خطیب حرم حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا، حجت الاسلام والمسلمین محمد ہادی ہدایت نے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے فضائل اور قم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے خبر دی تھی کہ ایک خاتون جن کا نام "فاطمہ" ہوگا، قم میں دفن ہوں گی اور جو بھی ان کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوگی۔ اس بشارت نے قم کو اہل بیت علیہم السلام کے حرم اور دنیائے تشیع کے مرکز کی حیثیت دی۔
انہوں نے کہا کہ قرآن مجید کے سورہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے "حرم امن" کا ذکر کیا ہے اور روایات کے مطابق قم کو بھی اہل بیت علیہم السلام کا حرم قرار دیا گیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق جس طرح مکہ، مدینہ اور کوفہ کو خاص فضیلت حاصل ہے، ویسے ہی قم کو بھی یہ شرف حاصل ہے کہ اسے اہل بیت علیہم السلام کا حرم کہا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین ہدایت نے بتایا کہ ملک میں ہزاروں امامزادے ہیں لیکن حضرت عباس علیہ السلام، حضرت علی اکبر علیہ السلام اور حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا وہ ہستیاں ہیں جن کے لیے زیارتنامہ موجود ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ "ہمارا ایک مزار تمہارے درمیان ہے" اور یہ مزار حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا ہے جو حقیقت میں اہل بیت علیہم السلام کا حرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی کرامت صرف حاجت روائی یا مریضوں کے علاج تک محدود نہیں بلکہ ان کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ انہوں نے ایک سنسان علاقے کو علم و دین کا مرکز بنا دیا۔ آج حوزہ علمیہ قم جیسی عظیم دینی درسگاہ انہی کے طفیل قائم ہے۔
اس محقق کے مطابق حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کا اصل راز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی مدد کے لیے مدینہ سے سفر کیا اور اسی راستے میں شہادت پائی۔ لیکن قم میں مختصر قیام کے دوران انہوں نے اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کو عام کیا اور شیعوں کو تربیت دی۔
انہوں نے کہا کہ اہل قم ہمیشہ فخر کرتے ہیں کہ ان کا شہر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی آرام گاہ ہے۔ آپ کی شخصیت اس لیے منفرد ہے کہ آپ امام کی بیٹی، امام کی بہن اور امام کی پھوپھی ہیں۔ جس طرح حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے کربلا کے پیغام کو زندہ کیا، ویسے ہی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے علم و کرامت کے ذریعے تشیع کو تقویت بخشی۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا صرف زیارت کا مقام نہیں بلکہ ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں سے علما اور فضلاء تیار ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج تک تمام بڑے علما انہی کی برکت سے پروان چڑھے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔