پیغمبر اکرم ۖ کی حاکمیت از نظر قرآن

Rate this item
(0 votes)
پیغمبر اکرم ۖ کی حاکمیت از نظر قرآن

پیغمبر اکرم ۖ کی حاکمیت از نظر قرآن

 
مقدمہ :
 اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو انسانی معاشرہ کی فلاح اور اصلا ح کی غرض سے اپنے حبیب حضرت محمد ۖ کے ذریعے نازل کیا ،دین درحقیقت ایسے قوانین کا مجموعہ ہے جو خالق کائنات کی جانب سے انسان کی ہدا یت کے تمام پہلوئوںپر مشتمل ہے ، قرآن مجید میں انسانی ضرورت کے تمام اصول و ضوابط کو بیان کیا گیا ہے ،انسان چونکہ اجتماعی اور معاشرتی زندگی کا حامل ہے بنا بریں قرآن مجید کا اکثر و بیشتر حصہ بلکہ مکمل طورپر اجتماعی وسیاسی مسائل پر مشتمل ہے ،مباحث قرآن کا محور و مرکز توحید ہے،توحید کی اقسام میںسے جہاںتو حید ذاتی ،صفاتی ،افعالی اور عبادی پر بحث و تفسیر کی ضرورت ہے وہیں ''توحید ربوبیت ' ' بھی حائز اہمیت ہے جو تو حید افعالی کی ایک قسم شمار ہو تی ہے جس سے انسان کو یہ درس ملتا ہے کہ جس طرح خدا کے علاوہ ''خالق''کو ئی نہیں ہو سکتا اس طرح اللہ کے بغیر پورے عالم کے امور کی مدیریت کے لا ئق بھی کوئی نہیں ہو سکتا ،نظام کائنات کو چلانے میں خدا کا شریک تسلیم کر نے والا بھی اُسی طرح مشرک ہے جس طرح تخلیق کائنات میں خدا کا شریک ٹھہرانے والا مشرک ہے ۔
حقیقت میںتوحید خالقیت پر اعتقاد کا لازمی نیتجہ یہ ہے کہ تمام امور کی تدبیر کا مالک بھی ''ایک خدا ہے ''انسانی معاشرہ کی تدبیر کو عملی صورت دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کو زمین پر اپنا خلیفہ اور نمائندہ بنا کر بھیجا ،انبیا ء کی بعثت کا مقصد انسانوں کی تربیت اور معاشرے پر عادلانہ نظام کا قیام تھا ۔
''هوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُ مِّينَ رَسُوْلاًمِّنْهمْ ےَتْلُوْ عَلَيهمْ اٰيتِه وَيزَکِّيهمْ '' ١
''وہی (خدا )ہے جس نے ناخواندہ لو گوں میں انہی میںسے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پا کیزہ کر تا ہے ۔۔۔۔ ''

نیز فرمایا
''لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَينٰتِ وَاَنْزَلْنَامَعَهمُ الْکِتٰبَ وَالْمِبزَانَ لِبقُوْمَ النَّاسُ بِا لْقِسْطِ۔۔۔'' ٢
''اور ہم نے اپنے انبیاء کو واضح نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب (قانون ) اور میزان (عدالت )کو بھی نازل کر دیا تاکہ لو گوں میں انصاف کو قائم کریں ''
اسلام کا بنیادی مقصد انسان کو اندرونی اور بیرونی سطح پر تربیت کر نا ہے۔ بنا بریں تز کیہ نفس کے بعد معاشرتی تزکیہ (اصلاح) کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام انبیا کو ایک مشترکہ لا ئحہ عمل دے کر بھیجاتاکہ کہ لوگوں کو خدا کے نظام کے تحت زندگی گزارنے اور ہر قسم کے غیر متعادل نظام سے پرہیز کرنے کا درس دیں ۔
''وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُ وااللّٰه وَاجْتَنِبُواالطَّاغُوْتَ'' ٣
''یعنی ہم نے ہر زمانہ میں رہنے والے لوگوں کے لیے جو رسول بھیجا اس کا ایک ہی شعار تھا کہ اللہ کی بندگی و عباد ت کرو اور ظالم طاغوت سے دور رہو ''
اس آیہ اوردیگر بہت سی آیات سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ ہر نبی نے اپنے زمانہ میں موجود غیر الٰہی حکمرانوں کے تسلط سے قوموںکو آزاد کرانے کے لیے نہ صرف زبانی تبلیغ کی ہے بلکہ طاغوتی حاکمیت کے خاتمہ کے لیے عملی جدوجہد کی اور بعض نے کامیابی کے بعد اللہ کی حاکمیت کو معاشرے پر نافذ بھی کیا ہے حضرت دائود اور حضرت سلیمان کی حکومت کا واضح ذکر قرآن میں موجود ہے ،اسی طرح دیگر انبیاء جن میں حضرت موسیٰ و حضرت ابراہیم کی طاغوت شکن جدوجہد کا ذکر بھی اس بات کی دلیل ہے کہ انسانوں پر صرف اللہ کی حکومت ہونے کی صورت میںہی توحید عملی شکل اختیار کر سکتی ہے ۔ حضرت پیغمبر ۖ کی سیاسی حاکمیت میںعقلی اعتبار سے تو کو ئی شک وشبہ نہیں ہے ، اس لیے کہ ایک طرف انسان کا بغیر حکومت کے زندگی گزارنا، نا ممکن ہے اور دوسری طرف خالق انسان کے علاوہ حکومت کا کامل نظام دینے کا کوئی اہل نہیں ہے نیز دیگر انبیا ء کی بعثت کا مقصد معاشرے پر اللہ کی حاکمیت کا نفاذ ہے تو خاتم الا نبیا ء ۖ کو صرف تبلیغ وارشاد کی ذمہ داری تک محدود کرنا کس طرح ممکن ہے ؟
لیکن قرآنی آیات کے تناظر میںہم ثابت کر نا چاہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖمبلغ احکام ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی حاکمیت کے حامل بھی تھے جو در حقیقت خلافت کی شکل میں الٰہی حاکمیت ہے ، البتہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عقلی ادلہ اور بہت سی آیات کے باوجود بعض علما ء ٤ پیغمبر اکرم ۖ کے سیاسی منصب اورآپ ۖ کی سیاسی حاکمیت کا انکار کرتے ہیں اور آنحضرت ۖکا تعارف اس طرح پیش کر تے ہیں کہ آپ ۖ صرف مبدا ومعاد کی تبلیغ پر مامور تھے اوران کا معاشرے کی سیاسی قیادت و راہبری سے کو ئی تعلق نہ تھا جس کی وجہ سے اس موضوع کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو جا تا ہے ۔

دین اور معاشرہ :
 پیغمبر اکرم ۖ کی سیاسی قیادت کے اثبات سے پہلے ''دین ''کی حقیقت کا سر سری جائزہ لینا ضروری ہے تا کہ آپۖ جس ''دین ''کے ''مبلغ ''تھے اُس کی صحیح صورت سامنے آسکے ،قرآن مجید کی نظر میں دین سے مراد ''انسانی زندگی کی عملی روش کا حدود اربعہ ''ہے جس کی ایک دلیل وہ آیات ہیں جن میں خداوند متعال نے کفارو مشرکین کے راہ و رسم اور زندگی گزارنے کی روش کو بھی ''دین '' سے تعبیر کیا ہے ۔
''لَکُمْ دِينُکُمْ وَلِیَ دِينِ ''٥
''تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میر ادین ''
اسی طرح فرعون جو اپنے علاوہ کسی کو خدا تسلیم نہیں کرتا تھا،لیکن حضرت موسیٰ ـکے مقابلے کے لیے عوام کو بھڑکا نے کی خاطر ''دین '' کاسہارا لیتے ہو ئے کہتا ہے :
''اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ يبَدِّلَ دِينَکُمْ اَوْ اَنْ يظْهرَ فِی الْاَ رْضِ الْفَسَادَ ''' ٦ ''مجھے ڈر ہے کہ یہ (موسیٰ )تمہارا ''دین '' بدل ڈالے گا یا زمین میں فساد بر پا کر ے گا ''
خداوند کریم نے بھی پیغمبر اکرم ۖ کی زبان سے زندگی گزارنے کے چند طور طریقے بیان کرنے کے بعد لوگوں کو اسی راستے(دین) پر چلنے کی تاکید فرمائی ۔
''وَاَنَّ لهذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوْه وَلَا تَتَّبِعُوالسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِيلِه ''٧
''اور بتحقیق یہی (دین )میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلو اور مختلف راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹا کر پر اگندہ کر دیں گے ''
بنابریں انسانی زندگی گزارنے کی روش اور طور طریقے دو قسم کے ہو سکتے ہیں ایک باطل راستہ ہے جو شیطان اور شیطانی حکمرانوں کا طور طریقہ ہے اور دوسر ا فطرت انسانی کا راستہ ہے کہ جس کی طرف خد انے اپنے نما ئندوں کے ذریعے دعوت دی ہے اور اسی راہ وروش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر نبی الہیٰ نے کو شش بھی کی ہے لیکن شیطانی و طاغوتی حکمرانوں کی عوام فریبی کی وجہ سے صر ف چند انبیا ء حاکمیت الہیٰ کو نافذکرنے میں کا میاب ہو ئے ہیں جس میںہمارے نبی آخر الزماں ۖ کے ہا تھوں قائم ہو نے والی حکومت ایک بہترین نمونہ ہے ،عصر حاضر کے عظیم مفسر قرآن علامہ طباطبائی نے بھی انسانی معاشرہ میں راہ و روش کو دین سے تعبیر کیا ہے اور سورئہ روم کی آیت ٣٠ کی تفسیر میں ''دین '' کو ''دین فطرت '' کے طور پر ثابت کیا ہے ۔٨
دین فطرت سے مراد یہ ہے کہ انسانی خلقت کے اندر خالق انسان نے زندگی گزارنے کے وہ طریقے جو انسان کو کمال وترقی تک لے جانے کا وسیلہ ہیں، ودیعت کر دئیے ہیں ،اسی بناپر اپنے آخری نبی ۖ کو حکم دیا کہ اسی فطری دین پر قائم رہو ،تا کہ اپنی امت کی قیادت و راہبری کر تے ہوئے انہیں کمال کی منزل پر فائز کر سکو ۔
'' فَاَقِمْ وَجْهکَ لِلدِّينِ حَنِيفًاط فِطْرَتَ اللّٰه الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَيهاطلَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللّٰه ذٰلِکَ الدِّينُ الْقَيمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا يعْلَمُوْنَ ''٩
''پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رُخ دین (خدا)کی طرف مرکوز رکھیں ،اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو خلق کیا ہے ،اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں آتی یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ''
اس آیہ مجیدہ میں بھی خدا نے نظام حیات کو دین سے تعبیر کیاہے اور فرمایا یہ ایسا نظام حیات ہے جو دیگر نظام کائنات کی طرح نظم و ضبط اور ہم آہنگی پر قائم ہے اور چونکہ تخلیقی نظا م ہے لہذا کبھی تبدیلی نہیں آئے گی یعنی، فطرت اور شریعت میں وحدت واتحاد قائم ہے اسی بنا پر ابنیا ء کو بھیجا تاکہ ظالمانہ ماحول میں رہنے کی وجہ سے اس مدفون فطری نظام کو روشن و اجاگر کریں ۔
علامہ طباطبائی کہتے ہیں :
دین فطرت سے مراد وہ قوانین و ضوابط ہیںجو انسان پسند ہیں کیونکہ یہ انسان کی خلقت کے ساتھ مربوط ہیں اور انسانی عقل سے مکمل طور پر مطابقت رکھتے ہیں ۔١٠
پیغمبر ۖ کی سیاسی حاکمیت سے مراد کیا ہے ؟
آپ ۖ کی سیاسی حاکمیت سے مراد یہ ہے کہ معاشرے کے جملہ امور کی قیادت و راہبری اور حکمرانی کا حق خداوند تعالیٰ نے اپنے معصوم نمائندے حضرت پیغمبر ۖ کو عطا کیا ہے ،یعنی پیغمبر اکرم ۖ صرف احکام الہیٰ کو بیان کر نے والے نہیں یا لوگوں کے باہمی اختلافات اور مشاجرا ت کے حل کے لیے صر ف قاضی تحکیم نہیں کہ قضاوت کر تے ہو ئے صرف فیصلہ سنا دیں بلکہ اس قضاوت اور فیصلہ پر عمل در آمد کرانے کے بھی ذمہ دار ہیں ، حاکمیت کا نقط ''حکم ''سے ماخوذ ہے اور قرآن مجید میں ''حکم '' سے مراد تشریع یعنی قانون وضع کر نا اور معاشرے پر قانون کوحاکم قرار دینا ہے ،جو کہ ذاتی طورپر اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا :
''وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيه مِنْ شَيئٍ فَحُکْمُه اِلَی اللّٰه '' ١١
''اور جس بات میں تم اختلاف کر تے ہو اس کا فیصلہ اللہ کی طرف سے ہو گا ''
لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فیصلے کوعملی طور پر نافذ کر انے کے لیے اپنا اختیار اپنے نبی ۖ کو تفویض کر تے ہو ئے اعلان فرمایا :
''اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَبکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَينَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰه '' ١٢
''(اے رسول) ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ پر نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلہ کر یں ''
اگر چہ یہ آیت شان نزول کے لحاظ سے ایک چوری کے فیصلہ سے متعلق نازل ہو ئی ہے لیکن یہ ثابت شدہ ہے کہ شان نزول مراد متکلم کومحدود ومنحصر کرنے کا باعث نہیں بنتا ،اس بناپر پیغمبر اکرم ۖ ہر قسم کے فیصلے کرنے اور انہیں عملی طور پر نافذ کر نے کے ذمہ دار ہیں با الفاظ دیگر معاشرے پر حکومت کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔

امام خمینی کا نظریہ:
 ''حکم عقل اور ضرورت ادیان کی روسے انبیا ء کی بعثت کا مقصد اور کار انبیا ء صرف مسئلہ گوئی اور بیان احکام نہیں تھا اور ایسا نہیں ہے کہ مسائل و احکام بذریعہ وحی رسول اکرم ۖ کو پہنچے ہو ں اور آنحضرت ۖ و امیر المومنین ـ اور دیگر ائمہ صرف 'مسئلہ گو ' رہے ہو ں کہ خدا و ند عالم نے ان حضرات کو صرف اس لیے معین کیا ہے کہ مسائل و احکام کو کسی خیانت کے بغیرلوگوں کے سامنے بیان کر دیں اور انہوں نے بھی اس امانت کو فقہا کے حوالے کر دیاہو کہ جو مسائل انبیا ء سے حاصل کیے ہیں کسی خیانت کے بغیر لوگوں تک پہنچا دیں اور اس طرح'الفقہا ء امناء الرسل ' کا مطلب یہ ہو کہ فقہا ء بیان مسائل میں امین ہیں ایسا ہرگز نہیں بلکہ انبیا ئ کااہم ترین فریضہ قوانین و احکام کو جاری کر کے عادلانہ اجتماعی نظام قائم کر نا ہے جو یقینا بیان احکام و نشر تعلیمات الہیٰ کے ساتھ ساتھ ایک طاقتور حکومت کا خواہاں ہے ''
نیز فرماتے ہیں کہ :
خداوند عالم نے جو خمس کے سلسلہ میں فرمایا ہے :
''وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيئٍ فَاَنَّ لِلّٰه خُمُسَه وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی۔۔'' ١٣
''اور جان لوکہ جو کچھ مال کسب کرو اس کا پانچوایں حصہ اللہ ،رسول اور اس کے قرابت دارروں کے لیے مخصوص ہے ۔۔۔۔''
یازکوة کے لیے جو فرمایا ہے :
''خُذْ مِنْ اَمْوَالِهمْ صَدَقَةً ''١٤
''آپ ان کے اموال میںسے صدقہ لیجئے''
حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم کوصرف احکام بیان کر نے کے لیے معین نہیں کیا بلکہ ان احکام کے نفاذ اوراجراء کی ذمہ داری کو بھی ان کے سپرد کر دیاہے آپ ۖ اس پر مامور تھے کہ خمس ،زکات اور خراج جیسے ٹیکسوں کووصول کر کے مسلمانوں کو نفع پہنچانے پر خرچ کر یں قوموں اور افراد کے درمیان عدالت کو وسعت دیں، حدود کو جاری کریں ،سرحدوں کی حفاظت کر یں، ملک کی آزادی کو قائم کریں اور حکومت اسلامی کے ٹیکسوں کو خوردبرد سے بچائیں ۔١٥
پیغمبر اکرم ۖکی سیاسی حاکمیت سے متعلق آیات :
اس سلسلے میں کثیر تعداد میں آیات موجود ہیں جنہیں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
١۔ ایسی آیات جن میں اطاعت پیغمبر اکرم ۖکو بیان کیا گیا ہے ۔
٢۔ جو پیغمبر اکرم ۖ کی ولایت و حکومت سے متعلق ہیں ۔
٣۔ وہ آیات جو پیغمبر اکرم ۖکو تمام امور اجتماعی میں محورومرکز قرار دیتی ہیں ۔

١۔اطاعت پیغمبر ۖسے متعلق آیات :
اس قسم کی آیات میںمختلف صورتوں میں پیغمبر اکرم ۖ کی اطاعت کو مورد تاکید قراردیاگیا ہے،بعض آیات میںبلا تفریق تمام انبیاء کی اطاعت کیے جا نے کو اہداف بعثت میں شمار گیاکیا ہے۔
''وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ رَّسُوْلٍ اَلَّا لِيطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰه '' ١٦
''ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس لیے بھیجا ہے کہ باذن خدا اس کی اطاعت کی جائے''
بعض آیات میں رسول ۖ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت کا تسلسل قرار دیا ہے
''مَنْ بطِعِ الرَّ سُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰه ''١٧
''جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ''
مندرجہ بالا آیات میں درحقیقت پیغمبر ۖکی اطاعت کی اہمیت کو مختلف انداز میں پیش کیا تاکہ لوگ دل و جان سے اپنے راہبر کی پیروی کریں ،اس کے علاوہ کچھ آیات ایسی ہیں جن میں براہ ِ راست پیغمبراکرم ۖ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ۔
''اَطِيعُوا اللّٰه وَاَطِيعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ''١٨
''اللہ کی پیروی کرو اور اس کے رسول کی اور تم میںسے جو صاحبان امر ہیں ان کی پیروی کرو ''
ایک اور مقام پر فرما یا :
''اَطِيعُوا اللّٰه وَرَسُوْلَه وَلَا تَوَ لَّوْعَنْه وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ ''١٩
''اور اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو اور تم حکم سننے کے بعد اس سے روگردانی نہ کرو ''
اگر چہ ان آیات میں اطاعت خداوند کا بھی ذکر ہے لیکن اصل مقصد پیغمبر اکرم ۖ کی اطاعت کو بیان کر نا ہے،چونکہ بعد والی آیات میں ان لو گوں کی مذمت کی گئی ہے جو رسول اکرم ۖکی بات سنتے لیکن عمل نہیں کرتے تھے ایسے لوگوں کو بدترین جانوروں سے تعبیر کیا گیا ہے ،جبکہ پیغمبر اکرم ۖ کی دعوت پر لبیک کہنے اور حضور ۖ کے نظام کے مطابق چلنے کو حیات بخش قرار دیا ہے ۔٢٠
علاوہ بریں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم علیحدہ طور پر کسی آیت میں ذکر نہیں ہوا جب کہ بہت سے آیات میں پیغمبر اکرم ۖ کی اطاعت کو علیحدہ بھی بیان کیا ہے۔
''وَاَقِيمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُواالزَّکٰوةَ وَاَطِيعُواالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ '' ١ ٢
''اور نماز قائم کرو اور زکاة ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ''
گویا جس طرح نماز و زکات یا دیگر احکام ،عملی زندگی کا حصہ ہیں اسی طرح پیغمبر ۖ کا ہر حکم بھی عملی زندگی کا حصہ ہے سینکٹروں احکام میں سے نماز وزکات جیسے دو نمونے ذکر کرنے کامقصد شاید یہ تھا کہ جس طرح نماز و زکات کے بغیر انسانی معاشرہ کمال و ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا اسی طرح حاکم اسلامی کی اطاعت اور ان کے دیگر اوامر کی پیروی کے بغیر بھی انسانی کمال کا راستہ طے کرنا نا ممکن ہے ۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ رسول کی اطاعت و پیروی کو مستقل طور پر بیان کیاہے جس کالازمی نیتجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ سے کچھ ایسے اوامر واحکام بھی صادر ہو ں گے جن کا ذکر قرآن میں درج نہیںہے وگرنہ پیغمبر کی اطاعت کی الگ سے تاکید کرنا لغوو بیہودہ قرار پائے گا نیزیہ کہ بعض انبیاء کی زبا ن سے تو خدا نے واضح طور پر بیان کیا کہ نبی کی اطاعت کے بغیر تقویٰ کامقام بھی حاصل نہیں ہو سکتا ۔حضرت نوح ـ کی زبانی نقل فرمایا :
''اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْل اَمِين فَاتَّقُوااللّٰه وَاَطِبعُوْنِ ''٢٢
''میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہو ں Oلہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو''
حضرت نوح ـ کا ''اطيعوا الله يا اطيعوا ربی ''جیسی تعبیر کی بجائے ''اطیعونی''کہنا ااس بات کی دلیل ہے کہ بہت سے احکام ''کتاب اللہ''میں موجود نہ بھی ہوں رسول کو امانت دار نمائندہ الہیٰ سمجھتے ہو ئے اطاعت کرنے میں انسان کی فلاح و سعادت مضمر ہے ۔
اس قسم کی جملہ آیات کااندازیہ بتا تا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖمعاشرتی و اجتماعی احکامات صادر کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں اور اللہ کی جانب سے ان احکام کو نافذ کرنے کا اختیار بھی انہیں کو حاصل ہے ،نیز بعض آیات کی روسے اللہ کارسول اپنے ''اختیار حاکمیت '' میں دیگر افراد کو بطور نائب منصوب کرنے کا مجاز بھی ہے ،جیسے حضرت موسی ـ نے حضرت ہارون ـ کو فرمایا :
''وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِيه هرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ ' '٢٣
''میری قوم میںمیری جانشینی کرنا اور اصلاح کر تے رہنا ۔۔۔''
حضرت ہارون ـ نے بھی قوم سے یہی کہا کہ جب ''رحمن ''پروردگار پر ایمان لے آئے ہو تو میرے راستے پر چلو اور میرے ہر حکم پر عمل کرو۔
''وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِيعُوْ اَمْرِیْ ''٢٤
''اور ہارون نے ان سے پہلے ہی کہہ دیاتھا کہ اے میری قوم ! بے شک تم اس (بچھڑے)کی وجہ سے آزمائش میں پڑگئے ہو جب کہ تمہارا پروردگار تورحمن ہے لہذا تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو ''
بعض آیات میں پیغمبر اکرم ۖ کی اطاعت بطور مطلق اور عمومیت کے ساتھ بیان ہو ئی ہے یعنی لوگوں پر واجب ہے کہ اپنے ہر قسم کے انفرادی واجتماعی امور میں پیغمبر ۖ کی پیروی کریں ۔
''وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَهى کُمْ عَنْه فَانْتَهوْ ''٢٥
''اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جا ئو''
اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ملتا ہے کہ یہ فئے (بغیر جنگ کے ہا تھ آنے والے مال )کی تقسیم کے موقع پر نازل ہو ئی جس میں مسلمانوں پر واضح کر دیا گیا کہ پیغمبر اکرم ۖ اگر کسی مصلحت کی بنا پر غیر مساوی تقسیم بھی کر تا ہے تو اس کے ہر فیصلہ پر دل وجان سے عمل کیا جا ئے۔اگر چہ ''ما ''مطلق ہے اور ہر قسم کے فرامین رسول ۖکو شامل ہے اور روایات میں بھی اس آیہ کے ضمن میں پیغمبر اکرم ۖکے تمام فرامین کو مراد لیا گیا ہے ۔جس کا معنی یہ ہے کہ آنحضرت ۖ ایک الٰہی نمائندے واسلامی معاشرے کے حکمران ہو نے کی حیثیت سے احکام صادر کرنے کا حق رکھتے ہیں اور اس ''حق حاکمیت ''کی بنا پر واجب الا طاعت بھی ہیں ۔

ایک اعتراض کا جواب :
 کچھ لوگوں نے اطاعت پیغمبر ۖ کے بارے میں اعترافات و شبھات پیدا کیے ہیں ،منجملہ یہ کہ بعض آیات میں پیغمبر اکرم ۖ سے ہر قسم کے اختیار کی نفی کی گئی ہے اور تمام امور کو خدا کی طرف نسبت دی گئی ،جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :
''لَيسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَيئ اَوْ يتُوْبَ عَلَيهمْ اَوْ يعَذِّ بَهمْ ''٢٦
''(اے رسول )اس بات میں آپ کا کو ئی دخل نہیں ،اللہ چاہے تو انہیں معاف کر دے یا چاہیے تو سزا دے''
نیز فرمایا :
''اِنَّ الْاَ مْرَ کُلَّه لِلّٰه''٢٧
''ہر قسم کا امر (اختیار )اللہ کے ساتھ مختص ہے ''
ا س کا جواب یہ ہے کہ پہلی آیت کا اس مطلب کے ساتھ کو ئی تعلق نہیں بلکہ زمانہ جاہلیت کا مزاج رکھنے والوں کے شک کے جواب میں فرمایا کہ ہر قسم کی فتح یا شکست اللہ کے ہا تھ میں ہے ،نیز جنگ احد میں شکست کے وقت کفریہ جملے کہنے والوں کی سزا یا بخشش کے بارے میں تو حید کا درس دینے کی غرض سے فرمایا ۔دوسری آیہ مجیدہ میںاگرچہ ہر قسم کے امور کو اللہ کے ساتھ مختص ہو نا بیان ہوا ہے لیکن یہ کو ئی عجیب بات نہیں اکثر امور کو خدا نے اسی طرح بیان فرمایا ہے ۔ مثال کے طورپر ہدایت کے مسئلے میں ایک مقام پر فرمایا ۔
''اِنَّکَ لَا تَهدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰه ےَهدِیْ مَنْ يشَآ ئُ''٢٨
''(اے محمد )جسے آپ چاہتے ہیں اُسے ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدا یت دیتا ہے ''
جب کہ دوسرے مقام پر فرما یا :
''اِنَّکَ لَتَهدِیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ''٢٩
''بے شک آپ ہی سیدھے راستے کی جانب راہنمائی کر رہے ہیں ''
اس قسم کی آیات ، کئی مقامات پر ملتی ہے کہ خداوند متعال بعض امور کو اپنی طرف نسبت دیتا ہے پھر انہی امورکو اپنے نمائندے کی طرف بھی نسبت بھی دیتا ہے،جس کی مفسرین نے یہ وضاحت کی ہے کہ تمام امورکا تعلق ذاتی طور پر اللہ کے ساتھ ہے لیکن اللہ اپنے اذن او ر اجازت سے یہ امور اپنے انبیا ء کو سپر د کر تا ہے اگر غور کیاجا ئے تو توحید ونبوت کی حقیقت بھی یہی ہے ،پس نیتجہ یہ نکلا چونکہ پیغمبر اکرم ۖ کی حاکمیت اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تسلسل ہے اس بنا پر آپ ۖ نہ صرف مبلغ دین ہیں ،بلکہ اسلامی حاکم ہو نے کے عنوان سے دینی احکام کو عملی طو ر پر نافذ کر نے کے ذمہ دار بھی ہیں ۔

٢۔پیغمبر اکرم ۖ کی ولایت وحکومت سے متعلق آیات :
اس قسم میں بعض آیات ولایت پیغمبر ۖ کو ولا یت خد ا کی صف میں بیان کر تی ہیں اور بعض آیات میں علیحدہ سے ولایت پیغمبر کو ذکر کیا گیا ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے :
''اِنَّمَا وَلِيکُمُ اللّٰه وَرَسُوْلُه وَالَّذِينَ اٰمَنُواالَّذِينَ ےُقِيمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَهمْ رٰکِعُوْنَ ''٣٠
''تمہار ا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیںجو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں ''
''وَمَنْ يتَوَلَّ اللّٰه وَرَسُوْلَه وَالَّذِينَ اٰمَنُوْافَاِنَّ حِزْبَ اللّٰه همُ الْغٰلِبُوْنَ ''١ ٣
''اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا ولی (سر پرست)بنائے گا (تو وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہو جائے گا )اور اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے ''
نیز فرمایا :
''اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ اَنْفُسِهمْ ''٣٢
''نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے ''
ان آیات سے واضح ہو تا ہے کہ لوگوں کے تمام انفرادی واجتماعی امور میں رسول خدا ۖکو ولایت وحاکمیت حاصل ہے یعنی پیغمبر ۖ کے احکامات کے مقابلے میں لوگوں کی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر خدا ۖ کو لوگوں کے معاشرتی و اجتماعی امور میں دخالت کا نہ صرف حق حاصل ہے بلکہ ان امور میںپیغمبر ۖ کا حکم ہی نافذ العمل سمجھا جا ئے گا ،اس ضمن میں علامہ طباطبائی فرماتے ہیں۔
''ان کے نفسوں'' (انفسھم )سے مراد خود مومنین ہیں پس آیت کا معنی یہ ہوا کہ پیغمبر اکرم ۖ مومنین پر مومنین سے زیادہ حق تصرف رکھتے ہیں''
جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کبھی پیغمبر اکرم ۖ اور عام لو گوں کی رائے میں تعارض یا اختلاف پیدا ہو جائے تو پیغمبر ۖ کی رائے کو ترجیح اور برتری حاصل ہو گی مختصر یہ کہ مومنین جن امور میںذاتی اختیار رکھتے ہیں جیسے حفاظت ،محبت عزت ،کسی کی دعوت کو قبول کرنے یا اپنے ارادے پر عمل کرنے میں، پیغمبر ۖ ان سب امور میں ان پرحق اولویت رکھتے ہیں اور ان کے مقابلے میں پیغمبر ۖکا ارادہ فوقیت رکھتا ہے ۔٣٢
ان آیات کی روشنی میں یہ نیتجہ اخذ ہوتاہے کہ معاشرتی و سیاسی امور میں جب پیغمبر اکرم ۖ کو ئی فیصلہ کردیں تو اسے مقدم سمجھا جائے گا اور اس کی روایات میںبھی وضاحت موجود ہے نیز تمام علما ء اسلام کا اتفاق ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ باذن اللہ ولا یت تشریعی (قوانین کے وضع و نفاذ)کے منصب پر فائز ہیں ۔
٣۔تمام معاشرتی و سیاسی امور میں پیغمبر ۖ کو محورقرار دینے والی آیات :
قرآن مجید میں خداوند متعال نے اپنے رسول ۖ کو معاشرے کا ایسا محور و مرکز قرار دیا ہے کہ جس کے گرد جملہ امور کی گردش ہونی چاہیے ،سورۂ نور میں مومنین کو تاکید کی گئی ہے کہ ''ایمان ''کی شرط یہ ہے کہ تمام امور میں پیغمبر ۖ کے تابع رہیں ۔
''اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِينَ اٰمَنُوْابِاللّٰه وَرَسُوْلِه وَاِذَاکَانُوْامَعَه عَلٰی اَمْرٍجَامِعٍ لَّمْ ےَذْهبُوْ حَتّٰی يسْتَاْذِنُوْه اِنَّ الَّذِينَ يسْتَاْذِنُوْنَکَ اُولٰئِکَ الَّذِينَ يؤْمِنُوْنَ بِاللَّٰه وَرَسُوْلِه ''٣٣
''مومنین تو بس وہ لو گ ہیںجو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب وہ کسی اجتماعی معاملے میں رسول کے ساتھ ہوں تو ان کی اجا زت کے بغیر نہیں ہلتے جو لوگ آپ سے اجا زت مانگ رہے ہیں یہ یقینا وہ لوگ ہیںجو اللہ اور رسول پر ایمان رکھتے ہیں ''
اس آیت سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ اجتماعی مسائل میں مومنین کے مشورے کو شامل کر کے انہیں اعتماد میں لیتے تھے لیکن آخری فیصلہ پیغمبر ۖ کا ہو تا اور مومنین آپۖ کے فیصلوں کے پا بند ہو تے تھے نیز اس آیت میں خداوند حکیم نے ایک کلی قانون بھی بیان کر دیا ہے کہ معاشرتی و سیاسی امور میں ذاتی و انفرادی رائے کی کو ئی حیثیت نہیں بلکہ ہمیشہ پیغمبر ۖ کی اجازت سے معاملات طے ہو نگے ۔اس کے بعد والی آیت میں فرمایا :
''لَا تَجْعَلُوْادُعَآئَ الرَّسُوْلِ بَينَکُمْ کَدُعَآئِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا۔۔۔۔۔۔''
''(اے مومنو!) تمہارے درمیان رسول کو پکارنے کاانداز ایسا نہ ہو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو ۔۔۔۔''
''دعاء الرسول ''کے معنی میں بعض نے دواحتمال دئیے ہیں ایک رسول ۖ کو پکارنا دوسرا رسول ۖ کا پکارنا ۔ پہلے معنیٰ کے لحاظ سے تو ایک اخلاقی نکتہ کی طرف راہنمائی ہے کہ جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو رسول ۖ کو اس طرح مت پکارو اگرچہ رسول اکرم ۖ تو اضح و انکساری ضرورفرماتے ہیں ،لیکن امت کو رسالت کی منزلت کا لحاظ رکھنا چاہیے ،جب کہ دوسرے معنی کے لحاظ سے ایک اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے یعنی رسول ۖ کے بلانے کو عام آدمیوں کے بلانے کی طرح مت سمجھو ،رسول ۖکا بلانا ،اللہ کا بلانا ہے،اس لیے کہ رسول ۖکے بلانے پر فوری لبیک کہنا ایمان کا تقاضا ہے ۔احتمال کی حد تک تو پہلا معنی بھی درست ہے اور اخلاقی دستور کے لحاظ سے صحیح بھی ہے لیکن آیت میںموجود بعض تعبیرات سے معلوم ہو تا ہے کہ یہاں پر دوسرا معنی مقصود ہے کیونکہ اس حکم کے فوری بعد فرمایا :
''فَلْيحْذَرِالَّذِينَ يخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہ '' ٣٤
''جو لو گ حکم رسول ۖ کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات کا خوف رہنا چاہیے کہ مبادا وہ کسی فتنے میں مبتلا ہوجائیں یا ان پر کوئی درد ناک عذاب آجائے ''
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں :
''دعا ء الرسول سے مراد پیغمبراکرم ۖکا لوگوں کو کسی کام کے لیے بلانا ہے جیسے ایمان و عمل صالح کی طرف بلانا ، اجتماعی کاموں میں مشورت کے لیے بلانا ،نماز جامعہ کے لیے بلانا یا دنیا وی واخروی معاملات کے سلسلہ میں احکامات صاد ر کرنے کی غرض سے بلانا ہے ،لہذا یہ سب پیغمبر ۖ کے بلانے میں شامل ہیں ''٣٥
پس معلوم ہو ا کہ اگر کبھی کسی جنگ کی طرف روانہ ہو نے کے لیے بلائیں یااجتماعی و معاشرتی زندگی کے لحاظ سے ایک نجات بخش تحریر لکھنے کے لیے بلا ئیں تواس قسم کی اجتماعی دعوت کی مخالفت کرنے والا حقیقی مومن کہلا نے کا حقد ار نہیں ہو سکتا ۔بنابریں دونوں احتمالات کے باوجود پیغمبر ۖ کی اجتماعی و سیاسی معاملات میںمرکزیت کو کسی صورت میں رد نہیں کیا جا سکتا ۔علاوہ ازیں سیاسی حاکمیت کے لیے مالی امور کو ایک اہم رکن کی حیثیت حاصل ہے اور قرآن مجید میں زکات وخمس ا ور انفال کو پیغمبر ۖ کے اختیار میں دینے سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا وند متعال اپنے نبی ۖکو اسلام کا سیاسی حاکم متعارف کرانا چاہتا ہے ،ارشاد رب العزت ہے :
''وَلَوْ اَنَّهمْ رَضُوْامَآ اٰتٰهمُ اللّٰه وُرَسُوْلُه وَقَالُوْاحَسْبُنَااللّٰه سَيؤْتِينَااللّٰه مِنْ فَضْلِه وَرَسُوْلُه اِنَّآ اِلَی اللّٰه رٰغِبُوْنَ ''٣٦
''اور کیا ہی اچھا ہو تا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انہیں دیا ہے وہ اس پر راضی ہو جا تے اور کہتے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی ،ہم تو اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں ''
اس آیت میں زکات کی تقسیم میں پیغمبر اکرم ۖ کو کلی اختیار دیاگیا ہے نیز فرمایا :
''يسْلُوْنَکَ عَنِ الْاَ نْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰه وَالرَّسُوْلِ ''٣٧
''(اے رسول )آپ ۖ سے انفال (مال غنیمت)کے متعلق پو چھتے ہیں کہہ دیجیۓ یہ انفال اللہ اور رسول کے ہیں) ''
اگر چہ انفال کا حکم جنگ بدر کی غنیمت کے بارے میں آیا ہے تاہم یہ حکم ہر قسم کے انفال یعنی اموال زائد کو شامل ہے مثلا ً متروک آبادیاں،پہاڑوںکی چوٹیاں ،جنگل ،غیر آباد زمینیںاور لا وارث املاک وغیرہ جو کسی کی ملکیت نہ ہوں اس طرح وہ اموال جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے قبضے میں آئے ہوں جنہیں ''فئی'' کہتے ہیں یہ سب اللہ اور رسول ۖ کی ملکیت ہیں یعنی اسلامی حکومت کی جائیداد میں شامل ہیں ۔٣٨
مندرجہ بالا امور کی سر پرستی رسول کے سپرد کرنا یا جہاد کے امور کی سر پر ستی کا رسول ۖکے ساتھ مختص کر نا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ کو سیاسی امور پر بھی حاکمیت حاصل تھی ۔

٭٭٭٭٭
حوالہ جات
١۔ القرآن ،الجمعہ،٢
٢۔ القرآن ،الحدید،٢٥
٣۔ القرآن ،النحل ،٣٦
٤۔ مجلہ حکومت اسلامی ۔سال اول ،شمارہ دوم ،٢٢٤
٥۔ القرآن ،الکافرون،٦
٦۔ القرآن ،الغافر،٢٦
٧۔ القرآن ،الا نعام،١٥٣
٨۔ محمد حسین ،طباطبائی ،المیزان فی تفسیر القرآن ،ج ٤،ص١٢٢،ج١٤،ص١٧٨
٩۔ القرآن ،الروم،٣٠
١٠۔ محمد حسین ،طباطبائی ،المیزان فی تفسیر القرآن،ج٦،ص١٨٩
١١۔ القرآن ،الشوری،١٠نیز
١٢۔ القرآن ،النساء ،١٠٥
١٣۔ القرآن ،الا نفال،٤١
١٤۔ القرآن ،التوبہ،١٠٣
١٥۔ روح اللہ ،امام خمینی ،حکومت اسلامی ،ص٧١۔٧٠
١٦۔ القرآن ،النساء ،٦٤
١٧۔ القرآن ،النساء ،٨٠
١٨۔ القرآن ،النساء ،٥٩
١٩۔ القرآن ،الا نفال،٢٠
٢٠۔ القرآن ،الا نفالء ،٢١۔٢٤
٢١۔ القرآن ،النور ،٥٦
٢٢۔ القرآن ،الشعرا ،١٠٧۔١٠٨
٢٣۔ القرآن ،الاعراف،١٤٢
٢٤۔ القرآن ،طٰہ،٩٠
٢٥۔ القرآن ،الحشر، ٧
٢٦۔ القرآن ،آلعمران،١٢٨
٢٧۔ القرآن ،آلعمران،١٥٤
٢٨۔ القرآن ،القصص،٥٦
٢٩۔ القرآن ،الشوریٰ ،٥٢
٣٠۔ القرآن ،المائدہ،٥٥،٥٦
٣١۔ القرآن ،المائدہ،٥٦
٣٢۔ طباطبائی ،محمد حسین ،المیزان ،ج١٦،ص٢٧٦
٣٣۔ القرآن ،النور،٦٢
٣٤۔ القرآن ،النور،٦٣
٣٥۔ طباطبائی ،محمد حسین،المیزان ،ج١٥،ص١٦٦
٣٦۔ القرآن ،التوبہ ،٥٩
٣٧۔ القرآن ،الانفال،١
٣٨۔ نجفی ،محسن علی،بلاغ القرآن ،ص٢٣٦
منبع:مجلہ نورمعرفت
Read 576 times