واقعہ غدیر کیا ہے ؟

Rate this item
(0 votes)
واقعہ غدیر کیا ہے ؟

 یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ (1)
”اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“۔
اہل سنت کی متعدد کتابوں نیز تفسیر و حدیث اور تاریخ کی (تمام شیعہ مشہور کتابوں میں) بیان ہوا ہے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
ان احادیث کو بہت سے اصحاب نے نقل کیا ہے، منجملہ: ”ابوسعید خدری“، ”زید بن ارقم“، ”جابر بن عبد اللہ انصاری“، ”ابن عباس“، ”براء بن عازب“، ”حذیفہ“، ”ابوہریرہ“، ”ابن مسعود“اور ”عامر بن لیلی“، اور ان تمام روایات میں بیان ہوا کہ یہ آیت واقعہ غدیر سے متعلق ہے اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان میں سے بعض روایات متعدد طریقوں سے نقل ہوئی ہیں، منجملہ:
حدیث ابوسعید خدری ۱۱/طریقوں سے۔
حدیث ابن عباس بھی ۱۱/ طریقوں سے۔
اور حدیث براء بن عازب تین طریقوں سے نقل ہوئی ہے۔
جن افراد نے ان احادیث کو (مختصر یا تفصیلی طور پر ) اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ان کے اسما درج ذیل ہیں:
حافظ ابو نعیم اصفہانی نے اپنی کتاب ”ما نُزِّل من القرآن فی علیّ“ میں (الخصائص سے نقل کیا ہے، صفحہ۲۹)
ابو الحسن واحدی نیشاپوری ”اسباب النزول“ صفحہ۱۵۰۔
ابن عساکر شافعی ( الدر المنثور سے نقل کیا ہے، جلد دوم، صفحہ۲۹۸)
فخر الدین رازی نے اپنی ”تفسیر کبیر“ ، جلد ۳، صفحہ ۶۳۶ ۔
ابو اسحاق حموینی نے ”فرائد السمطین“ (خطی)
ابن صباغ مالکی نے ”فصول المہمہ“ صفحہ ۲۷ ۔
جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدر المنثور ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۸ ۔
قاضی شوکانی نے ”فتح القدیر“ ، جلد سوم صفحہ ۵۷ ۔
شہاب الدین آلوسی شافعی نے ”روح المعانی“ ، جلد ۶، صفحہ ۱۷۲ ۔
شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے اپنی کتاب ”ینابیع المودة“ صفحہ ۱۲۰ ۔
بد ر الدین حنفی نے ”عمدة القاری فی شرح صحیح البخاری“ ، جلد ۸، صفحہ ۵۸۴ ۔
شیخ محمد عبدہ مصری ”تفسیر المنار“ ، جلد ۶، صفحہ ۴۶۳۔
حافظ بن مردویہ (متوفی ۴۱۸ئھ) (الدر المنثور سیوطی سے نقل کیا ہے) اور ان کے علاوہ بہت سے دیگرعلمانے اس حدیث کو بیان کیا ہے ۔
البتہ اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ بہت سے مذکورہ علمانے حالانکہ شان نزول کی روایت کو نقل کیا ہے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر (جیسا کہ بعد میں اشارہ ہوگا) سرسری طور سے گزر گئے ہیں یا ان پر تنقید کی ہے، ہم ان کے بارے میں آئندہ بحث میں مکمل طور پر تحقیق و تنقیدکریں گے۔(انشاء اللہ )
واقعہٴ غدیر
مذکورہ بحث سے یہ بات اجمالاً معلوم ہوجاتی ہے کہ یہ آیہٴ شریفہ بے شمار شواہد کی بنا پر امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، اور اس سلسلہ میں (شیعہ کتابوں کے علاوہ) خود اہل سنت کی مشہور کتابوں میں وارد ہونے والی روایات اتنی زیادہ ہیں کہ کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔
ان مذکورہ روایات کے علاوہ بھی متعددروایات ہیں جن میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ یہ آیت غدیر خم میں اس وقت نازل ہوئی کہ جب پیغمبر اکرم (ص) نے خطبہ دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا وصی و خلیفہ بنایا، ان کی تعداد گزشتہ روایات کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے، یہاں تک محقق بزرگوار علامہ امینی ۺ نے کتابِ ”الغدیر“ میں ۱۱۰/ اصحاب پیغمبر سے زندہ اسناد اور مدارک کے ساتھ نقل کیا ہے، اسی طرح ۸۴/ تابعین اور مشہور و معروف۳۶۰/ علماو دانشوروں سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
اگر کوئی خالی الذہن انسان ان اسناد و مدارک پر ایک نظر ڈالے تو اس کو یقین ہوجائے گا کہ حدیث غدیر یقینا متواتر احادیث میں سے ہے بلکہ متواتر احادیث کا بہترین مصداق ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان احادیث کے تواتر میں شک کرے تو پھر اس کی نظر میں کوئی بھی حدیث متواتر نہیں ہوسکتی۔
ہم یہاں اس حدیث کے بارے میں بحث مفصل طور پر بحث نہیں کرسکتے ، حدیث کی سند اور آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں اسی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں، اور اب حدیث کے معنی کی بحث کرتے ہیں، جو حضرات حدیث غدیر کی سند کے سلسلہ میں مزید مطالعہ کرنا چاہتے ہیںوہ درج ذیل کتابوں میں رجوع کرسکتے ہیں:
۱۔ عظیم الشان کتاب الغدیر جلد اول تالیف ،علامہ امینی علیہ الرحمہ۔
۲۔ احقاق الحق، تالیف ،علامہ بزرگوار قاضی نور اللہ شوستری، مفصل شرح کے ساتھ آیت اللہ نجفی، دوسری جلد ، تیسری جلد، چودھویں جلد، اور بیسوی جلد۔
۳۔ المراجعات ،تا لیف ،مرحوم سید شرف الدین عاملی۔
۴۔ عبقات الانوار ، تالیف عالم بزرگوار میر سید حامد حسین ہندی (لکھنوی) ۔
۵۔ دلائل الصدق ، جلد دوم، تالیف ،عالم بزرگوار مرحوم مظفر۔
حدیث غدیر کا مضمون
ہم یہاں تمام روایات کے پیش نظر واقعہ غدیر کا خلاصہ بیان کرتے ہیں، (البتہ یہ عرض کردیا جائے کہ بعض روایات میں یہ واقعہ تفصیلی اور بعض میں مختصر طور پر بیان ہوا ہے، بعض میں واقعہ کے ایک پہلو اور بعض میں کسی دوسرے پہلو کی طرف اشارہ ہوا ہے، چنا نچہ ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے:)
پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی کا آخری سال تھا”حجة الوداع “کے مراسم جس قدر باوقار اور باعظمت ہو سکتے تھے وہ پیغمبر اکرم کی ہمراہی میں اختتام پذیر ہوئے، سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے ابھی ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کررہی تھی ۔ اصحاب پیغمبر کی کثیر تعداد آنحضرت (ص) کے سا تھ اعمال حج انجام دینے کی عظیم سعادت پر بہت زیادہ خوش نظر آرہے تھے ۔(1)
(1) پیغمبر کے ساتھیوں کی تعداد بعض کے نزدیک ۹۰ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بارہ ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بیس ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے
نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزازوافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ہمراہ تھے۔
سرزمین حجاز کا سورج درودیوار اور پہاڑوںپر آگ برسارہا تھا لیکن اس سفرکی بے نظیر روحانی حلاوت نے تمام تکلیفوں کو آسان بنارہا تھا۔ زوال کا وقت نزدیک تھا، آہستہ آہستہ ”جحفہ“ کی سرزمین او راس کے بعد خشک اور جلانے والے”غدیرخم“ کا بیابان نظر آنے لگا۔
در اصل یہاں ایک چوراہا ہے جو حجاز کے لوگوں کوایک دوسرے سے جدا کرتا ہے، شمالی راستہ مدینہ کی طرف دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف،تیسرا مغربی ممالک او رمصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں اخری او راس عظیم سفر کااہم ترین مقصدانجام دیاجا نا تھا اور پیغمبر مسلمانوں کے سامنے اپنی آخری اور اہم ذمہ داری کی بنا پر آخری حکم پہچا نا چا ہتے تھے ۔
جمعرات کا دن تھا اورہجرت کا دسواں سال، آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے سب کو ٹھہر نے کا حکم دیا گیا، مسلمانوں نے بلندآواز سے قافلہ سے آگے چلے جانے والے لو گوں کوواپس بلایااوراتنی دیر تک رکے رہے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ گئے۔ آفتاب خط نصف النہار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موٴذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظہر پڑھنے کی دعوت دی، مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوگئے، لیکن فضا اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی حصہ سر پر رکھنے کے لئے مجبور تھے ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رہی تھیں۔
اس صحرا میں کوئی سایہ نظر نہیں آتا تھا اور نہ ہی کوئی سبزہ یاگھاس صرف چند خشک جنگلی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے کچھ لوگ انہی چند درختوں کا سہارا لئے ہوئے تھے، انہوں نے ان برہنہ درختوں پر ایک کپڑاڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان بنا رکھا تھا لیکن سورج کی جلا دینے والی گرم ہوا اس سائبان کے نیچے سے گزر رہی تھی ،بہرحال ظہر کی نمازادا کی گئی۔
مسلمان نماز کے بعد فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لینے کی فکر میں تھے لیکن رسول اللہ نے انہیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوندتعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ہوجائیں جسے ایک مفصل خطبہ کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
جو لوگ رسول اللہ (ص) سے دور تھے وہ اس عظیم اجتماع میں پیغمبر کا ملکوتی اور نورانی چہرہ دیکھ نہیں پارہے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا،پیغمبر اس پر تشریف لے گئے،پہلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے یوں خطاب فرمایا:میں عنقریب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تمہارے درمیان سے جا نے والاہوں ،میں بھی جوابدہ ہوں اورتم لو گ بھی جوابدہ ہو ،تم میرے بارے میں کیا کہتے ہو ؟سب لو گوں نے بلند آواز میں کہا :
”نَشھَد اٴنّکَ قَد بَلَغْتَ وَ نَصَحْتَ وَ جَاھَدتَّ فَجَزَاکَ اللّٰہُ خَیْراً“
”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواہی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے“۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا : کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ہونے کی گواہی نہیں دیتے؟
سب نے کہا:کیوں نہیں ہم سب گواہی دیتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: خدایا!گواہ رہنا۔
آپ نے مزید فرمایا:اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟
انہوں نے کہا: جی ہاں۔
اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ہوگیا، سوائے ہوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نہیں دیتی تھی ، پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارہا ہوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کہا:یا رسول اللہ (ص) وہ دو گرا نقدر چیزیں کونسی ہیں؟
تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پہلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو ثقل اکبر ہے، اس کا ایک سرا پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سراتمہارے ہاتھ میں ہے،اس سے ہاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ ہو جاؤگے، دوسری گرانقدر یادگار میرے اہل بیت ٪ ہیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیں گے۔
ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ہی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ہلاک ہو جاؤگے۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاہیں دوڑارہے ہیں گویا کسی کو تلاش کررہے ہیں جو نہی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً ان کا ہاتھ پکڑلیا اور انہیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انہیں دیکھ کر پہچان لیاکہ یہ تو اسلام کا وہی سپہ سالار ہے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نہیں دیکھا۔
اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اوربلند ہوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:
”اٴیُّھا النَّاس مَنْ اٴولیٰ النَّاسِ بِالمَوٴمِنِیْنَ مِنْ اٴَنْفُسِھم“
اے لوگو! بتاؤ وہ کون ہے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولویت رکھتا ہے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ہیں۔
تو پیغمبر نے فرمایا: خدا میرا مولا اوررہبر ہے اور میں مومنین کا مولااوررہبر ہوں اورمیں ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے پرمقدم ہے)۔
اس کے بعد فرمایا:
”فَمَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِیّ مَولاہ“۔
”یعنی جس کا میں مولاہوں علی بھی اس کے مولا اوررہبر ہیں“۔
پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی، او ربعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دہرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:
”اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاٰہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ وَاٴحب مَنْ اٴحبہُ وَ ابغِضْ مَنْ اٴبغَضہُ وَ انْصُرْمَنْ نَصَرُہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ، وَاٴدرِالحَقّ مَعَہُ حَیْثُ دَارَ“
یعنی بار الٰہا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ او رجو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ، جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کی مدد کرے تو اس کی مددکر ، جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مددسے محروم رکھ اور حق کو ادھرموڑدے جدھر وہ رخ کرے۔
اس کے بعد فرمایا:
”اٴلَا فَلْیُبَلِّغ الشَّاہدُ الغائبُ“
” تمام حاضرین آگاہ ہوجائیں کہ یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کوان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں پر اس وقت موجود نہیں ہیں “۔
پیغمبر کا خطبہ ختم ہوگیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینہ میں غرق تھے، دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رہا تھا۔
ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئی تھیں کہ جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور پیغمبر کو ان الفاظ میں تکمیلِ دین کی بشارت دی:

<الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی(2)
”آج کے دن ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:
”اللّٰہُ اٴکبرُ اللّٰہُ اٴکبرُ عَلیٰ إکْمَالِ الدِّینِ وَإتْمَام النِعْمَةِ وَرَضیٰ الربِّ بِرسَالَتِی وَالوِلاٰیَة لِعَلیّ مِنْ بَعْدِی“
”ہر طرح کی بزرگی وبڑائی خداہی کے لئے ہے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد علی کی ولایت کے لئے خوش ہوا۔“
پیغمبر کی زبان مبارک سے امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی ولایت کا اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور بلند ہوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کرنے لگے چنانچہ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں کہ انہوں نے کہا:
”بخٍ بخٍ لک یا بن اٴبِی طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولای و مولاکُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“
”مبارک ہو ! مبارک ! اے فرزند ابو طالب کہ آپ میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رہبر ہوگئے“۔
اس وقت ابن عباس نے کہا :بخدا یہ عہد وپیمان سب کی گردنوں میں باقی رہے گا۔
اس موقع پر مشہور شاعر حسان بن ثابت نے پیغمبر اکرم (ص) سے اجازت طلب کی کہ اس
موقع کی مناسبت سے کچھ شعر کہوں ،چنا نچہ انھو ں نے یہ مشہور و معروف اشعار پڑھے:
یَنادِیْھِمْ یَومَ الغَدِیرِ نَبِیُّھُمْ بِخُمٍّ وَاٴسْمِعْ بِالرَّسُولِ مُنَادِیاً
فَقَالَ فَمَنْ مَولٰاکُمْ وَنَبِیُّکُمْ؟ فَقَالُوا وَلَمْ یَبْدُو ھُناکَ التَّعامِیا
إلٰھکَ مَولانَا وَاٴنتَ نَبِیُّنَا َولَمْ تَلْقِ مِنَّا فِی الوَلایَةِ عَاصِیاً
فَقَالَ لَہُ قُمْ یَا عَلیّ فَإنَّنِی رَضِیْتُکَ مِنْ بَعْدِی إمَاماً وَ ھَادیاً
فَمَنْ کُنْتُ مَولاہُ فَھَذَا وَلِیُّہُ فَکُونُوا لَہُ اَتْبَاعَ صِدْقٍ مَوَالِیاً
ھَنَاکَ دَعَا اَللّٰھُمَّ وَالِ وَلِیَّہُ وَکُنْ لِلَّذِی لَہُ اٴتْبَاعَ عَلِیًّا مُعَادِیاً
(1)
یعنی: ”پیغمبر اکرم (ص) روز غدیر خم یہ اعلان کررہے تھے اور واقعاً کس قدر عظیم اعلان تھا۔
فرمایا: تمہارامولاا ور نبی کون ہے؟ تو مسلمانوں نے صاف صاف کہا:
”خداوندعالم ہمارا مولا ہے اور ہمارے نبی ہیں، ہم آپ کی ولایت کے حکم کی مخالفت نہیں کریں گے۔
اس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: یا علی اٹھو ، کیونکہ میں نے تم کو اپنے بعد امام اور ہادی مقرر کیا ہے۔
اس کے بعد فرمایا: جس کامیں مولا و آقا ہوں اس کے یہ علی مولا اور رہبر ہیں ، لہٰذا تم سچے دل سے اس کی اطاعت و پیروی کرنا۔
اس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: پالنے والے! اس کے دوست کو دوست رکھ! اور اس کے دشمن کو دشمن۔
(1) ان اشعار کو اہل سنت کے بڑے بڑے علمانے نقل کیا ہے ، جن میں سے حافظ ”ابونعیم اصفہانی،حافظ ”ابو سعید سجستانی“، ”خوارزمی مالکی“، حافظ ”ابو عبد اللہ مرزبانی“،”گنجی شافعی“، ”جلال الدین سیوطی“، سبط بن جوزی“ اور ”صدر الدین حموی“ کا نام لیا جاسکتا ہے
قا ر ئین کرام !یہ تھا اہل سنت اور شیعہ علماکی کتابوں میں بیان ہونے والی مشہور و معروف حدیث غدیر کا خلاصہ۔
آیہ بلغ کے سلسلہ میں ایک نئی تحقیق
اگر ہم مذکورہ آیت کی شان نزول کے بارے میں بیان ہونے والی احادیث اور واقعہ غدیر سے متعلق تمام روایات سے قطع نظر کریں اور صرف اور صرف خود آیہٴ بلغ اور اس کے بعد والی آیتوں پر غور کریں تو ان آیات سے امامت اور پیغمبر اکرم (ص) کی خلافت کا مسئلہ واضح و روشن ہوجائے گا۔
کیونکہ مذکورہ آیت میں بیان ہونے والے مختلف الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کی تین اہم خصوصیت ہیں:
۱۔ اسلامی نقطہ نظر سے اس مسئلہ کی ایک خاص اہمیت ہے ، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) کو حکم دیا گیا ہے کہ اس پیغام کو پہنچادو، اور اگر اس کام کو انجام نہ دیا تو گویا اپنے پروردگار کی رسالت کو نہیں پہنچایا! دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ ولایت کا مسئلہ نبوت کی طرح تھا ، کہ اگر اس کو انجام نہ دیا تو پیغمبر اکرم کی رسالت ناتمام رہ جاتی ہے:<وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ
واضح رہے کہ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ یہ خدا کا کوئی معمولی حکم تھا، اور اگرخدا کے کسی حکم کونہ پہنچایا جائے تو رسالت خطرہ میں پڑجاتی ہے، کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے اور اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، حالانکہ آیت کا ظاہر یہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے جو رسالت و نبوت سے خاص ربط رکھتا ہے۔
۲۔ یہ مسئلہ اسلامی تعلیمات جیسے نماز، روزہ، حج، جہاد اور زکوٰة وغیرہ سے متعلق نہیں تھا کیونکہ یہ آیت سورہ مائدہ کی ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ سورہ پیغمبر اکرم (ص) پر سب سے آخر میں نازل ہوا ہے، (یا آخری سوروں میں سے ہے) یعنی پیغمبر اکرم (ص) کی عمر بابرکت کے آخری دنوں میں یہ سورہ نازل ہوا ہے جس وقت اسلام کے تمام اہم ارکان بیان ہوچکے تھے۔(3)
۳۔ آیت کے الفاظ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ ایک ایسا عظیم تھاجس کے مقابلہ میں بعض لوگ سخت قدم اٹھانے والے تھے، یہاں تک کہ پیغمبر اکرم (ص) کی جان کو بھی خطرہ تھا، اسی وجہ سے خداوندعالم نے اپنی خاص حمایت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:< وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ ”اور خداوندعالم تم کولوگوں کے (احتمالی) خطرے سے محفوظ رکھے گا“۔
آیت کے آخر میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے: ”خداوندعالم کافروں کی ہدایت نہیں فرماتا“< إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ
آیت کا یہ حصہ خود اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بعض مخالف آنحضرت (ص) کے خلاف کوئی منفی قدم اٹھانے والے تھے۔
ہماری مذکورہ باتوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اس آیت کا مقصد پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی اور خلافت کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔
جی ہاں پیغمبر اکرم (ص) کی آخری عمر میں صرف یہی چیز مورد بحث واقع ہوسکتی ہے نہ کہ اسلام کے دوسرے ارکان ، کیونکہ دوسرے ارکان تو اس وقت تک بیان ہوچکے تھے، صرف یہی مسئلہ رسالت کے ہم وزن ہوسکتا ہے، اور اسی مسئلہ پر بہت سی مخالفت ہوسکتی تھی اور اسی خلافت کے مسئلہ میں پیغمبر اکرم (ص) کی جان کو خطرہ ہوسکتا تھا۔
اگر مذکورہ آیت کے لئے ولایت، امامت اور خلافت کے علاوہ کوئی دوسری تفسیر کی جائے تو وہ آیت سے ہم آہنگ نہ ہوگی۔
آپ حضرات ان تمام مفسرین کی باتوں کو دیکھیں جنھوں نے اس مسئلہ کو چھوڑ کر دوسری تاویلیں کی ہیں، ان کی تفسیر آیت سے بےگانہ دکھائی دیتی ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ آیت کی تفسیر نہیں کرپائے ہیں۔
توضیحات
۱۔ حدیث غدیر میں مولی کے معنی
جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے کہ حدیث غدیر ”فمن کنت مولاہ فعلیٌّ مولاہ“ تمام شیعہ اور سنی کتا بوں میں نقل ہو ئی ہے: اس سے بہت سے حقائق روشن ہوجاتے ہیں۔
اگرچہ بہت سے اہل سنت موٴلفین نے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ”مولی“ کے معنی ”ناصر یا دوست “ کے ہیں، کیونکہ مولی کے مشہور معنی میں سے یہ بھی ہیں، ہم بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ”مولیٰ“ کے معنی دوست اور ناصر ومددگار کے ہیں، لیکن یہاں پر بہت سے قرائن و شواہدہیں جن سے معلوم ہوتا ہے مذکورہ حدیث میں ”مولیٰ“ کے معنی ”ولی ، سرپرست اور رہبر“ کے ہیں، ہم یہاں پر ان قرائن و شواہد کو مختصر طور پر بیان کرتے ہیں:
۱۔ حضرت علی علیہ السلام سے تمام مومنین کی دوستی کوئی مخفی اور پیچیدہ چیز نہ تھی کہ جس کے لئے اس قدر تاکید اور بیان کی ضرورت ہوتی، اور اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس بے آب و گیاہ اور جلتے ہوئے بیابان میں اس عظیم قافلہ کو دوپہر کی دھوپ میں روک کرایک طویل و مفصل خطبہ دیا جائے اور سب لوگوں سے اس دوستی کا اقرارلیا جائے۔
قرآن مجید نے پہلے ہی وضاحت کے ساتھ یہ اعلان فردیا ہے: < إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ(4)”مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں“
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:< وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْض(5) ”مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں“۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی اخوت اور مسلمانوں کی ایک دوسرے سے دوستی اسلام کے سب سے واضح مسائل میں سے ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، اور خود آنحضرت (ص) نے اس بات کو بارہا بیان فرمایا اوراس سلسلہ میں تاکید فرمائی ہے، اور یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا جس سے آیت کا لب و لہجہ اس قدر شدید ہوجاتا، اور پیغمبر اکرم (ص) اس راز کے فاش ہونے سے کوئی خطرہ محسوس کرتے۔ (غور کیجئے )
۲۔ ”اٴلَسْتُ اٴولیٰ بِکُمْ مِنْ اٴنفُسِکم“ (کیا میں تم لوگوں پر تمہارے نفسوں سے زیادہ اولی اور سزاور نہیں ہوں؟) حدیث کا یہ جملہ بہت سی کتابوں میں بیان ہوا ہے جو ایک عام دوستی کو بیان کرنے کے لئے بے معنی ہے، بلکہ اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح مجھے تم پر اولویت و اختیار حاصل ہے اور جس طرح میں تمہارا رہبر اور سرپرست ہوں بالکل اس طرح علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت ہے، اورہمارے عرض کئے ہوئے اس جملے کے معنی کے علاوہ دوسرے معنی انصاف اور حقیقت سے دور ہیں، خصوصاً ”من انفسکم“ کے پیش نظر یعنی میں تمہاری نسبت تم سے اولیٰ ہوں۔
۳۔ اس تاریخی واقعہ پرتمام لوگوں کی طرف سے خصوصاً حضرت ”عمر “ اور حضرت ”ابوبکر“ کا امام علی علیہ السلام کی خد مت میں مبارکباد پیش کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف خلافت کا مسئلہ تھا، جس کی وجہ سے تبریک و تہنیت پیش کی جارہی تھی، کیونکہ حضرت علی علیہ السلام سے دوستی کا مسئلہ تو سب کو معلوم تھا اس کے لئے تبریک کی کیا ضرورت تھی؟!!
مسند احمد میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اعلان کے بعد حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کو ان الفاظ میں مبارک باد دی:
”ھنئیاً یا بن اٴبِی طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“(6)
”مبارک ہو مبارک! اے ابو طالب کے بیٹے! آج سے تم ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے“۔
علامہ فخر الدین رازی نے < یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ حضرت عمر نے کہا: ”ھنئیاً یا بن اٴبِی طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“جس سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کوخود حضرت عمر اپنااور ہر مومن و مومنہ کا مولا سمجھتے تھے۔
تاریخ بغداد میں روایت کے الفاظ یہ ہیں: ”بخٍ بخٍ لک یا بن اٴبِی طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولای و مولاکُلّ مسلم“(7) ”اے ابو طالب کے بیٹے مبارک ہو مبارک! آپ آج سے میرے اور ہر مسلمان کے مولا ہوگئے“۔
فیض القدیر اور صواعق محرقہ دونوں کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر دونوں نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: ”وَاٴَمسیتَ یابن اٴبی طالبٍ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“
یہ بات واضح ہے کہ ایک عام دوستی تو سبھی مومنین کے درمیان پائی جاتی تھی، تو پھر اتنا اہتمام کیسا؟! لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ یہ اس وقت صحیح ہے جب مولی کے معنی صرف اور صرف حا کم اور خلیفہ ہوں۔
۴۔ حسان بن ثابت کے مذکورہ اشعار بھی اس بات پر بہترین گواہ ہیں کہ جن میں بلند مضامین اور واضح الفاظ میں خلافت کے مسئلہ کو بیان کیا گیا ہے، جن کی بنا پر مسئلہ کافی واضح ہے (آپ حضرات ان اشعار کو ایک مرتبہ پھر پڑھ کر دیکھیں)
۲۔ قرآن کی آیات واقعہ غدیر کی تائید کرتی ہیں
بہت سے مفسرین اورراویوں نے سورہ معارج کی ابتدائی چند آیات: <سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ # لِلْکَافِرینَ لَیْسَ لَہُ دَافِعٌ # مِنْ اللهِ ذِی الْمَعَارِجِ (ایک سائل نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا جس کا کافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے، یہ بلندیوں والے خدا کی طرف سے ہے،)کی شان نزول کو بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
”پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم میں خلافت پر منصوب کیا، اوران کے بارے میں فرمایا: ”مَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِیّ مَولاہ“۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر عام ہوگئی، نعمان بن حارث فہری (8)(جو کہ منافقوں میں سے تھا ) پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے: آپ نے ہمیں حکم دیا کہ خدا کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کی گواہی دیں ہم نے گواہی دی، لیکن آپ اس پر بھی راضی نہ ہوئے یہاں تک کہ آپ نے (حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے کہا) اس جوان کو اپنی جانشینی پر منصوب کردیا اور کہا : ”مَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِیّ مَولاہ“۔کیا یہ کام اپنی طرف سے کیا ہے یا خدا کی طرف سے؟ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اس خداکی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، یہ کام میں نے خدا کی طرف سے انجام دیا ہے“۔
نعمان بن حارث نے اپنا منھ پھیر لیا اور کہا: خداوندا! اگر یہ کام حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو مجھ پر آسمان سے پتھر برسا!۔
اچانک آسمان سے ایک پتھر آیا اور اس کے سر پر لگا ، جس سے وہ وہیں ہلاک ہوگیا،اس موقع پر آیہٴ <سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِع نازل ہوئی ۔
(قارئین کرام!) مذکورہ روایت کی طرح مجمع البیان میں بھی یہ روایت ابو القاسم حسکانی سے نقل ہوئی ہے(9)، اور اسی مضمون کی روایت بہت سے اہل سنت مفسرین اور راویان حدیث نے مختصر سے اختلاف کے ساتھ نقل کی ہے، منجملہ: قرطبی نے اپنی مشہور تفسیرمیں(10) آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں(11)، اور ابو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں۔(12)
علامہ امینی علیہ الرحمہ نے کتاب الغدیر میں تیس علمااہل سنت سے ( معہ منابع )اس روایت کو نقل کیا ہے، جن میں سے: سیرہٴ حلبی، فرائد السمطین حموینی، درر السمطین شیخ محمد زرندی، السراج المنیرشمس الدین شافعی، شرح جامع الصغیر سیوطی، تفسیر غریب القرآن حافظ ابوعبید ہروی، اور تفسیر شفاء الصدور ابو بکر نقّاش موصلی ، وغیرہ بھی ہیں۔(13)
 


(1) سورہ مائدہ ، آیت 67
(2)سورہٴ مائدہ ، آیت3
3) فخر رازی اس آیت کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں: بہت سے علما(محدثین اور مورخین) نے لکھا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پیغمبر اکرم (ص) صرف ۸۱ /دن یا ۸۲/ دن زندہ رہے، (تفسیر کبیر ، جلد ۱۱، صفحہ ۱۳۹) ، تفسیر المنار اور بعض دیگر کتابوں میں یہ بھی تحریر ہے کہ پورا سورہ مائدہ حجة الوداع کے موقع پر نازل ہوا ہے، (المنار ، جلد ۶ صفحہ ۱۱۶) البتہ بعض موٴلفین نے مذکورہ دنوں کی تعداد کم لکھی ہے.
(4)سورہٴ حجرات ، آیت ۱۰
(5)سورہٴ توبہ ، آیت73
(6) مسند احمد ، جلد ۴، صفحہ ۲۸۱ ،(فضائل الخمسہ ، جلد اول، صفحہ ۴۳۲ کی نقل کے مطابق )
(7) تاریخ بغداد ، جلد ۷، صفحہ ۲۹۰
(8) بعض روایات میں ”حارث بن نعمان“ اور بعض روایات میں ”نضر بن حارث“ آیا ہے
(9) مجمع البیان ، جلد ۹و۱۰، صفحہ ۳۵۲
(10) تفسیر قرطبی ، جلد ۱۰، صفحہ ۶۷۵۷
(11) تفسیر آلوسی، ، جلد ۲۹، صفحہ ۵۲
(12) نور ا لابصار شبلنجی ، صفحہ ۷۱ کے نقل کے مطابق
(13) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۱۸۱

 

 

https://makarem.ir › 
 
 
Read 479 times