احترام والدين قرآن کي روشني ميں

Rate this item
(0 votes)

ارشاد خداوندي ہوتا ہے:

(وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ الله وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا )

ترجمہ: اورجب ہم نے بني اسرائيل سے عہد ليا کہ خدا کے سوا کسي کي عبادت اور پرستش نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا-

تحليل آيت:

اس آيت شريفہ ميں اللہ تعا لي دو مطلب کي طرف پوري بشريت کي توجہ کو مبذول فرماتا ہے . توحيد عبادي ، يعني عبادت اور پرستش کا مستحق صرف خدا ہے، عبادت اور پرستش ميں کسي کو شريک قرار دنيا اس آيت کے مطابق شرک ہے کيونکہ خدا نے نفي اور اثبات کي شکل ميں فرمايا: لاتعبدون الا الله

يعني سوائے خدا کے کسي کي عبادت نہ کرنا کہ يہ جملہ حقيقت ميں تو حيد عبادي کو بيان کرنا چاہتا ہے اور علم کلام ميں توحيد کو چار قسموں ميں تقسيم کيا ہے:

1- تو حيد ذاتي کہ اس مطلب کو متعدد عقلي اور فلسفي دليلوں سے ثابت کيا گيا ہے-

2- توحيد صفاتي -

3- تو حيد افعالي-

4-تو حيد عبادي- توحيدعبادي سے مراد يہ ہے کہ صرف خدا کي عبادت کريں -کسي قسم کي عبادت ميں کسي کو شريک نہ ٹھر ائيں -

لہٰذا ريا جيسي روحي بيماري کو شريعت اسلام ميں شدت سے منع کيا گيا ہے اور شرک کو بد ترين گنا ہوں ميں سے قرارديا گيا ہے -

جيسا کہ خدانے صريحا آيت شريفہ ميں بيان کيا ہے کہ تمام گناہ توبہ کے ذريعہ معاف ہو سکتے ہيں الاالشرک مگر شرک کے کہ اس گناہ کو کبھي معاف نہيں کيا جاسکتا -

2- دوسرا مطلب جو خدا نے تو حيد عبادي کے ساتھ ذکر فرما يا ہے ''وباالوالدين احسانا'' کا جملہ ہے يعني ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کريں-

دنيا ميں ہر انسان فطري طور پر اس چيز کا معترف ہے کہ وہ خود بخود وجود ميں نہيں آياہے بلکہ کسي اور انسان کے ذريعہ عدم کي تاريکي سے نکل کر وجود کي نعمت سے مالا مال ہوا - لہٰذاانبياء الٰہي کي تعليمات اور تاريخي حقائق کے مطالعہ کر نے سے معلوم ہوتا ہے کہ پيدا ئش کے اعتبار سے پوري بشريت تين قسموں ميں تقسيم ہوتي ہے :

1- يا تو انسان کو والدين کے بغير خدا نے خلق کيا ہے يہ سنت کائنات ميں صرف حضرت آدم عليہ السلام اور حضرت حواء کے ساتھ مخصوص ہے ليکن حضرت آدم کے بعد خدا نے بشر کي خلقت ميں والدين کے وجود کو جز علت قراردياہے، يعني والدين کے بغير حضرت آدم(ع) اور حضرت حوا کے بعد کسي کو وجود نہيں بخشا ہے -

2-بشريت کي دوسري قسم کو صرف ماں کے ذريعے لباس وجود پہنايا ہے جيسے حضرت عيسي عليہ السلام کہ اس قصہ کو خدانے قرآن مجيد ميں مفصل بيان کيا ہے ، پيدائش کا يہ طريقہ بھي محدود ہے اورصرف حضرت عيسيٰ سے مخصوص ہے-

3- تيسري قسم وہ انسان ہے جسے اللہ نے والدين کے ذريعہ وجود ميں لايا ہے-

لہٰذا حضرت آدم عليہ السلام اور حضرت عيسيٰ عليہ السلام کے علاوہ باقي سارے انسان ماں باپ کے ذريعہ وجود ميں آئے ہيں اسي لئے والدين کے ساتھ نيکي کرنا اورحسن سلوک کے ساتھ پيش آنا ہر انسان کي فطري خواہش ہے، اگر چہ معاشرہ اور ديگر عوامل کي تاثيرات اس فطري چاہت کو زندہ اور مردہ رکھنے ميں حتمي کردار ادا کرتي ہيں-

پس اگر معاشرہ اسلامي تہذيب وتمدن کا آئينہ دار ہو تو يہ فطري خواہشات روز بروز زندہ اور مستحکم ہو جاتي ہيں، ليکن اگر کسي معاشرہ پر غير اسلامي تہذيب وتمدن کي حکمراني ہو تو فطري خواہشات مردہ ہو جاتي ہيں اور والدين کے ساتھ وہي سلوک روا رکھتے ہيں جو حيوانات کے ساتھ رکھتے ہيں-

لہٰذا دو ر حاضر ميں بہت ايسے واقعات ديکھنے ميں آتے ہيں کہ اکثر اولاد والدين کے ساتھ نہ صرف حسن سلوک نہيں رکھتے بلکہ بڑھاپے اور ضعيف العمري ميں بيمار ماں باپ کي احوال پرسي اور عيادت تک نہيں کرتے، حالانکہ اولاد اپنے وجود ميں والدين کي مرہون منت ہيں اور ان کي کاميابي پرورش اور تربيت ميں والدين کي زحمتوں اور جانفشانيوں کا عمل دخل ہے-

لہٰذا روايت ميں والدين سے طرز معاشرت کا سليقہ اور ان کي عظمت اس طرح بيان کيا گيا ہے کہ والدين کے ساتھ نيکي اور احسان يہ ہے کہ تم والدين کو کوئي بھي تکليف نہ پہنچنے ديں ،اگر تم سے کوئي چيز مانگے تو انکار نہ کريں، ان کي آواز پر اپني آواز کو بلند نہ کرے ان کے پيش قدم نہ ہو ان کي طرف تيز نگاہ سے نہ ديکھو اگر وہ تمھيں مارے تو جواب ميں کہو : ''خدايا ان کے گناہوں کو بخش دے اور اگر وہ تمھيں اذيت دے تو انہيں اف تک نہ کہو''-

Read 2556 times