قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اکیس جمادی الثانی سن چودہ سو اکتیس ہجری قمری مطابق چار جون دو ہزار دس عیسوی برابر چودہ خرداد تیرہ سو نواسی ہجری شمسی کو بانی انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوری نظام کے معمار امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت کی اکیسویں برسی کے موقع پر آپ کے مزار پر دسیوں لاکھ کی تعداد میں جمع ہونے والے عقیدت مندوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ یہ جمعہ کا دن تھا لہذا نماز جمعہ بھی امام خمینی کے مزار پر قائد انقلاب اسلامی کی امامت میں ادا کی گئی۔ قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے خطبوں میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کی خصوصیات اور معیارات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ اپنے انہی افکار و نظریات اور اپنے مکتب فکر میں منعکس ہیں اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے لگاؤ اور انسیت کا تقاضہ آپ کے مکتب فکر پر عملدرآمد ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی بقا کے تعلق سے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کی خصوصیات اور معیارات سے واقفیت اور ان کی پابندی کو لازمی قرار دیا۔ نماز جمعہ کے خطبے میں قائد انقلاب اسلامی نے اسی طرح عالمی حالات کا بھی جائزہ لیا اور خاص طور پر امدادی اشیاء لیکر غزہ جانے والے کاروان آزادی پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے اور نیویارک میں تقریبا ایک مہینہ چلنے والے این پی ٹی نظر ثانی اجلاس کا ذکر کیا۔ آپ نے کاروان آزادی پر اسرائیل کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور این پی ٹی نظر ثانی اجلاس کو امریکا اور اسرائیل کی شکست کا مظہر قرار دیا۔ نماز جمعہ کے خطبے حسب ذیل ہیں؛ خطبهى اول بسماللَّهالرّحمنالرّحيم و الحمد للَّه ربّ العالمين نحمده و نستعينه و نتوكّل عليه و نستغفره و نتوب اليه و نصلّى و نسلّم على حبيبه و نجيبه و خيرته فى خلقه حافظ سرّه و مبلّغ رسالاته بشير رحمته و نذير نقمته سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين و صلّ على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و دعاۃ الى اللَّه اوصيكم عباد اللَّه و نفسى بتقوى اللَّه تمام بھائیوں اور بہنوں کو تقوا و پرہیزگاری کو ملحوظ رکھنے کی دعوت دیتا ہوں۔ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ : «يا ايّها الّذين آمنوا اتّقوا اللَّه و قولوا قولا سديدا. يصلح لكم اعمالكم و يغفر لكم ذنوبكم و من يطع اللَّه و رسوله فقد فاز فوزا عظيما».(1) ہمیں اپنی رفتار و گفتار حتی تصورات و افکار میں بھی تقوا کا پابند رہنا چاہئے۔ یعنی ہم اپنی رفتار و گفتار میں اور اپنے کردار میں رضائے پروردگار اور جادہ حق سے ذرہ برابر بھی تجاوز نہ کریں۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس بندہ حقیر کو توقیق دے کہ قرآن کے اس بنیادی اصول یعنی تقوا کی اساس پر گفتگو کے ذیل میں اپنے معروضات پیش کر سکوں۔ یہ ایام صدیقہ کبرا فاطمہ زہرا سیدۃ نساء العالمین سلام اللہ علیھا کی ولادت کے ایام ہیں۔ اللہ تعالی کی مخلص کنیز کی ملکوتی روح سے طلب مدد کرتے ہیں کہ یہ نماز جمعہ جو امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی رحلت کی اکیسویں برسی کے دن قائم کی گئی ہے اللہ تعالی کی اس عظیم نشانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ادا ہو اور ہمارے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی یاد اور بابرکت نام جس طرح ان اکیس برسوں میں ہماری قوم کے دل و جان اور زبان میں، زندگی کی فضا میں بہترین شکل میں بسا رہا اسی طرح آئندہ بھی محفوظ رہے اور ہم اسے آگے لے جائیں۔ میں خطبہ اول میں با عظمت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بارے میں چند معروضات پیش کروں گا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو ایک معیار اور کسوٹی کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ اس نقطہ نگاہ کی اہمیت اس لئے بہت زیادہ ہے کہ تمام سماجی تبدیلیوں اور انقلابوں کے سامنے سب سے پڑا چیلنج اس انقلاب اور اس تبدیلی کی اصلی سمت اور رخ کی حفاظت کا ہوتا ہے۔ یہ ہر اس عظیم سماجی تبدیلی اور تحریک کا سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے جس کے خاص مقاصد ہوں اور ان اہداف کی جانب وہ بڑھے اور لوگوں کو اس کی دعوت دے۔ اس سمت اور رخ کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ اگر انقلاب اور سماجی تحریک کی سمت اور رخ کی حفاظت نہ کی جائے اور اسے محفوظ نہ رکھا جائے تو وہ انقلاب اپنا ہی مخالف بن جائے گا۔ اپنے اہداف کی برعکس سمت میں بڑھنے لگے گا۔ چنانچہ آپ قرآن میں دیکھتے ہیں کہ سورہ مبارکہ ہود میں اللہ تعالی اپنے پیغمبر سے ارشاد فرماتا ہے کہ «فاستقم كما امرت و من تاب معك و لاتطغوا انّه بما تعملون بصير».(2) پیغمبر کو استقامت و پائيداری کا حکم دیتا ہے۔ استقامت کے معنی ہیں راستے پر سیدھے آگے بڑھتے رہنا، صحیح سمت میں پیش قدمی کرنا۔ اس مستقیم حرکت کے مد مقابل عمل کو آیہ شریفہ میں طغیان اور سرکشی قرار دیا گیا ہے، ولا تطغوا طغیان یعنی سرکشی کرنا اور منحرف ہو جانا۔ پیغمبر سے فرماتا ہے کہ آپ بھی اور آپ کے ہمراہ چلنے والے افراد بھی اس راستے پر صحیح انداز سے آگے بڑھتے رہیں اور ہرگز انحراف کا شکار نہ ہوں۔ انھ بما تعملون بصیر علامہ طباطبائي مرحوم تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں کہ اس آيت کا لب و لہجہ سخت ہے، اس میں کسی نرمی اور رحم کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ خود پیغمبر سے خطاب ہے کہ فاستقم اس آيت کا یہ عالم ہے کہ پیغمبر اکرم سورہ ھود کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شیبتنی سورۃ ھود سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا۔ یہ اسی آیت کی وجہ سے ہے۔ روایت میں ہے کہ سورہ ھود کا وہ حصہ جس کی وجہ سے پیغمبر اکرم نے ارشاد فرمایا کہ سورہ ھود نے مجھے بوڑھا کر دیا، یہی آيۃ مبارکہ ہے۔ چونکہ اس آیت میں سختی ہے۔ قرآن میں ایک اور جگہ پر بھی کہا گيا ہے فلذالک فادع و استقم کما امرت (3) لیکن «فاستقم كما امرت و من تاب معك و لا تطغوا» کا انداز کہ منحرف نہ ہونا، بیچ راستے سے لوٹ نہ جانا، بڑا سخت خطاب ہے جو خود پیغمبر سے کیا گيا ہے۔ یہ خطاب پیغمبر کے دل کو دہلا دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سمت بدل جانے اور اصلی راستے سے بھٹک جانے کی صورت میں انقلاب اپنے اہداف تک ہرگز نہیں پہنچ پاتا جبکہ ہر انقلاب کی شناخت اور ماہیت کا دارومدار اس کی سمت اور رخ پر ہوتا ہے، انقلابوں کی شناخت ان کی اصلی سمت ہی ہوتی ہے۔ اس معاملے کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ سمت کی تبدیلی تدریجی اور نامحسوس عمل ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ شروع میں ہی سمت ایک سو اسی درجہ بدل جائے۔ یہ تبدیلی بہت معمولی انحراف اور کجی سے شروع ہوتی ہے اور پھر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اصلی راستے اور منحرف راستے کا فاصلہ روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔ یہ تو رہی ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ انقلاب کی ماہیت اور شناخت کو بدل دینے پر تلے ہوتے ہیں وہ با ضابطہ پرچم اور بینر کے ساتھ آگے نہیں آتے، وہ اس انداز سے حرکت نہیں کرتے کہ عیاں ہو جائے کہ وہ تحریک کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ بعض اوقات تو انقلابی تحریک کی طرفداری کے نام پر کوئی بیان دیتے ہیں، کوئی اقدام کرتے ہیں، کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ انقلاب اپنی بنیادی سمت اور رخ سے پوری طرح ہٹ جاتا ہے، الگ ہو جاتا ہے۔ سمت سے انحراف نہ ہو اس کے لئے کچھ معیاروں کا تعین ضروری ہے۔ سامنے کچھ معیاروں کا ہونا لازمی ہے۔ اگر یہ معیار موجود ہوں، واضح ہوں، روشن ہوں، لوگوں کی نظر میں ہوں تو انحراف نہیں ہوگا۔ اگر کوئی غلط سمت میں بڑھنا چاہے گا تو عوام کو اس کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ لیکن اگر یہ معیار موجود نہ ہوں تو سنجیدہ خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ ہمارے انقلاب میں معیار کیا ہے؟ یہ بہت اہم ہے۔ ہم تیس سال سے اس انقلاب کی سمت میں بڑھ رہے ہیں، ہماری قوم نے بصیرت کے ساتھ حرکت کی ہے، شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے، واقعی صلاحیت سے کام لیا ہے۔ آپ تیس سال سے اس انقلاب کو آگے لے جا رہے ہیں لیکن خطرات اب بھی موجود ہیں۔ انقلاب کے دشمن، امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کے دشمن خاموش نہیں بیٹھے ہیں، وہ اس انقلاب کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے کوشاں ہیں، کیسے؟ انقلاب کو غلط سمت میں موڑ کر۔ بنابریں ضروری ہے کہ ہمارے پاس معیار موجود ہوں۔
میں یہ عرض کروں گا کہ بہترین معیار خود امام ( خمینی رضوان اللہ علیہ کی ذات) اور امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کا مکتب فکر ہے۔ امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) ہمارے لئے بہترین معیار ہیں۔ بلا تشبیہ کہنا چاہئے کہ جس طرح قرآن پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے سلسلے میں فرماتا ہے کہ «لقد كان لكم فى رسول اللَّه اسوة حسنة لمن كان يرجوا اللَّه و اليوم الاخر».(4) خود پیغمبر کی ذات اسوہ اور نمونہ ہے، آپ کی رفتار، آپ کا کردار اور آپ کا اخلاق۔ یا ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ : «قد كانت لكم اسوة حسنة فى ابراهيم و الّذين معه»؛(5) ابراہیم اور ان کے اصحاب اسوہ ہیں۔ یہاں اصحاب حضرت ابراہیم کا بھی تذکرہ کیا گيا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ پیغمبر تو معصوم ہوتے تھے، حضرت ابراہیم معصوم تھے، ہم ان کے مثل نہیں ہو سکتے۔ جی نہیں، «قد كانت لكم اسوة حسنة فى ابراهيم و الّذين معه اذ قالوا لقومهم انّا براء منكم و ممّا تعبدون من دون اللَّه كفرنا بكم» الی آخرہ، اسی طرح با عظمت امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کے سلسلے میں بھی جو اسی مکتب کے شاگرد اور انبیائے کرام کی راہ کے مسافر ہیں، یہ چیز صادق آتی ہے۔ خود امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) سب سے بڑا معیار ہیں۔ آپ کا عمل اور آپ کا قول۔
خوش قسمتی سے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بیانات دسترسی میں ہیں، تدوین شدہ ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا وصیت نامہ انقلاب کے مستقبل کے تعلق سے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مافی الضمیر کو پوری طرح وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہ اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ ان معیاروں کی غلط تفسیر کی جائے، انہیں پنہاں رکھا جائے یا فراموش کر دیا جائے۔ اگر ہم نے ان معیاروں کو غلط انداز سے بیان کیا، غلط طریقے سے پیش کیا تو ایسا ہی ہوگا کہ گویا ہم نے سفر کے دوران اپنا قطب نما گنوا دیا، یا ہمارا قطب نما خراب ہو گیا۔ آپ تصور کیجئے کہ ایک بحری سفر میں یا بیابان میں جہاں کوئی سڑک نہیں ہے انسان کا قطب نما خراب ہو جائے یا اسے کوئی نقصان پہنچ جائے تو وہ شخص حیران و پریشان ہو جائے گا۔ اگر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے افکار کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا تو یہ قطب نما گنوا دینے والی بات ہوگی، راستہ بھٹک جانے والی بات ہوگی۔ ہر کوئی اپنی مرضی اور پسند کے مطابق بات کرنے لگے گا اور بد خواہ عناصر موقع کا فائدہ اٹھائيں گے اور وہ راستہ دکھائیں گے کہ قوم غلط سمت میں چل پڑے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے نظریات کو بالکل اسی طرح جیسے آپ نے کہا ہے یا لکھا ہے، وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی اور انقلاب کی راہ مستقیم کی خصوصیت ہے۔ ایک آدمی کھلے عام کہتا ہے کہ میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو نہیں مانتا، تو یہ ایک الگ بات ہے، جو شخص کہتا ہے کہ میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو نہیں مانتا، ان کے بتائے راستے کو غلط سمجھتا ہوں، اس کے ساتھ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے پیروکاروں کا حساب کتاب واضح ہے۔ یہ انقلاب امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اشاروں پر آگے بڑھنے والا ہے تو ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا موقف واضح کیا جانا چاہئے معلوم ہونا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ فلاں صاحب کی اور فلاں صاحب کی مرضی کا لحاظ کرکے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بعض نظریات کا انکار کر دیا جائے یا انہیں چھپایا جائے۔ بعض لوگ اس طرح کی فکر رکھتے ہیں، جو بالکل غلط ہے، کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے ماننے والوں کی تعداد بڑھانے کے لئے آپے کے مخالفین کو بھی آپ کے چاہنے والوں کی صف میں شامل کرنے کے لئے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بعض صریحی خیالات کو چھپا دیا جائے یا کمرنگ کر دیا جائے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا تشخص اور آپ کی شخصیت اسی موقف پر مبنی ہے جو آپ نے واضح ترین الفاظ میں بیان کیا ہے۔ انہی باتوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہی صریحی موقف تھا جس نے کثیر تعداد کو ملت ایران کے چاہنے والوں بلکہ اس کے نقش قدم پر چلنے والوں میں شامل کر دیا تھا۔ یہ عظیم عالمی تحریک جس کے اثرات آج بھی آپ عالم اسلام کے گوشہ و کنار میں ملاحظہ کر رہے ہیں، اسی طریقے سے آگے بڑھی ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی شخصیت کو مکمل صراحت کے ساتھ سامنے لانا چاہئے۔ سامراج کے خلاف آپ کے موقف، رجعت پسندی کے خلاف آپ کے موقف، مغربی لبرل ڈیموکریسی کے خلاف آپ کے موقف، منافقوں اور دوہرے چہرے والوں کے خلاف آپ کے موقف کو صراحت کے ساتھ پیش کرنا چاہئے۔ جو لوگ اس عظیم شخصیت سے متاثر ہوئے انہوں نے اسی موقف کو دیکھا اور پیروی کے لئے آمادہ ہو گئے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم اس لئے کہ فلاں شخص اور فلاں شخص کو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) پسند آنے لگیں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے موقف کو چھپانا شروع کر دیں، یا (امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ان باتوں کو جو ہمیں کچھ تند اور سخت لگیں، کمرنگ کرنا شروع کر دیں۔ کچھ لوگوں نے ایک زمانے میں جو ہمیں پوری طرح یاد ہے، وہ ہماری نوجوانی کا زمانہ تھا، اسلام کی جانب لوگوں کو مائل کرنے اور ترغیب دلانے کے لئے اسلام کے بعض احکام کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، کم رنگ کر دیتے تھے۔ قصاص کے احکام کو، جہاد کے احکام کو، حجاب کے احکام کو چھپاتے اور ان کا انکار کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ یہ اسلام میں نہیں ہے، قصاص اسلام میں نہیں ہے، جہاد اسلام میں نہیں ہے، کسی مستشرق کو اور اسلامی اصولوں کے کسی دشمن کو خوش کرنے کے لئے۔ یہ بالکل غلط ہے، اسلام کو کامل شکل میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو آپ کے مکتب فکر سے الگ کرکے دیکھا جائے تو یہ وہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نہیں ہوں گے کہ ملت ایران نے جن کی ہدایت پر اور جن کی خاطر اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھیں، اپنے بچوں کو جان دینے کے لئے بھیج دیا، اپنی جان اور اپنا مال دینے میں کوئی دریغ نہیں کیا اور دنیا کے اس خطے میں صدی کا عظیم ترین کارنامہ رقم کیا۔ مکتب فکر سے الگ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) در حقیقت اپنی شخصیت اور تشخص سے الگ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے آپ کی شناخت اور تشخص سلب کرنا امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی خدمت نہیں ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اصول واضح اور روشن تھے۔ یہ اصول جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اقوال میں بیانوں میں، خطوط میں اور بالخصوص آپ کے وصیت نامے میں جو آپ کے تمام اصولوں اور موقف کا نچوڑ ہے نمایاں اور ہویدا ہیں۔ یہ وہی فکری بنیادیں اور اصول ہیں کہ جن کے ذریعے آپ نے دنیا میں امریکا کی تسلط پسندی اور مغرب کی غارت گری کے خلاف ایک عطیم لہر پیدا کر دی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اب جو امریکا کے مختلف صدور جب ایشیا کے کسی ملک اور مشرق وسطی کا سفر کرتے ہیں، حتی بعض یورپی ممالک کے دورز پر جب جاتے ہیں اور عوام جمع ہوکر ان کے خلاف نعرے لگاتے ہیں تو کیا یہ چیز پہلے بھی تھی؟ جی نہیں، یہ تو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا اقدام تھا، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے انکشافات تھے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا موقف تھا جس نے سامراج کو رسوا کر دیا، صیہونزم کو رسوا کر دیا اور قوموں کے اندر خاص طور پر اسلامی معاشروں میں استقامت و مزاحمت کا جذبہ پیدا کیا۔ یہ کج فکری ہوگی کہ ہم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے موقف کے منکر ہو جائیں۔ افسوس کہ یہ کج فکری بعض اوقات ایسے افراد کے ہاں نظر آتی ہے جو کسی زمانے میں خود بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے افکار کے مروج تھے، یا آپ کے پیروکاروں میں شامل تھے۔ بہرحال کسی وجہ سے انحراف پیدا ہو گیا، ہدف نظروں سے اوجھل ہو گیا اور کچھ لوگ پلٹ گئے۔ ان میں سے بعض نے برسوں تک امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے لئے، انہی اہداف کے لئے تقریریں کیں، اقدامات کئے لیکن آج انہی اہداف اور انہی اصولوں کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے کئی حصے ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے سلسلے میں سب سے اہم چند نکات ہیں جنہیں میں عرض کروں گا اور خاص طور پر نوجوانوں سے عرض کروں گا کہ آپ جاکر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے وصیت نامے کا مطالعہ کیجئے۔ جس امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا وہ وہی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) ہیں جو اس وصیت نامے میں منعکس ہیں۔ انہی آثار اور باتوں میں منعکس ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اصول و افکار میں سب سے اہم نکتہ ہے حقیقی دین محمدی یعنی ظلم مخالف اسلام کا، انصاف پسند اسلام کا، مجاہد اسلام کا، محروموں کے طرفدار اسلام کا، غریبوں، مستضعفوں اور ستمدیدہ افراد کے حقوق کا دفاع کرنے والے اسلام کا۔ اس اسلام کے مقابلے میں (کھڑے اسلام کے لئے) ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے امریکی اسلام کی ایک نئي اصطلاح وضع کی۔ امریکی اسلام یعنی تکلفاتی اسلام، ظلم و ستم کا خاموش تماشائی اسلام، تسلط پسندوں کا مددگار اسلام، طاقتوروں کا معاون اسلام، وہ اسلام جو اس سب کو برداشت کرے۔ اس اسلام کے لئے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے امریکی اسلام کا نام منتخب کیا۔ حقیقی اسلامی فکر و نظر ہی ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی دائمی فکر و نظر ہے، یہ اسلامی جمہوریہ کے دور تک ہی محدود نہیں تھی تاہم حقیقی اسلام کا نفاذ اسلامی نظام کی تشکیل اور اسلام کی حاکمیت و اقتدار کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اگر ملک کا سیاسی نظام اسلامی فکر اور شریعت اسلامیہ پر استوار نہ ہو تو اسلام دنیا کے ستمگروں سے، عالمی استبدادی طاقتوں سے، معاشرے کے توسیع پسندوں سے حقیقی جنگ نہیں کر پائے گا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اسی لئے اسلامی جمہوریہ کی حفاظت و پاسبانی کو واجبات میں سب سے بڑا واجب قرار دیتے تھے۔ سب سے بڑے واجبات میں سے ایک نہیں بلکہ تمام واجبات میں سب سے بڑا واجب۔ سب سے بڑا واجب اسلامی جمہوریہ کی حفاظت ہے، کیونکہ اسلام کی حفاظت واقعی اسلامی سیاسی نطام پر منحصر ہے، سیاسی نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اسلامی جمہوریہ کو اسلامی اقتدار اور حاکمیت کا مظہر مانتے تھے۔ اسی لئے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اسلامی جمہوریہ کے لئے کوششیں کیں، اس راہ میں اتنی محنت کی۔ پوری تندہی کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کے اقتدار پر اصرار کیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو شخصی جاہ و حشم سے تو کوئی دلچسپی تھی نہیں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اس کوشش میں تو نہیں تھے کہ خود انہیں کوئی طاقت حاصل ہو۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا سارا ہم و غم تھا اسلام۔ اسی لئے وہ اسلامی جمہوریہ کے لئے اتنے مصر تھے۔ یہ نیا نمونہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے دنیا کے سامنے پیش کیا، اسلامی جمہوریہ کا نمونہ۔ اسلامی جمہوریہ میں سب سے اہم مسئلہ ہے دنیا کی جاہ طلب اور استبدادی حاکمیت کا مقابلہ جو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ جاہ طلب اور آمر حکومت صرف سلطنتی حکومت نہیں ہے، یہ تو آمرانہ حکومت کی ایک قسم ہے۔ اس زمانے میں بائیں بازو کی آمریت تھی۔ ممالک میں کسی خاص پارٹی کی آمریت تھی، وہ جیسا چاہتی تھی قوم کے ساتھ برتاؤ کرتی تھی اور وہ کسی کو جواب دہ بھی نہیں ہوتی تھی۔ در حقیقت پوری قوم مٹھی بھر لوگوں کی یرغمال بنی ہوئی تھی۔ یہ بھی ایک طرح کی آمریت تھی۔ ایک آمریت سرمایہ داروں کی آمریت ہے جو نام نہاد جمہوری نظاموں میں لبرل ڈیموکریٹک نظاموں میں دیکھنے میں آتی ہے۔ یہ بھی ایک طرح کی آمریت ہے، تاہم بالواسطہ اور زیرکانہ آمریت، یہ سرمایہ داروں اور دولتمندوں کی آمریت ہوتی ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ان انسانی طاغوتوں کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ تشکیل دی۔ اسلام کو، جس میں عوام، عوامی رائے اور عوامی خواہشات کو محور بنایا گيا ہے، اس نظام کی اصلی بنیاد بنایا۔ بنابریں اسلامی جمہوریہ میں جمہوریت بھی ہے یعنی اس کا دارومدار عوامی رائے پر ہے اور اس میں اسلامیت بھی ہے یعنی یہ اسلامی شریعت پر استوار ہے۔ یہ ایک نیا نمونہ ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی یہ ایک اہم خصوصیت ہے۔ جو بھی اسلامی حاکمیت کے تعلق سے اس سے الگ سوچ رکھتا ہو وہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی فکر کے خلاف ہے۔ اسے یہ دعوی کرنے کا حق نہیں کہ وہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا پیرو بھی ہے اور ساتھ ہی اس فکر کا بھی حامل ہے۔ جی نہیں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا مکتب فکر یہ ہے اور یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی سب سے واضح خصوصیت ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر اور آپ کے راستے کے تعلق سے ایک اور اہم مسئلہ لوگوں کو قریب اور دور کرنے کا ہے۔ عظیم ہستیوں کے یہاں لوگوں کو خود سے قریب اور دور کرنے کا سلسلہ بھی وسیع ہوتا ہے۔ سب کے یہاں یہ چیز پائی جاتی ہے۔ آپ اپنے برتاؤ سے کسی کو اپنی جانب مائل اور راغب کر لیتے ہیں اور جبکہ دوسرا شخص آپ کے اس برتاؤ سے دل برداشتہ ہو جاتا ہے۔ بڑی ہستیاں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنی جانب راغب و مائل کر لیتی ہیں اور اسی طرح بڑی تعداد میں لوگ ان کے مخالف بھی ہو جاتے ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے تعلق سے یہ دونوں چیزیں دیدنی تھیں۔ لوگوں کو اپنے سے قریب یا دور کرنے کے سلسلے میں بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے یہاں معیار وہی مکتب فکر تھا، اسلام تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں ماہ رمضان میں وارد ہونے سے متعلق دعا میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں۔ ہم نے بارہا یہ تاکید کی ہے کہ امام سجاد علیہ السلام کی دعائیں واقعی اسلامی معارف و تعلیمات کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ ان دعاؤں میں ایسے معارف اور ایسی تعلیمات موجود ہیں کہ جنہیں انسان روایتوں اور احادیث کے ذریعے حاصل نہیں کر سکتا۔ دعاؤں میں یہ چیزیں صراحت کے ساتھ بیان کر دی گئي ہیں۔ صحیفہ سجادیہ کی چوالیسویں دعا میں جو ماہ رمضان میں داخل ہونے پر امام کی زبان پر جاری ہوئی ہے۔ اس دعا میں امام سجاد علیہ السلام اللہ تعالی سے کچھ چیزوں کی التجا کرتے ہیں ان چیزوں میں ایک یہ ہے کہ و ان نسالم من عادانا پالنے والے! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے تمام دشمنوں سے ہماری صلح و مفاہمت ہو جائے۔ آشتی اور رواداری پر عمل کریں۔ اس کے بعد فورا فرماتے ہیں کہ «حاشى من عودى فيك و لك فأنه العدوّ الّذى لانواليه و الحرب الّذى لانصافيه» سوائے اس دشمن کے جس سے میں نے تیری خاطر دشمنی مول لی ہے، جس سے میں نے تیری راہ میں دشمنی کی ہے۔ یہ ایسی دشمنی ہے جس کے لئے ہم آشتی کا لفظ بھی زبان پر نہیں لا سکتے اور ہمارا دل اس کی طرف سے کبھی صاف نہیں ہوگا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بھی ایسے ہی تھی۔ کسی سے آپ کی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ اگر کوئی ذاتی اور شخصی کدورت ہوتی بھی تو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اسے نظر انداز کر دیتے تھے۔ لیکن مکتب فکر کی بنا پر ہونے والی دشمنی کے سلسلے میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بہت سنجیدہ تھے۔ وہی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) جنہوں نے انیس سو باسٹھ میں تحریک کے آغاز کے وقت سے ہی عوام کے لئے اپنا دروازہ کھول دیا تھا، گوناگوں افکار و نظریات والے لوگوں کے لئے آپ کی آغوش کھلی ہوئي تھی، لوگوں کو خواہ وہ کسی بھی قومیت، گروہ اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے تھے، لیکن یہی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) انقلاب کے اوائل میں ایک گروہ کو خود سے دور کر دیتے ہیں۔ کمیونسٹوں کو کھل کر خود سے دور کیا۔ اس وقت ہم میں سے بہتوں کے لئے جو اوائل انقلاب سرگرم عمل تھے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا یہ اقدام بہت عجیب تھا۔ انقلاب کے اوائل میں ہی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے کمیونسٹوں کے سلسلے میں دو ٹوک موقف اپنایا اور انہیں خود سے الگ کر دیا۔ لبرل خیالات والوں اور مغربی تہذیب اور نظاموں کے فریفتہ لوگوں کے سلسلے میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے سختی برتی، انہیں خود سے دور کر دیا، اپنے سے الگ کر دیا۔ کوئی نرمی اور رو رعایت نہیں کی۔ رجعت پسندوں کو جو الہی امور کے حقائق کو، روح قرآنی کو، احکام اسلامی اور عظیم تبدیلی کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے، اپنے سے الگ کر دیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے رجعت پسندوں کی سخت اور تند الفاظ میں مذمت کی اور خود سے دور کیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ان افراد سے خود کو الگ کرنے میں ایک لمحہ بھی دیر نہیں کی جو آپ کے اسلامی اصولوں کے دائرے میں نہیں سماتے تھے، حالانکہ ان سے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ آپ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے وصیت نامے پر غور کیجئے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اسی وصیت نامے میں ملک کے اندر مجرمانہ اقدامات کرکے بیرون ملک بھاگ جانے والے کمیونسٹوں کو مخاطب کرتے ہیں۔ آپ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے لہجے پر غور کیجئے۔ آپ ان سے فرماتے ہیں کہ آپ وطن واپس آئیے! قانون اور انصاف آپ کے لئے جو سزا معین کرے اسے تحمل کیجئے تاکہ آپ کو عذاب الہی اور غضب الہی سے نجات مل جائے۔ ان لوگوں سے ہمدردانہ لہجے میں بات کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اگر آپ میں یہ جرئت نہیں کہ واپس آئیں اور سزا کو قبول کریں تو کم از کم آپ اس وقت جہاں ہیں وہیں اپنا راستہ بدل لیجئے، توبہ کیجئے۔ ملت ایران کے خلاف، اسلامی نظام کے خلاف اور اسلامی تحریک کے خلاف کام نہ کیجئے، بڑی طاقتوں اور استبدادیوں کے لئے، نظام سے برگشتہ افراد کا کردار ادا نہ کیجئے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی لیکن مکتب فکر کے دائرے میں پوری سنجیدگی اور سختی کے ساتھ دور کرنے اور قریب کرنے کے اصول پر عمل کرتے ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی زندگی اور آپ کے مکتب فکر کی یہ ایک اہم خصوصیت ہے۔ سیاسی میدان میں بھی دوستی اور دشمنی اسلامی اور دینی اصولوں کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔ اس میدان میں بھی معیار اور بنیاد یہی ہونا چاہئے۔ انسان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی اس سے کیا چاہتا ہے۔ جو طرز عمل امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اختیار کیا اور جو انداز آپ کی رفتار و گفتار میں نمایاں ہے اس کے مد نظر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انسان خود کو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کا پیرو بھی قرار دے اور ساتھ ہی خود کو ان افراد کے خیمے میں شامل سمجھے جنہوں نے اسلام اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی مخالفت کا علم بلند کر رکھا ہے۔ یہ قبول نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جس نقطے پر امریکا، برطانیہ، سی آئی اے، موساد، منافقین اور سلطنت نواز متفق ہوں، جمع ہوں، اسی نقطے کے بارے میں کہا جائے کہ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کا جز ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا، یہ قابل قبول نہیں ہے۔ ہر کس و ناکس سے دوستی نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے کل کے دشمنوں نے ہمارے سلسلے میں کیا موقف اختیار کیا ہے۔ اگر ہم دیکھیں کہ سامراجی امریکا، غاصب صیہونی، گوناگوں طاقتوں کے مہرے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ)، اسلام اور انقلاب کے مخالفین کو ہمارا موقف پسند آنے لگا ہے، وہ اس کی تعریف کر رہے ہیں تو ہمیں اپنے موقف پر نظر ثانی کرنا چاہئے، ہمیں سمجھ جانا چاہئے کہ ہم صحیح راستے پر نہیں ہیں۔ یہ ایک معیار ہے، پیمانہ ہے اور کسوٹی ہے۔ خود امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے بارہا یہی فرمایا ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) فرماتے تھے کہ اگر (دشمنوں نے) ہماری تعریف کی تو ہمیں سمجھ جانا چاہئے کہ ہم سے خیانت سرزد ہوئی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ یہ باتیں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی تحریروں اور یقینی فرمودات میں ہیں۔ کچھ لوگ آئیں اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے بالکل مخالف سمت میں چلیں، یوم قدس پر مسئلہ قدس کے سلسلے میں کچھ الگ ہی رخ دکھائیں، عاشور (چودہ سو اکتیس) کے دن وہ نازیبا حرکتیں کریں، اس کے بعد بھی ہم ان لوگوں کے ساتھ جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اصولوں اور آپ کی تحریک کے سراسر مخالف ہیں یکجہتی کا اظہار کریں، خود کو ان کی معیت میں پہنچا دیں، ان کی تعریف کریں یا ان کے مقابلے میں خاموشی اختیار کر لیں اور ساتھ ہی یہ دعوی بھی کرتے رہیں کہ ہم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے پیروکار ہیں! تو یہ بات ہرگز قابل قبول نہیں ہوگی، یہ کیسے ممکن ہے؟ عوام بھی اس چیز کو خوب سمجھتے ہیں، لوگ دیکھتے ہیں، جانتے ہیں، پہچانتے ہیں، درک کرتے ہیں۔ ایک اور پیمانہ جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر اور روش کے تعلق سے بہت اہم ہے، روحانی اور الہی محاسبے کا معاملہ ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اپنے فیصلوں اور تدابیر میں محاسبہ الہی کو پہلے درجے پر رکھتے تھے۔ یعنی کیا؟ یعنی یہ کہ انسان جو کچھ بھی کرنا چاہے اس کا اولیں ہدف رضائے الہی کا حصول ہو، فتح کا حصول نہیں، طاقت کا حصول نہیں، فلاں شخص اور فلاں انسان کے سامنے سروخروئی حاصل کرنا نہیں۔ پہلا ہدف رضائے الہی ہو۔ ایک بات تو یہ ہے۔ دوسرے یہ کہ وعدہ الہی پر یقین و اطمینان رکھے۔ جب انسان کا ہدف رضائے پروردگار ہو اور اسے وعدہ الہی پر اعتماد و بھروسہ بھی ہو تو پھر مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی، خوف کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوگا، غفلت کا امکان ہی نہیں ہوگا، غرور کا کوئی احتمال ہی نہیں ہوگا۔
امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) جب اکیلے تھے تب بھی خوف میں مبتلا نہیں ہوئے، مایوسی کا شکار نہیں ہوئے، اور جب پوری ایرانی قوم آپ کے نام کے نعرے لگا رہی تھی بلکہ دوسری قومیں بھی آپ کی دلدادہ ہو چکی تھیں اور اس کا اظہار کر رہی تھیں تب بھی آپ غرور کا شکار نہیں ہوئے۔ جب جارح عراقیوں نے خرم شہر پر قبضہ کر لیا تب بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) مایوس نہیں ہوئے اور جب ہمارے دلاورں نے خرم شہر کو اپنی فداکاری و جاں نثاری سے آزاد کروا لیا تب بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو کوئی غرور نہیں ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ خرم شہر را خدا آزاد کرد یعنی ہماری کوئی وقعت نہیں ہے۔ اس عظیم ہستی کی زعامت کے دوران گوناگوں واقعات میں یہی چیز دیکھنے میں آئی۔ جب آپ تنہا تھے تو گھبرائے نہیں اور جب آپ کے پاس طاقت آ گئی تب مغرور نہیں ہوئے اور کسی طرح کی کوئی غفلت بھی نہیں کی۔ یہ اللہ تعالی پر توکل ہے، جب رضائے پروردگار کا معاملہ ہو تو یہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کے وعدے پر یقین کرنا چاہئے۔ اللہ تعالی سورہ انا فتحنا میں ارشاد فرماتا ہے کہ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء»؛(6) منافق اور مشرک کی خصوصیات میں ایک یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے بد ظن رہتا ہے۔ اللہ کے وعدوں کو قبول نہیں کرتا، ان پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ جو اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ «و لينصرنّ اللَّه من ينصره»،(7) مومن انسان اپنے پورے وجود سے اسے قبول کرتا ہے لیکن منافق کو یقین نہیں آتا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ «عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و ساءت مصيرا».(8) جو لوگ اللہ تعالی کے سلسلے میں بد گمانی رکھتے ہیں ان کی یہ حالت ہوتی ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) وعدہ الہی پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ (آپ فرماتے تھے کہ) ہم اللہ تعالی کے لئے مجاہدت کریں گے، اللہ تعالی کے لئے قدم بڑھائیں گے، اپنی پوری طاقت لگا دیں گے نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے۔ ہم اپنے فریضے پر عمل کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی اسی فریضے کی ادائیگی کے پر بھی ہمیں بہترین نتائج عطا کرتا ہے۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی ایک اور اہم خصوصیت ہے۔ راہ انقلاب، انقلاب کا سیدھا راستہ یہی ہے۔ اسی ضمن میں ایک اور اہم چیز ہے تمام امور میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی تقوے کی پاسداری۔ شخصی اور ذاتی مسائل میں تقوی اور ہے، سماجی، سیاسی اور عمومی مسائل میں تقوا بہت مشکل چیز ہے اور ساتھ ہی بہت اہم اور موثر ہے۔ ہم اپنے دوستوں کے بارے میں، اپنے دشمنوں کے بارے میں کیا بات کرتے ہیں؟ اس سلسلے میں تقوا اپنا اثر دکھاتا ہے۔ ممکن ہے کہ ہم کسی کے مخالف ہوں، دشمن ہوں تو اس کے سلسلے میں ہمارا فیصلہ کیا ہوگا؟ اگر اس شخص کے بارے میں، جس سے آپ کی دشمنی ہے، مخالفت ہے، آپ کا فیصلہ خلاف واقع ہو تو یہ جادہ تقوا سے انحراف ہے۔ قرآن کی آیہ شریفہ جس کی میں نے تلاوت کی اس میں تاکید کے ساتھ ارشاد ہوتا ہے کہ «يا ايّها الّذين آمنوا اتّقوا اللَّه و قولوا قولا سديدا» قول سدید یعنی صحیح اور محکم، ہمیں اس طرح کی بات کرنی چاہئے۔ میں اپنے نوجوانوں سے اپنے انقلابی با ایمان اور عاشق امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نوجوانوں سے عرض کروں گا کہ آپ جو کچھ بولتے ہیں، لکھتے ہیں یا جو عمل کرتے ہیں اس کی بابت پوری طرح محتاط رہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی شخص کی مخالفت باعث بن جائے کہ ہم اس کے تعلق سے حق سے تجاوز کر جائیں، ظلم کرنے لگیں۔ ظلم نہیں کرنا چاہئے، کسی پر بھی ظلم نہیں کرنا چاہئے۔ میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ایک بات یہاں نقل کروں گا۔ ایک رات ہم لوگ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی خدمت میں تھے۔ میں نے آپ سے سوال کیا کہ فلاں شخص کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے، میں نام نہیں لینا چاہتا، یہ عالم اسلام کی ایک معروف ہستی تھی، سب نے یہ نام سنا ہے اور پہچانتے ہیں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے لمحے بھر سوچا اور فرمایا کہ میں نہیں جانتا۔ بعد میں اس شخص کے بارے میں مذمت کا ایک جملہ کہا۔ یہ بات ختم ہو گئی۔ میں اس کے دوسرے دن یا تیسرے دن، صحیح یاد نہیں ہے، صبح ہی کسی کام کے لئے آپ کی خدمت میں پہنچا۔ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا اور بیٹھا اور ابھی اس کام کے بارے میں بات شروع کرنا ہی چاہتا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ اس شخص کے بارے میں جو آپ نے سوال کیا میں بس یہی کہوں گا کہ نہیں جانتا۔ یعنی وہ مذمت آمیز جملہ جو آپ نے نہیں جانتا کے بعد کہا تھا کالعدم قرار دے دیا۔ آپ غور کیجئے یہ بہت اہم چیز ہے۔ اس مذمت کے جملے میں نہ کوئی گالی تھی، نہ تہمت تھی، خوش قسمتی سے میں بالکل بھول گیا کہ وہ جملہ کیا تھا، یہ آپ کی روحانی طاقت کا اثر تھا یہ میری کمزور یاد داشت، نہیں معلوم کیا بات تھی۔ صرف اتنا یاد ہے کہ مذمت کا جملہ تھا۔ آپ نے اس رات یہ جملہ کہا تھا اور اس کے دو دن بعد یا ایک دن بعد اسے رد کر دیا، فرمایا کہ بس اتنا ہی کہ میں نہیں جانتا۔ تو آپ دیکھئے کہ یہ اسوہ حسنہ ہے۔ «لقد كان لكم فى رسولاللَّه اسوة حسنة» جس شخص کو آپ نہیں جانتے اس کے بارے میں دو طرح سے بات کی جا سکتی ہے، ایک تو اس طرح کہ بالکل مطابق واقع ہو دوسرے اس طرح کہ اس میں زیادتی اور ناانصافی بھی شامل ہو جائے۔ یہ دوسرا طریقہ برا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ صرف وہی بات جو حق ہے، سچ ہے اور جس کے بارے میں آپ بارگاہ پروردگار میں وضاحت کر سکتے ہیں، کہئے اس سے زیادہ نہیں۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی ایک بنیادی صفت ہے جسے ہم سب کو یاد رکھنا چاہئے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی ایک اور اہم خصوصیت عوام کا کردار ہے۔ انتخابات کے سلسلے میں جس کے تعلق سے واقعی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ایک عظیم نمونہ پیش کیا اور انتخابات سے ہٹ کر مختلف سماجی مسائل میں بھی۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں مختلف انقلاب آئے، دنیا کے مشرقی اور مغربی حصے میں مختلف شکلوں کے انقلاب آئے لیکن کسی بھی انقلاب میں یہ چیز دیکھنے میں نہیں آئی کہ کامیابی کے دو مہینے بعد ہی حکومت اور نطام کی نوعیت کے تعین کے لئے استصواب رائے کرایا جائے لیکن امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ہمت و حوصلے کے نتیجے میں ایران میں ایسا ہوا اور انقلاب کو ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ آئین کی تدوین اور منظوری کا کام مکمل ہو گیا۔ ابتدائی مہینوں میں جب آئین کی تدوین مکمل نہیں ہوئی تھی اور موخر ہو گئي تھی تو مجھے یاد ہے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ایک دن ہم سب کو بلایا، ہم لوگ قم گئے، اس زمانے میں آپ ہنوز قم میں ہی تھے، آپ نے تیز لہجے میں فرمایا کہ آئین کی تدوین جلد مکمل کیجئے۔ اس کے بعد ماہرین کونسل کے انتخابات ہوئے اور عوام نے آئین کی تدوین کے لئے نمائندوں کا انتخاب کیا۔ جب آئین تیار ہو گيا تو ریفرنڈم کرایا گیا، عوام نے آئین کو منظوری دی۔ اس کے بعد صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ جنگ کے دشوار ترین ایام میں بھی جب تہران پر دشمن کی بمباری ہو رہی تھی، انتخابات رد نہیں کئے گئے۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ ایران میں انتخابات کو ایک دن کے لئے بھی ملتوی کیا گيا ہو۔ آپ کو دنیا میں اس طرح کی کون سی جمہوریت ملے گی؟ انقلابوں کی بات چھوڑیئے، کسی بھی جمہوریت میں اس باریک بینی کے ساتھ اور بر وقت ووٹ نہیں پڑتے۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی خصوصیت ہے۔ انتخابات سے ہٹ کر دیگر مسائل میں بھی بار بار امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے عوام کی مرضی اور رائے پر توجہ دی اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے عوام کے کردار کی اہمیت کا واضح عندیہ دیا اور کبھی صراحت کے ساتھ اسے بیان کیا۔ ایک موقعے پر آپ نے فرمایا کہ اگر حکام فلاں کام کو جو انہیں انجام دینا ہے، انجام نہ دیں تو عوام خود میدان میں آکر انجام دے دیں گے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی ایک اور خصوصیت آپ کی تحریک کا عالمی ہونا ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اپی تحریک کو عالمی تحریک مانتے تھے اور اس انقلاب کو تمام مسلمان اقوام بلکہ غیر مسلموں سے بھی متعلق سمجھتے تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو اس میں کوئی تامل نہیں ہوتا تھا۔ یہ دیگر ممالک کے امور میں مداخلت سے جو ہم کبھی نہیں کرتے، الگ چیز ہے۔ یہ کل کی سامراجی روش کی طرح انقلاب برآمد کرنے سے جو ہم ہرگز نہیں کرتے، مختلف چیز ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس رحمانی اور الہی حقیقت کی خوشبو پوری دنیا میں پھیلے، قوموں کو پتہ چلے کے ان کا فریضہ کیا ہے؟ مسلمان اقوام کو معلوم ہو کہ ان کا تشخص کیا ہے؟ تحریک کے عالمی ہونے کی ایک مثال مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا موقف ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے صریحی طور پر فرمایا کہ اسرائیل ایک سرطانی پھوڑا ہے۔ اب بتائیے کہ سرطانی پھوڑے کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟ اسے آپریشن سے نکال کر باہر پھینک دینے کے علاوہ اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے کوئی تکلف نہیں کیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی منطق یہ تھی۔ یہ جملہ کوئی نعرہ نہیں ہے۔ یہ ایک منطق ہے۔ فلسطین ایک تاریخی ملک ہے۔ طول تاریخ میں فلسطین نام کا ایک ملک رہا ہے۔ کچھ لوگ دنیا کی ستمگر طاقتوں کی حمایت سے آئے اور وحشیانہ ترین انداز میں انہوں نے عوام کو اس ملک سے نکال باہر کیا، انہیں قتل کیا، جلا وطن کیا، ان پر شکنجہ کسا، ان کی توہین کی، الغرض اس قوم کو نکال باہر کیا۔ نتیجے میں آج کئی ملین بے گھر فلسطینی مقبوضہ فلسطین کے ہمسایہ ممالک میں اور دیگر ملکوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں جن کی اکثریت پناہ گزیں کیمپوں میں رہ رہی ہے۔ اس طرح انہوں نے آکر ایک ملک کو دنیا کے جغرافیا سے ختم کر دیا، ایک قوم کو پوری طرح نابود کر دیا اور اس کی جگہ پر ایک جعلی اور مصنوعی جغرافیائی یونٹ مسلط کر دی اور پھر اس کا نام اسرائیل رکھ دیا۔ اب بتائیے کہ عقل و منطق کا تقاضہ کیا ہے؟ ہم مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں جو بات کہتے ہیں وہ محض نعرے بازی نہیں ہے۔ یہ سو فیصدی منطقی بات ہے۔ چند طاقتور ممالک جن میں پہلے سر فہرست برطانیہ تھا اور اب امریکا ہو گيا ہے ان کے حاشیہ بردار کچھ مغربی ممالک اب آکر کہتے ہیں کہ فلسطینی ریاست اور فلسطینی قوم کو مٹا دیا جانا چاہئے تاکہ اس کی جگہ پر اسرائیل نام کا جعلی ملک اور ملت اسرائيل کے نام سے ایک جعلی قوم کو معرض وجود میں لایا جائے، یہ تو ایک بات ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری بات امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ نہیں، یہ جعلی اور مسلط کردہ جغرافیائي یونٹ ختم کر دی جانی چاہئے اور اس کی جگہ پر اصلی قوم، اصلی ملک اور اصلی جغرافیائی یونٹ کو بحال کیا جانا چاہئے۔ ان دونوں باتوں میں منطقی بات کون سی ہے؟ وہ بات منطقی ہے جس کے مطابق طاقت کے ذریعے اور سرکوبی کرکے ایک سیاسی نظام کو ایک تاریخی اور جغرافیائی حقیقت کو جس کا کئی ہزار سالہ ماضی ہے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے، یا پھر یہ بات منطقی ہے کہ یہ اصلی جغرافیائی حقیقت باقی رہے اور جعلی و مسلط کردہ یونٹ کو مٹا دیا جائے؟ امام کا یہی کہنا تھا اور یہ غاصب اسرائیل کے سلسلے میں اور مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں کہی جانے والی منطقی ترین بات ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے یہ بات کہی اور پوری صراحت کے ساتھ کہی۔ اب اگر کوئی یہی بات اشارتا بھی بیان کرتا ہے تو بعض لوگ جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے پیروکار ہونے کے دعویدار بھی ہیں کہنے لگتے ہیں کہ آپ یہ بات کیوں کرتے ہیں؟! بھئی یہ تو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی بات ہے، یہ تو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا نظریہ ہے، یہ صحیح نظریہ ہے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں، دنیا کے تمام حریت پسندوں اور دنیا کی غیر جانبدار قوموں کو یہ بات قبول کرنی چاہئے، تسلیم کرنی چاہئے۔ یہ بالکل صحیح بات ہے اور یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا موقف ہے۔ آخر میں میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں نے دھوپ برداشت کی، اللہ آپ کو ماجور ومثاب فرمائے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے تعلق سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ افراد کے سلسلے میں فیصلہ ان کی موجودہ حالت کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے۔ افراد کا ماضی بنیاد قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔ ماضی کو بنیاد اس وقت بنایا جائے جب موجودہ صورت حال نامعلوم ہو، ایسی صورت میں انسان ماضی کو بنیاد قرار دیکر کہہ سکتا ہے کہ پہلے ایسا تھا تو اب بھی وہی صورت حال ہوگی