بیس جمادی الثانی 1320 ہجری قمری مطابق 24ستمبر 1902 عیسوی کو ایران کے صوبہ مرکزی کے شہرخمین میں بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طیب وطاہر نسل کے خاندان میں آپ ہی کے یوم ولادت با سعادت پر روح اللہ الموسوی الخمینی کی پیدائش ہوئي۔ وہ اپنے آباؤ اجداد کے اخلاق حسنہ کے وارث تھے جنہوں نے نسل درنسل لوگوں کی ہدایت ورہنمائی اورمعارف الہی کے حصول کے لئے خود کو وقف کررکھا تھا۔ یہ وہ گھرانہ تھا جو اعلی علمی مفاہیم سے مکمل طور پر آشنا تھا ۔امام خمینی کے پدربزرگوار آیت اللہ سید مصطفی مرحوم جو آیت اللہ العظمی میرزای شیرازی کے ہم عصر تھے نجف اشرف میں اسلامی علوم کے اعلی مدارج طے کرنے کے بعد درجہ اجتہاد پر فائزہوئے اور پھر ایران واپس آگئے اور شہر خمین میں تبلیغ و ہدایت کے فرائض انجام دینے لگے۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ولادت کو ابھی پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں گذرا تھا کہ حکومت وقت کے ایجنٹوں نے ان کے والد بزرگوار کی ندائے حق کا جواب بندوق کی گولیوں سے دیا اور انھیں شہید کردیا ۔
اس طرح حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ انتہائی کمسنی کے عالم سے ہی رنج یتیمی سے آشنا اور مفہوم شہادت سے مانوس ہوگئے ۔ انھوں نے اپنا بچپن اور لڑکپن اپنی والدہ محترمہ ہاجرہ خاتون کے دامن شفقت میں گذارا ۔ محترمہ ہاجرہ خاتون خود بھی اہل علم وتقوی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور صاحب زبدالتصانیف آیت اللہ خوانساری کی اولادوں میں سے تھیں۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی پھوپھی محترمہ صاحبہ خانم کے دامن تربیت میں بھی پرورش پائی جو ایک دلیر اور باتقوی خاتون تھیں لیکن ابھی آپ پندرہ سال کے تھے کہ آپ ان دونوں شفیق اور مہربان ہستیوں کے سایہ عطوفت سے محروم ہوگئے۔
قم کی جانب سفر
جب تیرہ سو چالیس ہجری قمری کو آیت اللہ العظمی شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے قم کی جانب ہجرت کی اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ بھی قم کی جانب روانہ ہوگئے اور آپ نے بڑی ہی تیزی کے ساتھ دینی اور حوزوی علوم حاصل کئے اور درجہ اجتہاد پر فائزہوئے۔ اس زمانے میں آپ نے حوزوی دروس جن اساتذہ سے حاصل کئے ان میں مرحوم آقامیرزا محمدعلی ادیب تہرانی، مرحوم آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری، مرحوم آیت اللہ سید علی یثربی کاشانی اور زعیم حوزہ علمیہ قم آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی رضوان اللہ علیہم کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ آیت اللہ العظمی حائری یزدی کی رحلت کے بعد حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے دیگر مجتہدین کے ہمراہ کوشش کی کہ آیت اللہ العظمی بروجردی حوزہ علمیہ قم کی زعامت قبول کرلیں اور ان کی یہ کوشش کامیاب بھی ہوئی اور آیت اللہ العظمی بروجردی حوزہ علمیہ قم کے زعیم کی حیثیت سے بروجرد سے قم تشریف لے آئے۔ اس وقت تک حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو حوزہ علمیہ میں فقہ واصول اورفلسفہ وعرفان میں ایک اعلی سطح کے مدرس اور مجتہد کی حیثيت سے لوگ پہچاننے لگے تھے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے برسہا برس حوزہ علمیہ قم کے مختلف مراکز میں جن میں مدرسہ فیضیہ ،مسجد اعظم، مسجد محمدیہ، مدرسہ حاج ملاصادق اورمسجد سلماسی شامل ہیں فقہ واصول فلسفہ وعرفان اور اخلاق کے درس دیتے رہے۔ عراق میں قیام کے دوران حوزہ علمیہ نجف اشرف میں بھی چودہ برس تک مسجدشیخ اعظم انصاری میں علوم اہل بیت کے پیاسوں کو سیراب کرتے رہے ۔ آپ نے نجف اشرف میں ہی پہلی بار اسلامی حکومت کا نظریہ اور اصول پیش کئے جو آپ کے ولایت فقیہ کے سلسلے میں دئے جانے والے دروس کے دوران انتہائي مدلل اندازمیں سامنے آئے۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ جہاد کے محاذ پر
اللہ کی راہ میں جہاد کا جذبہ آپ کے اندر بدرجہ اتم موجود تھا۔ آپ نے ظلم وستم کے خلاف جدوجہد لڑکپن سے ہی شروع کردی اور اس جدوجہد کو آپ کی علمی اورمعنوی ترقی کےساتھ ساتھ عروج حاصل ہوتا رہا اور پھر ایران کے سماجی اور اسلامی دنیاکے سیاسی حالات نے اس جذبہ کو اور بھی تقویت بخشی۔ سن 62 ۔ 1961 میں صوبائي اور ضلعی کونسلوں کی تشکیل کے دوران عوام اور علماء کی تحریک میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ اس طرح علماء اور عوام کی ملک گیرتحریک ایرانی عوام کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغازثابت ہوئی ۔ پندرہ خرداد کوشروع ہونے والی یہ تحریک دو اہم خصوصیات اپنے اندر لے کر اٹھی۔ ایک حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی متفق علیہ قیادت اور دوسرے اس تحریک کا اسلامی تشخص، چنانچہ آگے چل کر اس تحریک کو ایران کے اسلامی انقلاب سے جانا اور پہچانا جانے لگا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ جو پہلی عالمی جنگ کے موقع پر صرف بارہ سال کے تھے اپنی یادوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
مجھے دونوں ہی عالمی جنگيں یاد ہیں۔ میں چھوٹاتھا مگر مکتب جاتا تھا اور سابق سویت یونین کے فوجیوں کو خمین میں آتے جاتے دیکھتا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ہمیں حملوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ ایک مقام پر مرکزی حکوت سے وابستہ بعض خوانین(زمینداروں) اور راہزنوں کا نام بھی لیتے ہيں جو لوگوں کا مال واسباب لوٹتے اور حتی ان کی ناموس پر بھی حملے کرتے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں تو لڑکپن ہی سے جنگ کی حالت میں تھا۔ ہم زلقی اور رجب علی جیسے خوانین (زمینداروں ) کے ظلم ستم کا شکا ر تھے ہمارے پاس بھی بندوقیں تھیں اور میں شاید تازہ سن بلوغ کو پہنچا تھا اور کمسن تھا۔ ہمارے علاقے میں مورچے بنائے گئے تھے اور یہ لوگ (خوانین) حملہ کرکے لوٹ مار کرنا چاہتے تھے ، اس وقت میں بھی وہاں آتا جاتا تھا۔تین اسفند 1299 ہجری شمسی (1921 ) کو رضاخان کی بغاوت نے جو ناقابل انکار شواہد وثبوت اورتاریخی اسناد کی بنیاد پر برطانیہ کی حمایت سے انجام پائی اورجس کی منصوبہ بندی بھی خود برطانیہ نےکی تھی اگرچہ سلطنت قاجاریہ کاخاتمہ کر دیا اور کسی حدتک زمینداروں کی طوائف الملوکی ختم ہوگئی لیکن اس کے عوض ایک آمر شہنشاہ تخت نشین ہوا اور اس کے زیرسایہ ایران کی مظلوم قوم کی تقدیر پر ہزار خاندان مسلط ہوگۓ اورپہلوی خاندان کی آل اولاد نے زمینداروں اور راہزنوں کی جگہ لےلی۔ ان حالات میں علماء نے جن پر آئيينی انقلاب کے واقعات کے بعد انگریزوں کی آلہ کار حکومت کی یلغار تھی اور دوسری طرف وه مغرب زدہ اور نام نہاد روشن خیال افراد کا نشانہ بن رہے تھے اسلام کے دفاع اور اپنی بقا کے لئے کوششیں شروع کردیں ۔
آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبدالکریم حائری نے اس وقت قم کے علما کی دعوت پر اراک سے قم کے لئے ہجرت کی اور اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے جو اپنی غیرمعمولی صلاحتیوں کی بدولت خمین اور اراک کے حوزہ علمیہ میں مقدماتی اورسطوح (درس خارج سے پہلے کے دروس) کوپایہ تکمیل تک پہنچا چکے تھے قم کے لئے ہجرت کی اورعملی طورپر قم کے نئےدینی مرکزکی تقویت کے لئے بھرپورطریقے سے کوشش کرنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا شمار قم کی چند گنی چنی علمی شخصیات میں ہونے لگا اور آپ فقہ واصول اور فلسفہ وعرفان کے ایک جید عالم کی حیثیت سے معروف ہوگئے ۔
10بہمن 1315 ہجری شمسی ( 30 جنوری 1937 ) کو آیت اللہ العظمی حایری کی رحلت کے بعد حوزہ علمیہ قم کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔ چنانچہ حوزہ علمیہ قم کے بہی خواہ علما نے فورا چارہ اندیشی شروع کردی ۔ اس دوران آٹھ برسوں تک آیت اللہ العظمی حجت، آیت اللہ العظمی سید صدرالدین صدر اور آیت اللہ العظمی سید محمد تقی خوانساری رضوان اللہ علیہم نے اس دینی مرکز کی سر پرستی فرمائی۔ اس دوران بالخصوص رضاخان کی حکومت کے خاتمے کے بعد مرجعیت عظمی یعنی ایک بزرگ مرجع کے سامنے آنے کا ماحول سازگارہوگيا۔ آیت اللہ العظمی بروجردی ایک عظیم علمی شخصیت تھے جو مرحوم آیت اللہ العظمی حایری کے مناسب جانشین بن سکتے تھے اور حوزہ علمیہ قم کی زعامت سنبھال سکتے تھے ۔ چنانچہ یہ بات آیت اللہ حایری کے شاگردوں اورخاص طورپر حضرت امام خمینی رحمت اللہ کی طرف سے آیت اللہ بروجردی کے سامنے رکھی گئي اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے آیت اللہ بروجردی کو بروجرد سے قم تشریف لانے اور حوزہ کی زعامت قبول کرنے کے لئے راضی کرنے کی بھرپورکوشش کی۔ اس دوران حضرت امام خمینی رحمت اللہ نہایت باریک بینی کے ساتھ معاشرے اور حوزہ علمیہ پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے اور حالات حاضرہ کے بارے میں کتابوں اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہی تہران رفت و آمد اور آيت اللہ مدرس جیسی عظیم علمی اور سیاسی شخیصتوں سے کسب فیض کیاکرتے تھے۔ چنانچہ آپ یہ سمجھ گئے تھے آئيينی انقلاب اور خاص طورپر رضاخان کے برسراقتدار آنے کے بعد کی ذلت آمیزصورت حال سے نجات کا واحد راستہ حوزہ علمیہ کی بیداری اور علما کے ساتھ عوام کا معنوی رابطہ ہے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے اپنے مقدس اور الہی مشن کی خاطر 1328 ہجری شمسی ( 1950 ۔ 1949 ) میں آیت اللہ مرتضي حایری کے تعاون سے حوزہ علمیہ کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاح کا لائحہ عمل تیار کرکے آیت اللہ العظمی بروجردی کو پیش کیا۔ اس اقدام کا حضرت امام خمینی رحمت اللہ کے شاگردوں اور بیدار طلبہ نے بھرپورخیرمقدم کیا اور اس کی زبردست حمایت کی ۔ 16 مہر 1341( 8 اکتوبر 1962 ) کو صوبائی ضلعی کونسلوں کا بل امیر اسداللہ کی کابینہ میں پاس ہوا جس کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدوار کے مسلمان ہونے، قرآن کریم کے ذریعہ حلف اٹھانے، رائےدہندگان اور خود امیدوار کے لئے مرد ہونے کی شرط ختم کردی گئ البتہ خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی کچھ دیگر مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لئے تھی۔ پہلی دوشرطوں کو ختم کرنے کا مقصد بہائی عناصر کوملک کے معاملات میں مکمل طورپر دخیل کرنے کو قانونی شکل دینا تھا کیونکہ شاہ کے لئے امریکہ کی حمایت کی شرط یہ تھی کہ ایران اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے اور ایران کے تینوں اہم اداروں یعنی مجریہ، مقننہ اورعدلیہ میں سامراجی مسلک بہائيت کے پیروکاروں کی موجودگي اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات میں فروغ کویقینی بناسکتی تھی۔ البتہ حکومت نے اس بل کے تعلق سےحالات کا اندازہ لگانے میں سخت غلطی کی چنانچہ اس بل کی منظوری کی خبر شائع ہوتےہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نےقم اورتہران کے بزرگ علماء سے صلاح ومشورہ کرنے کے بعد بھرپور احتجاج کیا ۔ شاہی حکومت کے عزائم سے پردہ ہٹانے اوراس حساس صورت حال میں علما اور حوزہ علمیہ کی خطیر ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بہت ہی اہم کرداراداکیا ۔ شاہ اور وزیراعظم اسداللہ علم کے نام علما اور حوزہ علمیہ کے خطوط اور کھلے مراسلوں نے پورے ملک میں شاہی حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاجی لہردوڑادی۔ شاہ اور وزیراعظم کے نام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ٹیلی گراموں کا لب و لہجہ بہت ہی تند اور سخت تھا ۔ ایک ٹیلی گرام میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ فرماتےہیں کہ میں تمہیں ایک بار پھر نصیحت کرتاہوں کہ خداوند متعال کی اطاعت اور بنیادی آئيين کی پیروی کرو اور قرآن، علما قوم اور مسلمان زعما کے احکام کی خلاف ورزی اور بنیادی آئيين سے سرپیچی کے برے انجام سے ڈرو اور جان بوجھ کر اور بلاسبب ملک کو خطرے میں مت ڈالو بصورت ديگر علما اسلام تمھارے بارے میں اپنے نظریے بیان کرنے سے گریزنہیں کریں گے ۔
بہرحال صوبائی اورضلعی کونسلوں کا قضیہ ایرانی قوم کے لئے ایک اچھا تجربہ تھا خاص طورپر اس لئے کہ اس واقعے میں ایرانی قوم نے ایک ایسی شخصیت کو بھی پہچان لیا جو امت مسلمہ کی قیادت کے لئے ہرجہت سے مناسب تھی ۔
صوبائي اورضلعی کونسلوں کی تشکیل میں ناکامی کے باوجود شاہ پر امریکہ کے مجوزہ نام نہاد اصلاحی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے واشنگٹن کا دباؤ جاری رہا۔ شاہ نے دی ماہ 1341 ہجری شمسی (1963 ۔1962 ) کو انقلاب سفید کے نام پر چھ نکاتی پروگرام کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں ریفرنڈم کرائے جانے کی خواہش ظاہر کی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ ایک بارپھر میدان میں آگئے اور اس سلسلے میں حکمت عملی تیار کرنے کے لئے اور علما قم کا اجلاس بلایا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تجویز پر شاہ کے اقدامات کے خلاف بطور احتجاج عید نوروز نہ منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس سلسلے میں جو اعلامیہ جاری کیا اس میں شاہ کے انقلاب سفید کو انقلاب سیاہ سے تعبیر کیا گیا اور کہاگیا کہ شاہ کے یہ سارے اقدامات امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کی تکمیل کے لئے ہیں ۔
شاہ نے امریکہ کو یہ اطمینان دلا رکھا تھا کہ ایرانی عوام اس پروگرام کے حق میں ہیں ۔ شاہ کے خلاف علما کا احتجاج اس کے لئے کافی مہنگا ثابت ہورہاتھا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ شاہ کی پرواہ کئے بغیر کھلے عام شاہ کو اسرائیل کا اتحادی قراردیتے تھے اوراس کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے لوگوں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتے تھے۔ آپ نے بارہ فروردین 1342 (1 اپریل 1963 ) کو اپنے ایک خطاب میں علما قم ونجف اوردیگراسلامی ملکوں کے علما کی طرف سے شاہ کے ظالمانہ اقدامات پر اختیارکی گئی خاموشی پر کڑی تنقید کی اور فرمایاکہ آج خاموشی کامطلب ظالم وجابرحکومت کا ساتھ دیناہے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس کے اگلے دن یعنی 13 فروردین 1342 (2 اپریل 1963) اپنا مشہور و معروف اعلامیہ جاری کیا جس کاعنوان تھا شاہ سے دوستی یعنی تباہی وبربادی میں تعاون ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے کلام میں حیرت انگیز تاثیر اور مخاطبین پر آپ کی باتوں کے گہرے اثر کا راز صحیح فکر، مضبوط نظریئے اور عوام کے ساتھ صداقت میں تلاش کرناچاہئے۔ چنانچہ لوگ بھی آپ کے فرمان پر ہمہ وقت اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے ۔1342 ہجری شمسی (1964 ۔1963 ) کانیا سال عیدنوروزکے بائيکاٹ سے شروع ہوا اور مدرسہ فیضیہ کے مظلوم طلبہ کے خون سے رنگین ہو گیا۔ شاہ، امریکہ کی مرضی کےاصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے پر مصرتھا اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اس سازش سے لوگوں کو آگاہ کرنے اورعوام کو امریکہ کی مداخلت اور شاہ کی خیانت کےمقابلے میں ڈٹ جانے پر راضی کر رہے تھے ۔ چودہ فروردین 1342(3 اپریل 1963 ) آیت اللہ العظمی حکیم نے نجف اشرف سے ایران کے علما کے نام اپنے ٹیلی گرام میں فرمایاکہ سب کے سب ایک ساتھ نجف اشرف کی طرف ہجرت کریں۔ یہ تجویزعلما کی جان کی حفاظت اور حوزہ کے تقدس کو بچانے کے لئے پیش کی گئي تھی لیکن حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آیت اللہ العظمی حکیم کے ٹیلی گرام کاجواب ارسال کردیا جس میں کہاگياتھا کہ علما کا ایک ساتھ نجف چلاجانا اور حوزہ (قم کے دینی مرکز) کو خالی چھوڑدینا مناسب نہیں ہے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے 12اردیبہشت1342 (1922 ۔1921 ) کو شہدائے فیضیہ کے چہلم کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں غاصب اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک کا ساتھ دینے کے لئے علما اور ایرانی عوام سے اپیل کی اور شاہ اوراسرائیل کے درمیان ہوئے معاہدوں کی مذمت کی.
پندرہ خرداد(4جون) کی تحریک
1342 ہجری قمری (1922 ۔1921 ) کا محرم جو خرداد کےمہینے سے مصادف تھا آن پہنچا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس مہینے کو شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف عوام کی تحریک میں تبدیل کردیا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے عاشورہ کی شام مدرسہ فیضیہ میں ایک تاریخی خطاب کیا جو پندرہ خرداد (چارجون) کی تحریک کا نقطہ آغازثابت ہوا۔ حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اسی خطاب میں بلند آواز کے ساتھ شاہ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تجھے نصیحت کرتاہوں کہ اس طرح کے کاموں سے بازآجا۔ تجھے بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ میں نہیں چاہتاکہ ایک دن سب لوگ تیرے جانے پر شکراداکريں ... اگر ڈکٹیٹ کرکے سب کچھ تجھ سے کہلوایا جاتا ہے تو تو اس پر ذراغور کر. سن لے میری نصیحت . شاہ اور اسرائیل کے درمیان ایسا کیا رابطہ ہے کہ ساواک کہتی ہے کہ اسرائيل کے بارے میں کچھ مت بولو. کیا شاہ اسرائيلی ہے ؟
شاہ نے تحریک کو کچلنے کا حکم جاری کیا ۔سب سے پہلے چودہ خرداد(3جون) کی شام کو حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتارکیا گیا اور پھر پندرہ خرداد(چارجون) کو صبح صادق سے پہلے ساڑھے تین بجے تہران سے آئے ہوئے سیکڑوں کمانڈوز حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیتے ہیں اور جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے آپ کوگرفتارکرلیا جاتا ہے۔ خوفزدہ شاہی کمانڈوز انتہائی سراسیمگی کے عالم میں آپ کو قم سے تہران منتقل کرنے کے بعد پہلے تو آپ کو فوجی افسروں کی جیل ميں بند کردیتے ہیں پھر اسی دن شام کو قصر نامی جیل میں منتقل کردیا جاتاہے۔ پندرہ خرداد (چارجون)کی صبح ہی تہران کے علاوہ مشہد شیراز اور دیگرشہروں میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی گرفتاری کی خبر تیزی کے ساتھ پھیل گئی اور قم میں بھی یہی صورت حال پیداہوگئی۔ شاہ کے سب سے قریبی ساتھی جنرل حسین فردوست اپنی سرگذشت میں پندرہ خرداد (چارجون)کی تحریک کوکچلنے میں امریکہ کے کہنہ کار سفارتی اور خفیہ اہلکاروں کے اقدامات اور قریبی تعاون نیز عین اس موقع پر شاہ، دربار، فوج اور ساواک کے سربراہان و اعلی افسران کے خوف وہراس کا ذکر کرتا ہے اور اس کی منظر کشی کرتا ہے کہ شاہ اور اس کے جنرل کس طرح دیوانہ وار اس تحریک کو کچلنے کا حکم جاری کر رہے تھے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو پندرہ دنوں تک قصر جیل میں رکھنے کے بعد عشرت آباد فوجی چھاؤنی میں منتقل کردیا کیا ۔
تحریک کے رہبر کی گرفتاری اور عوام کے وحشیانہ قتل عام کے بعد بظاہر پندرہ خرداد 1342(5 جون 1963 ) کی تحریک کچل دی گئی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے قید کے دوران شاہ کی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے ایک بھی سوال جواب نہیں دیا اور فرمایا کہ ایران کی حکومت اور عدلیہ غیرقانونی ہے ۔ 18 فروردین 1343( 7 اپریل 1964) کی شام کو کسی پیشگي اطلاع کے بغیر حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کوآزاد کرکے قم ان کے گھر پہنچا دیا گيا۔ عوام کو جیسے ہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رہائي کی اطلاع ملی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑگئ اورمدرسہ فیضیہ سمیت قم شہر کے گوشہ وکنارمیں کئي دنوں تک جشن منایاگیا۔ پندرہ خرداد کے واقعے اور شہدا کی پہلی برسی کے موقع پر حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اوردیگر مراجع کرام کے مشترکہ بیان میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اورحوزہ علمیہ قم نے بھی ایک علاحدہ بیان جاری کرکے پندرہ خرداد کے واقعہ کی یاد میں اس دن عام سوگ منانے کا اعلان کیا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے چار آبان 1343 (26 اکتوبر 1964) کو اپناانقلابی بیان جاری کیا اور اس میں تحریر فرمایا کہ دنیا کو جان لینا چاہئے کہ ایرانی عوام اور پوری دنیا کے مسلمان آج جس طرح کی بھی مشکلات اور مصائب میں گھرے ہیں اس کا باعث امریکہ اور بیرونی طاقتیں ہیں، مسلمان اقوام کو بیرونی طاقتوں سے عام طور پر اور امریکہ سے خاص طورپر نفرت ہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کرتاہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کومضبوط بنارہاہے تاکہ عرب مسلمان بے گھر ہوجائيں۔
کیپچولیشن بل کے خلاف حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کےبیان کےباعث اسی سال آبان( نومبر) کے مہینے میں ایک اور تحریک کاآغازہوگيا ۔
13 آبان 1343 (4 نومبر 1964) کی صبح کو ایک بارپھر مسلح کمانڈوز نے جو تہران سے قم پہنچے تھے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھرکا محاصرہ کرلیا اور حیرت کی بات یہ کہ ان کو ٹھیک اسی حالت میں گرفتارکیا گيا جس حالت میں ایک سال پہلے گرفتارکیاگیا یعنی جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو گرفتار کرکے سخت پہرے میں مہرآباد ہوائی اڈے پر منتقل کردیا گيا اور پھر وہاں سے ایک فوجی طیارے کے ذریعہ جو پہلے سے تیارکھڑا تھا آپ کو ترکی جلاوطن کر دیا گیا۔ اسی دن شام کو ساواک نے یہ خبر اخبارات میں شائع کی کہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو ملکی سالمیت کے خلاف اقدام کرنے کی وجہ سے جلاوطن کردیاگیا ۔ اس خبرکے شایع ہوتے ہی پورے ملک میں گھٹن کےماحول کے باوجود احتجاجی مظاہروں اور عام ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوکانیں اورتجارتی مراکزبند ہو گئے اور عوامی، سیاسی اور مذھبی حلقوں کی جانب سے عالمی اداروں اور مراجع تقلید کو احتجاجی مراسلے اور ٹیلیگرام بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دوران دینی مراکز اور مدارس میں دروس بھی بند رہے۔ ترکی میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جلاوطنی کی مدت گیارہ مہینے کی رہی۔ اس درمیان شاہی حکومت نے انتہائی سختی کے ساتھ انقلابی عناصرکو کچلنے میں کوئی کسر نہيں چھوڑی اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی عدم موجودگي میں امریکہ کی مرضی کی اصلاحات کے پروگرام پر تیزی کے ساتھ عمل کرناشروع کردیا۔ ترکی میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جلاوطنی سے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو یہ بہترین موقع ملا کہ آپ اپنی معروف فقہی کتاب تحریرالوسیلہ کی تدوین کا کام شروع کریں۔
تیرہ مہر 1343(5 اکتوبر 1964) کو امام خمینی (رہ) اپنے بڑے بیٹے آیت اللہ الحاج آقا مصطفی خمینی کے ہمراہ ترکی سے عراق بھیج دئے گئے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ بغداد پہنچنے کے بعد کاظمین ، سامرا اور کربلا میں ائمہ اطہارعلہیم السلام اور شہدائے کربلا کی زيارت کے لئے روانہ ہوگئے اور ایک ہفتے کے بعد اپنی قیام گاہ یعنی نجف اشرف پہنچے۔ نجف اشرف میں آپ کے تیرہ سالہ قیام کا آغاز ایسے عالم میں ہوا کہ اگرچہ وہاں بظاہر ایران اور ترکی کی طرح بندش اور گھٹن نہیں تھی لیکن دشمن کے محاذ کی طرف سے مخالفتوں ، آپ کے راستے میں رکاوٹوں اور طعنہ زنی کا سلسلہ شروع ہوگیا اور نہ صرف کھلے دشمنوں بلکہ عالم نمانام نہاد اور دنیا پرست عناصر کی طرف سے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے خلاف اقدامات اور بیان بازیاں اس قدر وسیع پیمانے پر اور اذیت ناک حد تک پہنچ گئي تھیں کہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنے تمام تر صبر و تحمل کے باوجود جس کے لئے آپ خاص شہرت رکھتے تھے بارہا ان برسوں کو اپنی جدوجہد کے انتہائي سخت اورتلخ ترین سال سے تعبیر کیا لیکن یہ مصائب و آلام آپ کو آپ کو اپنے مشن سے باز نہ رکھ سکے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنے دروس خارج فقہ کا سلسلہ آبان ماہ 1344(نومبر1965) میں نجف اشرف میں واقع مسجد شیخ انصاری میں شروع کیا جو عراق سے پیرس کے لئے آپ کی ہجرت تک جاری رہا ۔
آپ کے دروس خارج کو کیفیت و کمیت کے اعتبار سے نجف اشرف میں دئے جانے والے دیگر دروس خارج میں اعلی ترین دروس میں شمار کیا جاتا تھا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے نجف اشرف پہنچتے ہی ایران میں عوام اور اپنے انقلابی ساتھیوں کے نام خطوط اور بیانات ارسال کرکے انقلابیوں سے اپنے روابط کو برقرار رکھا اور انہیں ہر مناسبت پر پندرہ خرداد کی تحریک کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی تلقین فرمائی ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے جلا وطنی کے برسوں میں تمام مصائب و مشکلات کے باوجود کبھی بھی اپنی جد وجہد سے ہاتھ نہیں کھینچا اور اپنی تقریروں اور پیغامات کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں کامیابی و فتح کی امید زندہ رکھی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے 19 مہر 1347 کو فلسطینی تنظيم الفتح کے نمائندے سے اپنی گفتگو میں عالم اسلام کے مسائل اور ملت فلسطین کے جہاد کے بارے میں اپنے موقف اور نظریات کی تشریح فرمائی اور اپنے اسی انٹرویو میں فرمایا کہ زکات کی رقومات میں سے کچھ حصہ فلسطینی مجاہدین سے مختص کرنا واجب ہے ۔1969 میں ایران کی شاہی حکومت اور عراق کی بعثی حکومت کے درمیان دونوں ملکوں کی آبی حدود کے مسئلے پر اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ عراقی حکومت نے عراق میں موجود ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد کو بدترین حالات میں عراق سے نکال دیا۔
عراق کی حکمراں بعث پارٹی نے اس بات کی بہت زيادہ کوشش کی کہ وہ ایران کی شاہی حکومت سے امام خمینی (رہ) کی دشمنی سے فائدہ اٹھائے۔ امام خمینی (رہ) کی چار برسوں تک تدریس سعی و کوشش نے کسی حد تک حوزہ علمیہ نجف کے ماحول کو بدل دیا تھا اور اس وقت تک ایران کے اندر انقلابیوں کے علاوہ خود عراق ، لبنان اور دیگر اسلامی ملکوں میں بھی امام خمینی کے بیشمار حامی پیدا ہوگئے تھے جو آپ کی تحریک کو اپنے لئے نمونہ اور آئیڈیل سمجھتے تھے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور ( 1350 ۔ 1356 ) جد جہد کا تسلسل
1350 کے دوسرے نصف میں عراق کی بعثی حکومت اور شاہ کے درمیان اختلافات اور بھی شدت اختیار کرگئے اور عراق میں موجود ایرانیوں کو وہاں سے نکالا جانے لگا اور بہت سے ایرانی بے گھر کئے جانے لگے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے عراقی صدر کے نام اپنے ایک ٹیلی گرام میں عراقی حکومت کے ان اقدامات کی سخت مذمت کی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس صورت حال میں خود بھی عراق سے نکلنے کا فیصلہ کیا لیکن بغداد کے حکام نے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے عراق سے چلے جانے کے بعد کے نتائج کو بھانپ لیا اور انہیں عراق سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ۔
پندرہ خرداد 1354 ہجری شمسی مطابق چار جون سن انیس سو پچہتر عیسوی کو قم کے مدرسۂ فیضیہ میں ایک بار پھر انقلابی طلباء نے ایک شاندار احتجاجی اجتماع منعقد کیا جو اجتماع تحریک کی شکل اختیار کرگیا ۔ دو دنوں تک جاری اس ایجیٹیشن کے دوران درود بر خمینی اور مرگ بر پہلوی، خمینی زندہ باد ، پہلوی حکومت مردہ باد کے نعرے گونجتے رہے ۔
شاہ نے اپنی مذہب مخالف پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے اسفند 1354 مارچ انیس سو پچہتر ہجری شمسی کو ملک کی سرکاری تاریخ کو بیہودہ طریقے سے پجری کےبجائے ہخامنشی شاہوں کی سلطنت کے آغاز کی تاریخ سے تبدیل کردیا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنے سخت رد عمل میں فتوی جاری فرمایا کہ بے بنیاد شہنشاہی تاریخوں سے استفادہ کرنا حرام ہے ۔ اس موہوم تاریخی مبدا اور آغاز سے بطور کلنڈر استفادے کی حرمت کے فتوے کا ایران کے عوام نے اسی طرح سے خیر مقدم کیا جس طرح سے رستاخیز پارٹی کی حرمت کے فتوی کا خیر مقدم کیا گیا تھا اور یہ دونوں ہی شاہی اقدامات شاہ کے لئے ذلت و رسوائی کا سبب بنے اور شاہی حکومت نے مجبور ہو کر انیس سو اٹھہر میں شاہنشاہی کیلنڈر سے پسپائی اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا۔
اسلامی انقلاب کا عروج اور عوامی تحریک
امام خمینی (رہ) نے جو دنیا اور ایران کے حالات پر انتہائي گہری نظر رکھے ہوئے تھے ہاتھ آئے موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور آپ نے مرداد ماہ 1356 مطابق انیس سو ستتر میں اپنے ایک پیغام میں اعلان فرمایا کہ اب ملکی اور غیر ملکی حالات اور شاہی حکومت کے جرائم کے عالمی اداروں اور غیر ملکی اخبارات میں بھی منعکس ہونے کی بنا پر علمی حلقوں، محب وطن شخصیتوں، ملک و بیرون ملک ایرانی طلباء اور اسلامی انجمنوں کو جہاں جہاں بھی ہوں یہ چاہئے کہ اس موقع سے فورا" فائدہ اٹھائیں اور کھل کر میدان میں آجائیں ۔یکم آبان 1356 مطابق انیس سو ستتر کو آیت اللہ حاج آقا مصطفی خمینی کی شہادت اور ایران میں ان کے ایصال ثواب کے لئے منعقد مجالس اور پرشکوہ تعزيتی جلسے ایران کے حوزہ ہای علمیہ اور مذہبی حلقوں کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اسی وقت انتہائي حیران کن طریقے سے اس واقعہ کو خداوند عالم کے الطاف خفیہ سے تعبیر کیا ۔ شاہی حکومت نے روزنامہ اطلاعات میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی شان میں اہانت آمیز مقالہ شائع کرکے آپ سے انتقام لینے کی کوشش کی ۔اس مقالے کی اشاعت کے خلاف قم میں ہونے والا احتجاجی مظاہرہ، رواں دواں انقلابی تحریک کو مہمیز دینے کاباعث بنا۔ اس احتجاجی مظاہرے کے دوران متعدد انقلابی طلباء شہید اور زخمی ہوئے ۔ شاہ اس احتجاجی مظاہرے میں طلباء کا قتل عام کرنے کے بعد احتجاج کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو خاموش نہیں کرسکا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی عراق سے پیرس ہجرت "
نیویارک میں ایران اور عراق کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو عراق سے نکالنے کا فیصلہ کیا گيا ۔ چوبیس ستمبر سن انیس سو اٹھتر کو بعثی حکومت کے کارندوں اور سیکورٹی اہلکاروں نے نجف میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ اس خبر کے پھیلتے ہی ایران، عراق اور دیگر ملکوں کے مسلمانوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ۔چار اکتوبر کو حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نجف سے کویت کی سرحد کی جانب روانہ ہوئے کویت کی حکومت نے ایران کی شاہی حکومت کی ایماء پر آپ کو کویت کے اندر آنے کی اجازت نہیں دی۔ اس سے پہلے لبنان یا شام میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ہجرت کی باتیں گردش کررہی تھیں لیکن آپ نے اپنے بیٹے (حجۃ الاسلام حاج سید احمد خمینی ) سے مشورہ کرنے کے بعد پیرس جانے کا فیصلہ کیا اور چھے اکتوبر کو آپ پیرس پہنچ گئے ۔ دو دنوں کے بعد پیرس کے مضافاتی علاقے نوفل لوشاتو میں آپ ایک ایرانی کے گھر میں رہائش پذیر ہوگئے۔ الیزہ پیلیس کے عہدہ داروں نے فرانس کے صدر کا یہ پیغام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو پہنچایا کہ انہیں کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے۔ آپ نے بھی اپنے سخت ردعمل میں فرمایا کہ اس طرح کی بندشیں ڈیموکریسی کے دعووں کے منافی ہیں اور اگر میں مجبور ہوا کہ اس ایئیرپورٹ سے اس ایئرپورٹ اور ایک ملک سے دوسرے ملک (مسلسل) ہجرت کرتا رہوں پھر بھی اپنے مشن سے دستبردار نہیں ہوں گا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے نومبر انیس سو اٹھتر میں انقلابی کونسل تشکیل دی۔ شاہ سلطنتی کونسل کی تشکیل اور بختیار کی حکومت کے لئے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد سولہ جنوری انیس سو اٹھتر کو ملک سے فرار ہو گیا ۔ شاہ کے فرار کی خبر تہران شہر اور پھر پورے ایران میں پھیل گئی اور لوگ یہ خبر سن کر جشن منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ۔
وطن واپسی
جنوری انیس سو 79 میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی وطن واپسی کی خبریں نشر ہونے لگیں۔ جو بھی سنتا خوشی سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں ۔ لوگوں نے 14 برسوں تک انتظار کی گھڑیاں گنی تھیں ۔ ساتھ ہی امام خمینی (رح) کے چاہنے والوں کو آپ کی جان کی سلامتی کے بارے میں بھی تشویش تھی کیونکہ شاہ کی آلۂ کار حکومت نے پورے ملک میں ایمرجنسی لگا رکھی تھی۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنا فیصلہ کرلیا اور ایرانی قوم کے نام اپنے پیغامات میں فرمایا تھا کہ وہ چاہتے کہ ان مستقبل ساز اور فیصلہ کن ایام میں اپنے عوام کے درمیان رہیں ۔ بختیار کی حکومت نے جنرل ہایزر کی ہم آہنگی سے ملک کے تمام ہوائی اڈوں کو غیر ملکی پروازوں کے لئے بند کردیا تھا ۔ مگر بختیار کی حکومت نے بہت جلد پسپائی اختیار کرلی اور عوام کے مطالبات کے سامنے وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی۔ امام خمینی (رہ) 12 بہمن 1357 ہجری شمسی مطابق یکم فروری 1979 کو چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد فاتحانہ انداز میں ایران واپس تشریف لائے۔ ایرانی عوام نے آپ کا ایسا عدیم المثال اور شاندار تاریخی استقبال کیا کہ مغربی خبر رساں ایجنسیاں بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکیں اور خود مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ تہران میں چالیس سے ساٹھ لاکھ افراد نے امام خمینی (رہ) کا والہانہ استقبال کیا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت ، وصال یار فراق یاران "
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے مشن ، نصب العین ، نظریات اور وہ تمام باتیں جو لوگوں تک پہنچانی تھیں سب کچھ پہنچا دیا تھا اور عملی میدان میں بھی اپنی تمام ہستی اور پورا وجود الہی اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لئے وقف کر دیا تھا۔ اب چار جون 1989 کو آپ اپنے کو اس عزيز ہستی کے وصال کے لئے آمادہ کررہے تھے کہ جس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ نے اپنی پوری عمر مبارک صرف کردی تھی اور ان کا قامت رعنا سوائے اس عظیم ہستی کے حضور کسی بھی طاقت کے سامنے خم نہیں ہوا اور ان کی آنکھوں نے اس محبوب ذات کے سوا کسی اور کے لئے اشک ریزي نہیں کی۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے عرفانی اشعار و غزلیں سب کی سب محبوب کے فراق کے درد و غم اور وصال محبوب کی تشنگي کے بیان سے ہی عبارت تھیں ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے وہ عظیم اور ان کے شیدائیوں کے لئے وہ جانکاہ لمحہ آن پہنچا ۔آپ نے خود اپنے وصیت نامے میں رقم فرمایا ہے : خدا کے فضل و کرم سے پرسکون دل، مطمئن قلب ، شاد روح اور پر امید ضمیر کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سے رخصت ہوتا ہوں اور ابدی منزل کی جانب کوچ کرتا ہوں۔ آپ لوگوں کی مسلسل دعاؤں کا محتاج ہوں اور خدائے رحمن و رحیم سے دعا کرتاہوں کہ اگر خدمت کرنے میں کوئی کمی یا کوتاہی رہ گئی ہو تو مجھے معاف کردے اور قوم سے بھی یہی امید کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں کوتاہی اور کمی کو معاف کرے گي اور پوری قوت، اور عزم و ارادے کے ساتھ آگے کی سمت قدم بڑھائے گی ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی ایک غزل میں اپنی رحلت سے کئی سال قبل یہ شعر کہا تھا :
" انتظار فرج از نیمہ خرداد کشم سالہا می گذرد و حادثہ ہا می آید"
13 خرداد 1368 ہجری شمسی مطابق 3 جون 1989 کی رات 10 بج کر بیس منٹ کا وقت محبوب سے وصال کا لمحہ تھا وہ دل دھڑکنا بند ہوگیا جس نے لاکھوں اور کروڑوں دلوں کو نور خدا اور معنویت سے زندہ کیا تھا۔ اس کیمرے کی مدد سے جو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے چاہنے والوں نے اسپتال میں نصب کررکھا تھا آپ کی علالت ، آپریشن اور لقائے حق کے لمحات کو ریکارڈ کیا گيا۔ جس وقت ان ایّام کی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے معنوی اور پرسکون حالات کے محض چند گوشوں کی متحرک تصویریں ٹیلی ویژن سے نشر ہوئیں لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور دلوں پر یہ تصویریں اتنا گہرا اثر چھوڑ گئیں کہ جن کا سمجھانا اور بیان کرنا ممکن نہیں مگر یہ کہ کوئی خود اس موقع پر موجود رہ کر ان معنوی کیفیات کو درک کرے۔ آپ کے ہونٹ مسلسل ذکر خدا میں مصروف تھے ۔ زندگي کی آخری راتوں میں اور اس وقت جب آپ کے کئی بڑے آپریشن ہوچکے تھے عمر بھی 87 برس کی تھی آپ نماز شب (تہجد) بجا لاتے اور قرآن کی تلاوت کرتے ۔ عمر کے آخری لمحات میں آپ کے چہرے پر غیر معمولی اور روحانی و ملکوتی اطمینان و سکون تھا۔ ایسے معنوی حالات میں آپ کی روح نے ملکوت اعلیٰ کی جانب پرواز کی۔ جب حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت جانگداز کی خبر نشر ہوئی گویا ایک زلزلہ آگیا۔ لوگوں میں ضبط کا یارا نہ رہا اور پوری دنیا میں وہ لوگ جو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتے تھے رو پڑے، ایران سمیت پوری دنیا میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے چاہنے والوں میں نالہ و شیون کا شور تھا ۔ کوئی بھی اس عظیم سانحے کے پہلوؤں اور عوام کے جذبات کو بیان کرنے کی سکت و توانائی نہیں رکھتا ۔ ایرانی عوام اور انقلابی مسلمان بجاطور پر اس طرح کا سوگ اور غم منارہے تھے۔ اپنے رہبر و قائد کو آخری رخصت اور انہیں الوداع کہنے کے لئے سوگواروں کا اتنا بڑا سیلاب تاریخ نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان سوگواروں نے ایسی ہستی کو الوداع کہا کہ جس نے ان کی پائمال شدہ عزت کو دوبارہ بحال کردیا تھا جس نے ظالم و جابر شاہوں اور امریکی و مغربی لیڈروں کو پسپائي اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مسلمانوں کو عزت و وقار عطا کیا تھا۔ اسلامی جمہوری نظام کی تخلیق کی تھی ۔ جس کی بدولت ایرانی مسلمان دنیا کی جابر اور شیطانی طاقتوں کے مد مقابل اٹھ کھڑے ہوئے اور دس برسوں تک بغاوت و کودتا جیسی سینکڑوں سازشوں اور ملکی و غیر ملکی آشوب و فتنہ کے مقابلے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہے اور آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران تاریخ شجاعت رقم کی۔ جبکہ مد مقابل ایسا دشمن تھا جس کی مشرق و مغرب کی دونوں بڑی طاقتیں وسیع حمایت کررہی تھیں۔ لوگوں کا محبوب قائد ، مرجع تقلید اور حقیقی اسلام کا منادی ان سے جدا ہوگیا تھا ۔
جو لوگ ان مفاہیم کو درک نہیں کرسکے اور یہ سارے واقعات ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں اگر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تدفین اور تشییع جنازہ کی تصویریں اور فلمیں دیکھیں اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی خبر سن کر آپ کے دسیوں چاہنے والوں اور شیدائیوں کی حرکت قلب اچانک رک جانے اور ان کی موت واقع ہوجانے اور اس سانحے کی تاب نہ لانے کے واقعات سنیں اور تشییع جنازے کے دوران شدت غم سے سینکڑوں بیہوش سوگواروں کو لوگوں کے ہاتھوں اسپتالوں اور طبی مراکز تک پہنچائے جانے کے مناظر، تصویروں اور فلموں میں دیکھیں تو ان کی توصیف کرنے سے عاجز رہ جائیں گے لیکن جنہیں عشق حقیقی کی معرفت ہے اور جنہوں نے عشق کا تجربہ کیا ان کے لئے یہ ساری باتیں اور واقعات سمجھ لینا مشکل نہیں ہے ۔ حقیقت میں ایران کے عوام حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عاشق تھے اور انہوں نے آپ کی پہلی برسی کے موقع پر کتنا خوبصورت نعرہ انتخاب کیا تھا "خمینی سے عشق تمام خوبیوں اور اچھائیوں سے عشق ہے"
بہرحال چودہ خرداد 1368 مطابق چار جون 1989 ماہرین کی کونسل نے اپنا اجلاس تشکیل دیا اور حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے توسط سے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وصیت نامہ پڑھے جانے کے بعد کہ جس میں دو گھنٹے لگے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین اور رہبر انقلاب اسلامی کے تعین کے لئے تبادلۂ خیال شروع ہوا اور کئی گھنٹوں کے صلاح و مشورے کے بعد حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کو، جو اس وقت اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر تھے اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے قریبی شاگرد، اسلامی انقلاب کی ممتاز شخصیتوں اور پندرہ خرداد کی تحریک کے رہنماؤں میں شمار کئے جاتے تھے اور جنہوں نے دیگر انقلابی جانبازوں کے ہمراہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کے تمام مراحل میں ہر طرح کی سختیوں اور مصائب و آلام کا سامنا کیا تھا، اتفاق آراء سے اس عظیم و خطیر ذمہ داری کے لئے منتخب کیا گيا مغربی ممالک اور ملک کے اندر ان کے حمایت یافتہ عناصر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو شکست دینے کی برسوں کی کوششوں کےبعد مایوس ہوچکے تھے اور وہ اس امید میں تھے کہ امام کی رحلت کے بعد وہ اپنی سازشوں اور ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہوسکیں گے لیکن ایرانی عوام کے فہم و فراست، ماہرین کی کونسل کے بروقت فیصلے اور اس فیصلے کی امام کے تمام پیروؤں اور چاہنے والوں کی طرف سے بھرپور حمایت سے انقلاب دشمن عناصر کی تمام امیدوں پر پانی پھیر گیا اور نہ فقط یہ کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے ان کا مشن ختم نہیں ہوا بلکہ اسے نئي زندگی مل گئی۔ کہیں الہی افکار و نظریات اور حقائق کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے!
پندرہ خرداد 1368 مطابق 5 جون 1989 کے موقع پر تہران اور ایران کے دیگر شہروں اور قصبوں و دیہاتوں سے آئے ہوئے دسیوں لاکھ سوگواروں کا ایک سیلاب تھا جو تہران کے مصلائے بزرگ ( عیدگاہ ) میں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ لوگ اس عظیم مرد مجاہد کو، جس نے اپنی تحریک اور انقلاب سے ظلم و ستم کے سیاہ دور میں انسانی اقدار و شرافت کی خمیدہ کمر کو استوار کردیا تھا اور دنیا میں خداپرستی اور پاک انسانی فطرت کی جانب واپسی کی تحریک کا آغاز کیا تھا، الوداع کہنے کے لئے آئے تھے۔ آپ کے جنازے کی آخری رسومات میں سرکاری رسومات کا کوئی نام ونشان نظر نہیں آتا۔ ساری چیزیں عوامی اور عاشقانہ تھیں ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیکر مطہر جو سبز تابوت میں تھا کروڑوں سوگواروں اور ماتم کنان عزاداروں کے ہاتھوں پر ایک نگینے کی مانند جلوہ نمائی کررہاتھا اور ہر کوئی اپنی زبان سے اپنے محبوب قائد سے وقت رخصت محو گفتگو تھا اور اشک غم بہارہا تھا ۔
درو دیوار پر سیاہ پرچم لگائے گئے تھے اور فضا میں چاروں طرف صرف تلاوت کی آواز سنائی دے رہی تھی اور جیسے ہی رات آئي ہزاروں شمعیں اس مشعل فروزاں کی یاد میں مصلّی بزرگ (عیدگاہ ) اور اس کے اطراف کے ٹیلوں پر روشن ہوگئیں۔ سوگوار و عزادار کنبے ان شمعوں کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے اور ان کی نگاہیں ایک نورانی بلندی پر مرکوز تھیں۔ بسیجیوں (رضاکاروں) کی فریاد "یاحسین" نے جو یتیمی کا احساس اپنے سینے میں لئے تھے اور اپنا سر و سینہ پیٹ رہے تھے ماحول کو عاشورائی بنادیا تھا اور چونکہ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اب حسینیۂ جماران میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دلنشین آواز نہیں سنائی دے گي اس لئے یہ غم انہیں مارے ڈال رہا تھا۔ لوگوں نے پوری رات مصلی بزرگ (عیدگاہ ) میں گزاری۔ 6 جون 1989 کی صبح ہوتے ہی دسیوں لاکھ سوگواروں نے مرجع تقلید آیت اللہ العظمی گلپایگانی کی امامت میں اشکبار آنکھوں کے ساتھ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پیکر مطہر پر نماز جنازہ پڑھی۔
12 بھمن 1357 ہجری شمسی مطابق یکم فروری 1979 کو حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کی فاتحانہ وطن واپسی اور ان کے استقبال میں شاندار و عدیم المثال اجتماع اور پھر آپ کی آخری رسومات میں سوگواروں کا اس سے بھی عظیم اجتماع تاریخ کے حیران کن واقعات ہیں۔ خبر رساں ایجنسیوں نے یکم فروری سنہ 1979 کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وطن واپسی کے موقع پر استقبال کے لئے آنے والے عاشقوں اور انقلابیوں کی تعداد 60 لاکھ بتائي تھی اور آپ کے جنازے میں شریک سوگواروں کی تعداد 90 لاکھ بتائي جبکہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دس سالہ قیادت کے دوران انقلاب سے دشمنی، آٹھ سالہ جنگ اور مغربی و مشرقی بلاکوں کی مشتکرہ سازشوں کی وجہ سے ایرانی عوام نے بے پناہ سختیاں اور مشکلات برداشت کیں اور اپنے بے شمار عزیزوں کو اس راہ میں قربان کیا تھا چنانچہ یہ فطری امر تھا کہ اب ان کا جوش و خروش بتدریج کم ہوجاتا لیکن ایسا ہرگز نہ ہوا ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے الہی مکتب میں پرورش پانے والی نسل کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان پر پورا یقین و اعتقاد تھا کہ اس دنیا میں زحمتوں ،مصیبتوں ، مشکلات ، فداکاری اور جانثاری کی عظمت ان بلند و گرانقدر مقاصد و اہداف کے برابر ہوتی ہے ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے سوگواروں کا جم غفیر "بہشت زہرا" (تہران کے قبرستان) میں تدفین کے وقت اپنے مقتدا کی آخری جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑ رہے تھے جس کی وجہ سے آپ کی تدفین ناممکن ہوگئی تھی اس صورتحال کے پیش نظر ریڈیو سے باربار اعلان کیا گيا کہ لوگ اب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں تدفین کی رسومات بعد میں انجام دی جائیں گی اور بعد میں اس کا اعلان کیا جائے گا۔
ذمہ داران کو بخوبی علم تھا کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا لاکھوں عاشقان امام جو دیگر شہروں سے تہران کے لئے روانہ ہوچکے ہیں تشییع جنازہ اور تدفین کی رسومات میں شامل ہو جائیں گے لہذا اسی دن سہ پہر کے وقت سوگواروں فرط غم کے عالم میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے جسد مطہر کی تدفین کی گئی۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت بھی ان کی حیات مبارک کی مانند ایک اور بیداری و تحریک کا سرچشمہ ثابت ہوئی اور ان کی یاد، تعلیمات و افکار اور ان کا مشن زندہ جاوید بن گیا کیونکہ وہ ایک حقیقت تھے اور حقیقت ابدی و لافانی ہوتی ہے ۔