حضرت زینب (س) سکوت شکن اسوہ

Rate this item
(0 votes)
حضرت زینب (س) سکوت شکن اسوہ


خداوند تبارک تعالیٰ نے معصومین ، انبیاء ، ائمہ اطہار اور بعض غیر معصوم شخصیات کو انسان کے لئے بعنوان اسوۂ مقرر کیا ہے اوریہ حیثیت دیگر عناوین اور مناصب مثلاًامامت اور رسالت سے الگ ایک حیثیت ہے جسے خداوند تبارک تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایاہے۔

الہٰی اسو ے

الٰہی اسوے امت کے لئے ایک دروازہ ہے تاکہ امت اس باب کے ذریعے اس شخصیت سے متصل ہو جسے خدا نے اسوۂ مقرر کیا ہے۔
قرآن مجید میں دو شخصیات کو صراحت سے اسوہ ٔکہا گیا ہے، پیغمبر اکرم ۖ اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ ـ لیکن روایات میں تقریباً تمام معصومین کے لئے یہ تعبیر موجود ہے اور اسی طرح خاندان اہل بیت میں سے غیر معصومین شخصیات کے لئے بھی یہ تعبیریں موجود ہیں از جملہ حضرت زینب مسلماً پوری بشریت اور انسانیت کے لئے ایک الہٰی اسوۂ ہیں نہ کہ فقط خواتین کے لئے، اگر ہم یہ کہیںکہ حضرت زینب فقط خواتین کے لئے اسوۂ ہیں تو یہ آپ کی شخصیت کے سلسلے میں بہت کوتاہ اور محدود نظر ہے۔
حضرت زینب تمام بشریت اور انسانیت کے لئے ایک جامع اسوہ ٔ ہیں جسے خداوند تبارک تعالیٰ نے مقرر کیا ہے۔ حضرت زینب کو خداوند تبارک تعالیٰ کی جانب سے جو توفیقات، علوم، فضائل اور کمالات نصیب ہوئے ہیں کسی انسان کو بہت کم اس طرح کی توفیقات نصیب ہوئی ہیں آپ کو جو کچھ عطا کیا اس کا امتحان بھی ہوا ہے یہ فقط ادّعا نہیں بلکہ حقیقتاً حضرت زینب ممتحنہ یعنی آزمائش شدہ اور امتحان دی ہوئی بی بی ہیں۔ اس بی بی نے امتحان دے کر اپنے کمالات کو ثابت کیا ہے۔ آزمائشوں اور بلاؤں سے گزری ہیں۔ جس طرح حضرت ابراہیم ـ ایک قرآنی اسوۂ ہیں لیکن اسوۂ ممتحن، خدا نے ابراہیم ـ کو آزمائشوں میں رکھا
'' وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ…'' (بقره١٢٤)
اسی طرح حضرت زینب ایک ممتحنہ اسوۂ ہیں۔ حضرت زینب اور حضرت سیدہ زہرا کے القابات میں سے ایک لقب ممتحنہ ہے یعنی انہوںنے امتحان دیا ہوا اور آزمائشوں سے گزری ہوئی ہیںجیسا کہ ہم بعض چیزوں پر اعتماد کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ یہ مجرب اور امتحان شدہ چیز ہے اسی طرح حضرت زینب نے اپنے کمالات و فضائل کا باقاعدہ طور پر امتحان دیا ہے اور اس امتحان میں اعلیٰ درجہ سے قبول ہوئی ہیں ۔ یہ بہت مہم ہے کہ امتحان دیا تو خداکے نزدیک اس میں اعلیٰ درجے پر فائز ہوئیں
''… ِإِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ '' (مائده٢٧)
خدا فقط متقین سے قبول کرتاہے۔ امتحان کی توفیق لے لینا اتنا مہم نہیں ہے لیکن اس توفیق کے بعد امتحان دے کر قبول ہوجانا واقعاً مہم ہے ۔ حضرت زینب یعنی عصمت صغریٰ اپنی والدہ ٔ مکرمہ یعنی عصمت کبریٰ کی مانند ممتحنہ ہیں اور دونوں ماں بیٹی امتحان دے کر اس میں قبول ہوئی ہیں۔

شناخت اسوۂ کی ضرورت

ضروری ہے کہ یہ اسوے متعارف ہوں۔ اس کے لیے جتنی کوششیں کی جائیں کم ہیں، اس لئے کہ معصومین اور اولیاء اللہ کی شخصیت کا یہ پہلو بہت سارے عوامل کی وجہ سے مسکوت اور فراموش شدہ رہا ہے۔ اس اسوائیت کے پہلو کو احیاء اور زندہ کرنا ہے۔
الحمد للہ، دین اور خصوصاً حضرات معصومین و اولیاء اللہ سے متعلق بہت سارے پہلو زندہ ہیں لیکن کئی پہلو ایسے ہیں جو فراموش شدہ ہیں۔ ابھی انسان بیدار نہیں ہو ا ہے کہ ان پہلوؤں کی طرف بھی ملتفت ہو مثلاً امیر المؤمنین ـ کی شخصیت سے متعلق بہت سارے پہلو ہیں جو ابھی فراموش شدہ ہیں جن کی طرف ابھی توجہ بھی نہیں ہوئی ہے اور نہ انہیں سمجھا گیا ہے۔ ان پہلوؤں کوسمجھنے کے لئے جو ضروری شعور چاہیے وہ ابھی بیدار نہیں ہے۔
بقول شاعر :
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
یعنی واقعاً زمانہ منتظر ہے کہ انسانیت بیدار ہوجائے تاکہ ان اسوئوں کو پہچانے ، امام حسین ـ کو پہچانے، حضرت زینب کو پہچانے، کربلا اور کربلا کے اسوئوں کو پہچانیں ، اس کے علاوہ اور باقی تمام اسوات کہ پہنچانیں۔

شناخت اسوۂ کیوں ضروری ہے؟

یہ شناخت اس لئے ضروری ہے کیونکہ یہ فراموشی انسانیت کے ضرر میں ہے ، نہ کہ ان شخصیتوں کے ضرر میں ہے۔ ان کی اسوائیت کا پہلو اگر اسی طرح مسکوت و فراموش شدہ رہا تو نسلو ںکی نسلیں خسارے میں گزرتی جائیں گی۔ نسلیں اپنی عمریں گزار کر قبرستان کا رخ کرتی جائیں گی اور نقصان کا سلسلہ جاری رہے گا۔

دوسری قوموں میں اسوؤں کا قحط

یہ اس نسل کی بات ہے جس کے پاس ذخیرہ موجود ہے ورنہ بعض ایسی قومیں اور نسلیں ہیں جن کے پاس دکھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، مثلاً آپ یونان میں جاکر دیکھیں تو وہاں اسطوروں اور افسانوی شخصیتوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور یہ کسی قوم ، مذہب اور ثقافت کے لئے بہت بڑا قحط ہے کہ اس کے پاس اسوۂ موجود نہ ہو ، اسوۂ کے بجائے اس کے پاس اسطورہ ہو تاکہ اسوؤں کی خلا کو اسطوروں سے پُر کرے یا مثلاً ہندوستان کی ہندؤ تہذیب میں اسوے نہیں ہیں ، اسطورے ہیں اور وہ اسطورے ایسے ہیں جن کا انسان سے کوئی ربط نہیں ہے ، وہ فقط تقدیس اور تخیل میں رکھنے کے لئے ہیں ورنہ ان سے انسان کا کوئی عملی تعلق نہیں، وہ انسان کے لئے راہنما نہیں ہیں اور انسان انہیں اسوۂ کے بجائے اپنے تخیّل میں ایک مافوق بشر و مافوق طبیعت مخلوق فرض کرکے اپنی زندگی کی بعض خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہاں پر انسان کی پیروی کے لئے کوئی چیز نہیں ہے ۔ اس طرح کی تہذیبوں کے اسطورے اس لئے نہیں ہیں کہ بشر ان کے نقش قدم پر چلے بلکہ بشر کے ساتھ ان کی سرے سے کوئی سنخیت نہیں ہے۔ یہ صرف اس لئے ہیں کہ بشر ان کے نام پر قربانیاں دیتا رہے، ان سے ڈرتا اور خوف کھاتا رہے، ان کی تقدیس و ثناء کرتا رہے، نہ کہ ان سے کچھ سیکھے۔یہ اسطورے ان کے لئے معلم نہیں ہیں ، ان سے وہ کچھ سیکھتے نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کچھ بتا سکتے ہیں۔ نہ ان کی کوئی تاریخ ہے اور نہ ان کا بنایا ہوا کوئی ایسانظام ہے جسے بشر اپنا سکے بلکہ وہ خود نظام سے باہر ہیں۔ ان پر کسی طرح کا کوئی قانون لاگونہیں ہوتا، وہ مافوق قانون ہیں۔ یہ کسی بھی قوم و مکتب کے لئے ایک بڑا قحط ہے۔

تشیّع کا امتیاز

اس حوالے سے اسلام اور خصوصاً اسلام کی امامی تفسیر یعنی تشیّع بہت غنی ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے جس کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے ۔ تشیّع میں اسوۂ کے لحاظ سے اس قدر فراوان سرمایہ ہے کہ اگر ہم اس کی طرف متوجہ ہوجائیں کہ ہمارے پاس کیا عظیم سرمایہ ہے تو شاید سنبھال بھی نہ سکیں، پھر اس کے بعد کی منزل ہے کہ ہم اس سرمایہ کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور اسے متعارف کرائیں۔

قصوراور ذمہ داری ہماری

ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں ہمارے پاس کیا موجود ہے اور یہ ہمار اقصور ہے کہ ہم نہ اسے سمجھ سکے ہیں اور نہ دوسروں کو بتا سکے ہیں۔ لوگوں نے اسطورے کو زیادہ بہتر طریقے سے متعارف کرایاہے اور ہم اسوے نہیں متعارف کر اسکے۔ یہ عجیب بات ہے کہ لوگوں نے افسانے زیادہ پھیلائے ہیں اور ہم حقائق نہیں پھیلا سکے، یہ عجائب روزگار میں سے ہے کہ لوگوں نے دنیا میں تخیّل زیادہ ترویج کیا ہے اور ہم تعقل کونہیں رائج کرسکے بلکہ ممکن ہے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی اسی کا شکار ہوجائیں اور یہ سمجھنے لگیں کہ جس ثقافت میں اسطورے زیادہ ہیں وہ بہتر ہے اور اسطورہ سازی کی طرف تمایل پیدا کرلیں، لہٰذا ہم اپنے اسوؤں کو بھی بعض اوقات اسطورہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اسوۂ غیر از اسطورہ ہے ۔ جس کے پاس اسوۂ موجود ہو اس کو اسطورہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ اسطورہ ان لوگوںکو چاہیے جن کے پاس اسوۂ نہ ہو۔ وہ اسوۂ کی خالی جگہ کو اسطورہ سے پُر کرتے ہیں جس طرح مثلاً اگر ایک جوان نے شادی نہ کی ہو تو وہ خیالی ازدواج کرتا ہے، اس کی خیالی ملکہ ہوتی ہے لیکن جس کے پاس بیوی بچے ہوں اس کو خیالی ملکہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جس کے پاس مکان ہو اس کو خیالی بلڈنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ خیالی بلڈنگیں وہ بناتا ہے جس کے پاس حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا۔ انسان تخیّل کو ہمیشہ حقیقت کی جگہ بھرنے کے لئے لاتا ہے۔ اسطورہ یعنی'' تخیّلی شخصیات ''جو انسان کی خیال پردازی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔اسطورہ بت کی طرح ہے جو انسان کی ایک خود ساختہ چیز ہے۔ اسطورہ پوری طرح مخلوق انسان ہے جیسے انسان اپنی بعض حسّوں کی تسکین کے لئے تشکیل دیتا ہے جبکہ اسوۂ انسان کی مخلوق نہیں ہے بلکہ انسان تابع اسوۂ ہے اس کے برعکس اسطورہ خود انسان کا تابع ہے کیونکہ آپ اسے جس طرح بنائیں گے وہ اسی طرح بنے گا لیکن اسوۂ ہمارے اختیار میں نہیں ہے بلکہ ہم اس طرح بنیں گے جس طرح اسوہ ٔ ہوگا پس جن کے پاس اسوہ ٔ ہو ان کواسطورہ بنانے کی ضرورت نہیںہے۔لیکن ہم افسانوی تہذیبوں ، مثلاً یونانی، ہندی اور قدیم ایرانی تہذیبوں سے زیادہ سروکار رکھنے اور ان سے زیادہ متأثر ہونے کی بنا پر انہیں کے اسطوروں سے متأثرہوئے ہیں اور اپنے حقائق کو چھوڑ دیا بلکہ اکثر اپنے حقائق کو اسطورہ کی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔
ہم بجائے اس کہ اپنے مکتب کا سرمایہ استخراج کرتے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرتے آج خودان اسوؤں کے سب سے زیادہ محتاج ہیں۔ آج عالم تشیّع ، عالم اسلام اور عالم بشریت ان اسوؤں کا محتاج ہے۔

عظیم ترین بحران

اس وقت دنیاکا سب سے بڑا بحران اور المیہ کیا ہے؟دنیا کے مختلف ممالک میں متعدد بحرانوں کا ذکر ہوتا ہے، کہیں سیاسی بحران ہے، کہیں اقتصادی بحران ہے،کہیں جنگ کا بحران ہے، کہیں پانی کابحران ہے لیکن یہ اصلی بحران نہیںہیں اس وقت اصلی بحران یہ ہے کہ انسانیت مسخ ہورہی ہے اور اس کے پاس کرامت و شرافت کاکائی نمونہ نہیں رہا، ایسی ضد انسانی اور ضد بشری تہذیبیں پھیلی ہیں جنہوں نے روح انسانیت کو ختم کردیا۔ آج دنیا سب سے زیادہ اس بات کی محتاج ہے کہ اس کے سامنے اسوے متعارف کرائے جائیں، لہٰذا آج وقت ہے کہ دوسروںکے سامنے اپنا سرمایہ پیش کریںاور آج مکتب کا جتنا زیادہ استقبال ہوگا اتنا کسی دور میں بھی ممکن نہیں تھا۔
بعض بزرگان کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت انسان کے اندر ہردور سے زیادہ آمادگی پائی جاتی ہے کیونکہ اس وقت خلاء سب سے زیادہ ہے۔ اس وقت انسانوں کو سب سے زیادہ خلاء کا احساس ہوتا ہے۔ آج معنوی سرمائے کے فقدان کا احساس بہت شدت سے ہو رہا ہے لیکن اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے ہندو، بدھسٹ اور مسیحی پہنچ جاتا ہے یا اس کو بھرنے کے لئے موسیقاراور اس طرح دوسرے لوگ پہنچ جاتے ہیں، اس کو پُر کرنے کے لئے گمراہ فرقے وجود میں آرہے ہیں تاکہ اس معنوی خلاء کو پُر کریں، جعلی تصوف اور جعلی فرقے پیدا ہورہے ہیں جو انسان کی اس تشنگی سے سوء استفادہ کررہے ہیں اور اس کے سامنے ایک کاذب معنویت رکھ رہے ہیں، درحالیکہ تشیّع حقیقی معنویت کے سرمائے پُر ہے لیکن ضرورت ہے کہ اس سرمائے کو نکال کر دنیا کے سامنے اس زبان میں پیش کریںجو دنیا کو سمجھ میں آتی ہے ، ایسی زبان میںنہ پیش کریں جس سے لوگ نابلد ہوںِ خصوصاً ان اسوؤں کو پیش کریںجو خاص بحرانوں میںنکھرکر سامنے آتے ہیں جیسے حضرت زینب کا اسوۂ۔

آج اسوۂ زینبی کی ضرورت

آج تقریباً وہی المیہ دوبارہ تکرار ہورہاہے جو سن ٦١ ہجری میں کوفہ میں نظر آیا تھا۔آج پوراجہان ایک کوفہ کا سماں بناہوا ہے، اس میںکوفی کی تمام صفات موجود ہیں فقط ایک اسوۂ زینبی کی کمی ہے۔ اس بازار کوفہ میں فقط ایک خطبہ زینبی کی کمی ہے۔ باقی ساری چیزیں شبیہ کوفہ ہیں۔ بعض اہل فکر شعراء نے اس کمی کومحسوس کیا ہے کہ آج زمانہ کس چیز کا محتاج ہے؟
یہ زمانہ اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الّا اللہ
قافلہ حجاز میں اک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
یہ احساس خلاء ہے اور یہاں پرکسی کو ہو نا چا ہیے کہ آج کر بلا و نجف اور عراق کے اسیروں کے قا فلے میں ایک اسوئہ زینبی کی کمی ہے جس کی وجہ سے تمام ذلت و رسوائی کا سماں پیدا ہو ا ہے کیونکہ وہاں ایک اسوئہ عزت موجود نہیں ہے۔
اسوئہ کی انسان پر تأثیر ہو تی ہے خواہ وہ اسوہ خود بن کر آئے یا دوسرے بنا کر پیش کر یں اور اگر آپ حقیقی اسوہ ٔکو لو گوں کے سا منے پیش نہیں کر یں گے تو دوسرے اسوہ بنا کر پیش کر یں گے ۔
اگرآج جہان اسلام کو عملی اسوئہ نہ ملا تو مغربی میڈیا اور اربابان سیاست خود عالم اسلام سے ایک اسوہ بنا کر دنیا کے سا منے پیش کر ے گی اور کہے گی کہ یہ آپ کے لئے منا سب اسوہ ہے جیسا کہ وہ اس کام میں مشغول بھی ہیں ۔
اگر ہم نے دینی اقدار اور دینی بنیا دوں پر ایک درست تعلیمی نظام تشکیل نہیں دیا تو تو خود آ کر ہما رے لئے یہ کام انجام دیں گے۔ آج تین اسلامی ممالک(سعودی عرب،افغانستان اور پاکستان)میںامریکہ کا بنا ہوا اسلامی نصاب اجراہو چکاہے۔ ان تین ملکوں میں آج امر یکی ما ہر ین کی را ئے سے بنا ہوانصاب اسکو لوں ، کا لجوں حتی دینی مدرسوں میں چل رہا ہے دینی مدرسوں کادینی نصاب ا نہوں نے مشخص کیا ہے۔
اس طرح اگر مسلمانوں میں سیا سی بیداری نہیں آئی اور سیا سی مسا ئل کے لئے اگر خود مسلمانوں نے سیاسی رہنمااور سیاسی تنظیمیں نہیں بنا ئیں تو وہ خود بنا کر لا ئیں گے ، وہ خود صدر و وزیراعظم بنا کر مسلمانوں کے سا منے پیش کریں گے بلکہ ان پر تحمیل کر یں گے ۔ سیا سی جما عتیں ، سیاسی حزب اور سیاسی لیڈر بنا کر قوموں کے سا منے پیش کر یں گے کہ یہ آپ کی جما عت ، یہ آپ کے لیڈر اور یہ آپ کے سیاست دان ہیں۔
جوچیز مسلمان خود نہیں بنا سکتے وہ اسے بنا کر دیں گے ۔ اگر مسلمان خود پارلیمنٹ تشکیل نہیں دے سکتے تو وہ آکر بنا کردیں گے اور بنا ر ہے ہیں اس طرح اگر مسلمان دین کی بنیادوں پر ایک تہذیب نہیں بنا سکتے تو وہ اپنے نقطہ نظرسے تہذیب بنا کر مسلمانوں کو پیش کر یں گے کہ یہ آپ کی تہذیب ہے اور اس کو اپنا ئیں ، جس طرح اقتصادی دنیا میں ایسا ہی ہوا ہے ۔ ہم جو چیزیںنہیں بنا پا ئے وہ بنا کر پیک کر کے ہما رے با زاروں میں بھیج دیتے ہیں اور ہم ان سے خر ید لیتے ہیں ۔ اقتصادی دنیا میں یہ بات کسی حد تک قابل قبول ہو سکتی ہے لیکن سیا سی ،معنوی، مذہبی اور تعلیمی دنیا میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ جس طرح انہوں نے کا رخا نے لگا ئے ہیں اور ہما ری اقتصادی ضرورتوں کے مطابق ہر چیزکی بستہ بندی کر کے ہما رے گھروں میں پہنچا دیا ہے۔ اس طرح انہوں نے تہذیب ،نظریات اور تعلیمی نظام بھی ہما رے گھروں میں پہنچا دیا ہے ۔ اس وقت تمام اسلا می ممالک میں پسندیدہ ترین تعلیمی نظام ان کا بنا یا ہوا ہے۔ما نٹیسوری تعلیمی نظام برطا نوی اور امریکی طرز کا تعلیمی نظام ہے۔ یہ ان کے اسکولوں کی کا پی ہے متدین ترین لوگ بھی چا ہتے ہیں کہ ان کے بچے انہیں اسکولوں میں پڑھیں حتیٰ وہ علماء جو اپنے بچے کی تعلیم کا خرچ خمس و زکات اور بیت المال سے حاصل کر تے ہیں اسی سے ان بڑے بڑے اسکولوں کی فیس ادا کرتے ہیں تا کہ ان کے بچے اس ما ڈل کے نظام میں جا کر پڑ ھیں۔

انہوں نے تعلیمی ماڈل طرز زندگی اور کلچر و ثقافت لا کر دیا تا کہ تم اس طرح زندگی بسر کرو ،اس طرح سے سو چواور اس طرح سے پڑھو۔انہوں نے ہمیں ہر چیز لا کر دی اورہم صرف ایک با زار مصرف اور منڈی میں تبدیل ہو گئے ہیں ۔

جعلی اسوے

ایک زمانے میں ایک شخصیت اسوۂ بن کر سامنے آجاتی ہے اور دوسروں کے لئے نمونہ بن جاتی ہے۔ اگرچہ نمونہ بننے کے لیے ایک شخصیت کو بہت طولانی راہ طے کرنی پڑتی ہے لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخصیت وہ طولانی راہ طے کرکے ایک منزل تک پہنچ جاتی ہے پھر آہستہ آہستہ تمام افراد لا شعوری طور پر اس جیسا انداز اپنانا شروع کر دیتے ہیں، لباس اس کے جیسا پہنتے ہیں، بات اس کے جیسی کرتے ہیں، محاورے اور جملے وہی استعمال کرتے ہیں جو اس کی زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ اس متأخر زمانے میں ایسا ہوا کہ امام خمینی کی شخصیت اسوۂ مسلمین کے عنوان سے ابھر ی اور انہوں نے دیکھا ایک مدت تک اس اسوۂ کی تأثیر ہے یعنی اگر اس سطح کی شخصیت عالمی شہرت کے ساتھ متعارف ہوجائے تو لوگ اس کے افکار لینا شروع کردیتے ہیں، اس کی تصویریں لگانا شروع کردیتے ہیں، ہر جگہ اس کا تذکرہ ہوتا ہے اور لوگ اپنے آپ کو اس کی راہ پر لانے کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا دشمنان دین اس کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ کام اب خود شروع کردیا ہے یعنی وہ کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں اور دنیا کے لئے ایک خود ساختہ اسوۂ پیش کریں اور چونکہ طبقات مختلف ہیں لہٰذا ایک اسوۂ سب کے لئے کافی نہیں ہوسکتا یعنی ایک دینی اسوۂ دیندار اور بے دین سب کے لئے کافی نہیں ہوسکتا لہٰذا وہ ہر شعبے اور ہر صنف کے لئے ایک خاص اسوۂ بناکر پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں اور یہ اسوۂ جس طرح سے ہو لوگ خود بخود اسی طرح سے ہوجائیں۔ لوگ اسی طرح سوچنا شروع کردیں اور اپنے آپ کو اسی قالب میں ڈھالنا شروع کردیں۔
لہذاآج ضرورت اس کی ہے کہ ہم خدا کی طرف سے بنائے ہوئے دینی اور اسلامی اسوات کو پیش کریں۔ یہ سرمایہ اسی دن کے لئے تھا۔ آج ان کاذب اسوؤں کے مقابلے میں صادق اسوؤں کو متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ آج اگر اقدار کی بنیادوں پر الہٰی اسوے پیش نہ ہوئے تو اقدار سے یہی اسوئے لوگوں کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے بلکہ پیش بھی کئے جا رہے ہیںاور ظاہر ہے کہ جب ایک اسوۂ لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوجائے گا اور لوگ عملی طور پر اس کی پیروی کرناشروع کردیں گے پھر اس کو لوگوں سے لینا بہت مشکل ہے، کسی سے اسوۂ چھیننا بہت مشکل کام ہے، مثلاً بچوں اور جوانوں کو دیکھیں کہ وہ اگر بال کٹوانے میں کسی سے متأثر ہیں اور ایک مرتبہ اس جیسا بال بنانا شروع کردیا اور ہیراسٹائل (Hairstyle) میں اس کو اپنا اسوۂ مان لیا تو اب اس بچے کو روکنا بہت مشکل ہے۔ اگر لباس پہننے میں بچے نے کسی کو اپنا اسوۂ مان لیا تو اب یہ اسوۂ اس سے چھیننا بہت مشکل ہے۔ پس اس سے پہلے کہ کاذب ، جعلی، مصنوعی اور اقدار سے تہی بلکہ ضد اقدار اور خلاف اقدار اسوے متعارف کراکے ان کو پوری بشریت کی گمراہی کے لئے استعمال کیا جائے حق یہ بنتا ہے کہ ہم اپنا سرمایہ پیش کریں اور یہاں اگر یہ سرمایہ پیش نہیںہو اتو پوری انسانیت خسارے میں ہے۔ اگر ہم آج اس سرمائے کو نہیںپیش کر سکے تو پھر کب پیش کریں گے؟
آج دنیا کو حضرت زینب جیسا اسوۂ درکار ہے۔آج پورے عالم اور زمانے میں کوفے کا سماں ہے۔ اگر کوفیوں کے ان خصائل اور صفات کو دیکھیں جو حضرت زینب نے بیان کیے ہیں تو پورا جہان ایک کوفہ نظر آتاہے، آج اس عالمی کوفے میں ایک اسوۂ زینبی کی کمی ہے، آج انسان کو حضرت زینب کی حقیقی شخصیت کی ضرورت ہے، نہ وہ شخصیت جو لوگوں نے خود بنالی ہے۔ انسان حضرت زینب کی واقعی شخصیت کی جستجو کرے کہ وہ بی بی کیا ہیں؟ کربلا سے کوفہ و شام یا اس سے پہلے اور اس کے بعد حضرت زینب نے کس چیز کو محسوس کیا جس کی بنیاد پر یہ عظیم اقدام کیا۔

 
Read 409 times