کیا ہم اپنے اردگرد ضرورتمندوں کو دھتکارتے، یا انفاق کرکے بےعزت کرتے ہیں، یا نیکی کے اجتماعی منصوبوں میں معمولی رقم بڑے احسان کے ساتھ دیتے ہیں؟
اور کیا ایسے لوگ مومنین کو حقیر نہیں سمجھتے جو اجتماعی منصوبوں کے لئے اپنی انا کو قربان کرکے خدا کی راہ میں ہاتھ پھیلاتے ہیں؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا یہ فکر صحیح ہے یا اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کچھ اور ہی راہنمائی کرتی ہیں۔
خدا نے جو مال انسان کو دیا ہے اس کو خیر کے نام سے ذکر کیا ہے، اگر اس مال کا صحیح استعمال نہیں کیا تو یہ مال شر بن جاتا ہے۔
سورہ توبہ میں نبی سے ارشاد ہورہا ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیهِمْ بِها وَ صَلِّ عَلَیْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ (توبه/103)
انکے مال سے صدقہ لے لو تاکہ اسکے ذریعہ انہیں پاک کرو اور انکا تزکیہ کرو، اور ان کے لئے دعا کرو کیونکہ اے نبی آپکی دعا ان کے لئے سکون کا باعث ہوگی۔
لہذا صدقہ لینا حکم خدا ہے جو اللہ کی راہ میں صدقہ لیتا ہے وہ سنت نبی اور حکم خدا کی پیروی کرتا ہے۔
جو لوگ اپنے مال سے لوگوں کی مشکلات کو حل کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں انفاق کرتے ہیں وہ مما رزقناھم ینفقون کی آیت پر عمل کرکے مومن کی ایک صفت کو اپنی شخصیت کا حصہ بناتے ہیں۔
دوسری طرف اگر وہ جان لیں کہ خدا کی راہ میں لوگوں کی مشکلات کو اپنے مال سے حل کرنے کے نتیجہ میں انہیں کیا عطا ہوگا تو وہ جو جیب سے مال جاتا ہے اس سے انکو تکلیف نہیں اطمینان اور سکون حاصل ہو۔
مگر قرآن نہیں کہتا؟
سوره بقره (آیه 261) مَثَلُ الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَشَآءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ (٢٦١)
جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے۔ وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اِذٰا اَحْسَنُوا اسْتَبْشَرُوا
خدا کے منتخب بندے وہ ہیں جب وہ احسان کرتے ہیں تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔
سیرت معصومین علیھم السلام میں متعدد واقعات انفاق کے نقل ہوئے ہیں جو ہمارے لیئے مشعل ہدایت ہیں:
ایک دن امام جعفرصادق علیہ السلام نے اپنے فرزند سے پوچھا گھر میں خرچ سے کتنے دینار بچ گئے ہیں؟
بتایا چالیس دینار۔
امام نے حکم نے دیا یہ چالیس دینار انفاق کر آؤ
کہا : بابا گھر میں کچھ نہیں بچے گا
فرمایا: اسے صدقہ دے دو خدا اسکا بدلہ دے گا مگر تم بے نہیں سنا: ہر شی کی ایک چابی ہے اور رزق کی چابی صدقہ ہے۔
«اَمٰا عَلِمْتُ لِکُلِّ شَیْءٍ مِفْتاحٌ، مِفْتاحُ الرِّزْقِ صَدَقَةٌ
محمد نے اپنے والد گرامی کے حکم کی تعمیل کی دس دن نہیں گزرے تھے کہ کہیں سے چار ہزار دینار آگئے
امام نے فرمایا : بیٹا چالیس دینار خدا کی راہ میں دیئے خدا نے چار ہزار دینار لوٹادیئے۔
ہم سمجھتے ہیں دینے سے کم ہوتا ہے اسی لئے صدقہ دیتے وقت جان نکلتی ہے ، لیکن برعکس ہے صدقہ خدا سے تجارت ہے اور خدا اسکو بہترین منافع کے ساتھ لوٹاتا ہے۔
«وَ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَهُوَ یُخْلِفُهُ» (مبارکه سباء/39).
جو شی بھی تم نے انفاق کی خدا اسکا بدلہ عطا فرماتا ہے۔اور کیا خدا سے زیادہ اپنے وعدہ کو وفا کرنے والا کوئی اور ہے؟
«وَ مَنْ اَوْفیٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ» (مبارکه توبه/111).
اور خدا ہمیں دنیا اور آخرت کی بہترین تجارت کی طرف دعوت سے رہا ہے :
سوره صف (آیه 10) یَآ أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنْجِیكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ (١� )
مومنو! میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں عذاب الیم سے نجات دے(10)
تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَٰلِكُمْ خَیْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (١١)
(وہ یہ کہ) خدا پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لاؤ اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو۔ اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے(11)
اور فرمایا:
سوره فاطر (آیه 29) إِنَّ الَّذِینَ یَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَةً یَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ (٢٩)
جو لوگ خدا کی کتاب پڑھتے اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں وہ اس تجارت (کے فائدے) کے امیدوار ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہوگی(29)
تو ہم کس پر احسان جتاتے ہیں ؟ ان پر جو ہمیں اللہ سے تجارت کا موقعہ فراہم کرتے ہیں، اگر غور کریں تو احسان لینے والا کرتا ہے دینے والا نہیں ؟
خدا فرماتا ہے اپنے صدقات کو احسان جتا کر ضائع نہ کرو:
سوره بقره (آیه 264) یَآ أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِی یُنْفِقُ مَالَهُ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا یَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَیْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكَافِرِینَ (٢٦٤)
مومنو! اپنے صدقات (وخیرات)احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد نہ کردینا۔ جو لوگوں کو دکھاوے کے لئے مال خرچ کرتا ہے اور خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ تو اس (کے مال) کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اس پر زور کا مینہ برس کر اسے صاف کر ڈالے۔ (اسی طرح) یہ (ریاکار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اور خدا ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا (264)
لہذا خدا کے دیئے ہوئے مال پر غرور کرنا اور ضرورتمند کو حقیر سمجھنا سوائے اپنے نقصان کے اور کچھ نہیں ۔
خدا سے دعا ہے کہ ہمیں آئمہ علیھم السلام کے نقش قدم پر چلنے اور مال میں انفاق کی توفیق عطا فرمائے اور کنجوسی اور غرور جیسی مذموم صفات سے دور فرمائے ۔ آمین ۔
تحریر: سید ارتضی حسن رضوی