امام خمینی رہ اسلامی دنیا کی وہ واحد ہستی ہیں کہ جنہوں نے دنیا کے مسلمانوں کیلئے اُن کی دنیا میں ترقی اور آخرت میں نجات کے حصول کیلئے خاتم النبیین کی یاد اور ذکر برپا کرنے اور اُن کی آفاقی تعلیمات کو یاد کرتے ہوئے اُس پر عمل پیرا ہونے کی جانب توجہ دلائی۔ آپ نے اُمتِ مسلمہ کو ہفتہ وحدت منانے کا حکم دیا تاکہ شیعہ اور سنی مل کر جشن عید میلا دالنبی ص منا سکیں۔
دنیا کے تمام اسلام اور حریت پسند انقلابی مسلمان ۴، جون کو عالم اسلام کے عظیم رہنما اور مسئلہ فلسطین کو دنیا میں زندہ کرنے والی عظیم ہستی امام خمینی رہ کی برسی مناتے ہیں۔ یہ وہ عظیم بطل جلیل اور فرزند اسلام ہے کہ جس نے دورِ حاضر میں مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے اور اُسے عربوں کی قومیت سے نکال کر عالم اسلام اور مسلمانوں کے قبلہ اول کا بنیادی مسئلہ قرار دینے میں بنیادی اور اساسی کردار ادا کیا۔ اُنہوں نے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ایک ارب سے زیادہ تعداد رکھنے والے مسلمان اگر اپنے دست و بازو کی قوت کا یقین کر لیں تو دنیا کی کوئی بھی مادی طاقت و قدرت اُن کا سامنا نہیں کر سکتی۔ امام خمینی نے مسلمانوں کو عہد رفتہ کے شاندار ماضی اور از دست رفتہ تہذیب و عروج کو دوبارہ حاصل کرنے نیز اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے اسلام کے آفاقی نظام کی جانب لوٹایا۔ یہ امام خمینی ہی تھے کہ جنہوں نے دنیا کے تمام آزاد اور حریت پسندوں اور مسلمانوں سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل پر اگر ایک ایک بالٹی پانی بھی ڈالیں تو ان سب کی مدد سے اسرائیل صفحۂ ہستی سے نابود ہو جائے گا۔ اِسی طرح اُنہوں نے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ ’’جمعۃ الوداع‘‘ کو قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی اسرائیلی مظالم کا برسر عالم اعلان کرنے اور فلسطینی قوم سے اظہار یکجہتی کیلئے ’’یوم القدس‘‘ قرار دے کر مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرونے کیلئے عملی اقدامات کیے۔ ہم عالم اسلام کے اس عظیم رہنما کی برسی کے موقع پر دعاگو ہیں کہ امام خمینی کی دیرینہ آرزو جلد پوری ہو اور دنیا کے مسلمان جلد ہی قبلہ اول بیت المقدس میں نماز اتحاد و وحدت ادا کریں اور اسرائیل کا خاتمہ ہو۔ آمین
فلسطینی داستاں اور ہماری حالتِ زار:
فلسطین کی داستاں، ظلم و بربریت و سفاکیت کی داستاں ہے، یہ ایسے نشیب و فراز سے گزری ہے کہ جسے قرطاس و قلم بیاں کرنے سے عاجز ہے، مگر ہماری حالت تو بقول اکبر الہ آبادی کے ایسی ہے کہ ’’وہ لیٹے لیٹے دعا کریں، جرمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں!‘‘ ہم میں تو اتنا دم خم کہاں تھا کہ اپنے زور بازو کے بل بوتے فلسطین کو آزاد کراتے ،دامے درھمے سخنے اپنے فلسطینی مظلوم بھائیوں کی امداد کرتے بلکہ یہاں تو الٹی گنگا ہی بہہ رہی ہے ، جو بھی حق و حقیقت کی بات کرتا ہے ہم اُس کی ٹانگیں کھینچنا شروع کر دیتے ہیں، اسی پر کفر کے فتوے صادر کر کے اُسے دائرۂ اسلام سے خارج ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے پھولے نہیں سماتے، ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مسلمانوں کو تہہ تیغ کر کے خود کو غازی بنانے کی خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہوئے اُس کے خلاف جہاد کا الٹی میٹم دے کر اُس پر فتنہ و مفسد فی الارض کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے!
مسلمانوں کو مسئلہ فلسطین سے لاتعلق کرنے کی سامراجی چالیں:
چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں جو جوش و جذبہ دیکھنے میں آیا وہ قابل دید تھا، نوجوانوں کا جوش و خروش، حریت، جذبہ جہاد، ایک اسلامی سرزمین کی حفاظت کیلئے کیے گئے عہد کا خیال مسلمان اقوام میں باآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب پورے عالم اسلام میں ایک ہلچل مچی تھی اور بچے، بوڑھے، جوان اور زن و مرد سب ہی اسرائیل کے خلاف غصے اور نفرت کے جذبے سے سرشار تھے۔ سامراج نے اِس عوامی غم و غصے کو کم کرنے کیلئے بتدریج چالیں چلیں کہ جن کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
۱۔برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل سمیت دوسرے ہمنواؤں کے اتحاد اور اندرونی غداروں اور مسلمان منافق حکمرانوں کی سازشوں سے نہ صرف مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا بلکہ مصر سے وادئ سینا اور لبنان اور شام سے جولان کی پہاڑیوں کے ہاتھ سے نکلنے کے ساتھ ساتھ سیاسی و عسکری میدان میں مسلمانوں کی شکست و ہزیمت نیز ہمت و حوصلوں کی پسپائی ہمارا مقدر بنی۔
۲۔ دوسر ی جانب جب عرب حکمراں ہمت ہار بیٹھے اور وہ دولت و اقتدار کے نشے میں غرق ہو کر دنیا و مافیہا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے۔
۳۔تیسری جانب امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں اُس کے گماشتے اسرائیل کی جانب سے غافل مسلماں حکمرانوں کو اُن کے اقتدار کی ضمانت و حفاظت کیلئے اُنہیں دکھائے جانے والے سبز باغوں کی طویل فہرست نے اِن حکمرانوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا۔ یہ سب تو فلسطین سے باہر کی کہانی ہے اب آئیے ذرا اندر کی داستاں بھی سن لیں۔
۴۔ چوتھی جانب فلسطینی مزاحمت و جہاد کا راستہ روکنے اور اسلامی حمیت و غیرت کا جنازہ نکالنے جیسے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سیاست میں ’’مذاکرات‘‘ کی روش کو روشناس کرایا گیا تاکہ ’’ٹیبل ٹاک، ٹالرینس اور تساہل و تسامح ‘‘ کی روش پر گامزن ہوتے ہوئے فلسطین کے اندر سمجھوتے اور مک مکا کی سیاست کو فروغ دیا جائے۔ ان تمام مقاصد کو عملی کرنے کیلئے اسرائیل کو یاسر عرفات اور اُس کے ہمنواؤں سے بہتر کوئی اور خدمت گزار ملنا مشکل تھا۔ یہ وہ افراد ہیں کہ جنہوں نے فلسطین کی جہادی روح کا قتل عام کیا اور فلسطینی قوم کو اُس کے مقصد کے حصول میں کئی دہائیو ں پیچھے چھوڑ دیا۔
فلسطینی قوم پر مظالم کی ایک جھلک:
۱۹۴۸ سے لے کر دو عشرو ں تک ذلت و رسوائی کی یہی صورتحال چھائی رہی، قومیں حسرت و یاس سے امت مسلمہ کا مٹتا وقار دیکھتی رہیں، مرتی رہیں، جیتی رہیں، تڑپتی رہیں، سلگتی رہیں، تختۂ دار پر لٹکتی رہیں۔ جو فلسطین میں تھے اُن کے گھر اجڑتے رہے، اسکول ویران ہوتے رہے، ہسپتالوں کو مسمار کیا جاتا رہا اور........
زمینوں پر قبضہ ہوتا رہا۔ اِن فلسطینیوں کا قتل عام جا ری رہا ، خوں بہتا رہا، سڑکیں خوں میں نہاتی رہیں، جو پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے وہ سسکتے، بلکتے، تڑپتے، مچلتے رہے، جو صابرا و شتیلا کے کیمپوں میں قتل و غارت سے محفوظ رہے وہ زندان کی سلاخوں کے پیچھے اسیروں کی تعداد میں اضافہ کرتے رہے۔
جو موت کے گھاٹ اترنے سے بچے انہیں پر ظلم و بربریت، تحقیر و اہانت اور تذلیل و سبکی کی تند و تیز آندھیوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ جو اسرائیلی اور صہیونی درندوں کے ہاتھوں ذبح اور مسلح ہونے سے بچ گئے اُنہیں جلاوطن کر کے اپنے ہی ملک کی آزاد فضا میں سانس لینے سے محروم کر دیا۔ جو فلسطین کے اندر اقتدار کے خدا بن کر
ناسور بنے رہے وہ قوم کے سرخ لہو کی ندیاں بہتے دیکھتے رہے، مذاکرات کرتے رہے اور یہ وہی قوم فروش افراد ہیں کہ جنہوں نے کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو مذاکرات میں فلسطینی قوم کی غیرت و حمیت کا سودا کر کے ذلت رسوائی کو قوم کو ہدیہ کیا!
زندہ ضمیر، سرفروش و جہادی مجاہدین اور حقیقی اسلام کے علمبردار علماء کی کوششیں:
یہ سلسلہ یونہی جاری رہا... ، لیکن چند زندہ ضمیر والے، سرفروش، جہادی، حقیقی اسلام کے علمبردار علما، سچے اور دردمند رہنما، نوجوان اور اسلامی امت کا دل کی گہرائیوں سے درد رکھنے والے افراد گاہے بگاہے فلسطین اور فلسطین سے باہر عملی اقدامات کرتے رہے، شہادتیں دیتے رہے، جہاد کرتے رہے، لیکن یہ سب ایک خاص حد اور دائرے میں تھا اور اِس کے اثرات بھی محدود تھے۔ دوسری جانب امریکہ نے اسرائیل کو ناجائز وجود عطا کر کے اس پورے خطے میں اُسے امن و امان فراہم کرنے کی خاطر خطے کے تمام اسلامی ممالک کو اپنے ساتھ ملانا شروع کر دیا۔ خطے کے اکثر اور فلسطین کے اطراف کے تمام عرب و غیر عرب ممالک اسرائیل دوست بن کر فلسطینی قوم کی بےبسی ،ذلت و رسوائی ،بےچارگی اور مظلومیت کے خاموش اور بےبس تماشائی بنے رہے۔
مردِجری امام خمینی رہ کے شعار:
ایسے میں مشرق وسطیٰ کے علاقے سے کہ جہاں اسرائیل نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھے اور ملک و قوم اور تعمیری کردار ادا کرنے والے طبقے کو سلایا ہوا تھا، اچانک ایک مرد جری اٹھتا ہے اور ظلم و ظالم کی بساط الٹ کر دین کا بو ل بالا کر دیتا ہے۔ اِس مر دجری کو تاریخ میں ’’امام خمینی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 1963ء میں امام خمینی نے اپنی اسلامی تحریک کا آغاز کیا اور آپ نے تین شعار بلند کیے؛ 1۔ شاہ ایران کی حکومت غیر اسلامی ہے،2۔ اسلام خطرے میں ہے
3۔ اسرائیل ایک ظالم حکومت ہے۔
امام خمینی رہ نے اپنی تحریک کی ابتدا ہی سے علما اور عوام کے ساتھ مل کر ایک شہنشاہیت کی بنیادوں پر قائم، غلط، فاسد اور غیر اسلامی نظام کے خلاف اپنی جدو جہد کا آغاز کیا لیکن اُنہیں اس جرم کی پاداش میں جلا وطن کر دیا۔ آخر کار 15 سال کی جلاوطنی کے بعد امام خمینی یکم فروری کو دوبارہ ایران واپس پہنچے اور اسلامی انقلاب کامیاب ہوا۔ اسلامی حکومت و نظام کی تشکیل کے بعد آپ نے دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک مرتبہ اور اتحاد کی جانب عملی قدم بڑھانے کی دعوت دی اور اِس مقصد کیلئے سب سے پہلے خود قدم بڑھایا۔
امام خمینی رہ کی دعوت:
امام خمینی رہ نے اپنی تحریک کی ابتدا ہی سے جہاں ایران میں اسلامی نظام کے نفاذ کی کوششیں کیں وہیں آپ نے دنیا کے تمام اسلامی ممالک کو اسلام کی آغوش میں لوٹنے کی جانب دعوت دی۔ امام خمینی کی فکر، نظریہ اور دعوت تمام عالم اسلام کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ آپ نے اپنی تحریک کی ابتدا ہی سے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایک متحد، منسجم، مضبوط اور متفق اسلامی دنیا کا تصور پیش کیا۔ آپ نے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا کہ یہ قرآنی دعوت درحقیقت اُسی وقت قابل عمل ہو سکتی ہے کہ جب دنیا کے تمام مسلمان اپنے فقہی اور جزئی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک اللہ، ایک دین، ایک قبلہ، ایک کتاب اور ایک خاتم المرسلین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں۔
اُمتِ واحدہ کا تصور دشمن شناسی اور اُس کی چالوں کو سمجھے بغیر ممکن نہیں:
یہی وجہ ہے کہ اما م خمینی نے عالم اسلام کو دشمن شناسی کی جانب متوجہ کیا۔ اُن کے مکتب میں امت واحدہ کا تصور’’ دشمن شناسی اور اُس کی چالوں کو سمجھے بغیر ‘‘ممکن نہیں۔ امام خمینی کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ آپ نے عالم اسلام کو سب سے پہلے امریکہ اور اسرائیل کے خطروں سے ہوشیار کیا اور ساتھ ہی فلسطینی قوم کی مظلومیت اور اسرائیل کے ظالم وجود اور ظلم و ستم کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اِنہی جرموں کی پاداش میں آپ کو جلاوطن کیا گیا لیکن آپ سیرت رسول اکرم پر چلتے ہوئے اپنے مقدس اور نیک مقصد سے دستبردار نہیں ہوئے اور آپ جہاں بھی تشریف لے گئے آپ نے وہاں اسلام کی درد بھری داستاں سے سب کو آگاہ کیا اور لوگوں کو اسرائیل کے خطرے سے باخبر کیا۔
امت مسلمہ اور ہفتہ وحدت:
امام خمینی رہ اسلامی دنیا کی وہ واحد ہستی ہیں کہ جنہوں نے دنیا کے مسلمانوں کیلئے اُن کی دنیا میں ترقی اور آخرت میں نجات کے حصول کیلئے خاتم النبیین کی یاد اور ذکر برپا کرنے اور اُن کی آفاقی تعلیمات کو یاد کرتے ہوئے اُس پر عمل پیرا ہونے کی جانب توجہ دلائی۔ آپ نے اُمتِ مسلمہ کو ہفتہ وحدت منانے کا حکم دیا تاکہ شیعہ اور سنی مل کر جشن عید میلا دالنبی ص منا سکیں۔
دشمن مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دے رہا ہے:
اِن تمام امور کے ساتھ ساتھ آپ نے تمام مسلمانوں کو اُن کے مشترکہ دشمن اور اُس کی چالوں کی جانب متوجہ کیا۔ امام خمینی مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں دشمن کے اختلافات، تفرقے، کمزوری و ضعف نیز اِن سب مشکلات کے راہ حل کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ بات ایک معما کی صورت میں میرے سامنے موجود ہے اور وہ یہ کہ تمام اسلامی حکومتیں اور مسلمان اقوام یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں کہ اُن کا درد کیا ہے اور وہ اِس بات سے بھی اچھی طرح باخبر ہیں کہ یہ دشمن کا ہاتھ ہے جو اُن کے درمیان اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے اُنہیں ایک دوسرے سے دور کر رہا ہے۔ اُن کے علم میں یہ بات بھی ہے کہ مسلمانوں کے باہمی تفرقے سے نابودی اور کمزوری اُن کا مقدر بنی ہے۔ اگر دنیا کے تمام مسلمان آپس میں متحد ہو جاتے اور اسرائیل پر ایک ایک بالٹی پانی بھی ڈالتے تو اسرائیل بہہ جاتا لیکن اِس کے باوجود وہ اسرائیل کے سامنے ذلت کا شکار ہیں! اصل معمہ یہی ہے کہ وہ یہ سب جاننے کے باوجود اِس مشکل کے حقیقی راہ حل یعنی اتحاد و اتفاق کی جانب رجوع کیوں نہیں کرتے؟ اور استعمار کی جانب سے اُنہیں کمزور بنانے کی تمام سازشوں کو ناکام کیوں نہیں بناتے؟!‘‘
فلسطینی مجاہدین کی مدد ہمارا فریضہ ہے:
امام خمینی نے دوسرے رہنماؤں کی مانند صرف زبانی جمع خرچ کو ہی اپنا شعار نہیں بنایا بلکہ آپ نے فلسطینی مجاہدوں کی دامے درھمے سخنے امدا د کیلئے بھی مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے دشمن اسرائیل سے مقابلے کیلئے خود کو تیار کریں، آپ فرماتے ہیں: ’’بعض اسلامی ممالک کے سربراہوں کا اختلافِ نظر، ایک ارب کے قریب تعداد رکھنے والے مسلمانوں کو اِس بات کا موقع فراہم نہیں کر رہا ہے کہ وہ اپنے معدنی ذخائر اور قدرتی منابع اور خدا کی عطا کردہ دولت رکھنے کے باوجود استعمار اور صہیونیوں کا راستہ روک سکیں۔ بعض عرب حکومتوں کی خود خواہی، خود غرضی اور اسرائیل کے سامنے اُن کا تسلیم محض ہونا اِس بات میں رکاوٹ بنتا ہے کہ لاکھوں مسلمان، فلسطین کو اسرائیلی قبضے اور غصب سے نجات دلائیں۔
سب کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ بڑی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کو وجود عطا کرنے کے بعد بھی اُن کے مقاصد اور اہداف ختم نہیں ہوں گے،اُن کا منصوبہ ہے کہ وہ تمام اسلامی ممالک کو فلسطین کی مانند اپنا اسیر و قیدی بنا لیں۔ آج ہم فلسطین کو آزادی دلانے کیلئے ایسے مجاہدوں کو دیکھ رہے ہیں جنہوں نے فلسطین کو آزادی دینے اور اُسے اسرائیلی قبضے سے رہائی عطا کرنے کیلئے سروں پر کفن باندھ کر جہاد شرو ع کر دیا ہے!‘‘
مسلمان خود کو اسرائیل کے مقابلے کیلئے تیار کریں:
امام خمینی رہ کے نزدیک مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کا احترام اور اُس کی آزادی حد درجہ اہمیت کی حامل ہے لہٰذا جب بھی وہ قبلہ اول کو یہودی پنجوں میں قید دیکھتے تو اُن کا دل خون کے آنسو روتا اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے دو کروڑ کی عالمی فورس تیار کرنے کا حکم بھی صادر کیا۔ آپ فرماتے ہیں: ’’آج مسلمانوں کا قبلہ
اول سرطانی غدے اسرائیل کے ہاتھوں میں گرفتار ہے، وہ آج ہمارے فلسطینی بھائیوں کو تمام قدرت و طاقت کے ساتھ ظلم و ستم کا نشانہ بنائے ہوئے اُنہیں اُن کے خون میں نہلا رہا ہے۔ یہ اسرائیل ہی ہے جو تمام شیطانی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے تفرقہ انداز ی کر رہا ہے۔ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ خود کو اسرائیل سے مقابلے کیلئے تیار و آمادہ کرے!‘‘
دشمن ہمیں لڑا کر ہمارے قدرتی ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے:
امام خمینی رہ مسلمانوں کو اُن کے اتحاد اور اُن کے ممالک کے قدرتی ذخائر کی دولت، اُن کی قدر و قیمت اور اُسے لوٹنے کیلئے دشمن کی سازشوں کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اگر ایک ارب سے زیادہ مسلمان اسرائیل کے خلاف قیام کریں تو اسرائیل اُن کا کچھ نہیں کر سکتا، اگر یہی مسلمان یوم القدس کے دن باہر آ کر مردہ باد امریکہ اور مردہ باد اسرائیل کے فلک شگاف نعرے لگائیں توی ہ نعرے اُن کیلئے موت کا پیغام ثابت ہوں گے۔ اِن مسلمانوں کی تعداد بھی ایک ارب سے زیادہ اور اِن کے پاس بیش بہا قیمتی قدرتی ذخائر بھی موجود ہیں اور یہ تمام حکومتیں ان تمام ذخائر کی محتاج ہیں لیکن اِن سب کے باوجود وہ مسلمانوں کو مجبور کرتی ہیں کہ آپ اختلاف اور تفرقے کا شکار رہیں اور وہ آپ کے اختلاف و انتشار سے فائدہ اٹھا کر آپ کی دولت کو لوٹ لیں اور کوئی بھی کچھ نہیں بولے!‘‘
امام خمینی اور 1950ء سے صہیونی خطرے کا مسلسل بیان:
امام خمینی نے اپنی تحریک کی ابتداء سے قبل ہی عالم اسلام کیلئے اسرائیل کے خطر ے کو بھانپ لیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد آپ نے اسرائیل کے ناپاک وجود کے پس پردہ عوامل اور سازشوں کو سمجھتے ہوئے اسرائیلی منصوبوں کو بےنقاب کرنا شروع دیا تھا، آپ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کے قائم ہونے کے کچھ ہی مدت بعد یعنی 1980ء میں فرمایا: ’’میں تقریباً بیس سال قبل سے یعنی 1950ء سے ہی بین الاقومی سطح پر چھائی ہوئی صہیونیت کے خطرے سے مسلسل آگاہ کر رہا ہوں اور آج بھی میں اُس کے خطرے کو دنیا کے تمام آزادی بخش انقلابوں خصوصا اسلامی انقلاب کیلئے ماضی سے کمتر تصور نہیں کرتا ہوں اور حقیقت یہ ہے اِن خونخوار جونکوں نے دنیا کے مستضعف افراد کو شکست دینے کیلئے ایکا کر لیا ہے ۔‘‘
اگر حقیقت بین نگاہوں سے دیکھا جائے تو آج امام خمینی کی بصیرت افروز تقاریر اور فہم و فراست اور دوراندیشی مکمل طور پر کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ یقیناً امام خمینی کی پیشن گوئی اور آپ کا 1950 میں امریکہ کو ’’بڑا شیطان ‘‘ کہنا اور اسرائیل کے مذموم مقاصد سے آگاہی سب واضح ہو چکی ہے۔ اگر آج بھی مسلمان حکمراں ہوش کے ناخن لیں اور اسلام کی آفاقی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو ان کی کامیابی اور اسلام کی سربلندی کے ساتھ عالم کفر و نفاق کی نابودی یقینی ہو جائے گی۔ ضروری ہے کہ اہل پاکستان بھی باہم شیر و شکر ہو کر فقہی اور جزئی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر امت مسلمہ کے اتحاد و وحد ت کیلئے عملی اقدامات کریں۔ تمام مکاتب فکر کے علما، دانشور اور سنجیدہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کو امت واحدہ کے حقیقی تصور کیلئے سوچنے، سمجھنے اور عملی اقدامات کرنے کی جانب شوق و رغبت دلائیں۔ امید ہے کہ جلد ہی وہ وقت آئے کہ سب مسلمان قبلہ اول میں نماز وحدت ادا کریں۔