تمام انبیاء علیہم السلام امت کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوئے اور سب کا یہی دغدغہ تھا کہ سماج اور معاشرے کی اصلاح کی خاطر قربان ہو جائیں۔ انسان جتنا بڑا ہو دنیا میں اس کی قیمت اتنی بڑی ہوتی ہے۔ جب سماج اور معاشرے کی عزت و آبرو خاک میں مل رہی ہو تو اسی بڑے آدمی کو سماج کے لیے فدا ہونا چاہیے۔ سید الشہدا (س) نے اسی پیمانے کو مدنظر رکھا اور خود اور اپنے اصحاب و انصار کو اسی راہ میں قربان کر دیا کہ انسان کو سماج کے لیے قربان ہونا چاہیے تاکہ سماج کی اصلاح ہو۔ " لیقوم الناس بالقسط" تاکہ عدالت لوگوں اور سماج کے درمیان تحقق پائے۔
امام حسین (ع) کی شہادت اس لیے تھی کہ عدل الٰہی قائم ہو اور خانہ خدا محفوظ رہے۔
سید الشہدا (ع) کی زندگی ، حضرت صاحب عصر (ع) کی زندگی، تمام انبیاء کی زندگیاں، آدم سے لے کر خاتم تک اسی لیے تھیں کہ ظلم و جور کا مقابلہ کریں اور عادل حکومت قائم کریں۔
سید الشہداء (ع) نے روز اول قیام اسی لیے کیا تھا کہ سماج میں عدالت قائم ہو آپ نے فرمایا: دیکھ نہیں رہے ہو کہ امر بالمعروف پر عمل نہیں ہو رہا ہے نہی عن المنکر پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ مقصد یہی تھا کہ نیکیوں کو رائج کریں اور منکرات سے روکیں۔ تمام انحرافات منکرات میں سے ہیں، سوائے خط مستقیم توحید کے جو کچھ بھی ہے وہ منکرات میں سے ہے یہ سب ختم ہونا چاہیے۔ ہم جو سید الشہدا (ع) کے تابع ہیں ہمیں دیکھنا چاہیے کہ آپ کی زندگی کیسی تھی۔ آپ کا قیام نہی عن المنکر کی غرض سے تھا کہ ہر طرح کا منکر ختم ہونا چاہیے۔ منجملہ حکومت ظلم و جور، حکومت ظلم و جور کو ختم ہونا چاہیے۔
سید الشہداء (ع) نے اپنی تمام عمر، اپنی پوری زندگی منکرات کو ختم کرنے اور حکومت ظلم و جور کو روکنے، ان مفاسد کو جو مفسد حکومتوں نے دنیا میں پھیلائے ہوئے تھے کو ختم کرنے میں صرف کر دی۔ آپ نے اپنی پوری عمر صرف کر دی کہ ظالم حکومتیں نابود ہو جائیں اور نیکیاں سماج میں رائج ہو جائیں منکرات کا قلع قمع ہو جائے۔
سید الشہدا امام حسین (ع) نے اپنا سب کچھ اپنی جان، بچے، گھر بار، سب کچھ اسی راہ میں لٹا دیا حالانکہ آپ جانتےتھے کہ ماجرا کیا ہوگا جو شخص آپ کی فرمایشات سے آگاہ ہے جب آپ مدینہ سے نکلے، مکہ آئے اور پھر مکہ سے نکلے، وہ دیکھتا ہے کہ آپ اس بات کی طرف متوجہ تھے کہ کیا ہونے والا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ آگئے یہ سوچ کر کہ چلو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ بلکہ آپ آئے تھے حکومت کی لگام اپنے ہاتھ میں لیں۔ اور حقیقت میں اسی کام کے لیے آئے تھے اور یہ قابل فخر ہے ( انبیاء اور اوصیاء کی بعثت کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیں) اور وہ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ امام حسین (ع) حکومت کے لیے نہیں آئے تھے غلط ہے۔ آپ حکومت ہی کرنے آئے تھے اس لیے کہ حکومت کو سید الشھداء جیسوں کے پاس ہی ہونا چاہیے۔ سید الشھداء (ع) کے شیعوں کے پاس ہونا چاہیے۔
سید الشھداء نے دیکھا کہ اسلام ختم ہو رہا ہے۔ سیدالشھداء کا قیام یزید کے مقابلہ میں، امیر المومنین کا قیام معاویہ کے مقابلہ میں اور تمام انبیاء کا قیام اپنے ادوار کے کفار اور بادشاہوں کے مقابلہ میں، ان سب کا مقصد یہ نہیں ہے کہ مملکت حاصل کریں بلکہ الہی نظام قائم کریں، دنیا ان کے بغیر ھیچ ہے۔ ان کا مقصد فتح ممالک نہیں تھا ان کا مقصد قیام دین الہی تھا۔
جو چیز سید الشہداء کو کھینچ کرلائی وہاں وہ اسلام تھا، وہ عقیدہ تھا جو آپ کو وہاں لے کر آیا۔ اور سب کچھ دے دیا اپنے عقیدہ کی حفاظت میں، اپنے ایمان کی حفاظت میں۔ اور شہید ہو گئے اور سامنے والے کو شکست دے دی۔
حضرت سید الشہداء (ع) نے قیام کیا یزید کے مقابلہ میں اس لیے نہیں کہ جانتے نہیں تھے کہ یزید کو حکومت کے عہدہ سے ہٹا سکیں گے یا نہیں؟ آپ قضیے کی واقعیت کو جانتے تھے آپ آگاہ تھے اس پات پر۔ اس کے باوجود آپنے ظالم حکومت کے خلاف قیام کیا اگر چہ قتل ہو جائیں۔ لیکن قیام کیا اور قتل ہو گئے۔
آپ اسلام اور مسلمین کے مستقبل کی فکر میں تھے اس وجہ سے کہ اسلام کا مستقبل روشن ہو۔ جہاد اور آپ کی فداکاریاں لوگوں میں منتشر ہوں سماج میں اسلام کی سیاست قائم ہو اس مقصد کے لیے آپنے جانیں دیں۔
سید الشہداء (ع) نے اپنا وظیفہ دیکھا کہ اس حاکم کے ساتھ مقابلہ کریں اور قتل ہو جائیں تاکہ یہ حالات کا تختہ الٹ دیں تاکہ اس حاکم کو اپنی فداکاری اور جانثاری کے ساتھ رسوا کریں۔ آپ نے دیکھا کہ وہ حکومت جائر اور ظالم ہے جس نے اسلامی ممالک پر قبضہ کر رکھا ہے آپ نے اپنی الٰہی ذمہ داری کو سمجھ لیا تھا کہ ایک تحریک ایجاد کریں۔ اس کی مخالفت میں چل پڑیں اور مخالفت کا اظہار کریں حالانکہ معلوم تھا کہ اتنی مختصر تعداد میں اتنے بڑتے لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن ذمہ داری یہی تھی۔
سید الشھداء (ع) کی یہ ذمہ داری تھی قیام کریں اور اپنا خون دیں تاکہ اس قوم کی اصلاح کریں تاکہ یزیدیت کے پرچم کو سرنگوں کریں اور ایسا ہی کیا۔
اپنا خون دے دیا اپنی اولاد کا خون دے دیا اور اپنا سب کچھ دے دیا اسلام کی راہ میں۔
امام حسین (ع) کے پاس کوئی زیادہ فوجی لشکر نہیں تھا لیکن قیام کیا۔ آپ بھی اگر نعوذ باللہ سست ہوتے بیٹھ جاتے اور کہہ دیتے میری شرعی ذمہ داری نہیں ہے کہ میں قیام کروں۔ بنی امیہ بہت خوش ہو جاتے کہ حسین(ع) بیٹھ گئے ہیں اور کچھ نہیں بولتے اور وہ بھی اپنی مراد کے گدھے پر سوار رہیں۔ لیکن آپ نے مسلم بن عقیل کو بھیجا تا کہ لوگوں کو دعوت دیں کہ اسلامی حکومت تشکیل دینے کے لیے بیعت کریں اور اس فاسد حکومت کو نابود کر دیں۔ اگر آپ بھی مدینہ میں اپنی جگہ بیٹھے رہتے اور وہ کمبخت آپ سے بیعت لینے آتے اور نعوذ باللہ کہہ دیتے : بہت اچھا۔ وہ بہت خوش ہو جاتے حتی آپ کے ہاتھ بھی چومتے۔
سید الشھداء نے اسلام کے لیے اپنے آپ کو موت کے منہ میں دیا۔
سید الشھداء نے اپنے تمام اصحاب کو اپنے جوانوں کو اپنے تمام مال و منال کو جو کچھ بھی تھا اسے راہ خدا میں دے دیا اور اسلام کی حفاظت کے لیے ظلم کی مخالفت کے لیے قیام کیا اس دور کے سپر پاور طاقتوں کے ساتھ مخالفت آج کے سپر پاور طاقتوں سے زیادہ سخت تھی۔
حضرت سید الشہداء کو قتل کر دیا لیکن قتل ہونا خدا کی اطاعت تھی۔ خدا کے لیے اور اس کی راہ میں شہادت تھی۔ سب کچھ خدا کے لیے تھا اس لیے کوئی شکست نہیں ہوئی، بلکہ اطاعت خدا تھی۔
ماخذ: قيام عاشورا در كلام و پيام امام خمينى، (تبيان، آثار موضوعى امام، دفتر سوم) ناشر نوشته تنظيم و نشر آثار امام خمينى چاپ دوم، 1373
ترجمہ: افتخار علی