امام خمینی (رہ) کی ہمہ گیر شخصیت کا ایک پہلو ابھی ایسا بھی ہے جس پر سنجیدہ اور وسیع پیمانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ پہلو ان کی ادبی شخصیت ہے۔ اس پہلو پر توجہ نہ دینے کہ وجہ شاید مراجع عظام اور علمائے اعلام کے بارے میں عوامی سطح پر موجود وہ رائے اور تاثر ہے جو انھیں محض فقہی احکامات کے استنباطی عمل، تدریس و تبلیغِ دین کے مذہبی فریضے اور بعض دینی رسومات کی ادائیگی سے ہٹ کر کسی دوسرے تخلیقی اور ادبی میدان میں آنے کو معیوب یا خلافِ مروت قرار دیتا ہے۔
ایران میں بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں ابھرنے والے مراجع عظام میں سے خصوصی اہمیت و شہرت آیت اللہ سید روح اللہ موسوی المعروف بہ امام خمینی (رہ) کو حاصل ہوئی۔ علمی، نظریاتی، سیاسی اور فقہی میدانوں میں درجہ ارفع کے حامل ہونے اور استعاری سازشوں کی باریک اور خطرناک لہروں کو پہچاننے کی خصوصیات نے انھیں اپنے عہد کی دیگر متعدد علمی و فقہی شخصیات سے ممتاز مقام و منصب عطا کر دیا۔ انقلاب اسلامی ایران ( 1979ء ) سے پہلے ہی خمینی (رہ) کی ہمہ گیر شخصیت نے ایرانی عوام و خواص کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی تھی۔ یہی ہر دلعزیزی اور عوام و خواص کا اعتماد تھا جس نے خمینی (رہ) کو استعمار زدہ حکومتِ وقت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے میں معاونت فراہم کی۔ یوں ایک نئے نظریاتی اور عملی نظام حکومت کی بنیاد ڈالی گئی۔
سید روح اللہ خمینی (رہ) کی علمی، سیاسی، فقہی اور نظریاتی شہرت و وقعت کو تو اب تمام دنیا کے آزاد دینی اور نظریاتی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوچکی ہے لیکن ان کی ہمہ گیر شخصیت کا ایک پہلو ابھی ایسا بھی ہے جس پر سنجیدہ اور وسیع پیمانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ پہلو ان کی ادبی شخصیت ہے۔ اس پہلو پر توجہ نہ دینے کہ وجہ شاید مراجع عظام اور علمائے اعلام کے بارے میں عوامی سطح پر موجود وہ رائے اور تاثر ہے جو انھیں محض فقہی احکامات کے استنباطی عمل، تدریس و تبلیغِ دین کے مذہبی فریضے اور بعض دینی رسومات کی ادائیگی سے ہٹ کر کسی دوسرے تخلیقی اور ادبی میدان میں آنے کو معیوب یا خلافِ مروت قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی (رہ) کی عرفانی غزلیات جب ابتدا میں نشر ہوئیں تو ایران اور بیرونِ ایران عوامی و دینی حلقوں میں حیرت آمیز لہریں اٹھیں۔ جب امام (رہ) کے منظوم آثار (یعنی ایک عالم دین اور مرجع روحانی کے شور و حال و ذوق کی حکایت جو کہ خود احکام شرع اور آئین دین مبین کا محافظ و نگہبان تھا اور تقویٰ و تقدس کا نمونہ تھا) شائع ہوئے تو جمود و خمود کے حصار میں دراڑیں پڑ گئیں اور محض ظاہر پر نگاہ رکھنے والوں کے ذہنوں کو جھٹکا لگا۔
ادبیات ایران کی تاریخ کے حوالے سے دیکھیں تو عالمی سطح پر پذیرائی اور شہرت حاصل کرنے والے فارسی زبان و ادب کے شعراء و ادباء کی کوئی کمی نہیں۔ امام خمینی (رہ) کی ادبی شخصیت اور ان کی عرفانی تخلیقات ایک طرف ایران کی کلاسیکی ادب سے اپنا تعلق برقرار رکھتی ہوئی نظر آتی ہیں تو دوسری طرف عرفانی ادب و شعر کی ایک ایسی دنیا بساتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جس میں محاسنِ شعری اور لوازماتِ شعر نہایت پُر اثر انداز میں روبہ عمل نظر آتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) نے مختلف اصناف میں اپنے دردِ دل اور جوشِ عشق کا اظہار کیا ہے۔ قصیدہ، رباعی، مثنوی، قطعہ، مسمط، ترجیعِ بند اورغزل سبھی اصنافِ ادب کو اپنی وارداتِ قلبی اور احساساتِ پُر ثمر کو بیان کرنے کے لیے اپنایا ہے۔ غزل کی صنف کو سب سے زیادہ بروئے کار لایا ہے۔ اس کی غالباً وجہ یہ ہے کہ صوفیانہ و عرفانی موضوعات و وارداتِ قلب کے بیان کے لیے دیگر اصناف میں سے غزل اپنی زبان اور اسلوب بیان کے اعتبار سے بطور خاص موزوں رہی ہے۔
غزل کا موضوع حسن و عشق ہے، خواہ حسن ازلی ہو یا وقتی و فانی اور عشق حقیقی ہو یا مجازی۔ حسن و عشق کے لوازمات اور قلبی واردات کے بیان کے لیے استعمال ہونے والی لفظیات عرفانی شاعر اور غیر عرفانی شاعر دونوں کے ہاں لفظی لحاظ سے یکساں ہوتی ہیں۔ عرفانی شاعر بھی حسن کے گوناگوں جلوؤں کے بیان کے لیے گُل، بلبل، لب، رخسار، کاکل، زلف جیسی لفظیات استعمال کر لیتا ہے اور غیر صوفی شاعر بھی۔ فرق معنوی سطح پر ظاہر ہوتا ہے۔ صوفی و عارف شاعر کے ہاں رخسار و زلف جیسے الفاط حسنِ حقیقی اور جمالِ ازلی کی پرکشش و حیات آفرین عنایتوں کے لیے بطور استعارہ استعمال ہوتے ہیں جبکہ غیر صوفی اور غیر عارف شاعرِ عشق کے یہاں متذکرہ بالا الفاظ اور اس قبیل کے دیگر لفظ گوشت پوست اور حسین خال و خط کے حامل محبوب کی توصیف، اس کی کشش اور خوبصورتی کے لیے۔ صنفِ غزل کی یہی خوبی ہے کہ اس کی لفظیات میں جہاں ظاہری و مادی موضوعات کو بیان کرنے کی اہلیت ہے وہاں معنوی اور عرفانی مفاہیم و معانی اور صوفیانہ مکاشفات و جذبات کے بیان کی صلاحیت بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔
بادہ و ساغر، جم و سبو، غمزہ و ادا اور بے خودی و سرمستی جیسے الفاظ و تراکیب کا استعمال عشقِ مجازی کے معاملے میں تو عموماً استعمال ہوتے چلے آرہے ہیں اور ابھی بھی ہو رہے ہیں۔ عشق حقیقی کے معاملے میں بھی ان ہی کے استعمال کے بنا کوئی چارہ نہیں۔ غالب کے بقول
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
یہاں ہم امام خمینی (رہ) کی عرفانی غزلیات میں بروئے کار آئے ہوئے بعض فنی امور پر ایک نظر ڈالیں گے اور دیکھیں گے کہ ان کی غزلیات میں مشاہدہ حق، جذباتِ عشقِ حقیقی اور مکاشفات و محسوساتِ عرفانی کے بیان کے لیے کن کن تشبیہات، استعارات اور تلمیحات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ان کی عرفانی غزلیات میں تغزل کا رنگ و آہنگ کس حدتک کار فرما ہے اس کا بھی ایک جائزہ انشاء اللہ بشرطِ زندگی آئندہ کسی وقت تفصیلی طور پر لیا جائے گا۔ اس وقت امام خمینی (رہ) کے فارسی کلام کا ایک اردو منظوم ترجمہ پیش نظر ہے۔ اصل زبان میں موجود شعر کے جذباتی، تاثراتی، احساساتی اور اسلوبیاتی قوت و آہنگ کو بعینہٖ نثری ترجمے کی زبان میں بالعموم اور شعری ترجمے کی صورت میں منتقل کرنا بالخصوص انتہائی مشکل، ریاضت طلب اور دقّت طلب امر ہے۔ امام خمینی (رہ) کے فارسی کلام کا زیر نظر اردو شعری ترجمہ ابن علی واعظ نے کیا ہے اور یہی منظوم ترجمہ یہاں پیش نظر ہے۔ منظوم ترجمے کی بنیاد پر امام خمینی (رہ) کی غزلیات کا فنی جائزہ لینے کا جواز یہ ہے کہ منظوم ترجمے میں مترجم نے یہ کوشش کی ہے کہ امام خمینی (رہ) نے جو تشبیہات اور جو استعارات اور جیسی تلمیحات استعمال کی ہیں انہی کو بعینہ ترجمے میں بھی برقرار رکھا جائے۔
فی الوقت یہاں زیر بحث لائی جانے والی تشبیہات اور تلمیحات کم و بیش اصل متن میں استعمال شدہ الفاظ و عناصر سے بہت زیادہ لفظی و معنوی یکسانیت کی حامل ہیں۔ مثلاً لب، رخسار، میخانہ، خورشید، چشم، ابرو، رُخ، موسیٰ، مجنوں، منصور، قیس وغیرہ بعینہٖ ترجمے میں موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امام خمینی کے کلام میں جو بادہ، ساغر، خال، لب، چشم، ملبوس، میکدہ، عشق، دلبر، مستی اور خرابات اور اسطرح کے کثیر الفاظ استعمال ہوئے ہیں انھیں ان کے لغوی معنی میں نہیں بلکہ عرفانی اصطلاحی معانی میں سمجھنا چاہیے ورنہ کلام امام ناقدری اور ناقدر شناسی کی نظر ہو جائے گا۔
قارئین کی سہولت کے لیے یہاں جو تشبیہات بطور مثال پیش کی جائیں گی ان کے عرفانی اصطلاحی معانی کی مختصر وضاحت بھی کی جائے گی۔ تشبیہات مشترک خصوصیات و صفات کی بنا پر ایک چیز یا وجود کو کسی دوسرے برتر، کامل تر اور اعلیٰ وجود کے مانند قرار دینے کو اصطلاحاً تشبیہ کہتے ہیں۔ مشبہ اور مشبہ بہ میں صفات کا اشتراک کبھی مکمل طور پر ہوتا ہے اور کبھی بلحاظ کمیت و کیمفیت بیشتر لحاظ سے اشتراک ہو۔ عابد علی عابد نے تشبیہ کی دیگر کئی وجوہات کے علاوہ ایک مقصد یہ بھی لکھا ہے:
مشبہ کی کیفیت پڑھنے والے کے ذہن نشین کی جائے یا مشبہ کے حسن یا اس کے اوصاف کی تصویر کشی کی جائے یا مشبہ کی ندرت یا غرابت کا اثبات کیا جائے۔
امام خمینی (رہ) کی غزلیات میں استعمال شدہ تشبیہات اپنے محبوب حقیقی کے جمالیاتی کمالات، اس کے رحم و کرم کی لامتناہیت اور ذرہء خاک (عاشق) پر بے پناہ عنایتوں کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔
اے دوست میرے دل کو اپنا ہدف بنا لے
مژگاں ہیں تیرے ناوک، ابرو ترے کماں ہیں
مژگاں، ابرو اور دوست تینوں الفاظ عرفانی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ ’’ ابرو ‘‘ سے عرفانی شعر و ادب میں الٰہی صفات مراد لی جاتی ہیں جو کہ حاجبِ ذات ہیں اور عالم وجود انہی الٰہی صفات کے باعث قدروقیمت کا حامل بن جاتا ہے۔ ’’ مژہ ‘‘ اس نیزے، پیکان اور تیر کی طرف اشارہ ہے جو محبوب کے کرشمے اور غمزے سے عاشق کے سینے تک پہنچتا ہے۔
اصطلاح میں سالک، عاشق کی طرف سے راہِ وصال میں پیدا شدہ رکاوٹیں مراد ہیں۔ مژگاں کا استعمال محبوب کے حوالے سے ہو تو محبوب حقیقی کے الطاف اور عنایات بھی مراد لی جاتی ہیں۔ دوست سے مراد جمالِ ازلی اور محبوب حقیقی ہیں۔ حسن ازلی کا حسنِ لمحاتی سے موازنہ بنیادی طور پر کوئی بڑا جواز نہیں رکھتا تاہم تخلیق کار بعض اوقات حسن حقیقی کے جلوے کو اپنی پوری شدت و قوت سے ضبط اظہار میں لانے کے لیے حسن لمحاتی وفانی سے اس کا موازنہ کر لیتا ہے۔
اگرچہ یہاں بھی تخلیق کار حسن ازلی کے مقابلے میں حسنِ فانی و لمحاتی کی فرومائیگی اور بے بضاعتی کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کی معنوی تنگ دامنی کا شدید شاکی رہتا ہے۔ بہر حال اظہار تو لفظوں ہی کے ذریعے کرنا ہے لہٰذا موازنے کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔
زیبائی خوباں تری زیبائی کے آگے
دریائے غضبناک پہ بہتا ہوا خس ہے
حسن ازل کے کمال و جمال کو حیطۂ اظہار و بیان میں لانے کے لیے ’’ دریائے غضبناک اور بہتے ہوئے خس ‘‘ کی تشبیہات تخلیق کار کے خارجی مشاہدے کے ساتھ ساتھ عرفانی مکاشفے کا بھی پتا دیتی ہیں۔
میں ہوں وہ عاشق کہ میں ہی جانتا ہوں دردِ عشق
غرق ہوں اور نوح جیسا میرا پشتیباں نہ ہو
’’ عشق ‘‘ حد سے بڑھی ہوئی محبت کو کہتے ہیں۔ اصطلاحِ علمِ عرفان میں شدتِ طلب اور کامل طلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا عشق کہلاتا ہے۔ ’’ عاشق ‘‘ اہلِ عرفان کی اصطلاح میں حق تعالیٰ کے متلاشی کو کہا جاتا ہے جو محبوب حقیقی کے علاوہ کسی اور کی طلب و جستجو نہیں کرتا۔
اپنے آتش و دردِ عشق کی حدت و شدت کا احساس داخلی سطح پر یہاں تخلیق کار کو جس کیفیت سے دوچار کر رہا ہے اس کا اظہار طوفانِ نوح ع کے تناظر میں کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ عاشق طوفانِ عشقِ حقیقی میں بہ رضا و رغبت غوطہ زن ہونے کا شدید آرزو مند ہے۔ ایک طرف طوفان عشق کھڑا ہوا اور دوسری طرف بچانے والا بھی کوئی نہ ہو۔
اس نفسیاتی سپردگی اور عاشقانہ آرزو کا جواز محض شدید عشق حقیقی کے تناظر میں ہی قابل تفہیم ہے۔ تلمیحات اپنے مدرکات و احساسات کو شعری اظہار دینے کے لیے تخلیق کار بعض اوقات تاریخی اور مذہبی واقعات و حوادث کی ذکر بطور تلمیح کرتا ہے۔ اس تکنیک کے ذریعے تخلیق کا معنوی دائرہ بے حد وسیع اور تاثیر کا دائرہ بے کراں ہو جاتا ہے۔ غزلیات امام خمینی (رہ) میں تاریخی اور مذہبی پس منظر رکھنے والی تلمیحات کے علاوہ مادی اور عشق مجازی کے حوالے سے شہرت رکھنے والی تلمیحات بھی استعمال ہوئی ہیں۔
تلمیحات خواہ پس منظر جیسا بھی رکھتی ہوں امام خمینی (رہ) کی غزلیات میں ان کے عرفانی مشاہدات و مکاشفات اور احوال و محسوسات کے بیان کے لیے بروئے کار آئی ہیں۔ حضرت موسیٰ ع، کوہ طور، منصور حلاج، لیلیٰ ومجنوں، شیریں و فرہاد، طوفانِ نوح ع، صاعقۂ طور، سلیمان و بلقیس سبھی تلمیحات اُن کے یہاں عرفانی احوال کا وسیلۂ اظہار بن گئی ہیں۔
مذہبی، تاریخی اور ادبی تلمیحات کو امام خمینی (رہ) نے صوفیانہ اور عرفانی نکات کی تعبیر کے لیے استعمال کیا ہے۔
صاعقہ پھر گرنے والا ہے یہ کہہ دو طور سے
موسیٰ ع عمراں پَئے اطفالِ باطل آگیا
’’ صاعقہ ‘‘ ایک قسم کی آگ کو کہتے ہیں جو ابر سے زمین پر گرتی ہے۔ اصطلاحِ عرفاء میں محبت کا وہ شعلہ مراد ہے جو ایک لمحے میں عاشق و محب کو جلا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ تاریخی اور دینی پس منظر کی حامل تلمیح ایک طرف صاعقے کے گرنے کے اسباب کی طرف ذہنِ قاری کو متوجہ کرتی ہے جو کہ حضرت موسیٰ کی اطفالِ باطل کے تعاقب میں آنا ہے تو دوسری طرف روحِ مذہب کی حفاظت و تبلیغ کے لیے نمائندہ الٰہی کی آخری کوشش کو ظاہر کرتی ہے۔
اہل عرفان کا مدعا و مقصد بھی روحِ مذہب کی حفاظت کرنا اور اسکی ترویج و تبلیغ کرنا ہوتاہے۔ خدائے واحد کو کاملاً ماننا اور پھر اسکے پیغام کی ترویج کرنا عارف اور صوفی کا کُل مقصد ہوتا ہے۔ دنیاوی نعمات اور آسائشیں انھیں بالذات مطلوب نہیں ہوتی ہیں۔ وہ (عارف، صوفی) خدا کو دنیاوی یا اخروی نعمتوں کی خاطر نہیں چاہتا۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو اسکا حقیقی اور بالذات مطلوب یہی نعمتیں ہوں گی اور خدا (دراصل) ان نعمتوں کے حصول کا مقدمہ و وسیلہ۔
مرے دل میں جامِ جم ہے نہ ہی مسندِ سلیمانی
کہ مزاج فروانہ مجھے حق سے مل گیا ہے
جامِ جم اور مسندِ سلیمان دنیاوی جاہ و حشمت اور مقام و منصب و سلطنت کے لیے بطور تلمیح استعمال کیے جاتے ہیں یہاں بھی اسی مطلب کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔خسروانہ مزاج سے یہاں مراد قلندرانہ اور خواہشاتِ دنیاوی سے پاک و مبرا مزاج ہے۔ صوفی اور عارف چونکہ مزاجاً وقفِ حق ہوا کرتے ہیں۔ انھیں ہر اس چیز سے بے رغبتی رہتی ہے جو راہِ وصال اور کُوئے حق تک پہنچنے میں رکاوٹ بن سکتی ہو۔ تجلئ حق اور دیدار یار کے حوالے سے موسیٰ ع اور کوہ طور کی تلمیح سے امام خمینی نے عرفانی نکات کے اخذ و بیان کا کام لیا ہے۔
معرفتِ حق کے بغیر دیدارِ حق ممکن نہیں۔ معرفتِ حق کے لیے اپنا باطن اُن تمام خیالات و خواہشات سے پاک و مبرا کرنا لازم ہے جو اپنی تجریدی اور تجسیمی صورتوں میں نگار خانۂ قلب کو آلودہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ریاضت کی شدید ضرورت پڑتی ہے۔ بصورت دیگر دیدار یار جلوے کے باوجود نہیں ہوسکے گا۔
شاخِ شجر پہ کیسے ہو موسیٰ ع کو دیدِ رُخ
وہ نخلِ معرفت ہی اگر با ثمر نہ ہو
منصور حلاج تیسری صدی کے معروف صوفی اور عارف تھے۔ عالمِ جذب و کیف میں ’’ انا الحق ‘‘ کا نعرہ لگانے کی بنا پر مقتدر عباسی کے دور حکومت میں پھانسی دی گئی۔ فقہِ ظاہری کی بنیاد پر ان پر کافر و مرتد ہونے اور خدائی کا دعویٰ کرنے کا الزام لگا اور زیر عتاب آئے۔ عرفانی اور صوفیانہ مدارج و عوالم کے حوالے سے منصور نہ صرف مرتد و کافر نہیں بلکہ بقول استاد شہید مطہری:
عرفا نے منصور کو ’’ شہید ‘‘ کا لقب دیا ہے۔
امام خمینی (رہ) نے اپنے عرفانی جذب و کیف اور بے خودی و مستی کی بات منصور حلاج کے حوالے ہی سے کی ہے۔ مدارجِ عرفان کے آخری مقامات تک رسائی کے بعد اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہی سے معلوم ہوتے ہیں اور بقول غالب
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیران ہوں مشاہدہ ہے کس حساب میں
یہی وجہ ہے کہ منصور حلاج نے اپنے آپ کو ’’ حق ‘‘ کہہ دیا۔ اس نعرے کے عارفانہ احوال و مقامات سے نامانوس فقہاء نے ظاہری حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے فتوائے قتل صادر کیا۔ امام خمینی (رہ) بھی سرِ دار کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نظر آتے ہیں۔
کوس انا الحق کا بجایا ہے کہ مثلِ منصور
اتنا بے خود ہوں خریدارِ سرِ دار ہوں میں
یوسف و زلیخا، لیلیٰ و مجنوں، شیریں و فرہاد، سلیمان و بلقیس جیسی تاریخی و ادبی تلمیحات کا استعمال صوفیانہ اور عارفانہ انداز میں امام خمینی نے جابجا کر لیا ہے۔ بطور مثال چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
دلِ یوسف ہو جو زندانِ زلیخا میں اسیر
دسترس سے مہ و خورشید کو بیروں جانے
رنگ شیرینئ شیریں میں ہے بو بھی خسرو
تُو جو فرہاد کا حالِ دل گلگوں جانے
مجنوں اسیرِ عشق تھا میری طرح نہ تھا
اے کاش مجھ سے کوئی نہ ہو مبتلائے دوست
شاعری ہو یا نثر، منطق ہو یا کلام، فقہ ہو یا فلسفہ، تمام علوم و فنون کی غایتوں کی غایت حصولِ حقیقت، ادراکِ حسنِ کامل، تکاملِ انسانیت اور ترقئ فکر و روح ہے۔ ان اعلیٰ عقلی اہداف کے حصول کے لیے ہر کارآمد علم و فن کو اپنی اپنی حدود اور وسعت کے مطابق بروئے کار لا کر حقیقتِ ازلی تک رسائی کا سفر طے کرنا ایک عقلی ضرورت ہے۔ ادب و شعر بھی اسی سفر میں معاونت فراہم کرنے کا ایک مسرت بخش ذریعہ ہے۔
صوفیائے کرام اور عرفائے عظام نے اظہار حق و حقیقتِ اور بیانِ حسن کے لیے شعر و غزل کا راستہ اختیار کیا ہے تو اسکی ایک وجہ بھی یہی نکتہ ہے۔ تنہا منطق ہی ہمیں ہمہ گیر یا ازلی ہستی کا ادراک کرنے کے قابل نہیں بنا سکتی۔ یہ کام تخلیقی تخیل کا ہے جسے صوفیا نے آرٹسٹوں کی طرح بصیرتوں کا ماخذ قرار دیا ہے۔ غزلیاتِ امام خمینی (رہ) کا مزید کئی حوالوں سے تفصیلی طور پر فنی اور فکری مطالعہ کرنے کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس مرد عارف کے شعری سرمایے میں تشنہ گانِ فکر و فن اور علم و ادب کی دلچسپی کا بہت سا مواد موجود ہے۔ ان کے تصورات عشق، اسالیب طنز، موضوعات طنز، رنگِ تغزل اور جوشِ شعری کا مطالعہ کرنا بالیقین کئی حوالوں سے ازحد مفید، معلومات افزا اور باعثِ لطف و حظ ثابت ہوگا۔
تحریر : قادری