قرآن مجید میں علی (ع) کے فضائل

Rate this item
(0 votes)
قرآن مجید میں علی (ع) کے فضائل

قرآن مجید میں علی (ع) کے فضائل
قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے:
( اِنَّماَ وَلِیُّکُمُ اللهُ وَ رسُولُه وَ الَّذِین آمَنُوا الّذِینَ یُقیمُونَ الصَّلوٰة ویُؤتُون الزَّکَاةَ وَهُمْ راکعونَ ) ( ۱۵ )
بےشک اللہ اور اس کا رسول اور اس کے بعد وہ تمہاراولی ہے جو ایمان لایا اورنماز قائم کی اور رکوع کی حالت میں زکات ادا کی۔
زمخشری اپنی کتاب کشاف میں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ نے نما ز پڑھتے وقت حالت رکوع میں سائل کو اپنی انگوٹھی عطا کی۔ زمخشری مزید کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اعتراض کرے کہ اس آیت میں تو جمع کا لفظ آیا ہے اور یہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لئے کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جب کسی کام کا سبب فقط ایک ہی شخص ہو تو وہاں اس کے لئے جمع کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے تا کہ لوگ اس فعل کی شبیہ بجا لانے میں رغبت حاصل کرےں اور ان کی خواہش ہو کہ ہم بھی اس جیسا ثواب حاصل کرلےں۔( ۱۶ )
نیزاللہ تعالی کا ارشاد ہے:
( اٴَفَمَنْ کَانَ عَلیٰ بینةٍ مِنْ رَبّهِ وَ يَتْلُوْهُ شَاهِد مِنْهُ ) ( ۱۷ )
کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی دلےل پر قائم ہے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ ہے جواسی سے ہے۔
سیوطی درمنثور میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور مزیدکھتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اٴفمن کان علیٰ بینةٍ من ربهِ و يتلوه شاهدٌ منه
وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے واضح دلےل پر قائم ہے وہ میں ہوں اور اس کے پےچھے پےچھے ایک گواہ بھی ہے جو اسی سے ہے اوروہ حضرت علی علیہ السلام ہیں۔( ۱۸ )
نیزاور اللہ کا یہ ارشاد ہے :
( اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُون ) ۱۹ )
کیا ایمان لانے والا اس شخص کے برابر ہے جو بد کاری کرتا ہے ؟یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔
واحدی نے مذکورہ آیات کے اسباب نزول کے بارے میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ولےد بن عقبہ بن ابی محےط نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے کہا۔
میں آپ سے عمر میں زیادہ ،زبان میںگویا تر اور زیادہ لکھنا جانتا ہوں۔ حضرت علی علیہ السلا م نے اس سے کھاکہ خاموش ہو جاؤ تم تو فاسق ہو اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :
( اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ )
کیا ایمان لانے والا شخص اس کے برابر ہے جو کھلی بدکاری کرتا ہے؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔
ابن عباس کہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام مومن ہیں اور ولےد بن عقبہ فاسق ہے ۔( ۲۰ )
نیز اللہ کا فرمان ہے :
( إِنْ تَتُوْبَا إِلَی اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَ إِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَاِنَّ اللهَ هُوَ مَوْلٰیه وَجِبْرَيْلُ وَصَالِحُ الْمؤمنین وَالمَلٰا ئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِيْرٌ )
( اے نبی کی ازواج ) اگر تم اللہ کے حضور توبہ کر لو (تو بھتر ہے ) کیونکہ تمہارے دل کج ہو گئے ہیں اگر تم دونوں نبی کے خلاف کمر بستہ ہو گئےں توبےشک اللہ ،جبرئےل اور صالح مومنین اس کے مدد گار ہیں اور ان کے بعد ملائکہ کے بعد ملائکہ ان کی پشت پر ہیں ۔( ۲۱ )
ابن حجر کہتے ہیں طبری نے مجاھد کے حوالہ سے نقل کیا ہے صالح المومنین حضرت علی علیہ السلام ‘ ابن عباس ، حضرت امام محمد بن علی ا لباقر اور ان کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں ۔ ایک دوسری روایت میں مروی ہے کہ صالح المومنین سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں( ۲۲ )
اسی طرح خداوندعالم کا یہ ارشاد :
( لِنَجْعَلَهَا لَکُمْ تَذْکِرَةً وَتَعِیَهَا اٴُذُنٌ وَاعِیَةٌ ) ( ۲۳ )
اس واقعہ کو تمہارے لیئے یادگار بنا دیں تاکہ یاد رکھنے والے کان اس کو یا د رکھیں۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی اس آیتوتعیهااٴُذن واعیه کی تلاوت فرمائی اور پھر حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کے کانوں کو ان خصوصیات کا مالک بنا دے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم سے جس چیز کو بھی سنتا تھااسے فراموش نہیں کرتا تھا۔( ۲۴ )
حضرت علی کے متعلق اللہ تعالی کا ایک اور یہ فرمان ہے:
( اٴَنْتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) ( ۲۵ )
آپ تو محض ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم میں ایک نہ ایک ھدایت کرنے والا ہوتا ہے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

"اٴنا المنذر وعلي الهادي وبک یا علی يهتدی المهتدون من بعدی"

۔ میں ڈرانے والا اور حضرت علی علیہ السلام ہادی ہیں ،اس کے بعداسی جگہ فرمایا:اے علی(علیہ السلام) میرے بعد ھدایت چا ھنے والے تیرے ذریعے ھدایت پائیں گے( ۲۶ )
اسی طرح خداوند متعال کا ایک اور فرمان ہے:
( الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَهُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَةً فَلَهُمْ اٴَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ )
وہ لوگ جو دن اور رات میں اپنا مال پوشیدہ اور آشکار طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میںخرچ کرتے ہیں ،ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انھیں کسی قسم کا خوف و غم نہیں ہے۔( ۲۷ )
ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئی آپ کے پاس چار درھم تھے آپ نے ایک درھم رات میں، ایک درھم دن میں، ایک درھم چھپا کر اور ایک درھم علانیہ اللہ کی راہ میں خرچ کیاتو یہ آیت نازل ہوئی۔( ۲۸ )
نیزاللہ کا فرمان ہے:

( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَهُمْ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) ( ۲۹ )
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کئے عنقریب خدائے رحمن ان کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں پیدا کرے گا ۔
حضرت علی علیہ السلام کے فضل و کمال کے سلسلہ میں نازل ہونے والی آیات میں خداوند متعال کاارشاد:

"سَیَجْعَلُ لَهُمْ الرَّحْمٰنُ وُدًّا "

خصوصی طور پر آپ کی بابرکت شان کی عکاسی کرتا ہے ۔اسی کے بارے میں ابوحنفیہ کہتے ہیں کہ کوئی مومن نہیں ہے جس کے دل میں حضرت علی علیہ السلام اور ان کے اھلبیت کی محبت قائم نہ ہو۔( ۳۰ )
نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) ( ۳۱ )
جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کئے یھی لوگ مخلوقات میں سب سے بھتر ہیں۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
یا علي تاتي اٴنت و شيعتک یوم القیامة راضين مرضين و یاٴتي عدوک غضا باً مقمَّحين
(اے علی (ع))وہ خیر البریہ آپ اور آپ کے شیعہ ہیں آپ اور آپ کے شیعہ قیامت کے دن خوشی و مسرت کی حالت میں آئیں گے اور آپ کے دشمن رنج و غضب کی حالت میں آئیں گے۔
قال: ومن عدوی؟
حضرت علی نے کہایا رسول اللہ میرا دشمن کون ہے ؟
قال:من تبراٴ منک ولعنک
آپ نے فرمایا:
جو آپ سے دوری اختیار کرے اور آپ کو برا بھلا کھے وہ آپ کا دشمن ہے۔( ۳۲ )
اسی طرح خداوندمتعال کا ایک اور فرمان ہے :
( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ) ( ۳۳ )
اے مومنین ! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ ۔
سورہ تو بہ کی اس آیہ شریفہ کے ذیل میں جناب سیوطی کہتے ہیں: ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالی کا یہ فرمان :
( اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ) ( ۳۴ )
اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔( ۳۵ )
اس میں سچوں کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ہو جاؤ۔
نیزاللہ کا فرمان ہے:

( اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَیَسْتَوُونَ عِنْدَ اللهِ وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) ( ۳۶ )
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کو آبادکرنے کے کام کو اس شخص کی خدمت کے برابر سمجھ لیا ہے جو اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان لا چکا ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی کر چکا ہے یہ دونوں خدا کے نزدیک برابر نہیں ہو سکتے اور خدا ظالموں کو سیدھے راستہ کی ھدایت نہیں کرتا۔
السدی کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام ،جناب عباس اور شبیر بن عثمان آپس میں فخر کیا کرتے تھے ،حضرت عباس کہتے تھے میںآپ سب سے افضل ہوں کیونکہ میں بیت اللہ کے حاجیوں کو پانی پلاتا ہوں ،جناب شبیر کہتے تھے کہ میں نے مسجد خدا کی تعمیر کی ۔حضرت علی علیہ السلام کہتے ہیں: میں نے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم ) کے ساتھ ہجرت کی اور ان کے ساتھ مل کر اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:
( الَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ اٴَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْفَائِزُونَ یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِیهَا نَعِیمٌ مُقِیمٌ ) ( ۳۷ )
وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ تعالی کی راہ میں جان ومال کے ذریعہ جہاد کیا اللہ تعالی کے نزدیک انکا بہت بڑا مقام ہے،یھی لوگ کا میاب ہیں اللہ تعالی نے انھیں اپنی رحمت کی بشارت دی ہے باغات اور جنت انھیں کے لیئے ہیں اور وہ ہمیشہ وہاںرھیں گے۔
نیز اللہ تعالی یوں ارشاد فرماتا ہے:
( وَقِفُوْهُمْ اِنّهُمْ مَسْؤلُون ) ( ۳۸ )
انھیں روکو-، ان سے سؤال کیاجائے گا۔
ابن حجر کہتے ہیں کہ دیلمی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجےد کی اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انھیںروکو،کیونکہ ان سے ولایت علی (ع)ابن ابی طالب علیہ السلام سے متعلق سوال کیاجائے گا۔
اسی مطلب کو واحدی نے بھی بیان کیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کے فرمان

( وَقِفُوْهُمْ اِنّهُمْ مَسْؤلُون )

کہ انھیں ٹھھراؤ یہ لوگ ذ مہ دار ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت کی ولایت کے سلسلے میں جواب دہ ہیں کیونکہ اللہ تبارک تعالی نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کو بتاؤ کہ میں تم سے تبلیغ رسالت کا فقط یھی اجر مانگتا ہوں کہ میرے قرابت داروں سے محبت رکھو۔
کیا ان لوگوں نے(حضرت) علی علیہ السلام اور اولاد علی (ع) سے اسی طرح محبت کی جس طرح رسول اللہ(ص)نے حکم دیا تھا یا انھوں نے ان سے محبت کرنے کا اھتمام نہیں کیا اور اسے اھمیت نہیں دی لہٰذا اس سلسلہ میں ان لوگوں سے پوچھا جائے گا۔( ۳۹ )
خداوندعالم کا ارشاد ہوتا ہے :
( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِهِ فَسَوْفَ یَاٴْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ اٴَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اٴَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِینَ یُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَیَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ) ( ۴۰ )
اے ایمان والو!

تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے عنقریب اللہ ایسے لوگوں کو ان کی جگہ پر لے آئے گا جنھیں اللہ دوست رکھتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہونگے ،مومنین کے ساتھ نرم اور کافروں کے ساتھ سخت ہونگے اور وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کے ملامت سے نہیں ڈریں گے،یہ خدا کی مھربانی ہے ،جسے چاھے عطا فرمائے اور خدا صاحب وسعت اور جاننے والا ہے۔
فخر الدین رازی اور علماء کا ایک گروہ اس آیہ مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ،اور اس پر دو چیزیں دلالت کرتی ہیں پھلی یہ کہ جب حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غدیر کے دن فرمایا:
لاٴدفعن الرایة غداً الیٰ رجلٍ یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله
کل میں یہ پرچم اس شخص کے حوالے کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول کومحبوب رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔اس کے بعد پرچم حضرت علی علیہ السلام کے حوالے کیا لہٰذا یہ وہ صفت ہے جو آیت میں بیان ہوئی ہے ۔
دوسری یہ کہ ا للہ نے اس آیت کے بعد مندرجہ ذیل آیت بھی حضرت علی علیہ السلام کے حق میں بیان فرمائی:
( إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ )
تمہارا حاکم اور سردار فقط اللہ،اس کا رسول،اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور پابندی سے نماز پڑھتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں ۔
ابن جریر کہتے ہیں:
اگریہ آیت یقینا حضرت علی علیہ السلام کے حق میں نازل ہوئی ہے تو اس سے پھلی والی آیت کا حضرت علی کے حق میں نازل ہونا اولی ہے۔( ۴۱ )
نیزاللہ تعالی کا یہ فرمان :
( فَاسْاٴَلُوا اٴَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ ) ( ۴۲ )
اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے سوال کرو۔
جابر جعفی کہتے ہیں کہ جب یہ آیت ”فاُسئلوا اٴهل الذکر ان کنتم لا تعلمون “نازل ہوئی تو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے تھے ہم اہل ذکر ہیں۔( ۴۳ )
اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے:
( اٴَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلاَمِ فَهُوَ عَلَی نُورٍ مِنْ رَبِّهِ فَوَیْلٌ لِلْقَاسِیَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِکْرِ اللهِ اٴُوْلَئِکَ فِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ )
کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیئے کھول دیا ہے اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نور(ھدایت)پر ہے اس کے برابر ہو سکتا ہے جو کفر کی تاریکیوں میں پڑا رھے پس افسوس ہے ان لوگوں پر جن کے دل یاد خدا کے سلسلے میں سخت ہو گئے ہیں وہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ۔( ۴۴ )
یہ آیت بھی حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو بیان کرتی ہے کیونکہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام ،حضرت حمزہ علیہ السلام ‘ابو لھب اور اس کی اولاد کے متعلق نازل ہوئی حضرت علی علیہ السلام اور حضرت حمزہ وہ ہیں جن کے سینوں کو اللہ تبارک تعالی نے اسلام کے لیئے کھول دیا ہے اور ابولھب اور اس کی اولاد وہ ہے جن کے دل سخت ہیں۔( ۴۵ )
ایک اور آیت میں اللہ فرماتا ہے:
( مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا ) ( ۴۶ )
مومنین میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے خدا سے کیا ہوا عھد سچ کر دکھایا ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنی ذمہ داری پوری کر چکے ہیں اور بعض (شہادت) کےمنتظر ہیں اورانھوں نے( ذرا سی بھی)تبدیلی اختیار نہیں کی ۔
حضرت علی علیہ السلام کوفہ میں منبر پر خطبہ دے رھے تھے وہاں آپ سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
یہ آیت میرے چچا حمزہ اور میرے چچا زاد بھائی عبیدہ بن الحارث بن عبد المطلب اور میری شان میں نازل ہوئی ہے۔ عبیدہ اپنی ذمہ داری بدر کے دن شھید ہو کر پوری کرگئے اور حمزہ احد کے دن درجہ شہادت پر فائز ہو کر اپنی حیات مکمل کر گئے ۔اور میں اس کا منتظر و مشتاق ہوں۔ پھر اپنی ریش مبارک اور سر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ وہ عھد ہے جو مجھ سے میرے حبیب حضرت ابوالقاسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لیاھے ۔( ۴۷ )
اس طرح خدا وند عالم کا ارشاد ہے:
( وَالَّذِی جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ الْمُتَّقُونَ ) ( ۴۸ )
اور جو سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یھی لوگ( تو) پرھیز گار ہیں۔
ابو ھریرہ کھتا ہے کہ صدق کو لانے والے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت علی علیہ السلام ہیں( ۴۹ )
ایضاً اللہ ارشاد فرماتا ہے:
( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لاَیَبْغِیَان فَبِاٴَیِّ اٰ لآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان ) ( ۵۰ )
اس نے آپس میں ملے ہوئے دو دریا بھادئیے ہیں اور دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے جو ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرتا پھر تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوںکو جھٹلاؤ گے ان دونوں سے موتی اور مونگے ( لو لو اور مرجان) نکلتے ہیں۔
ابن مردویہ نے ابن عباس سے مرج البحرین یلتقیان کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا ان سے مراد حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ (ع) ہیں اور برزخ لا یبغیان سے مراد حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اوریخرج منهما اللؤلؤ و المرجان سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں۔( ۵۱ )
ایضاًاللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
( اٴَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ اٴَنْ نَجْعَلَهُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ )
جو لوگ برے کاموں کے مرتکب ہوتے رھتے ہیں کیا انھوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ ہم ان کو ان لوگوں کی مانند قرار دیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رھے کیا ان کا جینا و مرنا مساوی ہے یہ لوگ (کیسے کےسے )برے حکم لگایا کرتے ہیں۔( ۵۲ )
کلبی کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ،حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ اور تین مشرکین عتبہ ،شیبہ اور ولید بن شیبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔
یہ تینوں مومنین سے کہتے تھے کہ تم کچھ بھی نہیں ہو اگر ہم حق کہہ دیں تو ھمارا حال قیامت والے دن تم سے بھتر ہو گا۔ جیسا کہ دنیا میں ھماری حالت تم سے بھتر ہے۔لیکن اللہ تبارک و تعالی نے اپنے اس فرمان کے ساتھ ان کی نفی کی ہے کہ یہ واضح ہے کہ ایک فرمانبردار مومن کا مرتبہ و مقام ایک نا فرمان کافر کے برابر ھرگزنھیں ہو سکتا ۔( ۵۳ )
ایضاً اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
( وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنْ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا )
اور وہی قادر مطلق ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس کو بیٹا اور داماد بنا دیا (اور)پروردگار ہر چیز پر قادر ہے ۔( ۵۴ )
محمد بن سرین اس آیت کی تفسیر میں کھتا ہے کہ یہ آیت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و االہ و سلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و االہ و سلم) کے چچا زاد اور آنحضرت کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا کے شوہر ہیں گویا ”نسباً“اور” صھراً “کی تفسیرےھی ہستی ہے۔( ۵۵ )
ایضاً پروردگار عالم کا ارشاد ہے:
( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ إِلاَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ) ( ۵۶ )

زمانے کی قسم بےشک انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے اور باھم ایک دوسرے کو حق کی وصیت اور صبر کی تلقین کرتے ہیں۔
سیوطی کہتے ہیں کہ ابن مردویہ نے ابن عباس سے یہ قول نقل کیا ہے کہ

وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ ،

سے مراد ابوجھل بن ھشام ہے اور

”إِلاَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ “

سے مرادحضرت علی علیہ السلام اور حضرت سلمان ہیں۔( ۵۷ )
ایضاًاللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے :
وَعَلَی الْاٴَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلًّا بِسِیمَاهُمْ ) ( ۵۸ )
اعراف پر کچھ ایسے لوگ (بھی )ہوں گے جولوگوں کی پیشانیاں دیکھ کر انھیں پہچان لیں گے ۔
ثعلبی نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں پل صراط کی ایک بلند جگہ کا نام اعراف ہے اور اس مقام پر حضرت عباس ، حضرت حمزہ اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام موجود ہوں گے وہاں سے دو گروہ گزریں گے یہ لوگ اپنے محبوں کو سفید اور روشن چھروںاور اپنے دشمنوں کو سیاہ چھروں کے ذریعے پہچان لیں گے ۔( ۵۹ )
قارئین کرام !تھی یہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان اور فضیلت میں نازل ہونے والی آیات کی یہ ایک جھلک ہے کیونکہ آپ کی شان میں نازل شدہ تمام آیات کو اس مقام پر بیان کرنا مشکل ہے۔بھرحال خطیب بغدادی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت اور شان میں تین سو سے زیادہ آیات نازل ہوئی ہیں ۔( ۶۰ )
ابن حجر اور شبلنجی ابن عامر اور ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ کسی کے متعلق بھی اس قدر آیات نازل نہیں ہوئیں جتنی آیات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔(۶۱ )
ھم حضرت علی علیہ السلام کی بلند و بالا اور اعلیٰ وارفع شان اور آپ کی فضیلت اور اللہ کے نزدیک آپ کی عظیم منزلت کے متعلق نازل ہونے والی آیات کریمہ کا آنے والے ابواب میں تذکرہ کریں گے ۔

---------

[۱۵] سورہ مائدہ آیت ۵۵۔

[۱۶] الکشاف ج۱ ص ۶۴۹۔

[۱۷] سورہ ھود آیت ۱۷۔

[۱۸] سیوطی نے در منثور میں اس آیت کے ذیل میں اس مطلب کو بےان کےا ھے۔

[۱۹] سورہ سجدہ :آیت۱۸۔

[۲۰] واحدی اسباب نزول ص۲۶۳۔

[۲۱] سورہ تحرےم:آیت۴۔

[۲۲] ابن حجر العسقلانی فتح الباری ،ج ۱۳ ص ۲۷۔

[۲۳] سورہ حاقة آیت ۱۲۔

[۲۴] تفسیر ابن جریر الطبری ج ۲۹ ص ۳۵۔

[۲۵] سورہ رعد آیت ۷۔

[۲۶] کنز العمال ج ۶ ص۱۵۷۔

[۲۷] سورہ بقرہ آیت ۲۷۴۔

[۲۸] اس روایت کو اسد الغابہ میں ابن اثیر جزری نے ج ۴ ص ۲۵، ذکر کےا ھے۔ اور اسی مطلب کو زمحشری نے تفسیرکشاف میں نقل کیا ھے ان کے علاوہ دوسری کتب میں بھی ےھی تفسیر مذکور ھے ۔

[۲۹] سورہ مریم آیت ۹۶۔

[۳۰] ریاض النضرہ ج ۲ ص ۲۰۷،الصواعق ابن حجر ص۱۰۲، نور الابصار شبلنجی ص ۱۰۱۔

[۳۱] سورہ البینہ آیت ۷

[۳۲] صواعق محرقہ ابن حجر ص ۹۶،نور الابصار شبلنجی ص ۷۰ اور ص ۱۰۱ ۔

[۳۳] سورہ توبہ آیت ۱۱۹۔

[۳۴] سورہ توبہ آیت ۱۱۹۔

[۳۵] سورہ توبہ آیت ۱۹.

[۳۶] سیوطی در منثور در ذیل آیت۔

[۳۷] سورہ توبہ آیت ۲۰تا ۲۱۔، تفسیر ابن جریر طبری ج ۱۰ ص ۶۸۔

[۳۸] سورہ صافات آیت۲۴۔

[۳۹] الصواعق محرقہ ابن حجر ص ۷۹ ۔

[۴۰] فخر رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ مائدہ کی اس آیت کے ذیل میں یہ تفسیر بیان کی ھے ۔

[۴۱] سورہ مائدہ آیت ۵۴۔

[۴۲] سورہ نحل آیت۴۳۔

[۴۳] تفسیر ابن جریرطبری ج ۱۷ ص۵۔

[۴۴] سورہ زمر: ۲۲۔

[۴۵] ریاض النضرہ ‘محب طبری ج ۲ ص ۲۰۷۔

[۴۶] سورہ احزاب :۲۳۔

[۴۷] صواعق محرقہ ابن حجر ص ۸۰۔

[۴۸] سورہ زمر :۳۳۔

[۴۹] سیوطی در منثور ذیل تفسیر آیہ ۔

[۵۰] سورہ رحمن: ۱۹تا ۲۲ ۔

[۵۱] سیوطی در منثور ۔

[۵۲] سورہ جاثیہ : ۲۱۔

[۵۳] تفسیر کبیر ،فخر الدین رازی ذیل تفسیر آیہ۔

[۵۴] سورہ فرقان: ۵۴۔

[۵۵] نور الابصار شبلنجی ص۱۰۲۔

[۵۶] سورہ عصر۔

[۵۷] درمنثور تفسیر سورہ عصر۔

[۵۸] سورہ اعراف :۴۶ ۔

[۵۹] صواعق محرقہ ابن حجرص ۱۰۱۔

[۶۰] تا ریخ بغداد‘ خطیب بغدادی ج۶ ص ۲۲۱۔

[۶۱] صواعق محرقہ ص ۷۶ ،نور الابصار ص ۷۳

Read 10 times