16 مارچ بروز اتوار، اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی نے ایران کے خلاف امریکی حکام کے مداخلت پسندانہ بیانات کے جواب میں کہا ہے کہ امریکی حکومت کو ایران کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کسی قسم کا حکم دینے کا کوئی حق نہیں، انہوں نے امریکی حکام کو یاد دلایا کہ ایران کے خلاف مداخلت کا وہ دور 1979ء میں ختم ہوا، جب امریکی یہاں حکم چلایا کرتے تھے۔ وزیر خارجہ نے امریکی حکام سے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی نسل کشی اور دہشت گردی کی حمایت ختم اور یمن کے لوگوں کا قتل عام بند کریں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 15 مارچ بروز ہفتہ یمن پر نئے حملوں کا حکم دیا تھا، یمن پر امریکہ اور برطانیہ کے حملوں کا ایک نیا دور شروع ہونے کے بعد ان حملوں میں یمن کے دو شہروں صنعاء اور صعدہ میں درجنوں افراد شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ سکیورٹی اور فوجی حکام نے یمن کے شہریوں پر وحشیانہ حملوں کے بعد ایران اور یمن کو دھمکی دی ہے۔ اس حوالے سے امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے کہا ہے کہ جو میراث ہمیں پچھلی انتظامیہ سے ملی ہے، وہ بہت خوفناک تھی، انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کے خلاف تمام آپشنز میز پر ہیں اور ایران کو حوثیوں (یمن انصار اللہ) کی حمایت بند کرنی چاہیئے۔ امریکی وزیر جنگ پیٹ ہیگسیٹ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حملے اس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک حوثی اپنی فوجی کارروائیاں بند نہیں کر دیتے۔ ایران ایک طویل عرصے سے حوثیوں کی مدد کر رہا ہے اور اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ ایسا کرنا بند کر دے۔"
ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں کی جانب سے یمن کے انصاراللہ کے لیے ایران کی حمایت کے بارے میں نئے الزامات اور ساتھ ہی یہ دھمکی کہ ایران کے خلاف تمام آپشنز میز پر ہیں، درحقیقت اس پالیسی کا تسلسل ہے، جس پر امریکہ کئی دہائیوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عمل پیرا ہے۔ خاص طور پر، "ایران کے خلاف تمام آپشنز میز پر ہیں، ایسا کلیدی جملہ ہے، جسے جارج بش اور براک اوباما سے لے کر جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ تک تمام امریکی صدور نے بار بار استعمال کیا ہے۔ ان کا مقصد ہمیشہ ایک ہی رہا ہے اور وہ ایران کو دھونس، جبر اور آمرانہ موقف کے ذریعے ڈرانا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے نام ٹرمپ کے حالیہ خط کے بعد بھی امریکہ نے اس غیر منطقی انداز کو ترک نہیں کیا۔
تاہم ایران نے کبھی بھی امریکی دھمکیوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور اس سلسلے میں ایران کے ردعمل کا اظہار رہبر معظم انقلاب اسلامی نے چند بار کیا ہے۔ ٹرمپ کے خط کے اعلان کے ایک دن بعد، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے واضح کیا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ بدمعاش حکومتیں مذاکرات پر اصرار کرتی ہیں۔ ان کا مقصد مسائل کو حل کرنا نہیں، بلکہ غلبہ حاصل کرنا ہے "مذاکرات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ "امریکہ کی طرف سے جو مذاکرات کی کوشش کی گئی ہے، وہ ایران کے جوہری پروگرام تک محدود نہیں رہے گی۔ یہ حکومتیں مسائل کے حل کے لیے بات چیت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں، وہ اپنے فیصلے مسلط کرنا چاہتی ہیں۔
امریکی صدور بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران پر سخت ترین اور وسیع ترین پابندیاں عائد کرنے کی کوششوں کا مقصد تسلط قائم کرنا اور ایران کو امریکہ کے غیر قانونی اور غیر معقول مطالبات کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ہے، جن میں جوہری ٹیکنالوجی، علاقائی پالیسیوں اور اس کی میزائل صلاحیتوں کے شعبے شامل ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کا نقطہ نظر بھی ایک طرح سے ایران کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا تسلسل تھا، جو یقیناً اب تک بے نتیجہ ثابت ہوا ہے، ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں دوبارہ داخل ہونے کے بعد، وہی پرانی پالیسی، یعنی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی، کو ایران کے خلاف وسیع پیمانے پر لاگو کیا گیا ہے اور اس میں ایک نیا عنصر شامل کیا گیا ہے، جس کا نام فوجی دھمکی ہے۔ ایک ایسی پالیسی جس کی ناکامی صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران ثابت ہوچکی ہے۔
اب ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ سکیورٹی اور فوجی اہلکار وہی پرانی زبان استعمال کر رہے ہیں۔ وہ مزاحمت کے محور کے طور پر ایران اور یمن کے انصاراللہ کے خلاف دھمکیاں دے رہے ہیں۔ تاہم، ایرانی وزیر خارجہ نے سینیئر امریکی حکام کی جانب سے حالیہ دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ امریکی حکومت کو ایران کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کسی قسم کا کوئی حکم دینے کا کوئی حق نہیں ہے، وہ دور 1979ء میں ختم ہوچکا ہے۔ ایران امریکی دھمکیوں کے سامنے نہیں جھکے گا اور جس طرح اس نے گزشتہ سالوں میں امریکہ کی طرف سے وسیع پیمانے پر عائد کی گئی پابندیوں کی مزاحمت کی ہے، اسی طرح مستقبل میں بھی کرتا رہے گا۔
تحریر: سید رضا میر طاہر