سلیمانی

سلیمانی

امریکہ میں حکمفرما عیسائی صیہونی ہر گز اسرائیل پر حکمفرما صیہونیوں سے کم نہیں ہیں۔ انہوں نے 7 اکتوبر کے روز طوفان الاقصی آپریشن انجام پانے کے بعد سے ہی اپنی نسل پرستانہ اور انسان مخالف مجرمانہ خصلت کا اظہار کر دیا تھا اور بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس پوری طرح نابود ہو جائے اور تمام اسرائیلی یرغمالی آزاد کروا لئے جائیں گے۔ دوسری طرف گذشتہ 18 برس سے شدید ترین محاصرے کا شکار غزہ کی پٹی کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کی انتقامی کاروائی اور اس میں بروئے کار لائی گئی انتہائی درجہ بربریت اور عام شہریوں کے قتل عام کو مسلسل 77 روز گزر جانے کے باوجود اسرائیل کچھ حاصل نہیں کر پایا۔
 
اب تک غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کو جو کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ بیگناہ شہریوں کی قتل و غارت اور وسیع پیمانے پر تباہی اور بربادی ہے۔ غزہ میں ایک ساتھ دو جنگیں چل رہی ہیں۔ اصلی جنگ صیہونیوں کی نگاہ سے غزہ کی عوام کے خلاف جاری ہے جبکہ بظاہر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کی جنگ اسلامی مزاحمت کے خلاف ہے۔ غزہ کی عوام کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ حق طلب ہیں، اپنی غصب شدہ سرزمین واپس چاہتے ہیں اور اس راستے میں استقامت اور مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی بے مثال مظلومیت کے باوجود عالمی سطح پر ایک ایسا معجزہ کر دکھایا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف دنیا بھر کی عوام ان پر جاری ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں بلکہ عرب حکومتیں بھی چیلنج کا شکار ہو گئی ہیں۔
 
عالمی سطح پر جاری عوامی احتجاج نے وائٹ ہاوس کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے جو غزہ جنگ کو شعلہ ور کرنے کے علاوہ روز بروز اس کی شدت میں اضافے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ امریکی حکمران ابھی سے ہی خود کو آئندہ الیکشن میں شکست خوردہ دیکھ رہے ہیں اور خود اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ عالمی سطح پر گوشہ گیری اور اجتماعی نفرت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ امریکی حکمران غزہ میں اور دنیا کے دیگر حصوں میں وسیع قتل عام کے منصوبے رکھتے ہیں لیکن وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں غزہ کی مکمل نابودی پر بات ختم نہیں ہو گی اور اس کے بعد اصل مسئلہ مغربی نظریات کا کھوکھلا پن اور جھوٹے نعروں کی حقیقت فاش ہو جانے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ وہ اسے مغربی ایشیا اور بین الاقوامی سطح پر اپنی اسٹریٹجک شکست سمجھتے ہیں۔
 
یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جک سیلیوان نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا تاکہ بنجمن نیتن یاہو کے سامنے اپنی جنگ پھیلانے کی پیاس پر تاکید کے ساتھ ساتھ اسے اس بات سے بھی خبردار کر سکے کہ غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کی اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں کارکردگی تقریباً صفر ہے جبکہ غزہ میں جاری نسل کشی امریکہ کو مہنگی پڑ رہی ہے۔ لہذا اس نے بنجمن نیتن یاہو کو دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے اور وہ اپنی کابینہ سے شدت پسند وزیروں کو نکال باہر کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ نیتن یاہو جو اپنی محدود سیاسی بقا کیلئے جنگ جاری رہنے کو ضروری سمجھتا ہے جانتا ہے کہ اگر اس نے اپنی کابینہ سے شدت پسند وزیروں کو نکال باہر کیا تو حکومتی اتحاد ٹوٹ جائے گا۔
 
بنجمن نیتن یاہو یہ بھی جانتا ہے کہ اگر وہ امریکہ کی جانب سے پیش کردہ نام نہاد دو ریاستی راہ حل قبول کرتا ہے تو اس کا مطلب اسرائیل میں تمام دائیں بازو کی اور شدت پسند جماعتوں کی سیاسی موت ہو گا۔ اگرچہ یہ دو ریاستی راہ حل محض دھوکہ اور فریب ہے اور اس کا واحد مقصد عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور دنیا کے دیگر ممالک کو فریب دینا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو کی حکومت شدت پسندی اور ہر قسم کی فلسطینی ریاست کی نفی اور غزہ میں مکمل نسل کشی پر اصرار جیسی بنیادوں پر استوار ہے۔ لہذا جک سیلیوان کے مطالبات نے اسرائیلی حکمرانوں کو ایک تضاد کا شکار کر دیا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے غزہ جنگ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی، امریکی، فرانسیسی اور جرمن کمانڈوز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ صیہونی رژیم کے اعلان کردہ جنگی مقاصد سے کوئی مقصد اب تک حاصل نہیں ہو پایا۔
 
دوسری طرف عالمی رائے عامہ میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور عالمی اداروں اور بین الاقوامی قوانین کے سامنے صیہونی رژیم اور مغربی حکمرانوں کی عزت بھی داو پر لگتی جا رہی ہے۔ اگرچہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے صیہونی رژیم کی لاجسٹک سپورٹ اپنے ذمے لے رکھی ہے لیکن بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کی مزاحمتی کاروائیوں نے صیہونی کابینہ سے طویل جنگ کی امید چھین لی ہے۔ لہذا ان دنوں مغربی حکمرانوں اور صیہونی رژیم کی جانب سے ایک اور جنگ بندی کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس جنگ بندی کا مقصد تازہ دم ہونا اور عالمی سطح پر غم و غصے کی شدت کم کرنا ہے۔ غزہ جنگ امریکہ کو بند گلی اور اسرائیل کو تضاد کا شکار کر چکی ہے۔ چاہے وہ جنگ بند کر دیں یا چند ہفتوں کیلئے مزید جاری رکھیں جس دلدل میں انہوں نے قدم رکھا ہے اس سے نکلنا ممکن نہیں۔
تحریر: ہادی محمدی
 
 
 

ایران کی نیشنل پیٹرولیم ڈسٹری بیوشن کمپنی کے سی ای او جعفر سالاری نسب نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں ملک میں فیول اسٹیشنوں کی تازہ ترین حالت کے بارے میں کہا کہ پہلے مرحلے میں ملک کے تمام پیٹرول اسٹیشنوں کو دستی طور پر فعال کردیا گيا تھا تاکہ ایندھن کی فراہمی میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا مرحلہ فیول کارڈ کو بحال کرنا تھا اور پیر کی رات تک ٪ 40 پیٹرول اسٹیشنوں کا سسٹم بحال کردیا گیا تھا۔

نیشنل پیٹرولیم ڈسٹری بیوشن کمپنی کے سی ای او نے یہ بات زور دے کر کہی کہ آج رات تک تمام فیول اسٹیشن کارڈ سسٹم کے ذریعے دوبارہ کام کرنا شروع کردیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مشرقی آذربائيجان صوبے کے دس ہزار شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کانفرنس کا اہتمام کرنے والے منتظمین نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات 6 دسمبر 2023 کو ہوئی جس میں خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کچھ ہدایات دیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کی یہ تقریر 14 دسمبر 2023 کو کانفرنس ہال میں دکھائی گئی۔(۱)

خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللّہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.

شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے رہنا معاشرے اور ہمارے آج اور کل کے لیے ضروری اور مفید

میں اس ضروری اور بہت مفید کام کا بہت شکر گزار ہوں جسے آپ عزیز بھائيوں اور بہنوں نے انجام دیا اور آذربائيجان اور تبریز کے شہیدوں کے نام اور ان کی یاد کو، جو یقینی طور پر ناقابل فراموش ہے، آپ نے زیادہ اعلی سطح پر اور زیادہ واضح انداز میں پیش کیا، یہ بہت ہی اچھا اور مناسب اقدام ہے۔ البتہ خراج عقیدت پیش کرنے کی پچھلی کانفرنس، جو کئي سال پہلے منعقد ہوئي تھی اور اس کانفرنس کے درمیان فاصلہ کچھ زیادہ ہو گيا، مناسب ہوگا کہ اس طرح کے اقدامات اور خراج عقیدت پیش کرنے کی کانفرنسیں، یاد منانے کے پروگرام جلدی جلدی دوہرائے جائیں، جس طرح سے کہ ہم ہر سال محرم میں شہدائے کربلا کی یاد مناتے ہیں، اس وقت مثال کے طور پر تیرہ سو سال ہو گئے ہیں اور یہ کام ہر سال دوہرایا جاتا ہے لیکن یہ دوہرایا جانا، تھکانے والے کاموں کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ معاشرے اور ہمارے آج اور کل کے لیے ضروری اور مفید کاموں میں سے ہے۔

خود پر نگرانی رکھنا، ہر شخص، قوم اور گروہ کے لیے ضروری

تبریز اور آذربائیجان کے بارے میں تعریفی باتیں کم نہیں ہیں، ہم نے بھی ہر سال آپ کے ساتھ اپنی سالانہ ملاقات میں، مسلسل اس سلسلے میں بات کی ہے۔ شہیدوں کے بارے میں آج کی اس نشست میں محترم امام جمعہ اور سپاہ کے محترم کمانڈر نے جو باتیں بھی کہی ہیں وہ بہت اچھی اور مکمل تھیں، وہ ساری سفارشیں جو ہم عرض کرنا چاہتے ہیں اور عام طور پر عرض کرتے ہیں، ان پر بحمد اللہ آپ حضرات کی توجہ تھی اور ان میں سے بہت سی باتوں پر آپ نے عمل بھی کیا ہے۔ میں بس اتنا عرض کروں کہ ہماری ایک ذمہ داری یہ ہے کہ خود پر، اپنے آپ پر نظر رکھیں۔ قوم اپنے تشخص کو فراموش نہ کرے، اگر اس نے اپنے تشخص کو بھلا دیا تو وہ نقصان اٹھائے گي، اسے چوٹ پہنچے گي، وہ پچھڑ جائے گي۔ خداوند عالم ان لوگوں کے بارے میں جو اس کی یاد کو بھلا چکے ہیں، فرماتا ہے: "نَسُوا اللَّہَ فَاَنساھُم اَنفُسَھُم"(2) انھوں نے خدا کو بھلا دیا، خدا نے انھیں خود ان ہی کی طرف سے غافل کر دیا اور انھیں ان کی طرف سے فراموشی میں مبتلا کر دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خود پر توجہ، اپنے تشخص پر توجہ، اپنی خصوصیات پر توجہ، ہر شخص، ہر قوم اور ہر گروہ کے لیے ایک ضروری کام ہے۔

صوبۂ آذربائيجان، ایرانی قوم کے درمیان ایک ممتاز تشخص کا حامل، بہادروں اور شہیدوں کا گہوارہ

آذربائیجان کو اس تشخص پر، جس نے اسے ممتاز بنا رکھا ہے، پوری توجہ رکھنی چاہیے۔ حقیقی معنی میں، جس علاقے کو ہم "آذربائيجان" کہتے ہیں، وہ ایرانی قوم کے درمیان ایک ممتاز تشخص کا حامل ہے۔ آذربائيجان بہادروں اور شہیدوں کا گہوارہ ہے۔یہ چیز مقدس دفاع سے مختص نہیں ہے، پہلے سے ہی ایسا رہا ہے، اب بھی ایسا ہی ہے۔ جہاں تک اسلامی انقلاب کی بات ہے، اگر ہم حساب کرنا چاہیں، انقلاب سے پہلے، یعنی امام خمینی اور ایرانی قوم کی تحریک کے آغاز سے، آذربائیجان میں شہادت کا کردار اور شہادت کا آہنگ شروع ہو چکا تھا جو اب تک ہے۔ دفاع حرم میں آذربائيجان کے خطے کے لوگ شہید ہوئے ہیں۔ البتہ ان قربانیوں کا نقطۂ عروج اور آذربائيجان کی اس اعلی قدر کے مظاہرے کا نقطۂ عروج، مقدس دفاع تھا اور یہی شخصیات جن کا جناب نے نام لیا: شہید آقا مہدی باکری، شہید حمید باکری، شہید تجلائي، شہید یاغچیان یہی نمایاں افراد تھے جو شہید ہوئے، ان میں سے بہت سے عزیز اور نمایاں افراد بحمد اللہ آج بھی حیات ہیں، یعنی شہادت پسندی اور ایثار و فداکاری کی یہ خصوصیت مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کے زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے سے لے کر آج تک جاری رہی ہے۔ اس شہر کے دو امام جمعہ شہید ہوئے ہیں(3) یعنی پورے ملک میں شہید ہونے والے پانچ ائمہ جمعہ میں سے، جو علمائے دین کے افتخارات کا حصہ ہیں،(4) دو ائمہ جمعہ تبریز شہر کے ہیں۔ یہ باتیں اہم ہیں، یہ بڑی نمایاں خصوصیات ہیں۔

معاشرے میں شہیدوں کی اخلاقی خصوصیات کو نمونۂ عمل بنا کر ان کی یاد کو زندہ رکھنے پر تاکید

جو بات میں نصیحت اور سفارش کے طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلے تو شہیدوں کے خون کی گرمی کو ٹھنڈا نہ ہونے دیجیے، یعنی شہیدوں کی یاد صرف ان کے واقعات کو بیان کرنا نہیں ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تقوی، وہ ایثار، وہ شجاعت اور وہ وجود کا درخشاں گوہر جو شہید باکری جیسے افراد کو میدان میں کھینچ لاتا ہے، اسے بیان کیا جائے، پہنچایا جائے تاکہ وہ نئی نسل کو آئيڈیل دے۔ ہمارے جوان کو آئيڈیل کی ضرورت ہے اور سب سے اچھے آئيڈیل یہ ہیں۔ بعض قومیں، جن کے ہاتھ اس لحاظ سے بالکل خالی ہیں یا بڑی حد تک خالی ہیں، وہ آئيڈیل بناتی ہیں، بغیر وجود کے آئيڈیل گڑھتی ہیں۔ ہمارے سامنے تو یہ آئيڈیل موجود ہیں۔ شہید باکری کو صرف میدان جنگ میں نہیں دیکھنا چاہیے، محاذ کے پیچھے بھی دیکھنا چاہیے، تبریز یونیورسٹی میں بھی دیکھنا چاہیے، ان کی انقلاب سے پہلے کی سرگرمیوں کو بھی دیکھنا چاہیے، اس جذبے کو بھی دیکھنا چاہیے۔ میں انقلاب سے پہلے مشہد میں شہید آقا مہدی باکری سے ملا تھا، جوشیلے، سمجھدار، دلچسپی لینے والے، واقعات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے۔ یہی باتیں سبب بنیں کہ بعد میں وہ جنگ میں، مقدس دفاع کے میدان میں اس طرح سے نکھرے، ابھر کر سامنے آئے اور دلوں کو اپنی طرف مائل کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ یہ جذبہ لوگوں تک پہنچایا جانا چاہیے۔ ہم اگر کوئي فلم بناتے ہیں، کوئي نظم لکھتے ہیں، کوئي کتاب تحریر کرتے ہیں، یادگار واقعات کو اکٹھا کرتے ہیں اور انھیں نشر کرتے ہیں، شائع کرتے ہیں تو ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ یہ جذبہ دوسروں تک پہنچے، یہ تعمیری جذبہ ہے۔ یہ پہلی بات ہوئي کہ شہیدوں کے خون کی گرمی کو ٹھنڈا نہ ہونے دیجیے، جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا، سید الشہداء علیہ السلام کی عزاداری کی طرح، یعنی جس طرح ہر سال محرم میں ہوتا ہے، جب عاشورا کا دن آتا ہے تو گويا آپ سنہ اکسٹھ ہجری کے عاشورا کو اپنے سامنے دیکھتے ہیں، واقعات آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں، سننے والے کی نظروں کے سامنے شخصیتیں مجسم ہو جاتی ہیں، یہی چیز دفاع مقدس کے شہیدوں اور ان دس ہزاروں شہیدوں کے بارے میں بھی ہونی چاہیے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا۔

شہیدوں کے حالات و واقعات کو رقم اور محفوظ کرنے کے لیے ان کے اہل خانہ، رفقائے کار اور دوستوں سے استفادہ

دوسری بات یہ ہے کہ شہیدوں کے اہل خانہ کو نہ بھولیے۔ افسوس کہ بہت سے والدین دنیا سے گزر چکے ہیں، اپنے شہیدوں سے ملحق ہو چکے ہیں، اب جو لوگ ہیں، چاہے وہ شہیدوں کی بیویاں ہوں یا ان کے والدین ہوں، ان کی یادوں سے، ان کی باتوں سے استفادہ کیجیے۔ اسی طرح شہیدوں کے رفقائے کار اور دوستوں سے بھی، مثال کے طور پر جنگ کے دوران شہید باکری کے کافی رفقائے کار تھے جن میں سے بعض بحمد اللہ اس وقت حیات ہیں، صحت مند ہیں، آمادہ ہیں، انھوں نے میدان جنگ میں ان کی زندگي کی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی دیکھی ہے۔ شجاعت صرف جنگ کرنے میں نہیں ہوتی، شجاعت اپنے نفس پر کنٹرول میں، شجاعت بات کرنے میں، شجاعت بات نہ کرنے میں، شجاعت اقدام کرنے میں اور اقدام نہ کرنے میں بھی ہوتی ہے، یہ ساری چیزیں اہم ہیں۔ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے انھیں قریب سے دیکھا ہے، پہچانا ہے، ایسے لوگوں سے استفادہ کیا جائے، ان سے انٹرویو لیا جائے، بات کی جائے، شہیدوں کے حالات حقیقی دستاویز کے طور پر ریکارڈ ہوں اور پہچانے جائيں۔ یہ دوسری بات ہوئي۔

شہیدوں کے عروج کی راہوں کی شناخت کی ضرورت

ایک اور بات یہ ہے کہ جب شہیدوں کی بات کی جائے تو ان چیزوں کو بھی متعارف کرایا جائے جنھوں نے ان کے عروج کی راہ ہموار کی۔ مثال کے طور پر لوگ یا وہ افراد جنھوں نے ابتدائي چنگاریوں کو وجود عطا کیا، جیسے شہید قاضی طباطبائي نے انقلاب کے معاملات میں، مثال کے طور پر 18 فروری 1978 کو وہ تھے جنھوں نے پہلی چنگاری پیدا کی، سب سے پہلے اقدام کیا، لوگوں کو اپنے مکان اور اپنی مسجد میں آنے کی دعوت دی اور اس دن کی باقی باتیں؛ مطلب یہ کہ وہ چیزیں واضح ہوں جنھوں نے راہ ہموار کی۔ قم کے واقعے کے بعد سب سے پہلا اقدام فلاں شہر اور فلاں شہر میں نہیں بلکہ تبریز میں کیا گيا، اس کی وجہ کیا ہے؟ یہاں کے لوگوں میں کیا خصوصیت ہے کہ وہ اس طرح کے جوانوں کو معرض وجود میں لاتے ہیں، اس طرح پرورش کرتے ہیں، اس طرح شہیدوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں؟ یہ چیزیں بہت اہم ہیں، یعنی قومی تشخص، ملی تشخص اور دینی تشخص۔ میں نے ایک بار ان ہی آذربائیجانی بھائيوں اور بہنوں کے اجتماع میں کہا تھا(5) کہ جب مرحوم ستار خان نے 'تحریک مشروطہ' میں اور اس دوران جو اقدامات انھوں نے کیے تھے، اس وقت ان کی جیب میں علمائے نجف کی تحریر موجود تھی، یعنی انھوں نے علمائے نجف سے استفتاء کیا تھا، سوال پوچھا تھا اور انھوں نے بھی انھیں جواب دیا تھا، وہ اس نیت سے آگے بڑھ رہے تھے، یہ بہت اہم ہے۔ آگے بڑھنے کی وجہ کیا ہے، محرّک کیا ہے، یہ واضح ہونا چاہیے، یہ اس کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر یہ کام ہو گيا تو پھر قدم بڑھتے رہیں گے۔

مقدس دفاع کے مؤثر اور نادر واقعات کو ایرانی قوم کے تاریخی حافظے میں ثبت کرنے کی اہمیت

31 عاشورا ڈویژن کا کردار تو واضح ہے، ایسی شخصیات تھیں جنھوں نے واقعی اپنی چمک دکھائي، میں سیکنڈ ٹیکٹکل ایئر بیس(6) کے رول کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا: جنگ کے بالکل ابتدائي دنوں میں ہمارے جنگي طیاروں کے اس عظیم اقدام نے، جنھوں نے سیکنڈ ایئر بیس اور دوسرے بیسز سے، تھرڈ(7) اور فورتھ ایئر بیس(8) سے اڑان بھری تھی اور وہ بڑا کارنامہ انجام دیا تھا، جنگ کے پہلے ہی ہفتے میں یہ کام کر دیا تھا اور میں نے اسی وقت پارلیمنٹ میں جا کر اراکین پارلیمنٹ کو اس کی تفصیلات بتائي تھیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو قابل توجہ اور بہت اہم ہیں اور ان شاء اللہ انھیں ذہنوں میں باقی رہنا چاہیے، ایرانی قوم کے تاریخی حافظے میں ثبت ہو جانا چاہیے، مطلب یہ کہ سب سے اہم کام یہ ہے کہ ان اہم واقعات کو، ان مؤثر اور نادر اور بعض مواقع پر بے نظیر واقعات کو ایرانی قوم کے تاریخی حافظے میں ثبت کرنا چاہیے اور ہمارے جوانوں اور بچوں کو ان کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ البتہ اب تک ہم نے کسی حد تک تساہلی دکھائي ہے نتیجتا ہمارے بہت سے جوان، ہمارے بہت سے بچے، نمایاں شخصیات کو نہیں پہچانتے اور بہت سے اہم واقعات کا علم نہیں رکھتے، ہمیں ان چیزوں کو ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے اور اسی طرح کے دوسرے سرکاری تشہیراتی اداروں سے بھی اور ان وسائل کے ذریعے بھی جو آج لوگوں کے پاس اور ان کی دسترس میں ہیں، نشر اور شائع کرنا چاہیے۔

میں دعاگو ہوں کہ خداوند عالم آپ سبھی کو توفیق عطا کرے اور آپ اس عظیم کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائيں اور ان شاء اللہ مستقبل میں، خراج عقیدت کی ان کانفرنسوں اور نشستوں کے درمیان کا وہ فاصلہ، جو آج اور پچھلی کانفرنس کے درمیان کا ہے، مزید کم ہو۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتداء میں مشرقی آذربائيجان میں ولی فقیہ کے نمائندے اور تبریز کے امام جمعہ حجت الاسلام سید محمد علی آل ہاشم اور مشرقی آذربائيجان صوبے میں سپاہ عاشورا کے کمانڈر اور کانفرنس کے سیکریٹری بریگیڈیر جنرل اصغر عباس قلی زادہ نے رپورٹیں پیش کیں۔

(2) سورۂ حشر، آيت 19، وہ اللہ کو بھول گئے تواللہ نے ان کو اپنا آپ بھلا دیا۔

(3) شہید آيت اللہ سید محمد علی قاضی طباطبائي اور شہید آیت اللہ سید اسد اللہ مدنی

(4) شہید آیت اللہ محمّد صدوقی، شہید آیت اللّہ عطاء اللّہ اشرفی اصفہانی، شہید آیت اللّہ سیّد عبد الحسین دستغیب، شہید آیت اللّہ سیّد محمّد علی قاضی طباطبائی اور شہید آیت اللّہ سیّد اسد اللّہ مدنی

(5) مشرقی آذربائيجان صوبے کے عوام سے خطاب (16/2/2013)

(6) شہید فکوری سیکنڈ ایئر بیس، تبریز

(7) شہید نوژہ تھرڈ ایئر بیس، ہمدان

(8) شہید وحدتی فورتھ ایئر بیس، دزفول


امریکہ نے صیہونی حکومت کے اہم حامی کے طور پر غزہ جنگ کے دوران نہ صرف صیہونی حکومت کی وسیع سیاسی اور فوجی مدد کی ہے بلکہ امریکی انتظامیہ نے فلسطینیوں کے حامیوں اور اسرائیل کے جرائم پر تنقید کرنے والوں کے خلاف بھی دباؤ بڑھا رکھا ہے۔ مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے فلسطین کے حامیوں بالخصوص یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور اسٹوڈینٹس کو ہر قسم کے دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔ بعض پروفیسروں کو اپنی ملازمتوں سے محروم ہونے یا استعفیٰ دینے پر مجبور ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں ریاستہائے متحدہ کانگریس کی تعلیم اور افرادی قوت سے متعلق کمیٹی نے 5 دسمبر کو یونیورسٹی آف پنسلوانیا کی صدر "لِز میگل"، ہارورڈ یونیورسٹی کی صدر "کلاؤڈین گی" اور میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی صدر "سیلی کورن بلوتھ" کو تفتیش کے لئے بلایا۔ یہ کارروائی کانگریس کی جانب سے غزہ کی پٹی کے لیے حمایت کا اعلان کرنے کے لیے بعض امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ کے اقدامات کی مذمت میں ایک قرارداد کی منظوری کے بعد ہوئی ہے۔

اس قرارداد کے مطابق حماس، حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروپوں کی امریکی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حمایت مبینہ "دہشت گردی" کی حمایت سمجھی جائے گی۔ اگرچہ مذکورہ قرارداد میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ محض ایک علامتی اقدام ہے، لیکن امریکی یونیورسٹی کے صدور کے تفتیشی پروگرام نے اس دعوے کے برعکس ظاہر کیا اور ثابت کیا کہ قرارداد کے مواد پر امریکی یونیورسٹیوں میں باقاعدہ عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں امریکی یونیورسٹی کے طلباء کی سیلف سنسر شپ اور اس کی وجوہات کے بارے میں شائع ہونے والا ڈیٹا اس معاملے کی سچائی کو ثابت کررہا ہے۔

امریکی کانگریس کے مطالبے کے بعد یونیورسٹی آف پنسلوانیا کی صدر "لِز میگیل" جنہیں اس یونیورسٹی کے کیمپس میں فلسطین کے مظلوم عوام کے حامیوں کے مظاہرے کے بعد امریکی کانگریس میں طلب کیا گیا، ریاستی دھمکیوں کی وجہ سے پیر کے روز اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئیں۔ پنسلوانیا یونیورسٹی کے طلباء نے اس سے قبل صیہونی حکومت کے جرائم پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں شہریوں کے قتل عام کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس یونیورسٹی میں ہونے والے مظاہرے میں "Liz Magill" کو اسرائیل کے حامیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

 ایک اور تقریب میں ہارورڈ یونیورسٹی کے چار طلباء کو غزہ کے عوام کی حمایت اور احتجاجی ریلیوں میں شرکت کرنے پر یونیورسٹی کی تادیبی کمیٹی میں بلایا گیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس یونیورسٹی میں فلسطین کے حامیوں کی طرف سے مظاہروں کو ایک ناقابل قبول رویہ قرار دیکر اسے تعلیم  اور تعلیمی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں گذشتہ ماہ فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے احتجاج میں حصہ لینے والے طلباء کو خبردار کیا جائے گا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے طالبعلم "کوجو اچمپونگ" کا کہنا ہے کہ: تادیبی کارروائیوں میں طلباء کی پڑھائی کی معطلی بھی شامل ہوسکتی ہے۔ لیکن ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ (یونیورسٹی حکام) ہمیں نہیں روک سکتے اور یہ اقدامات ہمیں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی سے نہیں روک سکتے۔

 اسرائیل کے لیے انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والی بائیڈن کی جمہوری حکومت کی وسیع حمایت کے باوجود، امریکہ کے اندر عوام، اشرافیہ، خاص طور پر طلباء اور پروفیسرز غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مخالفت اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے امریکی یونیورسٹیاں فلسطینی قوم کے حامیوں اور صیہونی حکومت کے درمیان تصادم کا مرکز اور 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن اور غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے بعد کے ہفتوں میں مختلف احتجاجی ریلیوں کا مرکز بن چکی ہیں۔ صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینیوں کی حمایت میں یونیورسٹی کے پروفیسرز کے موقف اور اسرائیلی جرائم کے خلاف طلباء کے احتجاج ن کی وجہ سے ان کے خلاف  ریاستی دباؤ بڑھا دیا گیا ہے۔

 یہود دشمنی کے الزامات کے ذریعے امریکی ماہرین تعلیم پر لایا جانے والا دباؤ اس حقیقت کا باعث بنا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ خود سنسر شپ کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور یہاں تک کہ ان تنازعات کے بارے میں علمی رائے دینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ امریکہ میں مشرق وسطیٰ کے 80 فیصد پروفیسرز اور طلباء کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی جرائم کے بارے میں سیلف سنسر کے فارمولے پر عمل کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی حمایت میں وسعت اور غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت نے امریکی انتظامیہ کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ امریکی یونیورسٹیوں کی سطح بالخصوص یونیورسٹی کے مراکز کی انتظامیہ نیز طلباء اور پروفیسروں کو ڈرا دھمکا اور انہیں نکالنے کی دھمکیاں دے کر خاموش کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے صدر کے حوالے سے تادیبی کارروائی نے ایک بار پھر مغرب اور خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ میں آزادی اظہار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

 اہل مغرب ان لوگوں کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کرتے ہیں، جو ان کے نقطہ نظر سے مقدس اور ناقابل اعتراض معاملات میں غیر روایتی یا غیر مجاز موقف اختیار کرتے ہیں۔ مغرب کے حکمران ان کے خلاف ہر قسم کے دباؤ اور سزائیں لاگو کرتے ہیں۔ درحقیقت امریکہ سمیت مغربی ممالک میں اظہار رائے کی آزادی صرف اس وقت تک موجود ہے، جب تک کہ کوئی ان کی سرخ لکیروں یا ان ممالک کے نام نہاد ممنوعات، مثلاً صیہونی حکومت یا ہولوکاسٹ کی مکمل حمایت پر سوالیہ نشان نہیں لگاتا۔ جیسے ہی اس ایشو پر یا فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کے جرائم کی مذمت کے بارے میں کوئی چھوٹا سا بھی سوال اٹھائے تو اس طرح کے اقدامات کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جاتی ہے۔

تحریر: سید رضا میر طاہر

Wednesday, 13 December 2023 02:02

آیت حجاب کا شان نزول

مورخین نے صر اسلام کے حالات اور اس دور کی تاریخ کے باب میں یہ تحریر کیا ہے کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانہ میں خواتین پردہ کرتی تھیں البتہ ان کا حجاب اور پردہ ، کامل اور جس قسم کے پردہ کا حکم اسلام نے دیا ہے ویسا پردہ نہ تھا، عرب خواتین معمولا لمبے لمبے لباس پہنا کرتی تھیں مگر گلہ کھلا ہوتا تھا ، گردن اور سینہ کا بالائی کچھ حصہ قابل دید تھا، سر پر جو اسکارف اور دوپٹہ ڈالتیں اسے اپنی پشت پر ڈال دیتیں، جس کی وجہ سے انکا کان ، کان کی بالیاں ، گردن اور سینہ کا بالائی  حصہ قابل دید ہوجاتا ۔ (۱)

امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت نے فرمایا : ایک دن گرمی کے موسم میں مدینہ کی گرم ہوا میں ایک خوبصورت عورت معمول کے مطابق سر پر اسکارف باندھے ، اسکارف کے سرے کو اپنی پشت پر ڈالے کہ جس کی وجہ سے ان کی گردن اور کان دِکھ رہا تھا، گلی سے گذر رہی تھی ، اصحاب پیغمبر اسلام (ص) میں سے ایک صحابی سامنے کی گلی سے ارہے تھے ، وہ اس حَسِین اور خوبصورت منظر کو دیکھنے میں اس قدر محو ہوگئے کہ اپنے اطراف سے غافل ہوگئے اپنے سامنے کا راستہ بھی نہیں دیکھ رہے تھے ، وہ عورت گلی میں داخل ہوگئی مگر صحابی کی نگاہیں اس کا تعاقب کرتی رہیں کہ ناگہاں اپ کا چہرہ  دیوار سے  باہر نکلے ہوئے شیشہ کے ٹکڑے سے ٹکرایا اور اپ کی صورت زخمی ہوگئی ، جب وہ غفلت سے چونکے تو ان کے چہرہ خون سے لد پھد رنگین اور زخمی ہوچکا تھا، وہ اسی حالت میں رسول اسلام (ص) کی خدمت میں پہونچے اور انہوں نے مرسل اعظم (ص) سے تمام ماجرا بیان کیا ۔ (۲)   

یہ وہ مقام ہے جس کے بعد رسول اسلام (ص) پر آیت حجاب نازل ہوئی « وَ قُلْ لِلْمُؤْمِناتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَ لا یُبْدینَ زینَتَهُنَّ إِلاَّ ما ظَهَرَ مِنْها وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلی جُیُوبِهِنَّ وَ لا یُبْدینَ زینَتَهُنَّ .... ؛  اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں ۔ » (۳)

اس ایت کریمہ کے لب و لہجہ سے یہ بات واضح اور روشن ہے کہ مذکورہ ایت حجاب اور پردہ کے دائرہ اور محدودہ کو بیان کررہی ہے کیونکہ صدر اسلام کی عورتوں کے بدن ، لمبے لباس اور پہناوے سے ڈھکے ہوئے تھے مگر گردن اور سینہ کا بالائی حصہ کھلا ہوا تھا ۔

اس ایت میں موجود اس ٹکڑے « لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلی جُیُوبِهِنَّ » کے سلسلہ میں راغب اصفھانی فرماتے ہیں کہ خمر کے لغوی معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اور خمار اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو ڈھکا یا چھپایا جائے مگر عرف عام میں خمار اس کپڑے سے مخصوص ہے جس سے عورت اپنا سر چھپاتی اور ڈھکتی ہے (۴)

بیان کیا جاتا ہے کہ اس ایت کے نازل ہونے کے وقت عرب معاشرہ کی خواتین اپنے اسکارف کے چاروں کونے سمیٹ کر اپنی پشت پر ڈال دیتی تھی جس کے نتیجہ میں ان کا گلا اور سینہ کا اوپری حصہ کھل جاتا تھا ۔ (۵) تو پھر ایت کے معنی اور اس کی تفسیر یہ ہوئی کہ عورتیں اپنا اسکارف سمیٹ کر اپنی پشت پر ڈالنے سے پرھیز کریں ، اس سے اپنی گردن اور اس کے نیچے کے حصہ کو بھی چھپائیں تاکہ ان کی گردن اور سینہ کا اوپری حصہ بھی ڈھکا رہے ۔

ابن عباس اس ایت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ «تغطی شعرها، و صدرها، و ترائبها و سوالفها» یعنی عورت اپنا بال ، اپنا سینہ، گردن کے اطراف اور گردن کے نیچہ کا حصہ چھپائے رکھے ۔ (۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: شھید مطهری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج 19، ص 484- 485
۲: فیض کاشانی، تفسیر صافی، ج 5، ص 230 اور شھید مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، ج 19، ص 485
۳: قران کریم، سورہ نور، ایت 31
۴: راغب اصفهانی، مفردات الفاظ قرآن، لفظ خمر
۵: قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، ج 2، لفظ حجب
۶: طبرسی، مجمع البیان، ج 4، ص 138

 


 

فاطمیہ کیا ہے ، اس کی اہمیت کیا ہے ، رحلت پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کیا حالات پیش آئے ، ان حالات اور واقعات کا ہمارے عقائد اور ہمارے دین سے کیا تعلق ہے ، اور کیوں بعض حضرات مسلسل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ فاطمیہ کو ختم کردیں یا حداقل ان ایام کی اہمیت کو کم اہمیت یا کم فروغ بنادیں ؟ کیونکہ فاطمیہ تشیع کی بنیاد اور عقائد کے ایک اہم مسٔلہ کو حل کر رہی ہے اور اس مسٔلہ کا تعلق امامت و ولایت اہلبیت طاہرین علیہم السلام جیسے عظیم ، اہم اور بنیادی مسٔلہ سے ہے جس کے بارے میں نبی گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قرآن دوسرے میری عترت جو میرے اہلبیت ہیں اور جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہونچے۔ (۱)

حدیث ثقلین میں نبی گرامی اسلام ، امت کی نجات کا ذریعہ قرآن اور اہلبیت کو پہچنوا رہے ہیں اور امت کو قرآن اور ان ذوات مقدسہ سے متمسک ہونے کا دستور دے رہے ہیں اور اس بات پر تاکید فرما رہے ہیں کہ میرے بعد گمراہی سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ انسان قرآن اور اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے دامن کو تھام لے ان سے متمسک ہوجائے اور جب تک انسان ان کا دامن تھامے ہوئے ہے گمراہی سے بچا ہوا ہے اور جہاں ان کا دامن ہاتھ سے چھوٹا انسان گمراہی کے دلدل میں گرتا چلا جائے گا۔

اسی طرح آپ ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں : جو اپنے زمانہ کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ (۲)

امام حسین علیہ السلام بھی اسی مطلب کی جانب ایک حدیث میں اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اللہ جل ذکرہ نے انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لئے کہ اس کی شناخت حاصل کریں اور جب اس کو پہچان لیں گے تو اس کی عبادت کریں گے اور اگر اس کی عبادت کریں گے تو اس کے علاوہ دوسروں کی عبادت سے بے نیاز ہوجائیں گے۔

ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا : اے فرزند رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے بتائیے اللہ کی معرفت کیا ہے ؟ امام نے فرمایا : ہر عصر کے لوگوں کا اپنے زمانہ کے اس امام کی معرفت حاصل کرنا جس کی اطاعت ان پر واجب ہے۔ (۳)

جاری ہے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

۱: صحیح ترمذی ، ج ۵ ، ص ۶۶۲ و ۳۲۸ ؛ مستدرک حاکم ، ج ۳ ، ص ۱۰۹ ، ۱۱۰ ، ۱۴۸ ، ۵۳۳ ؛ سنن ابن ماجه ، ج ۲ ، ص ۴۳۲ ؛ مسند احمد بن حنبل ، ج ۳ ، ص ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۶ ، ۵۹ ، ج ۴ ، ص ۳۶۶ ، ۳۷۲–۳۷۰ ؛ فضائل الصحابه ، احمد بن حنبل ، ج ۲ ، ص ۵۸۵ ؛ خصایص نسایی ، ص ۲۱، ۳۰ ؛ صواعق المحرقه ، ابن حجر هیثمی ، فصل ۱۱، بخش ۱ ، ص ۲۳۰ ؛ کنزالعمال ، متقی هندی ، ج ۱، ص ۴۴ ؛ تفسیر ابن کثیر، ج ۴، ص ۱۱۳ ؛ طبقات الکبری ، ابن سعد ، ج ۲، ص ۱۹۴؛ مجمع الزوائد ، هیثمی ، ج ۹، ص ۱۶۳ ؛ تاریخ ابن عساکر، ج ۵، ص ۴۳۶ ؛ درالمنثور، حافظ سیوطی، ج ۲، ص ۶۰ ؛ ینابیع الموده ، قندوزی حنفی ، ص ۳۸ ، ۱۸۳ ، مختلف عبارتوں کے ساتھ ، إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ اَلثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي [مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَبَداً] وَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ اَلْحَوْضَ ۔

۲: کلینی ، کافی ، ج۳، ص۵۸ ؛ شیخ صدوق ، کمال الدین ،‌ ج۲، ص۴۰۹۔ ابن حنبل ، مسند احمد ، ج ۲۸، ص ۸۸۔  ابوداؤد ، مسند ، ج ۳ ، ص ۴۲۵۔ مَنْ ماتَ وَ لَمْ یعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیة۔

۳: الشيخ الصدوق ، علل الشرائع ،   ج ۱ ،  ص ۹ ، حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ خَرَجَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ (ع) عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلَّا لِيَعْرِفُوهُ فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَنْ سِوَاهُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَمَا مَعْرِفَةُ اللَّهِ قَالَ مَعْرِفَةُ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ إِمَامَهُمُ الَّذِي يَجِبُ عَلَيْهِمْ طَاعَتُهُ۔

مصنف: سید باقری

فساد، بدعنوانی ، رشوت، سود خوری، ظلم و جنایت یہ تمام چیزیں اسلام کی نگاہ میں حرام عمل ہیں، اسلام نے کسی بھی صورت انہیں قبول نہیں کیا کیوں کہ ان میں سے بعض کی حالت فتنہ کے مانند ہے کہ اگر معاشرہ میں پھیل گیا تو پورا کا پورا معاشرہ فاسد ہوجائے گا ، جیسا کہ قران کریم نے فرمایا: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ؛ اور اس فتنہ سے بچو جو صرف ظالمین (جن لوگوں نے فتنہ پروری کی ہے) کو پہنچنے والا نہیں ہے (دوسروں کے بھی دامن گیر ہوگا)۔ (۱)  

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام رشوت لینے اور دینے کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: و قد عَلِمتُم أنَّهُ لا يَنبَغِي أن يكونَ الوالِي على الفُرُوجِ و الدِّماءِ و المَغانِمِ و الأحكامِ و إمامَةِ المسلمينَ البَخِيلُ ··· و لا المُرتَشِي في الحُكمِ ؛ فَيَذهَبَ بالحُقوقِ ، و يَقِفَ بِها دُونَ المَقاطِعِ ۔ (۲) اور اپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی ناموس ، جان ، غنمیت، احکام اور رہبریت کے ذمہ دار، ہرگز بخیل انسان کو نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔ اور نہ ہی مسند قضاوت پر رشوت لینے والا ہو کہ اس حالت میں لوگوں کے حقوق ضائع ہوجائیں گے اور حق حقدار تک نہیں پہونچے گا۔

یا مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سود خوری کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : إِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا وَ مُؤْكِلَهُ وَ كَاتِبَهُ وَ شَاهِدَيْهِ ؛ خداوند عزوجل نے سود خور ، سود دینے والے اور سود لکھنے والے پر لعنت کی ہے ۔ (۳) چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا: دِرْهَمُ رِبا أَعْظَمُ عِنْدَ اللّه مِنْ سَبْعينَ زِنْيَةً بِذاتِ مَحْرَمٍ فى بَيْتِ اللّه الْحَرامِ وَ قَالَ: اَلرِّبَا سَبْعُونَ جُزْءاً فَأَيْسَرُهَا مِثْلُ أَنْ يَنْكِحَ اَلرَّجُلُ أُمَّهُ فِي بَيْتِ اَللَّهِ اَلْحَرَامِ ؛ سود کا ایک درہم خداوند متعال کے نزدیک ۷ بار محارم کے ساتھ خانہ خدا میں زنا کرنے سے بدتر ہے اور فرمایا : سود کے ستر اجزاء ہیں کہ ان میں سے سب سے کم، مرد کا اپنی ماں کے ساتھ خانہ خدا میں نکاح کرنا ہے ۔ (۴)

رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ظلم و جنایت کے سلسلہ میں فرمایا : اَلظُّلْمُ ثَلاثَةٌ: فَظُلْمٌ لايَغْفِرُهُ اللّه ُ وَظُلْمٌ يَغْفِرُهُ وَظُلْمٌ لايَتْرُكُهُ، فَأَمَّا الظُّلْمَ الَّذى لايَغْفِرُ اللّه ُ فَالشِّرْكُ قالَ اللّه ُ: «إنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظيمٌ» وَأَمَّا الظُّلْمَ الَّذى يَغْفِرُهُ اللّه ُفَظُلْمُ الْعِبادِ أَنْفُسَهُمْ فيما بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَبِّهِمْ وَأَمَّا الظُّلْمَ الَّذى لا يَتْرُكُهُ اللّه ُ فَظُلْمُ الْعِباد ِبَعْضُهُمْ بَعْضا ؛ ظلم کی تین قسمیں ہیں ، ایک وہ ظلم جو قابل بخشش نہیں ہے ، دوسرے وہ ظلم جو قابل بخشش ہے اور تیسرے وہ ظلم جو قابل گذشت نہیں ہے ۔ وہ ظلم جو قابل بخشش نہیں ہے وہ خدا کو شریک قرار دینا ہے اور اس سلسلہ میں فرمایا : «إنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظيمٌ» اور وہ ظلم جو قابل بخشش ہے وہ بندے کا خود پر ظلم ہے اور وہ ظلم جو قابل گذشت نہیں ہے وہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم ہے ۔ (۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: قران کریم ، ، سورہ انفال ، ایت ۲۵ ۔

۲: نہج البلاغۃ ، خطبة ۱۳۱ ۔

۳: شیخ صدوق، من لایحضره الفقیۃ ج۴ ، ص۸ ، ح ۴۹۶۸ ؛ و شیخ صدوق، امالى، ص۴۲۵، ح۱ ۔

۴: مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۱۰۰، ص۱۱۷، ح ۱۳؛ و حویزی، عبد علی بن جمعه، تفسیرنورالثقلين، ج ۱، ص۲۹۵، ح۱۱۷۷۔

۵: پاینده ، ابوالقاسم، نہج الفصاحۃ، ح۱۹۲۴۔

اسلام ٹائمز۔ حماس تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن عزت الرشق نے سلامتی کونسل کی قرارداد کے مسودے کو ویٹو کرنے کے امریکی اقدام کی شدید مذمت کی ہے، جس میں غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خبررساں ادارے تسنیم نیوز کے مطابق تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے رکن عزت الرشق نے کہا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے مسودے کے خلاف امریکی ویٹو، جس میں غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے، ایک غیر اخلاقی اور غیر انسانی موقف ہے۔ تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے رکن نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ بند کرنے کی قرارداد کے اجراء میں واشنگٹن کی رکاوٹ فلسطینی قوم کو قتل کرنے اور ان کی نسلی تطہیر میں مزید جرائم کے ارتکاب میں قابضین کے ساتھ براہ راست شرکت ہے۔

13 ممالک کی منظوری، امریکہ کی مخالفت اور ویٹو اور برطانیہ کی عدم شرکت کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمائندے نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ واشنگٹن غزہ میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی درخواستوں کی حمایت نہیں کرتا۔ سلامتی کونسل میں امریکی نمائندے نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہم ایسی قرارداد کو ووٹ نہیں دے سکتے، جس میں اسرائیلی شہریوں کے خلاف حماس کی دہشت گردی کی مذمت نہ ہو۔ اس رپورٹ کے مطابق برطانیہ نے اس قرارداد کے مسودے کے بارے میں ووٹ دینے سے پرہیز کیا اور کونسل کے دیگر ارکان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔

سلامتی کونسل میں چین کے نمائندے نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ امریکہ نے غزہ میں مسلسل ہلاکتوں کے باوجود جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف اپنا ویٹو استعمال کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے نمائندے نے غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے پر امریکی اقدام پر تنقید کی۔ امریکہ ایک بار پھر غزہ میں جنگ بندی میں رکاوٹ بن گیا اور جنگ بندی کو نہ روکنے کا مطلب ہزاروں اور شاید لاکھوں فلسطینیوں کے لیے امریکہ کی جانب سے سزائے موت کا حکم صادر کرنا ہے۔

دیگر ذرائع کے مطابق امریکا کی جانب سے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد ویٹو کرنے پر حماس کا ردعمل آگیا۔ حماس کے رہنماء عزت الرشق کا کہنا ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے غیر اخلاقی اور غیر انسانی مؤقف اپنایا،  امریکا نے ہمارے لوگوں کی نسل کشی میں اسرائیل کی مدد کی ہے۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے سکیورٹی کونسل میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کی قرارداد پر 15 میں سے 13 ارکان نے حمایت میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ غیر حاضر رہا۔ اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ وڈ کا کہنا تھا کہ قرارداد کا ڈرافٹ غیر متوازن ہونے کے علاوہ حقیقت سے ہم آہنگ نہیں ہے، اس قرارداد سے معاملے کا کوئی ٹھوس حل نہیں نکل سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا اس مسئلے میں دیرپا قیام امن کی بھرپور حمایت کرتا ہے، جس سے دونوں فریق یعنی اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے کے ساتھ امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں۔ رابرٹ وڈ کا کہنا تھا کہ ہم اس قرارداد کی حمایت نہیں کرسکتے، جو غیر پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہے، اس سے صرف ایک نئی جنگ کا بیج بویا جا سکتا ہے۔ امریکی نمائندے نے قرارداد میں ترامیم تجویز کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کو بہتر بنانے کے لیے اس میں حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کی مذمت کو شامل کیا جائے، جس میں 1200 اسرائیلی ہلاک اور 240 سے زائد یرغمالی بنالیے گئے تھے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل امریکا نے رواں برس اکتوبر میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ جنگ بندی کیلئے برازیل کی قرارداد کو بھی ویٹو کر دیا تھا۔

Sunday, 10 December 2023 19:22

نقل مکانی

غاصب اسرائیل کی آبادی کے مسئلے کی دو جہتیں ہیں، ایک جذب اور امیگریشن اور دوسری ریورس مائیگریشن۔ اگرچہ یہ دونوں جہتیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں، لیکن ان میں مختلف حالات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ جب بھی بحران اور جنگیں کم ہوئیں، قدرتی طور پر یہودیوں کو زیادہ جذب اور قبول کیا گیا، لیکن جب بھی بحران سنگین اور جنگیں ملک گیر اور انتفاضہ شروع ہوا تو الٹی ہجرتیں زیادہ ہوئیں۔ صیہونی حکومت کے لیے سب سے اہم اور بنیادی مسائل میں سے ایک جو سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے، وہ آبادی کا مسئلہ ہے۔ درحقیقت فلسطین پر قبضے اور فرضی حکومت کے قیام کے لیے زمین کی تشکیل کے بعد سے آبادی کا مسئلہ اور دنیا بھر سے یہودیوں کی اس سرزمین پر آمد ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ اپنی آبادی میں قدرتی اضافے کے باوجود، یہودی مقبوضہ سرزمین کے اصل باشندوں یعنی فلسطینیوں کا مقابلہ نہیں کرسکے، جن کی آبادی میں اضافہ قابل ذکر ہے۔

اس کے نتیجے میں صیہونی حکومت کی انتظامیہ کے اہم ترین اقدامات میں سے ایک یہ تھا کہ دنیا بھر سے لوگوں کو لایا جائے۔ بلاشبہ صیہونی حکومت کے قیام سے پہلے بھی یہودی ایجنسی برائے اسرائیل اور بہت سے مذہبی اور صیہونی یہودی رہنماء یہ کام کرتے رہے ہیں۔ ہجرت کی پہلی لہر تقریباً 140 سال قبل 1880ء کی دہائی سے شروع ہوئی، جب صیہون سے محبت کرنے والوں کی شکل میں ایک آبادی روس سے مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوئی۔ یہ تھیوڈور ہرزل کی سرگرمیوں سے پہلے کی بات ہے۔ ہرزل کے کسی نہ کسی طرح اس معاملے میں اہم شخصیت بننے کے بعد دیگر منظم صہیونی تنظیمیں بھی اس میدان میں داخل ہوئیں۔

حالیہ برسوں میں ایسا لگتا ہے کہ صیہونی حکومت کی کوششوں میں سے ایک وزارت ہجرت اور جذب کے نام سے ایک وزارت قائم کرنا ہے، یعنی ایک ایسی وزارت جو پوری دنیا سے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں لانے کے لیے کام کرتی ہے۔ بلاشبہ، امیگریشن اور جذب کی وزارت نے یہودی ایجنسی برائے اسرائیل اور صہیونی تنظیموں کی مدد سے ایسا کرنے کی کوشش کی، لیکن موجودہ صورت حال نے ریورس مائیگریشن کو تیز تر کر دیا ہے۔ اگرچہ الٹی ہجرت کا رجحان بہت پہلے شروع ہوا تھا، لیکن غزہ کی پٹی کے خلاف جنگ کے ساتھ اس میں تیزی آئی ہے۔ غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کو 63 دن گزر چکے ہیں۔ صیہونی حکومت کے لیے جنگ کے ٹھوس نتائج میں سے ایک مقبوضہ علاقوں سے الٹی ہجرت کی لہر میں شدت آنا ہے۔
 
صہیونی میڈیا کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد سے شمالی مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد نصف ملین تک پہنچ گئی ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ مقبوضہ علاقے چھوڑنے والے ان افراد میں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا۔ حالیہ الٹی ہجرت یا معکوس نقل مکانی7 اکتوبر کو غزہ جنگ شروع ہونے سے پہلے شروع ہوئی۔ پرتگال کی امیگریشن سروس نے اعلان کیا ہے کہ اس سال کے آغاز سے اب تک 21,000 اسرائیلیوں نے شہریت کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے شہریوں کے مقابلے پرتگال میں اسرائیلیوں کی درخواستیں سب سے زیادہ تھیں۔ اقتصادی اور سکیورٹی چیلنجز مقبوضہ زمینوں سے ریورس ہجرت کی بنیادی وجہ ہیں۔

طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے قبل مقبوضہ زمینوں سے معکوس نقل مکانی کے پیچھے بہت سے معاشی مسائل اور چیلنجز تھے، لیکن طوفان الاقصیٰ کے بعد اس میں سکیورٹی کے عوامل بھی شامل ہوگئے۔ جنگ کی وجہ سے مقبوضہ زمینوں میں بڑے پیمانے پر عدم تحفظ پیدا ہوا ہے، جبکہ معاشی مسائل میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر بے روزگاری میں کافی اضافہ ہوا ہے۔الاقصیٰ طوفان کے بعد معاشی صورتحال اس قدر ابتر ہوگئی ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں بے روزگار افراد کی تعداد دس لاکھ تک پہنچنے کے قریب ہے۔ کچھ دن قبل صہیونی وزارت محنت نے ایک سرکاری بیان میں اعلان کیا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے 26ویں دن تک 760,000 اسرائیلی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایک ایسے اعداد و شمار جو بلاشبہ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
 
اقتصادی اور معاشی مسائل کے علاوہ صہیونی بستیوں کی خفیہ حفاظت کا پول بھی کھل کر سامنے آگیا ہے۔ مقبوضہ سرزمین کے باشندے نہ صرف اقتصادی خوشحالی سے لطف اندوز نہیں ہو پا رہے بلکہ مزاحمتی میزائلوں کے مسلسل خوف کی وجہ سے مقبوضہ زمینوں کو چھوڑنے کے لیے مزید پرعزم ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی شہریوں کی گوگل سرچ میں ٹرینڈ کرنے والے الفاظ میں سے ایک لفظ "اسرائیل سے کیسے نکلا جائے" اور اس سے متعلق طریقے تلاش کرنا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اسرا‎ئیلی تارکین وطن امیگریشن کے ساتھ ساتھ دوسرے ملک کی شہریت بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے موجودہ حالات میں اسرائیلی شہریوں کی ایک بڑی پریشانی شہریت اور پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے کسی غیر ملک کی تلاش ہے۔ سب سے زیادہ، تارکین وطن یورپی ممالک کو اپنی امیگریشن  کی منزل کے طور پر منتخب کرتے ہیں۔
 
مقبوضہ علاقوں میں سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسرائیلی شہریوں کی جانب سے پرتگال، جرمنی اور پولینڈ کی شہریت حاصل کرنے کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ تل ابیب میں یورپی یونین کے دفتر نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی شہریوں کے یورپی یونین کے رکن ممالک میں ہجرت کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں صیہونی حکومت کی کابینہ کو جنگ کے ساتھ الٹی ہجرت اور مقبوضہ علاقوں کو ترک کرنے والے باشندوں کو روکنے کے لیے ایک منظم منصوبہ پر غور کرنا ہوگا۔ البتہ یہ ایسا مسئلہ ہے، جس کے قلیل مدت میں مطلوبہ نتائج برآمد ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔
 
 
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ

(105 انبیا) اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے