اموات پر گریہ کرنے کے بارے میں علماء اھل سنت کا نظریہ کیا ہے ؟

Rate this item
(0 votes)
اموات پر گریہ کرنے کے بارے میں علماء اھل سنت کا نظریہ کیا ہے ؟

سنندج کے  شوری  افتاء اورشورای علماء: گریہ کرنے اور نوحہ خوانی کرنے کے بغیر اموات پر گریہ کرنا جائز ہے۔

عسلویہ کے اھل ست امام جمعہ شیخ ابراھیم محمدی : اموات پر گریہ کرنا جائز ہے  اور اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ، البتہ جس سے منع کیا گیا ہے وہ ںوحہ سرایی اور اپنے گریبان کو چاک کرنا ہے۔  آنحضرت (ص) نے اس سلسلے میں فرمایا:  ان اللہ لایعذب بدمع العین و لا بحزن القلب  و لکن یعذب بھذا و الاشار الی لسانہ او یرحم ۔ خداوند متعال آںکھ کے رونے پر اور دل کے محزون ہونے پر عذاب نہیں کرتا لیکن جب کہ آنحضرت (ص)  اپنی زبان کی جانب اشارہ کررہے تھے فرمایا  : اس پر عذاب کرتا ہے ( مراد یہ ہے مردے کے بارے میں کوئی ایسی چیز نہیں بولنی چاھیئے جس  پر خدا راضی نہ ہو ۔

کنگان کے اھل سنت امام جمعہ شیخ محمد جمالی : " میتوں پر گریہ کرنا اگر نالہ اور زاری کرنے  ، نوحہ پڑھنے ، اپںا گریبان چاک کرنے اور بال نوچنے کے ساتھ ہو تو جائز نہیں ہے۔

تقی نخل کے اھل سنت امام جمعہ شیخ عبد الستار حرمی : تین دن تک آہ و بکاء کے بغیر گریہ  کرنا جائز ہے ،( یعنی معمولی رونے کے ساتھ ) لیکن جس عورت کا شوھر وفات پاگیا ہے اور وہ عدہ میں ہے تو وہ زور زور سے رو سکتی ہے۔

اھل سنت کے دینی مدارس کے درسی کتابوں کے شوری کے ممبر اور شورای اھل سنت علماء کے نائب چیئرمین اور شورای افتاء کے سرپرست

ایک انسان پر گریہ کرنا چاھے مرنے کی حالت میں ہو یا مرنے کے بعد یہاں تک کہ دفن کرنے کے بعد بھی جائز ہے ، حضرت رسول اکرم (ص) نے اپنے بیٹے حضرت ابراھیم پر  گریہ کیا اور فرمایا  : ان العین تدمع و القلب یحزن و لا نقل الا ما یرضی ربنا و انا علی فراقک ابراھیم لمحزون ۔  بے شک آنکھ روتی ہے اور دل غمگین ہوتا ہے ، بلکہ ہم خدا کی خوشنودی کے علاوہ کچھ زبان پر نہیں لاتے ہیں۔ اے ابراھیم تمہاری جدائی میں ہم اندوہ ناک ہیں ، (اس حدیث کو بخاری اور صحیح مسلم نے شیخین کی روایت سے نقل کیا ہے )

آنحضرت اپنی ایک بیٹیوں کی قبر اور اپنی والدہ مکرمہ کی قبر کر بیٹھ کر روئے ، بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت نے اپنی بیٹی کی قبر پر گریہ کیا ، اور مسلم کی روایت کے مطابق اپنی ماں کی قبر پر گریہ کیا ، پس اموات پر گریہ کرنا اگر گریبان چاک کرنے  اور بال نوچنے ،اور بلند آواز کے بغیر ہو  جائز ہے۔

ماموستا ملا احمد شیخی امام جمعہ اھل سنت ثلاث بابا جانی :  مصیبت کے موقع پر گریہ کرنا ایک فطری ، روحانی ،  نفسیاتی اور رحم کی بات ہے، آنحضرت (ص) نے اپنے بیٹے کی موت پر گریہ کیا ، اور صبر کرنے کے لیے وصیت کی ۔

 ماموستا ملا رشید ثنائی سر پل ذھاب کے اھل سنت امام جمعہ :  آرام سے رونا جائز ہے، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپے بیٹے ابراھیم کی موت پر گریہ کیا ، اور ان کی آنکھوں سے آنسوں امڈ آئے۔

 ماموستا  محمد محمدی یاری،  مولوی یاری مدرسہ کے اھل سنت پرنسپل:  اموات پر بلند آواز اور عجیب و غریب حرکات کے بغیر گریہ کرنا اھل سنت کی نظر میں جائز ہے بلکہ یہ صلہ رحم ہے۔  ( من لا یرحم لا یرحم) جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا.

ماموستا ملا عادل غلامی امام جماعت اھل سنت مسجد النبی  قصر شیرین :

اھل سنت کی نظر میں اموات پر گریہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (ص) نے اپنی  بیٹے ابراھیم (ع) کی وفات پر گریہ کیا ، لہذا ںوحہ سرایی کے بغیر اور کپڑے پھاڑنے کے بغیر گریہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

ماموستا ملا عبد اللہ غفوری امام جمعہ اھل سنت روانسر  : بغیر کسی شور کے آنسو بھانا صحیح ہے ، آنحضرت (ص) نے اپنے بیٹے ابراھیم کی وفات پر  گریہ کیا ، اور فرمایا میرا دل تمہاری جدائی میں محزون ہے اور آنکھیں پر نم حضرت فاطمہ زھرا (س) نے اپنے شفیق باپ کی جدائی میں یہ شعر پڑھا ۔ صبت علی المصائب لو انھا صبت علی الایام صرن لیالیا۔

آخود رحیم بردی صمدی امام جمعہ اھل سنت باغلق : اموات پر گریہ کرنا صحیح ہے  لیکن بلند آواز سے نہ ہو ،

مولوی توکلی امام جمعہ اھل سنت تایباد: اھل سنت کے نزدیک اموات پر گریہ کرنا جایز ہے، لیکن بلند آواز سے رونا اور گریبان چاک کرنا جائز نہیں ہے۔

مولوی نور اللہ فرقانی خلیل آباد خواف: اموات پر گریہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے، جیسا کہ آنحضرت (ص) نے اپنے بیٹے ابراھیم کی وفات پر گریہ کیا ۔ لیکن طمانچے مارنا اور گریبان چاک کرنا صحیح نہیں ہے۔

مولوی شرف الدین جامی الاحمدی امام جمعہ اھل سنت  تربت جام : اموات پر رونے میں کوئی اشکال نہیں ہے ، بشرطیکہ کہ منہ کو طمانچے نہ مارے ۔ آنحضرت (ص) بھی تعزیہ داری میں شرکت کرتے تھے  لیکن رونا آہستہ آہستہ سے ہونا چاھیئے ، اور لوگ اپنے منہ کو طمانچے نہ ماریں۔

مولوی امان اللہ برزگر امام جمعہ اھل سنت سمیع آباد: اگر گریہ کرنا اور رونے میں شکایتیں نہ ہوں تو اشکال نہیں ہے۔ لیکن اگر قضائے و قدر الھی سے شکایت ہو اور اپنے منہ کو ماریں اور اپنے بال نوچ ڈاٖلیں اور تو نا راضی ہونے کا اظہار کریں تو  جایز نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ہم میں سے نہیں ہے کہ جو مصیبت کےکے اپنی سر اور منہ کو مارے اور جاھلی کی باتیں کریں ۔

 

Read 2949 times