ایک اہم مشکل جو تاریخ کے طویل دور ميں تمام انسانی معاشروں کو درپیش رہی ہے اور اب بھی موجود ہے ، فقر و تنگدستی اور مال وثروت کی تقسیم ميں عدم مساوات ہے ۔ بہت سے دانشوروں اور عالمی اقتصاد دانوں نے اس عظیم سماجی مشکل کے حل کے لئے اپنے اپنے طور پر ایک تجویز پیش کی ہے ۔
لیکن دین اسلام نے فقر و تنگدستی کےخاتمے کے لئے مختلف راہ حل اور طریقے پیش کئے ہیں کہ جن پر عمل ، فقیر و غنی کے فرق کو ختم کرنے یا کم از کم طبقاتی فاصلوں کے کم ہونے کا سبب بن سکتا ہے ۔ جیسا کہ صدر اسلام اور پیغمبر اسلام (ص ) کے زمانے ميں الہی فرمان اور دینی دستورات پر عمل کرنے سے ایسا ہی ہوا ۔ اگر کوئی معاشرہ گہرائی کےساتھ اسلامی دستورات پر عمل پیرا ہو جائے تو دولت و ثروت کی غیر منصفانہ تقسیم اورفقیر و دولت مند کے درمیان موجود فاصلہ اور مجموعی طور پر معاشی عدم مساوات کا معاشرے سے خاتمہ ہوجائیگا ۔فقر وتنگدستی کم کرنے کے لئے اسلامی اقدار کے دستورات میں سے ایک انفاق ہے ۔ قرآن مجید نے انفاق کےمسئلے پر بہت تاکید کی ہے اوراس سلسلے میں آيات قرآن بھی زیادہ وارد ہوئي ہیں ۔
خداوند عالم سورۂ بقرہ کی آیت 261 میں ارشاد فرماتا ہے جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانے کی ہے جس سے سات سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہربالی میں سوسو دانےہوں اور خدا جس کے لئے چاہتاہےاضافہ بھی کردیتاہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہےاور علیم ودانا بھی ۔ یعنی انفاق کا اجر وپاداش سات سو گنا ہے اور خداوند عالم جس کے لئے چاہتا ہے اس ميں کئی گنا اضافہ بھی کر دیتا ہے ۔
انفاق کے انسان کی جان ومال پر بہت عظیم اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ہماری آج کی قرآنی مثال ، مال ميں برکت اور زیادتی میں انفاق کے اثرات سے متعلق ہے ۔ خدا کی راہ میں خرچ کرنا نہ صرف مال وثروت میں کمی کا باعث نہیں ہے بلکہ اس میں زیادتی کا بھی سبب ہے ۔ قرآن کی نظر میں خدا کی راہ میں خرچ ہونے والے مال کی مثال اس دانے کی طرح ہے جسے زمین ميں چھڑک دیا جاتا ہے اورایک مدت کے بعد اس میں سات بالیاں نکل آتی ہيں اور ہر بالی میں کم از کم سو یا اس سے کم دانے نکلتے ہیں ۔ شروع میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسان نے جو بیج زمین پر چھڑکے اس نے گویا ان بیجوں کو ضائع کر دیا ہے لیکن کچھ دن صبر اور انتظار کے بعد معلوم ہوجاتا ہےکہ ہر دانے سے تقریبا سات سو دانے نکل آئے ہیں ۔ راہ خدا میں خرچ ہونے والے اموال میں بھی برکت اور اضافہ اسی طرح سے ہے ۔
پیغمبر اسلام (ص) نے راہ میں خدا میں خرچ ہونے والے اموال میں اضافے کے بارےمیں بہت خوبصورت اور گہر بار کلمات بیان کئے ہیں آپ فرماتے ہیں جو کوئی بھی صدقے ، انفاق اورمال حلال کے ذریعے مدد کرے تو خداوند رحمن اپنے داہنے ہاتھ سے اسے لیتا ہے اگرچہ وہ ایک دانہ خرما ہی ہو ، پھر وہ خرچ کیا ہوا مال خدا کے ہاتھ میں رشد و نمو کرتا ہے اور اس میں اتنا اضافہ کردیتا ہےکہ وہ مال ایک پہاڑ سے زیادہ ہو جاتا ہے ۔
راہ خدا میں مال کا انفاق کرنا انتہائی عظمت اور قدروقیمت کا حامل ہے ۔خاص طور پر اس وقت جب یہ عمل خالص نیت اور ایمان کے ساتھ ہو ۔ بعض مفسرین قرآن اس تعبیر اور قرآنی مثال کی اس طرح سے تفسیرکرتے ہيں کہ راہ خدا میں انفاق ، ان اعمال میں سے ہےجو معاشرے اور افراد پر متعدد آثار مرتب کرتے ہیں ۔ در حقیقت یہ عمل نہ صرف خرچ ہونےوالے مال میں اضافے کا باعث ہے بلکہ اس کے دیگر مثبت اثرات بھی ہیں جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت 261 میں ارشاد ہوتا ہےکہ ایک دانے سے سات سو دانے نکلتے ہیں اس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انفاق سے ، مال لینے والے فرد کی زندگی پر جس طرح معنوی و مادی اثر مرتب ہوتا ہے ، صدقہ دینے والے کی زندگی پر بھی اس کا اثر ظاہرہوتا ہے ۔ خدا کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال قبل اس کے کہ ضرورت مند کے لئے مادی فائدے کا حامل ہو معنوی فائدہ بھی کا بھی حامل ہے اور جتنا زیادہ یہ عمل اخلاص اور پاکیزگی کا حامل ہو اس کے مثبت آثار بھی اسی صورت میں ظاہر ہوتے ہيں ۔
دنیا میں انفاق کرنے والوں کی جزا ، معنوی اور روحانی امن و سلامتی ہے ۔ جو بھی عشق وایمان اور اخلاص کےساتھ الہی وعدوں پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کے فقیر اور محروم طبقے کے لئے تھوڑا سا مال خدا کی راہ میں دے دے تو اسے روحانی لذت اور امن و سکون حاصل ہوتا ہے ۔ انسان کو ایسا کرنے سےایسا قلبی اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے جو نوع بشر کی مدد کرنے میں فطرت کےتقاضے کےمطابق ہے ۔ اور معاشرے کے ایک ضرورت مند کی مدد کرنے سے فرد کو ذھنی آرام و سکون حاصل ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں صدقے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور انفاق کرنے والوں کے لئے عظیم اور دائمی اجر و پاداش کا وعدہ کیا گیاہے ۔ انفاق ایک عمل صالح ہے جواگر قرآن کریم کے دستور کے مطابق انجام پاجائے تو اسلامی معاشرے میں انسانی تشخص کونمایاں کرتا ہے اورافراد میں اسلام کے معاشی اقدار اور ثقافت کے زیادہ سے زیادہ اجاگر ہونے کا سبب بنتاہے ۔اسی طرح اصل میں انفاق ایک دینی قدر ہے جسے قرآن ، خداوند متعال سے عشق اور تقرب کا زینہ قرار دیتا ہے ۔
خدا کی راہ ميں خرچ کرنے کی اہمیت اور قدروقیمت اس حد تک ہےکہ قرآن مجید میں (80 ) سے زیادہ آیات میں اس کا ذکر کیا گیا ہے ۔ قرآن جب پرہیزگاروں کے صفات بیان کرتا ہے تو ان کی ایک صفت انفاق کرنا بیان کرتا ہے اور قرآن کی ابتدائی آیات میں خداوند عالم نے انفاق کو متقین کی اہم صفت کے طور پر بیان کیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : صاحبان تقوی اور پرہیزگار وہ ہیں کہ جو کچہ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتےہیں ۔ ( بقرہ -3 )
پرہیزگار افراد ، انفاق کو مال ميں کمی نہيں سمجھتے بلکہ اسے غنیمت جانتے ہیں لیکن جو افراد قرآنی معارف سے بہرہ مند نہیں ہیں اور وہ دنیا سے بھی لو لگائے ہیں تو وہ خدا کی راہ میں خرچ کرنےکو گھاٹا اور نقصان سمجھتےہیں ۔
ایک عابد تھا جو برسہا برس سے عبادت کیا کرتا تھا ایک دن خواب میں اسے خبر دی گئی کہ خداوند عالم نے تیرے لئے یہ مقدر فرمایا ہےکہ تو آدھی عمر غربت اورفقر میں اوربقیہ عمر خوشحالی اور مالداری میں گذارےگا اب یہ فیصلہ تجھے خود کرناہےکہ تو پہلے فقر کو اختیار کریگا یا دولت مند ہونے کو ۔ عابد نے کہا کہ میری زوجہ ایک مومنہ اور نیک عورت ہے پہلے اس سے صلاح مشورہ کرلوں ۔ عورت نے اسے صلاح دی کہ پہلے تم دولت کا انتخاب کرو ۔ وقت گذرنےکےساتھ ساتھ اس مرد عابد کی نعمت میں اضافہ ہوتا گیا ۔ عورت نے کہا اے مرد ، خدا کا وعدہ حق ہے جس طرح خدا تمہیں نعمت دے رہاہے تم بھی اس کی راہ میں انفاق کرو ۔ اس عابد نے ویسا ہی کیا ، اس کی آدھی عمر گذر گئی اور وہ اس کا منتظر تھا کہ کب فقیر ہوتا ہے لیکن اس کی زندگي میں کوئی فرق نہیں آیا اور خدا کی نعمتوں کا سلسلہ اس پر بدستور جاری رہا۔ اسے خبر دی گئی کہ تونے انفاق کے ذریعے ہمارا شکریہ ادا کیا تو ہم نےبھی تیرے مال میں مزید اضافہ کردیا ۔ مال کا شکریہ انفاق ہے جس طرح سے کہ اس کا انکار عدم انفاق ہے ۔
فرزند رسول خدا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں " خداوند عالم نے ثروتمندوں کے مال میں فقراء اور نیازمندوں کے لئے ایک حق مقرر کیا ہے جو ان کے لئے کفایت کرتا ہے یعنی اگر ثروتمند افراد اپنے واجب حقوق ادا کردیں تو ضرورت مند افراد بے نیاز ہوجائیں گے ۔ اور اگر وہ چیز جو صاحبان ثروتمند پر واجب کی گئی ہے ، وہ فقرا کی ضروریات برطرف کرنے میں ناکافی ہوتی تو خداوند عالم اس میں اور اضافہ کردیتا ۔ ضرورت مندوں کی احتیاج ، قانون الہی میں نقص نہیں ہے بلکہ ثروتمندوں کی جانب سے واجب حقوق کی عدم ادائیگی اس کا سبب ہے کیوں کہ اگر دولت مند اپنے واجب حقوق ادا کردیں تو نہ صرف معاشرے سے غربت کا خاتمہ ہوجائے بلکہ تمام لوگ آرام و سکون کے ساتھ زندگی گذارنے لگیں گے -