،مجلس خبرگان (ماہرین اسمبلی) کے سربراہ اور اراکین نے جمعرات کی صبح رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس ملاقات میں ماہ شعبان کی آمد اور اس مہینے کے مبارک ایام کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے، ماہرین اسمبلی کو جمہوریت اور اسلامیت کے اکٹھا ہونے کا حقیقی مظہر بتایا۔ انھوں نے کہا کہ یہ اسمبلی، جمہوریت کے صحیح اور مکمل طور پر عملی جامہ پہننے کے سائے میں، عوام کی منتخب اسمبلی ہے اور ساتھ ہی یہ علمائے دین پر مشتمل ہے اور نظام کی دینی ماہیت کی عکاسی کرتی ہے۔
انھوں نے ماہرین اسمبلی کی پوزیشن، اہمیت اور حساسیت کو نظام کے کسی بھی مرکز اور ادارے سے زیادہ بتایا اور کہا کہ یہ اسمبلی، رہبر انقلاب کا تعین کرنے والی بھی ہے اور اپنی نگرانیوں کے ذریعے قیادت کی موجودگی اور اس کی شرائط کے جاری رہنے کو یقینی بناتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امور مملکت پر ماہرین اسمبلی کی نگرانی کو، اعلی اسلامی قیادت کی خواہش اور ایک صحیح کام بتایا اور کہا کہ سارے مسائل سے زیادہ اہم، ماہرین اسمبلی کے ارکان کے ادارے کے اندر اور باہر کی ذمہ داریوں پر سنجیدگي سے عمل ہے۔
انھوں نے رہبر انقلاب کی شرائط کے تحفظ اور آئين میں درج رہبر کی ذمہ داریوں اور دیگر حتمی فریضوں کی نگرانی کو بہت اہم بتایا اور کہا کہ قیادت کی سب سے اہم ذمہ داری، انقلاب کی صحیح سمت میں ملک اور نظام کے اہم حصوں کو آگے لے جانا ہے تاکہ اصل راستے سے انحراف پیدا نہ ہونے پائے اور اسلامی انقلاب، دوسرے انقلابوں کی طرح راستے سے نہ ہٹ جائے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ماہرین اسمبلی سے دشمنی کو، اسلامی جمہوریہ سے دشمنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ سے کچھ دشمنی، سیاسی مسائل اور فلسطین جیسے معاملات میں اس کے موقف کی وجہ سے ہے لیکن کچھ دشمنیاں، خود نظام اور اس کے ڈھانچے سے ہیں۔
انھوں نے ایران کے اسلامی نظام سے دشمنی کی وجہ کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ان افراد کے مقابلے میں ڈٹ گئی جو مغربی جمہوریت پر ایمان رکھتے ہیں اور سماجی مسائل میں دین کی ہر قسم کی دخل اندازی کے خلاف ہیں، اسی طرح یہ نظام لبرل ڈیموکریسی کے سرغناوؤں کے سامنے بھی ڈٹ گيا جنھوں نے آزادی اور جمہوریت کے جھوٹے پرچم کے سائے میں دنیا پر قبضے اور اس کے وسائل کو لوٹنے کی سازش تیار کر رکھی ہے، اسلامی جمہوری نظام نے، دین کے ساتھ، جمہوریت اور آزادی کو اکٹھا کر کے ان کی سازشوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ماہرین اسمبلی کے ارکان کی دوسری خصوصیت، ان کا عالم دین ہونا ہے اور اسلامی جمہوریہ کی مضبوط عوامی بنیاد اور عوام و نظام کا ایک دوسرے سے مضبوط رشتہ اور ایک دوسرے پر بھروسہ، ایسا قومی سرمایہ اور دنیا میں ایسی ناقابل انکار اور بے نظیر یا کم نظیر حقیقت ہے جس کی جھلکیاں ہم نے کورونا کی وبا کے ایام میں اور قدرتی آفات کے وقت امداد میں عوامی شرکت میں دیکھی ہیں۔
انھوں نے اس سال 22 بہمن مطابق 11 فروری کے جلوسوں کو، اسلامی جمہوری نظام کی مضبوط عوامی بنیادوں کی ایک اور جھلک بتایا اور کہا کہ دنیا میں ایک سیاسی بات کے لیے کہاں پر اس طرح کا عظیم الشان عوامی اجتماع دکھائي دیتا ہے جس میں عوام اتنی کثرت سے اور رجحانوں اور آبادی کے اتنے تنوع کے ساتھ، کمر خمیدہ ضعیفوں سے لے کر بچوں اور نوجوانوں تک چالیس پینتالیس سال سے لگاتار ہر برس اور موسم کی سختیوں کے باوجود، ہر سال میدان میں آتے ہیں؟
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ عوامی شرکت نے، ہم عہدیداران اور علماء پر حجت تمام کر دی ہے اور اس قومی سرمائے پر صرف فخر کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں اس سرمائے کی لگاتار حفاظت کرنی ہے، اس میں اضافہ کرنا ہے اور اس سلسلے میں اپنے فرائض پر عمل کرنا ہے۔
انھوں نے عوامی موجودگي اور مضبوط عوامی بنیاد کی بے پناہ اور خطروں کو دور کرنے والی دولت کو نظام کے لیے حیاتی بتایا اور کہا کہ علماء پر، چاہے ان کے پاس سرکاری عہدہ ہو یا نہ ہو، اس عظیم سرمائے کی حفاظت کے لیے بھاری ذمہ داریاں ہیں جن میں سب سے اہم 'تشریح کا جہاد' ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں عوام میں امید پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی دائمی پالیسی، مایوسی پیدا کرنا ہے۔ انھوں نے 1990 میں ایک سیاسی گروہ کی جانب سے ملک کے ایک اعلی رتبہ عہدیدار کو لکھے گئے خط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی وفات کے ایک سال بعد اس گروہ نے پوری طرح مایوسی پھیلانے والے کھلے خط میں لکھا تھا کہ ملک اور قوم تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جو لوگ خود اور ان کی شخصیت تباہی اور بربادی کے دہانے پر ہے، وہ ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں، جن کے دل اور ذہن امید سے لبریز ہوتے ہیں وہ مسائل اور حالات کو امید کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
اس ملاقات کی ابتدا میں، ماہرین اسمبلی کے نائب سربراہ حجت الاسلام سید ابراہیم رئيسی نے کونسل کے گيارہویں اجلاس کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔