صبر کہتے ہیں جو کام مرضی کے خلاف ہوں، ان پر ناجائزعمل سے خود کو روک لینا۔ جس طرح صبح سے شام تک بے شمار کام ہماری مرضی کے مطابق ہوتے ہیں، اسی طرح بہت سے کام مرضی کے خلاف بھی ہوتے ہیں، مثلاً بس اسٹاپ پر پہنچے اور بس نکل گئی۔ غرض مرضی کے خلاف چھوٹا واقعہ ہو یا بڑا، اس میں اللہ پر نظر رکھیں اور خود کو آپے سے باہر نہ ہونے دیں، یہ صبر ہے اور اس میں قلب کا بہت اہم عمل ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کی قوت ایمانی کی آزمائش ہوتی ہے۔
زندگی میں روزانہ، دن رات نہ جانے کتنی باتیں ایسی ہوتی رہتی ہیں جو ہمیں ناگوار اور نفس پریشانی یا موت کا صدمہ لاحق ہوتاہے یا مال یا منصب کے نقصان کا رنج ہوتا ہے، غرض ہر ایسی بات جو قلبی سکون وعافیت کو درہم برہم کرنے والی ہو صبر آزما ہوتی ہے، لیکن چوں کہ غیر اختیاری ہوتی ہے، لہٰذا اس کے منجانب اللہ ہونے کا عقیدہ رکھنا واجب ہے، کیوں کہ اس میں بہت سی حکمتیں اور رحمتیں شامل ہوتی ہیں ، ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ نے خود اپنے فضل وکرم سے اطمینان قلب کے لیے بڑا مفید و موثر علاج یہ تلقین فرمایا: {انا للہ وانا الیہ راجعون} پڑھا جائے، اس سے سکون اور برداشت کی قوت پیدا ہوتی ہے، غرض کوئی کام بھی جو مرضی کے خلاف پیش آجائے، کوئی بڑا صدمہ ہو یا معمولی ناگواری اس پر {انا للہ وانا الیہ راجعون} پڑھنے سے اسی قدر ثواب ملتا ہے، جتنا کہ واقعے کے وقت ہے۔ "انا للہ" صرف انتقال کے ساتھ نہیں ہمارے معاشرے میں یہ تصور رائج ہے کہ "انا للہ" کا کلمہ صرف اسی وقت پڑھاجاتاہے جب کسی کا انتقال ہوجائے، اس کلمے کو صرف انتقال کے ساتھ خاص کرلینا درست نہیں۔ روایات میں آتاہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلى الله عليه و سلم کے سامنے ایک چراغ جلتے جلتے بجھ گیا تو آپ صلى الله عليه و سلم نے "اناللہ وانا الیہ راجعون" پڑھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضى الله عنها نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلى الله عليه و سلم! کیا یہ بھی مصیبت ہے؟ فرمایا: ہاں! جس چیز سے مسلمان کو تکلیف ہو وہ مصیبت ہے اور اس پر ثواب کا وعدہ ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: مسلمان کو جو ایک کانٹا چبھتا ہے، اس سے بھی اس کا ثواب ملتاہے۔ ایک اور حدیث میں ہے: مومن ہر حالت میں کامیاب ہے، اس لیے کہ کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو صبر کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو صابر وشاکر بندہ بہت پسندہے۔
ملانصرالدین کی ایک بات یاد آگئی ، یہ وہی ہیں جن کے لطائف بہت مشہور ہیں۔ ملاجی کے بارے میں آتا ہے کہ بہت خوب صورت تھے اور بیوی بہت بدصورت۔ ایک مرتبہ اپنی بیوی سے کہنے لگے: بیگم! تم بھی جنتی ہو اور میں بھی جنتی۔ بیوی نے پوچھا، وہ کیسے؟ ملاجی نے جواب دیا: اس لیے کہ جب تم مجھے دیکتھی ہو تو اللہ کا شکر ادا کرتی ہو کہ کتنا خوب صورت شوہر ملا میں تمہیں دیکھتاہوں تو صبر کرتاہوں اور صابر و شاکر دونوں جنتی ہیں۔
*صابر پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔ غرض ہر چھوٹی بڑی ناگوار چیز پر صبر کرنا چاہیے اور "اناللہ وانا الیہ راجعون" کہنا چاہیے، کیونکہ صبر سے اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ یقینا ًاللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورہ البقرہ) اور جسے اللہ کی معیت نصیب ہوجائے پھر کون اس کا بال بیکا کرسکتا ہے؟ جولوگ مصیبت یا تکلیف وناگواری کے موقع پر "اناللہ" پڑھتے ہیں تو قرآن کہتا ہے: ایسے لوگوں پر ان کے رب کی عام رحمتیں بھی اترتی ہیں اور خاص رحمت بھی انہیں ملتی ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔(سورۃ البقرہ)
خلاصہ یہ کہ صبر کے موقع پر یہ کلمہ پڑھنے سے واضح طور پر محسوس ہوگا کہ رحمت خداوندی شامل حال ہے، بندہ ان چار اعمال کی عادت ڈال لے تو چند دنوں میں محسوس ہوگا کہ کسی نے رحمت کا ہاتھ اس کے دل پر رکھا ہوا ہے اور کوئی پشت پناہی کررہاہے جس سے تنہائی دور ہوگی اور زندگی میں لطف آنے لگے گا۔ اس عمل سے زندگی میں استقامت اور ضبط وتحمل کا وقار پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی رہنے کی توفیق ہوجاتی ہے، جو بندگی کا بہت اعلیٰ مقام ہے۔ صبر کرنے والوں میں کسی سے اپنی ذات کے لیے غصے اور انتقام کے جذبات پیدا نہیں ہوتے یا پیدا ہوں تو جلد ختم ہوجاتے ہیں، ان جذبات پر عمل کرنے سے آدمی بچار ہتاہے۔
*توبہ واستغفار: تیسرا عمل استغفار ہے اور اس میں بھی جان ومال یا دقت کچھ خرچ نہیں ہوتا، جب بھی کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ سرزد ہوجائے تو نادم ہوکر کہہ دیا "استغفراللہ" یعنی اے اللہ! میں معافی مانگتا ہوں۔
جب حضرت آدم عليه السلام کو دنیا میں بھیجا جانے لگا تو ان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی شیطان یہ چیلنج کرکے آیاتھا کہ یااللہ ! میں تیرے بندون کو گمراہ کردوں گا اور جہنم تک پہنچا کر چھوڑوں گا (کیونکہ انسان میرا حریف ہے، جس کی وجہ سے میں اونچے مقام سے معزول ہوا ہوں) حضرت آدم عليه السلام نے عرض کیا: "اے اللہ آپ نے میرے دشمن شیطان کو اتنی طاقت دے کر بھیجا ہے کہ جتنی طاقت میرے اور میری اولاد کے پاس بھی نہیں ہے، یہ مختلف شکلیں اختیار کرسکتا ہے اور یہ ایسے طریقے سے آسکتاہے کہ ہم اسے نہ دیکھ سکیں گے، مگر یہ ہمیں دیکھ سکتا ہے، یہ جن ہے، ہم انسان ہیں، ہماری اور اس کی خاصیتوں میں فرق ہے یہ تو ہمیں جہنم تک دھکیل دے گا۔" اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم عليه السلام! بے شک ہم نے اسے بے پناہ قوتیں دے رکھی ہیں، لیکن اس کی قوتوں سے مقابلہ کرنے کا ایک ہتھیار تمہیں دیتے ہیں، جب تک اس ہتھیار کو استعمال کرتے رہوگے تو شیطان کو کوئی حملہ کارگر نہیں ہوگا اور اس ہتھیار کا نام "استغفار" ہے۔ جب کبھی گناہ ہوجایا کرے تو دل سے استغفراللہ کہہ دیا کرو۔
استغفار سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، جو لوگ استغفار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نہیں بھیجتا، چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ لوگوں کو عذاب نہیں دیتا جب کہ وہ استغفار کرتے ہوں۔(سورۃ الانفال)
اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلون میں گناہ کے جذبات بھی رکھے ہیں اور گناہ میں لذتیں بھی رکھی ہیں، گناہ سے بچنا آسان نہیں، آدمی بے اختیار ان کی طرف لپکتاہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت واسعہ سے ایسے کشادہ دروازے کھول رکھے ہیں کہ اگر ہم سے گناہ سرزد ہوجائے تو بس ندامت کے ساتھ سچے دل سے توبہ استغفار کرلیں معاف ہوجائے گا۔
حضور اکرم صلى الله عليه و سلم کا ارشاد ہے: "توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔" (ابن ماجہ)
گناہ پر ہر مرتبہ توبہ کرلیں، اگر ایک مرتبہ گناہ ہوگیا، توبہ کرلی، پھر دوبارہ وہی گناہ ہوگیا تو پھر دوبارہ وہی گناہ ہوگیا تو پھر توبہ کرلیں، اللہ تعالیٰ پھر معاف فرما دیں گے، یہاں تک کہ اگر ایک ہی گناہ ستر مرتبہ بھی کیا جائے اور ہر مرتبہ توبہ کرلی جائے تو وہ ہر بار معاف ہوجائے گا، کیوں کہ توبہ کے دوازے کھلے ہوئے ہیں، لہٰذا اگر ہزار مرتبہ بھی توبہ ٹوٹ جائے تو پھر جوڑلو، وہ رحیم و کریم ہزار مرتبہ بھی معاف فرما دے گا۔
توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ ہرگناہ معاف ہوجاتاہے، البتہ بندوں کے حقوق صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے، جب تک کہ حق دار معاف نہ کرے یا اس کا حق ادانہ کردیا جائے۔
استغفار کے بہت سے فائدے ہیں، استغفار عبادت بھی ہے، گناہوں سے معافی کا ذریعہ بھی اور قرب خداوندی کا ذریعہ بھی۔ جب بار بار استغفار ہوگی، رفتہ رفتہ گناہ کرتے ہوئے شرم آنے لگے گی اور رحمت خداوندی کی وسعت کا اندازہ ہوگا کہ میں کتنے گناہ کررہاہوں اور وہ پروردگار کس قدر نواز رہا ہے، جس کے دل میں ہر وقت اپنی غلطیوں کا احساس اور جرائم پر ندامت ہو اس کے دل میں کبھی بھی کبر اور بڑائی پیدا نہیں ہوگی اور نہ ہی تقویٰ کا غرور پیدا ہوگا، کیوں کہ جتنی عبادات کی ہوں گی اس سے زیادہ اپنے گناہ یاد آئیں گے۔