رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے منگل کے دن یونیورسٹی طلباء کے ایک گروپ سے ملاقات میں آزادی کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ آزادی مختلف جہتوں کی حامل ہے اور اسے انسانی عظمت کا باعث بننا چاہیئے۔ آزادی ان محوروں میں سے ایک ہے، جس کو مغربی طاقتیں اپنے لیے پروپیگنڈے نیز اپنے مخالف ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس کی ایک مثال اسلامی جمہوریہ ایران ہے، جس کے خلاف مغرب آزادی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ مغربی نقطہ نظر سے آزادی کی مرکزی علامت و مفہوم انفرادیت اور دنیا پرستی ہے۔ مغرب سیاسی میدان میں آزادی کو بس اس حد تک قبول کرتا ہے، جب تک وہ مغربی اقدار اور اصولوں سے متصادم نہ ہو اور خود اسے چیلنج نہ کرے۔
آزادی کی اس تعریف اور فہم کو اسلام قبول نہیں کرتا۔ اسلام انسانوں کی آزادی پر زور دیتے ہوئے، نسل، مذہب اور رنگ وغیرہ کے لحاظ سے انسانوں میں فرق نہیں کرتا۔ اسلام کے مطابق آزادی کی دنیاوی اور اخروی دونوں جہتیں ہیں اور اس میں دنیا اور آخرت دونوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ آزادی کو صرف دنیوی زندگی کی حدود میں بیان کرنا آزادی کو پست و حقیر کرنا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے آزادی کا حتمی مقصد انسان کا کمال اور اس کی سربلندی ہے، نہ کہ انسان کو شہوت و عارضی لذتوں میں مصروف رکھنا آزادی ہے۔
طلباء سے ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: “آزادی بہت اہم ہے، اسلام میں نظریہ آزادی کا سب سے اہم حصہ اس مادی فریم ورک سے آزادی ہے۔ یہ مادی فریم کہتا ہے کہ تم پیدا ہوئے، تم چند سال زندہ رہو، پھر تم فنا ہو جاؤ گے، گویا ہم سب کو فنا ہونے کی سزا ہے۔ مادہ پرست اس مادی پنجرے میں کچھ آزادی دیتے ہیں، وہ آزادی ہوس و شہوت کی آزادی، غصے کی آزادی، جبر کی آزادی، یہ آزادی حقیقی آزادی نہیں ہے۔ حقیقی آزادی اسلامی آزادی ہے۔ اسلام ہمیں اس فریم ورک میں رکھتا ہے، جو مادیت کے پنجرے میں بند نہیں کرتا۔۔۔۔ مرنا اختتام نہیں؛ مرنا ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے، (اور درحقیقت) اہم مرحلہ کی طرف سفر ہے۔ جب آزادی کو اس طرف دیکھو گے تو آپ کا افق و ویژن بلند ہوگا۔ آپ اپنی ترقی کے لیے خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہیں گے۔ آپ کی فضیلت کی کوئی حد نہیں ہوگی، یہ آزادی ہے۔”
قائد انقلابو ملک کو مثالیت، امید اور عقلانیت کی ضرورت ہے
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مغربی دنیا میں سیاسی آزادیوں اور انسانی حقوق کے دعوے اس وقت تک معنی خیز ہیںو جب تک وہ دنیا میں مغرب کے سیاسی اور ثقافتی اثر و رسوخ کو چیلنج نہیں کرتے۔ مغرب میں اسلامو فوبیا اور پیغمبر اسلام اور قرآن پاک کی توہین اور مغربی حکومتوں کی طرف سے ایسے اقدامات کی حمایت مغرب کے اس طرز عمل کی مثالیں ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی معاشروں میں سیاسی آزادی عملی طور پر محض دعویٰ اور پروپیگنڈہ ہے۔
درحقیقت مغرب اپنی بیان کردہ سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا بھی استعمال کرتا ہے، جس کی تعریف وہ اپنے نظریات کے مطابق کرتا ہے اور اسے دوسرے ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال بھی کرتا ہے۔ طلباء کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب نے شخصی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ دقیانوسیت، جمود، مختلف پسماندگیوں، غیر ضروری تعصبات، سپر پاورز اور آمروں کی قید سے آزادی پر زور دیا ہے اور اس بات پر تاکید کی کہ آزادی کا حقیقی مفہوم یہ ہے نہ کہ مغرب کا من گھڑت نظریہ آزادی۔
تحریر: سید رضی عمادی