امام خمینی (رہ) اسلامی اور غیر اسلامی دانشوروں کی نظر میں

Rate this item
(1 Vote)

حضرت امام خمینی کی الھی شخصیت کے بارے میں مسلمان اور غیر مسلم دانشوروں کے خیالات

امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی نورانی شخصیت اور افکار اور بیسوں صدی کے مھم ترین انقلاب کے قائد کی زندگي کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنا بہت سخت کام ہے۔ اس بارے میں اب تک بہت سی کتابیں اور مقالے لکھے جانے کے باوجود اس مرد خدا کی شخصیت کا بیان ممکن نہيں ہوسکا ہے بلکہ اس عظیم شخصیت کی کامل پہچان کے لئے ابھی ہمارے سامنے بہت لمبی راہ ہے۔ عظیم فقیہ، حکیم، دور اندیش سیاسی رھبر اور عارف الھی کے عنوان سے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اپنی روزانہ کی دعاوں، توکل، معرفت اور اخلاص کے سایہ میں الھی نورانیت کے عظیم سرچشمے اور معنویت و عرفان کے بے کراں سمندر سے متصل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ اسی لئے اس عظیم شخصیت کے بلند افکار تک پہچنا اگر علماء کے لئے غیر ممکن نہیں ہے تو آسان بھی نہیں ہے۔ اس مضمون میں ہم امام خمینی کی شخصیت کے بارے میں دنیا کے عظیم مفکروں اور دانشمندوں کے نظریات بیان کریں گے۔

 

مسلمان امریکی دانشور اور امریکا کی ٹیمبل یونیورسٹی میں دینیات کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر مصطفی ایوب کہتے ہیں کہ میرا ماننا ہے کہ تاریخ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو بیسویں صدی کی سب سے عظیم شخصیت کی حیثیت سے یاد کرے گی۔ کیونکہ وہ ایسی شخصیت کے حامل تھے جس میں سیاسی اور دینی سوجھ بوجھ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہ بات صحیح ہے کہ غیبت صغری سے ایک شیعی اسلامی مفہوم کے عنوان سے ولایت فقیہ ہمیشہ سے موضوع بحث رہا ہے لیکن امام خمینی نے اس موضوع کی الگ ہی تفسیر کی کہ امام معصوم فقیہ علماء کے ذریعہ حکومت میں کردار ادا کرتا ہے اور وہ علماء امام علیہ السلام کے نائب ہوتے ہیں، چنانچہ اگر کی شخص میں وہ خصوصیات جسے امام علیہ السلام نے بیان کی ہیں پائی جاتی ہوں تو وہ فقیہ ہوگا۔ میرا یہ ماننا ہے کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے انقلاب کے اھم ترین اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے ایک اہم اسلامی ملک میں بے دین حکومت کو اسلامی حکومت میں تبدیل کردیا اور اس طرح سے اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے اسلامی تحریکوں کے آیڈیل میں تبدیل ہو گئي۔ میرا یہ ماننا ہے کہ فکری قدرت کے لحاظ سے امام خمینی صرف اور صرف ایک فرد یا غیر معمولی شخصیت نہیں تھے بلکہ تاریخ کا دھارا موڑنےوالی شخصیت تھے۔

 

الاھرام اخبار، المجلہ اور الشرق الاوسط اخبار کے مضمون نگار صحافی فھمی ھویدی کا کہنا ہے کہ جرات کے ساتھ یہک کہا جاسکتا ہےکہ مکمل طور پر امام خمینی کی کامیابیوں اور کامرانیوں کو بیان کرنے سے انسانی ذھن قاصر ہے لیکن انھیں مندرجہ ذیل جملوں میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے۔

1 -ملت ایران کو دوبارہ خود اعتمادی عطا کرنا اوراسکے مذہبی اور دینی تشخص کے خلاف دشمنیوں اور برحرمتیوں کا خاتمہ کرنا جسکی اہمیت گذشتہ حکومت گھٹانے کے درپئے تھی۔

2 -انھوں نے اس جیسی بہت سی باتوں پرخط بطلان کھینچ دیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ دین قوموں کا افیم اور سستی وکاہلی کا عنصر ہے اور ثابت کیا ہے کہ اگر دین سے صحیح استفادہ کیا جائے یہ قوموں کو بیدار کرنے کا بہت ہی مؤثر اور فعال ذریعہ ہے۔

3 -امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے معاصر دنیا میں کمزورں اور مستضعفین کی کامیابی اور اسلام کے اہم مواقف کو آگے بڑھانے کی زمیں ہموار کی ہے۔

4 -امام خمینی دنیا کی استکباری طاقتوں کے مقابلے میں پوری طاقت سے ڈٹ گئے اور ان کے مقابلے میں کبھی خاموش نہیں رہے۔

5 -مذھبی افکار کے تناظر میں انھوں نے عظیم کامیابی حاصل کی اور وہ برسوں کے انتظار کے بعد اسلامی حکومت کی تشکیل تھی اور یہ کامیابی خاص اہمیت کی حامل ہے۔

مراکش کے معروف مصنف اور علماء کونسل کے رکن ڈاکٹر ادریس کتانی کا کہنا ہے کہ میرا ماننا ہے کہ امام خمینی رح کا سب سے اہم کارنامہ انقلاب کی کامیابی کے بعد اسکے اسلامی ہونے کی حفاظت کرنا تھا۔ اپنی اس بات کی وضاحت کے لئے میں تاریخ معاصر کے کچھ حصے جسکا میں نے خود مشاھدہ کیا ہے آپ سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میں الجزائر کے انقلاب میں خود شریک تھا۔ اس انقلاب میں سبھی مسلمان تھے اور نہتے لوگوں نے فرانس کے 130 برسوں سے قابض استعمار کو دھول چٹا دی تھی اور اس کا قبضہ ختم کردیا تھا لیکن انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد سوشلسٹ لوگوں نے مسلمانوں کو کنارے لگا کر اپنی حکومت عوام پر تھوپ دی کیونکہ الجزائر کا انقلاب اسلامی رھبری سے محروم تھا۔ انہی دنوں، انقلاب کی کامیابی کے ٹھیک کچھ ہی دنوں بعد، ٹیٹو، ناصر اور نہرو الجزائر آئے تا کہ لوگوں کی انقلابی تحریک کو باضابطہ طور پر سوشلسٹ رنگ دے سکیں، لیکن ایران کے اسلامی انقلاب میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ امام خمینی حکومت کے اسلامی ہونے پرمصر رہے۔ امام خمینی کی بھی کامیابی اسی میں تھی کہ انہوں نے مسلمان عوام پر بھروسہ کرتے ہوئے انقلابی گروہ تشکیل دیے اور انکی انقلابی طاقت سے مدد لی اواس بات کا موقع نہیں دیا کہ سیاسی اور فوجی طاقتیں حکومت اپنے ہاتھوں میں لےسکیں ۔ عوامی کی سپاہ کی تشکیل، انقلاب کا بھرپوردفاع، میدان میں مسلمان عوام کی موجودگي کا تحفظ ، ہر سطح پراسلامی و انقلابی عھدیداروں سے کام لینا اور اسلام کی اساس پر انقلاب کو جاری رکھنے پرامام خمینی کی استقامت سے مغربی ممالک اپنے اندازوں میں شکست کھاگئے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران جاکر نزدیک سے انقلاب کا جائزہ لینے والا مراکش کی عدالت کا ایک وکیل اور سوشلسٹ پارٹی کا سیکریٹری جنرل تھا جس نے واپسی کے بعد لکھا کہ انقلاب اور امام خمینی کی رھبری ایسی ہے کہ جس کے بارے میں مغرب کبھی صحیح تھیوری نہیں پیش کر سکتا۔ میں موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یہ اعلان کرنا جاہتا ہوں کہ میں نے بہت سے علماء اسلام کی جانب سے امام خمینی کی مخالفت دیکھی ہے خود ایران میں بھی اور ایران کے باہر بھی لیکن میں ایک عالم دین ہونے کی حثیثت سے یہ یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ یہ سب باتیں یا تو فکری جمود کی نشانی ہیں یا سیاسی مسائل سے لا علمی کی علامت ہیں۔ بھر حال مخالفین نے معتبر نظریات پیش نہیں کئے، اللہ امام خمینی پر رحمتوں کی بارش کرے۔

 

سویٹزرلینڈ کے مسلمان مفکر احمد ھوبر کا کہنا ہے کہ جب 1978-79 میں نےامام خمینی کے بارے میں خاص طور سے ایرانی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے بہت تعجب ہوا کیوں کہ امام خمینی ہماری صدی کے پہلے مذھبی رھبر ہیں کہ جو ایسا انقلاب لائے ہیں جس میں مذھبی، سیاسی اور ثقافتی تینوں پہلو شامل تھے۔ ہماری صدی کے سارے انقلابی سیاسی اور اجتماعی انقلاب تھے اسی لئےان کے انقلاب مذھبی رنگ و بو سے دور تھے اور آج ان کا طریقہ کار پرانا ہو گیا ہے اور انکے حامی ختم ہو رہے ہیں لیکن امام خمینی رحمت اللہ علیہ پہلے مذھبی رھبر تھے جنھوں نے دین، سیاست اور ثقافت کو ایک جگہ جمع کر دیا اور اسی لئےیہ انقلااب جاری و ساری رہے گا۔

 

امام خمینی کے حیرت انگيز کاموں میں سے ایک جوان نسل سے گہرا رابطہ ہے۔ اس کے باوجود کہ انکی زندگی کا ایک بڑا حصہ گذر چکا تھا لیکن وہ جوان نسل کو میدان میں لائے۔ عام طور پر جوان نسل کی عمر کا یہ تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی عمر کے لوگوں کی باتوں کا اثر لیتے ہیں لیکن ایران کے جوانوں نے انقلاب کے دوران اپنی عمر سے پانچ گنا بڑے آدمی کی بات سنی جبکہ دنیا کے تمام انقلاب کے رھبر انقلاب کے دوران یا تو جوان ہوتے تھے یا ادھیڑ عمرکے۔ اس عظیم کامیابی کا راز میں امام خمینی کی شخصیت میں دیکھتا ہوں۔ وہ نہ صرف انسانی اور اخلاقی اقدار کےحامل تھے بلکہ ان کا ایمان بھی نہایت ہی پختہ اور گہرا تھا بلکہ نہایت بزرگ عالم اور زمانے کے حالات سے آگاہ فقیہ تھے۔

 

وہ سیاست، سماجیات اور اقتصادیات کی وسیع معلومات رکھتے تھے کیونکہ ان علوم کے بغیر ایک مذہبی عالم اس طرح عظیم انقلاب نہیں لاسکتا اور نہ امریکہ اور دیگر طاقتوں کی پٹھو حکومت کو اکھاڑ پیھینک سکتا ہے جو ایران میں برسر اقتدار تھی۔

 

دوسرا اھم نکتہ یہ ہے کہ میں نے امام خمینی کے انقلاب میں اس بات کا احساس کیا ہے کہ اسلامی انقلاب بھرپور طرح سے ایک عوامی انقلاب تھا نہ کہ فرانس کے انقلاب کی طرح جو جان جیک روسو ،ولٹر اور ڈیڈرو جیسے روشنفکر لوگوں کی دین ہے۔ حقیقت میں ایران کے اسلامی انقلاب کو عوامی انقلاب کا نام دینا چاہئے۔

آذربائجان کے ڈیفینس کالج کے ہیڈ اسماعیل ولی اف کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ایک اٹل سچائی ہے کہ امام خمینی اس قدر عظمت و شکوہ کے باجود نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے، میں نے خود انکا گھر دیکھا اور اس کمرے کو بھی نزدیک سے دیکھا جس میں وہ رہتے تھے۔ میں وہاں جانے سے پہلے سوچ رہا تھا کہ بڑے سے علاقے میں جاؤں گا جس کے آگے نئے ماڈل کی گاڑی پارک ہو گی۔ میں نے سوچا کہ امام خمینی عالی شان گھر میں رہتے ہوں گے کیونکہ اسلامی انقلاب کے دشمنوں کے پروپیگینڈوں کے زیر اثر میں یہی خیالات لئےہوئے تھے لیکن جیسے ہی میں وہاں داخل ہوا تو میرے تمام تصورات غلط ثابت ہوگئے کیونکہ اس عظیم شخصیت کی زندگی ایک عام ایرانی کی طرز زندگی کی طرح تھی بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ انھوں نے اپنی زندگی امت اسلامی اور مذھب کو بلندی پر پہنچانے کے لئے وقف کر دی تھی ۔ امام خمینی کی زندگی مجھ سے بھی کہ میں ایک ٹیچر ہوں سادہ ہے۔ وہ ہمیشہ زندہ ہیں ،انکے سایہ میں ایران آنے والا میں، جب میں انکے کمرے سے نکلا تو میں نے کھڑکی کے پیچھے سے انکی تصویر کو چوما اور اپنے دل میں کہا کہ اے میرے امام آپ کی یاد کبھی بھی انسانوں کے دلوں سے محو نہیں ہوسکتی ۔ آپ ہمیشہ زندہ ہیں۔

 

برطانیہ کی مسلمان کونسل کے رکن اور دانشور ڈاکٹر غیاث الدین صدیقی کا کہنا ہے کہ امام خمینی نے نئ دنیا خاص طور پر امت اسلامی پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ بھت عرصہ سے ہمارا کوئی ایسا رھبر نہیں تھا جسکی باتوں کا اثر ہو۔ میرا ماننا ہے کہ یہ امام خمینی کی سب سے اہم خصوصیت تھی، لوگ یہ احساس کرتے تھے کہ امام خمینی نے جو کچھ بھی کیا اس میں اسلام اور مسلمانوں کی عزت وسربلندی کے علاوہ کوئی اور ھدف نہیں تھا۔ یہ امام خمینی کی سب سے بڑی کامیابی اور انکی شخصیت کی خصوصیت تھی۔ اسلامی معاشرے میں یہ ایک معمول بن گیا ہے کہ جب کبھی حالات معمول سے ہٹ جاتے ہیں تو لوگ کہنے لگتے ہیں کہ ہمیں ایک خمینی کی ضرورت ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہےکہ امام خمینی کی ذات اعلی اخلاق اور رہبری کا معیار ہے اور ا گر کسی کو کچھ بننا ہے تو اسے امام خمینی کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔

 

اھل سنت والجماعت کے عالم دین مولوی نواب نقشبندی کا کہنا ہے کہ امام خمینی نے مغرب کی فاسد ثقافت میں ڈوبے ایرانی سماج کو مکمل طرح سے اسلامی سماج میں تبدیل کر دیا۔ تاریخ بشریت کی اس عظیم شخصیت نے مسلمانوں کی بے حرمتی پر سلمان رشدی کے مقابلے میں عالم اسلام کے طولانی سکوت کے بعد ایسا فتوی جاری کیا جس سے تمام بڑی طاقتوں اور اسلام مخالف حکومتوں کی چولیں ہل گئیں۔

 

مولوی کوثر نیازی کا بھی کہنا ہے کہ امام خمینی نے یہ ثابت کر دیا کہ اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے ضروری نہیں ہے کہ تمام اسباب و وسائل مھیا ہوں۔ جو چیز اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے ضروری ہے وہ ایک ذمہ دار اور پابند دین مجتھد کا ہونا ہےجو منافقین اور دنیائے کفر کے مقابلے میں مسلمانوں کے لئے بااثر قیادت کا حامل ہو۔ امام خمینی کی ذات سیاست اور شخصیت کے لحاظ سے اسلامی رھبری کی ایک مثالی بن چکی ہے، نہ ثروت اور نہ ہی مقام و منزلت کوئی بھی انھیں فریب نہ دے سکی۔ انکی روش زندگی صدر اسلام کے قائدین سے موازنہ کرنے کے قابل ہے۔ امام خمینی مربی اور معلم نیز رہبر کی حیثیت سے آج کے اور مستقبل کے مسلمانوں کے رہبرکے عنوان سے ظاہر ہوئے ہیں ۔ بنا کسی مبالغے کے کہا جا سکتا ہے کہ امام خمینی کا وجود مسلمانوں کے لئے برکت، اور انکی رفتار و گفتار مسلمانوں کے لئے وحی کے ابدی سرچشمے کی طرح ہے۔

 

امریکا میں کیلیفورنیا یونیوسٹی کے اسلامی شعبے کے پروفیسر حامد الگار کا کہنا ہے کہ ایک مسلمان جتنا چاہے ایک عظیم معنوی شخصیت کی تعریف و تمجید کرے اس لئے کہ عظمت صرف اور صرف اللہ کے لئے ہے اور اللہ کے علاوہ کسی اور کو ان صفات سے موصوف نہیں کیا جا سکتا، بھتر ہے کہ اس طرح کے لفظوں کے استعمال کے بجائے کہا جائے کہ خدا وند متعال کی عظمت و بزرگی بہت ہی نادر طور پر اس شخص میں جلوہ گر ہوئی ہے اور اس نے اسکو اللہ کی نشانیوں میں ایک بنا دیا۔ امام خمینی اسی طرح کی نشانی تھے۔ جس کو بھی ان کے ساتھ رہنے کی سعادت ملی اور ان سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا وہ بخوبی جانتا ہےکہ گرچہ انہوں نے ملاقات میں ایک لفظ بھی نہ کہا ہو ان کی شخصت کا ملاقات کرنے والے پر گہرا اثر پڑتا تھا۔

 

اس امریکی مسلمان پروفیسر کا ماننا ہے کہ امام خمینی کی دیگر خصوصیات میں وہ سکون تھا جو ان کے وجود میں پایا جاتا تھا۔ وہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام خمینی کے وجود میں جو سکون پایا جاتا تھا، وہ اس فرد سے متعلق تھا جس نے اپنے زاھدانہ طرز عمل سے خود کو عبادت الھی میں غرق کر دیا تھا، لیکن اسی کے ساتھ اس نے سیاست کے ایسے اھم اقدامات انجام دئے جو وسعت اور تاثیر کے لحاظ سے کسی بھی انقلاب میں موجود نہیں تھے اور انکی اسی خصوصیت کی وجہ سے انکی شخصیت میں ایک طرح کا کمال اور ہمہ گيریت پیدا ہوگئي تھی اس طرح سے کہ عابد سے لیکر عام انسان تک، عارف سے لیکر قاضی تک سبھی ان سے متاثر تھے۔ ان کی زندگی عمل صالح اور ایثار کی جلوہ گاہ تھی اور اس دنیا میں اس طرح رہے کہ گویا ہمیشہ عز قدس الھی میں مجذوب ہوں اور اسی لئے دنیا کے مختلف ممالک کے لاکھوں کروڑوں مسلمان ان سے عشق کرتے ہیں اور انکے راستے پر ایمان رکھتے ہیں۔

 

غیرمسلم دانشوروں کی نظر میں امام خمینی

یونان کے آرتھوڈوکس عیسائي مفکراور عالمی تعلقات کی تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر دیمتری کیت سیکس کا کہنا ہے کہ ہم ارتھڈوکس عیسائيوں کے لئے جو مغرب کی شیطانی اقدار کےتسلط کی نفی کرتےہیں امام خمینی مادی اقدار کے بجاے حق کو قائم کرنے کی سمت ایک نمونہ تھے۔ اگر چہ مغرب کی عالمی پروپگينڈا مہم نے ان کو ایک انتھا پسند ظاہر کرنے کی کوشش کی لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان کا وجود تمام قوموں کے لئے مھر و محبت سے بھرا ہوا تھا، جو زمین پر خدا وند متعال کے راستہ پر بڑھ رہی ہیں اور مادیت کی اقدار کو مسترد کرتی ہیں۔

امریکا کے عیسائی محقق رابین ووڈز ورتھ کا کہنا ہے کہ ایران کے رھبر آیت اللہ خمینی کے بارے میں محبت اور بغض سے بھری بہت زیادہ باتیں کی گئي ہیں ۔ ان سے ہونے والی ایک ملاقات کے موقع پر میں نے سوچا کہ اس اھم موقع سے فائدہ اٹھاؤں گا اور جو بھی نتیجہ ہوگا اسے قبول کروں گا۔ مغربی دنیا کا ماننا ہے کہ امام خمینی سختی،غرور اور کٹرشخصیت یےمالک تھے حتی مغرب کے وہ لوگ جن سے میں نے ملاقات کی تھی اور انھوں نے بھی اس سے پہلے امام خمینی کو دیکھا تھا انھوں نے انکی رھبری میں پائی جانے والی جذابیت کو قبول کرنے کے ساتھ یہ کہا کہ انکی شخصیت مسکراہٹ اور گرجوشی سے عاری ہے ۔ اب مجھے خود فیصلہ کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ اس عظیم ہستی کی شخصیت کو دیکھنے کا موقع ملا جو ایران میں چھایا ہوا ہے وہ جس کی سیاست کی وجہ سے ایران میں عظیم تبدیلی رونما ہوئی اور جس نے مغرب کے غصہ کو بڑھا دیا تھا۔ میں جماران حسینہ میں تھا، حسینہ کی بالکنی پر امام خمینی کے نمودار ہوتے ہی تمام حاضرین ایک ساتھ اٹھ کھڑےہوئے اور نعرہ لگا رہے تھے خمینی، خمینی، خمینی۔ میں نے پہلی بار ایک انسان کے لئے اتنا احترام، اتنا جوش و ولولہ دیکھا تھا۔ جب دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہوئے، انرجی کا ایک طوفان امڈ پڑا، انکی کتھی عباء، کالے عمامہ اور سفید داڑھی سے پوری عمارت لرزنے لگی۔ انکی شخصیت اتنی جذاب تھی کی ان کے علاوہ کچھ دکھ ہی نہیں رہا تھا۔ خمینی نور کے ایک ھالے کی طرح حسینہ جماران میں موجود سبھی لوگوں کے وجدان و آگاھی میں سرایت کر گئے تھے انھوں نے ان تمام تصورات کو منھدم کر دیا جو ان سے ملاقات کے پہلے لوگوں کے ذھن میں بنے تھے۔ میں نے پہلے سوچا تھا کہ انکے چہرے کی حرکات و سکنات پر تحقیق کر‎‎ؤں گا لیکن امام خمینی کی توفیقات،انکی پروقار شخصیت اور احاطہ نفسانی نے میرے ذھنی سانچے کو توڑ کر رکھ دیا اور میں خود کو اپنے جذبات کے محاصرے میں گرفتار اور اپنی ذات کو اپنے تجربوں اور ذاتی نظریات سے بہت دور پارہا تھا۔ خمینی ایک طوفان تھے لیکن اس طوفان میں ایک مطلق سکون و آرام پايا جاتا تھا۔ وہ بھت سخت تھے لیکن اسی کے ساتھ پر سکون تھے۔ وہ لوگوں کا جواب دینے والے اور پر تاثیر تھے۔ انکے وجود میں ایک ساکن حقیقت پائی جاتی تھی لیکن اسی ساکن حرکت کی وجہ سے پورا ایک ملک حرکت میں آ گيا۔ وہ عام آدمی نہیں تھے۔ حقیقت میں ان تمام لوگوں سے جن سے میں نے پہلے ملاقات کی تھی،عارفوں،زاھدوں سے لیکر بدھیسٹ راھبوں اور ھندی حکیموں تک کسی کا بھی وجود اتنا بھرپور اور پروقار نہیں تھا۔

 

نئی دھلی کی جواھر لعل نھرو یونیورسٹی کے سربراہ اور ایرانی امور کے ماہر پروفیسر اگوانی کا کہنا ہے کہ آیت اللہ خمینی ہی صرف وہ شخص تھے جنھوں نے 1963 سے اپنی رحلت تک کوئی سازش نہیں کی۔ کوئی بھی شخص جاری صدی میں ایرانی معاشرے میں ایسی بنیادی تبدیلی لانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔ انھوں نے شاہ کے زمانے سے انقلاب کے دوران کا موازںہ کرتے ہوئے کہا کہ شاہ کی حکومت عوام اور انکی حمایت سے دور تھی۔ امام خمینی عوام کی حمایت حاصل کرکے کامیاب ہوئے اور سالوں بعد اسلامی تعلیمات کو عملی طور پر لوگوں کی زندگی میں داخل کیا۔ انکی اھم کامیابیوں میں سے ایک لوگوں میں اعتماد نفس اور احترام کا احیاء تھا۔ وہ اکیلے رھبر تھے جو مذھب اور آیڈیالوجی کی بنیاد پرانقلاب لانے میں کامیاب رھے اور دنیا کا کوئي بھی رہنما اس طرح کی کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے۔

 

یونان کے عیسائي مبلغ ڈاکٹر جارج موستاکیس کا کہنا ہے کہ میں ایک مسیحی ہوں لیکن مجھے آیت اللہ خمینی سے بہت لگاو ہے وہ امت اسلامی کے عظیم مصلح تھے۔ میں اور سارے آزاد ضمیر عیسائي یہ اپنا فریضہ سمجھتے ہیں کہ انکی پیروی کریں۔ آیت اللہ خمینی کی سیاسی اور مذھبی زندگی اور استعمار کے خلاف انکی جدوجہد تاریخ میں جلی حرفوں میں ثبت رہے گي ۔

 

یونان کے اس پادری نے امام خمینی کے وصیت نامہ کا یونانی زبان میں ترجمہ کیا ہے اور اس کے بعد حسینہ جماران سے متعلق اپنے احساسات کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

یہاں پر ایک خوبصورت ترین مسجد ہے جو میں نے اپنی زندگي میں دیھکی ہے۔ اسکی زیبائی اور تقدس مادیات کی وجہ سے نہیں ہے اور اس وجہ سے نہیں ہے کہ سونے چاندی یا شیشوں سے اسے بنایا گیا ہے بلکہ امام خمینی کی عظیم روح کی وجہ سے ہے۔ وہ اپنی بات کو اس دعا پر ختم کرتے ہیں کہ اے قادر مطلق خمینی عظیم کی روح محبوب کو اپنا ابدی سکون عطاکر اور انکو ابراھیم، اسحاق، یعقوب اور تمام انبیاء کرام کے جوار میں جگہ دے۔

Read 3487 times