زائرین کے تاثرات سے یہ بات نمایاں ہوتی ہے کہ نجف کی فضا میں ایک ایسی روحانی خوشبو رچی بسی ہے جو دل و جان کو مہکا دیتی ہے۔ ان مقدس فضاؤں میں قدم رکھتے ہی دل پر ایک انوکھا سکون اتر آتا ہے اور آنکھوں میں عقیدت و محبت کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کے روضۂ اقدس کی زیارت کے بعد جب کوئی زائر کربلا کی سمت روانہ ہوتا ہے تو اس کے دل کی دھڑکنیں ایک نئے جذبے سے دھڑکنے لگتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت آج یہ مبارک مناظر دنیا بھر کے عاشقانِ اہل بیت علیہم السلام کے لیے بآسانی قابلِ مشاہدہ ہیں۔ اگرچہ ہمیں اب تک اس سفرِ عشق کا شرف حاصل نہیں ہوا، مگر دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ ہر عاشقِ امام حسین علیہ السلام کو یہ عظیم سعادت نصیب ہو۔ کیونکہ یہ محض ایک سفر نہیں بلکہ عشق کا اعلان اور اس تاریخ کا تسلسل ہے جو صدیوں سے ایمان و قربانی کی خوشبو بکھیر رہا ہے۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ نجف تا کربلا مشی کی روایت کی بنیادیں کربلا کے اولین زائر حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضوان اللہ علیہ تک جا پہنچتی ہیں۔ واقعۂ عاشورا کے چالیس دن بعد، سنہ 61 ہجری میں انہوں نے اپنے غلام عطیہ کو ساتھ لیا اور فرات کے کنارے غسل کر کے کربلا پہنچے۔ امام حسین علیہ السلام کے مزار پر گریہ و سلام عرض کیا اور یوں اربعین کی زیارت کا آغاز ہوا۔ بعد کے ادوار میں عاشقانِ حسین علیہ السلام نے اسی سنت کو زندہ رکھا، چاہے حالات کٹھن ہوں یا راستے دشوار۔ بعثی حکومت کے دور میں اس مَشی پر پابندی لگا دی گئی۔ زائرین کو گرفتار کیا جاتا، مارا پیٹا جاتا اور بعض اوقات شہید کر دیا جاتا۔ مگر محبتِ حسین (ع) کی راہ میں یہ رکاوٹیں پہاڑ کی چوٹی پر بہتے چشمے کی طرح راستہ بدل کر بھی جاری رہتی رہیں۔ زیرِ زمین راستے، خفیہ قافلے اور چھپ چھپ کر کی گئی زیارت۔ یہ سب اس بات کا اعلان تھا کہ "حسین زندہ ہیں اور ان کے عاشق بھی"۔
ایک زائر کے بقول اب جب اربعین کا وقت آتا ہے نجف کی گلیوں سے کربلا کی سرزمین تک، تقریباً 80 کلومیٹر کا یہ فاصلہ ایک سمندرِ محبت میں بدل جاتا ہے۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں زائرین۔ عرب و عجم، مشرق و مغرب۔ سفر کے ہر قدم پر ایک ہی نعرہ دہراتے ہیں "لبیک یا حسین"۔ راستے میں بچھے موکب، مٹی کے فرش پر دسترخوان، کھجوریں، چائے، پانی، سب کچھ بلا معاوضہ اور بلا تکلف۔ کوئی پاؤں دبانے کو جھک رہا ہے، کوئی زخم دھونے کو، کوئی دعا دینے کو۔ یہ وہ منظر ہے جو دنیا کی کسی اور تحریک یا اجتماع میں نظر نہیں آتا۔ یہاں رنگ، نسل، زبان اور قومیت سب مٹ جاتی ہے۔ صرف ایک نسبت باقی رہتی ہے: نسبتِ حسین علیہ السلام ۔
احادیث میں آیا ہے کہ اربعین کی زیارت مؤمن کی علامت ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: مؤمن کی پانچ علامات ہیں، جن میں سے ایک اربعین کی زیارت ہے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای مَشی اربعین کی اہمیت کے حوالے سے فرماتے ہیں: آج کے دور میں جب اسلام دشمن اور امتِ اسلامی کے دشمن مختلف طریقوں، ذرائع، مال، سیاست اور اسلحے کے ساتھ امتِ مسلمہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، خداوند متعال ناگہانی طور پر اربعین کے اس عظیم مارچ کو ایسی عظمت عطا کرتا ہے، ایسا جلوہ عطا کرتا ہے۔ یہ خدا کی عظیم نشانی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتِ اسلامی کی نصرت کی علامت ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کا ارادہ امتِ اسلامی کی مدد کے لیے محکم ہو چکا ہے۔
یہ سفر جسم کو تھکا دیتا ہے مگر روح کو جلا بخشتا ہے۔ ہر قدم گویا ایک آنسو بن کر کربلا کے خیموں تک پہنچتا ہے اور ہر لمحہ دل کے صحرا میں وفا کے پھول اگاتا ہے۔ مگر آج کل ایک نیا کھیل رچایا جا رہا ہے۔ ایک ایسا کھیل جس میں سفرِ عشق کی خوشبو میں فریب کی گند چھپائی جا رہی ہے۔ معلومات کے مطابق عاشورہ اور اربعین کے دنوں میں، جب ہزاروں زائرین عقیدت کے چراغ لیے عراق کی سرزمین کا رخ کرتے ہیں، اسی ہجوم کے بیچ ایک اور قافلہ بھی ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ نجف و کربلا کے مسافر ہوتے ہیں اور نہ امام حسین علیہ السلام کے غم میں اشک بہانے والے۔ ان کا سفر محبت کا نہیں، مجبوری کا ہوتا ہے اور ان کے قافلہ سالار "انسانی اسمگلر" کہلاتے ہیں۔
باوثوق ذرائع کے مطابق عراقی بارڈر پر ایک عجب منظر بنتا ہے۔ عقیدت مند زائرین کو ایک طرف بٹھا دیا جاتا ہے، جیسے کوئی قافلہ راہ دیکھ رہا ہو اور دوسری طرف ایک الگ لاٹ تیار کی جاتی ہے۔ یہ "ڈنکی لگانے والے" جوان۔ جیسے ہی امیگریشن کے ساتھ ڈیل کا باب مکمل ہوتا ہے، سب سے پہلے یہ لاٹ سرحد پار لے جائی جاتی ہے اور زائرین اپنے کاغذات کے ساتھ ایک دوسرے کا منہ تکنے پر مجبور رہ جاتے ہیں۔ کہنے کو تو زمینی راستوں پر پابندی زائرین کے تحفظ کے لیے ہے، مگر پردے کے پیچھے کچھ اور ہی منظر ہے۔ کچھ زبانوں پر یہ بھی گلہ ہے کہ سفر عشق کے ٹکٹ بلیک میں بیچے جا رہے ہیں اور عقیدت کی گلی میں کاروبار کی منڈی سجائی جا رہی ہے۔
یہ داستان محض چند افراد کی بددیانتی نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم سب کی غفلت جھلک رہی ہے۔ عشق کی گلیوں میں فریب کے قدموں کی چاپ سنائی دے تو لازم ہے کہ چراغ تھامے کوئی سچ کا قافلہ نکلے۔ ورنہ ڈر ہے کہ کل یہ سفرِ عشق، سفرِ پریشانی بن کر رہ جائے گا۔ دھوکے بازوں اور فریب کاروں کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی ادارے اور اینٹی کرپشن کے محکمے مؤثر اور فوری اقدامات کریں۔ عوام کو بھی چاہیئے کہ ایسے عناصر کے جال میں نہ پھنسیں جو عقیدت کے نام پر ناجائز منافع کمانے اور انسانی اسمگلنگ جیسے جرائم میں ملوث ہوں۔ خصوصاً زائرینِ امام حسین علیہ السلام کو ہوشیار رہنا چاہیئے اور اگر کسی مشتبہ شخص یا سرگرمی کا مشاہدہ ہو تو فوراً متعلقہ حکومتی ذمہ داران کو اطلاع دیں تاکہ یہ سفرِ عشق اپنی پاکیزگی اور روحانیت کے ساتھ قائم رہے اور فریب کے سائے اس کے راستے کو آلودہ نہ کر سکیں۔
یہ مَشی صرف چلنا نہیں بلکہ ایک اعلان ہے کہ یزیدیت وقت کی قید میں نہیں اور حسینیت بھی زندہ و جاوید ہے۔ یہ دنیا کو بتاتا ہے کہ مظلوم کی یاد کو مٹایا نہیں جا سکتا اور حق کا چراغ صدیوں بعد بھی اسی طرح روشن رہتا ہے جیسے 61 ہجری میں تھا۔ نجف سے کربلا تک کا یہ عاشقانہ سفر اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ محبتِ حسین(ع) محض ایک عقیدت نہیں بلکہ ایک زندہ تحریک ہے۔ ایسی تحریک جو نہ تلوار سے دبتی ہے، نہ وقت کی گرد میں کھو جاتی ہے۔
زیارتِ اربعین اور مَشیِ عشق: فریب کے طوفان میں وفا کا پرچم

Published in
اسلامی مناسبتیں