بہت سے لوگ فطرت کی رعنائیوں سے آشنائی کے لئے کوہ پیمائی اور مسافرت میں پر جاتے ہیں اور کبھی خود کو بہت زیادہ زحمت میں ڈالتے ہیں ۔ لیکن ان گردشوں اور سیرو سیاحت سے زيادہ اہم ، اپنے باطن کی سیر اور اپنے وجود کے اسرار و رموز سے آشنا ہونا ہے کہ جسے دنیا کے رازوں سے آشنائي کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ چنانچہ خدا وند عالم سورۂ ذاریات کی آيات 20 اور 21 ارشاد فرماتا ہے ۔ اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں پائي جاتی ہیں ۔ اورخود تمہارے اندر بھی ، کیا تم نہيں دیکھ رہے ہو ؟ اس بناء پر دنیا کی معرفت کےساتھ ہی ایک اہم ترین معرفت ، اپنی معرفت ، یا وہی خود شناسی ہے ۔
خودشناسی ، خداشناسی کامقدمہ ہے ۔ جیسا کہ حضرت امام علی (ع) فرماتے ہیں "حیرت ہے اس شخص پر، جو خود کو نہیں پہچانتا، بھلا وہ اپنے پروردگار کو کیسے پہچانے گا ۔ اس اعتبار سے کہ انسان کی فطرت خدا کی معرفت سے وابستہ ہے ، خود شناسی کی دعوت بھی درحقیقت خدا شناسی اور خدا سے مربوط ہے ۔ چنانچہ امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) اس سلسلے میں فرماتے ہیں "خدایا تونے ہی ہمارے دلوں کو اپنی محبت سے ، اور عقلوں کو اپنی معرفت سے آراستہ کیا ہے " درحقیقت خود شناسی ، خدا کی شناخت اور محبت کا باعث ہے کیوں کہ انسان کا وجود خدا کے وجود سے وابستہ ہے اور ایسی مخلوق اپنی ہی خلقت کا سبب نہیں بن سکتی ۔ اس بناء پر جب انسان میں خود شناسی پیدا ہوجاتی ہے تو اس وقت اسے خدا سے اپنی وابستگي کااحساس ہونے لگتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں سورۂ فاطر کی آیت 15 ميں ارشاد ہوتا ہے " اے لوگوں تم خدا کے محتاج ہو اور خدا بے نیاز اور منزہ ہے ۔"
اگر آدمی ہرچیز سے قبل خود کو پہچان لے تو بہتر طور پر اپنے وجود کے سرمائے سے استفادہ کرسکتا ہے اور ان ميں نشو و نما پیدا ہوسکتی ہے کیوں کہ خود شناسی کا نقطۂ آغاز ، انسان کے وجود کے سرمائے سے آگاہی ہے ۔ انسان شناخت و معرفت کے ذریعے نور اور روشنی کے دریچوں کو اپنے لئے وا کرتا ہے اور خودشناسی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو برطرف کرکے عظیم ترین نجات کے راستے کو حاصل کرلیتا ہے ۔ اسی بناء پر حضرت علی (ع) فرماتے ہیں جس شخص نے اپنے نفس کے خلاف جہاد کیا اس نے اپنے نفس کی شناخت حاصل کرلی اور جس نے شناخت حاصل نہ کی اس نے خود کو اپنے ہی حال پر چھوڑ دیا ۔اس بناء پر جو خود کو نہ پہچانے، وہ اپنی پوزیشن اور وہ چیز جو کمال یا اس کی تباہی کا سبب قرار پاتی ہے ، اس کی تشخيص نہیں دے سکے گا اور ایسا انسان فطری طور پر خود کو رفتہ رفتہ شیطان اور نفسانی خواہشات کا غلام بنا لیتا ہے اور شیطانی لذتیں ، عقلی و منطقی لذتوں کی جگہ لے لیتی ہیں اور عملی طور پر وہ غیر خدا کی پرستش کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے ۔ اسی سلسلے میں بہت زیادہ تعداد میں حضرت علی (ع) کے حکیمانہ ارشادات ملتے ہیں جیسا کہ آپ فرماتے ہیں عارف وہ شخص ہے جو خود کو پہچانے اور اپنے آپ کو شیطانی وسوسوں اور بندشوں سے رہائي دلائے اور وہ چیز جو اسے خدا سے دور کردے اور اس کی ہلاکت کا سبب بنے اس سے خود کو منزہ بنائے ۔
انسان خود شناسی کے ذریعے کرامت نفس اور اس عظیم خلقت الہی کے بارے میں ادراک حاصل کرتا ہے اور اس بات کو درک کرلیتا ہے کہ اس گوہر گرانبہا کو آسانی سے نہیں کھوناچاہئے ۔ خود شناسی کے بارے میں اسلام کی تاکید یہ ہے کہ انسان جیسا کہ ہے خود کو پہچان لے اور اپنے مقام ومنزلت کو عالم وجود میں درک کرے ۔ اس شناخت کا مقصد یہ ہےکہ انسان خود کو اس اعلی مقام تک پہنچائے کہ جو اس کے لئے شائستہ ہے ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) بہت سے حکیمانہ ارشاد میں فرماتے ہيں " جو شخص اپنی عزت نفس کا صحیح ادراک کرلے تو اسی قدر خودکو اس ميں مصروف کردیتا ہے اور تمام دنیوی اور مادی لذتیں اس کی نظر ميں بے اہمیت ہوجاتی ہیں " ایسا شخص اس بات پر تیار نہیں ہوتا کہ اپنے وجود اور اپنے وجود کے اقدار کا، دنیا کے معمولی مقام و منصب اور مال ومنال سے سودا کرے ۔ صرف وہی افراد خود کو اخلاقی برائیوں میں آلودہ کرتے اور اپنی پاکیزہ روح کو تباہی سے دوچار کرتے ہيں کہ جو اس کی عظمت سے بے خبر ہوتے ہيں ۔
اسلام انسان کو ایسی مخلوق قرار دیتا ہے جو جسم اور مادی بدن کے علاوہ ، غیر مادی روح کا بھی حامل ہے ۔ درحقیقت انسان کی اصل اور بنیاد اس کی روح ہے اور بدن ، صرف انسان کی ترقی وکمال کے لئے ، وسیلے کے طور پر روح کو عطا کیا گيا ہے کبھی انسان ، غفلت کی بناء پر اپنی حققیت سے ، جو روح ہے توجہ موڑکر ، جسم اور اس کی ضروریات اور خواہشات کی طرف کھینچا چلا جاتاہے اور یہی غفلت انسان کے حقیقی کمال تک رسائی میں مانع ہوتی ہے کیوں کہ انسان جب تک خواب غفلت میں رہتا ہے وہ کمال کی جانب قدم نہيں بڑھا سکتا ۔ حضرت علی (ع) ایک روایت میں اس مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے نفس اور اپنی ذات سے جاہل اور لاعلم مت رہو اس لئے کہ جو اپنے نفس سے جاہل ہے وہ درحقیقت تمام چیزوں سے جاہل ہے ۔ حضرت علی(ع) خود شناسی کی توصیف میں ایک اور مقام پر فرماتے ہیں
رحم اللہ امرء علم من این؟ وفی این؟ والی این؟
”خدا اس پر رحمت کرے جو یہ جان لے کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ وہ کہاں ہے؟ اور کہاں جا رہا ہے؟“
اس طرح کی ”خود شناسی“ انسان میں ایک لطیف ترین اور باعظمت ترین درد پیدا کرتی ہے‘ جو اس کائنات کی دوسری ذی روح چیزوں میں نہیں پایا جاتا اور وہ درد ہے ”حقیقت رکھنے“ کا درد اور یہی وہ خود شناسی ہے جو ان کو حقیقت کا پیاسا اور یقین کا متلاشی بناتی ہے‘ شک و تردد کی آگ اس کی روح میں روشن کرتی اور اس کو ادھر سے ادھر کھینچتی ہے ۔