تعالی سے ان کے لئے صبر و تسلی کی دعا کرتا ہوں۔ شہیدوں کی پاکیزہ روح ان شاء اللہ خاتون دو عالم اور شہیدوں کی ماں حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی مہمان قرار پائے۔ اس سانحے کے زخمیوں سے اظہار ہمدردی کرتا ہوں اور درگاہ خداوندی میں ان کی شفایابی کا طالب ہوں۔

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

والحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

محترم خواتین، بہنو! اور بیٹیو! خوش آمدید! آپ سب ہماری بچیاں ہیں، ایران کے مستقبل کی  معمار ہیں، مستقبل کی دنیا آپ ہیں۔

یہ جلسہ یہاں تک، بہت اچھا اور مفید تھا۔ میں اس  پروگرام کا اہتمام کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان عزیز بچیوں کا جنہوں نے ترانہ پیش کیا، شکریہ ادا کرتا ہوں، اشعار کے مضامین بھی بہت خوب ہیں اور انہیں پیش کرنے کا انداز بھی بہت اچھا تھا۔ اس کا آہنگ اور اجرا بہت اچھا تھا۔

قاری محترم کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض انجام دینے والی  خوش زبان و خوش بیان  ہستی  کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

شہیدوں کی شریک حیات، مادران شہدا اور دختران شہدا کا بھی جو اس جلسے میں تشریف لائیں، تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے آپ سب سے عقیدت ہے۔

 آیت اللہ زکزکی کی اہلیہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے یہاں تقریر کی۔ یہ چھے شہیدوں کی ماں ہیں۔ ان کے تین بیٹے ایک واقعے میں  اور تین بیٹے دوسرے واقعے میں شہید ہو گئے اور انھوں نے پہاڑ کی طرح صبر کیا، مدتوں جیل میں رہیں اور بے انتہا سختیاں برداشت کیں۔ میں ان فلسطینی خاتون (2) کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے ویڈیو کا ہم نے مشاہدہ کیا اور منتظمین سے میری درخواست ہے کہ میرا شکریہ ان تک پہنچا دیں اور ان سے کہیں کہ  میں ہمیشہ، ہر رات مستقل طور پر ان کے لئے دعا کرتا ہوں، خدا ان کی نصرت کرے۔

جو باتیں اس جلسے میں کہی گئيں، بہت اچھی تھیں۔ یعنی واقعی اگر میں کچھ بھی نہ بولوں اور  انہیں باتوں پر اکتفا کیا جائے جو ان خواتین نے یہاں کہی ہیں، تو بھی یہ جلسہ بہت مفید ہے۔ ورزش کے بارے میں بھی، خواتین کے حقوق کے تعلق سے بھی، دینی فن و ہنر کے سلسلے میں بھی، سوشل میڈیا اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے خطرات کے حوالے سے بھی اور اسی طرح استثنائی ذہانت کی مالک نابغہ شخصیات کے مسئلے میں، ان کی منصوبہ بندیوں اور پروگراموں کے بارے میں، گھریلو خواتین اور مادران عزیز کی قدردانی میں اور سوشل میڈیا کی بری حالت کے بارے میں، خاتون ڈاکٹروں اور اسپتالوں میں خاتون مریضوں کا خیال رکھنے کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ سب صحیح ہے۔

ان کے گلے شکوے اور تجاویز مجھے دی جائيں۔ یہ میرا کام نہیں ہے۔ حکومتی عہدیداروں کا کا م ہے، لیکن حکام کو تاکید کروں گا کہ انہیں دیکھیں اور ان پر غور کریں۔ امید ہے کہ یہ کام ہوگا۔

یہ جلسہ صدیقہ کبری حضرت  فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت باسعات کے نزدیک آنے کی مناسبت سے تشکیل پایا ہے۔ میں چند جملے  آپ کے بارے میں عرض کروں گا، پھر کچھ نکات خواتین کے تعلق سے میں لکھ کے لایا ہوں، وقت کا  لحاظ رکھتے ہوئے اختصار کے ساتھ  انہیں بھی بیان کروں گا۔

حضرت سیدہ نساء العالمین، سیدہ نساء اہل الجنۃ – جو حضرت فاطمہ زہرا( سلام اللہ علیہا) کو کہا گیا ہے– جو باتیں حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے یا امیر المومنین (علیہ الصلاۃ والسلام) نے یا دیگر آئمہ کرام نے آپ کے بارے میں فرمائی ہیں، وہ سب واقعی حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی اس عظمت کو بیان کرتی ہیں جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ واقعی سوائے آل رسول اور  خود حضرت پیغمبر (صلوات اللہ و سلامہ علیہم)  کے  کسی سے  بھی آپ  کی عظمت کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کا مرتبہ اور منزلت بہت عظیم ہے۔

میں صرف ایک حدیث عرض کروں گا جو آپ نے بارہا سنی ہے۔ یہ  ایسی حدیث ہے جس کو شیعہ اور سنی سبھی نے نقل  کیا ہے۔ حدیث یہ ہے کہ "انّ اللہ لیغضب لغضب  فاطمۃ و یرضی لرضاھا"(3)  حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے غضبناک ہونے پر خدا غضبناک ہوتا ہے، آپ کی  رضا اور خوشی پر خدا بھی راضی ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ  جو انسان بھی  اور جو  مسلمان بھی خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو ایسا کام کرنا چاہئے جس سے فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خوش ہوں۔ آپ کی سفارشات، آپ کے موقف اور آپ کے احساسات کو اگر ملحوظ رکھا گیا، ان کا خیال رکھا گیا اور ان کی پابندی کی گئی تو خدا خوش ہوگا۔ واقعی کسی بھی انسان کے لئے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس سے بڑی فضیلت اور کیا سوچی جا سکتی ہے۔

 میری نظر میں، ایک مسلمان خاتون، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے بہتر نمونہ عمل اپنے لئے تلاش نہیں کر سکتی بلکہ دنیا کی کسی بھی عورت کو آپ سے بہتر آئیڈیل نہیں مل سکتا۔

چاہے بچپن کا زمانہ ہو، یا نوجوانی کا زمانہ ہو یا اپنی گھریلو زندگی کا دور ہو، اپنے والد کے ساتھ طرز سلوک ہو، شوہر کے ساتھ برتاؤ ہو، بچوں کے ساتھ رابطہ ہو یا گھر میں کام کرنے والی کنیز کے ساتھ سلوک ہو یا سماجی میدان میں، سیاست میں یا خلافت کے مسئلے میں، ان تمام مسائل میں آپ آئيڈیل ہیں۔

 سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سبھی عظمتیں، سرگرمیاں اور مثالی طرزعمل ایک مختصر سی زندگی میں تھا۔ آپ کی حداکثر عمر پچیس سال بتائی گئی ہے۔ روایات میں آپ کی عمر 18 سے 25 برس تک بتائی گئی ہے۔ یہ نمونہ عمل ہے۔

 ہماری بچیاں، ہماری عورتیں، ہمارے اسلامی معاشرے کی محترم  خواتین کوشش کریں کہ اسی جذبے اور فکر کے ساتھ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پیروی کریں۔ امور خانہ داری میں بھی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی اور علم و دانش کے میدان میں بھی۔ البتہ آپ کے لئے الہام الہی تھا اور  ہمارے اور آپ کے لئے اکتساب ہے۔ آپ کوشش کریں، البتہ الہام الہی بھی مدد کرے گا۔ سبھی میدانوں میں حضرت فاطمہ زہرا کو نمونہ عمل قرار دیجئے  اور آپ کی پیروی کیجئے۔ یہ چند جملے اس عظیم ہستی کے لئے۔

خود خواتین کے موضوع کا جہاں تک سوال ہے تو الحمد للہ آپ سب تعلیم یافتہ ہیں، گوناگوں مسائل سے واقف ہیں کہ اسلام میں خواتین کے مسئلے کو اہمیت دی گئی ہے۔ میرے بیان کی حاجت نہیں ہے لیکن پھر بھی میں چند جملے عرض کروں گا۔

عورت کے مسئلے میں، ایک خاتون کی حیثیت سے اس کا تشخص، خواتین کی اقدار، خواتین کے حقوق، خواتین کے فرائض، خواتین کی آزادی اور اس کی محدودیتیں، یہ سبھی مسائل بہت اہم اور بنیادی ہیں۔  آج دنیا پر مجموعی نظر ڈالیں تو دیکھتے ہیں کہ دو نقطہ نگاہ اور دو نظریات ان تمام مسائل میں موجود ہیں۔ ایک مغرب کا نظریہ ہے جو غیر مغربی ملکوں میں بھی رائج ہو گيا ہے۔

ان تمام مسائل میں جن کا میں نے ذکر کیا، ایک  اسلامی نظریہ بھی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ ان تمام مسائل میں دونوں کا الگ الگ نقطہ نگاہ ہے۔ لہذا ان تمام مسائل میں بحث کرکے جواب حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن یہاں ایک نکتہ ہے جو میری نظر میں قابل توجہ ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ مغرب کا تہذیبی اور ثقافتی نظام ان موجودہ مسائل میں بحث کے لئے تیار نہیں ہے۔ ان مسائل میں تحقیق اور بحث سے بھاگتا ہے۔  مغربی تہذیب، مغربی نظام، مغربی تمدن اور مغرب کا ثقافتی نظام ان میدانوں میں، بہت سے سوالات کا جواب دینے اور بحث کرنے کے لئے آگے نہیں آتا بلکہ اپنی بات کو شور و غل، ہلڑ ہنگامے، آرٹ اور فلم کے ذریعے، سوشل میڈیا  کے ذریعے اور زور زبردستی سے کام لے کر آگے بڑھاتا ہے۔ اس کے پاس اپنے نظریے اور اپنے طرز عمل کے لئے منطق اور استدلال نہیں ہے بلکہ مختلف ذرائع سے جو اس کے اختیار میں ہیں، اس کو آگے بڑھاتا ہے۔  بحث کے لئے تیار نہیں ہے۔ سوالوں کا جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کے پاس کوئی منطق نہیں ہے۔ یہ طرزعمل روز بروز پست تر ہوتا جا رہا ہے۔ آج خواتین کے مسئلے میں جو روش مغرب میں اور اس کی پیروی میں بہت سے دوسرے ملکوں میں رائج ہے، وہ کسی منطق پر استوار نہیں ہے، لہذا وہ بحث نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی منطق پیش کرتے ہیں۔   

مغربی ماحول میں عورت اپنے نسوانی تشخص اور حرمت کے تحفظ میں زیادہ بے  پروا اور غیر محتاط کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ عورت کی بے حرمتی کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ امریکا اور یورپ کی سرکاری تقریبات میں مرد کے لئے مکمل لباس حتی ٹائی یا 'بو' باندھنا بھی ضروری ہوتا ہے لیکن عورت نیم عریاں لباس میں شرکت کر سکتی ہے؟ کیوں؟ کیوں ایسا ہے کہ عورت اس طرح آ سکتی ہے لیکن اگر مرد فرض کریں کسی سرکاری تقریب میں نیکر میں آ جائے تو یہ آداب کے منافی اور بد تہذیبی کیوں ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ عورت اگر منی اسکرٹ میں آ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر مرد کا لباس تھوڑا ہلکا ہو تو حرج ہے۔ کیوں؟ مغربی ماحول میں فحاشی اور جسم فروشی روز بروز کیوں بڑھ رہی ہے؟ یہ ہو رہا ہے۔ ہم جنس پرستی کو ترقی پسندی  قرار دیا جاتا ہے اور اس کے منکر کو پسماندہ کہا جاتا ہے۔ کیوں؟  سیاسی ماحول میں بھی اس کی ترویج کی جا رہی ہے اور سماجی ماحول میں بھی۔ ملکوں کے صدور اور سربراہان مملکت اس کی ترویج کر رہے ہیں اور بعض اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اس طرح ہیں! کیوں؟

 یہ کون سی منطق ہے؟ مغرب کے لا ابالی ماحول میں سہ جانبہ اور چہار جانبہ جنسی مسائل – خود انھوں نے جو اعداد و شمار دیے ہیں اور جو اطلاعات خود انھوں نے ہمیں دی ہیں، اور ہم جانتے ہیں، یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے، یہ اطلاعات آشکارا ہیں، ( یہ سہ فریقی اور چہار فریقی جنسی مسائل) کیوں روز بروز بڑھ رہے ہیں؟ وہ تمام چیزیں جو خاندان کو تباہ کرتی ہیں، مغرب میں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ یہ تمام باتیں خاندان کی بنیادیں ختم کر رہی ہیں۔ جنسی آزادی اور جنسی جارحیت کا پھیلاؤ خاندان  کو ختم کر رہا ہے۔

 میں نے چند سال قبل (4) ایک امریکی صدر (5) کی کتاب سے نقل کیا۔ اعداد و شمار واقعی وحشتناک  ہیں۔ جنسی زیادتی کے اعداد و شمار،  بے راہروی کے اعداد و شمار۔ جنسی جارحیت پر سزا نہیں ملتی لیکن حجاب پر سزا ہے!

یہ پستی، یہ ذلالت کہ کوئی کسی باحجاب عورت کے ساتھ تشدد کرے اور اس کی شکایت عدالت میں کی جائے تو عدالت کے اندر اس عورت کو چاقو مارکر قتل کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (6) اب اس شخص کو کچھ مدت کے لئے جیل بھیج دیتے ہیں لیکن حجاب کے خلاف یہ مہم اور یہ اقدام برا کام نہیں سمجھا جاتا۔ کیوں؟ یہ سوالات بے جواب کے ہیں۔ ان کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔ امریکا اور یورپ کے کسی بڑے اجتماع میں ایک ایرانی عہدیدار سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ ہم جنس پرستی کے موافق ہیں؟ اگر وہ کہہ دے نہیں! تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں! اس کی وجہ کیا ہے؟ا س کی منطق کیا ہے؟ اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ یعنی مغربی دنیا  میں عورت کے مسئلے میں، عورت سے متعلق مسائل میں، معاشرے میں عورت کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، ان کاموں کی کوئی منطق نہیں ہے۔ اس لئے اس سلسلے میں بحث کرنے سے بھاگتے ہیں۔

میں نے عرض کیا کہ وہ اپنے طرزعمل کی ترویج میں وسائل سے کام لیتے ہیں۔ اس میں اچھی مہارت رکھتے ہیں۔  فلم بناتے ہيں، کتاب لکھتے ہیں، مضامین لکھتے ہیں، پیسے دیتے ہیں، فن اور آرٹ سے تعلق رکھنے والوں، ادبی اور سیاسی  شخصیات کو (اپنی حمایت میں) بولنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بین الاقوامی مراکز قائم کرتے ہیں-عورتوں سے متعلق مراکز – اور یہ نام نہاد بین الاقوامی تنظیمیں ہر اس ملک کو جو ان کے طرزعمل کا مخالف ہو نمبر دیتے ہیں، اس کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں اور اپنے چارٹ میں سب سے نیچے اس کا نام رکھتے ہیں۔   

اس مسئلے پر بولنے کے لئے بہت کچھ ہے اور میں ان پر بہت بول چکا ہوں۔ گزشتہ روز میرے لئے ایک کتاب لائے جن میں وہ باتیں چھپی تھیں جو میں نے کہی تھیں۔  میں نے یہ کتاب نہیں دیکھی تھی۔ پڑھا تو معلوم ہوا کہ وہ بہت سی باتیں جو میں نے آج یہاں بولنے کے لئے تیار کی تھیں، اس کتاب میں موجود ہیں اور اس سے پہلے بارہا کہی جا چکی ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں بہت کچھ کہا ہے۔ میں ایک جملے میں عرض کروں گا کہ بہت  ہی حیاتی اور اہم مسئلے، خواتین کے بارے میں مغربی تہذیب کی پالیسی اور طرز عمل  
 کے  دو عوامل ہیں، مالی فائدہ اور لذت کا حصول اور ان دونوں کی تفصیل اور تشریح ہے۔ مالی فائدہ حاصل کرنے کے بارے میں، میں اس سے پہلے بات کر چکا ہوں اور فی الحال اس بارے میں بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔ بہرحال مغرب میں خواتین کے مسئلے میں مغرب کا طرزعمل یہ ہے۔ 

اسلام کا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام کا طرز عمل منطقی ہے، دلیل کے ساتھ ہے اور اس سلسلے میں اس کا بیان واضح  اور شفاف ہے۔ عورت کے بارے میں اسلام کا نقطہ نگاہ اس کا ایک قوی پہلو ہے۔ میں یہ بات عرض کر دوں کہ بعض لوگ یہ نہ سمجھیں کہ خواتین سے متعلق مسائل میں ہمیں بیٹھ کر جواب دینا چاہئے۔ جی نہیں،خواتین سے متعلق ہر مسئلے میں اسلام کے پاس  محکم منطق اور مضبوط عاقلانہ استدلال ہے۔ چاہے وہ جگہ ہو جہاں اسلام جنسیت کی نفی کرتا ہے اور چاہے وہ جگہ جہاں جنسیت کو نمایاں کرتا ہے۔ سب کے لئے اس کے پاس منطقی استدلال ہے۔

اسلام بعض کلی معاملات میں جنسیت کو نظر انداز کرتا ہے۔ بحث عورت اور مرد کی نہیں ہے بلکہ انسانی کرامت کا مسئلہ ہے: لقد کرمّنا بنی آدم ۔(7) یہاں جنسیت کا مسئلہ نہیں ہے۔ انسانی قدریں، عورت اور مرد دونوں میں مساوی اور یکساں ہیں اور مرد کے ساتھ اس کی اقدار کی نسبت میں، جنسیت کا عمل دخل نہیں ہے: "والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر"(8) الی آخر۔ "انّ المسلمین و المسلمات والمومنین و المومنات والقانتین و القانتات" (9) الی آخر۔ سورہ احزاب کی آیت ہے۔ سب خدا کے نزدیک معنوی درجات کی بلندی میں یکساں ہیں۔ یعنی نہ اس کو اس پر ترجیح حاصل ہے اور نہ اس کو اس پر۔ دونوں کو ہی مشابہ استعداد کے ساتھ اس راہ میں قرار دیا گیا ہے اور ان کی محنت پر منحصر ہے۔ ایسی عورتیں بھی ہیں کہ کوئی بھی مرد ان کے پائے کا نہیں ہے۔ بنابریں جنسیت مد نظر نہیں  ہے۔  

البتہ اسی معنوی مراتب میں بعض جگہوں پر خاص وجوہات سے، خداوند عالم  نے جنس زن کو ترجیح دی ہے۔ جیسے وہی آیہ کریمہ جس کی تلاوت کی گئی "و ضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امرائۃ فرعون(10) حضرت موسی  کے معاملے میں بعض  انسان ایسے ہیں جن کا حضرت موسی کے تعلق سے خاص طور پر نام لیا گیا ہے اور خاص طور پر ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ جناب ہارون ہیں، حضرت خضر ہیں، حضرت موسی کے ساتھی اور رفیق ہیں۔ چند لوگ ہیں جن کا قرآن میں خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے لیکن کسی کے لئے بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ نمونہ عمل ہے۔ "مثل" یعنی نمونہ اور آئیڈیل۔ خداوند عالم نے تمام مومن انسانوں کے لئے دو خواتین کو اسوہ اور نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ ایک فرعون کی بیوی اور ایک حضرت مریم۔ ومریم ابنۃ عمران الّتی احصنت فرجھا (11) یہاں خداوند عالم نے خود حضرت موسی کو "مثل" اور نمونہ نہیں کہا ہے، فرعون کی بیوی کو نمونہ کہا ہے جس نے حضرت موسی کو پالا ہے۔ خود حضرت عیسی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ان کی ماں کا ذکر کیا ہے۔  یہ ایک طرح سے مرد پر عورت کی برتری ہے،  اس کی وجوہات ہیں اور میری نظر میں یہ وجوہات واضح ہیں۔ چونکہ مرد کی جنس میں اور اس کے اندر جو خصوصیات پائی جاتی ہیں، ان کی وجہ سے، اس کے اندر برتری کی طلب ہے، خاص طور اس دور میں جب قرآن نازل ہوا ہے، ایسا ہی تھا۔ خداوند عالم اس (برتری) کی نفی کرنا چاہتا ہے: یہ باتیں کیا ہیں؟ چونکہ مثال کے طور پر اس کی آواز بھاری ہے، چونکہ اس کا قد لمبا ہے، چونکہ اس کا سینہ چوڑا ہے، اس لئے اس کی اہمیت زیادہ ہے؟ نہیں! اس کو اسی عورت اور اسی خاتون کی پیروی کرنی ہے اور اس کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دینا ہے۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک  شخص پیغمبرکے پاس آیا اور عرض کیا کہ من ابرّ۔ زیادہ نیکی کس کے ساتھ کروں؟ پیغمبر فرماتے ہیں "امّک" (12) اپنی ماں کے ساتھ۔ اس کے بعد وہ پوچھتا ہے اس کے بعد کس کے ساتھ؟ پیغمبر نے فرمایا اس کے بعد بھی اپنی ماں کے ساتھ، اس نے تیسری بار پوچھا پھر کس کے ساتھ؟ پیغمبر نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ۔ یعنی پیغمبر تین بار فرماتے ہیں کہ ماں کے ساتھ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں کو باپ پر تین گنا برتری حاصل ہے۔  اس سے خاندان میں عورت کی منزلت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ تاکید کے لئے ہے۔ یعنی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ معنوی راہ میں، معنوی بلندی میں، حقیقی انسانی قدروں میں جنسیت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ایک معاملے میں ایک کو دوسرے پر ترجیح حاصل ہے تو وہ ترجیح عورت کو مردوں پر حاصل ہے۔ میں نے ترجیح کی کوئی اور جگہ نہیں دیکھی۔ اس کے بعد تمام جگہوں پر جنسیت مد نظر نہیں ہے۔

در اصل سماجی ذمہ داریاں بھی اسی طرح ہیں۔ امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ سیاست اور ملک کے بنیادی معاملات میں مشارکت خواتین کے فرائض اور ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ یہ عورتوں کا حق بھی ہے اور فریضہ بھی۔ یعنی آپ نے واجب کر دیا ہے کہ خواتین ملک کے مستقبل کے فیصلوں اور بنیادی ذمہ داریوں میں شریک ہوں۔ یہ خود ایک طویل معاملہ ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان معاملات میں عورت اور مرد میں کوئی فر‍ق نہیں ہے۔

امور معاشرہ کی انجام دہی: من اصبح و لم یھتمّ بامور المسلمین فلیس بمسلم۔(14) یہ جو فرمایا ہے کہ "لیس بمسلم" یعنی چاہے وہ عورت ہو یا مرد، آپ صبح جب اٹھتی ہیں تو چاہے گھریلو عورت ہوں، ملازمت پیشہ ہوں، صنعت کار ہوں، جو کام بھی کرتی ہوں، معاشرے کی فکر میں رہیں۔ یعنی یہ دیکھیں کہ معاشرہ کس حال میں ہے۔ اب کتنی مدد کر سکتی ہیں اور  کیا کردار ادا کر سکتی ہیں یہ دوسری بات ہے۔ سبھی افراد کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن یہ اہتمام  اور فکر ہمہ گیر ہے۔ یہ اہتمام کرنا، فکر کرنا اور سوچنا، سب کا فریضہ ہے۔ اس میں بھی جنسیت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یا یہی "من سمع رجلا ینادی یا للمسلمین"(15) یہ خاتون جو ابھی تقریر  کر رہی تھیں کہ انھوں نے کہا کہ ہم نے فلسطین کے قضیے میں اور غزہ کے معاملے میں اپنا راستہ بند کر دیا ہے، ورنہ آ سکتے تھے۔ اب فرض کریں یہ خاتون ڈاکٹر ہیں، یہ وہاں رہ کر مریضوں، زخمیوں، بچوں اور عورتوں کی مدد کر سکتی ہیں۔ ہر ایک کا ایک کردار ہے لیکن بنیادی چیز یہ فکر ہے، یہ فریضے اور ذمہ داری کا احساس ہے، یہ عام ہے اس میں عورت اور مرد کی تخصیص نہیں ہے۔ اسلام نمایاں طور پر ان باتوں کو بیان کرتا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو اسلام میں واضح ہیں اور ان کو بیان کیا گیا ہے۔

لیکن خاندانی امور میں، یقینا ایسا نہیں ہے۔ خاندان سے متعلق فرائض یکساں نہیں ہیں۔ ہر ایک کا فریضہ اپنی نوعیت میں الگ ہے۔ امکانات، فطری صلاحیتيں، ہر ایک کے لئے الگ فریضے کی متقاضی ہیں۔ یہاں جنسیت کا کردار ہے۔  یہ جو مطلق جنسی مساوات کا سلوگن دیتے ہیں، یہ غلط ہے۔ ہر جگہ جنسی مساوات (صحیح) نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر کیوں نہیں، برابری ہے، لیکن بعض جگہوں پر نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتی۔ صحیح بات، جنسی انصاف ہے۔ جنسی انصاف ہر جگہ معتبر ہے۔ عدل یعنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا۔ عورت کی روحانی اور فطری ساخت، عورت کی جسمانی ساخت، عورت کے  جذبات کی ساخت بعض مسائل کی متقاضی ہے۔ بچے پیدا کرنا، بچوں کی دیکھ بھال، بچوں کی پرورش، عورت کا کام ہے۔ مرد سے یہ کام نہیں ہو سکتا، خداوند عالم نے اس کو اس کام کے لئے پیدا نہیں کیا ہے۔ وہ دوسرے کام کے لئے ہے۔ گھر سے باہر کا کام، گھر کی مشکلات کو حل کرنا۔ لیکن خاندانی حقوق میں دونوں مساوی ہیں: ولھنّ مثل الذی علیھن بالمعروف۔ (16) یعنی کنبے میں جتنا حق مرد کا ہے اتنا ہی حق  عورت کا بھی ہے۔ یہ قرآن کی آیت ہے۔ لہذا خاندانی حقوق میں دونوں برابر ہیں۔ لیکن خاندانی فرائض میں نہیں۔ البتہ بعض چيزیں ایسی ہیں کہ عورتوں کے تعلق سے ان کا زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ ان خواتین کی تقاریر میں بھی ان میں سے بعض کا ذکر تھا، میں نے بھی نوٹ کیا ہے۔

(مثال کے طورپر) خواتین کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ خاندان کے اندر سلامتی۔ عورت کو مرد کے ساتھ سکون اور سلامتی کا احساس ملنا چاہئے۔ گھر کی چار دیواری، آسایش اور سلامتی کی جگہ ہے۔ اگر مردوں کا طرزعمل ایسا ہو کہ عورت اس احساس سلامتی سے محروم ہو جائے، عورت خود کو غیر محفوظ سمجھے، شوہر بد زبانی کرے، یا اس سے بہت بدتر اور زیادہ وحشیانہ، ہاتھ اٹھائے تو یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ اس کا راستہ کیا ہے؟ راستہ یہ ہے کہ سخت قوانین وضع  کئے جائيں۔ میں نے یہ بات بارہا کہی ہے۔(17)  ( کہ سخت قوانین بنائے جائيں۔) اشارہ کیا گیا ہے اس قانون کی طرف جو پارلیمنٹ میں ہے۔ اس پر ضرور کام ہونا چاہئے۔ میں بھی سفارش کرتا ہوں، آپ بھی اپنے طور پر اس کی پیروی کریں۔ ان مردوں کے لئے سخت قانون ہونا چاہئے جو گھر کے اندر ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں کہ  عورت خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہے۔ گھر کے باہر بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ یہ ایک بات۔

ایک اور بات سماجی امور اور مینجمنٹ کا مسئلہ ہے۔ اس کے بارے میں بعض خواتین نے مجھ سے سوال کیا ہے۔ یہاں بھی جنسیت کا مسئلہ  نہیں ہے۔ مختلف مینجمنٹ، مختلف سماجی اور سرکاری کاموں میں عورتوں کی موجودگی کی کوئی محدودیت نہیں ہے۔ اب فرض کریں کہ جیسے امریکیوں نے ہمارے ایک پڑوسی ملک میں یہ ضروری قرار دے دیا تھا کہ دفاتر میں پچیس فیصد عورتیں ہوں۔ یہ لازمی قرار دینا غلط ہے۔ 25 فیصد کیوں؟ 35 فیصد 20 فیصد۔ یہ عدد  معین کرنا، تناسب معین کرنا، بے معنی ہے۔ یہاں معیار صلاحیت ہے۔ مختلف مینجمنٹ  میں مختلف سماجی اور سرکاری کاموں میں، کسی جگہ ایک تعلیم یافتہ اور تجربہ کار، کارآمد خاتون، مثال کے طور پر وزارت کے لئے اس مرد سے  بہتر ہے، اس کو وزارت کے لئے نامزد ہونا چاہئے۔ اس عورت کو وزیر ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے بھی ایسا ہی ہے۔ فرض کریں کسی شہر سے ایک یا دو افراد پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہونے ہیں۔ ایک یا  دو خواتین  اور ایک یا دو مرد امید وار ہوتے ہیں، تو یہ دیکھنا چاہئے کہ کون زیادہ باصلاحیت ہے۔ صلاحیت کو نظر میں رکھنا چاہئے۔ یہاں کوئی ترجیح نہیں ہے۔ کوئی محدودیت نہیں ہے۔ یعنی اسلام کا نظریہ یہ ہے۔  یہاں بات صلاحیت کی ہے۔

 البتہ خواتین ان عہدوں پر کام کر سکتی ہیں لیکن اس طرح ہونا چاہئے کہ ایک عورت کی حیثیت سے ان کا جو اہم اور بنیادی کام ہے، یعنی امور خانہ داری اور بچوں کی پیدائش اس سے محروم نہ ہوں۔ بعض شعبوں میں عورتوں کی موجودگی واجب کفائی ہے، جیسے میڈیکل کا شعبہ ہے۔ میڈیکل کے شعبے میں عورتوں کی موجودگی واجب ہے۔ اتنی خاتون ڈاکٹروں کا ہونا ضروری ہے کہ عورتوں کی ضرورت پوری ہو جائے۔ عورتوں کو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا چاہئے۔

 اسی طرح ٹیچنگ بھی خواتین کے لئے واجب کفائی ہے۔

 اب ممکن ہے کہ بعض اوقات اس واجب کفائی اور امور خانہ داری، یا بچوں کی پیدائش یا اس آرام و آسائش اور چھٹی میں جو عورتوں کے لئے ضروری ہے، تضاد پیدا ہو جائے یا کام کے اوقات کا مسئلہ ہو مثال کے طور پر اس کے کام کا وقت ایسا ہو کہ وہ کام بھی کر سکے اور امور خانہ داری بھی دیکھ سکے۔ اب اگر دونوں میں تضاد ہو تو ملک کے حکام کو اس کی فکر کرنا چاہئے۔ یعنی تعداد اتنی بڑھا دیں  کہ  مثلا ایک (خاتون)  ٹیـچرکے لئے اگر ضروری ہو کہ  پانچ دن کالج میں رہے اور مثال کے طور پر وہ چار دن رہ سکتی ہے تو اس خلا کو پر کرنے کے لئے ایک اور ٹیچر رکھی جائے۔ اسی طرح میڈیکل کا شعبہ ہے۔ بنابریں میڈیکل کے شعبے میں، سرکاری اور غیرسرکاری ملازمتوں میں، مینجمنٹ میں، بنیادی سروسز میں، ان  امور میں جو واجب کفائی ہیں، کوئی محدودیت نہیں ہے اور اگر خواتین سے متعلق امور خانہ داری سے تضاد پیدا ہو تو ایسا حل نکالنا چاہئے کہ دونوں ہی  امور انجام پا سکیں۔

البتہ میری نظر میں کوئی منافات نہیں ہے۔ میں ایسی خواتین کو جانتا ہوں کہ جو بہت ہی سنگین سماجی امور انجام دیتی تھیں، علمی کام اور یونیورسٹی میں تعلیم بھی اور غیر علمی امور بھی اور اسی کے ساتھ انھوں نے کئی بچوں کو پالا اور ان کی پرورش اور تربیت کی اور بہت اچھی طرح ان امور کو انجام دیںے میں کامیاب رہیں۔ بنابریں ان میں کوئی منافات نہیں ہے۔

اسلام کی نگاہ میں دو باتیں اہم ہیں۔ یعنی میں نے یہ جو عرض کیا کہ خواتین کے لئے سبھی میدانوں میں، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا راستہ کھلا ہوا ہے، یہ دو اہم نکات کے ساتھ ہے اور اسلام نے ان دونوں نکات کو بہت اہمیت دی ہے: ایک نکتہ  خاندان کا مسئلہ ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا اور دوسرا نکتہ، جنسی کشش کے خطرے کا مسئلہ ہے۔ جنسی کشش کا خطرہ! اسلام کی نگاہ میں یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔  جنسی کشش سے بہک جانے کا خطرہ انتہائی سنگین ہے اور ایسا ماحول عورت یا مرد کو مشکل میں ڈال سکتا ہے، اسلام ہمیں ایسے ماحول اور فضا سے پرہیز کا حکم دیتا ہے۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ حجاب اس سلسلے میں ہے۔ حجاب ان چیزوں میں سے ہے جو جنسی کشش کے خطرے  میں رکاوٹ ڈالتی ہیں اور اس کو روکتی ہیں۔ اس لئے اسلام میں حجاب کی تاکید کی گئی ہے۔ سورہ احزاب میں دو جگہ حجاب کا مسئلہ (بیان کیا گیا ہے): واذا سالتموھنّ متاعا فاسئلوھنّ من وراء حجاب۔(18) جو لوگ پیغمبر کے گھر جاتے ہیں، مثلا فرض کریں کہ مہمان ہیں، کھانا لینا چاہتے ہیں تو پیغمبر کی ناموس کے سامنے نہ جائيں، پردے کے پیچھے سے کھانا لیں: اتنی دقت نظر سے کام لیا گیا ہے۔ سورہ احزاب کی ایک دوسری آیت میں بھی یہی مضمون پایا جاتا ہے۔  

 بنابریں ان دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ حجاب کی بھی حقیقی معنی میں پابندی ہونی چاہئے اور خاندان کے مسئلے کا، ماں کے کردار کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے جو اہم ترین کردار ہے۔ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ خلقت بشری میں ماں کا کردار سارے کرداروں سے برتر ہے۔ اس لئے کہ اگر ماں نہ ہو، بچے کی پیدائش نہ ہو، حمل نہ ہو، بچے کو دودھ پلانا نہ ہو تو نسل بشر ختم ہو جائے گی۔ بنابریں عالم خلقت اور انسان کے مادی عالم وجود میں اہم ترین کردار ماں کا ہے۔ اسلام اس کو اہمیت دیتا ہے آپ بھی اس کو اہمیت دیں، اس پر عمل کریں اور جنسی کشش کے مسئلے کا بھی خیال رکھیں۔

بہت سے کام ہیں جو باہمی تفاہم سے انجام پاتے ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ گھر کے اندر کام کرنا خواتین کا فریضہ ہے۔ نہیں عورت کا مطلقا، فریضہ یہ نہیں ہے کہ گھر کے اندر کام کرے۔ کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور صاف  ستھرا رکھنا عورت کا فریضہ نہیں ہے۔ عورت اور مرد دونوں کو باہمی تفاہم سے کام کرنا چاہئے۔ اب بعض مرد خوش قسمتی سے یہ کام کرتے ہیں، گھر کے اندر کام کرتے ہیں، عورت کی مدد کرتے ہیں اور بعض امور اپنے ذمے  لیتے ہیں۔ بہرحال یہ عورت کے فرائض میں نہیں ہے۔ اس کو سب جان لیں۔

 شادی کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ اسلامی کتب میں تاکید کی گئی ہے کہ شادی میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ نوجوانوں کو جلدی شادی کرنا چاہئے۔ یہ اسی جنسی کشش کے خطرے کے روک تھام کے لئے ہے۔ البتہ اس کا مطلب بچوں کی شادی نہیں ہے جس کی کچھ لوگ بات کرتے ہیں۔ بلکہ نوجوان عورت اور مرد، نوجوان  لڑکے اور  لڑکیا ں جہاں تک ممکن ہو، وقت پر شادی کریں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات اچھی ہے اور خود ان کے لئے بھی بہتر ہے۔ معاشرے کے لئے بھی بہت بہتر ہے۔ بنابریں، اگر مسئلہ حجاب کو دیکھیں تو اس کو عورت کو محروم کرنے کا وسیلہ نہ سمجھیں۔ یہ عورت کی محرومیت نہیں ہے، یہ دراصل حصول ہے، حجاب عورت کو سلامتی اور سیکورٹی فراہم کرتا ہے۔ تحفظ اور سلامتی کا موجب بنتا ہے۔   

 اس وقت اسلامی جمہوریہ کے اندر اگرچہ ہم حقیقی معنی میں ابھی اسلامی نہیں ہو سکے ہیں، میں نے بارہا یہ کہا ہے کہ ابھی ہمارا کام ادھورا ہے، لیکن آپ ملاحظہ فرمائیں کہ اسی اسلامی جمہوریہ میں خواتین کی پیشرفت ایسی ہے کہ ماضی کا اس سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ علم میں، تحقیق میں، سماجی سرگرمیوں میں، آرٹ اور ہنر میں، کھیل کود میں، سبھی کاموں میں کتنی دانشور خواتین ہیں، کتنی خواتین یونیورسٹیوں میں پڑھاتی ہیں، کتنی اعلی تعلیم یافتہ خواتین ہیں، کتنی قلمکار خواتین ہیں۔ انواع و اقسام کی ان کی تحریریں، علمی تحریریں، لکھنے کے آرٹ اور ہنر کی ماہر کتنی خواتین ہیں، افسانہ نویسی اور شاعری وغیرہ میں (کتنی خواتین ہیں)  انقلاب سے پہلے ان کا دسواں حصہ بھی نہیں تھا۔ میں سماجی میدان میں پوری طرح موجود تھا (اور جانتا ہوں)  آج الحمد للہ ان میدانوں میں ملک غنی ہے اور یہ اسلام کی برکت ہے۔ اگرچہ ہم نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ابھی ادھورا اسلامی ملک ہے اور ہم اب تک پوری طرح اسلام نافذ نہیں کر سکے ہیں۔ اگر اسلام پوری طرح نافذ ہو جائے تو آج جو توانائی ہے اس کی کئی گنا ہو جائے گی۔ بہت بہتر ہوگی۔

 میں اپنی گفتگو کے آخر میں انتخابات کے مسئلے کا بھی اشارتا ذکر کروں گا۔ انتخابات کے مسئلے میں، میں نے چند روز قبل بھی اس کی اہمیت بیان کی ہے۔ (19) آپ خواتین اس میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اپنے شوہر اور اولادوں کو انتخابات کے حوالے سے فعال کر سکتی ہیں اور امیدواروں کی صحیح تحقیق میں مدد کر سکتی ہیں۔ خواتین بعض مسائل میں، افراد کی شناخت، تحریکوں اور اسٹریٹجی کی شناخت میں مردوں سے زیادہ ظرافت اور دقت سے کام لیتی ہیں لہذا انتخابات میں امیدواروں کی شناخت پولنگ اسٹشنوں پر لوگوں کے  جانے  کے حوالے سے اپنے گھر کے اندر بھی اور گھر سے باہر بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

 آپ لوگوں سے مل کے مجھے بہت خوشی ہوئی، یہ جلسہ تھوڑا طولانی ہو گیا اور ظہر کا وقت گزر گیا۔ ان شاء اللہ آپ سب کامیاب و کامران رہیں۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

 1۔ اس جلسے کے شروع میں جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت باسعادت اور یوم خواتین کے قریب آنے کی مناسبت سے انجام پایا، دس خواتین اور لڑکیوں نے مختلف مسائل میں اپنے نظریات اور تجاویز پیش کیں۔ 

2۔ فلسطینی خاتون صحافی محترمہ اسراء البحیصی نے غزہ سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے اس جلسے سے خطاب کیا

3۔ امالی شیخ مفید، ص 95

4۔ ملک کی ممتاز خواتین  کے اجتماع سے خطاب 19-4-2014،

5۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی کتاب

6۔ 2009 کے اواسط میں مروہ شربینی کے قتل کی طرف اشارہ۔ یہ مصری خاتون جرمنی میں مقیم تھی، الیکس وینز نامی  ایک روسی نژاد جرمن باشندے نے اس خاتون کو عدالت کے اندر چاقو سے  18 وار کرکے قتل کر دیا۔ اس مصری خاتون نے عدالت میں اس کی شکایت کی تھی۔   

7۔ سورہ اسراء کی آیت نمبر 70 "اور یقینا ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی۔"

8۔ سورہ توبہ، آیت 71  " اور مومن مرد اور مومن عورتیں، ایک دوسرے کے دوست ہیں جو اچھے کاموں کی تلقین کرتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔ 

 9۔ سورہ احزاب آیت نمبر 35  "مسلمان مرد اور عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، اور عابد مرد اور عبادت کرنے والی عورتیں"

  10۔ سورہ تحریم، آیت نمبر 11، " اور جولوگ ایمان لائے ہیں ان کے لئے خدا نے فرعون کی بیوی کی مثال پیش کی ہے۔"

11۔ سورہ تحریم، آیت نمبر 12، "اور مریم بنت عمران کو وہی جس نے اپنے آپ کو پاکدامن باقی رکھا"

12۔ کافی جلد 2، صفحہ 159 

13۔ صحیفہ امام، جلد 6 صفحہ 301، 3-3-1979 کو قم میں خواتین کے اجتماع سے خطاب

14۔ کافی، جلد 2، صفحہ 163 (تھوڑے سے فرق کے ساتھ)

 15۔ کافی، جلد 2 صفحہ 164

  16۔ سورہ بقرہ  آیت نمبر 228

17۔ خواتین کے اجتماع سے خطاب 4-12-2022

18۔ سورہ احزاب، آیت نمبر 53

19 صوبہ کرمان اور خوزستان کے لوگوں کے اجتماع سے خطاب

 23-12-2023

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اتوار کی شام شہید جنرل قاسم سلیمانی کے اہل خانہ سے ملاقات میں، اس شہید کے نام، یاد اور خصوصیات کے پہلے سے زیادہ فروغ کو شہید قاسم سلیمانی کے اخلاص کا نتیجہ بتایا اور زور دے کر کہا کہ اس شہید والا مقام کا سب سے اہم رول اور خدمت، علاقے میں استقامتی محاذ کو حیات نو عطا کرنا ہے۔

انھوں نے جنرل شہید سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر ہونے والی اس ملاقات میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تین مہینے سے جاری غزہ کی استقامت، مزاحتمی محاذ کے وجود کی وجہ سے ہے، کہا کہ شہید سلیمانی نے مزاحتمی محاذ کے احیاء کے لیے بہت جدوجہد کی اور اس کام کو پورے اخلاص و تدبیر، لگن، عقل اور اخلاق سے آگے بڑھایا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آئي آر جی سی کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاآنی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ استقامتی محاذ کو مضبوط بنانے کا کام بدستور جاری رہنا چاہیے۔

اس ملاقات میں، جس میں آئي آر جی سی کے کمانڈر اور آئي آر جی سی کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر بھی موجود تھے، شہید قاسم سلیمانی کی بیٹی محترمہ زینب سلیمانی نے شہید سلیمانی کے جذبات، عادات و خصوصیات کو نوجوان نسل تک پہنچانے کے لیے ثقافت اور فن و ہنر کے شعبوں میں انجام پانے والے اور اسی طرح سے جاری اقدامات کے بارے میں ایک مختصر رپورٹ پیش کی۔

علی زمانی شہید سلیمانی کے ساتھی ہیں جو کئی سالوں تک محاذوں پر دلوں کے سردار کے ساتھ رہے ہیں۔ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی تیسری برسی کے موقع پر مہر کی ان سے بات چیت ہوئی۔

شہداء کی ماؤں کی تعظیم و تکریم

علی زمانی نے شہید سلیمانی کی تیسری برسی کے لئے "جان فدا” نعرے کے انتخاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میری شہید سلیمانی سے دفاع مقدس کے آغاز میں آشنائی ہوئی اور اس وقت سے ان کی شہادت تک میں نے کرمان میں شہید کا ایک دن بھی ایسا نہیں دیکھا جو انہوں نے عوام کے درمیان حاضر ہونے اور ان کے مسائل حل کرنے کی منصوبہ بندی کے بغیر گزارا ہو۔

انہوں نے کہا جب بھی شہید سلیمانی بیرون ملک مشنوں سے واپسی کے بعد کرمان آتے تو ان کی سب سے اہم مصروفیت شہداء اور مجاہدین کے اہل خانہ سے ملاقات کرنا تھا، شہداء کے ایک ایک خاندان سے رابطہ کرتے اور ایک بیٹے کی طرح ان کی ماؤں سے ملاقات کرتے اور ان کے حال احوال پوچھتے اور ان کے کاموں کو انجام دیتے۔

 

شہید سلیمانی کے اس ساتھی نے مزید کہا کہ اگرچہ شہید سلیمانی کی خواہش شہادت تھی اور وہ اپنی تقریروں اور دوستوں کے درمیان بارہا شہادت کی تمنا کرتے رہتے تھے لیکن جب دشمن سے ان کا سامنا ہوتا تھا تو اپنی تمام تر قوت کے ساتھ دشمن کو شکست دینے کی کوشش کرتے جبکہ ان کا مقصد انقلاب اور اسلامی نظام کی سربلندی اور مظلوموں کا دفاع کرنا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ ایسا شخص جو بلاشبہ میدان جنگ کے بہادر ترین لوگوں میں سے ایک تھا جب کرمان میں شہداء کی ماؤں کے درمیان ہوتا تو گھٹنوں کے بل بیٹھتا اور سختی سے آداب اور ادب کا خیال رکھتا اور ان کی تعظیم کرتا۔

 

شہید سلیمانی کی زندگی کا سب سے اہم پہلو ان کی سادہ زندگی اور عوام کے مسائل پر توجہ تھی

 

علی زمانی کہتے ہیں کہ شہید سلیمانی کی زندگی کا سب سے اہم نکتہ ان کی سادہ زندگی اور عوام کے مسائل پر توجہ تھی، وہ ہمہ تن عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ جب لوگوں کو حاجی ﴿شہید سلیمانی﴾ کی کرمان میں موجودگی کی خبر ملتی تو وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس چلے آتے اور آپ ان سے ایک کاغذ پر اپنے مسائل بیان کرنے کا کہتے اور وہ ان لیٹرز کو لکھنے میں جتنا بھی وقت لگتا وہیں انتظار کرتے اور بعد میں ایک ایک لیٹر کو نتیجتے تک پہنچانے اور عوام کے مسائل حل کرنے تک پیروی کرتے رہتے تھے۔

زمانی مزید کہتے ہیں کہ بعض اوقات وہ لوگوں کے ساتھ بیت الزہراء یا گلزار شہداء اور حسینہ ثار اللہ میں دیر تک بیٹھے رہتے اور لوگوں کے مسائل سنتے اور اس تمام عرصے میں آپ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب نہیں ہوتی تھی اور وہ اپنے محافظوں کو اپنے اور لوگوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے۔

 

شہید سلیمانی کے اس دیرینہ ساتھی کا مزید کہنا تھا کہ یہ شخص جو لوگوں کے درمیان مہربان اور عوام دوست تھا تاہم جنگ کے درمیان میں اپنے آپ کو لوگوں پر قربان کردیتا اور اسلام کے دشمنوں کے لیے سخت ترین دشمن بن جاتا تھا۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھی کہ آپ قنات ملک جا کر ان کے آبائی گھر کو دیکھیں، گاؤں کا ایک عام گھر جس میں دوسرے لوگوں کے گھروں سے زیادہ کچھ نہیں تھا اور اس کے والدین زندگی کے آخر تک گاؤں کے دیگر لوگوں کے شانہ بشانہ کام کیا کرتے تھے۔ کرمان میں خود حاجی ﴿شہید سلیمانی﴾ کا بھی ایک عام سا گھر تھا۔ انہوں نے اس گھر کو اہل بیت (ع) کی عزاداری کے لیے وقف کر دیا۔

حاج قاسم سرباز ولایت تھے

شہید سلیمانی کے اس ساتھی نے کہا کہ انہوں نے تمام پہلوؤں میں اور ہر طرح سے عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کی اور لوگوں سے ان کی سب سے اہم درخواست یہ تھی کہ وہ دین، اہل بیت (ع) اور ولایت کی اطاعت پر توجہ دیں۔انہوں نے کہا کہ شہید سلیمانی اپنے آپ کو سرباز ولایت ﴿ولایت کا سپاہی﴾ سمجھتے تھے اور اپنے لئے کسی دنیاوی مقام و منصب کے قائل نہیں تھے اور اپنا سب کچھ انقلاب اور عوام کے لیے وقف کر رکھا تھا۔

شہید سلیمانی کے اس ساتھی کا کہنا تھا کہ اخلاص، شجاعت، دشمن سے خوف نہ کھانا، خدا پر توکل اور حضرت فاطمہ (س) سے توسل شہید سلیمانی کی زندگی کے اہم پہلو تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ شہید خدا کے سوا کسی چیز سے نہیں ڈرتا تھا اور اس راہ میں مکمل طور پر ولی فقیہ کے مطیع تھے اور ایک عام سپاہی کی طرح دن رات کام کرتے تھے۔

اس بارے میں کہ لوگ شہید سلیمانی سے کیوں بہت زیادہ محبت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جب لوگوں نے ان کی پاکیزہ سانسوں، سادہ زندگی، ان کی شب و روز کی محنت اور یقیناً دشمن کے سامنے ان کی ہمت و بہادری کو دیکھا تو انہوں نے اس خلوص کو دل سے محسوس کیا اور شہید کو اپنوں میں ایک سمجھا۔a

Sunday, 31 December 2023 19:05

شہادت کے پیغام

مزاحمت کے میدان اور حرم کے دفاع میں ایک اور عظیم انسان کی شہادت کی خبر سامنے ائی ہے۔ یہ شہید اپنے دور کے طاقتور ترین کمانڈروں میں سے ایک تھے۔ مزاحمت کے میدان میں ان کی شہادت کے کئی پیغام موجود ہیں۔

صیہونی حکومت اور مزاحمت کا خوف
صیہونی حکومت کا مزاحمتی محاذ کی طاقت اور اثر و رسوخ سے مسلسل خوف شہید اسلام حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد بھی کم نہیں ہوا۔غزہ کی جارحیت میں اس کی واضح ناکامی کے المیے نے اس کے زخموں کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ غزہ کے حالیہ زخم کو مندمل کرنے کے لیے اسے کسی مرہم کی تلاش ہے۔ وہ اپنی خام خیالی میں اس طرح کے اقدامات سے خطے کی بڑی طاقت یعنی مزاحمتی محاذ کے علم برداروں کو قتل کرکے اس بلاک کو شدید دھچکا پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ صیہونی حکومت نے اپنی خام خیالی اور بےہودہ وہم و خیال میں اس کمانڈر کو حاج قاسم کی برسی کے موقع پر شہید کیا۔ جس نے  اس کے اپنے بقول اپنے کالے کپڑے یعنی حاج قاسم کے سوگ کا لباس بھی نہیں اتارہ تھا۔ وہ شہادت کا منتظر تھا، کیونکہ حاج قاسم نے اس سے شہادت کا وعدہ کیا تھا۔ غاصب اور مجرم صیہونی حکومت نے سید رضی موسوی کو ان کی رہائش گاہ پر تین راکٹ فائر کرکے شہید کر دیا، تاکہ یاد دلایا جا سکے کہ  ایک سخت انتقام انتظار کر رہا ہے۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور دیگر صیہونی لیڈروں کو اب اپنے ہی سائے سے ڈرنا چاہیئے۔

سید رضی موسوی کون تھے؟
خبر یہ تھی کہ "ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سینیئر مشیر دمشق میں زینبیہ کے علاقے میں صیہونی حکومت کے حملے میں شہید ہوگئے اور دشمن نے سید رضی کو تین میزائلوں سے شہید کر دیا۔" سید رضی موسوی شام میں پاسداران انقلاب اسلامی کے سینیئر مشیر تھے، جنہوں نے اس ملک میں جنگ کے تمام مراحل میں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا۔ انہوں نے صحرائی علاقوں سے لیکر دمشق کے نواحی علاقوں کی لڑائیوں میں حصہ لیا۔ وہ حلب میں مغرب کے حملے کو پسپا کرنے والے ثابت قدم لوگوں میں سے ایک تھے۔ شہید موسوی شام کے معاملے میں پاسداران انقلاب اسلامی کے سینیئر کمانڈروں میں سے ایک تھے، جنہیں صیہونی حکومت نے گذشتہ برسوں میں متعدد بار نشانہ بنانے کی کوشش کی۔

 اس محترم شہید کا شمار سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے بڑے اور ممتاز کمانڈروں میں ہوتا تھا۔ وہ شام میں پاسداران انقلاب اسلامی کے پرانے مشیروں اور شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی کے اہم ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے مزاحمتی محاذ کو لیس کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور کئی سالوں تک شام میں IRGC قدس فورس کے نمائندے رہے۔

صیہونی حکومت کے جرائم کا تجزیہ
صیہونی حکومت حاج قاسم اور ان کے ساتھیوں نیز مزاحمتی محاذ سے خوفزدہ ہے۔ وہ اس تحریک کے عظیم افراد کی شہادت کی تلاش میں ہے، تاکہ اپنے خوف کی سطح کو کم کرسکے اور غزہ میں اپنی ذلت آمیز شکست پر پردہ ڈال سکے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت کو مزاحمتی محاذ سے آئے روز ایک خوفناک دھچکا لگتا ہے۔ اسے غزہ پر حالیہ حملے سے جو شکست ملی، وہ بہت بڑی رسوائی تھی، اس لیے صیہونی حکومت اس شکست سے رائے عامہ اور اپنے حامیوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سید رضی موسوی کو شہید کرنا اسی ایجنڈے کا حصہ تھا۔ یہ جرم ایسے وقت ہوا، جب ایرانی مشیر کو 1973ء کے عالمی کنونشن کے مطابق استثنیٰ حاصل ہے، لیکن کیا غاصب حکومت کسی بین الاقوامی قوانین اور حقوق کی پاسداری کرتی ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو غزہ کی جنگ میں 8 ہزار بے سہارا بچے شہید نہ ہوتے۔

مزاحمت جاری ہے
شہید سلیمانی، عراقی مزاحمت کے کمانڈر ابو مہدی المہندس، سید رضی موسوی نیز فلسطینی اور لبنانی مزاحمت کے بعض دیگر رہنماؤں کا قتل نہ صرف صہیونیت کے بدنام زمانہ پیکر پر مزاحمت کے حملوں کی وسعت کو کم نہیں کرے گا بلکہ صیہونی حکومت اور اس کے امریکی حامیوں کو مزید چیلنجوں اور حملوں کے طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے چیلنجز جو اس نے گذشتہ آٹھ دہائیوں میں کہیں نہیں دیکھے ہوں گے۔ بلا شک و شبہ صیہونی حکومت اور مجرم امریکہ کو ایران اور اسلامی مزاحمت کے سخت انتقام کا سامنا کرنا ہوگا اور یہ خوف صیہونی حکومت کی مکمل تباہی تک جاری رہے گا۔

ترتیب و تنظیم: علی واحدی

شیعہ نیوز: مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت نے جنرل سید رضی موسوی کو شہید کرکے ایک اسٹریٹجک غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔

شام میں اسرائیل کے دہشت گردانہ حملے میں ایران کے فوجی مشیر سید رضی موسوی کی شہادت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے میجر جنرل محمد باقری کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال نے غاصب صیہونی حکومت کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں اس کا کوئی بھی دہشت گردانہ اور جنون آمیز اقدام نہ صرف یہ کہ اس کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال نہیں کرسکتا بلکہ مزاحمت کے محور کے ذریعے اس کا محاصرہ مزید تنگ تر کرنے کا سبب بنے گا۔

ایران کی مسلح افواج کے سربراہ نے کہا کہ صیہونی حکومت کا یہ اقدام شام کی ارضی سالمیت، اقتدار اعلی اور عالمی قوانین اور ضابطوں کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اس اقدام نے ایک بار پھر اسرائیل کی دہشت گردانہ ماہیت کو دنیا کے سامنے آشکارا کردیا ہے۔

 

میجر جنرل محمد باقری کے پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ بریگیڈیئر جنرل موسوی شام کی حکومت کی سرکاری دعوت پر فوجی مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طویل تجربہ رکھتے تھے۔

مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف نے واضح کیا کہ صیہونی حکومت غزہ کے خلاف جنگ میں تمام تر دعووں کے باوجود نسل کشی اور وحشیانہ کارروائیوں کے علاوہ کوئی فوجی کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔

انہوں نے غاصب صیہونی حکومت اس غزہ کی دلدل سے نکلنے اور اپنے جنگی جرائم سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کی غرض سے جنگ کا دائرہ پورے خطے میں پھیلانے اور اپنے اتحادیوں کو اس جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اسرائیل کو حتمی نابودی سے بچایا جاسکے۔

ایران کی مسلح افواج کے سربراہ نے ایک بار پھر یہ بات زور دے کر کہی کہ صیہونی حکومت نے شام میں ایرانی فوجی مشیر کو دہشت گردانہ حملے میں شہید کرکے اسٹرٹیجیک غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔

 

شیعہ نیوز: شہید جنرل قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر شہید سلیمانی میموریل سینٹر کے ترجمان نے اس سال "شہید القدس” کے شعار کے ساتھ برسی کے انعقاد کا اعلان کیا۔

رپورٹ کے مطابق شہید جنرل قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر شہید میموریل سینٹر کے ترجمان سید مجتبی ابطحی نے آج ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس سال شہید کی برسی کا عنوان "شہید قدس” طے پایا ہے۔ یہ اقدام فلسطین کی بہادر قوم کی استقامت اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے اس عظیم سورما کو "شہید القدس” کا خطاب دینے کو سامنے رکھتے ہوئے اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک نئی دنیا وجود میں آرہی ہے جس میں شریف اور باوقار لوگ سربلند ہوں گے جب کہ امریکہ، جبر، سامراج اور اسرائیلی رجیم کا خاتمہ اور نابودی یقینی ہے۔

 

 

شہید قاسم سلیمانی میموریل سینٹر کے ترجمان نے کہا کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران ہم نے شہید کی برسی میں مختلف شخصیات کی موجودگی کا مشاہدہ کیا اور اس سال یہ برسی عالمی منظرنام

 

اس سال شہید قاسم سلیمانی کی برسی کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ شہید کا یوم شہادت حضرت زہرا (س) کی ولادت کے ساتھ آرہا ہے اور یہ انتہائی اہم مناسبت ہے جو ہمارے لیے بہت سے پیغامات رکھتی ہے۔ دوسری جانب شہید کی برسی حضرت امام خمینی (رح) کی ولادت کے ساتھ آرہی ہے جب کہ شہید سلیمانی بھی امام خمینی (رہ) کے سپاہی تھے۔

ابطحی نے طوفان الاقصی آپریشن کے ساتھ شہید کی برسی کے اتفاق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج اس آپریشن کو تقریباً 73 دن گزر چکے ہیں اور تمام مزاحمتی محاذ استکبار کے ساتھ میدان جنگ میں ہیں۔ یہ آپریشن اسکتباری تسلط کے خلاف ایک اسٹریٹجک جست تھی جو مختلف سطحوں پر عوامی مزاحمت میں بدل گئی اور اس نے فلسطینی عوام کا باوقار اور مزاحمت پسندانہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلی بار امریکہ اور یورپی ممالک کے عوام کو مسلسل 10 ہفتوں سے سڑکوں پر دیکھا ہے اور شہید سلیمانی کی روح اقوام عالم کے جذبے سے گھل مل گئی ہے۔

مجتبی ابطحی نے کہا کہ آج ہم خطے میں ہر جگہ اور خاص طور مزاحمتی محاذ پر شہید سلیمانی کا پرتو دیکھ رہے ہیں اور امریکی اڈوں میں موجود ہمارے بزدل دشمنوں کو ہر روز شہید کی آواز سنائی دے رہی ہے۔

7 اکتوبر کے دن غزہ پر صیہونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت شروع ہونے کے ساتھ ہی مغربی کنارے پر بھی صیہونیوں کے حملوں میں شدت آ گئی اور اسی دن سے مغربی کنارہ بھی فلسطینی مجاہدین اور صیہونی فورسز کے درمیان محاذ جنگ میں تبدیل ہو گیا اور حتی ایک دن بھی یہ جنگ کم نہیں ہوئی۔
بچوں کا قتل عام، غاصب فورسز کا انسان سوز جرم
اس بارے میں الجزیرہ نے اپنی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں مغربی کنارے میں غاصب صیہونیوں کی طرف سے انجام پانے والے جرائم کی کچھ مثالیں ذکر کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 29 نومبر کی صبح فلسطینی بچہ "بصال سلیمان ابولوفہ" اپنے دوستوں کے ہمراہ کھیلنے کی غرض سے جنین شہر میں اپنے گھر سے باہر نکلا۔ اس کے نکلنے کے چند منٹ بعد ہی اس محلے میں گولی چلنے کی آواز سنائی دی جہاں یہ 15 سالہ فلسطینی بچہ زندگی بسر کرتا تھا۔
 
جب باسل کے اہل خانہ فائرنگ کی آواز سن کر گھر سے باہر نکلے تو انہوں نے اپنے بیٹے کو خون میں لت پت پایا اور دیکھا کہ اس کے سینے میں کئی گولیاں لگ چکی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ باسل کو ہسپتال پہنچاتے وہ جان کی بازی ہار چکا تھا۔ ایک خاتون صیہونی فوجی نے یہ منظر اپنے کیمرے سے ریکارڈ کر لیا۔ اسی دن اسی علاقے، جینین میں ایک اور ایسا ہی واقعہ رونما ہوا۔ صہیونی فوجیوں نے "آدم سامر" نامی 8 سالہ فلسطینی بچے کو سر میں گولی مار کر شہید کر دیا۔ قابل ذکر ہے کہ دو بچوں کے خلاف یہ 2 پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت انجام پانے والے جرائم ایسے وقت پیش آئے جب غزہ کی پٹی میں قیدیوں کے تبادلے کیلئے ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی برقرار تھی۔ باسل اور آدم سامر ان 275 فلسطینیوں میں سے دو ہیں جو غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک مغربی کنارے میں دشمن کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔
 
مغربی کنارے پر صیہونی قبضے کا آغاز
غزہ کی پٹی کی طرح مغربی کنارہ بھی 1967ء سے صیہونیوں کے قبضے میں ہے لیکن 2005ء سے غزہ کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کے شدید محاصرے کے بعد مغربی کنارے اور غزہ میں دوریاں پیدا ہو گئیں۔ اگرچہ دونوں علاقوں کے درمیان محض 34 کلومیٹر کا فاصلہ ہے لیکن آمدورفت ختم ہو جانے کے باعث وہ ایکدوسرے سے دور ہو گئے۔ اس کے باوجود مغربی کنارے نے صیہونی دشمن کے خلاف مسلح مزاحمت ہر گز ترک نہیں کی اور خود صیہونی بارہا اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ مغربی کنارہ نئے فلسطینی انتفاضہ کا نقطہ آغاز بنے گا۔ 1993ء میں غاصب صیہونی رژیم اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان طے پانے والے اوسلو معاہدے کی روشنی میں مغربی کنارے اور غزہ میں محدود فلسطینی انتظامیہ قائم کی گئی تھی۔ ساتھ یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ 5 سال بعد صورتحال تبدیل کر دی جائے گی۔
 
لیکن غاصب صیہونی رژیم نے معاہدے کی پابندی نہیں کی جس کے نتیجے میں مغربی کنارہ عملی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔ اگرچہ جنین، طولکرم اور نابلس کے شہر مکمل طور پر فلسطینیوں کے کنٹرول میں ہیں لیکن ان علاقوں پر صیہونی فوج کے حملے کبھی نہیں رکے اور 1967ء میں مغربی کنارے پر قبضے کے بعد سے اب تک صیہونی رژیم اس علاقے میں تقریباً 1 لاکھ 70 ہزار فلسطینیوں کو شہید یا گرفتار کر چکی ہے۔ صرف اس سال صیہونی فورسز نے جنین میں 137 فلسطینی، نابلس میں 88 فلسطینی اور طولکرم میں 55 فلسطینی شہریوں کو شہید کیا ہے۔
مغربی کنارے کا خونریز ترین سال
2023ء کا سال مغربی کنارے میں سب سے زیادہ شہادتوں کا سال ہے۔ غاصب صیہونیوں نے یکم جنوری سے 6 اکتوبر تک 48 بچوں سمیت 208 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔
 
مغربی کنارے میں 100 سے زائد بچوں کی شہادت
10 دسمبر تک غاصب صیہونی فوج یا آبادکاروں کے ہاتھوں شہید ہونے والے فلسطینی بچوں کی تعداد 106 تک پہنچ چکی تھی جو 2022ء میں شہید ہونے والے فلسطینی بچوں سے تین گنا زیادہ ہے۔ مغربی کنارے میں شہید ہونے والا سب سے کم عمر فلسطینی بچہ، 3 سالہ "ہیثم التمیمی" تھا جسے اس کے اہلخانہ کے ہمراہ رام اللہ میں سر میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ فلسطین میں بچوں کے دفاع کی بین الاقوامی تحریک کے سربراہ عید ابو قطیش نے اعلان کیا ہے کہ تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی فوجی جان بوجھ کر آبادی والے علاقوں میں گولیاں چلاتے ہیں جبکہ ان کی جان کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر صیہونی آباد کاروں کے پرتشدد اور وحشیانہ حملوں میں تقریباً تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
 
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صیہونی آبادکار یہ حملے غاصب صیہونی فوج کی زیر نگرانی اور اس کی حمایت سے انجام دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2009ء سے اب تک صہیونی آباد کاروں نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر کم از کم 6022 حملے انجام دیے ہیں۔
مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے گھر مسمار کرنے کی پالیسی
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 1967ء میں مغربی کنارے پر غاصبانہ قبضے کے بعد صیہونی رژیم نے فلسطینیوں کو طاقت کے زور پر ان تمام علاقوں سے بے دخل کر دیا اور ان کے 50 ہزار سے زائد گھر اور دیگر عمارتیں مسمار کر دیں۔ مزید برآں، غاصب صیہونی رژیم نے 2009ء سے 2023ء کے درمیان مغربی کنارے میں 10 ہزار سے زائد عمارتیں تباہ کیں جس کے نتیجے میں کم از کم 15 ہزار فلسطینی جلاوطن ہو گئے۔

تحریر: محمد علی

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزه علمیه قائم چیذر تہران کے مؤسس آیت اللہ ہاشمی علیا نے اپنے ہفتہ وار درس اخلاق میں، صحیفہ سجادیہ کی آٹھویں دعا کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ صبر، انسانوں کیلئے ایک الہٰی امتحان ہے اور انسان کی ترقی و پیشرفت کی راہ میں ایک اہم کردار مصیبتوں میں صبر کا ہے۔ انسان عبادات، اطاعت اور ترک گناہ میں صبر کا مظاہرہ کر کے اپنے لئے ایک اہم مقام حاصل کر سکتا ہے۔ صبر مختلف معاملات میں الٰہی امتحان ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انسان مذکورہ تین مراحل میں، اس طرح سے عمل کرے کہ وہ بارگاہ خداوندی میں سرخرو ہو اور مکمل نمبر لے، اس صورت میں وہ قیامت کے دن حساب وکتاب کے بغیر بہشت میں داخل ہو جائے گا۔

آیت اللہ ہاشمی علیا نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اگر انسان کی عقل اور درک و تفکر میں کوئی کمزوری نہ ہو تو انسان اپنی سعادت کی راہ خود پیدا کرتا ہے، کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو انسان جہل و جہالت کا شکار ہو گا اور نتیجتاً انسان کا دل سخت ہو جائے گا۔

انہوں روایت کی رو سے انسانی زندگی میں صبر کی اہمیت اور کردار کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ابی بصیر امام صادق علیہ السّلام سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا: «إِنَّ اَلْحُرَّ حُرٌّ عَلَی جَمِیعِ أَحْوَالِهِ إِنْ نَابَتْهُ نَائِبَةٌ صَبَرَ لَهَا وَ إِنْ تَدَاکَّتْ عَلَیْهِ اَلْمَصَائِبُ لَمْ تَکْسِرْهُ وَ إِنْ أُسِرَ وَ قُهِرَ وَ اُسْتُبْدِلَ بِالْیُسْرِ عُسْراً کَمَا کَانَ یُوسُفُ اَلصِّدِّیقُ اَلْأَمِینُ...؛ آزاد انسان، تمام حالات میں آزاد ہے، اگر اس پر کوئی مصیبت آئے تو صبر کا مظاہرہ کرے اور اگر مصیبت اسے چاروں طرف سے گھیر بھی لے تو اسے شکست دے نہ پائے، اگرچہ حضرت یوسف علیہ السّلام کی مانند اسیر اور مغلوب ہو اور سختیاں آسائشوں کی جگہ لیں۔

آیت اللہ ہاشمی علیا نے مزید کہا کہ حضرت یوسف علیہ السّلام نے غلامی کے دوران اپنے اوپر آنے والی تمام سختیوں اور الٰہی امتحانات میں صبر کا بھرپور مظاہرہ کیا اور اس کی پاداش میں خدا نے ستمگر اور سرکش مالک کو حضرت یوسف علیہ السّلام کا غلام بنا دیا۔ حقیقت میں واقعی حر وہ ہے جو تمام امور میں آزاد ہو یعنی بلاؤں میں آزاد ہو اور شیطان کا اسیر نہ ہو اور گناہ کے مقابلے میں آزاد ہو اور گناہ اور فانی دنیا کا اسیر نہ ہو۔

حوزہ علمیہ تہران کے استادِ اخلاق نے رضائے الٰہی کے حصول کے طریقہء کار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سید الساجدین علیہ السّلام صحیفہ سجادیہ کی آٹھویں نورانی دعا میں، خدا کی بارگاہ میں استغاثہ کرتے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کی پناہ مانگتے ہیں، لہٰذا انسان کو صبر و استقامت میں اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ وعظ و نصیحت سنے، اچھے لوگوں کو دوست بنائے، خدا کی قرب حاصل کرے اور دنیا اور اس کی جلد ختم ہونے والی لذتوں کا بندہ نہ بنے، تاکہ سعادت ابدی کا مستحق قرار پائے۔

شیعہ نیوز: یمن میں حکمفرما انصاراللہ تحریک نے گذشتہ چند ہفتوں سے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ اس دوران یمن نیوی دسیوں ایسی تجارتی کشتیوں کو ضبط یا انہیں میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنا چکی ہے جو کسی نہ کسی طرح اسرائیل سے مربوط تھیں۔ اس میدان میں انصاراللہ یمن کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے سب سے بڑے حامی امریکہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی کشتیوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے عالمی سطح پر فوجی اتحاد تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ انصاراللہ یمن کی جانب سے بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں اسرائیلی اور اسرائیل کیلئے تجارتی سامان لے کر جانے والی کشتیوں پر پابندی کے باعث اسرائیل کی ایلات بندرگاہ مکمل طور پر بند ہو چکی ہے اور اسے روزانہ کئی ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

امریکہ اور چند مغربی ممالک کی جانب سے انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی اتحاد تشکیل دینے کیلئے یکطرفہ، دو طرفہ اور چند طرفہ گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی اہمیت اس وقت مزید ابھر کر سامنے آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ انصاراللہ یمن کی کاروائیوں کے باعث میرسک اور ہاپاگ لویڈ جیسی بڑی کمپنیاں بھی بحیرہ احمر میں تجارتی سرگرمیاں روک دینے کا اعلان کر چکی ہیں۔ اس بارے میں جو چیز قابل توجہ ہے اور اسے بیان کرنا ضروری ہے وہ انصاراللہ یمن کے بارے میں شائع ہونے والی خبریں ہیں۔ بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کی سرگرمیوں سے لے کر غاصب صیہونی رژیم کی ایلات بندرگاہ پر اس کے میزائل اور ڈرون حملوں تک اور چالیس ممالک کے ہمراہ امریکہ کا انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی اتحاد تشکیل دینے کی خبر سے لے کر یمن میں انصاراللہ کی مخالف نگران کونسل کی جانب سے تل ابیب سے خود کو تسلیم کرنے کی درخواست تک۔

 

یمن میں انصاراللہ کے مخالف دھڑے نگران کونسل نے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو خود کو تسلیم کرنے کے عوض بحیرہ احمر میں اس کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ان تمام سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور یمن میں انصاراللہ کے علیحدگی پسند مخالفین مستقبل میں اپنے مفادات خطرے میں پڑ جانے کے خوف سے ہاتھ پاوں مارنے میں مصروف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انصاراللہ یمن نے علاقائی سطح پر بین الاقوامی پانیوں میں موجودگی برقرار رکھ کر ثابت کر دیا ہے کہ یمن میں انارکی اور بے امنی کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور اب یمن کی مسلح افواج کی نگاہیں ملکی امور سے بالاتر ہو کر علاقائی امور پر لگی ہیں۔

 

گذشتہ کچھ عرصے کے دوران انصاراللہ یمن کی جانب سے مختلف میدانوں میں فعالیت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس کی پوشیدہ توانائیاں اور صلاحیتیں سب کیلئے واضح ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں جارح طاقتوں کے دل خوف اور وحشت سے پر ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے انصاراللہ یمن خود کو علاقائی طاقت کے طور پر منوا کر موجودہ حالات تبدیل کرنے میں کامیاب رہی ہے اور اس کا مدمقابل نہ صرف اس حقیقت کو قبول کر چکا ہے بلکہ اپنی پوزیشن اور مفادات کھو دینے کے خوف میں بھی مبتلا ہو چکا ہے۔ اس خوف کی ایک وجہ انصاراللہ یمن کی جانب سے ملک کے اندر اور علاقائی سطح پر نئی جنگی پالیسی اختیار کئے جانے کا امکان بھی ہے۔ لہذا امریکی طاقتوں سمیت مغربی ممالک کی تمام تر کوشش فوجی اقدامات کے ذریعے انصاراللہ یمن کو مطلوبہ اہداف تک پہنچنے سے روکنا ہے۔

 

امریکہ اور اس کی اتحادی مغربی طاقتیں مختلف قسم کے ہتھکنڈے بروئے کار لا کر ایسے اقدامات کرنے کے درپے ہیں جن کے ذریعے مستقبل قریب میں انصاراللہ یمن کے اچانک حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اسی طرح ان کا ایک اور مقصد یمن کیلئے میدان خالی نہ چھوڑنا ہے اور ممکنہ تلخ نتائج سے بچنا ہے۔ جس چیز نے انصاراللہ یمن کو جارح قوتوں، مغربی طاقتوں، علیحدگی پسند عناصر اور تل ابیب کیلئے ڈراونا خواب بنا دیا ہے اور وہ اس سے مقابلے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں، وہ توانائیاں اور صلاحیتیں ہیں جنہیں اب تک انصاراللہ نے ظاہر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے اندرونی سطح پر کچھ حد تک کشمکش کم ہونے کے نتیجے میں انصاراللہ یمن نے بھرپور انداز میں علاقائی سطح پر سرگرم ہو کر اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔