علامہ ساجد نقوی کا بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رہ کی 23 ویں برسی کے موقع پر پیغام

Rate this item
(0 votes)

رہبر انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی رہ اس صدی کے عظیم مفکر اور اسلامی معاشرے کی برجستہ علمی و انقلابی شخصیت ہیں۔ آپ نے علم و شعور اور عمل و کردار کے ذریعے مسلمانوں کی رہنمائی کرکے پیغمبرانہ فریضہ انجام دیا اور عوام کو اسلامی انقلاب کے ذریعہ اسلام کی صحیح اور آئیڈیل تصویر دکھائی۔ امام خمینی رہ نے اپنی ذاتی زندگی قرآن کریم کے فیضان، سیرت النبی ص سے الہام اور اہل بیت ع سے وابستگی کے ساتھ بسر کی، جبکہ اپنی اجتماعی زندگی میں بھی انہوں نے قرآن وسنت اور اہل بیت اطہار ع کی سیرت کے عملی پہلوؤں سے استفادہ کیا اور عوام کو اپنے ذاتی و اجتماعی مسائل کے حل کی طرف متوجہ کیا۔

امام خمینی رہ جیسی نابغہ روزگار شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ امام خمینی رہ دنیائے اسلام کی ایسی معتبر اور ارفع شخصیت ہیں جو علمی اور تحقیقی میدان میں سرکردہ حیثیت کی حامل ہیں اور عملی میدان میں بھی کامل رہبری و رہنمائی کا بہترین اور مثالی عملی نمونہ ہیں۔ ایسی ہمہ جہت شخصیات ہی وقت کے دھارے اور عوام کی تقدیر بدلتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ امام خمینی رہ نے اپنے اعلٰی و ارفع کردار سے تمام میدانوں میں عوام کی رہنمائی کی اور انہیں اسلامی انقلاب کے ذریعے جدید اسلامی ایران عطا کیا۔

امام خمینی رہ کی شخصیت میں بلاشبہ انبیاء ع کے اوصاف اور آئمہ کے کردار کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ نے ذاتی و اجتماعی زندگی میں انبیاء و مرسلین اور آئمہ معصومین ع کی جدوجہد سے الہام لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی زیر قیادت رونما ہونے والے انقلاب میں معاشرے کے تمام طبقات بلاتفریق شامل اور شریک تھے۔ اور جب انقلاب برپا ہوگیا تو ریاست کے تمام طبقات پر ثابت ہوگیا کہ امام خمینی رہ کی شخصیت فقط مذہبی، مکتبی، مسلکی یا جذباتی نہیں بلکہ نظریاتی، سیاسی، اجتماعی اور عالمی حیثیت کی حامل ہے۔ امام خمینی رہ کی اعلٰی اور دور اندیش قیادت کا اثر ہے کہ انقلاب ایران آج تک اپنی توانائی کے ساتھ موجود اور جاری ہے۔ حالانکہ دنیا کے دیگر انقلابات اپنی کمزور یا جذباتی قیادت یا عارضی ایشوز کی وجہ سے زوال کا شکار ہوتے چلے آئے ہیں۔ اسی صدی میں رونما ہونے والے انقلابات اور ان کی قیادتوں کا ماضی اور مستقبل ہمارے سامنے ہے۔

امام خمینی رہ اسلامی معاشروں میں فکری و عملی بیداری کا اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ ایک جامع اور کامل تصور رکھتے تھے۔ ہم ان کے خطابات میں اور ان کے تحریری شہ پاروں میں ان کے انقلابی منصوبوں کا بخوبی مطالعہ کرسکتے ہیں، جس میں انسان ایک طرف مشکلات کی گہرائیوں میں اترنے اور دوسری طرف ان مشکلات کے حل کی راہوں کو محسوس کرتا ہے۔ امام خمینی رہ نے اپنے سیاسی تجربے کی روشنی میں ایسی پالیسیاں تشکیل دیں جن سے ایک طرف ایرانی عوام کے افکار و نظریات اور عمل پر گہرے اثرات مرتب ہوتے تھے تو دوسری طرف شہنشاہی اور استبدادی نظام بھی ان پالیسیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ پالیسیوں کا یہ تسلسل انقلاب کے بعد بھی جاری رہا کہ جب بھی آپ کسی پالیسی کا اعلان فرماتے یا اجراء فرماتے تو اس کے اثرات جہاں ایران کے داخلی حالات پر پڑتے وہاں عالمی سطح پر بھی ایران کی عزت، مقام اور طاقت میں اضافے کا باعث بنتے۔

امام خمینی رہ کا انداز قیادت شہید کربلا حضرت امام حسین ع کے انداز کی طرح کا تھا۔ آپ نے عوام کی شعور اور علم کے ساتھ رہنمائی کی۔ جبر، جذبات یا مجبوری کو آپ نے اپنی کسی پالیسی یا اقدام میں شامل نہیں کیا، بلکہ اصول اور شعور کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں تشکیل دیں اور پھر جب انہی پالیسیوں کے اجراء اور منزل کے حصول کے لئے قربانیاں دینے کا مرحلہ درپیش آیا تو جانثاران کربلا کی طرح قربانی کے جذبے سے سرشار ہو کر ہزاروں جانیں قربان کر دیں۔ لیکن انقلاب کے لئے ڈالی گئی بنیاد کو کمزور نہیں ہونے دیا بلکہ علماء، شخصیات، سیاسی قائدین و کارکنان کی قربانیاں انقلاب کا زینہ ثابت ہوئیں اور انقلاب کی تقویت و استحکام کا باعث بنیں۔

امام خمینی رہ نے بظاہر صرف ایران کے عوام کی قیادت کرکے انہیں ایک عظیم اسلامی مملکت اور ایک عظیم اسلامی نظام کا تحفہ دیا، لیکن دراصل آپ فقط ایران نہیں بلکہ عالم اسلام کے رہبر و رہنما تھے کیونکہ آپ نے جن خطوط پر اپنی جدوجہد کی بنیاد رکھی وہ مقامی سے زیادہ عالمی نوعیت کے تھے۔ آپ نے جن طاقتوں کو ایران کا دشمن قرار دیا وہی طاقتیں دراصل اسلام اور مسلمین کی دشمن تھیں اور ان سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنا یقیناً ایک عظیم ذمہ داری تھی، جو امام خمینی رہ نے بخوبی ادا کی اور پورے عالم اسلام کو استعمار اور استبداد کی اسلام دشمن پالیسیوں اور اقدامات سے آگاہ کیا اور دیگر اسلامی ممالک کے باشعور اور باضمیر عوام کو متوجہ کیا کہ وہ ایرانی عوام کی اعلی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اپنے ملک میں جدوجہد کی آغاز کریں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ آپ کی قیادت نے بہت سارے اسلامی ممالک پر اثرات مرتب کئے اور وہاں اسلامی تحریکوں نے تقویت حاصل کی اور آج جن جن ممالک میں اسلام اور جمہوریت پسند یا استعمار و استکبار مخالف قوتیں سرگرم ہیں، وہ امام خمینی رہ کی شخصیت اور قیادت سے رہنمائی لے کر آگے بڑھ رہی ہیں۔

امام خمینی رہ کی اجتماعی شخصیت کا سب سے طاقتور اور اہم پہلو ان کا اتحاد بین المسلمین کا نظریہ تھا، یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ امام خمینی رہ سے قبل کسی شخصیت نے اس انداز میں عالمی سطح پر مسلمانوں کو متحد ہونے اور وحدت کے ساتھ اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ کرنے کی دعوت اور رغبت نہیں دی۔ امام خمینی رہ کو امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے فقط لفظی نہیں بلکہ عملی طور پر وحدت کو قائم کیا اور مسلمانوں کو وحدت کے نئے انداز اور نئے جذبے دیئے۔ آج امام کے وحدت کے نظریے کا اثر ہے کہ دنیا بھر کے تمام اسلامی ممالک اور اسلامی تحریکیں اسلامی جمہوریہ ایران سے والہانہ عقیدت رکھتی ہیں۔

ہم بھی امام خمینی رہ کے اسی نظریے کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان میں اتحاد و وحدت کے لئے تصوراتی نہیں بلکہ عملی میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل سے لے کر متحدہ مجلس عمل تک کا وجود ہم نے امام خمینی رہ کے نظریات اور تصورات کی روشنی میں تشکیل دیا۔ جس کے اثرات یقیناً مثبت اور تعمیری انداز میں مرتب ہوئے ہیں۔

امام خمینی رہ کی شخصیت فقط اسلام کے ایک جید عالم دین، مجتہد یا مذہبی و روحانی قائد کی نہیں اور نہ ہی آپ کی نظر یا مشاہدہ و مطالعہ علوم اسلامی تک محدود تھا بلکہ آپ اپنے وقت کے تمام سیاسی نظاموں، نظام ہائے حکومت و مملکت اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے انقلابات اور تبدیلیوں سے آگاہ و باخبر تھے۔ حتٰی کہ ان میں موجود نقائص و نقصانات اور انداز نفاذ پر گہری نظر رکھ کر اس کی نشاندہی فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے سوشلزم، کمیونزم، بادشاہت، آمریت اور نام نہاد جمہوریت کو متعدد بار چیلنج کیا اور ان نظاموں کی ناکامیوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اسلام کے اعلٰی سیاسی و دینی نظام حکومت و نظام زندگی کی برتری اور فضیلت و اہمیت کو ثابت کیا۔

روس کے صدر کے نام آپ کا معروف زمانہ خط تو آج تاریخ کا ایک یادگار حصہ بن چکا ہے کہ جس میں آپ نے کمیونزم کی دیوار گرنے کی سچی پیشن گوئی فرمائی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ روس کی شکست و ریخت اسی نظام کی وجہ سے ہوئی۔ عراق کی آمر قیادت کے بارے میں بھی امام خمینی رہ کے ارشادات سماعتوں میں ابھی تک گونج رہے ہیں۔ اس آمریت کا حشر بھی آج سب کے سامنے ہے۔

امام خمینی رہ کو ایک اور امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اقتدار اعلٰی کا محور و مرکز صرف خدا تعالٰی کی ذات کو قرار دینے کا نظریہ متعارف کرایا اور دنیا بھر میں سپر پاورز کی دعویدار طاقتوں اور ملکوں کے نظریے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے ’’سپر طاقت ہے خدا۔۔۔لاالہ الا اللہ ‘‘ کا ایسا نظریہ عطا کیا جو اس سے قبل عالمی سطح پر نہیں دیا گیا تھا۔ امام کی رحلت کے بعد بھی نام نہاد سپر طاقتوں کے مقابل صف آراء ہونے والی تمام مسلمان طاقتوں نے اس نظریے اور نعرے سے حوصلہ لے کر اپنی جدوجہد کی۔ امام امت کی ہمہ گیر شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ ان پر مختصر گفتگو یا تبصرہ کرنے کے لئے ایک دفتر درکار ہے۔

کسی شخصیت کے کردار پر روشنی ڈالنے کا مقصد محض اس شخصیت کے فضائل و مناقب بیان کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس شخصیت کے عمل و کردار کو یاد کرکے اپنے وقت اور معاشرے کی تعمیر اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو منظم کرنا ہوتا ہے۔ لہذا امام خمینی رہ کے ساتھ عقیدت اور وابستگی کا حقیقی اور عملی تقاضا یہی ہے کہ ہم ان کی عظیم اور آفاقی تعلیمات پر خصوصی توجہ دیں۔ اپنی ذات سے لے کر اپنے معاشرے تک انقلاب برپا کرنے کے لئے امام خمینی رہ کی ذات سے استفادہ کریں۔ امام خمینی رہ کی خدمات کا بہترین صلہ یہی ہوگا کہ ان کے علمی اور نظریاتی افکار کی ترویج کے ساتھ ان کے سب سے بڑے اثاثے یعنی ’’اسلامی انقلاب‘‘ کو اصل حالت میں محفوظ رکھ کر آگے بڑھایا جائے۔

Read 2072 times