شب قدر اہم شخصیات کی نگاہ میں

Rate this item
(2 votes)

شب قدر اہم شخصیات کی نگاہ میں

شب قدر رہبر انقلاب آیۃ اللہ خامنہ ای کی نگاہ میں

مختلف مناسبتوں اور مواقع پر لیلة القدر کے بارے میں حضرت آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای کی زبان مبارک پر نہایت دلنشین اور سبق آموز باتیں جاری ہوئی ہیں جن میں سے بعض نکتے اور اقتباسات درج ذیل ہیں:

ہمارا عقیدہ ہے (اور یہ اسلام ہی میں نہیں بلکہ تمام ادیان میں بدیہیات اور مسلمات میں سے ہے) کہ انسان محض خدا کے ساتھ اتصال اور ارتباط کی بدولت کمال و ارتقاء کی بلندیوں پر فائز ہوسکتا ہے. البتہ ماہ رمضان ایک غیر معمولی ۔ استثنائی اور ممتاز موقع ہے؛ یہ معمولی شیئے نہیں ہے کہ خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: "لیلة القدر خیر من الف شهر"؛ ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر اور ہزار مہینوں سے زیادہ فضیلت والی اور انسان کی پیشرفت میں زیادہ مؤثر، یہ رات ماہ مبارک رمضان میں ہے. یہ معمولی بات نہیں ہے کہ رسول اکرم (ص) اس مہینے کو اللہ کی ضیافت قرار دیتے ہیں؛ کیا ممکن ہے کہ انسان، کریم کے دسترخوان پر وارد ہوجائے اور اس دسترخوان سے محروم ہوکر اٹھے؟ ایسا تب ہی ممکن ہے کہ آپ اس دسترخوان پر وارد ہی نہ ہوں!

جو لوگ اس مبارک مہینے میں خدا کے غفران و رضوان اور خدا کی ضیافت میں وارد نہیں ہوتے یقینا انہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں مل سکے گا اور حفیقتاً یہ محرومیت حقیقی محرومیت ہے. "ان الشقی من حرم غفران‌الله فی هذا الشهر العظیم" (یقیناً بدبخت اور شفی وہی ہے جو اللہ کے عظیم مہینے میں خدا کی مغفرت سے محروم ہوجائے) حقیقی محروم وہی ہے جو جو ماہ رمضان میں غفران الہی کے حصول میں ناکام رہے.(1)

لیلۃ‌القدر، شب ولایت ہے. نزول قرآن کی شب بھی ہے اور امام زمانہ (عج) پر ملائکۃاللہ کے نزول کی رات بھی ہے؛ قرآن کی شب بھی ہے اور اہل بیت علیہم السلام کی شب بھی.

جو شب قدر اس ماہ مبارک رمضان میں ہے اور قرآن مجید پوری صراحت کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ "لیلة‌القدر خیر من الف شهر" یہ ایک رات ایک ہزار بار تیس دنون اور تیس راتون یعنی ایک ہزار مہینون سے بہتر ہی؛ یہ بہت اہم بات ہی. اس ایک رات کو اتنی بری فضیلتیں کیون دی گئیں؟ کیونکہ اس رات کو نازل ہوئی خدا کی برکتیں بہت زیادہ ہیں؛ یہ شب "سلام" ہے "سلام هی حتی مطلع‌الفجر" اول شب سے آخر شب تک اس کی تمام لمحے سلام الہی ہیں "سلام قولاً من رب رحیم" اللہ کی رحمت اور اس کا فضل ہے جو بندوں پر نازل ہوتا ہے.

یہ شب، شب قرآن بھی ہے اور شب عترت بھی ہے. چنانچہ سورہ مبارکہ قدر بھی سورہ ولایت ہے. بہت ہی قابل قدر ہے. پورا ماہ رمضان اور اس کی راتیں اور اس کے دن سب بہت بڑی قدر و منزلت کے حامل ہیں. البتہ شب قدر ماہ رمضان کے دیگر ایام اور راتوں کی نسبت بہت زیادہ با وقار اور متین و وزین ہے اور اس کی قدر و قیمت اس مہینے کی دیگر راتون سے بھی بہت زیادہ ہے لیکن یہ بھی ہے کہ ماہ رمضان کے ایام اور اس کی راتیں سال کے دیگر مہینوں کی راتوں اور دنوں سے بہت زبادہ عمدہ اور زیادہ اہم اور قابل قدر ہیں. ان دنوں اور راتوں کی قدر و قیمت جان لیں اور ان سے استفادہ کریں.

ان دنوں اور ان راتوں کو آپ سب انعام الہی کے دسترخوان پر حاضر ہیں؛ استفادہ کریں.(2)

ماہ مبارک رمضان میں... (تمام ایام اور تمام راتوں میں) جتنا ممکن ہو اپنے قلوب کو ذکر الہی سے زیادہ سے زیادہ نورانی کردیں تا کہ لیلة القدر کے مقدس حریم میں داخلے کے لئے تیار ہوجائیں؛ کہ "لیلة‌القدر خیر من الف شهر؛ تنزل الملائکة والروح فیها باذن ربهم من کل امر"، وہ رات جس میں ملائکة اللہ زمین کو آسمان سے متصل کردیتے ہیں؛ قلوب پر نور کی بارش برساتے ہیں اور زندگی کے ماحول کو اللہ کے فضل اور لطف سے منور کردیتے ہیں.

یہ سلام اور معنوی و روحانی سلامتی کی شب ہے (سلام هی حتی مطلع الفجر) دلوں اور جانوں کی سلامتی کی شب، اخلاقی بیماریوں سے شفاء اور صحتیابی حاصل کرنے کی شب، مادی، عمومی اور معاشرتی بیماریوں سے حصول شفاء کی شب ہے؛ اور یہ بیماریاں ایسی ہیں جو افسوس کے ساتھ دنیا کی بہت سے اقوام کا دامن پکڑی ہوئی ہیں اور بہت سی قومیں ـ منجملہ مسلم اقوام ـ ان بیماریوں میں مبتلا ہیں!

ان سب بیماریوں سے تندرستی اور شفاء شب قدر میں ممکن اور میسر ہے؛ بشرطیکہ آپ شفاء و تندرستی کے حصول کے لئے آمادہ ہوں.(3)

آج کی شب خدا نے آپ کو زاری و تضرع اور گریہ و بکاء، اس ذات باری کی طرف ہاتھ بڑھانے اور اس کے ساتھ محبت کے اظہار اور آنکھوں سے صفا و خلوص اور محبت کے آنسو جاری کرنے کی اجازت دی ہے؛ تو آپ بھی اس موقع کو غنیمت جانیں ورنہ ایسا دن بھی آنے والا ہے جب خداوند متعال مجرمین سے خطاب کرکے فرمائے گا کہ: «لَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ» ”، چلے جاؤ اور آج بس تم گریہ و زاری مت کرو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے «انکم منا لاتنصرون». (آج کے دن تمہیں ہم سے کوئی مدد نہیں ملے گی) یہ موقع زندگی اور حیات کا موقع ہے جو خدا کی طرف بازگشت اور لوٹنے کے لئے مجھے اور آپ کو دیا گیا ہے؛ اور پورے سال میں کچھ خاص ایام بہترین مواقع ہیں اور ان ہی ایام میں سے ماہ رمضان کے ایام بھی ہیں اور ماہ رمضان کے ایام میں شب قدر ہے اور شب قدر بھی ان تین راتوں میں سے ایک ہے.

مرحوم محدث قمی کی روایت میں ہے کہ سوال ہوا کہ "ان تین راتوں (انیسویں، اکیسویں اور تئیسویں کی راتوں) میں کونسی رات شب قدر ہے؟

تو معصوم (ع) نے فرمایا: کس قدر آسان ہے کہ انسان دو راتوں (یا تین راتوں) کو شب قدر کا خیال رکھے؛ اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ تم تین راتوں میں تردد کا شکار ہوجاؤ، اور پھر تین راتوں کا عرصہ کتنا دراز ہے؟، کتنے بزرگ تھے جو ابتدائے رمضان سے انتہائے رمضان تک کو شبہائے قدر فرض کرلیا کرتے تھے اور اور تمام راتوں کو شب قدر کے اعمال بجالایا کرتے تھے. (4)

ایک مختصر سا جملہ لیلة القدر کی اہمیت کے سلسلے میں عرض کرتا ہوں؛ علاوہ ازیں کہ قرآنی آیت «لیلة‌‌القدر خیر من الف شهر»سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ کی قدر پیمائی اور تقویم کی لحاظ سے یہ ایک رات ہزار مہینوں کے برابر ہے (بلکہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے) ہم جو دعا ان ایام میں پڑھتے ہیں اس میں ماہ رمضان کے لئے چار خصوصیات ذکر ہوئی ہیں:

1. اس مہینے کے دنوں اور راتوں کی تفضیل و تعظیم ہے دوسرے مہینوں کے دنوں اور راتوں پر

2. اس مہینے میں روزے کا وجوب

3. اس مہینے میں قرآن کا نزول

4. اس مہینے میں لیلة القدر کا ہونا

یعنی اس دعائے مأثور میں ماہ رمضان کو فضیلت دینے میں لیلة القدر کے کردار کو نزول قرآن کے برابر قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ شب قدر کی قدردانی کرنی چاہئے اور اس کی فضیلتوں سے استفادہ کرنا اور فیض اٹھانا چاہئے؛ اس کے لمحوں کو غنیمت سمجھنا چاہئے ...(5)

 

شب قدر علامہ طبا طبائی(رہ) کی نظر میں

شب قدر یعنی چہ؟

قدر سے مراد تقدیر (مقدر کرنا) اور تخمین(اندازہ لگانا) ہے۔ خداوند متعال شب قدر میں ایک سال کے امور جیسے موجودات کی زندگی، موت، رزق، روزی، سعادت اور شقاوت کو مقدر کرتا ہے۔

شب قدر کون سی رات ہے؟

قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت دکھائی نہیں دیتی جو واضح طور پر بیان کر رہی ہو کہ شب قدر کون سی رات ہے۔ لیکن چند آیتوں کو جمع کر کے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ شب قدر ماہ مبارک کی راتوں میں سے ایک رات ہے۔ قرآن کریم سورہ دخان کی تیسری آیت میں ارشاد فرما رہا ہے: " انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ " اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم شب قدر میں نازل ہوا ہے اور دوسری طرف سے فرماتا ہے: "شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن" (بقرہ،۱۸۵) اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم ماہ رمضان میں نازل ہوا ہے۔ اور سورہ قدر میں ارشاد ہوا ہے: انا انزلناہ فی لیلۃ القدر۔(قدر،۱) ان تمام آیتوں کو جمع کر کے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قرآن کریم ماہ رمضان کی ایک مبارک شب جسے شب قدر کہتے ہیں میں نازل ہوا ہے پس شب قدر ماہ رمضان میں ہے۔ لیکن یہ کہ ماہ رمضان کی کون سی رات، شب قدر ہے؟ قرآن کریم میں اس سلسلے میں کچھ نہیں ملتا۔ صرف روایات کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کون سی رات شب قدر ہے۔

آئمہ اطہار(ع) سے مروی بعض روایات کے اندر شب قدر کو ماہ رمضان کی انیسویں، اکیسویں اور تئیسویں شبوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ بعض دوسری روایات میں اکیسویں اور تئیسویں میں سے کسی ایک کو اور بعض نے شب تئیسویں کو معین کیا ہے۔ اور دقیق طور پر شب قدر کو معین نہ کرنے کی وجہ اس رات کی اہمیت اور عظمت ہے تا کہ لوگ اپنے گناہوں سے اس رات کی عظمت کو پامال نہ کریں۔

پس آئمہ معصومین (ع) کی روایات کی روشنی میں شب قدر ماہ مبارک کی راتوں میں سے ایک رات ہے چاہے وہ انیسویں ہو، یا اکیسویں یا تئیسویں۔ لیکن اہلسنت سے منقول روایات کے اندر شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ جو قابل رفع نہیں ہے لیکن ان کے درمیان مشہور یہ ہے کہ شب قدر ماہ رمضان کی ستائیسویں رات ہے۔ اور اس رات قرآن نازل ہوا ہے۔

ہر سال شب قدر کی تکرار

شب قدر پیغمبر اسلام (ص) کے دور کی کسی رات اور سال سے مخصوص نہیں ہے جس میں قرآن نازل ہوا بلکہ سالوں کے تکرار ہونے کے ساتھ ساتھ شب قدر بھی تکرار ہوتی ہے یعنی ہر سال ماہ رمضان میں شب قدر ہوتی ہے کہ جس میں آئندہ سال کے تمام امور مقدر کئےجاتے ہیں۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ:

اولا: قرآن کریم کا یکجا طور پرچودہ سو سال پہلے شب قدر میں نازل ہونا ممکن ہے لیکن قیامت تک کے تمام امور کو ایک ہی رات میں مقدر کرنا معنی نہیں رکھتا۔

ثانیا: سورہ دخان کی چھٹی آیت " فیھا یفرق کل امر حکیم" میں کلمہ یفرق جو مضارع کا صیغہ ہے استمرار اور دوام پر دلالت کرتا ہے اور اسی طرح سورہ قدر کی چوتھی آیت " تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر" میں بھی کلمہ تنزل مضارع ہے اور استمرار اور اس کے ہر سال تکرار ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

ثالثا: اس آیت" شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن" (بقرہ، ۱۸۵) سے بھی بظاہر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جب تک ماہ رمضان تکرار ہوتا رہے گا شب قدر بھی تکرار ہوتی رہے گی۔ پس شب قدر ایک رات میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہر سال تکرار ہوتی ہے۔

تفسیر برہان میں شیخ طوسی نے ابوذر سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابوذر نے کہا: میں نے رسول خدا (ص) سے عرض کیا: یا رسول اللہ کیا شب قدر وہ شب ہے جو صرف انبیاء کے زمانے میں رہی ہے اور اس میں ان کے اوپر احکام نازل ہوتے رہے ہیں اور جب مر جاتے رہے ہیں تو شب قدر ختم ہو جاتی رہی ہے ؟ فرمایا: "نہ بلکہ شب قدر قیامت تک باقی رہے گی" ۔

شب قدر کی عظمت

سورہ قدر میں ہم پڑھتے ہیں" انا انزلناہ فی لیلۃ القدر و ما ادریک ما لیلۃ القدر ، لیلۃ القدر خیر من الف شھر" خداوند متعال ممکن تھا شب قدر کی عظمت کی خاطر یہ فرماتا وما ادریک ما ھی ۔ ھی خیر الف شھر۔ یعنی بجائے اس کے کہ دوسرے اور تیسرے مقام پر لیلۃ القدر کا کلمہ استعمال کرتا ضمیر کو لاتا جو اس رات کی عظمت پر دلالت کرتی۔ اور اس طریقے سے اس رات کی عظمت کو بیان کرتا کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ لیکن خدا نے ضمیر کا استعمال کرنا پسند نہیں کیا اور تینوں جگہ خود کلمہ لیلۃ القدر کا استعمال کر کے اس کی عظمت کو چار چاند لگا دئے۔ اور یہاں اس کے ہزار مہینوں نے بہتر ہونے سے مراد عبادت کے لحاظ سے بہتر ہونا ہے چونکہ قرآن کریم کی آیات سے بھی یہی چیز میل کھاتی ہے۔ چونکہ قرآن کریم کی تمام عنایات اس چیز کے لیے ہیں کہ لوگ خدا کے نزدیک ہوں ۔لہذا اس رات کی عبادت اور اس کو احیاء کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔

امام صادق علیہ السلام سے سوال ہوا: کیسے شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ؟

فرمایا: شب قدر میں عبادت کرنا ہزار مہینوں میں عبادت کرنے سے بہتر ہے کہ جن مہینوں میں شب قدر نہ ہو۔(6)

 

شب قدر ڈاکٹر شریعتی کی نگاہ میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انا انزلناه في ليلة القدر * و ما ادريك ما ليلة القدر * ليلة القدر خير من الف شهر * تنزل الملائكه والروح* فيها باذن ربهم من كل امر * سلام هي حتي مطلع الفجر."

بیشک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے اور آپ کیا جانیں شب قدر کیا ہے شب قدر ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں ملائکہ اور روح القدس اذن خدا کے ساتھ تمام امور لے کر نازل ہوتے ہیں۔ یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔

تاریخ ایسا طولانی اور تاریک، خاموش اور غمناک قبرستان ہے جس نے اپنی آغوش میں صدیوں کے حادثات و واقعات کو جگہ دی ہے جس نے نسل در نسل انسانوں کو جنم لینے کا موقع دیا ہے جس میں افکار اور آمال، تمدن اور ہنر نے عروج پایا ہے۔

تاریخ کی ان گزشتہ ظلمانی راتوں میں سے ایک رات ایسی آئی جس نے تمام ظلمتوں کے پردوں کو اٹھا دیا ،تاریکیوں کوچھٹ دیا، نیندوں کو بیداری میں تبدیل کر دیا اور انسانوں کے مردہ ضمیروں کو جھنجوڑ دیا۔ اور ان کےدلوں کی گہرایوں میں انقلاب پیدا کر دیا۔

وہ رات جو ڈوبنے والوں کے لیے کشتی نجات، گمراہ ہونے والوں کے لیے چراغ ہدایت، خواب غفلت میں سونے والوں کے لیے بیداری کی گھنٹی، شقاوت اور بدبختی میں گرے افراد کے لیے سعادت اور خوشبختی کا سرمایہ، اور ہر جن و بشر کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز ہے۔ ظاہر ہے اس رات میں اللہ کے فرشتے روح القدس کے ہمراہ زمین کی سیر کرتے ہیں اور اس قبرستان میں مردہ افراد کو دوبارہ زندہ کرتے ہیں۔

یہ شب، شب قدر ہے۔۔۔۔

تمام موجودات کی تاریخ یہ لگاتار گزر جانے والے مہینے ہیں یہ پے در پے آنے والے سال ہیں یہ صدیاں ہیں جو خاموشی سے گزر جاتی ہیں اور کوئی پیغام ان کے لب پر نہیں ہوتا۔ صرف گزر جاتی ہیں اور انسانوں کو بوڑھا کر دیتی ہیں اور بس۔ اس طولانی صف کے اندر صرف ایک رات ایسی آتی ہے جو تاریخ ساز ہوتی ہے جو نئے انسان پیدا کرتی ہے وہ رات جو خدائی فرشتوں کی بارش کراتی ہے۔ وہ رات جو بے روح پیکر میں روح پھونکتی ہے۔ وہ رات شب قدر ہے۔

وہ رات جو قسمت ساز ہے جو ایک انسان کی تقدیر کو بدل دیتی ہے اور ایسی صبح کا آغاز کرتی ہے کہ جو ایک نئی تاریخ کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ رات ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے یہ مشعر الحرام کی وہ رات ہے جس کی صبح عید ہوتی ہے جس کی صبح کو شیطان پر سنگباری کی جاتی ہے ۔

جس طریقے سے تئیس سالہ مرسل اعظم(ص)کا دور رسالت کئی تئیس صدیوں سے بہتر ہے اسی طرح یہ رات ہزاروں راتوں سے بہتر ہے۔ جس طرح ظہور اسلام نے انسانوں کے مردہ سماج اور تمدن میں زندگی کی نئی روح پھونکی اسی طرح یہ رات انسانوں کے مردہ باطن میں تازہ روح پھونکتی ہے۔

شب قدر

وہ رات جس میں باران رحمت ہوتی ہے جس رحمت کا ہر قطرہ ایک فرشتہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ رحمت جو اس خشک شدہ کھیت میں سوکھے درختوں پر خراب شدہ پھل و پھول پر برستی ہے اور ہر چیز کو سر سبز و شاداب بنا دیتی ہے۔ کتنا بد نصیب ہے وہ شخص جو اس باران رحمت میں رہے اور اس کا ایک قطرہ بھی اپنے بدن پڑتے ہوئے احساس نہ کرے ۔ ہر انسان کی عمر ایک تاریخ ہے کہ جس میں پے در پے بے روح اور تکراری مہینے گذر جاتے ہیں لیکن کبھی کبھی شب قدر آتی ہے کہ جس میں انسان کے افق وجودی سے فرشتوں کی بارش ہوتی ہے اور اس رات روح القدس جبرئیل امین اللہ کا پیغام لے کر اس پر نازل ہوتا ہے اور اس کے لیے ایک رسالت اور بعثت وجود پاتی ہے کہ جس کے ساتھ ساتھ اس کے لیے ابلاغ بھی ہے اور انذار بھی، جنگ و جہاد بھی ہے اور ہجرت اور ایثار بھی۔

ختمی مرتبت(ص) کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ لیکن ہر علم و آگاہی وارث پیغمبر ہے۔ اور ہر بیداری ایک نئی رسالت ہے جو اس شب قدر میں انسانوں کو حاصل ہوتی ہے۔

سلام ہواس شب قدر پر ، وہ شب قدر جو ہزار مہینوں سے ہزار سالوں اور ہزار صدیوں سے بہتر ہے سلام ہو اس پر درود ہو اس پر۔۔۔ اس لمحہ تک جب تک سورج اپنی آنکھ کھولتا۔ جب تک سورج اپنے سرخ پھول نچھاور کرتا۔ اس رات کی صبح تک سلام اور سلامتی۔(7)

حوالہ جات:

1. اسلامی جمہوریہ ایران کے کارگزاروں اور حکام سے خطاب _ عید سعید فطر 1410 ہجری - 27 اپریل 1990.

2. 19 دی (9 جنوری) کو شاہ کے خلاف قم کے علماء اور طلباء کی تحریک کے حوالے سے قم کے علماء، طلباء اور عوام سے خطاب.

3. ہفتۂ بسیج کی مناسب سے بسیجی رضاکاروں کے اجتماع سے خطاب - نومبر 1997۔

4. خطبات جمعہ تہران. 16 جنوری 1998۔

5. خطبات جمعہ تہران 16 نومبر 2007.

6: مجموعہ آثار جلد ۲، دکتر علی شریعتی، خود سازی انقلابی

7: تفسیر المیزان

Read 4843 times