ایران کے خلاف امریکہ کے مخاصمانہ اقدامات کا سلسلہ جاری

Rate this item
(0 votes)
ایران کے خلاف امریکہ کے مخاصمانہ اقدامات کا سلسلہ جاری

ایٹمی سمجھوتے کے باوجود ایران کے خلاف امریکہ کے مخاصمانہ اقدامات کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کو نقصان پہنچانے والے اقدامات میں، اس پر دوسرے ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کا الزام لگانا، ایران کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے یا ان دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے کا دعوی کہ جنھیں امریکہ دہشت گرد قرار دیتا ہے، جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ان اقدامات نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بعد امریکی کانگرس میں وسیع شکل اختیار کر لی ہے۔ ایران کی طرف منسوب کیے گئے دہشت گردانہ اقدامات کا شکار ہونے والوں کے اہل خانہ کو تاوان ادا کرنے کے بہانے ایران کے سینٹرل بینک کے زرمبادلہ کے اثاثوں میں سے کچھ رقم نکالنے کی تجویز پیش کرنا اور سپاہ پاسداران کو دہشت گرد گروہوں کی نام نہاد فہرست میں شامل کرنا اس سلسلے میں کیے جانے والے بعض اقدامات ہیں۔

فارن پالیسی میگزین نے جمعہ کے روز شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس اقدامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فارن پالیسی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ مسئلہ دو ہفتے قبل نیویارک میں بحران شام کے بارے میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں اٹھایا گیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس کانفرنس میں خبردار کیا کہ اگر شام میں دہشت گردی کی بحث کا رخ ایران کی طرف موڑا گیا تو ہم بھی اپنی لسٹ پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اس لسٹ میں سرفہرست ہے۔

سی آئی اے امریکہ کے سولہ انٹیلی جنس اداروں میں سے ایک ہے۔ سی آئی اے کہ جو خفیہ ہاتھ یا (hidden hand) کے نام سے شہرت رکھتی ہے، امریکی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے دوسروں ملکوں کے امور میں مداخلت کرنے اور وہاں کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کے اقدامات کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ اس کی ایک مثال اگست انیس سو ترپن میں ایران میں قانونی حکومت کا تختہ الٹنے کے سلسلے میں سی آئی اے کے اقدامات تھے۔ نفسیاتی کارروائیاں، اقتصادی تباہ کاریاں اور دہشت گرد گروہوں کی تربیت کے علاوہ اپنے پیش نظر اور مطلوبہ ملکوں میں تخریب کارانہ اقدامات کرنے کے لیے ان دہشت گرد گروہوں کو استعمال کرنا سی آئی اے کی دیگر سرگرمیوں میں شامل ہے۔ ان اقدامات کی مثالوں کو انیس سو پچاس کے عشرے سے امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے دستورالعمل اور امریکی صدور کی خواہشات اور احکامات میں دیکھا جا سکتا ہے۔

انیس سو چون میں گوئٹے مالا کی حکومت کا خاتمہ، انیس سو اکسٹھ میں کیوبا میں فیڈل کاسترو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے (Bay of Pigs Invasion) کے نام سے امریکہ کی کارروائی، انیس سو ستر میں چلی میں آلندے کی حکومت کا خاتمہ اور نکاراگوا میں مداخلت، سی آئی اے کے اس سلسلے میں کیے جانے والے دیگر اقدامات میں سے ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی چینل قائم کرنا امریکہ کی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے سی آئی اے کے خفیہ اقدام کے طریقے ہیں۔ ریڈیو فردا اور صدائے امریکہ قائم کر کے نیز فارسی زبان کے سیٹلائٹ ٹی وی چینلوں کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف یہ طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔

امریکہ کے انیس سو سینتالیس کے قومی سلامتی کے قانون میں، اطلاعات و معلومات کو جمع کرنا اور ان کا تجزیہ و تحلیل کرنا سی آئی اے کی اصلی ذمہ داری قرار دی گئی ہے، لیکن امریکی سیاستدان اس ادارے کو زیادہ تر دوسرے ملکوں میں اپنے فیصلوں پر درآمد کرنے اور خفیہ اقدامات انجام دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پابندیاں لاگو کرنے کے ذریعے معیشت و اقتصاد کی بنیادی تنصیبات کو تباہ کرنے کی سازش، ٹارگٹ کلنگ کی منصوبہ بندی اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت، سی آئی اے کے خفیہ اقدامات کا حصہ ہیں۔ اس قسم کے مقاصد کے ساتھ یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ دہشت گردی کے سلسلے میں امریکہ کا رویہ شفاف ہو گا۔

بحران شام کو تقریبا پانچ سال کا عرصہ گزر رہا ہے اور امریکہ صرف شام کے اندر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے اور انھیں سیاسی میدان سے بےدخل کرنے کے درپے رہا ہے اور اسی بنا پر وہ سیاسی اور منطقی طریقوں سے بحران شام کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔ امریکہ کو ایران پر الزامات لگانے کے بجائے علاقے کے بحرانوں کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری واضح کرنی چاہیے اور عمل میں دکھانا چاہیے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا سنجیدہ ارادہ رکھتا ہے۔ یہ بات مسلم ہے کہ ایران کے لیے امریکہ کے اہداف و مقاصد اور پالیسیوں کی ماہیت واضح و روشن ہے اور اگر یہ طے ہو کہ دہشت گردی کے حامیوں کی فہرست تیار کی جائے تو امریکہ اور سی آئی اے اس میں سرفہرست ہیں۔ اس سلسلے میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے بیان کا اسی تناظر میں جائزہ لینا چاہیے۔

Read 1353 times