حضرت فاطمہ زہرا(ع) کے وجود مبارک سے بہت سی دعائیں نقل ہوئی ہیں جنھیں صحیفۂ فاطمیہ کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔
کے وجود مبارک سے یہ فقرے ملتے ہیں:"اللہم انی اسئلک الہدی و التقی و العفاف و الغنی و العمل بما تحب و ترضی" پروردگارا ! میں تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت اور بے نیازی طلب کرتی ہوں اور جس چیز کو تو پسند کرتا ہے اس پر عمل کرنے کی توفیق چاہتی ہوں۔
آیۃ اللہ جوادی آملي نے بی بی سے منسوب، دعا کی مختصر سی شرح بیان کرتے ہوۓ فرمایا: صحیفۂ فاطمیہ میں حضرت فاطمہ زہرا
خداۓ سبحان نے ابتدائی ہدایت ہر انسان کو عطا کی ہے، کیونکہ سورہ مبارکہ بقرہ میں ارشاد ہورہا ہے:" شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ" لیکن جس ہدایت کا تقاضا خداوند سے حضرت فاطمہ زہرا(ع) کر رہی ہیں، وہ ہدایت جزائی اور انعامی ہے یعنی خدایا ! تو ہمیں خاص جذبہ اورتوفیق مرحمت فرما تاکہ ہم تیری ارشادات سے عملی اور علمی طور پر استفادہ کرسکیں اور ہمیں تقوی نصیب کر تاکہ کسی مشکل سے دوچار نہ ہوں۔
مختلف دینی و دنیاوی کتابوں میں اس معرفتی راستے کی نشاندہی کی گئی ہے کہ " من فقد حسا، فقد فقد علما" یعنی اگر کوئی شخص کسی ایک قوت حسّی کھو بیٹھے تو وہ اس راہ سے حاصل ہونے والے تمام علوم سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ لیکن دین اس بات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، باب معرفت میں ایک دوسری نکتہ بھی بیان کرتا ہے کہ "من فقد تقوی فقد فقد علما" اگر کسی سے تقوی کا کوئی خاص پہلو چھوٹ گیا تو وہ اس راستے سے حاصل ہونے والے تمام معارف اس کے ہاتھ سے نکل جائیں گے کیونکہ تقوی ایک باطنی حس کا نام ہے اور اس کی وساطت سے انسان بہت سی اشیاء کا ادراک کرتا ہے۔
ہمارے دینی معارف میں اگر آیا ہے " ان تتق اللہ یجعل لکم فرقانا" یا اس سے بڑھ کر فرمایا: " اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ" تو اس کا مطلب ہے کہ تقوی، طہارت روح اور آئینہ دل کی گرد صاف کرنے کا ذریعہ ہے اور اگر ہم نے اس آئینہ سے گرد صاف کر دی تو کائنات کے بہت سے اسرار و رموز اس پہ تاباں ہوں گے اور انسان عالم وآگاہ ہو جائیگا۔
اگر کوئی با تقوی ہوگا، تواپنے کسی بھی ذمہ دارانہ کام میں کبھی بھی مشکل سے دچار نہ ہوگا۔
معاشرے کی مشکلات کی ایک وجہ، عفت و پاکدامنی کا فقدان ہے، اسی لئے بی بی حضرت فاطمہ زہرا(ع) خدا سے عفت و پاکدامنی کی دعا کر رہی ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا(ع) سے منقول دعا میں لفظ " بے نیازی" کی تشریح کرتے ہوۓ بے نیازی دو طرح کی ہوتی ہے؛ ایک وقت انسان کسی بھی چیز کی کثرت اور بہتات کی وجہ سے بے نیاز ہوتا ہے، اس طرح کی بے نیازی محض خیالی ہے اور ایک وقت انسان کوثر کی وجہ سے بے نیاز ہوتا ہے کہ یہ واقعا بے نیازی ہے۔ آپ نے بتایا کہ بے نیازی کا مطلب، تونگری اورکثرت مال نہیں ہے۔ اور پھر اسی کےمتعلق امیر المؤمین (ع) کی روایت کی طرف کرتے ہوئے فرمایا: انسان دو طرح سے بے نیاز ہوتا ہے؛ کبھی مال سے بے نیاز ہوتا ہے اور کبھی مال کے ذریعے۔ اگر وہ تونگری کے لئے اس لئےکوشش کرے کہ وہ مال سے بے نیاز ہو سکے تو بہت سے مقامات تک پہنچ سکتا ہے لیکن اگر بے نیازی کے لئے مال کا سہارا لے تو وہ فراواں مشکلات سے دوچار ہوجائیگا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اکثر علماء کا تعلق پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقوں سے ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ مال و دولت سے بے نیاز ہونا، خدا والوں کا شیوہ ہے کیونکہ مال جہاں بہت بڑی نعمت ہے وہاں بہت بڑی مصیبت بھی ہے اور جو کوئی بھی کسی رفیع مقام تک پہنچا ہے وہ سادہ زیستی اور قناعت کی وجہ سے پہنچا ہے۔
حضرت علی(ع) کا ارشاد گرامی ہے: مال سے بے نیاز ہونا اس سے بہتر ہے کہ مال کے ذریعے بے نیاز ہوا جاۓ" قرآن کریم کے مفسر کبیر نے حضرت فاطمہ زہرا(ع)سے منقول دعا کی شرح کرتے ہوۓ بی بی کے اس جملے کو نقل کیا:" اللہم انی اسئلک من قوتک لضعفنا، و من غناک لفقرنا وفاقتنا، و من حلمک و علمک لجھلنا"۔ خدایا ! ہمیں اتنی قدرت عطا فرما کہ ہم اپنے ضعف کو تیری قدرت، اپنے فقر و فاقے اور اپنی نیازمندی کو تیری بے نیازی، اور اپنے جہل کو تیرے حلم و علم سے برطرف کر سکیں۔
موصوف نے اس بات پر زور دیا کہ علم کے مقابلے میں جہالت چندان مشکل ساز نہیں ہے لیکن عقل کے مقابلے میں جہالت، معاشرے کی سب سے بڑی مصیبت ہے کہ جسے اخلاق کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔
" اللھم صل علی محمد و آل محمد، و اعنّا علی شکرک و ذکرک، و طاعتک و عبادتک، برحمتک یا أرحم الراحمین"
نہج البلاغہ سے امیر المؤمین(ع) کے مکتوب نمبر۲۴ کی مختصر سی شرح
امیر المؤمین(ع)کا یہ خط در حقیقت وقف نامہ ہے جس میں آپ نے اپنے اموال کے متعلق وصیت کی تھی۔
ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ اس زمانے میں بعض صحابہ کے پاس بالکل مال نہیں تھا لیکن امیر المؤمین(ع)کے پاس بہت سی دولت تھی۔ توجواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ آنحضرت(ع) نے ۲۵ سال کی خانہ نشینی میں زراعت اور کسب رزق و معاش میں بہت محنت کی تھی جبکہ بالمقابل بعض صحابہ کسب معاش سے بے بہرہ تھے، ان افراد کی بے بضاعتی اور ناداری کی وجہ، خود ان کی سستی اور کاہلی ہے۔
امیر المؤمین(ع) نے اس وصیت میں فرمایا: میرا بڑا بیٹا حسن اس وقف نامے کا متولی ہے اور اگر خود اسے ضرورت ہو تو وہ ان اموال سے دیگر نیازمندوں کی طرح استفادہ کر سکتا ہے۔ اگر وہ رحلت کر جاۓ اور حسین زندہ رہے تو وہ اس وقف نامے کا نگران کار ہے اور میری وصیت پر اپنے بھائی کی طرح عمل کرے۔ فاطمہ(ع) کے بچے میرے دوسرے بچوں کی طرح اس صدقے میں حصے دار ہیں۔ اگر میں نے فاطمہ(ع) کے بچوںکو متولی بنایاہے تو وہ صرف خدا کی خشنودی اور رسولخدا(ص) کے تقرب کے لئے ہے۔
امیر المؤمین (ع) نے اپنے اموال کی حفاظت کےبارے میں فرمایا: اصل مال کو اسی طرح رہنے دیا جاۓ اور اس کے منافع سے استفادہ کیا جاۓ اور جب تک پورا باغ درختوں سے پر نہ ہو جاۓ اور درخت سرسبز اور ثمرآور نہ ہو جائیں، پودوں کو بیچنے سے گریز کیا جاۓ۔