ہر زندہ مخلوق منجملہ انسان کی یہ کو شش ہوتی ہےکہ اپنی بنیادی ضروریات زندگي کی ، شناخت ،عطوفت ومہربانی اور جسمانی پہلوؤں سے تکمیل کرے کیوں کہ ان ضروریات کی عدم تکمیل ، خواہ وہ مادی لحاظ سے ہو یا معنوی اوراخلاقی اعتبار سے، انسان کی زندگي ميں خلل واقع ہونے کا سبب بنتی ہیں ۔ ماہرین حیاتیات اور نفسیات کے توسط سے جو تحقیقات عمل ميں آئی ہيں ان سے اس حقیقت کی غمازی ہوتی ہے کہ بعض ایسی جسمانی اور نفسیاتی ضروریات ہیں جو تمام افراد کے لئے ضروری اور بنیادی ہیں۔ اوران ضروریات کی تکمیل یا عدم تکمیل کے ، انسان کے جسم اور نفسیات پر بہت زیادہ اثر مرتب ہوتے ہيں ۔ البتہ یہ ضروریات ، بچپن اور بڑھاپے کے دور ، اسی طرح افراد کی فعالیت کے اعتبار سے ہر زمانے ميں مختلف ہوتی ہیں ۔ لیکن کہا جا سکتاہے کہ تمام افراد ان ضروریات کو ہر دور میں اپنے لئے ضروری سمجھتے ہیں اور ان کی تکمیل کے لئے وہ اپنی بھرپور کوشش بروئے کار لاتے ہیں ۔
انسان کے کمال کی راہ ميں ایک بنیادی راستہ، سماجی تعلقات ہیں ۔ اور ان ہی تعلقات کے ذریعے انسانوں کی بہت سی ضروریات کی تکمیل اور اس کی صلاحیتوں اوراستعدادوں کا رشدو نمو عمل میں آتاہے ۔ فرد کا اس نظام کے خالق ، رہبران الہی اور تمام انسانی معاشرے سے رابطہ ، انسان کی نفسیات کے صحت مند رہنے میں اہم کردار کا حامل ہے ۔ انسان کے بعض سماجی تعلقات ، دوستوں اور رشتہ داروں کی ملاقات سے مربوط ہیں ۔
اپنے اعزہ و اقارب اور رشتہ داروں سے رابطے کو، تمام آسمانی ادیان اور سماجی نظریات میں اہم بتایاگیا ہے اور اسلام میں اسے صلۂ رحم سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کی ضرورت پر ، متعدد آيات و روایات میں تاکید کی گئی ہے ۔ پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں : میں اپنی امت کے حاضر اور غائب افراد کو اور وہ جو اپنے والد کی صلبوں اور ماؤں کے رحموں ميں قیامت تک آتے رہیں گے ان سب کو یہ تلقین کرتاہوں کہ وہ صلۂ رحم کریں اگرچہ ایک سال کا فاصلہ کیوں نہ ہو کیوں کہ صلۂ رحم دین کا جزء ہے ۔
اسلام محبت اور دوستی کا دین ہے اور قرآن اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی احادیث میں ، ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کرنے خاص طور پر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ اپنے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی کرنا ، ایک ضروری امر ہے البتہ اس کی بھی مختلف قسمیں ہیں اور صرف ان کے گھر جانا ہی نیکی نہیں ہے بلکہ ان کی مالی و فکری مدد یا جذباتی و ذہنی طور پر حمایت کرنے کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے کے اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کی عمر میں اضافہ ہوتا ہے ۔ حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں عمر میں اضافے کے لئے صلۂ رحم سے بہتر کوئي اور چیز نہیں ہے ( کافی ، ج2 ص 152)
آج کا انسان ، مادیات میں غرق ہونے اور دنیا سے دل وابستہ کرنے کے سبب دن بدن تنہا ہوتا جارہا ہے اور اپنے آرام و سکون سے ہاتھ دھو رہا ہے ۔ اور نفسیاتی بیماریوں میں اضافے کی ایک وجہ بھی یہی ہے ۔ حققیت ميں جو چیز زندگي میں شادابی اور رونق لاتی ہے وہ ملاقات ہے چاہے وہ دوستوں سے ہو یا اپنے عزیز و اقارب سے ۔ خاص طور پر اگر ملاقاتوں میں دلنشيں گفتگو یا دلچسپ و شیریں یادگاری واقعات بیان کئے جائيں اور یا پھر مشکلات کے حل کی راہ میں کوئی ہم آہنگي یا تفاق رائے ہو جائے تو اس ملاقات کے بہت سے فوائد نکلتے ہیں ۔ اپنے دینی بھائيوں سے ملاقات پر اسلام ميں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کیوں کہ اس سے کدورتیں اور کینے ختم ہوجاتے ہیں انسان میں فرحت و نشاط پیدا ہوتا ہے اور خدا بھی راضی ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کی متعدد آيات میں اپنے اعزہ و اقارب اور دینی برادران کے ساتھ رابطے قائم کرنے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اس رابطے کی کیفیت کو بیان کیا گيا ہے مثال کےطور پر انفاق کی آيات ميں ، رشتہ داروں اور اقربا تک رسائی کو دوسروں پر مقدم کیا گیا ہے اور پھر یتیم و مسکین و فقیر اور غربت زدہ مسافروں کا نام لیا گيا ہے ۔ مثال کے طور پر سورۂ بقرہ کی آیت 177 کے ایک حصے میں خداوند عالم فرماتا ہے : نیکی اس شخص کا حصہ ہے جو اللہ ، آخرت ، ملائکہ ، کتاب اور انبیاء پر ایمان لائے اورمحبت خدا میں قرابتداروں ، یتیموں ، مسکینوں ، غربت زدہ مسافروں ، سوال کرنے والوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے مال دے ۔
قرآن نے اسی طرح سورۂ بقرہ کی آیت 27 میں صلۂ رحم منقطع کرنے کے بارے میں فرمایاہے ، فاسق وہ ہیں جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ہیں اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقت میں خسارے والے ہیں ۔ خداوند عالم اس آیت میں فاسقوں کی ایک علامت یہ بتاتا ہے کہ جو عہد خدا نے جوڑنے کا حکم دیاہے اسے توڑ دیتے ہیں ۔ اگرچہ بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت صلۂ رحم منقطع کرنے اور اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے سے مربوط ہے لیکن اس آیت کے مفہوم میں دقت اور غور کرنے سے یہ واضح ہوتاہےکہ اس کا مفہوم بہت وسیع اور عام ہے اور صلۂ رحم منقطع کرنا اس کا ایک مصداق ہے ۔ کیوں کہ اس آيت میں کہا گيا ہے کہ فاسق ایسے عہد کو جسے خدا نے برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اسے توڑ دیتے ہیں ۔
صلۂ رحم کی اہمیت یہاں تک ہے کہ خداوند عالم نے قرآن میں قطع تعلق کرنے والوں کو مورد لعنت قرار دیا ہے ۔سورۂ محمد کی 22 ویں اور 23 ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے پس اگر تم نے احکام الہی سے روگردانی کرلی تو کیا تم سے اس کے سوا کوئی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ تم زمین پر فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنادیا ہے ۔ پیغمبر اسلام ۖ بھی صلۂ رحم کی اہمیت کے بارے میں فرماتےہیں اپنے اعزہ و اقارب سے رابطہ اور تعلق قائم رکھنے سے شہر آباد ہوتے اور عمروں میں اضافہ ہوتا ہے اگرچہ اس کے انجام دینے والے نیک افراد نہ ہوں ۔
اہل پیغمبر کی احادیث میں صلۂ رحم پر تاکید کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر حضرت امام صادق علیہ السلام نےاپنے اصحاب سے سفارش کی کہ ایک دوسرے کی ملاقات کو جایا کرو اور ہمارے امر کو یاد کرو اور اسے زندہ رکھو ۔ صلۂ رحم کی اس حد تک اہمیت ہے کہ اس کا انجام دینے والا قیامت میں فرشتوں کے استقبال اور ان کے سلام اور عاقبت بخیر ہونے کا مصداق قرار پائیگا جب کہ صلۂ رحم منقطع کرنے والا لعنت ، برے انجام اور نجات پانے سے محروم رہیگا ۔ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں جو کوئی بھی صرف خدا کے لئے اپنے برادر مومن کی ملاقات کو جائے ، خداوند عالم اس کے گھر سے نکلنے کے وقت سے گھر واپسی تک ، ستر ہزار فرشتے معین کرتا ہے جو سب سب کے ندا دیتے ہیں کہ ہمیشہ پاکیزہ اور خوش رہو اوروہ جنت تمہیں مبارک ہو جس میں تمہیں جگہ ملی ہے ۔ اس فرمائش کے مطابق اہم ترین چیز جو سماجی رویوں خاص طور پر عزیزو اقارب سے ملاقات کرنے میں محوریت اور مرکزیت رکھتی ہے ، پروردگار کے احکام پر توجہ ہے ۔ یعنی اس کام کے عبادت ہونے پر توجہ ، کہ جس کی قرآن کریم اور کلام معصومین علیھم السلام میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔
رشتہ داروں سے ملاقات کے علاوہ کہ جس پر بہت توجہ دی گئی ہے ان کی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کو بھی مد نظر قرار دیا جائے ۔ اگر اسلامی دستورات کے مطابق عمل ہو تو اس میں عزیز و اقارب کی آبرو کی حفاظت کے ساتھ ان کی معاشی مشکلات کے حل ہونے کے ساتھ دیگر عظیم معنوی فوائد ہیں ۔ عزیز واقارب کی مشکلات کا حل ، صلۂ رحم پر مومنین کی توجہ دینے میں ہے لیکن اگر اس کی مشکل حل نہ کرسکے تو اس کی دلجوئی اور اس کے ساتھ ہمدلی کو فراموش نہ کرے اس لئے خدا کے نظام میں اپنوں کے لئے رنجیدہ خاطر ہونے کی بھی بہت منزلت ہے ۔ پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا صلۂ رحم کرو اگر چہ پانی کاشربت ہی کیوں نہ ہو اور صلۂ رحم کا برترین مرحلہ اس کوآزارو اذیت دینے سے اجتناب کرنا ہے ۔ اسی طرح ایک اور مقام پر پیغمبر اکرم (ص) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا دنیا میں صلۂرحم کرو اگرچہ ایک سلام سے ہی کیوں نہ ہو ( بحارالا نوار ج 74 ص 103 )
تاریخ میں صلۂ رحم کی اہمیت میں متعدد داستانیں ، پیغمبران الہی کی موجود ہیں ان میں سے ایک حضرت ابراہیم (ع) کی داستان ہے چنانچہ آپ کے بارے میں آيا ہےکہ آنحضرت مہمان نوازی ميں بے مثال تھے اس طرح سے کہ مہمان کا انتظار کرتے اور مہمان کے آنے سے قبل کھانا منھ کو نہيں لگاتے تھے یہاں تک کہ بسا اوقات ایک رات و دن گذر جاتے اور کوئی مہمان نہيں آتا تھا ۔گھر سے باہر جاتے تاکہ کوئي مہمان ڈھونڈھیں ایک دن آپ نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو بت پرست تھا تو اپنے آپ سے کہنے لگے اگر مومن ہوتا تو اسے میں اپنا مہمان بنا لیتا ۔ بوڑھا شخص وہاں سے گذر گیا اس وقت جبرئيل امین نازل ہوئے اور کہا اے ابراہیم ، خدا آپ پر درودو سلام بھیجتاہے اور فرماتاہے یہ ستر سالہ بوڑھابت پرست تھا میں نے اسکا ایک دن کا رزق کم نہيں رکھا ہے لیکن ایک دن کا اس کا رزق آپ پر چھوڑ دیا تھا لیکن آپ نے اس پر بیگانہ کا الزام لگا کر اسے کھانا کھلانےسے باز رکھا ۔ ابراہیم (ع) اس بوڑھے شخص کے پیچھے گئے تاکہ اسے سب کچھ بتائیں ۔ بوڑھے شخص نے کہا ایسے خدا کی نافرمانی کرنا جوانمردی سے دور ہے اور اس نے آنحضرت کے دین کو قبول کرلیا ۔