امام حسین(ع) کے نزدیک حضرت عباس(ع) کی منزلت

Rate this item
(3 votes)
امام حسین(ع) کے نزدیک حضرت عباس(ع) کی منزلت

امام حسین(ع)نے عباس بن علی(ع)کو فرمایا: "اے عباس! میری جان فدا ہو تم پر، اپنے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ اور ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس لئے آگے بڑھ آئے ہیں؟‘‘

امام کا یہ طرز تکلم حضرت عباس کی قدر اور منزلت کو بخوبی روشن کر دیتا ہے کہ وہ ایمان اور یقین کے عالی ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کے لیے اپنے دل میں بہت خاص مقام رکھتے تھے جو کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔

9 محرم بوقت عصر صحرای کربلا میں عمر سعد کی سپاہ کی نقل و حرکت بڑھ گئی اور عمر سعد امام حسین(ع)کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوا اور اپنی سپاہ کو بھی جنگ کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا. اس نے اپنی سپاہ میں منادی کرا دی کہ يا خيل الله ارکبی و بالجنة ابشري،‌ اے خدا کے لشکریو! سوار ہوجاؤ کہ میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں!". کوفی سب سوار ہوئے اور جنگ کے لئے تیار۔

لشکر میں شور اور ہنگامہ بپا ہوا، امام(ع) اپنے خیمے کے سامنے اپنی تلوار پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے. بہن حضرت زینب(س) لشکر کوفہ میں شور و غل کی صدائیں سن کر بھائی کے قریب آئیں اور کہا: "بھائی جان! کیا آپ قریب تر آنے والی صدائیں سن رہے ہیں؟". امام حسین(ع)نے سر اٹھا کر فرمایا: "میں نے نانا رسول اللہ(ص) کو خواب میں دیکھا اور آپ(ص) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "بہت جلد ہمارے پاس آؤگے". امام حسین(ع)نے عباس بن علی(ع)کو فرمایا: "اے عباس! میری جان فدا ہو تم پر، اپنے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ اور ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس لئے آگے بڑھ آئے ہیں‘‘ ۔ امام کا یہ طرز تکلم حضرت عباس کی قدر اور منزلت کو بخوبی روشن کر دیتا ہے کہ وہ ایمان اور یقین کے عالیترین مرتبہ پر فائز ہیں۔

حضرت عباس(ع)، زہیر بن قین اور حبیب بن مظاہر سمیت 20 سواروں کے ہمراہ دشمن کی سپاہ کی طرف چلے گئے اور اور ان سے پوچھا: "کیا ہوا ہے؟ اور تم چاہتے کیا ہو؟" انھوں نے کہا: "امیر کا حکم ہے کہ ہم آپ سے کہہ دیں کہ یا بیعت کرو یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ". حضرت عباس(ع) نے کہا: "اپنی جگہ سے ہلو نہیں حتی کہ میں ابا عبداللہ (ع) کے پاس جاؤں اور تمہارا پیغام آپ(ع)کو پہنچا دوں". وہ مان گئے چنانچہ حضرت عباس(ع)اکیلے امام حسین(ع)کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ انہیں پیش آمدہ صورت حال سے آگاہ کریں۔

امام حسین(ع)نے حضرت عباس(ع) سے فرمایا: "اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو انہیں راضی کرو کہ جنگ کو کل تک ملتوی کریں اور آج رات کو ہمیں مہلت دیں تا کہ اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز کریں اور اس کی درگاہ میں نماز بجا لائیں؛ خدا جانتا ہے کہ میں اس کی بارگاہ میں نماز اور اس کی کتاب کی تلاوت کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔

جب تک عباس(ع) امام حسین(ع)کے ساتھ گفتگو کررہے تھے، ان کے ساتھیوں حبیب بن مظاہر اور زہیر بن قین نے بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر ابن سعد کی سپاہ کے ساتھ گفتگو کی اور انہیں امام حسین(ع)کے ساتھ جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کی جبکہ اسی حال میں وہ ابن سعد کے سپاہیوں کی پیشقدمی بھی روک رہے تھے۔

ابوالفضل العباس(ع) دشمن کے سپاہیوں کی طرف آئے اور امام حسین(ع)کی درخواست ان تک پہنچا دی اور اس رات کو ان سے مہلت مانگی. ابن سعد نے امام حسین(ع)اور آپ(ع)کے اصحاب کو ایک رات کی مہلت کی درخواست سے اتفاق کیا، اس دن امام حسین(ع)اور آپ(ع)کے خاندان اور اصحاب و انصار کے خیام کا محاصرہ کیا گیا.

روز عاشور جب جناب عباس نے اپنے بھائی کو تنھا محسوس کیا تو ان کے پاس گئے اور میدان میں جانے کی اجازت طلب کی۔ امام عالی مقام نے فرمایا: تم میرے علمبردار ہو میرے لشکر کے سردارہو ۔ عرض کیا: میرا دل تنگ ہو گیا ہے میں زندگی سے سیر ہو گیا ہوں میں ان منافقوں سے بدلنا لینا چاہتا ہوں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ان بچوں کے لیے تھوڑا سا پانی مہیا کر کے جاو۔ جناب عباس دشمنوں کی طرف آئے اور ان کو جتنا وعظ و نصیحت کیا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ امام کے پاس واپس گئے اور قضیہ کی اطلاع دی۔
اتنے میں بچوں کی العطش کی صدائیں سنائی دیں۔ مشک کو اٹھایا۔ اور گھوڑے پر سوار ہوئے تاکہ فرات کی طرف جائیں۔ چار ہزار سپاہیوں نے جو فرات پر پیرا دے رہے تھے آپ کو محاصرہ میں لے لیا اور تیروں کی بارش شروع کر دی۔

انہیں دور بھگایا اور ایک روایت کے مطابق ان میں سے اسّی سپاہیوں کو فی نار جہنم کیا۔ فرات میں داخل ہوئے چلّو میں پانی لیا تاکہ اسے پئیں۔ مگر امام حسین علیہ السلام اور ان کے بچوں کی پیاس یاد آ گئی۔ پانی کو پھینک دیا اور مشک کو پانی سے بھرا۔ اور اسے دائیں بازوں پر لگا کر خیموں کا رخ کیا۔ دشمنوں نے راستہ روک لیا۔اور ہر طرف سے آپ کو محاصرہ میں لے لیا۔ جناب عباس نے ان کے ساتھ جنگ شروع کر دی یہاں تک کہ نوفل ازرقی نے آپ کا دائیاں بازوں قلم کر دیا۔ مشک کو بائیں شانہ پر لٹکایا۔ نوفل نے دوسری ضربت سے بائیاں بازوں بھی قلم کر دیا۔ جناب عباس سے مشک کو دانتوں میں لیا اور گھوڑے کو دوڑایا۔ اتنے میں ایک تیر

مشک پر پیوست ہوا اور سارا پانی بہ گیا۔ دوسرا تیر آپ کے سینے پر لگا اور آپ زین سے زمین پر گرے۔ اور امام حسین علیہ السلام کو آواز دی۔ مولا ادرکنی۔

جب امام علیہ السلام آپ کے قریب پہنچے تو آپ خون میں لت پت ہو چکے تھے۔ امام علیہ السلام نے حسرت سے فرمایا: الان انکسر ظھری و قلت حیلتی"۔ اب میری کمر ٹوٹ گئی اور میں بے چارہ ہو گیا۔
زیارت ناحیہ میں آپ پر یوں سلام کیا گیا ہے:

السَّلامُ عَلى أبى‏ الْفَضْلِ العَبَّاسِ بْنِ أَميرِالْمُؤمنينَ المُواسي أَخاهُ بِنَفْسِهِ، أَلآخِذُ لِغَدِهِ مِنْ أَمْسِهِ، الْفادى‏ لَهُ الواقى‏ السَّاعى‏ إِلَيْهِ بِمائِه، الْمَقطُوعَةِ يَداه- لَعَنَ اللَّهِ قاتِلَيهُ يَزيدَ بْنَ الرُّقادِ الجُهَنىّ، وَحَكيمِ بْنِ الطُّفَيلِ الطَّائى‏.
سلام ہو ابو الفضل العباس ابن امیر المومنین پر جنہوں نے اپنے بھائی کی خاطر اپنی جان نثار کر دی۔ جنہوں نے گزشتہ کل سے آئندہ کے لیے ذخیرہ کر لیا۔ جنہوں نے اپنے آپ کو ڈھال قرار دیا اور فدا کر دیا۔ اور پانی پہنچانے کی سعی ناتمام کی یہاں تک کہ دونوں ہاتھ قلم ہو گئے۔ خدا کی لعنت ہو ان کے قاتل یزید بن رقاد جہنی اور حکیم بن طفیل طائی پر ۔

اسی بارے میں:

حضرت عباس علیہ السلام عظیم ترین صفات اور فضائل کا مظہر تھے شرافت ، شہامت ، وفا ، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔ واقعہ کربلا میں جناب عباس علیہ السلام نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرے لمحات میں اپنے آقاومولا امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کی اور مکمل وفا داری کا مظاہرہ کیا اور مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر ٹوٹتے ہوئے دیکھا لیکن ان کے عزم وحوصلہ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہ پڑا اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباس علیہ السلام نے کیا ان پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا فقط اس کے لئے ہی ممکن ہے کہ جو خدا کا مقرب ترین بندہ ہو اور جس کے دل کو خدا نے ہر امتحان کے لئے مضبوط بنا دیا ہو۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے تمام امور میں آپ ہی کو مرکز سمجھتے تھے اور آپ کے وجود کو لشکر کے برابر قرار دے کر عہدہ علمبرداری آپ ہی کے سپرد فرمایا۔

امام حسین ؑ آپؑ کی شہادت پر بہت روئے ۔ عرب شاعر نے کہا :

احق الناس ان یبکی علیہ فتی ابکی الحسین بکربلاء
اخوہ وابن والدہ علی ابوالفضل المضرج بالدماء
و من واساہ لا یثنیہ شئی و جادلہ علی عطش بماء
کتاب لہوف سید بن طاؤوس ، ص
۱۶۱
ترجمہ : لوگوں کے رونے کے زیادہ حقدار وہ جوان ہے کہ جس پر کربلاء میں امام حسین ؑ روئے ۔ وہ ان کے بھائی اور بابا علی ؑ کے بیٹے ہیں ۔ وہ حضرت ابوالفضل ہیں جو اپنے خون سے نہلا گئے ۔ اور اس نے اپنے بھائی کی مدد کی اور کسی چیز سے خوف کھائے بغیر ان کی راہ میں جہاد کیا اور اپنے بھائی کی پیاس کو یاد کر کے پانی سے اپنا منہ پھیرا ۔(انا للہ و انا الیہ راجعون)
تاریخ نگاروں نے شہادت ابوالفضل(ع) کی کیفیت کے بارے میں مختلف روایات نقل کی ہیں:

خوارزمی کہتے ہیں: عباس(ع) میدان کارزار میں اترے اور رجز خوانی کرتے ہوئے دشمنوں پر حملہ آور ہوئے اور متعدد دشمنوں کو ہلاک اور زخمی کرنے کے بعد جام شہادت نوش کرگئے ۔ پس امام(ع) بھائی کے سرہانے حاضر ہوئے اور فرمایا:

الآن انْكَسر ظهری وقَلّت حيلتي؛ (ترجمہ: اب میری کمر ٹوٹ گئی اور میں بے سہارا ہوگیا)

Read 3010 times